27/4/18




یہ کتاب کونسل کی موبائل ایپای کتابپربھی  دستیاب ہے،جسے ’پلے اسٹور‘ کی مدد سے موبائل پر انسٹال کر کے بآسانی پڑھا جاسکتا ہے ۔


صرف تمہارے لیے
مصنف: سمتیندرا ناڈِگ، مترجم:ماہر منصور
صفحات: 139، قیمت: 85 روپے، سنہ اشاعت: 2017
ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
مبصر: ماہ نور، ایف 33، شاہین باغ، جامعہ نگر، نئی دہلی
زیرتبصرہ کتاب کنڑ زبان کے مشہور و مقبول شاعر اور انگریزی زبان کے پروفیسر ڈاکٹر سُمتیندر اناڈگ کی خودنوشت منظوم سوانح حیات ’دام پیتا گیتا‘ ہے، جس کا راست منظوم اردو ترجمہ ’صرف تمہارے لیے‘ ماہر منصور نے کیا ہے جسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی نے شائع کیا ہے۔
بظاہر یہ ایک ترجمہ ہے لیکن دراصل یہ ایک کان ہے، واقعات کی، اقوالِ مشاہیر کی اور ان کے منبع و مخرج کی اور یہ ایک جیتی جاگتی مثال ہے ان کے روز و شب میں واقع ہونے والے خوشگوار و ناخوشگوار واقعات کی، جس کا مصنف/ شاعر نے کھلے دل سے اعتراف بھی کیا ہے۔ اس طویل منظوم سوانح میں استعارے، تکنیک اور کچھ سطریں رگ وید، اپنیشد، رامائن، مہابھارت، ہندوستانی یوگا، شاستر اور سنسکرت سے مستعار لی گئی ہیں۔
اس سوانح کی سب سے منفر د خصوصیت یہ ہے کہ ا س کا ایک ایک لفظ صداقت پر مبنی ہے اور ایک اچھی غزل کے ہر لفظ کی طرح جاندار،رسیلا اور بولتا ہوا ہے۔
عرض مترجم کے تحت ماہر منصور کے دعوے کی میں تصدیق کرتی ہوں جس میں وہ کہتے ہیں کہ ان کی نظر سے گزری ہوئی سوانح عمریوں میں کنڑ کے صاحب طرز مشہور شاعر پروفیسرسُمتیندر اناڈگ کی یہ سوانح عمری ’دام پیتا گیتا‘ منفرد خصوصیت کی حامل ہے۔ جس میں دلچسپ، غیرمعمولی واقعات زندگی کو ناڈگ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ کسی سرحد میں محدود نہ رہ کر ساری دنیا پر چھاجانے کے لیے کافی ہے۔
مترجم یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ جب انھیں اس ترجمے کی ذمہ داری دی گئی تو انھوں نے اسے خوشی خوشی قبول کیا اور جب اس سوانح کے چند اقتباسات مشہور شاعر، ادیب اور مترجم آنجہانی بلراج کومل (دہلی) کی موجودگی میں خود سمتیندرا ناڈگ کی زبانی نے تو اسی وقت ناڈگ صاحب نے اس کے ترجمے کی اجازت دی۔
اس منظوم سوانح کی مقبولیت کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک انگریزی، مراٹھی، بنگالی، تمل، تلگو، ہندی اور ملیالم وغیرہ زبانوں میں بھی اس کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں۔
قبل اس کے کہ کتاب پر گفتگو کی جائے مختصراً تعارف اس کنڑ کے عظیم شاعر کا کرا دینا مناسب ہے۔
ڈاکٹر سمتیندرا ناڈگ ریاست کرناٹک کے ضلع چکمگلور کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اس وقت پیدا ہوئے جب جنگ آزادی شباب پر تھی اور ملک میں آزادی حقیقت بننے ہی والی تھی، ایسے ماحول میں کنڑ زبان سے تعلیمی سفر شروع کرکے ناڈگ نے امریکہ کی ٹمپل یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کی اور 1960 میں جدید شاعر کی حیثیت سے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی۔ عرض مترجم کے بعد کتاب میں حرف آغاز  ہے جو دراصل کتاب کا پہلا باب ہے، حرف آغاز کے تحت ناڈگ نے اس وقت کے مشہور شعرا و دانشور کی فرمائش کے نتیجے میں اپنی ازدواجی زندگی پر مبنی ایک نغمہ پیش کیا ہے جسے شجاعت کے گیت سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کتاب کا پہلا باب ’جانِ من‘ ہے اور نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں بیان اس سکھی کا ہے جو ان کی سب سے قریبی دوست تھیں جسے شاعر اپنی شریک حیات بتاتے ہیں۔ ’جانِ من‘ کے تحت شاعر نے اپنی ازدواجی زندگی کی تاریخ ہی نقل کی ہے۔ اگلے باب میں شاعر اپنے بچپن کے حالات پر آئینہ دکھاتا نظر آتا ہے جس میں بچپن کے واقعات اور گاؤں کے وہ مناظر شاعری میں قید کیے ہیں جو پڑھنے سے ایک عینی مشاہدہ کرنے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ چونکہ یہ پوری تصنیف ایک سوانح ہے لہٰذا اس میں ان پہلوؤں سے بھی گفتگو کی گئی ہے جب شاعر پہلی بار اپنی بیوی سے ملاقات کرتا ہے یا جب وہ ایک عیسائی لڑکی سے ناکام محبت کی داستان پیش کرتا ہے پھر اگلے ہی پل وہ اپنی شادی اور ہنی مون کا ذکر کرتا ہے اور اپنے وہ منصوبے بھی بیان کرتا ہے جس میں وہ ایک تعلیمی ادراہ قائم کرنے کا خواب بھی دیکھتا ہے۔ الغرض بچے کی پیدائش، بیوی کا حسن سلوک ہر ایک عنوان کو شاعر نے اپنا موضوعِ شاعری بنایا ہے۔
لیکن سب سے اہم ہے مترجم ماہر منصور کی باریک بینی اور ترجمے کی فنی مہارت جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی اس کو شاعرنے آزاد نظم کے انداز میں اردو میں ہی ساری گفتگو کی ہے۔ دوران مطالعہ مجھے کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ کسی اور زبان سے ترجمہ ہے۔ ایک نظم بطور مثال پیش کرتا ہوں:
گاندھی جی کا جس دن قتل ہوا، وہ تو خیر اپنی جگہ
پر، اسی دن سے اپنے ضمیر کوٹٹولنا، میرا معمول بن گیا
انھوں نے اپنے ملک کی خاطر/اپنی ازدواجی زندگی کی خوشیوں کو قربان کردیا
اور کستوری جیسی کستوربا کی زندگی کو کھنگال کر/دیش کی نذر کردیا
سچ کہنے میں جھجک کیسی؟/شرمانا بھی نہیں چاہیے
مگر ایسا راستہ، پہاڑوں سے ہوکر آتا ہے/پیر پھسلا، تو گیا پاتال میں
اور میرے پاؤں لڑکھڑانے لگتے ہیں، جب بلندی سے نیچے دیکھتا ہوں
اپنی شریکِ حیات کے لیے ایک جگہ لکھتے ہیں:
اپنی ذات کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ تخلیق ہے
تم نے میری تخلیق کی اور میں نے تمہاری/اپنی تنہائیوں کو کھوکر
ہم دونوں/ایک جان دو قالب ہوگئے
مجھے قوی امید ہے کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی یہ پیش کش اردو حلقے میں خوب پذیرائی حاصل کرے گی، ویسے سوانح عمری کی اثر انگیزی باذوق قارئین کی محتاج ہوتی ہے اور یہ ایک ایسی سوانح ہے جس کے مطالعے سے دنیا کے گھنے جنگلات کے ساتھ ساتھ انسانی خوشبو بھی محسوس کی جائے گی۔


یہ تبصرہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے رسالے ’’اردو دنیا‘‘ کے   مارچ کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔  رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔



مکمل کتاب کے مطالعے  کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں:

قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں