25/9/19

نئے لفظی نظام کا شاعر: ناصر کاظمی مضمون نگار:محمد حنیف خان



نئے لفظی نظام کا شاعر: ناصر کاظمی
محمد حنیف خان

ادب کی بنیاد لفظی نظام پر ہے،یہ لفظی نظام جتنا چست اور درست ہو گا اسی اعتبار سے اعلیٰ درجہ کا ادب وجود میں آئے گا۔،جب رعایت لفظی کو ملحوظ رکھتے ہوئے لفظوں کا استعمال کیا جاتا ہے تو ادبی زبان وجود میں آتی ہے لیکن اگر ان کا محل استعمال،نشست و برخاست مناسب نہ ہوتو وہ ادب نہیں ہوگا اس کے علاوہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔یہ لفظی نظام بھی مرور زمانہ کے ساتھ بدلتا رہتا ہے جس کو ادب کی اصطلا ح میں ’اسلوب‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ولی دکنی سے لے کر قائم چاند پوری،میر تقی میر، غالب، ذوق،سودا،ناسخ، اقبال اور فراق تک کی شاعری پر اگرایک طائرانہ نظر ڈالیں تو گذران وقت کے ساتھ لفظی نظام میں ہو ئی تبدیلی کو بحسن و خوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔کسی بھی شاعر کا لفظی نظام اسی وقت نیا تصور کیا جائے گا جب اس نے زمانے سے الگ روش اختیار کرتے ہوئے لفظوں کا استعمال کیا ہو،ناصر کاظمی اس باب میں بالکل منفرد ہیں کیونکہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔انھوں نے ترقی پسندی جیسے پرشور دور میں ایک نیا انداز تکلم اختیار کیا۔ ناصر کاظمی کا اپنا لفظی نظام ہے جو دوسرے ہم عصر شعرا سے مختلف ہے،انھوں نے ترقی پسند دور میں غزلیہ شاعری کو ایک نیا لفظی نظام دیاجس نے حال کے رشتے کو ماضی سے جوڑ دیا، انھوں نے اپنے محسوسات کو بڑے سیدھے سادے انداز میں پیش کیا مگر اس میں جدت تھی جو دوسروں سے بالکل مختلف تھی پروفیسر ابوالکلام قاسمی رقمطراز ہیں:
”ناصر کاظمی کے زیراثر پروان چڑھنے والی فضا کوجدیدیت کے میلان سے وابستہ سمجھا گیا تھا حقیقت یہ ہے کہ اس فضا کا رشتہ ماضی قریب میں فراق سے ہو تا ہوا ماضی بعید میں میر تقی میر سے ملتا تھا “
(کثرت تعبیرص99 پروفیسر ابوالکلام قاسمی)
پروفیسر انیس اشفاق نے بھی یہی بات کہی ہے وہ کہتے ہیں کہ:
”ناصر کاظمی نے فراق کو وسیلہ بنا کر اس لہجے کے ذریعہ میر کی روایت کی تجدید کی اور غزل کو نیا مزاج عطا کیا “
(غزل کا نیا علامتی نظام ص27انیس اشفاق)
ناصر کاظمی کی غزل میں نہ صرف خدائے سخن میر تقی میر کے لہجے اور لفظیات کی بازگشت ہے بلکہ ان کی غزلیہ شاعری کا دھیما لہجہ پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔جس طرح میر نے دھیرے دھیرے دلوں کو گرمایا اور دل کو لہو بنا کر آنکھو ں سے ٹپکا یا۔ اسی طرح ناصر نے خود کو تپایا اور دوسروں کو محسوس کرایا۔مولانا حسرت موہانی کی شاعری بلا شبہ غزل کی نشاة ثانیہ ہے اور ناصر کاظمی اسی نئی غزل کے معمار ہیں حالانکہ نئی غزل کے معماروں میں وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ کئی اور شعرا ہیں جن میں خلیل الرحمن اعظمی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ابتدا میں خلیل الرحمن اعظمی پر بھی میر کا بہت اثر تھا مگر بعد میں انھوں نے خود کو میر کے سحر سے آزاد کر لیا لیکن ناصر کاظمی میر کے زیراثر لہجے میں غزل کو توانائی بخشتے رہے۔ناصر کاظمی نے لفظوں کو نئے انداز میں برتا جس کی وجہ سے وہ دوسروں سے مختلف ہوگئے وہ کہتے ہیں  
گھر میں اس شعلہ رو کے آتے ہی 
روشنی شمعدان سے اتری 
اڑ گئے شاخوں سے طیور 
اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے 
سفر شوق کے فرسنگ نہ پوچھ 
وقت بے قید مکاں تھا پہلے 
چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں 
جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا 
پھر سلگنے لگا صحرائے خیال
 ابر گھر کر کہیں بر سا ہو گا
اے گلستان شب کے چشم و چراغ 
کبھی اجڑے دلوں کے بن میں آ
دل ٹپکنے لگا ہے آنکھوں سے 
اب کسے رازداں کرے کوئی 
ان تمام اشعار میں کوئی نہ کوئی ندرت ہے جس نے ناصر کو دوسروں سے مختلف کیا،جن کی حقیقت ان کے تجزےے سے کھل کرسامنے آئے گی۔ پہلے شعر میں روشنی کا اترنا لفظی اعتبار سے سب سے اہم ہے۔ گھر میں روشنی ہو جا نا،کہیں کسی روزن سے روشنی آنا تو کو ئی نئی بات نہیں لیکن روشنی کے اترنے میں ضرور نئی بات ہے،اس شعر کی فضا بندی اور روشنی کی پیکر تراشی بالکل نئی ہے ناصر کاظمی نے بڑی ہنر مندی کے ساتھ شعلہ رو کے آتے ہی روشنی کو شمعدان سے اتاری ہے در اصل جب گھر روشن ہو تا ہے تو وہ ایک دم سے ہوجاتا ہے مگر جب کو ئی چیز اترتی ہے تو تدریج پائی جاتی ہے اور وہ دھیرے دھرے اپنے وجود کو منکشف کر تی ہے۔ یہاں اترنے والی روشنی میں قدوم پایا جاتا ہے اور تدریج اس کی نشانی ہے جو دھیرے دھیرے آئی اور گھر روشن ہو گیا۔ جہاں تک بات شمعدان کی ہے تو ظاہرسی بات ہے کہ جب گھر میں روشنی کی کرن نظر آئی تو شاعر کی نگاہ سب سے پہلے وہاں رکھی شمعدان کی طرف ہی گئی ہو اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ شاعر یہاں شمعدان سے شعلہ رو کو مراد لے رہاہو۔دوسرے شعر کی فضا بندی بالکل مختلف ہے انھوں نے ان علامات اور تلازمات کو ایک دوسرے سے دور کردیا جو ایک دوسرے کے بغیر نامکمل تصور کی جاتی ہیں جن کے بغیر کسی ایک کا بھی وجود کامل نہیں مانا جا سکتا۔ اس شعر میں گلستاں علامت ہے شاخ،طیور،اور ہوا اس کے تلازمات ہیں جن میں قرب پایا جاتا ہے اور ناصرنے لفظ ”زہر “جو نفرت اور نا پسندیدگی کی علامت ہے کا استعمال کرکے ان میں بعد پیدا کر دیا ہے۔علامت اور تلازمات کے قرب میں جو بعداور تنافر پیداہواہے وہ زمانے کی دین ہے اور اس کوناصرنے محسوس کیا ہے۔ تیسرے شعر میں انھوں نے وقت لا محدود کو محدود بتایا ہے ’بے قید مکاں ‘کہہ کرانھوں نے واضح کر دیا کہ اب اس میں بھی چہار دیواری کا وجود ہو گیا ہے۔چوتھے شعر میں تو انھوں نے اور عجیب بات کہی ہے، خوشی نہیں وہ وحشت میں چومنے کا عمل انجام دے رہے ہیں،چاند خوشی کی علامت ہے مگر ناصر نے ’چاند ‘اور ’وحشت ‘ کو یکجا کر کے اس کو بھی ڈر اور خوف کی علامت بنا دیا،دراصل یہاں احساس کی کارفرمائی ہے اوریہ وحشت حقیقت میں گھبراہٹ ہے۔چاند کو جو نئے معانی ملے وہ ناصر کے نئے لفظی نظام کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا ہے۔پانچویں شعر میں ناصرنے ’صحرائے خیال ‘کے سلگنے اور ابر برسنے کی بات کہی ہے۔ دراصل جب کہیں ابر برستا ہے تو اس سے مس ہو کر آنے والی ہواؤں میں خنکی پائی جاتی ہے جس کا اثر محسوس کیا جاتا ہے مگرشاعرکے صحرائے خیال کو جب محسوس ہو تا ہے کہ اس کا محبوب کہیں برس کر رقیبوں کو خوشی پہنچا رہا ہے تو وہ سلگنے لگتے ہیں،اور ان کا سلگنا بھی اس بات کی علامت ہے کہ محبوب خوش باشیوں میں مصروف ہے۔ناصر نے عاشق اور معشوق کے لیے ابر اور صحرا کی علامت استعمال کی ہے۔چھٹے شعر میں ناصر نے کئی علامتیں یکجا کی ہیں ’گلستان، ’‘ شب‘، ’دل ‘،’ بن‘وغیر ہ مگر انھوں نے گلستان اور شب کو مرکب استعمال کر کے ان دوعلامتوں کواکائی میں بدل کر نئے معانی دے دیے۔ ’گلستان شب‘ گلزار ابراہیم کے مترادف ہے جو تھی تو آگ مگر ان کے لیے وہ آگ بھی گلزار تھی بعینہ یہی حال یہاں شاعر کا ہے۔ ایسی تاریک زندگی کاوہ ذکر کر رہا ہے جو بے نور ہے جس میں صرف مایوسی اور تاریکی ہے، امید کی کوئی کر ن نہیں ہے مگر چشم و چراغ کی یاد کی وجہ سے کالی رات اس کے لیے گلستان کے مانند ہے مگر کسی کی کمی کا احساس ہے جس کو چشم و چراغ سے تعبیر کر رہا ہے یہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کا اپنا محبوب ہے جس کووہ بڑے درد و کرب کے ساتھ بلا رہا ہے اور یہ کہہ کر بلا رہا ہے کہ یہ زندگی اجڑے دلوں کاجنگل ہے، آجا تو اجڑا بن گلستاں میں تبدیل ہو جائے۔ شاعراپنی تاریک رات میں محبوب کی آمد سے حقیقی روشنی کا خواہاں ہے۔ساتویں شعر میں ناصر نے دل کو آنسوؤں کا استعارہ بنا دیا ہے،دل تو نہیں ٹپکتا مگر جب وہ کڑھتا ہے تو آنسوضرور ٹپکنے لگتے ہیں۔ ان آنسوؤں کا تعلق دل سے ہی ہے اگر دل میں ٹیس اور کسک نہ ہوتی تو یہ آنسو بھی نہ آتے اس لیے انھوں نے دل جو سبب ہے اس کو آنسوجو مسبب ہے کی جگہ استعمال کر دیا۔اس طرح انھوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ آنسو کی جگہ دل ٹپکا دیا۔مذکورہ بالا اشعار کے علاوہ بھی ناصر کے یہاں بہت سے اشعار ہیں جو نئے محسوسات پر دلالت کر نے کے ساتھ ہی اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ انھوں نے قدیم لفظیات سے نئی فضا سازی کی کوشش کی ہے مثلا 
ذرا گھر سے نکل کر دیکھ ناصر
چمن میں کس قدر پتے پڑے ہیں 
ہمارے گھرکی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے 
دل تو میرا اداس ہے ناصر 
شہر کیوں سائیں سائیں کر تا ہے 
ترے شہر کا اسٹیشن بھی 
میرے دل کی طرح سو نا تھا 
 ناصر کے محولہ بالاتمام اشعار جدیدمحسوسات سے لبریز ہیں۔چمن میں پتے پڑے ہونے کی بات کہہ کر شاعر نے واضح کردیا ہے کہ گھرمیں جانے سے قبل خزاں نے دستک نہیں دی تھی مگر اس قلیل وقفے میں اس نے اپنا منحوس ڈیرا ڈال دیا اہم بات یہ کہ شاعر نے بہت ہی سبک انداز میں اپنی بات کہہ دی ہے۔اسی طرح جس طرح انھوں نے اداسی کی پیکرسازی کی ہے وہ بھی بہت اہم ہے،کیونکہ اداسی کا بال کھول کر گھر کی دیواروں پرسونا بڑی گہری بات ہے جواس بات کی بھی علامت ہے کہ یہاں ہر طرف اداسی ہی اداسی ہے کہیں بھی خوشی کا نام و نشان تک نہیں ہے ناصر نے ”اداسی“جوغیرمرئی ہے جس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے اس کو مرئی شکل دے دی ہے اور شعر کی قرأت کے ساتھ ہی ہماری نظروں کے سامنے ایک ہیولیٰ آجا تا ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور دیواروں سے لپٹی ہے چھوڑ نے کا نام نہیں لے رہی ہے۔اس شعر سے یہ پتہ بھی چلتا ہے کہ انھوں نے خواتین کی نفسیات کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے۔بال کھلنا اور کھولنا دونوں کے الگ الگ معنیٰ ہیں اور ناصر نے جو یہاں کہا ”اداسی بال کھولے سورہی ہے “ اس با ت کی غمازی ہے کہ اداسی خودکسی کا غم منا رہی ہے جس طرح جب گھر میں موت ہوتی ہے تو خواتین غم مناتی ہیں جس میں وہ اپنے بال کھول کر بکھرا دیتی ہیں کیونکہ بال کھول کر سوگ اور غم منانا خواتین کی نفسیات میں شامل ہے۔اس طرح انھوں نے واضح کر دیا کہ وہ اور ا ن کا گھر اداسیوں کا مسکن ہیں۔ یہ وہ پیکر ہے جس کو پیش کرنے سے قدیم شعراقاصر رہے ہیں جس کی مثال شاعری کی تاریخ میں نہیں ملتی۔اسی طرح انھوں نے اگلے شعر میں انھوں نے اپنے دل کی اداسی پر سارے شہر کو اداس محسوس کیا جس کااظہار عامی لفظ ’سائیں سائیں‘ سے کیا ہے یہ لفظ عام بول چال میں تو استعمال ہوتا رہا ہے مگر شاعری میں اس خوبصورتی کے ساتھ پہلی بار انھوں نے استعمال کیا،جس میں ایک جہان معانی ہے۔ یہ ان کے لفظوں کے نئے استعمال سے ہی ممکن ہو سکا ہے۔ناصر نے آخری شعر میں لفظ”اسٹیشن “کا بھی بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے اور اس استعمال میں اہم بات یہ رہی کہ انھوں نے اسٹیشن کی تشبیہ دل سے دی ہے دونوں میں بہت اچھی مماثلت یہ پائی جا تی ہے کہ جب دل محبوب کے قریب ہو تو بڑی تیزی سے دھڑکتا ہے اور ایک ہنگامہ سا مچا رہتا ہے مگر جب محبوب دور ہو اور اس سے ملنے کی کوئی امید نہ ہو تو بالکل بجھا بجھا سا رہتا ہے اسی طرح اسٹیشن بھی کہ جب ٹرین کی آمد کا وقت ہو تا ہے تو افرا تفری کا ماحول رہتا ہے مگر جیسے ہی مسافر گئے اس کی حالت دیدنی ہو تی ہے۔ایک بات اور اگر شاعر نے رات میںمحبوب کے شہر کا اسٹیشن دیکھاہو جو دل کی طرح سونا تھا تو ایک اچھی مماثلت اور پائی جاتی ہے جس طرح اسٹیشن پرسگنل کے لیے ایک روشنی ٹمٹماتی رہتی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ ٹرین آئے گی اور مسافر آئیں گے جس سے ایک بار پھر یہاں ہنگا مہ بر پا ہو گا اسی طرح شاعر کا دل ہے کہ ابھی تو سونا ہے مگر امید کی ایک کرن ہے جس کی وجہ سے زندگی میں ایک وقت ضرور آئے گا جب دل کو خوشی ہو گی وہ محبوب کے پہلو پہنچ کر خوب اچھلے گااور عاشق تو ہمیشہ رجائی ہی ہوتے ہیں۔اس طرح ناصر نے غیر زبان کے لفظ کو شاعری میں خوبصورتی سے برت کر اپنی مہارت اور فنی دسترس کا مظاہرہ کیا۔ 
ناصر کی شاعری میں ایسے بھی مضامین ہیں جو نہ صرف دوسروں کے یہاں مفقود ہیں بلکہ غزلیہ شاعری میں اس کی مثال نہیں ملتی۔غزل تو محبوب سے باتیں کر نے کا نام ہے مگرناصر کے یہاں کہیں کہیں اس سے برگشتگی بھی پائی جاتی ہے میرے خیال سے ناصر نے علم بیان کی ایک اصطلاح ’تشبیہ مقلوب‘ کو غزل کا جامہ پہنا دیا ہے جس میں مشبہ بہ تشبیہ سے بالکل برعکس ہوتی ہے حالانکہ ناصرنے ان اشعار میں تشبیہ اور مشبہ بہ کا استعمال نہیں کیاہے مگر مضمون کی حد تک انھوں نے ایسا ضرور کیا ہے کیونکہ غزل کے مضمون اور ان کے اشعار کے مضمون میں تضاد پایا جاتا ہے مثال کے طور پر ان کے یہ اشعار نقل کیے جاتے ہیں  
رشتہ جاں تھا جس کا خیال
 اس کی صور ت بھی تو اب یاد نہیں 
شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے 
دل تو تجھے بھی بھلائے جاتا ہے
 ترے شہرطرب کی رونقوں میں
طبیعت اور بھی گھبرا رہی ہے 
یہ کیا کہ ا یک طور سے گذرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو 
مذکورہ بالا اشعار میں نہ تو محبوب کے تئیں فدائیت ہے اور نہ ہی گذرے ہوئے اوقات کی کسک اور جو ساتھ میں وقت بیت رہا ہے اس کی خوشی جوغزل کا اصل مضمون ہے اس کے باوجود ان اشعار میں کوئی ایسی بات ضرور ہے جو شعر کواعلیٰ درجے کا بنا تی ہے اگر ان اشعار کا ہم گہرائی سے تجزیہ کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ شاعر پس لفظ کچھ کہنا چاہتا ہے اور وہ ہے زمانے کی روش جس کا اظہار وہ کر رہاہے جہاں شو ق کسی کو بھلا رہا ہے اور وقت کی تیزو تندآندھی نے محبوب کی صورت کو کھرچ کھرچ کر اس کے ذہن سے محو کر دیا ہے اور شہرطرب کی رونقیں بھی اب اس کو اچھی نہیں لگتی۔ ناصر کا آخری شعر تو بہت اہم ہے کیونکہ جو بات ابھی تک شاعر بالواسطہ کہہ رہاتھاجس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی تھیں وہی بات شاعر نے یہاں بلا واسطہ کہہ دی جو تلون مزاجی پر دلالت کرتا ہے لیکن اس میں اچھی بات یہ ہے کہ شاعر وقت کے اعتبار سے جس طرح دیگر باتوں میں جمود کا قائل نہیں ہے اسی طرح وہ محبوب کے معاملے میں یک رنگی نہیں پسند کرتا بلکہ وہ تغیراور جدت کا نہ صرف قائل ہے بلکہ وہ اس کا دلدادہ ہے۔جو ہرشے کی خوبصورتی تبدیلی میں تصور کر تا ہے۔در اصل ناصر نے اس شعر میں اس خیال کو نظم بند کیا ہے جو پورے سماج میں عام ہے۔
ناصر کی ایک اہم اور بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے چھوٹی بحروں میں بڑی چابک دستی کے ساتھ شاعری کی ہے جس طرح میر نے چھوٹی بحروں کو استعمال کرکے سہل ممتنع کی ایسی مثالیں قائم کی جس کا کوئی جواب نہیں،میر نے کہا تھا  
نازکی اس کے لب کی کیا کہےے
 پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے 
ناصر کے چند اشعار سے ان کی سہل نگاری کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے  
 یاد آتا ہے روز و شب کوئی 
ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی
تیرا قصور نہیں، میرا تھا
میں نے تجھ کو اپنا سمجھا تھا
شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے
دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے 
وہ کوئی اپنے سواءہو تو شکوہ کروں 
جدائی اپنی ہے اور انتظار اپنا ہے
ان تمام اشعار میں شعری لوازمات یعنی تشبیہ واستعارات اور ان کے تلازمات کو بروئے کار نہیں لایا گیا جن سے شعر میں قوت اورجان پیدا ہوتی ہے اس کے باوجود یہ اعلی درجے کے اشعار ہیں دراصل مندرجہ بالاتمام اشعار کا ایسا لفظی نظام ہے جس نے ان کو اعلی درجے کا شعر بنایا ہے۔لفظی آہنگ،ان کی تراش وخراش اور لفظوں کی بنت ایسی ہے جس سے ہم شاعر کے اسیر ہوجاتے ہیں اور اسی بنت کا نام لفظی نظام ہے۔ناصر کاظمی نے پرانی علامتوں کو نئے معانی اور مفاہیم بھی دےے ہیں اور شاعری کے کارواں کو آگے بڑھایا ہے وہ دل،چراغ،زلف،جنگل وغیرہ کو نئے نئے انداز میں استعمال کیا ہے  
ایک سمے تیرا پھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانے پر
ایک وقت کہ میں تنہا اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل
بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہوگئے ہیں
جنگل میں ہوئی شام ہم کو
بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے
اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
پرانی صحبت یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
کہا ں ہے تو کہ ترے انتظار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے
ترے جلوے میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے
مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں
ان تمام اشعار میں ناصر نے جنگل، بستی، چراغ، دھواں، گھراور دل جیسی علامتوں کو نئے نئے انداز میں برتا ہے۔
ناصر کاظمی کی اہمیت اس لیے بھی مسلم ہے کہ انھوں نے ترقی پسند تحریک اور اس کے حامیوں کے شوروغل میں جو صنف اپنا وجود کھوچکی تھی اور ہیئت بدل چکی تھی اس کو ایک امتیازی صنف کا درجہ دلایا، ترقی پسند شعرا خطابیہ لہجہ کے نہ صرف قائل تھے بلکہ جابہ جا اس کے نمونے بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔پروفیسر انیس اشفاق نے درست لکھا ہے کہ:
 ”ناصر کاظمی کا اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے غزل کو ایک نئے لہجے سے متعارف کرایا یہ نیا لہجہ ترقی پسندی کے پرشور لہجے کے ردعمل کے طور پرسامنے آیا تھا چونکہ ترقی پسندوں کو دھیما اور انفعالی لہجہ مطلوب نہیں تھا اس لیے یہ لہجہ ہماری غزل سے غائب ہوگیا تھا“
وہ آگے لکھتے ہیں :
’ ’ناصر کا دوسرا بڑا اہم کارنامہ یہ ہے کہ وہ غزل کو پس منظر سے پیش منظر میں لے آئے ان سے قبل غزل دوسرے درجے کی اور منسوخ صنف سخن سمجھی جانے لگی تھی، ناصر نے پھر سے ایک سربر آوردہ صنف سخن بنادیا“۔
(غزل کا نیا علامتی نظام ص27)
ناصر اس پر شور دور میں چلے تو تنہا تھے مگر لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا،حالانکہ جو لوگ ناصر کے کارواں میں شامل ہوئے ایسا نہیں کہ اس میں ناصر کا خون جگر شامل نہیں بلکہ یہ ناصر کا لہجہ اور اسلوب ہی تھا کہ دوسروں نے ان کے تتبع کو اپنی شاعری کی معراج تصور کیا۔ پروفیسر ابوالکلام قاسمی لکھتے ہیں:
”ناصر کاظمی کی غزل نے گویا اپنا ایک دبستان سا بنالیا چنانچہ احمد مشتاق ہوں یا شہر یار،منیر نیازی ہوں یا شہزاد احمد،سلیم احمد ہوںیاحسن نعیم اور محمد علوی ان سب کے یہاں ناصر کاظمی کی طرح کائنات کے مظاہر سے امیجری تخلیق کرنے صورتِ حال کے بجائے تاثرات کی تجسیم کاری کرنے اور معنی آفرینی کے متوازی شعری فضا سازی جیسے رجحانات امتداد وقت کے ساتھ زیادہ نمایاں ہوتے گئے۔“(کثرت تعبیر ص99پروفیسر ابو الکلام قاسمی)
اس طرح لفظی نظام کا جو پودا ناصر کاظمی نے لگایا وہ وقت گزرنے اور مرور زمانہ کے ساتھ قوی تر ہوتا گیا جس کی گونج ان کے ہمعصر اور بعد کے شعرا کے کلام میں جابہ جا نہ صرف دیکھنے کو ملتی ہے بلکہ ان کی روایت کو انھوں نے مزید آگے بڑھایا اگرچہ انھوں نے بہت زیادہ علامتوں کو نئے معانی ومفاہیم نہیں عطا کیے مگر انھوں نے ایک ایسی بناءڈالی جس پر مضبوط عمارت بنتی دکھائی دے رہی ہے ان کی روش اور نئے لفظی نظام نے ہی غزل کو ایسے دور میں داخل کردیا ہے جس میں قدیم لفظیات اور ان کے تلازمات کے نئے معانی اور مفاہیم سامنے آرہے ہیں جس کا اندازہ زیب غوری کے شعر 
تہہ بہ تہہ لے گیا گرداب نگہ عکس تمام
دیر تک ڈوبتے منظر پس منظر بولے
اور شہریار کے اشعار  
اک خواب دیکھنے کی آرزو رہی
اسی لیے تمام عمر سونہ پائے ہم
راتوں کو جاگنے کے سواءاور کیا کیا
آنکھیں اگر ملی تھیں کوئی خواب دیکھتے
زیب غوری کے شعر میں جس طرح لفظوںاور گرداب کا استعمال، اور ڈوبتے منظرو پس منظر کا بیان کیا گیاہے وہ نئی روش کا پتہ دیتے ہیں۔ اسی طرح شہر یار کے دونوں اشعار میں خواب کو آرزو اور تمنا کی علامت بناکرجس طرح کربناکی کا بیان کیا گیا ہے وہ دعوت فکر دیتے ہیں۔

Mohd Haneef Khan
Dept of Urdu, Aligarh Muslim University
Aligarh - 201001 (UP)
Mob.: 9359989581
Email: haneef5758@gmail.com




 ماہنامہ اردو دنیا، اگست2019


 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں