24/9/19

اردو افسانہ اور کشمیر مضمون نگار: مدثر رشید فیروز



اردو افسانہ اور کشمیر
مدثر رشید فیروز

کشمیر صدیوں سے تہذیبی و تمدنی رنگ بدلتا رہا ہے۔ آبی ذخیرے سے لے کر ریل کی آمد تک اس وادی نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ تاریخ دانوں کا کہناہے کہ کشمیر کبھی ستی سرتھا مگر تالاب کا پانی خارج ہوکر کب سوکھا اور بستی میں کب تبدیئل ہوا، اس پر ابھی تحقیق جاری ہے۔لوگ بستے گئے، بستیاں آباد ہوتی گئیں،قبیلے بنے، قبیلوں کے سردار مقرر ہوئے اور پھرقبیلوں کے درمیان جنگیں ہوتی رہیں، پھر بیرونی قوموں نے اس کو اپنی آماجگاہ بنایا اور اس طرح آپس میں بولیوں کا میل جول اور مخلوط زبانوں کی ترویج ممکن ہوئی۔
دور جدید تک آتے آتے کشمیر میں کئی زبانیں بول چال کے لیے اختیار کی گئیں لیکن ادب خاص طور پر چار زبانوں میں مرتب ہوتا گیا۔ سنسکرت،کشمیری، فارسی اور اردو۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ کشمیر میں جو زبان آخر میں داخل ہوئی وہ اردو تھی جس کو آج کشمیر میں سرکاری زبان کا رتبہ حاصل ہے۔ریاست جموں و کشمیر میں 1889 میں مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دورِ اقتدار میں اردو زبان کو سرکاری زبان کا رتبہ حاصل ہوتے ہی یہ زبان یہاں کے تہذیب و تمدن، ثقافت اور ادب کے قریب آگئی۔ رفتہ رفتہ ادیب اس زبان کی وساطت سے اپنے خیالات کا اظہارشعری و نثری اصناف میں کرنے لگے۔اُدھر بر صغیر میں اِسی دور میں کئی بڑے شاعروں کے علاوہ افسانہ نگاروں نے بھی جنم لیا جن میں پریم چند، سجاد حیدر یلدرم، سعادت حسن منٹو،کرشن چندر، راجندر سنگھ بےدی، عصمت چغتائی اور قرة العین حیدر قابلِ ذکرہیں۔چنانچہ ان افسانہ نگاروں میں سعادت حسن منٹو،کرشن چندر اور قدرت اللہ شہاب کا تعلق کشمیر سے بالواسطہ طور پر رہا ہے اس لیے کشمیر کی جھلک منٹو کے افسانوں میں کہیں کہیں اور کرشن چندر کے افسانوں میں اکثر نظر آتی ہے۔ بر صغیر کے ان بڑے افسانہ نگاروں کی دیکھا دیکھی کشمیر کے افسانہ نگا ر بھی اس صنف میں قسمت آزمائی کرنے لگے جن میں پریم ناتھ پردیسی،اختر محی الدین،پریم ناتھ در،پشکر ناتھ، ڈاکٹر برج پریمی، نور شاہ، حامدی کشمیری، مخمور حسین بدخشی جیسے افسانہ نگاروں کے نام شہرت سے سرفراز ہوئے۔ بیرون ریاست کے افسانہ نگاروں نے جہاں اپنے افسانوں میں عام طور پر کشمیر کی خوشنما اور دلفریب جھلکیاں دکھائیں، وہیں کشمیر زاد افسانہ نگاروں نے خصوصاً کشمیر اور کشمر کے حالات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔جس دور میں اردو افسانہ کشمیر میں پر پھیلانے لگا وہ سیاسی بحران اور تقسیم ملک کا زمانہ تھاجس کی وجہ سے کشمیر کے پسِ منظر میں لکھے گئے افسانے اپنے دور کی تباہی،مفلسی اور لاچارگی کی تاریخ بن کر ابھرے خواہ وہ بیرون ِ ریاست افسانہ نگاروں کے قلموں سے تخلیق کی گئی کہانیاں ہوں یا کشمیر زاد افسانہ نگاروں کے۔
بیرون ریاست کے افسانہ نگارسعادت حسن منٹو نے جو افسانے کشمیر کے پسِ منظر میں لکھے ان میں ’ٹیٹوال کا کتا‘ اور’آخری سلیوٹ‘ اہم ہیں۔ ’ٹےٹوال‘ کشمیر کی وادی نیلم کا علاقہ ہے جہاں سے1947 کی جنگ کے بعد سیز فائر لائن گزرتی ہے۔اس سیز فائر لائن کے ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف بھارت کی فوج ہے۔منٹو کا افسانہ’ٹےٹوال کا کتا‘ اسی صورت حال پر لکھا گیا ہے۔ 1947 کے بعد کشمیر کی سرحدی جھڑپیں اور ایک دوسرے کی چوکیوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں، اوراسی پہلو کو منٹونے ’ٹےٹوال کا کتا ‘افسانے میں بیان کیا۔کچھ اسی طرح کا موضوع افسانہ’ آخری سلیوٹ ‘میں بھی ملتا ہے جہاں کشمیر کی سرحد اور فوجیوں کے مورچے نظر آتے ہیں۔
کشمیر کے پسِ منظر میں لکھنے والے افسانہ نگاروں میں سب سے اہم کرشن چندر ہیں۔کشمیر سے دلچسپی کے حوالے سے خود کرشن چندر نے افسانوی مجموعہ ”کشمیر کی کہانیاں“کے دیباچے میں اعتراف کیا ہے :
”میرے بچپن کی حسین ترین یادیں اور جوانی کے بیش قیمت لمحے کشمیر سے وابستہ ہیں“ (کرشن چندر، دیباچہ، کشمیر کی کہانیاں)
کرشن چندر کے کئی افسانے کشمیر کے موضوع سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں کشمیر کی منظر کشی،دیہاتی زندگی اوررومانی کیفیت کا ملا جلا سنگم ملتا ہے۔وہ اپنے افسانوی مجموعے”الجھی لڑکی کالے بال“کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
”کشمیر کی جھیلیں اور آبشار، پہاڑ اور وادیاں، دھان کے کھیت،اور زعفران کی خوشبو، گھٹا عورت کی آنکھوں کی طرح برستی ہوئی اور برف کے گالے سفید گلاب کی پتیوں کی طرح بکھرے ہوئے لوگوں نے دھنک کے سات رنگ دیکھے ہیں۔ لیکن میں نے دھنک میں اتنے رنگ دیکھے ہیں جو میری دو زندگیوں کے لیے کافی ہیں۔“ (ایضاً، دیباچہ، الجھی لڑکی کا لے بال)
کشمیر کے پسِ منظر میں لکھا گیا افسانہ’جنت اور جہنم‘کا موضوع کشمیر کی خوبصورت وادی اور فطرت کا تخلیق کردہ حسن اور کشمیر کی غربت ہے۔افسانے کاپلاٹ وادی کا سرمائی دارالخلافہ سری نگر اور اس کے مضافات کے علاقے ہیں۔اسی طرح’بندوالی، کفارہ، سڑک کے کنارے، کشمیر کو سلام، جیل سے پہلے اور جیل کے بعد، لاہور سے بہرام گلہ تک،چاند کی رات ‘ جیسے کئی افسانے ایسے ہیں جو کشمیر کے پسِ منظر میں ےیا کشمیر کے حوالے سے لکھے گئے ہیں جن میں کشمیر اور کشمیریت کو جاننے کے لیے کافی کچھ مواد ملتاہے۔ افسانہ’بند والی‘ میں کشمیر کے مشہور جھیل ڈل کی عکاسی یوں کرتے ہیں :
”ڈل کی نیلی نیلی لہروں پر آفتاب کی آخری کرنیں لرزاں تھیں۔ہوا میں پھولوں کی بو بسی ہوئی تھی۔ہمارے ارد گرد کنول کے پھو ل تیر رہے تھے اور ان کی نازک پتیوں پر پانی کے قطرے ٹِکے ہوئے تھے۔کسی کی پلکوں پر آنسوؤں کی طرح اور شفق کی ارغوانی روشنی میں چمک رہے تھے کسی کے گلے میں سرخ منکوں کی طرح “ 
(ایضاً، افسانہ، بندوالی)
قدرت اللہ شہاب نے بھی کشمیر کے پسِ منظر میں چند افسانے تخلیق کیے ہیں جن میں محض کشمیر کی خوبصورتی سے متاثر ہونے کا پہلو ہی نہیں بلکہ یہاں کے حالات وکیفیات کا بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ان افسانو ں میں ’پکے پکے آم‘ اور’پھوڑے والی ٹانگ ‘اہمیت کے حامل ہیں۔
کشمیری لال ذاکر نے کشمیر سے قلبی وابستگی کی بنا پرکئی افسانے کشمیر کے پس منظر میں لکھے۔ان کے افسانوی مجموعے ’جب کشمیر جل رہا تھا‘ اور’چنار چنار چہرے‘ میں کئی افسانے کشمیر سے وابستہ ہیں۔
آزادی سے قبل لکھنے والے آزادی کے بعد بھی فعال رہے اور انھوں نے کشمیریوں کی کسمپرسی، غربت اور بے روزگاری پر متعدد افسانے لکھے۔ ان افسانہ نگاروں میں پریم ناتھ پردیسی، پریم ناتھ در، رامانند ساگر، حامدی کشمیری، تیج بہادر بھان، نور شاہ، ڈاکٹر برج پریمی، مخمور حسین بدخشی، پشکر ناتھ، کلدیپ رعنا، شبنم قیوم وغیرہ نمایاں ہیں۔ آزادی کے بعد جو نئی نسل سامنے آئی ان میں عمر مجید، وحشی سعید ساحل، ڈی کے کنول(بعد میں دیپک کنول کا نام اختیار کیا)، ویریندر پٹواری، شمس الدین شمیم،جان محمد آزاد قابل ذکر ہیں۔ جنھوں نے کشمیر کے حالات کو جیا اور ان ستم رسیدہ واقعات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ان میں نور شاہ، عمر مجید، دیپک بدکی، دیپک کنول، ویریندر پٹواری وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ ان میں سے چند ایک مہاجر بن کر وادی سے ہجرت کر گئے مگر ان کی کشمیر سے وابستگی بدستور جاری رہی۔
ریاست کے اول الذکر افسانہ نگار پریم ناتھ پردیسی کے افسانوں میں کشمیر اور کشمیریت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ پردیسی نے اپنے افسانوں میں ریاست کی صحیح عکاسی کر کے کشمیر کو اصلی رنگ و روپ میں پیش کیا۔ وہ کشمیر کی خوبصورتی ہی نہیں بلکہ بد صورتی کو بھی منظر عام پر لاتے ہیں۔وہ کشمیر کی غربت، بھوک، افلاس، پسماندگی، معاشی و اقتصادی بدحالی، بے کاری، بےگار کی لعنت کو اپنے افسانوں میں حقیقی طور پر پیش کرتے ہیں۔ پردیسی کے افسانے ’ٹینکہ بٹنی‘، ’ان کوٹ‘،’اگلے سال‘ اور’ دیوتا‘ کشمیر کی حقیقی صورت حال کی خوب عکاسی کرتے ہیں۔وادی کے حالات کے بارے میں وہ خود یوں رقمطراز ہیں:
”کشمیر کا ہر باشندہ بذات خود ایک افسانہ ہے جس کی طرف آج تک کسی نے توجہ نہ دی۔ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ غلامی ہے، افلاس ہے، شخصی راج ہے۔“ 
(پریم ناتھ پردیسی: میں اور میرے افسانے)
افسانوں کے مجموعے’بہتے چراغ‘ کی کہانیوں میں کشمیر کی اصلی روح کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے اور فنکارانہ ہنر مندی کے ساتھ کشمیریوں کے مصائب اور مسائل، ان کے اصلی مزاج اور تیور، سادگی اور شرافت، عادات اور خصائل کی عکاسی کی گئی ہے۔ پردیسی نے کشمیر کے حالات کو زیر نظر رکھ کے وہاں کی معاشرت اور اخلاقی قدروں کے علاوہ ریاست کی غلامانہ ذہنیت کی ترجمانی بھی کی ہے۔بقولِ ڈاکٹر برج پریمی:
”ریاست میں اس سے پہلے اردو کا مختصر افسانہ اس قدر منجھی ہوئی صورت میں نظر نہیں آتا۔ پردیسی نے کشمیر کو اپنے افسانوں میں پہلی بار پیش کیااور ہزاروں لاکھوں کشمیریوں کوزبان بخشی۔“ 
(برج پریمی، افسانہ: خوابوں کے دریچے، مشمولہ: سپنوں کی شام)
’کشمیریت‘ پردیسی کے روم روم میں رچی بسی تھی۔ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ ان کے افسانے کشمیر کی ایک بولتی تصویر ہیں۔ان کے افسانوں کے اکثر کردارکشمیر کے زندہ کردار ہیں جو آٹھوں پہر ان کے آس پاس زندگی بسر کر تے نظر آتے ہیں، کبھی ستم رسیدہ حالات میں بھی خاموش رہتے ہیں تو کبھی معمولی سی خوشی سے چونک اُٹھتے ہیں۔ان کرداروں کاہر عمل مصنف کے درون میں چھپی خواہشات اور درد و کرب کا آئینہ ہے۔ چاہے وہ’ کیچڑ کا دیوتا‘کا ’ممسو‘ یا ’نندی‘ ہو یا پھر ’دھول‘ کی ’مہتہ بی‘۔ وہ اپنے کرداروں کو اپنے معاشرتی پس منظر میں پورے نفسیاتی عوامل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔چاہے وہ ’امام دین ‘ ہو یا ’جاوید‘، ’وشومبر‘ ہو یا ’گنگا دھر‘، ’ٹینکہ بٹنی‘ ہو یا ’امام صاحب‘۔ ان کے بارے میں پروفیسر حامدی کاشمیری رقمطراز ہیں:
”پردیسی نے کشمیریت کو داخلی سطح پر محسوس کر کے اس کی مصوری کی ہے۔ ان کے افسانوں کے کرداروں کے رویے، محسوسات اور عقائد پردیسی کی شخصیت کے مختلف پہلو کو روشن کرتے ہیں۔“ 
(ایضاً، جموں وکشمیر میں اردو ادب کی نشو و نما، ص 29)
ڈاکٹربرج پریمی جن کو کشمیر سے والِہانہ محبت تھی اور کشمیر کے اردو ادب سے متعلق کئی محققانہ اور ناقدانہ تصانیف شائع کیں، جن میں ’جموں و کشمیرمیں اردو ادب کی نشوونما‘اور’ کشمیر کے مضامین ‘سرفہرست ہیں،نے اپنے افسانوی مجموعے ’سپنوں کی شام‘ میں16 مختصر افسانے تحریر کیے ہیں جو اکثر کشمیر کے حوالے ہی سے لکھے گئے ہیں۔ انھوں نے کشمیر کے غریب کسانوں اور مزدوروں کی بد حالی کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ برج پریمی کی رگ رگ میں کشمیریت کا جذبہ تھا۔ان کا ہر افسانہ اسی جذبے کی پہچان ہے۔افسانہ’خوابوں کے دریچے‘ میں وہ کشمیر کے سرد ترین موسم کی عکس بندی یوں کرتے ہیں:
”دسمبر کی ایسی ہی کالی اور بھیانک رات میری یادوں کے افق پر ابھرتی ہے روح کو منجمد کرنے والی سائیں سائیں کرتی ہوئی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اب بھی میرے روم روم کو جھنجھوڑ دیتی ہیں اور جوتی کا جوالا مکھی کی طرح تپتا ہوا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے جم جاتا ہے اور میرے من میں اتھل پتھل مچ جاتی ہے۔“ 
(حامدی کاشمیری، ریاست جموں وکشمیر میں اردو ادب، ص 122)
ان کا افسانہ ’میرے بچے کی سالگرہ‘ میں کشمیر کا رنگ جگہ جگہ ابھرتا ہے۔افسانہ’ سپنوں کی شام‘ میں کشمیر کے ایک ضلع بڈگام کے ایک گاؤں کا پسِ منظر ہے۔’ہنسی کی موت ‘میں کشمیری مفلسوں کا احوال ہے۔افسانہ’شرنارتھی‘ جس کا موضوع 1947 کے بعد کے حالات ہیں ایک حقیقی تاریخی واقعہ کے روپ میں ابھرتا ہے۔برج پریمی نے اس افسانے میں شیام کا المیہ کردار پیش کر کے کشمیریوں کی مظلومیت کی بھر پور ترجمانی کی ہے۔ڈاکٹر محی الدین زور لکھتے ہیں :
”انھوں نے کشمیری تہذیب تمدن و ادب کو لازوال تخلیقات سے مالا مال کیا جن میں کشمیر کی صحیح روح تھرکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے وہ حقیقی معنوں میں کشمیری عوام کے نباض تھے۔“ (محی الدین زور کشمیری، برج پریمی کے افسانے اور کشمیر، مشمولہ : برج پریمی: حیات و ادبی خدمات، مرتب: پریمی رومانی، ص 173)
پشکر ناتھ، جو کشمیر کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں، ان کے چار افسانوی مجموعے’اندھیرے اجالے،ڈل کے باسی، عشق کا چانداندھیر اور کانچ کی دنیا‘ شائع ہوئے ہیں۔ انھوں نے کشمیر کی ثقافت اور سماجی زندگی کی جو تصویریں اپنے افسانوں میں پیش کیں ان میں کشمیر کی حقیقی زندگی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ان کے شاہکار افسانہ’درد کا مارا‘ کا مرکزی کردار کشمیر کا مہمان نواز، ہمدرد اور انسان دوست تاجر’ صمدجو‘ ہے جس کوجنوبی ہند کی ایک لڑکی سمجھ نہیں پاتی اور صمدجو کی شفقت اور ہمدردی کو دھوکا قرار دیتی ہے۔ یہ افسانہ ایک طرف سےاسی معنویت کا بھی حامل ہے اور کشمیر کے پورے درد کا احاطہ بھی کرتا ہے۔’جوڑا ابابیلوں کا‘ افسانے میں کشمیرکی یخ بستہ سردی کا ایک منظر بڑی چابک دستی سے پیش کیا گیا ہے۔کشمیر کے پہاڑوں پر آباد گوجر لوگوں کی دنیا سے ’ایک بوند زہر‘اور’ ٹراوٹ مچھلی‘ جیسے افسانے تخلیق کیے گئے ہیں۔ 
اگرچہ ایک طرف متذکرہ بالا افسانہ نگاروں نے کشمیر کی کسمپرسی اور معصومیت کے موضوعات کو قلم بند کیا ہے تو وہیں ان کے بعد آنے والے افسانہ نگارایک ایسے دور سے گزرے جس نے کشمیر کے ادیبوں کو دو گروہوں میں بانٹ دیا۔ ایک گروہ کشمیر کومجبوراً چھوڑ کر جموں اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزر بسر کرنے لگا، دوسرا گروہ کشمیر کے دکھ سکھ کو افسانوں میں قید کرتا گیا۔
جو افسانہ نگارکشمیر کے برے دور سے گزر کے اپنے روایتی تہذیب و تمدن اور ثقافت کو یک طرفہ چھوڑ کر کشمیر سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ان کے افسانوں میں اپنے وطن سے جدائی اور ہجرت کا درد کوٹ کوٹ کربھرا ہے۔ان افسانہ نگاروں میں ویریندر پٹواری،دیپک بدکی، دیپک کنول وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
ویریندر پٹواری، جنھیں دیگر پنڈتوں کے ساتھ کشمیر چھوڑنا پڑا، کے کئی افسانوی مجموعے (ایک ادھوری کہانی، اُفق، آفتوں کے شہر میں، دائرے، دوسری کرن، بے چین لمحوں کا تنہا سفر، آخری دن، فرشتے خاموش ہیں، آواز سرگوشیوں کی، وغیرہ) منظرِعام پر آئے ان کی کہانیوں کے پسِ منظر میں کشمیر ہر طرف نظر آتا ہے۔ انھوں نے کشمیر کے مصائب کو موضوع بنایا۔انھوں نے اس سسکتی وادی کا کرب گھول کر اپنے افسانوں میں بھر دیا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں عصری آگہی کے سلگتے ہوئے احساس کو پیش کرتے ہیں۔کشمیر کے حوالے سے لکھی گئی ان کی کہانیاں سلگتے ہوئے کئی تاریخی سوالات چھوڑ جاتے ہیں۔ حقانی القاسمی ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
”ویریندر پٹواری کی کہانی میں کشمیر کا درد نظر آتا ہے۔اس زمیں کا نوحہ۔اس مٹی کا مرثیہ جو کبھی جنت تھی۔“ (حقانی القاسمی، ویریندر پٹواری، مشمولہ: عصری تحریریں، مرتب: دیپک بدکی، ص 56)
ویریندرپٹواری کے کئی افسانے کشمیر کے واقعات اور لوگوں کی علامتیں بن کر ابھرتے ہیں افسانہ ’سزا‘ جہاں کشمیری پنڈتوں کی علامت کا استعارہ بنتا ہے وہیں ’دھواں‘ توڑ پھوڑ اور تحریک کی علامت نظر آتا ہے۔ افسانہ’ریچھ‘ میں انسان کی خون ریزی کو دیکھ کر ریچھ شرمسار ہو جاتا ہے۔ افسانہ’قیدی‘ میں وہ کشمیر کے حالات کا یوں جائز ہ لیتے ہیں :
”پہلی بار احساس ہوا کہ اچھا انسان نہ ہندو ہوتا ہے نہ مسلمان ہوتا ہے۔مگر بُرا انسان ایک شیطان ہوتا ہے شیطان ایک طوفان ہوتا ہے جو بھائی کو بھائی سے جدا کر کے اپنے مقصد کی خاطر دونوں کو قربان کردیتا ہے۔“ 
(ویریندر پٹواری: قیدی افق، ص 79)
ویریندر پٹواری کے افسانوں میں کشمیر کا تہذیبی اور ثقافتی پہلو بھی نمایا ں طور پر نظر آتاہے۔جس کی مثال ’برف، دسرتھ ،لالہ رخ‘ جیسے افسانوں میں ملتی ہے ’برف‘ افسانہ میں حالات کی وجہ سے بےروزگاری کا مسئلہ اجاگر کیا گیا ہے، ’دسرتھ‘ میں برف کا موسم اور’ لالہ رخ‘میں کشمیر میں ہندو مسلم اتحاد کو ابھارا گیا ہے۔
کشمیر کے حالات پر لکھنے والے افسانہ نگار وں میں دیپک بدکی سرفہرست ہیں ان کے کئی افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے ہیں جن کے عنوان ہی سے کشمیر کی خوشبو آتی ہے جیسے ادھورے چہرے، چنار کے پنجے، زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی، ریزہ ریزہ حیات اور روح کا کرب۔ ان کے علاوہ ان کا ایک افسانچوں کا مجموعہ ’مٹھی بھر ریت ‘ بھی شائع ہوا ہے۔ ان کے افسانے نہ صرف کشمیر بلکہ پورے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ کشمیر سے باہر گزارا ہے۔
کشمیر کے پسِ منظر میں ان کا افسانہ ’نہتے مکان کاریپ‘ میں خالی مکان کا استحصال دکھایا گیا ہے۔یہ وہ منظر نامہ ہے جو کشمیر کے جبرو استحصال کی علامت بن کر ابھرتا ہے۔افسانے میں مہاجر پنڈتوں کا کرب اور کشمیر میں ہو رہے ظلم وتشدد کو یوں تخلیقی روپ دیا گیا ہے جےسے کوئی کہانی نہیں بلکہ تاریخ کا ایک حقیقی واقعہ ہو۔ پنڈتوں کا چھوڑا ہوا مقفل گھر،دہشت گرد کا اندر گھس کر توڑ پھوڑ کرنا، پھر فوجیوں کے ہاتھوں مکان کو گولیوں سے چھلنی کرناکشمیر کے درد و الم کی بھر پور وضاحت کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو جو منظر نامہ اس افسانے میں سامنے آتا ہے وہ دنیا کے کسی مقام سے وابستہ ہو سکتا ہے جہاں امن و امان کے بدلے انتشار پھیلا ہو۔ایسی ہی صورت حال ان کے کئی افسانوں میں نظر آتی ہے جہاں کشمیر میں ہونے والے استحصال اور زیادتی پر ردِعمل ظاہر ہوتا ہے مثلاً گھونسلا، مخبر، سفید کراس، چنار کے پنجے، وفادار کتا،زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی وغیرہ۔’ریزہ ریزہ حیات‘ میں وہ کشمیر کی بد قسمتی،معاشی اور سےاسی بدحالی کے بارے میں لکھتے ہیں :
”نہ ہوا میں وہ تازگی رہی تھی اور نہ پانی میں وہ مٹھاس،ہوا میں بارود کی وہ تیز بد بوبسی ہوئی تھی جبکہ پانی میں شورے کی تیز ا بیت گھلی ہوئی تھی۔مغل باغات میں بھی وہ پہلی سی چہل پہل نہیں تھی اور نہ ہی کھیتوں میں وہ مدھر گیت گونج رہے تھے۔اگر تھا تو بس سونی سڑکیں، پولیس چوکیاں اور ڈرے سہمے لوگ۔“ 
(دیپک بدکی: ریزہ ریزہ حیات، ص 48)
 ’زیبرا کراسنگ پر کھڑ ا آدمی‘ افسانہ ایک ایسے پنڈت بزرگ کے احساسات کی عکاسی کرتا ہے جو نقل مکانی پر مجبور ہوا لیکن کشمیر کی محبت وہ کبھی ترک نہ کر سکا وہ حیران ہے کہ آخر اس کا حق ِ سکونت یکدم کیسے ختم ہو گیا۔ اس افسانے میں کشمیری مکان کی بناوٹ اور اس کی طرزِ تعمیر کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔مگر ان کے یہاں صرف اس دور کا المیہ ہی نہیں ملتا بلکہ ان دنوں کی تصویریں بھی ملتی ہیں جب کشمیر میں حالات اچھے تھے۔ اس حوالے سے ان کے افسانے ’شیر اور بکرا‘، ’اچانک‘، ’ورثے میں ملی سوغات‘، ’ویوگ‘، ’آﺅکچھ اور لکھیں‘، ’پہاڑوں کا رومانس‘، ’اداس لمحوں کا کرب‘، لمحوں نے خطا کی ہے، ٹھنڈی آگ، یومِ حساب وغیرہ افسانے کشمیر کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔ اُن کے افسانوں میں کشمیر کی تہذیب اور ثقافت کا رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے۔افسانہ ’کبھی ہم سے سنا ہوتا‘ میں انسانی نفسیات اور استحصال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سیدہ نسرین نقاش، دیپک بدکی کے افسانوں کے بارے میں لکھتی ہیں :
”دیپک بدکی کی لگ بھگ سبھی کہانیاں حقیقت پر مبنی ہیں۔ وہ کچلے ہوئے اور خوف زدہ انسانوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بناتے ہیں۔ مسخ چہروں کو اپنے قلم سے حقیقی خدوخال دینے میں مصروف ہیں،وہ ہونٹ جو جبرو استحصال کے اندھیروں میں اپنی مسکراہٹ اور دلکشی کو کھو چکے ہیں وہ ان کے لیے البیلی ہنستی گاتی زندگی کے خواہاں ہیں جہاں ہر طرف روشنی ہی روشنی ہو، محبت ہی محبت ہو۔“ (نسرین نقاش: اسباق، جولائی ستمبر 2007، ص 54)
کشمیر کے ایک اور افسانہ نگاردیپک کنول ہیں جو پہلے ڈی کے کنول کے نام سے افسانے و ڈرامے لکھتے تھے۔ انھوں نے کشمیری پنڈتوں کی دربدری اور بے گھری پر افسانے لکھے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے ’برف کی آگ‘ کے سبھی افسانے کشمیرکے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں جن میں ’مخبر، تفتیش، شعلے،حیوانوں کی بستی،کراس فائرنگ اور سزا ‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ 
 حامدی کاشمیری اور نور شاہ نے قریباً پچاس سال پہلے لکھنا شروع کیا۔ حامدی صاحب نے اس کے بعد شاعری اور تنقید کو اپنایا مگر نور شاہ صاحب صنف افسانہ کے ساتھ ہمیشہ جڑے رہے اور ریڈیو کے لیے ڈرامے بھی لکھتے رہے۔ ان کی یادداشتوں پر مبنی چند کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔دونوں قلم کاروں کے زیادہ تر افسانے رومانوی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں کشمیر کا پسِ منظر بنیادی ہے۔زندگی کا حسن و جمال حامدی کاشمیری کے یہاں نمایاں ہے ان کے افسانوی مجموعے ’سراب ‘اور’برف میں آگ‘ میں عشقیہ کہانیاں ہیں جو کشمیر کے قدرتی مناظر کے پسِ منظرمیں بھلی لگتی ہیں اور وادی کے نچلے طبقے کے لوگوں کی کسمپرسی بھی ہے۔ان کے افسانہ’اندھیرے کی روشنی‘ میں کشمیر کی روز مرہ زندگی اور جھیلِ ڈل میں رہنے والوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ ’بہار آنے تک‘ افسانہ وادی کی بے روز گاری اور غریبی کی ترجمانی کرتا ہے۔ مظہر امام، حامدی کاشمیری کے افسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
” حامدی کاشمیری کے افسانے کشمیری زندگی کے عکاس ہیں۔آج کم لوگوں کو احساس ہوگا کہ آج سے کئی سال پہلے کشمیر کے نچلے طبقے کی زندگی بےچارگی اور کسمپرسی کی شکار تھی۔“ (مظہرامام: بحوالہ شیرازہ (جموں کشمیر میں اردو افسانہ نمبر)، کلچر اکادمی سرینگر، ص 31 )
نور شاہ کے نو افسانوی مجموعے (بے گھاٹ کی ناو، ویرانے کے پھول، من کا آنگن اداس اداس،ایک رات کی ملکہ، گیلے پتھروں کی مہک، بے ثمر سچ، آسمان، پھول اور لہو، کشمیر کہانی) منظر عام پر آئے ہیں جن میں رومانوی افسانوں کے علاوہ کشمیر کی ثقافت،سماجی اور سیاسی کروٹوں کو بھی انھوں نے موضوع بنایا ہے۔ نور شاہ کشمیر کے حسین مناظر کا شیدائی ہے اور رومانیت،انسان دوستی، رواداری ان کے فن کا بنیادی عنصر ہے جس وجہ سے وہ اپنے افسانوی مجموعے ’بے ثمر سچ‘میں لکھتے ہیں:
”یہ وہ جگہ ہے جہاں پہاڑ، پانی اور سبزہ بیک وقت نظر آتا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ وادی کے اس حصے میں میرے احساسِ جمال کی پرورش ہوتی ہے اور وہ جن کو میری آنکھوں نے سمیٹ لیا ہے لاشعوری طور پر میری کہانیوں میں منعکس ہوتا ہے۔“ (نورشاہ، بے ثمر سچ، ص 7)
عمر مجید جدیدیت کے علمبردار تھے۔ ان کے افسانوں میں کشمیر کی عکاسی جگہ جگہ ملتی ہے ان کا افسانہ’ شہر کا اغوا ‘ شروعا ت میں ہی کشمیر کے حالات کی تصویر کشی کرتا ہے:
”یہ کون سی جگہ ہے، کیسی خاموشی ہے،یہ ویرانی کا عالم،یہ ڈرانے والی خاموشی،یہ ان، یہ دکانیں،یہ سڑکیں خالی کیوں ہیں۔اس شہر میں رہنے والے لاکھوں لوگ کہاں چلے گئے۔“ (عمر مجید: شہر کا اغوا، مشمولہ: شیرازہ (اشاعت خصوصی بیادگار عمر مجید)، ص 112) 
عمر مجید کی کہانیاں کشمیر کے گرد گھومتی ہیں وادی کے حالات نے ان کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا ہے ان کے موضوعات دکھ درد،غربت اور امن پسندی وغیرہ ہیں۔ان نکتوں کو ابھارتے ابھارتے ان کے یہاں کشمیری تہذیب و ثقافت کے نمونے بھی جلوہ گر ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں نور شاہ لکھتے ہیں :
”اسلوب کا ستھرا پن ان کی کہانیوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔کشمیر،کشمیریت اور کشمیر کی زندگی ان کے محبوب ترین موضوعات ہیں۔“ (عمر مجید/ مرتب: سلیم سالک، عمر مجید کے بہترین افسانے، ص 27)
ترنم ریاض عصرِحاضر کی ایک نمایاں خاتون افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ ان کے افسانوں اور ناولوں میں کشمیر کی فضائےںاور ارد گرد کے حالات پوری طرح موجود ہیں۔ ان کے تین افسانوی مجموعے، جن کے عنوان ہی کشمر کے حوالے سے علامتی جہتیں واضح کرتے ہیں، منظر عام پر آئے ہیں۔ان کا افسانوی مجموعہ’یہ تنگ زمین ‘ اسی وادی کا استعارہ ہے جو اپنے مکینوں کے لیے تنگ ہو چکی ہے۔ ’ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘ انصاف کی خواہش کا استعارہ ہے کہ آخر ایک دن ظلم کی یہ آندھی تھم جائے گی اور’یمبرزل‘ جو بہت ہی نازک پھول(نرگس) ہے اور گرمی سے برگ برگ جھڑ جاتا ہے یہ پھول گویا کشمیر کی حسین وادی کا استعارہ بنتا ہے جو لخت لخت ہو چکی ہے۔ان کے افسانہ’مجسمہ ‘میں کشمیر کے تہذیب اور تاریخی ورثے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریت کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا گیا ہے۔اس افسانے میں پھرن،ٹوپی، سماوار، پیالے،اخروٹ پکنے کا موسم، پیپر ماشی اور دستکاری وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔افسانہ ’یمبرزل‘ کشمیریت کے حوالے سے ان کا ایک شاہکار افسانہ ہے جس میں کشمیری تہذیب و ثقافت کی شناخت نظر آتی ہے اسی طرح افسانہ’ کشتی، حور، برف گرنے والی ہے، پھول، ماں ‘ وغیرہ کشمیر کے پسِ منظر میں ہی لکھے گئے ہیں۔ ان کے افسانوں کے بارے میں دیپک بدکی رقمطراز ہیں:
”ترنم ریاض نے اپنے انفرادی کرب کوغمِ کائنات کا حصّہ بنا لیا ہے۔ ایک جانب شہرِآشوب اور دوسری جانب بڑے شہر کی مصنوعی زندگی کا المیہ افسانہ نگار ہم عصر زندگی سے اپنے پلاٹ چنتی ہےںاور آس پاس کے ماحول سے کردار ڈھونڈ نکالتی ہیں“ 
(دیپک بدکی: عصری تحریریں، ص 91)
زاہد مختار، جو عصرِ حاضر کے ابھرتے ہوئے قلم کار ہیں شاعری اور صحافت کے علاوہ افسانوی ادب میں بھی خاصی مہارت رکھتے ہیں ان کے دو افسانوی مجموعے ’جہلم کا تیسرا کنارہ‘ اور’ تحریریں‘منظر عام پر آئے ہیں۔’جہلم کا تیسرا کنارہ‘ افسانوی مجموعے کے اکثر افسانے کشمیر کے پسِ منظر میں لکھے گئے ہیں۔ان کے کئی افسانے کشمیر کے عام انسان کا درد وکرب بےان کرتے ہیں جن میں’ سورج کا پہلا اندھیرا،سحر ہونے تک،لمحے کا سفر،پلِ صراط، پہلا چہرہ‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ان کا افسانہ’جہلم کا تیسرا کنارہ‘ ایک ایسے انسان کی رو داد ہے جس کا ہاؤس بوٹ سےلاب نگل لیتا ہے پھر زندگی کی کشمکش میں انھیں ہر وقت حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔پہلے ہاؤس بوٹ قہر خدا کا شکار ہوتا ہے پھر جہلم کے کنارے ان کا بنایا آشیانہ قہرِ آدم کا شکار ہوتا ہے یوں وہ بے سرو ساماں ہوتے ہیں۔ویریندر پٹواری ان کے افسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں :
”کشمیر میں رہنے والے لوگوں کو آج بھی جسمانی، ذہنی اذیتوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔وہ زاہد صاحب نے اپنی کہانیوں بعنوان پلِ صراط اور سورج کا پہلا اندھیرا میں بیان کیا ہے۔“ (زاہد مختار، تحریریں (ویریندر پٹواری: جہلم کا تیسرا کنارہ...)، ص 82)
مذکورہ بالا افسانہ نگاروں کے علاوہ کئی اہم اور قابلِ ذکر افسانہ نگار ہیں جن کے یہاں کئی افسانے کشمیر کے پسِ منظر میں لکھے گئے ہیں۔

Mudassir Rashid Rather,
 Research Scholar,
 Punjabi University,
 NH 64, Urban Estate Phase II,
 Patiala District, Patiala,
 Punjab 147002 (Punjab)


ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2016

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں