20/9/19

کس کس نے حالی کی مخالفت کی؟ مضمون نگار: سید تقی عابدی



کس کس نے حالی کی مخالفت کی؟
سید تقی عابدی


حالی کے دوست بے شمار تھے لیکن دشمنوں اور مخالفوں کی کمی بھی نہ تھی۔ ان کے مخالفین میں مذہبی غیرمذہبی اور دوست نما دشمن شامل تھے۔ حالی کی مخالفت کی ایک خاص وجہ ان کی سر سید سے دوستی، علی گڑھ تحریک سے وابستگی اور سرسید کی سوانح، حیات جاوید کی تصنیف تھی۔ ہماری اس تحریر میں چند پردہ نشین مردوں کے نام بھی آئیں گے جو ظاہراً دوستی کا دم بھرتے تھے لیکن ان کے دل حالی سے صاف نہ تھے بقول میر انیس ”میں نے تو ایک دل بھی نہ دیکھا جو صاف ہو۔“ حالی کی مخالفت ادیبوں اور شاعروں کا مرغوب مشغلہ تھا۔ اگرچہ سرسید، شبلی نعمانی، ڈپٹی نذیر احمد اور علّامہ اقبال کی طرح حالی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا گیا مگر حالی کی شخصیت اور فن کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔ حالی کے دور کے سیاہ اوراق آج بھی موجود ہیں۔ مذہبی لوگ حالی کو سرسید کی بانسری اور نیچری کہتے تھے۔ حالی نے جو اُردو شاعری کی پاکیزگی کی مہم کو اپنا شعار بنایا تھا وہ بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو کھلتا تھا کیونکہ وہ حالی کو اہل دلّی اور لکھنو نہیں مانتے تھے وہ حالی کو پانی پت کا ایک معمولی شاعر جانتے تھے۔ ”دلّی دلّی کیسی دلّی = پانی پت کی بھیگی بلی“
حالی کی مخالفت ان کی موضوعاتی نظموں سے شروع ہو چکی تھی۔ مسدس حالی کی عوام میں پذیرائی ان کے مخالفین کے لیے خطرے کی گھنٹی محسوس ہو رہی تھی جو فن برائے فن وہ بھی بطور تفنّن کے قائل تھے۔ حالی ایسی شاعری کو عفونت میں سنڈاس سے بدتر بتارہے تھے اور ایسے شاعروں کی موجودگی یا غیر موجودگی سے متاثر نہ تھے جیسا کہ انھوں نے مسدس میں اعلانیہ کہا تھا  
یہ ہجرت جو کر جائیں شاعر ہمارے 
کہیں مِل کے خس کم جہاں پاک سارے
مقدمہ شعر و شاعری میں چوما چاٹی کی شاعری پر شدید ردعمل نے لکھنؤ اور دلّی کے رومانی شعرا کو حالی کے مقابل کردیا۔ درجنوں حالی کو دشنام اور نازیبا خطوط ملنے لگے۔ مختلف روزنامے اور رسالے مستقل طور پر حالی کے خلاف صف آرا ہو گئے جن میں حسرت موہانی کا اُردوئے معلّیٰ اور سجاد حسین لکھنوی کا اودھ پنج پیش پیش تھے۔ حالی کے خلاف سوقیانہ ہجو لکھی جانے لگیں۔ اودھ پنج کے سرورق پر کئی سال تک یہ شعر چھپتا رہے 
ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے
میدانِ پانی پت کی طرح پائمال ہے
حالی کو خالی، جعلی، مالی، خیالی اور ڈفالی جیسے ناموں سے یا د کیا جانے لگا۔ لکھنؤ اور دلّی کے اہل زبان کہتے تھے یہ پانی پتی شخص کس جرات سے اہل زبان کے ہم زبان ہی نہیں بلکہ مسیحائے زبان ہونے کی کوششیں کررہا ہے۔ حالی ان تمام حملات کا خاموشی سے جواب دے رہے تھے اور ہمہ تن دن رات چمنستان شعر کی پاکیزگی میں مصروف تھے۔
 اردو دنیا اور دنیائے ادب کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معاصرین پر تخریبی تنقید نظر آتی ہے جیسے والٹیرکا حملہ شیکسپیئر پر گٹے کا حملہ ڈانٹے پر رشید وطواط کا حملہ خاقانی پر، فرخی کا حملہ فردوسی پراحراری کا حملہ سعدی پر، سودا کا حملہ میر پرشیفتہ کا حملہ نظیر پر رجب علی بیگ کا حملہ میرامن پر وغیرہ۔ چنانچہ ہر ادب اور ہر دور میں تخریبی تنقید نظر آتی ہے۔ یہاں ہم حالی کے چند معاصرین کی معاندانہ تنقید کو مستند حوالوں سے درج کرتے ہیں۔ حسرت موہانی اُردوئے  معلّیٰ میں حالی پر سخت اعتراضات کرتے تھے۔ ایک اسی قسم کا واقعہ تذکرہ حالی میں شیخ اسماعیل پانی پتی نے یوں لکھا ہے:
”علی گڑھ کالج میں کوئی عظیم الشان تقریب تھی۔ نواب محسن الملک کے اصرار پر مولاناحالی بھی اس میں شرکت کے لیے تشریف لائے اور حسبِ معمول سید زین العابدین مرحوم کے مکان پر فروکش ہوئے۔ ایک صبح حسرت موہانی دو دوستوں کے ساتھ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چندے اِدھر اُدھر کی باتیں ہوا کیں۔ اتنے میں سید صاحب موصوف نے بھی اپنے کمرے میں سے حسرت کو دیکھا۔ اُن میں لڑکپن کی شوخی اب تک باقی تھی۔ اپنے کتب خانے میں گئے اور اُردوئے معلےٰ کے دو تین پرچے اُٹھا لائے۔ حسرت اور اُن کے دوستوں کاماتھا ٹھنکا کہ اب خیر نہیں۔ اور اُٹھ کر جانے پر آمادہ ہوئے مگر زین العابدین کب جانے دیتے تھے۔ خود پاس بیٹھ گئے۔ ایک پرچے کے ورق الٹنا شروع کیے اور مولانا حالی کو مخاطب کرکے حسرت اور اُردوئے معلےٰ کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے کسی کسی مضمون کی دو چار سطریں پڑھتے اور واہ خوب لکھا ہے کہہ کر داد دیتے حالی بھی ہوں، ہاں سے تائید کرتے جاتے تھے اتنے میں سید صاحب مصنوعی حیرت بلکہ وحشت کا اظہار کرکے بولے:
” ارے مولانا یہ دیکھیے آپ کی نسبت کیا لکھا ہے اور کچھ اس قسم کے الفاظ پڑھنا شروع کیے۔ سچ تو یہ ہے کہ حالی سے بڑھ کرمخربِ زبان کوئی نہیں ہوسکتا اور وہ جتنی جلدی اپنے قلم کو اُردو کی خدمت سے روک لیں اُتنا ہی اچھا ہے۔ فرشتہ منش حالی ذرا مکدّر نہیں ہوئے اور مسکراکر کہا تو یہ کہا کہ نکتہ چینی اصلاحِ زبان کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ کچھ عیب میں داخل نہیں۔“
کئی روز بعد ایک دوست نے حسرت سے پوچھا اب بھی حالی کے خلاف کچھ لکھو گے؟ جواب دیا جو کچھ لکھ چکا اُسی کا ملال اب تک دل پر ہے۔ حالی کا یہ ضبط، وقار اور عالی ظرفی بڑے بڑے مخالفوں کو شرمندہ اور نکتہ چینوں کو پشیمان کردیتی تھی۔“
جب حالی کی شاہکار کتاب ’حیات جاوید‘ شائع ہوئی تو شبلی نعمانی نے اس کی سخت مخالفت کی۔ مولوی عبدالحق ’چند ہم عصر‘ میں لکھتے ہیں۔ جب میں نے حیات جاوید کا ایک نسخہ ان کو دیا تو دیکھتے ہی فرمایا۔ ”یہ کذب وافترا کا آئینہ ہے“ یہ جملہ سن کر عبدالحق دم بخود رہ گئے کیوں کہ پڑھنے سے پہلے ایسی سخت رائے کیا معنیٰ رکھتی تھی۔
شبلی حبیب الرحمن خان شیروانی کے خط میں حیات جاوید کو کتاب المناقب لکھتے ہیں۔ ایک اور خط میں شیروانی کو لکھتے ہیں وہ محض دعوے کرتے ہیں واقعات کی شہادت پیش نہیں کرتے بہر حال میں حیات جاوید کو مدلّل مدّاحی سمجھتا ہوں۔
شبلی اپنے شاگرد عبدالسمیع کو حیات جاوید پر منفی ریویو کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ ”میں کچھ مزید نہیں کہنا چاہتا تم مقلد نہیں مجتہد ہو پھر تقلید کیوں؟“
اب آئینہ کا دوسرا رخ حالی کا کریکٹر دیکھیے جسے عبدالحق نے اپنی کتاب چند ہم عصر میں دکھایاہے۔
”ایک روز مولوی ظفر علی خاں مولانا حالی سے ملنے آئے اس زمانے میں وہ ’دکن ریویو‘ نکالتے تھے کچھ عرصہ پہلے اِس رسالے میں ایک دو مضمون مولانا شبلی کی کسی کتاب یا رسالے پر شائع ہوئے تھے ان میں کسی قدر بے جاشوخی سے کام لیا گیا تھا۔ مولانا نے اس کے متعلق ظفر علی خاں صاحب سے ایسے شفقت آمیز پیرائے میں نصیحت کرنی شروع کی کہ ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور سرجھکائے آنکھیں نیچی کیے چپ چاپ سُنا کیے۔ مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ میں تنقید سے منع نہیں کرتا، تنقید بہت اچھی چیز ہے اور اگر آپ لوگ تنقید نہ کریں گے تو ہماری اصلاح کیوں کر ہوگی لیکن تنقید میں ذاتیات سے بحث کرنا یا ہنسی اُڑانا منصب تنقید کے خلاف ہے۔“
وحید الدین سلیم پانی پتی جنھیں حالی نے دنیائے اُردو میں معروف کیا وہ بھی حیات جاوید کے بارے میں صدریارجنگ حبیب الرحمن خاں شیروانی کو لکھتے ہیں۔ ”حالی نے دیباچہ میں جس امر کا وعدہ کیا ہے اس کو وہ ایک شمّہ بھی پورا نہیں کرسکے۔ جہاں انھوں نے سرسید کی تفسیر کی بحث کی ہے یہ کہتے ہوئے کہ بحث طولانی ہو جائے گی ادھورا چھوڑ دیا ہے۔“
بقول رشید حسن خان کہ حالی کو غالب کے بہت واقعات کا علم تھا وہ اگر اپنے طور پر ان کو لکھتے تو بعض ایسی باتیں ضرور بیان میں آجاتیں جو ان کے نزدیک وضاحت طلب نہیں تھیں۔ اس الجھن اور اس کشمکش سے چھٹکارا حاصل کرنے کا یہ طریقہ انھوں نے اختیار کیا کہ بعض اہم واقعات کے بیان میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے خود مرزا صاحب کے بیانات کو نقل کردیا اس طور سے سوانح نگار کی حیثیت سے ان کے کسی بیان کا جائزہ نہیں لیا اس طریقۂ کار نے کئی واقعات کی واقعی شکل و صورت کو سامنے آنے نہیں دیا۔“
سچ تویہ ہے کہ لعن وطعن، گالی وشنام، طنز و اعتراضات کے طوفان کو حالی نے ایک نرالے طریقے سے زیر کیا 
کیا پوچھتے ہو کیونکر سب نکتہ چیں ہوئے چپ 
سب کچھ کہا اُنھوں پر ہم نے دم نہ مارا
لیکن جیسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے مخالفت کا یہ طوفان جو خس وخاشاک کی کائنات تھا، جلد ہی دب گیا اور حالی کی عظمت اور شان اپنی جگہ قائم رہی۔ ”غل توبہت یاروں نے مچایا پر گئے اکثر مان ہمیں“
اُردو تنقید پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے ناقدین عموماً سکّے کے دورخ پیش نہیں کرتے یا تو سراسر مدح ہوگی یا پھر ہر لفظ میں ذم و قدح کا پہلو ہوگا۔ حالی کی حیات جاوید پر اعتراض کرتے ہوئے شبلی نعمانی نے کہا تھا یہ کتاب المناقب ہے مدلّل مدّاحی ہے جب کہ خود شبلی نے جب موازنہ انیس و دبیر لکھا تو انیس کی مدّاحی اور دبیر کی قداحی لکھی۔ حالی نے اپنی تینوں سوانح عمریوں میں یعنی حیات سعدی، یادگار غالب اور حیات جاوید ان تینوں بزرگوں کی مدحت آرائی کی ہے اور خود اس بات کا اقرار بھی کیا ہے کہ ابھی بر صغیر میں کریٹکل بیوگرافی کا وقت نہیں آیا ہے۔ ہم کہتے ہیں حالی سے تسامح ہوا ہے اگر وہ تذکرے دیکھ لیں تو معلوم ہوگا کہ تذکرہ نویس نے کس طرح تخلیق کار کی شخصیت اور تخلیق کا ناحق خون کیاہے۔ کیا حالی کے استاد مصطفی خان شیفتہ نے نظیراکبر آبادی کے ساتھ ظلم نہیں کیا؟ کیا گلشن بے خار خارداری کی وجہہ سے گلشن بے کار نہیں ہوا؟اصلی تخلیق کار ایک پہاڑ ہوتا ہے اگر ناقد اس سے سرٹکرائیں تو سر پھوٹتا ہے پہاڑ نہیں ٹوٹتا۔ ہم نے حالی کی شاعری اور ان کے نثری کلام پر ناقدین کے دونوں رخ پیش کرنے کی کوششیں کی ہے۔ جن نقّادوں نے رسمی طور پر ایک دو جملے تعریف کے لکھ کر منفی باقی کا دفتر کھولا ہے جس میں انصاف سے کام لینے کے بجائے ذاتی فکر و تجربہ سے اخذ کردہ تنقیص اور ذم کا پہلو دکھایا گیا ہے جو علمی عقلی اور منطقی حوالوں سے ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔ ان ناقدین میں احسن فاروقی، وحید قریشی اور کلیم الدین احمد سرفہرست ہیں۔ ان ناقدوں نے نوک خار سے گل تخلیق کو تار تار کرنے کی ناکام کوششیں کی ہے۔
حالی کے منظوم اور نثری کلام پر کئی تبصرہ نگاروں نے کلیم الدین احمد کے تندوتیز جملے نقل کیے جنھیں بعض مقامات پر توڑ موڑ کر کچھ جوڑ کر اور کچھ چھوڑ کر اسی طرح بیان کیا کہ مسائل پر پوری روشنی نہیں پڑسکی اس لیے ہم کلیم الدین احمد کے ایک طویل مضمون حالی سے جو ان کی کتاب ’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ میں شامل ہے، اقتباسات بغیر کسی متن کی تحریف کے یہاں لکھ کر حالی کے مقدمہ اور شعرو شاعری کے بارے میں ان کا نظریہ پیش کررہے ہیں جہاں وہ حالی کی معمولی سی مغربی شاعری اور تنقید کی سہل انگاریوں یا ان سے واقفیت کو جرم سنگین بتا کر ان کی شخصیت اور تصنیف کا بہیمانہ قتل کرتے ہیں۔ ان کی تنقید دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ انھوں نے حالی کے تمامتر کلام کا مطالعہ کیا ہے۔
کلیم الدین احمد حالی کو اُردو تنقید کا بانی، اُردو کا بہترین ناقد جن کی نثر بلند پایہ ہے بتاتے ہیں۔
”اُردو تنقید کی ابتدا حالی سے ہوتی ہے۔’پرانی تنقید‘ مخدوف و مقصود کے جھگڑوں، زبان و محاورات کی صحت اسناد کی ہنگامہ آرائی تک محدود تھی۔ حالی نے سب سے پہلے جزئیات سے قطع نظر کی اور بنیادی اصول پرغور و فکر کیا۔شعر و شاعری کی ماہیت پر کچھ روشنی ڈالی اور مغربی خیالات سے استفادہ کیا۔ اپنے زمانہ، اپنے ماحول اپنے حدود میں حالی نے جو کچھ کیا وہ بہت تعریف کی بات ہے۔ وہ اُردو’تنقید‘ کے بانی بھی ہیں اور اُردو کے بہترین نقاد بھی ہیں یہاں جو کچھ لکھا جائے گا اس سے حالی کی تحقیر مقصود نہیں۔ ان کی تاریخی اہمیت اظہر من الشمس ہے۔ ان کی نثر بلند پایہ ہے، ان کا خلوص زبردست ہے۔“
پھر لکھتے ہیں:
”شعر و شاعری کی اہمیت کا صحیح اندازہ حالی کے بس کی بات نہیں وہ کہتے ہیں”شعر کی مدح و ذم میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور جس قدر اس کی مذمت کی گئی ہے وہ بہ نسبت مدح کے زیادہ قرین قیاس ہے۔“ وہ افلاطون کے ہم خیال ہیں اور شاعری کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ یوں کہتے ہیں کہ شاعری کا ملکہ بے کار نہیں ہے لیکن ان کے خیال میں شاعری محض تفریح طبع کا ذریعہ ہے۔ شاعری کو ئی دلچسپ کھیل نہیں، وہ تو انسان کی بہترین دماغی تحریکات کا آئینہ ہے۔ اس سے کامل سکون، ایک ابدی سرورملتا ہے جو اور کسی چیز سے نہیں ملتا اور نہ مل سکتا ہے۔ یہ بہترین فن ہے جس کی برابری کوئی دوسرا فن نہیں کرسکتا ہے۔ اس کا مقام سائنس اور فلسفہ سے بھی بلند ہے بعض نقاد تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مستقبل میں مذہب کی جگہ لے لے گی۔ افسوس ہے تو یہیں کہ آج بھی یہ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ شاعری تفنن طبع کا ذریعہ نہیں۔ اس کے آئینہ میں مادّی اور روحانی دنیا اور اس دنیا کے بنیادی اور پائیدارقوانین کا صاف، مکمل اور پر سکون عکس ملتا ہے حقیقت اور اس کی پر اسرار کار فرمائیاں اسی آئینہ میں اپنی جھلک دکھاتی ہیں۔ اس نقطۂ نظر کی حالی کو خبر نہ تھی وہ شعر و شاعری کی اہمیت اور قدر و قیمت سے واقف نہ تھے اسی لیے دوسروں کو ان چیزوں سے آگاہ کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔
جس شخص نے بھی حالی کا مقدمہ پڑھا ہے ان کے مسدس کا مطالعہ کیا ہے ان کی نظموں کا تاثیری اثر جذب کیا ہے کیا وہ کلیم الدین احمد کے ان گول مٹول جملوں سے مرعوب ہوسکتا ہے۔
شعر کی تاثیر کو ثابت کرنے کے لیے جو مثالیں حالی نے دی کیا وہ آج بھی ضرب المثل نہیں ہیں۔ یہاں کون نا سمجھ ہے ذیل کی عبارت پڑھ کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے:
”شعر کی تاثیر کو ثابت کرنے کے لیے وہ بہت سی مثالیں بھی دیتے ہیں۔ چھ مثالوں سے ان کی ناسمجھی ظاہر ہوتی ہے لیکن اس نا سمجھی سے قطع نظر یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ جس تاثیر کا وہ ذکر کرتے ہیں وہ اہم نہیں۔ شعر کا مقصد جذبات کو بھڑکانہ نہیں ہے۔ شاعر ی جذبات کی تعلیم و تربیت کرتی۔ انھیں برانگیختہ نہیں کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری کا اثر ہنگامی نہیں پائدار ہوتا ہے۔ اس سے ہماری روحانی، جذباتی اور جسمانی زندگی خوشگوار ہوجاتی ہے۔ اچھے شعر جذبات کو بھڑکاتے نہیں ہیں اور جو شعر جذبات کو بھڑکاتے ہیں وہ اچھے نہیں ہوتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ حالی کا معیار مادی ہے۔ وہ شعر کو زیادہ اہم نہیں سمجھتے ہیں۔ اس غلط فہمی کا سبب یہی مادی معیار ہے وہ شعر کی تاثیر اور اس کے فائدہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس خوش فہمی کا سبب بھی یہی مادی معیار ہے۔
شعر کی ماہیت سے بھی وہی بے خبری ہے جو شعر کی اہمیت سے تھی۔ حالی صرف میکولے کا قول نقل کرتے ہیں۔ میکولے کی نقاد کی حیثیت سے کوئی وقعت نہیں۔ اس کے قول کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں میکولے کے خیال میں ( اور یہ خیال بھی ماخوذ ہے) شاعری ایک قسم کی نقالی ہے۔ یہ نقالی فن مصوری یا نقاشی کے مقابلہ میں نامکمل ہے لیکن اس کی دنیاوسیع ہے۔ ”خصوصاً انسان کا بطون صرف شاعری ہی کی قلمرو ہے۔“ 
میکولے کا یہ قول بھی صحیح نہیں کہ ” نقالی فنی مصوری یا نقاشی کے مقابلہ میں نامکمل ہے۔“ اگر آنکھوں کی تسکین کو معیار سمجھا جائے تو اس قول میں صحت ہو سکتی ہے لیکن آنکھوں اور کانوں کی تسکین کو کامل تسکین نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ یہ تسکین ادھوری سی ہوتی ہے۔ اس میں کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔ ہماری دماغی اور روحانی زندگی، ہمارے جذبات اور احساسات کو جو تسکین شاعری میں ملتی ہے، وہ کسی دوسرے فن لطیف میں نہیں ملتی اور نہ مل سکتی ہے۔ میکولے کو اس حقیقت کا احساس نہ تھا اور حالی میں بھی اس احساس کی کمی نظر آتی ہے۔
شاعری کے لیے جو شرطیں حالی ضروری سمجھتے ہیں وہ بھی سطحی اورکورانہ طور پر اخذ کی گئی ہیں۔ یہ شرطیں تین ہیں۔ تخیل، کائنات کا مطالعہ اور تفحص الفاظ۔
کلیم الدین احمد کولرج کے مقلد ہیں وہ میکولے کے قائل نہیں اس لیے تمام غصّہ بچارے حالی پر نکالتے ہیں۔ مغربی ناقدوں کے نظریات میں مشرقی نقاد کی طرح اختلاف رائے موجود ہے۔ تنقید کا کھیل دو اور دو چار نہیں ہوتا۔ اگر تخیل، کائنات کا مطالعہ اور تفحص الفاظ سطحی شرطیں ہیں تو پھر اصلی شرطیں کلیم الدین احمد کیوں بیان نہیں کرتے۔
”حالی نے مغرب سے استفادہ کیا۔ اس استفادے کا نتیجہ جو ہوا ظاہر ہے شاعر فطرت کی خصوصیات اور شاعری کی اہم صفات پر حالی کی پوری بحث پر مجموعی نظر ڈالتے ہوئے ہمیں یہ نتیجہ نکالنا پڑتا ہے کہ جتنی زیادہ یہ بحث اہم ہے حالی اتنے ہی زیادہ اس پر طبع آزمائی کے لیے نااہل ہیں۔ جن علوم کی قابلیت اور جن فطری صلاحیتوں کی اس سلسلہ میں ضرورت تھی وہ ان میں نہ تھیں۔ وہ ایک بحر بیکراں میں بے خطر کود پڑے ہیں اور ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ مگر ان کا کود پڑنا اور ہاتھ پاؤں مارتے رہنا ہی اہم ہے ان کی تمام بحث کی یہ نوعیت ہے جیسے کہ کسی بڑی مکمل اور مربوط تصنیف میں سے کوئی طالب علم کوئی ادھر کی اورکوئی ادھر کی بات نوٹ کرے اور یہ سمجھے کہ وہ پوری کتاب پر حاوی ہو گیا۔ “
افسوس یہ ہے کہ یہ حالی ہی تھے جنھوں نے اُردو ادب کو مغربی قدروں اورلٹریچر سے روشناس کروایا۔ اگر آزاد حالی نہ ہوتے تو کلیم الدین احمد کا وجود نہ ہوتا جنھیں یہ غصّہ ہے کہ حالی اس مغربی دریا میں کیوں اترے اور اگر اترے تھے تو کیوں نہ پورا دریا پیراکی کی۔ حالی نے کہیں یہ بات بالواسطہ یا بلاواسطہ نہیں کہی کہ انھیں نے مغربی لٹریچر پر عبور حاصل کیا وہ تو صرف مغربی قدروں کی نشان دہی اور مختصر تعارف کرکے چلے گئے۔ کلیم الدین احمد کہتے ہیں حالی فینسی اور امیجینیشن میں امتیاز نہیں کرسکتے لیکن جو تعریف انھوں نے لکھی ہے وہ بھی نامکمل اور ادھوری ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر مقدمے کوخضر راہ سمجھیں تو ترقی ممکن نہیں۔
”افسوس کی بات ہے کہ آج جب لکھنے والوں کا مطمح نظر حالی کی طرح محدود نہیں جب وہ بہترین مغربی ادب۔ تنقیدی ادب سے واقفیت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود کسی نے بھی ’مقدمہ شعرو شاعری‘ سے بہتر تنقیدی کارنامہ پیش نہیں کیا۔ یہ خیال ہے کہ ’مقدمہ شعر و شاعری‘ اُردو میں بہترین تنقیدی کارنامہ ہے نہایت حوصلہ شکن ہے۔
حالی کے کلام کے تابوت پر کلیم الدین احمد نے آخری کیل یوں ماری۔
خیالات ماخوذ، واقفیت محدود، نظر سطحی، فھم وادراک معمولی غور وفکر ناکافی تمیز ادنیٰ دماغ و شخصیت اوسط یہ تھی حالی کی کائنات۔ ہم صرف یہی کہیں گے کہ تنقید نگاری کو جذباتی نہیں ہوناچاہیے ورنہ اس کی ناقدانہ رائے قبول نہیں ہوتی۔ کلیم الدین احمد کی رائے کو اکثر اس لیے پیش کرتے ہیں کہ ان تمام عیوب کے باوجود حالی عمدہ ترین تنقید نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں اور مقدمہ شعر و شاعری علمی تنقید کی پہلی معتبرکتاب سمجھی جاتی ہے۔ اگر مرغ یہ سمجھیں کہ اس کے ککڑکوں نہ کرنے سے سورج طلوع نہ ہوگا تو مرغ کی خوش فہمی ہے۔ اُردو تنقید کا کارواں اپنی ارتقائی منازل پر گامزن ہے۔
 وارث علوی ’حالی مقدمہ اور ہم‘میں لکھتے ہیں:”نقاد جب حوالداروں کی طرح بات کرنا شروع کرتا ہے تو اس کا طرز گفتگو بھی کتنا غیر شریفانہ بن جاتا ہے۔ جوش تنقید میں انھیں یہ تک خیال نہیں رہتا کہ حالی جیسے نقاد پر قلم اٹھاتے وقت ہمیں آداب گفتگو کی پاسداری کرنی پڑتی ہے۔ حوالداری سے میرا کیا مطلب ہے اسے سمجھنے کے لیے محمد احسن فاروقی کے یہ جملے دیکھیے جو ان کے مقدمہ پر تنقید سے جستہ جستہ انتخاب کیے گئے ہیں:
”ایسی باتیں پڑھ کر تو یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ایسا شخص کسی طرح شاعری کرنے اور شاعری پر رائے دینے کا اہل ہی نہیں ہوسکتا۔ “
”اس اخلاق کی وکالت میں انھوں نے بڑے دھوکے کھائے ہیں اور تنقید نگاری کی بہت ہی غلط مثالیں قائم کی ہیں۔ اس کی بدترین مثال مقدمہ کا وہ حصہ ہے جس میں مراثی کی اخلاقی نوعیت کو واضح کیا گیا ہے۔“
”یہاں وہ تنقید نگاری کے نقطۂ نظر سے ایسا جرم کررہے ہیں جس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔“
”یہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کم علم کس قدر پُر خطر ہوسکتا ہے۔“
”جتنی زیادہ یہ بحث اہم ہے، حالی اتنے ہی زیادہ اس پر طبع آزمائی کے لیے نا اہل ہیں۔“
اگر احسن فاروقی مقدمہ کو ذرا غور سے پڑھتے تو حالی کا اسلوب نگارش انھیں آداب تنقید بھی سکھاتا۔ اس طرح کا طرز بیان صرف فاروقی تک محدود نہیں بلکہ کلیم الدین احمد کہیں مقدمے کی تعریف کرتے ہوئے حالی کی نثر کے بارے میں اُسے انفرادی خصوصیتیں عطاکرتے ہیں کہ حالی نے صاف اور سادہ طرز ایجاد کی لیکن اس طرز میں بے رنگی نہیں پھسپھا پن نہیں اس میں ایک لطافت ہے ایک جاذبیت ہے ایک رنگیتی ہے اور یہ تنقیدی مسئلوں پر بحث کرنے کے لیے موزوں بھی ہے۔“
پھر حالی کی تنقید کے ہر جملے کو مغربی ترازو پر تولتے ہیں اور اس میں جو کچھ کم و کسر ہے اُسی کو سب کچھ بتا کر فتوے صادر کرتے ہیں۔ کلیم الدین کا فیصلہ سنیے” خیالات ماخوذ، واقفیت محدود، نظر سطحی، فہم وادراک معمولی غوروفکر ناکافی تمیز ادنیٰ دماغ و شخصیت اوسط یہ تھی حالی کی کل کائنات۔“
وحید قریشی لکھتے ہیں:
”ادبی مسائل میں جہاں کہیں بھی دو بزرگوں میں اختلاف کا موقع آیا حالی اپنے اعتدال کا ترازو لے کر آگئے۔ حالی کی دکان داری کا یہ انداز ان کی صلح جو طبیعت کا ترجمان اور ان کی شخصیت پرستی کا آئینہ دار ہے۔ لیکن ان ہی دوراہوں پر ان کا تنقیدی نظام متزلزل نظر آتا ہے۔ شاعری شائستگی کے زمانے میں ترقی پاتی ہے یا ناشائستگی کے زمانہ میں اس پر انھوں نے مقدمے میں طویل بحث کی ہے۔ مشکل یہ تھی کہ ہر دو آرا مغرب سے آئی تھیں۔ جس کی پیروی کی انھوں نے قسم کھا رکھی تھی۔ مرحلہ نازک تھا لیکن فیصلہ قطعی، اس لیے دونوں کو خوش کرنے کے خیال سے اور احترام کی خاطر انھوں نے درمیان کی راہ نکالی کہ پہلی بات بھی کسی قدر صحیح ہے اور دوسری بھی۔“

Dr. Syed Taqi Abedi
Toronto, Canada


ماہنامہ اردو دنیا، جولائی  2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں