18/9/19

مہاراشٹر میں اردو تعلیم کی موجودہ صورتِ حال مضمون نگار: احرار اعظمی


مہاراشٹر میں اردو تعلیم کی موجودہ صورتِ حال
احرار اعظمی

کسی دور میں بمبئی کو ایک ریاست کا درجہ حاصل تھا اور اس کی سرحدیں گجرات کے مشہور تاریخی شہر احمدآباد تک پھیلی ہوئی تھیں مگر یکم مئی 1960میں مہاراشٹر کے نام سے ایک الگ صوبے کا قیام عمل میں آیاجس کی راجدھانی بمبئی (موجودہ نام ممبئی) ہے جوکہ مہاراشٹر کی راجدھانی ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی معاشی راجدھانی بھی ہے۔ صنعتی اعتبار سے یہ صوبہ دنیا میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی اس صوبے نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ خاص کر تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ موجودہ دورمیں جہاں ایک طرف ہندوستان کے مختلف صوبوں میں اردو کی صورت حال افسوس ناک اور اردو اسکولوں کی حالت خستہ ہے وہیں دوسری طرف مہاراشٹر میں اردو کی صورت حال دوسرے صوبوں کی بہ نسبت بہتر ہے۔ یہاں کے اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں کا مستقبل تابناک نظرآتا ہے اس لحاظ سے ریاست مہاراشٹرکے اسکولوں کو ملک کے دوسرے صوبوں کے اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں پر سبقت حاصل ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2018 تک کی معلومات کے مطابق مہاراشٹر میں حکومت سے منظورشدہ،5240اردو ذریعہ تعلیم اسکول قائم ہیں جس میں طلبا کی تعداد1329120ہے اور 39603 اساتذہ درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان اسکولوں میں ممبئی بلدیہ کارپوریشن، حکومت مہاراشٹر اور مختلف اداروں کے ذریعے چلائے جانے والے اسکول شامل ہیں۔
یہاں پر ایک زمانے سے اردو تعلیم کا،پرائمری سے سیکنڈری سطح تک معقول انتظام رہاہے۔ اردو تعلیم کے فروغ میں حکومت مہاراشٹر اور ممبئی بلدیہ کارپوریشن نے ہردور میں فراخ دلانہ رویہ اختیار کیا ہے اس لیے شہر اور مضافات کے ساتھ ساتھ ریاست کے دوسرے شہروں اور گاؤں میں گرام پنچایت، بلدیہ کارپوریشن اور حکومت مہاراشٹرکے اسکولوں میں اردوذریعہ تعلیم نظام قائم رہے۔ ریاست میں ایسے بہت سے پرائمری اور سیکنڈری اسکول ہیں جن کا ذریعہ تعلیم اردو ہے اس کے علاوہ کئی انگریزی،ہندی اور مراٹھی میڈیم اسکولوں میں بھی اردو بحیثیت ایک مضمون کے نصاب میں شامل ہے۔ ساتھ ہی اس بات کی کوشش بھی جاری ہے کہ جن اسکولوں میں اردو مضمون نصاب میں شامل نہیں ہے وہاں اسے نصاب میں شامل کیا جائے جس کے لیے باقاعدہ تحریک چلائی جارہی ہے۔ انجمن اسلام الانا ٹرسٹ، جس کے اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں کے علاوہ ریاست کے مختلف علاقوں میں انگلش میڈیم اسکول بھی ہیں جس میں انھوں نے ایک مضمون اردو کا رکھ کر جائزہ لیا تو اس کے نتائج کافی تسلی بخش ثابت ہوئے۔ 
مہاراشٹرکے اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والے کئی طلبا زندگی کے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دیتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ معروف نقاد، شاعر اور کالم نگارشمیم طارق نے اپنے متعدد مضامین میں،مہاراشٹر میں اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے کئی ایسی مشہور و معروف شخصیات کا تعارف پیش کیا ہے جنھوں نے اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں سے اپنا تعلیمی سفر شروع کیاتھا، اعلیٰ تعلیم کے لیے آگے بڑھے اور نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ان شخصیات میں مشہور فلم اداکار یوسف خان (دلیپ کمار)، عبدالرحمن انتولے (سابق وزیراعلیٰ حکومت مہاراشٹر)، وکیل مجید میمن(رکن راجیہ سبھا اور NCPکے قومی جنرل سیکریٹری)، عبدالرحیم اندرے(معروف جراح) اور فریدہ نائیک (I.A.S) وغیرہ جیسے کئی نام شامل ہیں۔
1832میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ ملا، مہاراشٹر میں اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں کی تاریخ 1827سے ملتی ہے۔1874 میں انجمن اسلام، 1927 میں خیرالاسلام اور 1928 میں کوکن مسلم ایجوکیشن سو سائٹی کے قیام نے ریاست میں اردو ذریعہ تعلیم کے فروغ میں نہایت اہم کردار اداکیاہے۔مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنا ریاستی حکومت کی آئینی ذمے داری ہوتی ہے اس لحاظ سے حکومت مہاراشٹر کی امدادکو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج مراٹھی اور انگریزی میڈیم اسکولوں کے بعد اردو اسکولوں اور طلبا کی تعداد تیسرے مقام پر ہے۔ عبدالشعبان کی تحقیق1 اور مہاراشٹرپراتھمک شکشا پریشد کی اطلاع کے مطابق اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں کے تاریخی ارتقا کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے:

اسکو لوں کی ارتقائی تاریخ
تعداد
1827 ۔ 1900
156
1901 ۔ 1950
750
1951 ۔ 1960
296
1961 ۔ 1970
413
1971 ۔ 1980
434
1981 ۔ 1990
679
1991۔ 2000
928
2001۔ 2014
1243
کل تعداد:
4899
یہ رپورٹ 2014 تک کی ہے(2018 تک کی تفصیل آگے آئے گی)۔ 2014 تک کتنے اردو اسکول، کس درجہ کے اورکون سی انتظامیہ کے تحت چل رہے تھے ان کی تفصیل اس طرح ہے:2
اقسام اسکول
گورنمنٹ
 لوکل باڈیز
پرائیویٹ
 ایڈیڈ
ان ایڈیڈ
ان ریکگ 
نائزڈ
تعداد
پرائمری
996
201
319
7
1523
پرائمری اور اپر پرائمری
1477
451
174
3
2105
پرائمری،اپر پرائمری اور سیکنڈری
3
5
9
0
17
پرائمری اور اپر پرائمری،
سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری
0
4
8
0
12
 صرف اپر پرائمری
0
1
1
0
2
اپر پرائمری اور سیکینڈری
17
154
59
0
330
 اپر پرائمری، سیکنڈری اورہائر سیکنڈری
13
220
20
0
253
صرف سیکنڈری
62
222
232
8
524
 سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری
3
50
17
0
70
صرف ہائر سیکنڈری جونیئر کالج
0
10
54
0
64
کل تعداد
2571
1418
893
18
4900
مہاراشٹر میں کل دس زبانوں کے اسکول ہیں (عربی مدرسے اس میں شامل نہیں ہیں)۔ 2014 تک مہاراشٹر کے سبھی اسکولوں کے طلبا کی تعداد 2,20,69,990 درج ہے جس میں مراٹھی ذریعہ تعلیم کے طلبا کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ انگریزی میڈیم کے طلبا کی تعداد نصف کروڑ کے قریب ہے۔ تیسرے نمبرپر اردوذریعہ تعلیم کے طلبا ہیں جن کی تعداد 12,99,629 ہے اس کے بعد دوسری زبانوں کے طلبا ہیں۔ مذکورہ بالا، بالترتیب دو زبانوں میں لڑکیوں کی بہ نسبت لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے جب کہ اردو میں لڑکوں کے مقابل لڑکیاں زیادہ ہیں۔ 
اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں میں طلبا کی تعداد ابتدائیہ میں زیادہ ہوتی ہے اور پھر بارہویں جماعت تک آتے آتے یہ تعداد نہایت ہی کم ہوجاتی ہے جس کا اندازہ ذیل میں 2014 کے اعدادو شمار کے جدول سے لگایا جاسکتا ہے:
اقسام درجہ 
طلبا کی تعداد
ابتدائیہ
6,78,030
ثانوی
3,64,600
دسویں جماعت
1,86,371
بارہویں جماعت
70,628
کل تعداد
12,99,629
2014 کے بعد سے 2018 تک، مہاراشٹر میں پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک، اسکولوں، طلبا اور اساتذہ کے اعداد وشمار کی تفصیلات، مہاراشٹر پراتھمک شکشا پریشدسے حاصل شدہ نئی معلومات کے مطابق اس طرح ہے:
سال
اسکولوں کی تعداد
لڑکے
لڑکیاں
کل طلبا 
کل اساتذہ 
15۔2014
5064
577145
764231
1341376
37685
16۔2015
5144
573893
763356
1337249
38512
17۔2016
5155
577360
767004
1344364
39060
18۔2017
5240
567707
761413
1329120
39603
چند سال قبل تک مہاراشٹرکے اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں کے تعلیم یافتہ طلبا مختلف مقابلہ جاتی امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے تھے مگر آج انگریزی میڈیم اسکولوں کی بڑھتی مقبولیت کے سبب صرف اردو ہی نہیں بلکہ ہندی اور مراٹھی میڈیم اسکولوں میں بھی طلبا کی تعدادروزبہ ر وز کم ہوتی جارہی ہے اور ان زبانوں سے بھی لوگوں کی دل چسپی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس افسوس ناک صورت حال کے باوجود ہندی اور مراٹھی میڈیم اسکولوں کی بہ نسبت اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں میں طلبا کا تعلیمی انقطاع کم ہے۔ موجودہ دور میں جیسے جیسے حکومت کی تعلیمی حکمت عملی بدلتی جارہی ہے اس کا اثر واضح طورسے تعلیمی اداروں پر دیکھا جاسکتا ہے اور خاص کر اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں پر حکومت کی ان حکمت عملی کے منفی اثرات کی نشاندہی واضح طور سے کی جاسکتی ہے۔ ان اسکولوں کے گرتے ہوئے معیارکی کئی وجوہ بیان کی جاسکتی ہیں جس میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
حکومت مہاراشٹراور ممبئی بلدیہ کارپوریشن کی یہ حکمت عملی کہ وہ اپنے تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کرے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ29مارچ 2017ءکو مجلسِ قائمہ(Standing Committee) میں2,31,163کروڑ کا جو بجٹ پیش کیا گیا وہ گزشتہ سال یعنی 17۔2016 کے مقابلے 8,447 کروڑ کم تھا۔ گزشتہ سال بھی تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کی گئی تھی اور مجموعی طور پر پچھلے دوسالوں میں تقریباً 19,942کروڑ روپیہ کی کمی کی گئی ہے جب کہ حکومت مہاراشٹراور ممبئی بلدیہ کارپوریشن کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے 1200اسکولوں کو ڈیجیٹل کرے گی اور کارپوریشن کے 100 اسکولوں کو نیم انگریزی میڈیم بنائے گی، نیز چھٹی جماعت سے دسویں جماعت تک ’بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ ‘ کی مہم شروع کی جائے گی مگر اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں پر اس مہم کا اثر کم دکھائی دے رہا ہے جس کی وجہ سے بعض اسکولوں کی حالت بہت خستہ ہے ساتھ ہی اساتذہ کی تقرری میں بھی کمی کی جارہی ہے جس کا اثر طلبا کی تعلیمی صلاحیت پر پڑ رہا ہے۔ اگر اسکولوں کا ماحول اچھا نہیں ہوگا، قابل اور لائق اساتذہ کی کمی ہوگی تو طلبا کو بہتر تعلیمی مواقع فراہم نہیں کیے جاسکیں گے۔
مہاراشٹرمیں پرائمری سطح سے یونی ورسٹی سطح تک اردو میں درس وتدریس کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کی تعدادغالباًبیالس ہزار سے زائد ہوگی مگر یہ شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ اساتذہ کی تقرری میں پھیلی بدنظمی، بدعنوانی اور تنگ نظری کے سبب ایسے اساتذہ کا انتخاب نہیںہوپارہاہے جو طلبا کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوسکیں،ان میں اردو زبان سے دل چسپی پیدا کرسکیں اور انھیں اس کی طرف متوجہ کرسکیں۔ جب کہ مہاراشٹرکی کئی تنظیمیں طلبا اور اساتذہ کی رہنمائی کررہی ہیں جس سے اردو ذریعہ تعلیم اسکولوں، اساتذہ اور طلبا کا معیار بلند ہوسکے۔ طلبا اور اساتذہ اس احساس کمتری سے باہر نکل سکیں کہ انگریزی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے ان کے اسکول کے طلبا کامیابی کی منزلیں طے نہیں کرسکتے۔
اس وقت ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح مہاراشٹر میں بھی انگریزی تعلیم اور انگریزی میڈیم اسکولوں کی طرف لوگوں کی رغبت بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور مراٹھی میڈیم اسکولوں میں بھی طلبا کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے جب کہ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر بچے کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں ہوتو اس کے لیے وہی کارآمد اور مفید ثابت ہوگی جس کی پرزور حمایت ہمارے ماہرین تعلیم نے بھی کی ہے اور ہماری توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کراتے ہوئے پرزور طریقے سے کہا ہے کہ جو کچھ ہم اپنی مادری زبان میں سیکھ سکتے ہیں وہ کسی دوسری زبان میں سیکھنا مشکل ہے۔ دوسری طرف انگریزی تعلیم اور انگریزی اسکولوں کے جو اخراجات ہیں وہ ایک عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا یہی وجہ ہے کہ سرکاری محکموں کے اعداد وشمارکے مطابق انگریزی میڈیم اسکولوں میں طلباکا،تعلیمی سلسلۂ انقطاع،دوسرے اسکولوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔
آج عالم کاری (Globalised) کے عہدمیں سماجی، سیاسی اور معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ، زبان کا ثقافتی پہلو زیادہ اہم ہے یا کہ اقتصادی؟۔ دوسری طرف صرف اردو ہی نہیں ہندوستان کی سبھی زبانوں کے ماننے اور جاننے والوں کا یہ تصور بن گیا ہے کہ حد سے زیادہ عصری تقاضے اور اقتصادی محرومیت پر قابو پانے کے لیے انگریزی تعلیم سے عالم کاری دنیا میں مارکیٹ کی زبان، روزگار کے امکانات، جدید ٹیکنا لوجی سیکھنے اور طرززندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ 
مہاراشٹر میں اردو کو ریاست کی دوسری زبان بنانے کے مطالبات جاری ہیں تاکہ اسے روزگار سے منسلک کیا جاسکے۔ یہاں کے اردو داں طبقے کو بھی یہ احساس ہوتا جارہا ہے کہ اردو زبان ثقافتی تحفظ کے لیے تو اہم ہو سکتی ہے لیکن عصری تقاضوں کو پورا اور معاشی حالات کو بہتر نہیں بنا سکتی۔ 
بارہویں کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے زبان و ادب کے علاوہ اور کوئی مضمون اردو میں نہیں ہے۔ ہندوستان میں صرف مولانا آزادنیشنل اردو یونی ورسٹی ہے جس نے سائنس، سیاسیات،سماجیات، معاشیات،تاریخ اور دیگر مضامین کو بذریعہ اردو نصاب میں شامل کرکے اردو زبان کو روزگار سے جوڑنے کی کوشش کی ہے لیکن ملک بھر میں اس کی یہ کوشش فاصلاتی تعلیم کے ذریعے انجام پارہی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اداروں نے مذکورہ بالا مضامین کی اصطلاحی اردولغت بھی ترتیب دی ہے جس سے اردو زبان کے طلبا استفادہ کرسکتے ہیں۔
ہندوستان کے اندر ریاستی سطح پر سرکاری، نیم سرکاری اور نجی دفاتر میں علاقائی زبان یا انگریزی زبان کا استعمال ہوتا ہے۔ یہاں کی ہر زبان (بشمول ہندی) پر علاقائی سرنامہ لگا ہوا ہے۔ اردو ہی وہ واحد زبان ہے جو اس علاقائی قید سے آزاد ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ اپنے حق سے محروم ہے جس کے ذمے دار غیر نہیں خود اس کے اپنے ہیں۔ جہاں تک انگریزی زبان کا تعلق ہے تو یہ عالمی سطح پر صرف رابطے ہی کی زبان نہیں بلکہ تمام شعبۂ حیات کی رگوں میں سرایت کر گئی ہے۔ لہٰذا اقتصادی استحکام کے لیے اسے سیکھنا ضروری ہے۔ صرف اردو ہی کیوں ! انگریزی زبان کے مقابل سبھی زبانیں اسی بدقسمتی کا شکار ہیں۔ اس بات کے مدنظر ہمیں اردو زبان کو انگریزی زبان کے مقابل رکھ کر نہیں دیکھنا چاہیے، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اردو زبان اب صرف ثقافتی تحفظ اور جذبات کے اظہار تک محدود ہے؟ نہیں! ایسا سوچنا احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے۔ دنیا کے ماہرین تعلیم اور مفکرین کا متفقہ یہ قول”بچوں کو تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے“ اب بھی صادق آتا ہے۔ انگریزی زبان بحرالکاہل کے اس بھنور کی طرح ہے جہاں دنیا کے سمندروں کا پانی بھنور کرتاہے۔اسی طرح دنیا کی سبھی زبانوں کے علوم و فنون،انگریزی میں منتقل ہوتے ہیں اور انگریزی کے ذریعے ایک زبان دوسری زبان کی تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون سے واقفیت حاصل کرتی ہے۔ 
مذکورہ بالا باتوں کے مدنظر ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری یا غیر سرکاری جو بھی ادارے اردو کی بقا کے لیے کوشاں ہیں وہ انگریزی سے تمام علوم و فنون کواعلیٰ تعلیمی پیمانے پر اپنی زبان میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں جیسا کہ دارالترجمہ نے کیاتھا اور انگریزی زبان کو اردو کے تقابل میں دیکھنے کے بجائے اسے عصری ضرورت کے طور پر لازمی قرار دیتے ہوئے اس کی اصطلاحوں کو اردوانے کے باوجود قوسین میں انگریزی اصطلاح کو بھی ساتھ رکھیں تاکہ طلبا ابتدا ہی سے انگریزی اصطلاحوں سے واقف ہوں اور اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی میں انھیں دقت پیش نہ آئے۔ 
اردو ذریعہ تعلیم کو بہتر بنانے اور فروغ دینے کے لیے مہاراشٹر میں اداروں کی سرگرمیاں بھی قابل ذکر ہیں۔ انجمن اسلام، خیرالاسلام، کوکن ایجوکیشن سوسائٹی، پونہ کالج اور اعظم کیمپس پونہ وغیرہ کے علاوہ ریاست کے مختلف اضلاع میں کئی نجی ادارے ہیں جواردو اسکول کے طلبا میں خود اعتمادی قائم کرنے اور حوصلہ افزائی کے لیے علمی مقابلہ جاتی پروگرام کراتے رہتے ہیں۔ ممبئی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں اردو سرٹیفکیٹ کورس، ڈپلوما اور ایڈوانس ڈپلوما کورس ہوتا ہے جس میں اکثریت غیر مسلم طلبا کی ہے جو اپنے ذاتی شوق یا فلمی دنیا سے جڑے ہونے کے لیے اردو سیکھنے آتے ہیں۔ 2019 میں این سی ای آرٹی کے اشتراک سے ممبئی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو نے3سے 13مارچ تک کا دس روزہ ورکشاپ(اردو اساتذہ کے لیے تربیتی کورس) کا انعقاد کیا تھا جس میں ریاست کے مختلف علاقوں کے نمائندہ اساتذہ نے شرکت کی تھی۔’ہندُستانی پرچار سبھا‘ چرنی روڈ،ممبئی، جس کی بنیاد1942ءمیں مہاتما گاندھی جی نے رکھی تھی، یہاں تین سالہ اردو کورس ہوتا ہے جس میں غیر ملکی طلبا بھی اردو سیکھنے آتے ہیں۔ اس طرح اردو کی بقا اور اس کے معیار کو قائم رکھنے کے لیے مہاراشٹر میں عملی طور پر کوششیں جاری ہیں۔ 
مختصر یہ کہ مہاراشٹرمیں اردو تعلیم کو سب سے زیادہ خطرہ اردو اساتذہ اور اردو بولنے والوں میں پنپنے والی احساس کمتری سے ہے اگر اس مسئلے پر قابو پالیا جائے تو یہ سمجھیے کہ اردو تعلیم کا مستقبل اس کے حال اور ماضی سے زیادہ شاندار اور کامیاب ہوگا۔

ماخذات اور حوالہ جات
1. ''Urdu and Urdu Medium Schools in Maharastra'' Abdul Shaban Economic & Political Weekly(EPW)July 18, 2015 Vol No 29 Page No 49
 .2 پراتھمک شکشا پریشد، حکومت مہاراشٹر، چرنی روڈ ممبئی

Shaikh Ahrar Ahmad (Ahrar Azmi)
Ph.D Research Scholar, Dept of Urdu
University of Mumbai, Kalina
Santacruz (East)
Mumbai - 400098 (MS)
Mob.: 09969460674 / 07498088534
Email: ahrarazmi1978@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر2019


 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے








2 تبصرے:

  1. بہترین۔
    حالات حاضرہ کی مکمل تصویر سامنے رکھی گی اس اتحریر کے ذریعہ ۔اردو زباں میں اثاثہ تو آج بھی سیر حاصل ہیے بس کمی ہیے تو اس اثاثہ سے دلچسپی پیدا کروانے والوں کی ۔اردو کی اہمیت اسی وقت اپنا مقام حاصل کریگی جب درج بالا اداروں کے علاوہ بھی دیگر تمام اداروں میں فروغ اردو پر پروگرامس' سیمنار ' ڈرامے ' مقابلے شعری و ادبی بنیاد پر رکھے جاے جس سے آنے والی نسل اسے اپنا معمول بناسکیں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. قومی اتحاد میں اردو کی کردار پر روشنی ڈالیے

    جواب دیںحذف کریں