25/1/24

میر کی شاعری میں مستعمل تلمیحات اور مضمون آفرینی:عبدالرحمن

خیالات کوایک دوسرے تک پہونچانے کے عمل کو ترسیل کہا جاہے۔ براہ راست ترسیل خیال میں تحریر، تقریر اور اشارے کو اہمیت حاصل ہے۔یعنی تحریرو تقریر اظہار خیال کے دو ایسے ذرائع ہیں جن میں بیان کی مختلف شکلوں(نثر اورنظم ) کی تمیز کی جاسکتی ہے۔نظمیہ عبارت میں ایجاز وجامعیت کو اولیت حاصل ہے جس کے حصول کے لیے بلاغت کلام میں رائج مختلف صنائع وبدائع کا استعمال کیا جاتاہے۔ابوالفیض سحرلکھتے ہیں:

چونکہ شاعری خوب صورت اظہار کا فن ہے اس لیے حسن بیان کی جوقدریں اس میں موجود ہوں گی وہ اس کی جمالیات کا حصہ ہوں گی۔ چنانچہ شاعری میں ایسے پیرایۂ اظہار اور اسلوب بیان کا اہتمام کرنا جو محض اداے مطلب کے لیے ضروری نہیں بلکہ کلام میں مزید حسن و لطافت اور مزید معنی پیدا کرے صنعت کہلاتاہے۔

...چونکہ کسی منظر یا حالت یا واقعے یا خیال کے بیان سے شاعر کا مقصد کوئی خاص اثر پیدا کرنا ہوتا ہے۔اس لیے وہ اپنے انداز بیان کے ذریعے اس منظر یا حالت یا واقعے یا خیال کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتاہےجس سے وہ مطلوبہ اثر پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکتاہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے صنعتوں کا سہارا اکثر ناگزیر ہوجاتاہے۔ 1

مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہوتاہے کہ شاعری میں حسن وایجاز پیدا کرنے کے لیے مختلف صنعتوں کا استعمال کیا جاتاہے۔چوں کہ شاعری سمندر کو کوزے میں بھرنے کا عمل ہے۔ اس لیے یہاں صنعتوں سے گریز ممکن نہیں بلکہ علم بیان کے ساتھ علم معانی کا کردار اہم ہوتا ہے۔ تلمیح علم معانی کا ایک اہم جز ہے، جس سے کلام میں ایجاز، سلاست، تہداری اور خوبصورتی پیدا کی جاتی ہے۔ بقول ثوبان سعید :

’’نثر میں ادیب کو یہ آزادی رہتی ہے کہ وہ اپنے تصورات اور خیالات کو تفصیل اور وضاحت سے پیش کرسکے لیکن شاعرکے لیے آزادی اور رعایت کی جولان گاہ اتنی وسیع نہیں ہوتی۔ اس لیے شاعر سے اس امر کا تقاضا کیا جاتاہے کہ وہ رموز وعلائم، اختصار اور ایجاز کے سروسامان کے ساتھ وادی شعر کا سفر طے کرے۔ اس زاویے سے ’تلمیح ‘ ایک مہتم بالشان صنعت ہے کہ اس کی مدد سے شاعر بڑی سے بڑی بات کو اور طول طویل واقعات کو چند لفظوں کی مدد سے بہ سہولت اداکردیتاہے۔ ‘‘ 2

مذکورہ بالا اقتباس سے معلوم ہوتاہے کہ تلمیح ایک ایسی صنعت ہے جس کے ذریعے کلام میںایجاز و اختصار کے ساتھ حسن وتاثیر پیدا کیا جاتاہے۔ متکلم شعری حسن کو برقرار کھتے ہوئے کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معلومات پیش کرنے کا اہل ہوجاتاہے۔اور مخاطب بغیر کسی اکتاہٹ کے ان معلومات سے آگہی حاصل کرتا ہے۔ اس صنعت کی بڑی خوبی یہ ہے کہ شاعرتلمیحاتی لفظ اور اس لفظ سے منسوب واقعے کے ذریعے ایک ایسا معنی خلق کرتاہے جو بسا اوقات نہ تو اس لفظ میں موجودہوتاہے اور نہ ہی اس لفظ سے منسوب واقعے میں بلکہ ان دونوں (لفظ اور منسوب واقعے )کے درمیان ایک باریک روہوتی ہے جس کے ارتباط سے موجودہ واقعے میں معانی کا نیا کینوس بلند ہوتاہے۔اس عمل کوخیال بندی اورمضمون آفرینی سے تعبیر کیا جاتاہے۔مثال کے طور پرمیر کا یہ شعر دیکھیں          ؎

جہاں میں گریہ نہ پہنچا بہم مجھے دل خواہ

پہ نوح کے سے میں طوفاں ہزار لایا ہوں

(میرمحمد تقی میر)

 شعری لفظیات پر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ عاشق وصال یار میں بہر ممکن سرگرداں ہے لیکن محبوب کی طرف سے کوئی ایسا اشارہ نہیں مل رہا ہے جس سے اس کی مراد پوری ہو۔حد تو یہ ہے کہ معشوق عاشق کی گریہ وزاری سے لاعلم ہے۔اس لیے عاشق کہتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ میرے معشوق کو میری آہ وبکا کی خبر نہ ہو جب کہ شدت عشق کی وجہ سے جو آنسو نکل رہے ہیں اس سے ’طوفان نوح ‘ کا منظر بپا ہے۔یہاں لفظ ’طوفان نوح‘ ایک تلمیح ہے۔متکلم نے نوح (علیہ السلام) کی قوم پروقوع پذیر طوفان کی تفصیل بتانے کے بجائے صرف ’طوفان نوح‘ کہہ کر عاشق کے الحاح وزاری کی شدت کو اجاگر کیاہے۔

ظاہر ہے کہ آنسو سے ’طوفان نوح‘ کی طرح پوری دنیا کا سیلاب زدہ ہونا ناممکن ہے۔لیکن اس طوفان میں پانی اتنا زیادہ تھا کہ ساری دنیا اس میں غرق تھی، اس لیے یہاں پانی کی کثرت سے آنسو کی کثرت کامنظر نکالا گیا ہے اور اس منظر سے یہ ثابت کیا ہے کہ محبوب کی  تڑپ میں عاشق کا رورو کر برا حال ہوگیاہے۔لیکن اس شعر میں مضمون آفرینی یہ کی گئی ہے کہ جب عاشق کے رونے کی وجہ سے پوری دنیامیں سیلاب نوح (علیہ السلام) کا منظر ہے تو یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ محبوب کومیری جگرسوزی کا علم نہ ہو!سچ تو یہ ہے کہ اسے مجھ سے کوئی رغبت ہی نہیں۔

معشوق کی اس طرح کی بے وفائی اور بے توجہی کے مفاہیم کو اکثر شعرا نے اپنے اپنے انداز سے برتاہے لیکن میر کے اس شعر میں جو فنی چابک دستی نظر آتی ہے وہ انھیں کے دوسرے اشعار میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیں:

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

(میرمحمد تقی میر)

آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ دوسرے شعر میں موجود عاشق صابر ہے اور قانع ہے۔ جب کہ پہلے شعر کا عاشق جوجھارو اورمعشوق کی چوکھٹ کی مٹی کھانے والا ہے۔ یعنی پہلے شعر کے عاشق کو یقین ہے کہ اس کی لگن اورمحبت کی خبر اس کے محبوب کو مل چکی ہے۔اس لیے وہ محبوب کی اس لا علمی پر سوال بھی قائم کرتاہے۔جب کہ دوسرے شعر کا عاشق قناعت پسند ہے اور وہ کسی طرح کی کوئی دلیل نہیں دیتا بلکہ کہتا ہے کہ اگر میرا محبوب میری تڑپ کونہیں سمجھتا ہے تو کوئی بات نہیں معشوق کے تئیں میری تڑپ تو سارے عالم پر آشکارہے۔

غورکریں تو معلومو ہوگا کہ دونوں ہی شعر کا مضمون ایک ہے۔لیکن جس شعر میں ’تلمیح‘ کا استعمال کیا گیا ہے اس کی معنویت اور تہداری کی وسعت زیادہ ہے۔ مختصر لفظوں میں کہا جاسکتاہے کہ میر نے اس تلمیح کے ذریعے عاشق نامراد کے آنسو بہانے کی کیفیت کو’ طوفان نوح‘ کی کیفیت سے مشابہت دے کر عاشق کی ’الحاح وزاری‘ کے ساتھ ساتھ معشوق کے تجاہل عارفانہ پرسوال قائم کیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اسی طرح کی معنوی ترسیل کو مضمون آفرینی قرار دیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:

’’آج میں نے ایک غزال دیکھا،

شیخ جرجانی کہتے ہیں کہ اس متن میں یہ کہا گیا ہے کہ آج میں نے ایک حسین عورت دیکھی، کیونکہ ’غزال‘ سے حسین عورت کا استعارہ کرتے ہیں... شیخ جرجانی کے خیال میں استعارہ براہ راست معنی کا حامل ہوتا ہے، اس لیے ہم ’غزال‘ کے معنی ’حسین عورت‘ قرار دے سکتے ہیں، لیکن خود جرجانی نے کہا ہے کہ ’حسین عورت‘ کا ترجمہ ’غزال‘ نہیں ہے اور نہ ’غزال‘ کا ترجمہ ’حسین عورت‘ ہے۔ یعنی جب آپ یہ کہیں کہ میں نے ایک حسین عورت دیکھی، تو آپ یہ نہیں کہہ رہے ہیں میں نے ایک غزال دیکھا۔ علی ہٰذالقیاس، یہ درست نہیں کہ جب میں کہتا ہوں ’ میں نے ایک غزال دیکھا‘ تو اس کا ترجمہ ’میں نے ایک حسین عورت دیکھی‘ ہوسکتاہے۔ لہٰذا معنی اور مضمون آفرینی ایک ہی شے نہیں ہیں۔

اصل صورت حال یہ ہے کہ ہر متن کسی استعارے، کنائے، یا استعاراتی طرز فکر کو کام میں لاتا ہے۔ مثلا ’سورج نکلا‘کنایہ ہے (1) رات ختم ہونے کا (2) صبح ہونے کا (3) بادل یا تاریکی کے چھٹ جانے کا۔ لہٰذا ’سورج نکلا‘ میں سورج کے نکلنے کا مضمون ہے اور یہ جن جن چیزوں کا کنایہ ہے، وہ سب اس کے معنی ہیں... پھر یہ تینوں کنایاتی معنی مزید استعاراتی یا کنایاتی جہت کے حامل ہوسکتے ہیں۔مثلاً ’بادل کا چھٹ جانا کنایہ/استعارہ ہوسکتاہے ظلم واستبداد کا دور ختم ہوجانے کا۔مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں ’’ لوگ ظلم کے اندھیروں میں سسک رہے تھے۔ جب سورج نکلا تو ان کا رنج دورہوا‘‘۔ اس کے معنی ہوئے ’’ لوگوں پر ظلم وستم کی تاریکی (=ظلم وستم کی لائی ہوئی بے چارگی) حاوی تھی۔ جب وہ ختم ہوئی (ظلم وستم ختم ہوئے = بے چارگی ختم ہوئی) تو ان کی مصیبت کٹی‘‘۔ لہٰذا ’سورج نکلا‘ کا مضمون اور معنی برابر نہیں ہیں۔ بلکہ یہاں تو اس فقرے کے معنی کے بھی معنی ہیں۔3

مندرجہ بالا اقتباس پر غورکریں تو معلوم ہوگاکہ جس طرح ایک مخصوص پس منظر میں ’سورج کے نکلنے کا‘ معنی مختلف ہوجاتاہے اسی طرح تلمیحاتی الفاظ کے معانی بھی وقت اور حالت کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔مثال کے طور پر’رام کہانی ‘کی تلمیح کے ذریعے ’زندگی میں یکے بعد دیگرے پیش آنے والے مصائب سے دوچار‘ہونے کا معنی مراد لیا گیا ہے۔پھر اس معنی سے ’منازل عشق سر کرنے میں صوفیہ کی زندگی میں دل سوزی اور نفس کشی کی مضمون آفرینی کی گئی ہے۔ شعر دیکھیں          ؎

فرصت خواب نہیں ذکر بتاں میں ہم کو

رات دن ’رام کہانی‘ سی کیاکرتے ہیں

(میرمحمد تقی میر)

شعر میں مستعمل لفظیات پر غور کریں تو آپ کو کہیں کوئی ایسا لفظ نظر نہیں آئے گا جس سے کسی ایک پریشانی کے بعد دوسری پریشانی میں پڑنے، یا ایک مصیبت سے چھٹکارا ملنے کے بعد دوسری مصیبت میں گھرنے کا معنی پیدا ہوتاہو، لیکن لفظ’رام کہانی‘ پر غورکریں اور ’رام‘ سے متعلق تاریخی پس منظر کو دیکھیں تو معلوم ہوگاکہ ایک ’شہزادہ ‘ ہونے کے باوجود ’رام‘نے مدتوںبن باس کی زندگی بسر کی اور اس میں بھی متعد پریشانیوں کا سامنا کیا لیکن کہیں ہار نہیں مانی۔

اب ایک صوفی کی زندگی پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ منازل تصوف (عالم ناسوت، عالم جبروت، عالم ملکوت اور عالم لاہوت)  کو پار کرنے اور’عالم لاہوت‘ تک پہنچنے کے لیے بدروحوں سے مستقل صف آرا رہتا ہے۔ اس لیے ’رام‘ اور’ صوفی‘ کی زندگی میں ’مستقل مسائل سے دورچار رہنے ‘ کی ایک مشابہت ہے۔

جس طرح’رام‘  اپنے باپ کی خوشی کے لیے پوری زندگی  دل سوزی کرتے رہے اور راستے میں حائل تمام مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔ اسی طرح ایک ’صوفی‘ اپنے محبوب کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہرطرح کی آرام و آسائش کو ترک کرکے مستقل دل سوزی کرتا ہے۔ اس لیے یہاں ’رضائے رب‘ کی خاطر اپنی خوشیوں کو قربان کرنے میں ’رام‘ اور ’صوفی‘ کی زندگی میں بھی مماثلت ہے۔

چونکہ صوفیہ کی دل سوزی کا معاملہ روحانی ہوتاہے اور روحانی معاملات کا کوئی منظر نہیں ہوتا’ رام کی زندگی کے معاملات ‘ عوام الناس میں رائج اور مشہور ہیں اس لیے یہاں’رام کہانی ‘ کے ذریعے عاشق کی زندگی میں ہورہی روحانی اتھل پتھل کو بیان کیاہے۔ تاکہ منازل عشق کے حصول میں در پیش دشواریوںکا منظر پیش کیا جاسکے۔

اب ’رام‘ اور عاشق حقیقی( صوفی) کی زندگی مشابہت اور مماثلت کے بعدشعر کا مفہوم ہوگا کہ جس طرح ’رام‘ نے اپنے باپ کی خوشی کے لیے محل کی زندگی ترک کرکے ’بن باسی‘ رہ کر متعدد مصائب کوہنسی خوشی برداشت کیا اسی طرح ایک عاشق صادق معشوق حقیقی کی طلب میں دنیا وفیہا سے بے نیاز ہوکر منازل عشق سر کرنے میں مصروف رہتاہے۔محبوب کی تسبیح واذکارکے علاوہ کسی اور طرف اس کا دھیان نہیں جاتا۔یعنی مندرجہ بالا شعر میں ’رام کہانی‘ کی تشبیہ کے ذریعہ رضائے الٰہی کی تلاش میں نفس کشی میںاور استغراق کا مفہوم پیدا کیا ہے۔  اسی قبیل کا ایک اور شعر دیکھیں          ؎

منزل کی میر اس کی کب راہ تجھ سے نکلے

یاں خضر سے ہزاروں مر مر گئے بھٹک کر

(میرمحمد تقی میر)

چونکہ ’خضر‘(علیہ السلام )کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ راستہ بھٹک جانے والوں کو سیدھا راستہ دکھاتے ہیں اور درست راستہ وہی دکھا سکتاہے جسے اس وادی کا علم ہو۔ اس لیے خضر صفت لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ راستوں کے نشیب وفراز سے واقف ہوں اور جب ایسے لوگ جو دوسروں کو راستہ دکھایا کرتے ہیں وہ خودہی بھٹک جائیں اور صرف بھٹکیں ہی نہیں بلکہ بھٹک کر مرجائیں تو یہ لازم آتا ہے کہ وہ راستہ پرآشوب ہوگا۔

شعر میں مستعمل لفظیات پر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ پورے شعر میں کوئی بھی ایسا لفظ نہیں ہے جس کا لغوی معنی رہ گذر کی دشواری ہو۔لیکن ’خضر صفت لوگوں کابھٹک کر مرنا ‘اس بات کی دلیل ہے کہ اس منزل (وصال یار)کی راہ پر خطر ہے۔میر نے منازل عشق کی اسی کٹھنائی کو مہمیز کرنے کے لیے یہاں تلمیح کا استعمال کیا ہے۔ایسی صورت میں شعر کا صحیح مفہوم ہوگا کہ عشق کے منازل طے کرنا آسان کام نہیں اس وادی میں کچھ ہی لوگ ’عالم لاہوت‘ تک رسائی حاصل کرپاتے ہیں۔

اس تجزیے کی روشنی میں شعری محاسن اورمعنی آفرینی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ میرنے ایک تفصیل طلب مضمون کو چند لفظوں کی مدد سے اس طرح پیش کیا ہے کہ سلاست، سادگی اور حسن بیان میںبھی اضافہ ہوگیا ہے۔ اسی لیے کہا جاتاہے کہ مضمون آفرینی کے ضمن’ میں علم معانی‘ کا کردار نہایت اہم ہے۔ جس کی بدولت اشعار میں نئے معنی اور تازہ مضامین کی تخلیق ممکن ہوتی ہے۔جو کہ میر کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ پروفیسر احمد محفوظ لکھتے ہیں:

’’اکثر تذکرہ نگاروں نے میر کو ’معنی ایجاد‘ کہا ہے، اور یہ بھی لکھا ہے کہ میر کو ’معنی بیگانہ‘ اور ’مضامین تازہ‘ کی تلاش سے گہرا شغف ہے۔ ملحوظ رہے کہ یہاں معنی ایجاد اور معنی بیگانہ کی تراکیب میں لفظ ’معنی‘ مضمون کے مترادف کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا ان الفاظ سے بھی یہی ظاہر ہوتاہے کہ میر صاحب کو نئے نئے مضامین کی تلاش اور مضمون میں نئے پہلو پیدا کرنے کا غیر معمولی شوق تھا۔4

اس اقتباس پر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ’ نت نئے معانی کی تخلیق ‘ سے میرکاگہراشغف ہے اور اس شغف کو بروئے کار لانے کے لیے بلاغت کلام کی مختلف صنعتوں کا استعمال کیاجاتا ہے۔اس لیے میر نے جہاں تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور مجاز جیسی صنعتوں سے معنی آفرینی کی ہے وہیں ’تلمیح‘کے استعمال اور اس کے مختلف زاویوں سے معانی کے نت نئے دریچے وا کیے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیں         ؎

تیشہ سے کوہکن کے کیا طرفہ کام نکلا

اپنا تو ناخنوں میں اس طور کا ہنر تھا

(میرمحمد تقی میر)

اس شعر میں تلمیح کی وجہ سے پیدا ہونے والی فن کاری پر غور کریںتو معلوم ہوگا کہ میر نے یہاں’ تیشۂ کوہ کن‘ کا موازنہ ’اپنے ناخن‘ سے کرتے ہوئے مشغلۂ کوہ کن کو کم تر ثابت کیا ہے۔ تاکہ رہ عشق کی دشواری کا ایک مشکل ترین منظر مخاطب کے ذہن میں کھینچا جاسکے۔

کوہ کن (فرہاد)کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے کو ہ بے ستون تیشے سے کاٹ کر جوئے شیر نکالی تھی۔پہاڑ کو تیشے سے کاٹنا عام بات ہے۔ لیکن متکلم کا دعویٰ ہے کہ اس میں کوئی نیاپن نہیں ہے۔بلکہ نیاپن توتب ہوجب وہ کام تیشے کے بجائے ناخن سے کردکھایا جائے۔ ظاہر ہے کہ ناخن بدن کا ایک نازک اور کمزور حصہ ہے اس لیے کوہ بے ستون کو ناخن سے کاٹنے والا؛ پھاوڑے سے کاٹنے والے کی بہ نسبت زیادہ جری ہوگا۔ جس سے نتیجہ نکلتاہے کہ دل سوزی عشق کے سامنے کوہکنی کا عمل کچھ بھی نہیں ہے۔

ایسی صورت میں ’تلمیح‘ سے ہونے والی معنوی ترسیل پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ شیریں کی طلب میں فرہاد کی مشہور زمانہ کوہ کنی معشوق حقیقی کی طلب میں درکار دل سوزی سے کہیں زیادہ کم ہے۔یعنی شیریں کے حصول کے لیے فرہاد نے جو دل  سوزی کی تھی وہ میری دل  سوزی اور نفس کشی کے سامنے کچھ بھی نہیں۔

مختصر یہ کہ میرنے اپنے کلام میں تلمیحات کے برمحل استعمال اوراس میں موجود مناظر سے معنی کی مختلف الجہات دنیا آباد کی ہے۔  لیکن وہ معنوی دنیالفظیاتی نظام حسن اورخصائص شعری کو کہیں مجروح نہیں کرتی بلکہ ان تمام شعری محاسن کا احاطہ کرتی ہے جس کا قاری متقاضی ہوتاہے۔

حواشی:

  1.       درس بلاغت، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،1997،ص39
  2.       فرہنگ تلمیحات: ثوبان سعید، مطبوعہ نیو انڈیا آفسیٹ پرنٹرز، نئی دہلی،2011، ص 24-25
  3.       شعر شور انگیز، جلد چہارم، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، 2008 ، ص 73
  4.       بیان میر، ڈاکٹر احمد محفوظ، مطبوعہ ایم  آر پبلی کیشنز، 2013، ص 118-119

 

Abdur Rahman

F2.9/16 Shaheen Bagh

Jamia Nagar Okhla New Delhi


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں