24/1/24

ذرائع ابلاغ اور ہندوستان کے اردو اخبارات:محمد احتسام الحسن

میڈیا کا رشتہ تخلیق انسانی سے جڑا معلوم ہوتا ہے اور اسی وقت سے اس کا بھی وجود پایا جاتا ہے۔ دنیا میں جب انسانوں کی تخلیق ہوئی تو انھیں ایک دوسرے تک پیغام پہنچانے کی ضرورت پڑی۔ ابتدا میں اشاروں کے ذریعے یہ کام عمل میں آنے لگا، پہلے یہ اشارے ذاتی تھے پھر عوامی بن کر سامنے آئے،پھر ایک لاکھ سال قبل مسیح غیرترقی یافتہ زبان امبرائنک کی شروعات ہوئی جس نے میڈیا اور ابلاغ کے عمل کو کافی تقویت پہنچائی اور اپنی بات بہت سے لوگوں تک پہنچانا آسا ن ہو گیا۔ ان آوازوں میں بھی صوتی اشارے ہونے لگے۔ ابتدا میں ذاتی اور پھر عوامی، مگر یہ زبان اور آواز موجود لوگوں تک ہی پہنچائی جاسکتی تھی۔ اسے محفوظ رکھنے کا ذریعہ نہیں تھا۔ اس ضرورت کے پیش نظر تحریر کی ایجاد ہوئی۔ تیس ہزار سال قبل مسیح کے بہت سے ایسے پتھر اور دیگر ساز و سامان ملتے ہیں جن پر ایسی لکیریں پائی گئیں جو تحریر کی ایجاد کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ انسانوں نے بہت پہلے ہی تحریرکو ایجاد کردیا تھا۔ دس ہزار سال قبل مسیح بیل وغیرہ کی تصویر بنا کر اور مختلف لائنیں کھینچ کر تصویری خط کی ایجاد ہوئی،پھر جوںجوں زمانہ ترقی کرتا گیا یہ تصویریں مختصر ہوتی گئیں اور لکیروں میں بدل گئیں اور پھر علامتی خط کی شروعات ہوئی، پھر انھیں علامتوں نے حروف تہجی کی شکل اختیار کی اور اس طرح تمام حروف کی آواز متعین ہوگئی اور اس طرح ہر عہد میں ابلاغ کا عمل جاری رہا اور لوگ ایک دوسرے تک اپنے خیالات، افکار، آرا  اور اطلاعات پہنچاتے رہے ہیں۔

اس حوالے سے او پی ورما لکھتے ہیں:

’’غاروں میں ہندوستان، چین،مصر اور بابل کی مصوریاں یہ جاننے کے ذرائع ہیں کہ ترسیل کو کیسے سمجھا جاتا ہے اور ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ارسطو کی کتاب ’فن خطابت‘ جو 2500 سال سے بھی زیادہ پہلے لکھی گئی تھی، عوامی بات چیت کے لحاظ سے ترسیل کا سب سے زیادہ مکمل،واضح اور مستند ذریعہ ہے۔ اس نے عوامی بات چیت کے پانچ اہم جز اختراع، ترتیب دینا، طرزبیان/ اسلوب بیان، حافظہ اور ترسیل کی نشاندہی کی ہے‘‘ 1

751 ق م میں ایک قلمی خبرنامہ ایکٹا (Acta) جاری ہوا۔ محققین یہیں سے پرنٹ میڈیا کا آغاز بتاتے ہیں۔ مگر اس دور میں کاغذ موجود نہیں تھا۔ لوگ چمڑے، پتھر، ہڈی اور درخت کی چھال وغیرہ پر لکھتے تھے،اس سمت  چین نے ترقی کی اور ریشم کے کپڑوں پر کتب،رسائل اور خبرنامے لکھے جانے لگے مگر ریشم کمیاب بھی تھا اور مہنگا بھی اس لیے بہت زیادہ استعمال نہیں کر سکتے تھے۔اس ضرورت کو چین کے تساہل لن نامی شخص نے پرانے سوتی کپڑوں، لکڑی کی چھلن اور دیگر بوسیدہ چیزوں کو شامل کرکے 501ء میں کاغذ ایجاد کیا،جس نے میڈیا کے ارتقا میں اہم کردار اداکیا اس کے بعد ایران میں عربوں کے قابض ہونے کے بعد آٹھویں صدی عیسوی میں سمر قند میں کاغذ کا پہلا کارخانہ قائم ہوا اس کے بعد مختلف ذرائع سے ہر دور میں ابلاغ کا عمل جاری رہا اور651ء میں شہر وینس میں ایک شخص قلمی نوٹ لے کر کھڑے ہوکر خبریں سناتا تھا اور ہر خبر سننے والے سے وہاں کا رائج سکہ ’گزیٹا‘ (Gazetta) وصول کرتا تھا۔ اسی گزیٹا سے گزٹ نام پڑا اور آج اخبارات اور بہت سے سرکاری کاغذات پر گزٹ کا اطلاق ہوتا ہے، سولہویں صدی کے سلسلے میں ایک رپورٹ ملتی ہے کہ انگلستان میں اگر کوئی،واقعہ،حادثہ یا ایسا معاملہ پیش آتا جس کا تعلق عوام سے ہو تو حکومت نیوز شیٹ کے نام سے ایک خبرنامہ جاری کرکے عوام کو اطلاع دیتی تھی،اس کے علاوہ اس عہد میں ڈرامے وغیرہ بھی واقعات کو عملی شکل میں پیش کرکے ابلاغ کا فریضہ انجام دے رہے تھے،سنیما اور فلم کی ایجاد میں ڈرامے کو اہم کڑی کہا جا سکتا ہے۔

ہزاروں سال قبل عملیہ فراعنہ نے مصریوں کے حالات حاضرہ کو عوام تک پہنچا نے کی ضرورت محسوس کی۔ اس سلسلے میں ہم ایک پرانے مسودے پر تصویری رسم الخط میں ایک عبارت دیکھتے ہیں۔ یعنی اس وقت تصویروں کے ذریعے ابلاغ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ یونانی کتبے بھی دریافت ہوئے ہیں جن میں بتایا گیا کہ حکمران اور رعایا قوانین کے پابند ہیں۔ قدیم عراق کے قوانین حمورابی اور قدیم ہندمیں اشوک کے کتبات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ مختلف خطوں میں عوام سے رابطہ قائم رکھنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔

 تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں خبریں حاصل کرنے کے لیے کوئی منظم ادارہ موجود نہ تھا،حضرت عمرؓ کے عہد میں اس طرف قدم بڑھایا گیا، عہد عباسیہ میں خلافت پر ایرانی رنگ غالب آیا تو خبروں کے لیے ایران کی تقلید کی گئی، خلیفہ ہارون الرشید نے اس محکمے یعنی ذرائع ابلاغ (برید) کے محکمے کو مضبوط کیا۔ کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے تربیت دی جاتی، محمد بن تغلق نے نظام خبر رسانی میں کمال پیدا کیا،برصغیر ہند میں پہلی مرتبہ خبروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے کے لیے تیز رفتار ذرائع استعمال کیے گئے۔الغرض جب انسانی معاشرہ کسی قدر منظم ہواخبروں کی ترسیل کی کئی صورتیں رائج ہوئیں۔

ذرائع ابلاغ میں جدید صحافت کا آغاز ویانا (Vienna) سے ہوا جہاں لوگ روزانہ کی خبریں اخبار میں ہاتھ سے تحریر کرکے سڑکوں پر پڑھا کرتے تھے، یہ خبریں حکومت کی نگرانی میں تحریر کی جاتی تھیں۔ان خبروں پر ایک گزیٹا (Gazetta) قیمت وصول کی جاتی تھی، گزیٹا اس زمانے میں رائج ایک چھوٹا سکہ تھا، پھر گزیٹا کا استعمال رائج کرنسی کے بجائے اس اخبار کے لیے بولا جانے لگا جو گزیٹا سکہ دے کر خریدا جاتا تھا۔ اس کے بعد یوروپی زبانوں میں گزیٹا اخبار یا مطبوعہ نیوز اشاعتوں کے لیے بولا جانے لگا، اسی کے ساتھ یوروپی ممالک میں اخبارات کی بہتات ہوگئی۔یہاں تک کہ بعض حکومتوں نے اپنے نقطہ نظر کے اظہار کے لیے اخبارات شائع کیے۔ آگے چل کر سولہویں صدی عیسوی میں برطانوی حکومت نے ہاتھ سے تحریر کردہ اخبارات نکالے جن کا نام نیوز شیٹ (News Sheet) رکھا۔ یہ اخبارات حکومت سے تعلق رکھنے والی تمام خبروں کا احاطہ کرتے تھے۔ 2

دنیا میں مطبوعہ صحافت کا آغاز 974عیسوی میں ’ تی باو ‘ سے ہوا، جس کے معنی ’محل کی خبریں ‘ ہیں پھر اس کا نام پیکنگ گزٹ رکھ دیا گیا۔3یوروپی ممالک میں مطبوعہ صحافت کا آغاز سترہویں صدی عیسوی میں ہوا اور چالیس سال کے عرصے میں وہ تمام یوروپی ممالک سے شائع ہونے لگے۔ پہلا اخبار جرمنی سے اریزا رلیشن اوڈر زیٹنگ (Ariza relation Oder Zeiting) تھا، جو 1609 عیسوی میںجاری ہوا۔برطانیہ سے پہلا مطبوعہ اخبار ویکلی نیوز (Weekly News) 1620 عیسوی میں جاری ہو ا، فرانس سے وہاں کے مشہور صحافی ٹیو فراسٹ نے 1631عیسوی میں گزٹ کے نام سے جاری کیا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ امریکہ سے 1690 عیسوی میں پبلک اکورینسیز (Public Occrrences) جاری ہوا۔4

بر صغیر ہند میں مطبوعہ صحافت کا آغاز انگریزی اخبار ہکیز گزٹ (Hickays Gazette) سے ہوا جو کلکتہ سے 1780عیسوی میں جاری ہوا، اس کا نام ہکیز بنگال گزٹ یا کلکتہ خبر ایڈورٹائزر بھی تھا، لیکن عام طور پر بنگال گزٹ یا اس کے مالک و مدیر کے نام کی مناسبت سے ہکیز گزٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1779عیسوی میں اپنا چھاپہ خانہ قائم کیا اور اس کے اگلے برس ہکی نے باغیانہ قدم اٹھاتے ہوئے مذکورہ اخبار جاری کرکے برصغیر میں ذرائع ابلاغ کو مطبوعہ صحافت کے ذریعے آگے بڑھایا۔ اس اخبار کا پہلا شمارہ 29جنوری 1780 عیسوی کو شائع ہوا۔ یہ چار صفحات کا چھوٹا سا اخبار تھا، جس میں دور و نزدیک کے نامہ نگاروں کے مراسلے شائع کیے جاتے تھے۔کبھی کبھی یوروپ سے آئی ہوئی خبریں اختصار کے ساتھ شائع کی جاتی تھیں۔اس اخبار کی ایک ناقص فائل برٹش میوزیم لندن اور نیشنل لائبریری کلکتہ میں محفوظ ہے۔5

ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کے مطابق:

 ’’1800عیسوی میں جنوبی ہند میں ایک شخص نے وسیع پیمانے پر قلمی اخبارات تقسیم کیے، جن میں برطانوی فوج کے دیسی سپاہیوں اور ہندوؤں اور مسلمانوں سے پرجوش اپیل کی گئی کہ وہ جرأت سے کام لے کر فرنگیوں کے خلاف برسرپیکار ہوجائیں اور انھیں ملیامیٹ کرکے دم لیں۔‘‘6

ان قدیم مطبوعہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے قوموں میں اتحاد کی کوشش کی گئی۔ یہ کوشش کتنی بار آور ثابت ہوئی، اس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ اس سے ذرائع ابلاغ کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر سامنے آتی ہے۔

ہندوستان میں جن لوگوں نے انگریزی صحافت کی ابتدا کی اور پھر اردو اور دیگر ہندوستانی زبانوں کی صحافت نے جنم لیا، وہ یورپ کے پروردہ تھے۔ انگلستان میں اگرچہ اخبارات کی آزادی کے حق کو 1641 میں تسلیم کیا گیا تھا مگر جس واقعے نے اس معاملے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا وہ 1789 میں رونما ہونے والا فرانسیسی انقلاب ہے جس نے انسان کو شخصی آزادی اور مساوات کے قانونی حق سے سرفراز کیا۔

1791میں فرانس کی قومی اسمبلی نے جو جمہوری دستور مرتب کیا اس کی گیارہویں دفعہ کے مطابق فرانس کے شہریوں کو تحریر و تقریر کے ساتھ، اخبار نویسی کی بھی قانونی آزادی دی گئی۔انسانی حقوق کے سلسلے میں تاریخ کی یہ بہت بڑی جست تھی جس نے آنے والے زمانے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔جدید صحافت بھی انھیں تبدیلیوں کے بطن سے پیدا ہوئی۔

ہندوستان میں جب جدید صحافت کی ابتدا ہوئی تو اس کے پس پشت نہ صرف فرانسیسی انقلاب کی روایات تھیں بلکہ خود انگلینڈ میں سیاسی انقلاب آچکا تھا اور بادشاہوں کے مقابلے میں پارلیمنٹ کی برتری کو تسلیم کیا جاچکا تھا۔ ان سب کے نتیجے میں وہاں لبرل خیالات کی ایک لہر سی چل پڑی تھی۔ لیکن ہندوستان انگلینڈ کی ایک نو آبادیات تھی جہاں براہ راست تاج برطانیہ کے بجائے وہاں کی ایک تجارتی کمپنی کی حکومت تھی۔ اس لیے یہاں تحریر و تقریر کی وہ آزادی نہیں تھی جس کے وہ جویا تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں صحافت کی ابتدائی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ اظہار رائے کی آزادی اور اختلاف کے حق کے حصول کے لیے جدوجہد اور قربانیوں سے عبارت ہے۔ باخبر ہونے اور دوسروں کو باخبر بنانے کا جو حق پریس کو حاصل ہے وہ ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کا نتیجہ ہے جس کی تاریخ سے آپ سب واقف ہیں۔7

فن تحریر کی ارتقا سے ترسیل و ابلاغ کو جو ترقی ہوئی اسے نظراندازنہیں کیا جاسکتا۔مگر کاغذ کی ایجاد سے قبل اس کا دائرہ بہرحال محدود تھا۔ کاغذ کی ایجاد کا سہرا چین کے سرہے، ایک اندازے کے مطابق چین نے104ء میں کاغذ تیارکرلیا تھا مگرسات سوسال تک اس ایجادکودنیا کی نظروں سے چھپائے رکھا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سب سے پرانا رسم الخط چینی زبان کا ہے اور سب سے پہلے کاغذکی ایجاد بھی چین میں ہی ہوئی تھی۔جیسا کہ ڈاکٹر محمد شاہدحسین نے لکھا ہے :

’’چین کی تہذیب بھی تحریر کے سلسلے میں پوری دنیا میں نمایاں مقام رکھتی ہے گو کہ وہاں دستیاب ہونے والی سب سے قدیم کتاب کا زمانہ 213 ق م بتایا جاتا ہے جو ریشم پر تحریر ہے۔ مگر محققین اس بات پر متفق ہیں کہ چین میں تحریر کا وجود 30000ق م سے ہی تھا...کاغذ کی ایجاد کا سہرا چین کے سر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین نے 104 عیسوی میں کاغذ تیار کرلیا تھا۔ چین نے سات سو سال تک اس ایجاد کو دنیا کی نظروں سے چھپائے رکھا پھر بھی کچھ ترکستانی علاقے میں چینیوں سے یہ راز معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے ‘‘8

آج عوامی ابلاغ ہماری سرگرمیوں میں سرایت کرچکا ہے،لہٰذا یہ زندگی سے کبھی نہ الگ ہوا ہے اور نہ کبھی الگ ہوگا،یہ زندگی کے ہر لمحے کو اپنی گرفت میں رکھے ہوئے ہے،اور ہر لمحہ ہماری سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے اس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آج اس کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگیا ہے کیوں کہ یہ ہماری روز مرہ کی عادت بن چکا ہے۔

ملک میں امن و امان اور چین وسکون کے قیام کے لیے تازہ ترین حالات سے آگاہی بے حد ضروری ہے چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ مغلیہ دور میں بھی خبر رسانی کا اچھا انتظام تھا اور اس کام کے لیے مخصوص افراد موجود تھے۔ سید اقبال قادری اپنی کتاب رہبر اخبار نویسی میں رقم طراز ہیں :

’’مغلیہ دور میں خبریں، رائیں اور پوشیدہ معلومات حاصل کرنے کے لیے خصوصی نامہ نگار متعین تھے جو وقائع نویس، سوانح نویس  اور خفیہ نویس کہلاتے تھے، تقریبا ہر علاقے سے خبرنامے دارالحکومت پہنچتے تھے اور ہر شام محل کی بیگمات یہ خبرنامے شہنشاہ کو سنایا کرتی تھیں۔ جنگ اور امن دونوں حالات میں ایسے خبرناموں کی بڑی اہمیت تھی۔‘‘9

عہد مغلیہ میں شہزادہ نو رالدین محمد سلیم کی پیدائش کی اطلاع شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کو جو اس وقت الہ آباد میں تھے اسی ذریعہ ابلاغ سے پہنچائی گئی۔

پتھروں پر حکومتی فرمان کندہ کرانے سے متعلق محمد عتیق کی تحقیق ہے:

’’ پرانے زمانے کے کتبے اور ستون۔ خبر رسانی کی ابتدائی تاریخ کی گم شدہ کڑیا ں ہیں۔ اس زمانے میں ستونوں اور چٹانوں پر عبارتیں کندہ کرکے سرکاری قوانین، مذہبی احکامات اور اخلاقی اصول لوگوں تک پہنچائے جاتے تھے۔ اسی طرح کا ایک قدیم سنگی کتبہ قدس (بیت المقدس)کے جنوب مشرقی سرے کی ایک پہاڑی پر ملا ہے۔ اس کی زبان انجیلی لبرانی ہے اور ہر کتبہ کم و بیش سات سال قبل مسیح کا ہے۔‘‘10

ان ذرائع سے صرف اطلاع رسانی یا پیغام رسانی کا کام نہیں لیا گیا بلکہ حکمرانوں نے عوام کی جاسوسی بھی کرائی۔ انھوں نے کچھ لوگوں کو تربیت دے کر عوام کے درمیان مامور کر دیا تاکہ وہ حکومت و مملکت کے خلاف پنپ رہی کسی بھی قسم کی بغاوت کی اطلاع انھیں دے سکیں۔ ایسے افردا کو جاسوس نام دیا گیا۔ اس طرح وہ ملک میں پنپ رہی سازشوں سے واقف ہوتے اور ان کے سدباب کی کوششیں کرتے۔ اس سلسلے میں جے نٹراجن لکھتے ہیں :

’’ شہنشاہ کو حاصل ہونے والی خبریں دو طرح کی ہوا کرتی تھیں۔ مختلف جاسوسوں سے حاصل ہونے والی خبریں جنھیں وہ خود حاصل کرتا تھا۔ یہ جاسو س پولس کی خفیہ شاخ کے اہم افراد ہوتے تھے۔ دوسری طرح کی خبریں شہنشاہ کو روزانہ عوام کے معاملوں کو سلجھانے، وزرا ء سے بات چیت کرنے اور دوسرے حکمرانوں سے خط و کتابت کے دوران حاصل ہوتی تھیں۔ شہنشاہ کا کافی وقت انہی کاموں میں گزرتا تھا۔‘‘11

عہد مغلیہ میں حکومت کی طرف سے جاسوسی کا زبردست نظام تھا۔ اس کام کے لیے بہت سے لوگ مامور کیے جاتے جو رعایا میں موجود کسی بھی قسم کی مشکوک سرگرمی کی اطلاع بادشاہ وقت کو دیتے تھے۔ اس دور میں بھی الگ الگ محکمے قائم تھے جو اپنی کارگزاریوں کی رپورٹ بادشاہ کو بھیجتے تھے۔ اس وقت ذرائع ابلاغ کا ایسا پختہ نظام تھا کہ حیرت ہوتی ہے۔ تمام محکموں،ریاستوں اور اضلاع کی خبریں اور رپورٹیں مجلس وزرا میں پیش کی جاتی تھیں،جس سے انھیں علاقوں کا نظام چلانے اور نظم و نسق سنبھالنے میں بڑی مدد ملتی تھی۔

یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ یہ سب ذرائع ابلاغ کی ضرورت و اہمیت اور افادیت کو ثابت کرتے ہیں۔ شیر شاہ کے عہد میں تو ذرائع ابلاغ کا پورا ایک محکمہ قائم تھا، اسی کے تحت خبر رسانی اور ڈاک کا بہترین نظام قائم تھا۔ایسے نظام کی اس سے پیشتر کوئی مثال نہیں ملتی۔ بعض مورخوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے کسی محکمے کے کارکنان اگر غفلت اور لاپروائی کرتے تھے اور کوئی خبر بادشاہ وقت کو کسی اور ذریعہ سے ملتی تھی تو ان سے نہ صرف بازپرس کی جاتی بلکہ خبر بروقت نہ پہنچانے کے جرم میں خبر نویس کو سزا بھی دی جاتی تھی۔ابوالفضل نے اس دور میں ذرائع ابلاغ کی صورت حال سے متعلق آئین اکبری میں لکھا ہے کہ واقعات سلطنت کا قلم بند کرنا نہ صرف مملکت و دولت کی ترقی اور انتظا م کے لیے ضروری ہے بلکہ ہر طبقہ اور ہر مجلس کی رونق بحال رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔اگرچہ قدیم زمانے میں بھی اس طریقے کا پتا چلتا ہے مگر اس کی اصل حقیقت سے اہل زمانہ کو اس عہد میں آگاہی ہوئی۔

عہد مغلیہ میں ذرائع ابلاغ کے طریق کار سے متعلق معروف مورخ جادو ناتھ سرکار اپنی کتاب مغل ایڈمنسٹریشن (Mughal Administration) میںلکھتے ہیںکہ مرکزی حکومت کو  (1) وقائع نگار(2) سوانح نگار، (3)خفیہ نویس اور (4)ہرکارے سے خبریں حاصل ہوتی تھیں۔12

ہرکارے کے علاوہ باقی تینوں کا کام خبریں لکھ کر بھیجنا تھا۔ ہرکارہ زبانی خبریں سناتا تھا۔ وقائع نگار سوانح نگار اگرچہ ہم معنی ہیں لیکن ان کی درجہ بندی کی گئی تھی، وقائع نگار پابندی کے ساتھ خبریں فراہم کرتا تھا اورسوانح نگار کا کام خاص اور اہم واقعات کی اطلاع دینا تھا۔

اورنگ زیب کا عہد آتے آتے اخبار نویس اور واقعہ نویس کو ایک خاص حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ اسی کے ساتھ قلمی اخبار کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ شاہی محل کے لیے روزانہ ایک قلمی اخبار جاری کیا جاتا تھا۔ یہ اخبار صرف محل تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اس کی نقلیں دور دراز کے مقامات کے امرا اور حکام کے پاس بھی بھیجی جاتی تھیں۔ ذرائع ابلاغ کی اس قدیم کیفیت سے متعلق محمد عتیق صدیقی اپنی کتاب ہندوستانی اخبار نویسی۔ کمپنی کے عہد میں رقم طراز ہیں کہ مغل عہد کے کئی سو قلمی اخبارات لندن کی رائل ایشیائی سوسائٹی لائبریری میں محفوظ ہیں۔13 یہ اخبارات کرنل جیمس ٹاڈمنصف راجستھان نے غالبا ًراجستھان کے ہی علاقے سے جمع کیے تھے۔ یہ سب اخبار 1660 عیسوی کے ہیں۔14ہندوستان میں اس طرح کے قلمی اخبارات سابق رجواڑوں کے محافظ خانوں میںعموماً اور جے پور اور حیدر آباد میں خصوصاً موجود ہیں۔ رفتہ رفتہ اخبارات کے سلسلے نے ترقی کی اور ہندوستان میں مختلف زبانوں کے اخبارات جاری کیے جانے لگے۔

انگریزوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ہندوستانیوں کے ساتھ ان کا رویہ چاہے جیسا بھی رہا ہومگر اردو زبان اور اس کے رسم الخط کے سلسلے میں انھیں مخلص ہی کہنا پڑتا ہے۔ جان گلکرسٹ ایسا شخص ہے جس نے اردو، سنسکرت، فارسی اور عربی رسم الخط کا مطبع شروع کیا اور فارسی اور اردو زبان میں اشاعتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ گلکرسٹ کا اپنا پریس ’ہندوستانی ‘ پریس بھی تھا جس سے اردو، عربی اور فارسی میں کالج کی نصابی کتب کی اشاعت کا سلسلہ جاری تھا۔15

 ذرائع ابلاغ کی افادیت کے پیش نظر ہی ہری ہردت نے کلکتہ سے 27 مارچ 1822عیسوی کو اردو کا پہلا اخبار ’جام جہاں نما‘ جاری کیا۔ یہ فارسی اور اردو میں شائع ہونے والا ذولسانی اخبار تھا۔ اس کے ایڈیٹر منشی سدا سکھ لال تھے۔اس کے بعد برصغیر ہند کے ممتاز اور پہلے شہید صحافی مولوی محمدباقر نے 1836عیسوی میں دہلی سے ’دہلی اردو اخبار‘ جاری کیا۔ اس اخبار میں اس وقت کے مغل حکمراں بہادر شاہ ظفر اور قلعہ معلی کی خبریں شائع کی جاتی تھیں۔ اسی لیے کچھ دنوں تک اس کا نام’اخبار الظفر‘ کر دیا گیا تھا۔ اس اخبار میں برطانوی حکومت کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی جاتی تھی۔ یہ اخبار بیرون دہلی کے دور دراز کے مقامات تک جاتا تھا۔ ان علاقوں میں اس کے وقائع نگار مقرر تھے جو پابندی سے اخبار کے لیے خبریں فراہم کرتے تھے۔پھر سر سید احمد خاں کے بھائی سید محمد خاں نے سید الاخبار نام سے اخبار شروع کیا، اسی زمانے میں صادق الاخبار بھی جاری ہوا پھرلاہور سے منشی ہر سکھ رائے نے ’کوہ نور‘ جاری کیا،  پادری۔آر۔سی ماتھر کی ادارت میں مرزا پور سے ’خیر خواہ ہند‘  جاری کیا،پھر دہلی کالج کے پرنسپل اسپرنگر نے ہفت روزہ اخبار قران السعدین جاری کیا،اس کے بعد ماسٹر رام چند نے فوائد الناظرین کے نام سے اخبار جاری کیا، سر سید نے ہفت روزہ اخبار ’سائنٹفک سوسائٹی‘ جاری کیا،جس کی ابتدا 1866 سے ہوئی، پھر’تہذیب الاخلاق‘، ’اودھ پنچ‘ (1877)، ’پیسہ اخبار‘ (1863) مولانا فضل الحسن حسرت موہانی کا ’اردوئے معلی‘ (1903)، مولانا ظفر علی خان کا ’زمیندار‘ (1903)،  ’محمد علی جوہرکا ’دی کامریڈ‘ (1911)، مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال (1912) ا ور البلاغ،مدینہ بجنور (1912) اور ہمدرد (1913) نے ہندوستان کی اردو صحافت میں اہم کردار ادا کیا۔

کلکتہ میں اردو کے پہلے ہفت روزہ جام جہاں نما سے اردو کی مطبوعہ صحافت کی شروعات ہوئی۔ ایک زمانے تک دہلی اردو اخبار کو اردو کا پہلا اخبار سمجھا جاتا رہا،لیکن رئیس الدین فریدی نے یہ ثابت کردیا کہ جام جہاں نما اردو کا پہلا اخبار ہے،ہاں یہ ضرور ہے کہ دہلی اردو اخبار دہلی اور شمالی ہند کا پہلا مطبوعہ اخبار ہے۔وہ لکھتے ہیں :

’’کلکتہ میں اردو کے پہلے ہفت روزہ جام جہاں نما اردو کا پہلا ہفتہ وار اخبار تھا وہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی مصلحتوں کے تحت نکلوایا اور کبھی اردو، کبھی فارسی اور کبھی دونوں زبانوں میں نکلا، مگر انگریزوں کی سکھ ریاست پر حملہ کرنے کی تیاری کا بھانڈا پھوڑنے کی وجہ سے معتوب ہوگیا۔ ‘‘16

 اخبار جام جہاں نما سے لے کر ہمدرد تک اردو اخبارات کی ایک طویل فہرست ہے،دہلی اردواخبار، سیدالاخبار، کوہ نور،خیرخواہ ہند، فوائدالناظرین، اخبار ’سائنٹفک سوسائٹی‘، ’تہذیب الاخلاق‘، ’اودھ پنچ‘، ’پیسہ اخبار‘، ’اردوئے معلی‘ میں سے کسی ایک اخبار کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی، جو مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار الہلال کے حصے میں آئی۔ تاہم ان اخبارات کی اہمیت اور افادیت سے انکار بھی ممکن نہیں، لیکن الہلا ل نے جو تحریک پیدا کی اور اس نے صحافت کا جو معیار قائم کیا اس کی دوسری نظیر آج تک نہیں ملتی۔ اردو اخبارات کو ایک نیا طرز اور ایک نئی فکر عطا کرنے میں مولانا آزاد کا نہایت اہم رول رہا ہے،مولانا نے 1912 میں کلکتہ سے الہلال کی شروعات کی،الہلال کے پہلے شمار ے میں مولانا نے جو کچھ لکھا وہ صحافت کی اصل بنیاد ہے اورموجودہ وقت میں ان باتوں پراخبارات کے مدیران کو عمل پیرا ہونا چاہیے۔الہلا ل، جولائی 1912 میں وہ لکھتے ہیں:

 ’’ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لیے نہیں بلکہ تلاش زیاں و نقصان میں آئے ہیں۔ صلہ و تحسین کے لیے نہیں بلکہ نفرت و دشنام خلش و اضطراب کے کانٹے ڈھونڈتے ہیں۔ دنیاکے زر وسیم کو قربان کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود اپنے تئیں قربان کرنے آئے ہیں۔ہمارے عقیدے میں تو جو اخبار اپنی قسمت کے سوا کسی انسان یا جماعت سے کوئی اور رقم لینا جائز رکھتا ہے وہ اخبار نہیں بلکہ اس فن کے لیے دھبہ اور سرتا سر عام رہے۔ ہم اخبار نویس کی سطح کو بہت بلندی پر دیکھتے ہیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض الٰہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں۔ پس اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے اور چاندی اور سونے کا تو سایہ بھی اس کے لیے سم قاتل ہے۔‘‘ 17

علامہ شبلی نعمانی کے’ الندوہ‘ (1904)کے بھی کئی افادی پہلو ہیں۔ ’الندوہ ‘ نے ذرائع کی نئی راہوں کو اپنا کر اور اس کے مثبت مقاصد و مبادی کے مطابق خود کو ڈھال کر اپنا ایک مقام بنایا۔ اس کے مستقل عنوانات علمی، تحقیقی، تنقیدی اور تحریکات اور اداروں کے تعارف، ہندوستانی اسلامی مدارس کے تعلیمی مسائل، تاریخی اور ادبی مباحث پر مشتمل ہوتے تھے۔اردوئے معلی ذرائع ابلاغ کا ایک مکمل ترجمان تھا۔ اس میں ایک طرف جہاں شاعروں کی تربیت کی جاتی تھی وہیں مسلمانوں کو سیاست کی دلیرانہ تعلیم دی جاتی تھی۔ حسرت موہانی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے انگریز حکومت کے ساتھ عدم تعاون کا پہلے پہل نظریہ پیش کیا۔گاندھی جی نے بہت بعد میں عدم کی تحریک چلائی جسے تحریک موالات بھی کہا جاتا ہے۔ اپنے ادبی و سیاسی رجحانات کے سبب اردوئے معلی پورے برصغیر میں اپنی منفرد شناخت رکھتا تھا اور اپنی افادیت کے پیش نظر ذرائع ابلاغ کے شعبے میں اپنی منفرد شناخت رکھتاتھا۔

ذرائع ابلاغ کے صحافتی شعبے میں مولانا محمد علی جوہر کا ’کامریڈ‘ اتنا مقبول تھا کہ انگریز ہندوستان سے جاتے وقت اس کی کاپیاں تحفے کے طور پر اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ اس میں برصغیر ہند کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست اور علمی موضوعات پر نہایت وقیع مقالے شائع ہوتے تھے۔ اس کے مقاصد میں شامل تھا کہ مسلم تعلیم یافتہ طبقے میں سیاسی بیداری پیداکی جائے، مسلمانوں کے نقطہ نظر کو حکمرانوں تک پہنچایا جائے۔ پڑوسی برادران وطن کے سامنے اسلامی نظریات کو پیش کیا جائے، ان کی توضیح اور ضروری وضاحت کی جائے، اسلامی فکر کو مسلم اور غیر مسلم سب تک پہنچایا جائے۔ مولانا محمد علی جوہر قوم کے ایسے قائد تھے جنھیں ہر کوئی پڑھنا اور سننا چاہتا تھا۔بعد میں انھوں نے اپنے نظریات کی ترویج کے لیے اردو میں ’ہمدر‘ نام سے اخبار کا اجرا کیا۔  جس طرح انگریزی اخبار کامریڈ میں ان کے اداریے خصوصی شہرت رکھتے تھے، اسی طرح ہمدرد کے اداریے بھی خوب ذوق و شوق سے پڑھے جاتے تھے اور ملت کے لیے جوش وخروش کے ساتھ ساتھ اصلاح کا کام بھی کرتے تھے۔

مولانا ظفر علی خان کے ’ زمیندار‘ اخبار کوبھی بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ سراج الدین احمد نے اسے لاہور سے 1903 میں ہفت روزہ کی شکل میں جاری کیاتھا۔ 1909 میں انتقال کے بعد اس کی باگ ڈور ان کے فرزندظفر علی خان کے ہاتھ میں آگئی۔ انھوں نے اسے روزنامے کی شکل دی۔ ظفر علی خان برطانوی حکومت کے جبر وتشدد پر آ زادانہ اور بے باکی کے ساتھ تبصرہ کرتے تھے۔ زمیندارکے زمانے میں کسی دوسرے اخبار کو یہ مقبولیت حاصل نہیں تھی۔اس اخبار میں مقامی و بیرونی خبروں کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کی خبریں نہایت اہتمام سے شائع کی جاتی تھیں۔ تبصرے، تنقید، فکری مقالات اور ادب و شعر کے مستقل کالم بھی شامل اشاعت ہوتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان کی نظمیں شائع ہوتے ہی اپنی گھن گرج کے سبب دھوم مچادیتی تھیں۔اس اخبار کا مقصد بر صغیر ہند و بیرون ہند کے مسلمانوں کی مشکلات کا حل، وحدت اسلامی کی ضرورت و اہمیت کو آشکارا کرنا اور ملک کی آزادی کے لیے سعی و کوشش اور غاصب سامراج سے چھٹکارے کے لیے ذہن سازی اور بیداری پیدا کرنا تھا۔ اپنے اس مقصد میں اخبار بڑی حد تک کامیاب رہا۔

مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ نے ذرائع ابلاغ کونئے مفاہیم عطا کیے۔ یہ اخبارات مولانا ابوالکلام آزاد کی دلنشیں تحریر، منفرد اسلوب بیان اور مخصوص انداز فکر کی تحریروں کا اعلی نمونہ تھے۔مولانا آزادنے اس عمر میں لکھنا شروع کردیا تھا، جس میں لوگ ٹھیک سے پڑھ بھی نہیںپاتے۔ ان کی تحریروں اور ادارتی فکر کے ابتدائی نمونے ’نیرنگ خیال‘، ’لسان الصدق‘، ’الندوہ‘اور ’ وکیل‘ جیسے اخبارات کے صفحات کی زینت رہے ہیں اور دینی، فکری اور اسلامی ذہن رکھنے والے ایک بڑے طبقے سے داد وتحسین حاصل کرتے رہے۔ انھوں نے ذرائع ابلاغ کی دنیا میں اپنی اسلامی اور اصلاحی فکر کے سبب وہ عظیم خدمات انجام دیں، جن کے ذکر کے بغیر ذرائع ابلاغ کی دنیا آگے نہیں بڑھ سکتی۔

الہلال میں پہلے اداریہ، پھر سید سلیمان ندوی کا فکر وحوادث، پھر عالم اسلام کی خبریں اور پھر مقالات و مضامین پیش کیے جاتے تھے۔یہ اخبار عرف میں اپنی مقبولیت اور حکومتی مزاج کے خلاف خبریں اور مضامین شائع کرنے کے سبب کئی مرتبہ سرکاری تشدد کا نشانہ بنا اور اس کی ضمانتیں طلب کی گئیں۔ مولانا آزاد کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔

 ابوالکلام آزاد نے قوم سے اپنے اخبار کے ذریعے ایسی زبان میں گفتگو کی جو ایک جدید ذریعہ اظہار تھا۔ یہ ذریعہ اظہار فکر ونظر میں ہی جدید اور نیا نہیں تھا بلکہ اس کی تراکیب اور آزاد کا اسلوب نگارش بھی جداگانہ تھا۔ انھوں نے اپنی بات کے اظہار کے لیے فکر جدید کی نئی اصطلاحیں وضع کیں اور بلیغ اور پر اثر اسلوب نگارش سے ذرائع ابلاغ کوایسا فکری نظام عطا کیا جو اس وقت بھی آزاد کے لیے ہی مخصوص تھا اورآج بھی ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر نے کے بعد بھی ان کے لیے ہی خاص ہے۔

ان ادوار میں ذرائع ابلاغ کا فروغ جن تبدیلیوں کے جلو میں ہورہا تھا ان کی حیثیت ایک سیلاب رواں کی تھی جس سے ذ ہنی بیداری کی لہریں اٹھتی رہیں۔ کتابوں، رسالوں اور اخبارات نے شعر و ادب، صحافت اور علوم کا دروازہ عام آدمیوں کے لیے کھول دیا۔ تبدیلی کی ان محرک قوتوں پر قدغن لگانے کی حکومت کی ساری کوششیں ناکام ہوتی رہیں اور بالآخر اظہار رائے کی آزادی کی یہ جدوجہد، جنگ آزادی کے دوران ایک خونچکاں داستان رقم کر گئی۔ جسے آپ ذرائع ابلاغ کی تاریخ کی کسی بھی کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس لیے اتنے کم وقت میںمناسب یہی ہے کہ باخبر ہونے اور باخبر کرنے کے حق کو جو خطرات درپیش ہیں ان پر توجہ کی جائے، یعنی وہ خطرہ جو کھلی معیشت، آزاد منڈی اور اطلاعات کے آزادانہ بہاو ٔنے پید اکیا ہے۔ پرانے زمانے میں شاہراہیں سلطنت کی گرفت مضبوط رکھنے میں معاون ہوتی تھیں۔ نئے زمانے میں ذرائع ابلاغ کے پیمانے، ترقی یافتہ ممالک کی بالادستی کو مستحکم بناتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. اکرام الدین،محمدخواجہ، اردو میڈیا، قومی کونسل برائے اردو زبان، نئی دہلی،2014،ص1-2
  2. ندوی، سلیم الرحمن خان،ڈاکٹر، برصغیر میں اسلامی صحافت کی تاریخ اور ارتقا، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی 293، ص16
  3. عبدالسلام، خورشید، داستان صحافت، مکتبہ کارواں لاہور، 1974، ص : 36
  4. شاہجہاں پوری، ابو سلمان، ارمغان آزاد، آزاد اکیڈمی کراچی، ص:182
  5. صدیقی،محمد عتیق، ہندوستانی اخبار نویسی کمپنی کے عہد میں، انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ، 1957،ص:64تا109
  6. خورشید، عبدالسلام، صحافت پاکستان و ہند میں، مکتبہ کاروان لاہور،1970، ص124
  7. قیصر شمیم، مشمولہ،اردو اور ذرائع ابلاغ، مرتبین :محمد شاہد حسین، اظہار عثمانی،اردو کادمی،2013،ص،23-24
  8. حسین،محمد شاہد، ابلاغیات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ص 35-36
  9. قادری،سید اقبال،رہبر اخبار نویسی، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، 1989، ص:32
  10. صدیقی،محمد عتیق، ہندوستانی اخبار نویسی کمپنی کے عہد میں، انجمن ترقی اردو ہند، علی گڑھ، 1957، ص 25
  11. نٹرائن،جے، بھارتیہ پترکاریتاکا اتہاس، پبلی کیشنز ڈویژن نئی دہلی، 2002، ص 2
  12. علی دہلوی، انور(مرتب )، ’مقدمہ‘، اردو صحافت(اردو صحافت سمینار میں پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ)، اردو اکادمی دہلی، 2006،ص 16
  13. ایضاً،ص 18
  14. ایضاً،ص18
  15. Gupta Abhjit,'The Scottish surgeon who “discovered”Hindoostanee'
  16. https://www.livemint.com/Leisure/fCCqCT6 Fbveej1Jp5zG46M/The-Scottish-surgeon-who-discovered-Hindoostanee.html          (تاریخ رسائی، 16 اکتوبر 2020)
  17. فریدی،رئیس الدین ’اردو صحافت عہد بہ عہد‘، مشمولہ :اردو صحافت، مرتب:انور علی دہلوی، اردو اکادمی 2006، ص 44-43
  18. الہلال، 13جولائی 1912، ص 2، بحوالہ:اردو اورذرائع ابلاغ، مرتبین، محمد شاہدحسین،اظہار عثمانی، اردو اکادمی دہلی، 2013 ص، 139
  19. الہلال، شمارہ22 ستمبر1912،اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ

 

M. Ahteshamul Hasan

Research Scholar, Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob: 9873651628

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

برہان پور میں نظمیہ شاعری، مضمون نگار: بسم اللہ عدیم برہان پوری

اردو دنیا، فروری2024 بابِ دکن، دارالعیار،برہان پور کا ادبی و شعری اسکول مستند مانا جاتا ہے   اور اس کا شہرہ بھی ہے۔ اس اسکول کے سر براہ مولا...