نیست شہرت طلب آنکس کہ کمالے دارد
ہر گز انگشت نمابدرنباشد
چوں ہلال
—غنی کشمیری
میر غلام رسول نازکی
(پ: 16 مارچ 1910، و: 16 اپریل 1998) کا شمار ریاست جموں و کشمیر کے مقتدر، مستند اور
مقبول شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے 1925 میں
شاعری کی شروعات کی اور مرتے دم تک غزل، نظم، نعت، رباعی، اور قطعہ جیسی اصناف کے گیسو
سنوارتے رہے اور انھیں حسن، معنویت اور وسعت سے ہمکنار کرتے رہے۔ لیکن آج تک وادی
کشمیر کے اس کہنہ مشق شاعر کے ابتدائی شعری مجموعہ ’ نزاکت‘ (1935) کے بارے میں کسی
بھی قلمکار نے اظہار خیال نہیں کیا۔ بلکہ بعض قلم کاروں نیــ ’نزاکت‘
کے وجود سے انکار کرکے ان کے دوسرے شعری مجموعہ’دیدہ تر‘ کو ان کا پہلا شعری مجموعہ
قرار دیا۔ جو سراسر ان کے ساتھ نا انصافی اور
ادب کے ساتھ زیادتی ہے۔
میر غلام رسول نازکی
کے اردو میں چار شعری مجموعے ’نزاکت‘ (1935)، ’دیدہ تر (1949)، ’چراغِ راہ (1989) اور
’متاعِ فقیر (1996) شائع ہوئے۔ جب کہ کشمیری
میں ’ نمرود نامہ‘ (1964)، ’آواز دوست‘ (1985) اور ’کاو یینہِ وول‘(1989) منظر عام پر آئے۔ ان کا ابتدائی شعر ی مجموعہ
’ نزاکت‘ کالج کے ایک طالب علم شیخ غلام علی صاحب بُلبُل کاشمیری ( بی اے اسٹوڈنٹ)
نے 1935 میں مرتب کیا۔ اس شعری مجموعے پر مولف نے تمہید کے علاوہ اپنی ایک مشہور نظم
’ تراگہ بل‘ بھی بطورِ تمہید شامل کی، ان کے علاوہ غلام رسول نازکی نے بھی مقدمہ تحریر
کیا۔ نیز اپنے زما نے کے مشہور استاد جناب
نند لال کول صاحب طالب کا شمیری نے دیباچہ اور مظفرآباد کے حضرت نیاز کا مراجی نے
’’ کہتی ہے تجھ کو خلقِ خُدا غائبانہ کیا‘‘کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ
شعری مجموعہ نایاب ہونے کی وجہ سے بعض لوگ اس کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور جن اصحاب
کو اس کے بارے میں علم و آگاہی تھی وہ بھی وثوق سے کچھ کہنے سے کتراتے تھے۔ کیونکہ
ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ فرزند ارجمند پروفیسر ایاز رسول نازکی کا اپنے والد
میر غلام رسول نازکی کی کلیات (اُردو ) مرتب کرنے کا منصوبہ تھا۔ اس سلسلے میں راقم
نے ان سے کچھ گفتگو کی، انھوں نے ’نزاکت‘ کی عدمِ دستیابی کا ذکر کیا اور اس کوڈھونڈنے
کے لیے کہا۔ یہ کام میرے لیے نہایت مشکل بلکہ بعض صورتوں میں نا ممکن لگ رہا تھا، لیکن مشہور مثل ہے ڈھونڈنے سے خدا بھی ملتا ہے۔
اسی کے مصداق میں نے تلاش وجستجو، تحقیق وتفتیش شروع کی اور دوستوں، احباب، ادیبوں
اور فنکاروں سے رابطہ کیا، تاکہ اس کا سراغ ملے، مگرپہلے کامیابی نہ ملی۔آخر کار ہو
ایہ کہ مجھے اپنے بر خوردار جناب سلیم سالک( ایڈیٹر ماہنامہ ’شیرازہ‘) نے بلبل کا شمیری
کی مزاحیہ شاعری پر مقالہ لکھنے کے لیے کہا۔ بلبل کاشمیری کی شاعری پر اظہار خیال کرنے
کے لیے ان کے شعری مجموعوں ’خندہ گل‘ اور ’دست ِچنار‘ کی ضرورت پیش آئی۔ ان کی دستیابی
کے لیے میں نے اپنے ایک اور کرم فرما دوست جناب ڈاکٹر عرفان عالم سے رابطہ کیا، کیونکہ
انھوں نے بلبل کاشمیری پر ایک مقا لہ تحریر کیاتھا۔ انھوں نے بلبل کاشمیری کے گھر والوں
کا پتہ عنایت فرمایا، کچھ مدت کے بعد میں نے بلبل کاشمیری کے بھتیجے کی بیٹی ڈاکٹر
فوزیہ آفاق سے رابطہ کیا۔ وہ نہ صرف خندہ پیشانی سے پیش آئیں بلکہ انھوں نے گھر آنے
کی دعوت بھی دی۔ میں ان کے گھر پہنچ گیا۔ تو انھوں نے وہاں بلبل کاشمیری کا ایک شعری
مجموعہ’خندہ گل‘ کے ساتھ ’ نزاکت‘ بھی عنایت
فرمایا کہ ’نزاکت‘ اس لیے عنایت فرمایا، اس میں بلبل کاشمیری کی مشہور و معروف نظم
’تراگہ بل‘ شامل ہے۔ گھر پہنچنے کے بعد جو ں ہی میں نے’نزاکت‘ کو مطالعہ کرنے کی غرض
سے کھولا تو اس کے سرورق پر لکھا ہوا تھا ـ’’ نزاکت
از قلم گوہر بار شاعر نازک خیال جناب میر غلام رسول صاحب نازکی ( منشی فاضل) بانڈی
پورہ، مولف شیخ غلام علی صاحب بلبل بی۔اے سٹو
ڈنٹ سری پرتاب کالج سری نگرملنے کا پتہ پنڈت مادھولال رینہ بک سیلر اینڈ پبلشرحبہ کدل
سری نگر ‘ بار اول، قیمت فی کاپی چھ آنہ اور
مقدمہ و تمہید میں سنہ 1935 درج ہے۔ اسی وقت
میں نے پروفیسر ایا ز رسول نازکی صاحب کو اطلاع دی کہ آج وہ گنجینہ گوہر ملا، جس کی
تلاش و جستجو تھی آج اس کا وصال ہو اجس کی مہجوری میں کئی ماہ و سال گزرے۔ اگر یہ
شعری مجموعہ اللہ کی عنایت اور کرم سے بر وقت نہیں ملتا تو شاید ان کی کلیات (اردو)
اس کے بغیر منظرِعام پر آتی، جو ہمارے اور ہمارے ادب کے لیے بہت بڑا زیاں تھا۔
اردو اور فارسی شاعری
کا یہ مختصر مجموعہ 31 صفحات پر پھیلا ہوا
ہے اور اس میں ایک نعت رسولؐ، 11 غزلیں، سات 7 نظمیں اور 4 قطعات درج ہیں اور اشعار
کی کُل تعداد 128ہے۔ نعت النبیؐ نہ صرف اردو شاعری بلکہ نازکی صاحب کا بھی محبوب موضوع رہا ہے۔ جس کا بین ثبوت
ان کا شعری مجموعہ ’ چراغ راہ‘ ہے۔ ان کے اس مختصرترین شعری مجموعے میں بھی ایک نعت
شریف ہے جو ابتدا کے بجائے درمیان میں ہے۔ اس کا عنوان ’فی نعت النبیؐ ‘ ہے سات اشعار
پر مشتمل یہ نعت شریف حضور ؐ کے جلال و جمال، شکل و شمامل اور اسوہ حسنہ کا مرقع ہے اور زبان و بیان کے اعتبار سے بھی
منفرد ہے۔ دیکھیے کیا انداز ہیں ؎
محمد ؐ سرورِ عالم
خدا کا کیا ہی پیارا ہے
بدولت اُن کے دُنیا
کی ہر اک شے آشکارا ہے
ہر اک فردِ بشر کے واسطے پیداہوئے رحمت
قرآن میں رحمتاً للعٰلمین
حق نے پکارا ہے
نازکی صاحب کی غزل کاموضوعاتی دائرہ بہت وسیع
ہے۔ کیونکہ انھوں نے اپنی غزل کو روایتی حسن و عشق کے موضوع تک محدود رکھنے کے بجائے
داخلی و خارجی واردات و مشاہدات کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی، قومی، مذہبی، معاشی اور
معاشرتی مسائل کی عکاس بنا دیا ہے۔مگر اپنے اس اولین مجموعے میں نازکی صاحب ایک رومان
پرست شاعر کے طور پر متعارف ہوئے ہیں کیونکہ اس مجموعے میں شامل گیارہ غزلوں میں جو
موضوعات سب سے نمایاں ہیں۔ ان میں حسن و عشق کے ساتھ ساتھ فطرت نگاری کے لازوال نمونے
ملتے ہیں۔ البتہ ان کے جذبات میں پاکیزگی، احساسات میں نزاکت، تجربات میں صداقت اور
مشاہدات میں گہرائی ہے جس کی دلفریبی اور عشق کی تڑپ کا اظہار بڑے لطیف انداز میں،
بڑی سادگی اور جاذبیت سے کرتے ہیں۔ مثلاً
؎
گلرخوں پر جان دینے
میں ہوں طاق
عشق بازی میں بہت مشہور
ہوں
راز کی باتیں بتا دوں
برملا
نازکی کیا ثانی منصور
ہوں
تیری فرقت نے میرے پیارے ہلال شام عید
میرے حق میں آفتاب
صبح محشر کر دیا
نازکی صاحب نے ابتدا
میں اشعار عاشقانہ رنگ یا روایتی موضوعات پر لکھے مگر اندازِ بیان دلکش و منفرد ہے۔
ملا حظہ فرمائیں دو شعر ؎
قیمتی دل دیدیا تجھ
کو مگر قیمت نہ لی
میں بنا گندم فروش جو نما تیرے لیے
تم نگاہ ناز سے مجھ پر قیامت ڈھا گئے
اپنے نازوں سے اداؤں
سے مجھے پھسلا گئے
نازکی صاحب کے کلام
کی سب سے بڑی خصوصیت زبان کی سادگی، روانی اور پاکیزگی ہے۔ انھیں زبان و بیان پر کامل
دسترس ہے اور وہ الفاظ کے ساتھ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں بندشیں چست، تخیل بلند، نگاہ وسیع، فکر
کی گہرائی اور مشاہدے کی رنگینی پائی جاتی ہے۔ اسی لیے وہ معمولی خیال کو بھی اس دلفریبی
اور صفائی سے ادا کرتے ہیں کہ سیدھے دل میں اُتر جاتا ہے ؎
کس حد تک تیرا قد یار
کے قد سے مشابہ ہے
کوئی رو رو کے کہتا
تھا یہ گل شمشاد کے آگے
نازکی صاحب کی اس بیاض
میں شامل سات مختصر نظموں پر بھی ایک نگاہ ڈالتے چلیں۔ ان کی نظموںکا مطالعہ اس بات
کا بین ثبوت پیش کرتا ہے کہ انھیں اپنے وطنِ عزیز کشمیر سے، یہاں کے مناظر سے، رعنائیوںاور
پنہائیوں سے، یہاں کے گردو پیش کے قدرتی نظاروں سے، پُر فضا گاؤںسے، دوڑتے ہوے نالوں
سے، اچھلتے ہوئے پانیوں سے اور لوگوں کی زند گی اور ان کے مسائل سے کس قدر وابستگی
اور پیار ہے۔ نازکی صاحب نے تجر زینہ گیر علاقے کے ایک خوبصورت نالے کے بہتے پانی اور
دلنشین فضا سے متاثر ہو کر ’ لالہ کول‘ نظم سپر د قلم کی۔ اور اپنے آبائی وطن بانڈی
پورہ کے ایک نالے پر ایک اور بہترین نظم بعنوان ’نالہ بونار سے خطا ب‘ تحریر کی جس
کا سماں دلفریب اور دلربا ہونے کے باعث ہر ذی حس کو اپنی طرف لبھاتا ہے۔ نازکی صاحب
چونکہ حساس اور تخلیقی فنکار تھے اس لیے وہ بھی متاثر ہوئے اور ان کے قلم سے یہ نظم
وجود میں آئی۔ نیز بانڈی پورہ کے ایک پُر فضا گاؤں پر بھی ایک نظم لکھ کر اس حسین
گاؤں اور اس کے دلفریب راستوں کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ کیونکہ اس گاؤں کے راستے
بقول نازکی صاحب نہایت دلکش ہونے کے باعث ہر مسافر اور راہ گیر کو اپنی طرف کھینچتے
ہیں۔ اس نظم کا پہلا شعر ملاحظہ فرمائیں
؎
بجا ہے تو اگر نازاں ہے اپنے بخت نازاں پر
روا ہے میں اگر نادم
ہوں اپنی چشم گریاں پر
’غریب الوطنی
کی عید‘ کے عنوان سے بھی ایک نظم اس میں شامل ہے جس میں عید کی شادمانی اور مسرت کے
ساتھ ساتھ ہر دل میں عید کی خوشی کی لہر اور ہر دل سے رنج دور ہونے کا سماں باندھا
گیا ہے ما سوائے ان لوگوں کے جو عید اپنے وطن کے بجائے غریب الوطنی یا دیارِغیرمیں
مناتے ہیں۔ مثلاً ؎
ہر
اک بجائے خویش مسرت سے چور ہے
ہر اک کے دل میں عید کے دن کا سرور ہے
بے لطف ہے مگر یہ غریب
الوطنی کی عید
وطن کی جدائی میں ہے
کیا کوہ کن کی عید
نازکی صاحب نے یوں
تو متعدداصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی، مگر قطعہ ان کی محبوب صنف ہے۔بلکہ اس کے ساتھ
ان کی ذہنی مناسبت اور لگاؤ بھی ہے۔ اس مختصر مجموعے میں بھی چار قطعات مختلف موضوعات
یعنی حسن وعشق، انبائے روزگار، عیش و عشرت اور ذاتی واردات پر لکھے گئے ہیں۔ مگر ہر
جگہ انھوں نے اپنی صلاحیت اور اہلیت کا جھنڈا گاڑا ہے۔ نمونہ ؎
دِن گن رہا ہوں ہجر
کے اب بار بار میں
ایسا نہ ہو کہ سہو
کہیں ہو شمار میں
مرنا تو ہر کس کے لیے لازمی ہے پر
یا رب نہ موت آئے
پرائے دیار میں
مختصر اً نازکی صاحب
فنِ شاعری کے جملہ لوازم کا بھر پور شعور رکھنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے اسرار ورموز
سے بھی کما حقہ،آشنا تھے اس لیے انھوں نے جس صنف ِ سخن میں بھی طبع آزمائی کی۔ فنی
و جمالیاتی معیار تک پہنچانے کے لیے استعاروں، تشبیہوں اور تلمیحات وغیرہ کا بھی برجستہ
اور بر محل استعمال کیا ہے، جس سے ان کی شاعری میںجدت وندرت پیدا ہوگئی ہے ؎
آتش نمرود
ہوں اپنے لیے
آپ سمجھے ہیں چراغِ طور ہوں
وہ ستم گر ہے صنوبر قد ہے آہو چشم ہے
آنکھ اس کی شرح کُل
من علیہا فان ہے
Irshad Afaqui
Degree College
Sopore- 193201 (J&K)
Mob.: 9622746499
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں