22/1/24

انعام اللہ خا ں یقین: ایک صاحب اسلوب شاعر: سرور مہدی

 

اٹھارہویں صدی اردو شاعری بالخصوص غزل گوئی کے لحاظ سے نہایت اہم صدی ہے۔ اس عہد کو اردو شاعری کا عہد زریں اور عہد میر و سودا جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس صدی کو میر، سودا، درد، مظہر جان جاناں، شاہ حاتم وغیرہ نے اپنے رنگ و آہنگ سے زینت بخشی۔ ان تمام شعرا کے درمیان ایک جواں سال شاعر جس نے اساتذہ سے بھی اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا، اس کا نام ہے... انعام اللہ خاں یقین۔ اردو شاعروں پر لکھے گئے تذکروں کو پڑھنے سے یہ بات حد تواتر تک پہنچتی ہے کہ یقین اپنے عہد کے نامور، مقبول اور صاحب اسلوب شاعر تھے جن کا تتبع ان کے ہم عصروں نے ہی نہیں بلکہ شاہ حاتم جیسے اس وقت کے استاد شاعر نے بھی کیا۔ ان کی جواں مرگی نے اردو غزل کو اہم سرمایے سے محروم کردیا جو مستقبل میں ان کے قلم سے ظہور پذیر ہوتے۔ انھیں اجل نے  فرصت د ی ہوتی  تو ان کا مقام اردو شاعری میں کیا ہوتا، اس سے قطع نظر بھی جواں مرگ شعرا میں ان کا مقام سب سے بلند ہے۔

شعرائے اردو کے تذکروں، خود یقین کے اشعار اور مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحقیق کے مطابق انعام اللہ خاں یقین کے بارے میں جو سوانحی معلومات فراہم ہوتی ہیں، ان کے مطابق یقین   ایک روحانی خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کا سلسلہ نسب  چوتھی یا پانچویں پشت میں شیخ احمد سرہندی سے ملتا ہے۔ یقین اپنے زمانے کے مشہور صوفی، فارسی اور اردو کے استاد شاعر مرزا مظہر جان جاناں کے شاگرد تھے۔ چونکہ مرزا مظہر جان جاناں ایہام گوئی کے مخالف تھے۔ لہٰذا یقین نے اس بابت اپنے استاد کی تقلید کی۔ استاد کی توجہ خاص اور اپنی طباعی کے باعث یقین اس عہد کے تمام نامور شعرا اور شاگردان مظہر جان جاناں میں سب سے نمایاں ہوکر ابھرے۔ان کی خلاقی اور اختراعی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ شاہ حاتم جیسے استاد شاعر نے اس نوجوان شاعر کی زمینوں پر غزلیں کہی ہیں۔ تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ یقین کو ان کے والد نے ہی قتل کردیا تھا البتہ سبب قتل متنازعہ رہا ہے۔اکثر کا خیال ہے کہ یقین کے والد نے کسی پوشیدہ بات کے ظاہر ہوجانے پر اسے مخفی رکھنے کی غرض سے انھیں قتل کردیا۔ یقین کی عمر تذکرہ نگاروں نے پچیس سے انتیس سال تک لکھی ہیں۔ لچھمی نرائن شفیق نے ’چمنستان شعرا‘ میں یقین کی وفات پر جو قطعہ تاریخ لکھا ہے اس سے یقین کا سنہ وفات 1169ھ مطابق 1754-1755  عیسوی  برآمد ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے اگر یقین کی عمر کو 29  برس تسلیم کرلیا جائے جو محققین کے زیادہ قرین قیاس ہے  تو ان کا سنہ ولادت 1725-26 عیسوی بنتا ہے جو میر تقی میر کے سنہ ولادت کے قریب ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یقین اور میر تقریباََ ہم عمر تھے۔ میر جب دہلی آئے تو انھوں نے محسوس کیا کہ باشندگان دہلی پر یقین کے اشعار کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ میر کو یقین سے جو شاعرانہ چپقلش ہوئی اس کے اثرات میر کے تذکرہ ’نکات الشعرا‘ پر مرتب ہوئے۔ جہاں معاصر تذکروں میں یقین کو ریختہ کا صاحب دیوان اور طباع شاعر کہا گیا ہے، وہیں میر کے تذکرہ میں یقین سے متعلق متضاد باتیں پائی جاتی ہیں۔ پہلے تو وہ تعارفی سطور  لکھتے ہیں جو یقین کے محاسن کو بیان کرتی ہیں پھر وہ ان کی قدح پر اتر آتے ہیں۔ انھیں رعونت میں فرعون کا ہمسر تک قرار دے ڈالتے ہیں اور ان کے اشعار کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ وہ مرزا مظہر جان جاناں کے کہے ہوئے ہوتے ہیں۔ چند دیگر تذکروں میں یقین کے متعلق جو منفی باتیں ہیں، ان سب کا سرچشمہ میر کی ’ نکات الشعرا‘ ہی ہے۔ لچھمی نرائن شفیق اور عبدالحی نے ان سب باتوں کی تردید کی ہے۔ عبدالحی نے تو ’گل رعنا‘ میں یقین کی تعریف میں یہاں تک لکھا ہے کہ اگر یقین جیتے رہتے  تو ان کے آگے میرو مرزا (سودا) کسی کا چراغ نہ جلتا۔ یہ سچ ہے کہ یقین کے طرز اور اسلوب کو ان کے زمانے میں اور آئندہ عہد میں بھی اپنایا گیا کیونکہ  انھوں نے ایہام گویوں  کے بر خلاف ایک شستہ اور شگفتہ اسلوب اختیار کیا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ یقین جیسے شاعر کو واہمہ اور  وسواس کے زیر اثر نظر انداز کردیا گیا حالانکہ ان کا فن اور اسلوب اس بات کا حقدار تھا کہ انھیں اردو غزل میں ایک بلند مقام دیا جاتا۔ اپنی اس ناقدری کا احساس یقین کو شاید پہلے سے ہی تھا۔ ایک طرف معاصرین ان کی زمینوں کی تقلیدبھی کررہے تھے تو بعض حاسدین لب اعتراف کو سی چکے تھے۔ تبھی تو یقین کو کہنا پڑا          ؎

حق کو یقیں کے یارو  برباد  مت د و  آخر

 تم نے سخن کی طرزیں اس سے اڑائیاں ہیں

 انعام اللہ خاں یقین کے دیوان میں کل 170 غزلیں ہیں۔ ان کی غزلوں کی خاص  بات یہ ہے کہ ہر غزل  پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔ یقین کا عہد ایہام گوئی کا عہد تھا جس کی وجہ سے اردو غزل کو  بلحاظ مضمون خاصا نقصان پہنچ رہاتھا۔الفاظ کی تلاش، تصنع اور تکلفات کا دوردورہ تھا۔ اپنے استاد و مرشد مظہر جان جاناں کی تقلید میں یقین نے سادگی  اور شستگی کی جو بنیاد رکھی، اسی پر میر و سودا نے پر شکوہ عمارت کھڑی کی۔جس سادگی، شستگی، ایجاز و اختصار، شگفتگی اور واردات قلبی کے لیے دبستان دہلی جانا جاتا ہے اس کی بنیاد گزاری میں یقین کا بڑا ہاتھ ہے۔ان کے سلیس اشعار سیدھے دل میں اترتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں        ؎

ہوائے گرم  کے لگنے  سے  پتھر کب  پگھلتا ہے

 یہ نالے ان بتوں کے دل میں کب تاثیر کرتے ہیں

 چھٹے اس زندگی کی قید سے اور داد کو پہنچے

وصیت ہے ہمارا  خوں بہا  جلاد کو پہنچے

 یہ کوہ طور  سرما  ہوگیا  سارا  ہی  کیا کہئے

کوئی پتھر جو بچ  جاتا  تو دیوانے کے کام آتا

عشق و عاشقی غزل کا خمیر ہے۔تصور عشق روز اول ہی سے غزل سے وابستہ رہا ہے اور مختلف رویوں میں اپنا اظہار کرتا رہا ہے۔یقین کا عشق حقیقی اور مجازی دونوں شکلوں میں ظاہر ہوا ہے۔ یقین کے عشق کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ پاک ہے، بے باک نہیں ہے۔ جوانمرگی کا احساس  تو وجدانی طور پر انھیں ہو ہی رہا تھا جو ان کی غزلوں کے اکثر اشعار سے مترشح ہوتا ہے۔ لیکن نام وفا کے لیے بھی یقین جان دینے سے گریز نہیں کرتے۔ وہ اپنے نالے  محبوب تک پہنچانا تو چاہتے ہیں لیکن  ان کے خواب ناز میں خلل کا باعث بھی  نہیں بننا چاہتے۔ایسی احتیاط کو کیا کہیے        ؎

اگر مر کر نہ میں اس  شوخ کی خاطر نشاں کرتا

 خدا جانے وفا میری کے حق میں کیا گماں کرتا

 نہ ہوتا اس کی بدخوابی کا  ڈ ر مجھ کو  تو پھر پھر کر

 گلی میں  یار کی راتوں کو فریاد  و  فغاں کرتا

 معاملات عشق کے بیان میں یقین نے تلمیحات کا بکثرت استعمال کیا ہے۔ یہ وہی دور تھا جب شعرا فارسی گوئی سے ریختہ گوئی کی طرف توجہ مبذول کررہے تھے۔یعنی فارسی علائم و تلمیحات اردو شاعری میں منتقل ہورہی تھیں۔ یقین نے اس میں اپنا خاطر خواہ حصہ ادا کیا۔ یوسف، زلیخا، خسرو، پرویز، فغفور،  منصور، فرہاد، شیریں، لیلیٰ، مجنوں  وغیرہ کی تلمیحات سے ان کا  دیوان معمور ہے۔ بالخصوص ایک غزل کے مکمل اشعار فرہاد کے مختلف تلمیحاتی  پہلوؤں سے اور کئی غزل کے اکثر  اشعار مجنوں کے تلمیحاتی اشاروں سے کہے ہیں۔ ان اشعار کی قرأت سے جان پڑتا ہے کہ انھیں فارسی روایت شاعری کا گہرا علم تھا جس کا اثر ان کی غزلوں پر مرتسم ہوا ہے         ؎

ہمیشہ کھینچتا ہوں اشک خوں کو دار مژگاں پر

اگر سولی  مری کو  دیکھتا  منصور  رو  دیتا

 مصر میں حسن کی وہ گرمی بازار کہاں

 جنس تو ہے پہ  زلیخا سا خریدار کہاں

 محبوب کے حسن و جمال، قد، رعنائی، پوشاک وغیرہ کی  تعریف میں ایک خاص احتیاط برتنے کے باوجود یقین غضب کا کمال پیدا کرتے ہیں کہ طبیعت عش عش کر اٹھتی  ہے اور ان کی نزاکت خیال کی داد دینی ہی پڑتی ہے۔ یہ شاعر کا کمال ہے کہ ایسے موقع پر رکاکت و ابتذال سے دامن کشاں ہوکر محبوب کے جمال کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔ گویا اپنا منظور نظر ہر ایک کی نگاہ کے سامنے مجسم کردیتے ہیں         ؎

جی میں آتا ہے ترے قد کو دکھا دیجے اسے

 باغ میں  اتنا  ا کڑتا ہے  یہ شمشاد کہ بس

 کیا بدن ہوگا کہ جس کے کھولتے جامے کا بند

 برگ گل  کی طرح ہر  ناخن  معطر  ہوگیا

 پھڑک کر دم نکل جاوے گا بلبل کی طرح میرا

 کھلا  بندِ گریباں کو نہ رکھ اے گل بدن بس کر

 اردو کے دہلی دبستان میں مضامین تصوف اپنے تمام تر پہلؤوںکے ساتھ موجو د ہیں۔ یقین چونکہ مرزا مظہر جان جاناں سے ارادت رکھتے تھے اورمرزا  مظہر بھی اس جوہر خالص کو پہچان کر  ان پر سب شاگردوں سے زیادہ توجہ دیتے اور محبوب رکھتے تھے۔ خود یقین کے دل میں بھی استاد کے تئیں جو عظمت تھی، اس کا بیان بار۔بار غزلوں کے مقطع میں کیا ہے، اس مرشد کامل کی فیض صحبت کے باعث یقین کے یہاں مسائل تصوف کا بیان ناگزیر تھا۔ ان کے کلام  میں تصوف کے موضوعات جیسے وحدت الوجود، وحدت الشہود، ہمہ اوست، جبر و اختیار، عرفان نفس یا ذات، استغناء اور عظمت آدم وغیرہ اپنی تمام تر  توانائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ ایک غزل کے یہ دو اشعار پڑھیے اور دیکھیے کہ زمین کے انتخاب اور موضوع دونوں جہات سے یقین اپنے ہم عصروں بشمول میر تقی میر پر کس طرح اثر انداز ہورہے تھے       ؎

نہ تھی  یہ  وادی  ایمن  یہ کوہ طو ر نہ  تھا

 نرا  تو ہی تھا  تجلی  نہ تھی  ظہو ر  نہ  تھا

 کہوں میں کیوںکہ نہ صبح بہار تجھ کو کہ آج

 چمن میں تو جو نہ تھا گل کے منھ پہ نور نہ تھا

دیگر غزل کا یہ مطلع میر کی مشہور غزل ’ تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا‘ سے کس حد تک مماثل ہے۔ پڑھیے اور محسوس کیجیے           ؎

وہ کون دل ہے جہاں جلوہ گر وہ نور نہیں

 اس آفتاب کا کس  ذرہ میں  ظہور نہیں

 تصوف کی دنیا میں اشیائے دنیوی جہاں مظاہر قدرت ہیں وہیں حجاب راز  بھی ہیں۔جب عاشق یا سالک ان مظاہرات سے گزر جاتا ہے تب وہ محبوب حقیقی سے لقاء کی منزل میں آتا ہے۔ یعنی یہ دنیا جو جلوہ گاہ قدرت ہے  اسے عشق الٰہی کا راستہ ہی سمجھا جائے، منزل تصور کرنے کی بھول نہ کی جائے۔ یقین اس مفہوم کو انتہائی سادہ لفظوں میں خوبصورتی کے ساتھ ادا کرتے ہیں          ؎

یار  اگر منظو ر  ہے  دنیا و عقبیٰ  سے  گزر

منزل مقصود ہے دونوں جہانوں سے پرے

 شعرائے اردو نے ہمیشہ سے عشق حقیقی و مجازی کو پہلو بہ پہلو رکھا ہے۔ ولی دکنی بھی ہر دو عشق کے شغل کو بہتر جانتے ہیں۔ لیکن یقین نے جس چابکدستی سے دونوں کو پیوست کیا ہے اور عشق مجازی کے لیے عشق حقیقی سے سند اور دلیل فراہم کی ہے، اس کی مثال نادر و کم یاب ہے        ؎    

بتاں خدا کی خدائی کے سب مظاہر ہیں

جو  ان کا بندہ کہاوے  تو کچھ گناہ نہیں

 دیوان یقین کے مطالعہ سے یہ بات حد یقین تک پہنچتی ہے کہ انھیں لفظوں اور صنعتوں کے استعمال پر کمال قدرت حاصل ہے۔ تشبیہ، استعارے، حسن تعلیل، مراعات النظیر کے  چشم کشا نمونے  ان کے کلام میں  ملتے ہیں۔ خصوصاً شعریات سے تعلق رکھنے والی لفظیات کو وہ عشقیہ مضامین میں کیسا نظم کرتے ہیں، قابل دید ہوتا ہے         ؎

اس  بسنتی  پوش  سے آغوش  رنگیں  کیجیے

جی میں ہے اس مصرع موزوں کو تضمیں کیجیے

یقین کی زبان نہایت شگفتہ اور سادہ ہے۔ ان کے بہت سے اشعار میر و سودا جیسے معاصرین اور غالب جیسے متاخرین سے وحدت مضمون رکھتے ہیں جن پر مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنے مرتب کردہ دیوان یقین میں گفتگو کی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ بعض اشعار تو بالکل ذرا سے فرق سے دوسرے شعرا نے ادا کیے ہیں۔سر دست ایسے اشعار ملاحظہ فرمالیں جو کہیں زبان زد خاص و عام ہیں تو کہیں گاہے گاہے سننے میں آجاتے ہیں لیکن اکثر کو علم نہیں ہوتا کہ یہ ایک فراموش کردہ صاحب اسلوب شاعر انعام اللہ خاں یقین کے ہیں          ؎

اگرچہ عشق میں آفت ہے اور بلا بھی ہے

 نرا  برا نہیں  یہ شغل کچھ  بھلا  بھی  ہے

دوستی بد بلا ہے اس میں خدا

کسی دشمن کو  مبتلا  نہ کرے

 یہ امر تعجب کا ہے کہ اپنے عہدکا انتہائی مقبول اور نامور شاعر آئندہ صدیوں میں فراموش کردیا گیا۔ اگر یقین کے بارے میں بعض معاصرین نے منفی باتیںکیں اور چند تذکروں نے انھیں تحریر کیا تو بھی تنہا یقین ہی ایسے ماحول کے مقابل نہیں ہوئے۔ کئی بلند قامت شاعروں کو شومی قسمت سے ایسی مکدر فضا نصیب ہوئی۔ لیکن یقین کے ساتھ حالات کی ستم ظریفی یہ رہی کہ ان کی موت کے معمہ کی طرح ان کی شخصیت اور شاعری بھی گم ہوکر رہ گئی۔ جب کہ بقول مصحفی ایہام گویوںکے دور میں اسی جوان نے صاف و پاکیزہ شاعری کی اور بالفاظ جمیل جالبی میرتقی میر یقین کی آواز سے ہی اپنی آواز اٹھاتے ہیں۔

 کتابیات

  1.       ابوالکلام قاسمی، انتخاب کلام انعام اللہ خان یقین، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ، 1991
  2.        جمیل جالبی، تاریخ ادب اردو ( جلد اول و دوم)، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2000
  3.        فرحت اللہ بیگ، دیوان یقین، مطبع مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ
  4.        محمد زاہد الحق، انعام اللہ خاں یقین اور عہد شاعری، راؤ پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2007
  5.       نورالحسن نقوی، دلی کا دبستان شاعری، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ1997

 

Sarvar Mahdi

Assistant Professor (Urdu)

H.S.College Udakishunganj

Madhepura-852220(Bihar)

Mob-9452259955


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...