ادیب و فنکارجس عہد میں سانس لیتا ہے، اس عہد کی تلخیاں اس کی حسیت اور آگہی کو متاثر کرتی ہیں، اسی لیے ہندوستان پر برطانوی نظام کے استحکام کے بعد معاشرے کے دوسرے افرادکی طرح شاعر اورادیب بھی متاثر ہوے۔طاقت،معیشت،سیاست، علم و ثقافت کے ساتھ ساتھ مقامی باشندوں کے ذہن پر تسلط قائم کرنا ہر ملک میں اقتدار قائم کرنے والے استعمارکی سرشت ہوتی ہے اور ایک منصوبہ بند طریقے سے آہستہ آہستہ وہ ہر شے کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔ہندوستان میں بھی برطانوی استعماروں نے اپنے اصولوں کے نفاذ سے ہندوستانیوں کے انداز فکر اورطرز عمل کو تبدیل کیا۔اس تبدیلی کے اثرات اس عہد میں لکھے گئے ادب پر کئی صورتوں میں نمایاں ہوے۔ غالب صورت تو یہ تھی کہ مقامی لوگوں نے اپنی تاریخ اور تہذیب کو فراموش کر کے آباد کاروں کے نافذ کردہ اصول اور ان کی لائی ہوئی تہذیب کو اختیار کر لیا، یہ اس سازش کا نتیجہ تھا جوہر آبا د کار اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے کرتا ہے۔مقامی لوگوں میں ان کی تہذیب اور طرز زندگی سے متعلق مسلسل خامیاں نکالنا، احساس کمتری پیدا کر نا،اپنی تہذیب،علم اور طاقت کا رعب قائم کرنا استعماریت کا بنیادی حربہ ہے۔ ہندوستان میں برطانوی استعماروں کا یہ حربہ کامیاب رہا۔ ان کی اس شطارت کی طرف ناصر عباس نیر نے اپنی کتاب ’ مابعد نو آبادیات : اردو کے تناظر میں‘ اشارہ کیا ہے کہ کس طرح انھوں نے مشرقی علوم کے مطالعے اور تحقیق کے لیے ادارے قائم کر کے علمی سرمایے کو محفوظ کرنے کا سہرا اپنے سر باندھ لیا اور اسی کو ہتھیار بنا کر مقامی لوگوں کے افکار و خیالات،عزائم و تحفظات تک رسائی حاصل کرکے انھیں اپنا غلام بنایا۔ہندوستانی ادبیات کی عظمت کے معترف جان گلرسٹ جنھیں محب اردو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان کے فورٹ ولیم کالج قائم کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ ہندوستانی لغات و قواعداور ادبیات پر ماہرانہ دسترس حاصل کی جائے،تاکہ علمی سرمائے کی مدد سے اس قوم کی مزاج شناسی اور نفسیات کی سراغ رسانی آسان ہو۔اس طرح انھوں نے بظاہر مربی و محسن بن کر ہندوستانیوں کو یہ باور کرایاکہ ان متون کی ثقافتی اور ادبی اہمیت کے باوجود حال کی زندہ ثقافت سے ان کا کو ئی رشتہ نہیں۔اسی برین واشنگ کا نتیجہ تھا کہ محمد حسین آزاد نے اپنے ادبی سرمائے کے حوالے سے شرمندگی کا اظہار کیااور انگریزی شعر و ادب کو معیار کا اعلی نمونہ قرار دیا۔
ایک اور صورت یہ تھی
کہ ان تمام گمراہ کن مسلمات کے باوجود کچھ بیدار مغز لوگوںنے حاکموں کی سازش سے محفوظ
رہنے کی کو شش کرتے ہوئے ترقی اور آزادی کی راہ تلاش کی اورمحکومی سے نجات پانے کے
لیے اپنی اپنی بساط بھر کوششیں کیں جن میں احیا پسند تحریکیں قابل ذکر ہیں اور ان کوششوں
میں شعرا،ادبا اور دانشور شامل تھے۔ نوآبادیاتی نظام کے استحکام کے بعد مقامی باشندوں
میں قوت مدافعت گرچہ اتنی کم ہوگئی تھی کہ اپنی اور اپنے ورثے کی شکل مسخ ہونے سے بچا
لینا ناممکن تھالیکن چند استثنائی صورتیں منٹو کے منگو کوچوان کی طرح بھی موجود تھیں
جن کانو آباد کار کی زبان اور تہذیب سے مزاحم ہونا اس بات کا استعارہ تھاکہ مقتدرہ
کی عیاریوں کوسمجھنے اور زمیں بوس کرنے کا جذبہ موجود تھا۔ اس جذبے کی نوعیت کچھ اس
طرح تھی جس کی درست وضاحت ناصر عباس نیر نے اپنی کتاب ’’ مابعد نوآبادیا ت اردو کے
تناظر میں کی ہے :
’’جنگ کے
میدان میں،جنگ کے آلات کا انتخاب اولاً محکوم نہیں کرتا،وہ زیادہ تر دفاعی محاذ پر
ہوتا ہے۔اس کے بیانیے،ردعمل،بغاوت،بچاؤ اور آزادی سے عبارت ہوتے ہیں۔‘‘
(مابعد نو آبادیات : اردو کے تناظر میں،ناصر عباس نیر، آکسفرڈ، 2013، ص56)
اس حقیقت کو ذہن میں
رکھ کر منٹو کا افسانہ’تماشا‘ پڑھیں، یا پھر پہلی جنگ آزادی کے بعد کا عوامی رد عمل
دیکھیں تو واضح ہوگا کہ آباد کاروں نے مقامی لوگوں کو ذہنی اور فکری طور اپنے بیانیے
کا تابع کر لیا تھامگر کہیں کوئی چنگاری باقی رہ گئی تھی، جس نے اس جبر کے خلاف مزاحمت
کی اور محکومی سے نجات دلائی۔اس عہد میں لکھے گئے فکشن کا بیشتر حصہ تو ایسا ہے جس
میں کرداروں کے توسط سے یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح مغربی تہذیب کی برتری کا اعتراف
کر کے استعماروں کی خوشنودی حاصل کی گئی اور سر خروئی ملی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس
وقت کی عمومی صورت حال یہی تھی۔ اسی لیے اب
بھی کسی ناول میں اس عہد کا منظر نامہ، ذہنی و فکری غلامی کی انھیں تصویروں کے ساتھ
پیش کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں2013 میں شائع ہونے والے ناول’کئی چاند تھے سر آسماں‘
( شمس الرحمن فاروقی) کے کردار وزیر خانم کو دیکھا جا سکتا ہے۔دراصل استعماری نظام
نے بظاہرغیر محسوس مگر اتنے منصوبہ بند طریقے سے اپنی پالیسیاں نافذ کیں کہ شدید مشرقیت
پسند فرد بھی ذہنی اسیری سے محفوظ نہ رہ پایا۔ ایسی صورت حال میںان کے نافذ کردہ اصولوں
سے مزاحمت کی ایک مدھم سی آواز بھی لائق تحسین و قدر ہے۔ اسی لیے نذیر احمد کے یہاں
مغربی تہذیب کی خامیوں اور ٹھوس نظر آنے والی طرز زندگی کے کھوکھلے پن کے بیان کو
استعمار ی نظام سے مزاحمت کی واضح شکل کہا جا سکتاہے۔ اپنے ناول ’ توبۃ النصوح‘ میں
مغربی طرز زندگی کو نصوح کے ذریعے نشانے پر رکھنا اور مغربی طرز فکر کے نمائندہ کردار
کلیم کے سامنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ استعماروں کے ذریعہ رواج پانے
والے طرز سے مفاہمت گوارا نہیں تھی۔سامراجی حکومت کے تشکیل کردہ سماجی ڈھانچہ سے اختلاف
کرنے کی ہمت نئی آبادی میںنہیں تھی۔اسی لیے یہ امر قابل تحسین ہے کہ نذیر احمد نے
جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سامراج کے بنائے ہوئے رُول سے مزاحمت کی اور ایسے کردار
وضع کیے جس کے ذریعہ آبادکاروں کا عیار چہرہ نمایاں ہو سکے اور ان سے مراعات حاصل
کرنے والے افراد کو حقیقت سے روبرو کروایا جا سکے۔نذیر احمد کے اس طریقہ کار کو پروفیسر
عقیل احمد صدیقی نے مزاحمت کی ایک شکل قرار دی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ :
’’کولونیل
ڈسکورس کے مزاحمت کی دوسری شکل ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں میں ملتی ہے۔نذیر احمد نے
تعقل پرستی کے مقابل کوئی نیا تصور پیش نہیں کیا بلکہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ کولونیل
نظام کے تاریخی جبر سے اس طرح نبرد آزما ہو سکتے ہیں کہ مذہبی اور روحانی سطح پر خود
کو بچا لیں۔‘‘
(ار گہ کوزہ گراں،عقیل احمد صدیقی،براؤن بک پبلی کیشنز، دہلی، 2014، ص151)
نظریاتی طور پر پریم
چند کے تصورات سے ہم سب واقف ہیں،اسی لیے یہاں پر براہ راست ان کی افسانوی تحریروں
سے سروکار رکھا جار ہا ہے۔انھوں نے اپنے ناولوں اور افسانوںخصوصاً’گوشہ عافیت‘، ’میدان
عمل‘ اور ’سوز وطن‘ میں شامل افسانوں میں نو آبادیاتی سامراجی طاقتوں کے خلاف عوام
میں بیزاری اور اس اقتدار سے مزاحمت کے لیے طویل مکالمے قائم کیے ہیں۔ ان کے افسانوی
مجموعے ’سوز وطن‘ (1098) (جو ان کے تخلیقی
سفر کے ابتدائی دنوں میں شائع ہوا تھا)کو،حب الوطنی کے جذبے اوربرطانوی دست درازیوں
کے احوال کے بیان کی وجہ سے حکومت مخالف بیانیہ تصور کرتے ہوئے ضبط کر لیاگیا تھا۔ان
کہانیوں کی وجہ سے انھیں کلکٹر کے سامنے حاضر ہونا پڑا اور کلکٹر نے کہا تھاکہ ’’ تمہاری
کہانیوں میں سیڈیشن بھرا ہوا ہے،تم نے انگریز سرکار کی توہین کی ہے۔‘‘
پریم چند نے
1919 میں ’گوشہ عافیت ‘ لکھ کر عوام میںبرطانوی
حکمرانوں کے مظالم کے خلاف بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اسی کے ایک سال بعد 1920 میں
جب گاندھی جی نے نو آبادیاتی اقتدار کے خلاف عدم تعاون اور ستیہ گرہ کی لڑائی کا اعلان
کیا تو پورے ملک میں بیداری کی لہر دوڑ گئی اور گوشہ عافیت میں اٹھائی جانے والی آواز
وں کی عملی صورت اور پریم چند کے خوابوں کی تعبیر ان تحریکوں میںنظر آئی۔ لہٰذا پریم
چند نے بلا تاخیر سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر ترک موالات کی تحریک میں شمولیت اختیار
کر لی۔ انھوں نے ناول کے علاوہ اپنے متعدد افسانوں خصوصاً ستیہ گرہ، انتقام، بڑے بابو،
استعفیٰ، لال فیتہ، آشیاں برباد،بھاڑے کا ٹٹو،جلوس،ماں،قاتل کی ماں اور ستیہ گرہ وغیرہ
میں غلامی سے نجات کی مختلف جہات کو پیش کر کے ایک بڑے طبقے میںمزاحمت کا حوصلہ اور
آزادی کی تحریکوں سے وابستہ ہونے کی ترغیب دلائی۔ پریم چند کے ناول ’میدان عمل‘ اور
’چوگان ہستی‘ کے کرداروں میں بھی وہ سیاسی اور سماجی سوجھ بوجھ نظر آتی ہے جو تغیر
و تبدل اور انقلاب کے لیے ناگزیر ہے۔ ہندوستان میں استعمارسے احتجاج اور مزاحمت کے
لیے عدم تعاون کی تحریک،نمک ستیہ گرہ اور ہندوستان چھوڑو تحریکیں وجود میں آئیںجن
میں مفاہمت پذیری کے بجائے باغیانہ تیور نمایاں تھے اور ان تمام تحریکوں کے ذریعے وجود
میں آنے والی احتجاجی صورت حال پریم چند کے یہاں موجود ہے۔
نو آبادیاتی اداروں
کے خلاف مزاحمتی رویوں کی عکاسی منٹوکے یہاں شدت اختیار کر لیتی ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں
میں ایسے کردار وضع کیے ہیں جو استعماری طاقتوں سے مزاحم ہو کر ایک ایسے باغی کی حیثیت
سے سامنے آتے ہیں جسے ہندوستان میں آبادکاروںکا وجود لمحہ بھر کے لیے گوارا نہیں
تھا۔اس ضمن میں ان کا مشہور افسانہ ’نیا قانون‘ شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔اس افسانے
میں انھوں نے منگو کوچوان کے ذریعے لاکھوں عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔
’’استاد منگو
کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اس نفرت کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ ہندستان
پر اپنا سکہ چلاتے ہیںاور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں۔ مگر اس کے تنّفر کی سب سے بڑی
وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے
تھے گویا وہ ایک ذلیل کتا ہے۔‘‘
’’آدھ گھنٹے تک وہ چابک بغل میں دبائے اسٹیشن کے اڈے کی آہنی چھت کے نیچے بے قراری کی حالت میں ٹہلتا رہا۔ اس کے دماغ میں بڑے اچھے اچھے خیالات آ رہے تھے۔ نئے قانون کے نفاذ کی خبر نے اس کو ایک نئی دنیا میں لاکر کھڑا کر دیا تھا۔ وہ اس نئے قانون کے متعلق، جو پہلی اپریل کو ہندستان میں نافذ ہونے والا تھا، اپنے دماغ کی تمام بتیاں روشن کرکے غورو فکر کر رہا تھا۔ اس کے کانوں میں مارواڑی کا یہ اندیشہ ’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہو گا؟‘ بار بار گونج رہا تھا اور اس کے تمام جسم میں مسرت کی ایک لہر دوڑا رہا تھا۔ کئی بار اپنی گھنی مونچھوں کے اندر ہنس کر اس نے مارواڑیوں کو گالی دی... غریبوں کی کھٹیا میں گُھسے ہوئے کھٹمل...نیا قانون ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہو گا۔‘‘ (نیا قانون،سعادت حسن منٹو)
برطانوی استعمارنے
ہندوستانیوں کے اندر محکومیت اور ذلت کا احساس مختلف سطحوں پر پیداکیا تھا۔وہ اپنی
زبان کی افضلیت،لباس اور رہن سہن کی برتری ثابت کرنے کے لیے جو بے جا رذیل حرکتیں کرتے
تھے،ان سب کا اظہارمنگو کوچوان کے ذریعے کرنے کے بعد منٹو نے باغیانہ رد عمل پیش کیا
ہے۔ سیاسی جبر اور تشدد کے سائے تلے سانس لے رہے ہر فرد کی طرح منٹو کی بھی خواہش تھی
کہ اس ملک کو نہ صرف آزاد کیا جائے بلکہ برطانوی سامراج سے انتقام بھی لیا جائے۔اپنے
اِس جذبے کی عکاسی انھوں نے افسانہ ’تماشا‘ میں کی ہے۔ اس میں جلیاں والا باغ کے سانحہ
کا ذکر، ہندوستانیوں کی آوازوں پر پابندی اور برطانوی ظلم و جبرکے واقعات بیان کر
کے سامراج کے خلاف احتجاج اور نفرت کے جذبے کی عکاسی کی ہے۔اس افسانے کا مرکزی کردار
خالد جب فوجی طیاروں کو آسمان پر اڑتے دیکھتا ہے تو ہوائی بندوق نکال کر مشق کرنا
شروع کر دیتا ہے کہ اگر طیارے ہمارے اوپر بم پھینکیں تو ان کا مقابلہ کیا جا سکے۔اِس
جذبے کو دیکھ کر راوی کہتا ہے کہ ’’کاش انتقام کا یہی ننھا جذبہ ہر شخص میں تقسیم ہو
جائے۔‘‘ چند سطریں ملاحظہ ہوں:
’’خالد طیاروں
کا شور و غل سن کر اپنی ہوائی بندوق سنبھا لتا ہوا کمرے سے باہر دوڑا آیا اور انھیں
غور سے دیکھنے لگا تاکہ وہ جس وقت گولہ پھینکنے لگیں، تو وہ اپنی ہوائی بندوق کی مدد
سے انھیں نیچے گرا دے۔ اس وقت چھ سال کے بچے کے چہرے پر آہنی ارادہ و استقلال کے آثار
نمایاں تھے، جو کم حقیقت بندوق کا کھلونا ہاتھ میں تھامے ایک جری سپاہی کو شرمندہ کر
رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ آج اِس چیز کو، جو اُسے عرصے سے خوف زدہ کر رہی تھی،
مٹانے پر تلا ہوا ہے۔‘‘ (تماشا، منٹو)
ڈاکٹر خالد اشرف نے
اس افسانے کے متعلق لکھا ہے کہ ’’ان کے اس افسانہ کو باری علیگ نے رسالہ خلق میں شائع
تو کردیا لیکن پولیس کے خوف سے بعد میں رسالہ بند کر دیا۔‘‘
اِس کے علاوہ منٹو
نے اپنے کئی افسانوں میں، کولونیل ہندوستان میں ظہور پذیر ہونے والے تمام عوامل کا
فکر ی تجزیہ کرکے شخصی آزادی کی بے حرمتی کے خلاف اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ منٹو
کو ایک اور معاملہ درپیش تھا، اور وہ یہ کہ انھیں اپنی تخلیقی قوت کے امکانات کو درجہ
بندی کی نذر ہونے سے محفوظ بھی رکھنا تھا، اسی لیے انھوں اس شدید صورت حال کی ہو بہو
عکاسی کے بجائے اس سے منکشف ہونے والے نتائج کو بیانیہ کا حصہ بنایا ہے اور یہ ان کے
تخلیقی وجدان کا مظہر ہے۔مثلاًان کا ایک افسانہ ہے ’سوراج کے لیے‘ عنوان اور تشکیل دی گئی افسانوی فضا سے ہی ظاہر
ہے کہ یہ استعمار سے مزاحمت اور آزاد مملکت کے خواب سے تعلق رکھتا ہے۔ افسانے کا ابتدائی
پیراگراف ملاحظہ ہو:
’’مجھے سنہ
یاد نہیں رہا، لیکن وہی دن تھے جب امرتسر میں ہر طرف ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے گونجتے
تھے۔ ان نعروں میں، مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک عجیب قسم کا جوش تھا... ایک جوانی...
ایک عجیب قسم کی جوانی۔ بالکل امرتسر کی گجریوں کی سی، جو سر پر اپلوں کے ٹوکرے اٹھائے
بازاروں کو جیسے کاٹتی ہوئی چلتی ہیں... خوب دن تھے۔ فضا میں جو وہ جلیانوالہ باغ کے
خونیں حادثے کا اداس خوف سمویا رہتا تھا، اُس وقت بالکل مفقود تھا۔ اب اس کی جگہ ایک
بے خوف تڑپ نے لے لی تھی... ایک اندھا دھند جَست نے جو اپنی منزل سے ناواقف تھی۔ ‘‘
(سوراج کے لیے،منٹو)
اس ابتدائیہ کے باوجود افسانے میں صرف و محض
احتجاجی نعروں کے بجائے انسانی جبلت کے پیچیدہ پہلوؤں کو پیش کیا گیا ہے تاہم اس میں
ظاہری سطح پر رونما ہونے والی صورت حال برطانوی اقتدار کے خلاف احتجاج سے عبارت ہے۔اس
افسانے کے کردارسول نافرمانی کی تحریک،جلیانوالہ باغ کے جلسے،کھادی پہننے پر اصرار
جیسی مزاحمتی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔افسانے میں شہزادہ غلام علی اور نگار کا رشتہ ازدواج
میں منسلک ہونے کے بعد بھی جنسی رشتہ قائم کرنے کے لیے ’سوراج مل جانے ‘ کی شرط رکھنا
سچے محب وطن کے جذبات کا شدید عکاس ہے۔ استعماروںکے وضع کردہ سیاسی، سماجی اورمعاشرتی
نظام کو اختیار کرنا ہندوستانی باشندوں کی مجبوری تھی۔ اس مجبوری سے نجات کے لیے ہرشخص
کا دل مضطرب تھا، جس کا اظہار منٹو نے اپنے کرداروں کے توسط سے کیا ہے۔ سوراج کے انقلابی
نوجوان شہزادہ غلام علی کے علاوہ افسانہ ’ 1919 کی بات‘ کا مرکزی کردار تھیلا بھی قابل
ذکر ہے، جس نے اپنے ساتھیوں کوانگریزوں سے مقابلہ آرائی کے لیے للکارا،جان کی پروا
کیے بغیرآگے بڑھ کر حملہ کیا اور وطن کے لیے لڑتے ہوئے جان دے دی۔اس افسانے میں منٹو
نے مقامی لوگوں کے انتقامی اور احتجاجی عوامل سے خوف زدہ حکام کے ردعمل اور نتائج کا
بڑی باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے۔
’’کہتے ہیں
کہ نو اپریل کی شام کو ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر کچلو کی جلا وطنی کے احکام ڈپٹی کمشنر
کو مل گئے تھے۔ وہ ان کی تعمیل کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کے خیال کے مطابق
امرتسر میں کسی ہیجان خیز بات کا خطرہ نہیں تھا۔ لوگ پرامن طریقے پر احتجاجی جلسے وغیرہ
کرتے تھے، جن سے تشدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان
کرتا ہوں۔ نوکو رام نومی تھی۔ جلوس نکلا مگر مجال ہے جو کسی نے حکام کی مرضی کے خلاف
ایک قدم اٹھایا ہو، لیکن بھائی جان سرمائیکل عجب اوندھی کھوپڑی کا انسان تھا۔ اس نے
ڈپٹی کمشنر کی ایک نہ سنی۔ اس پر بس یہی خوف سوار تھا کہ یہ لیڈر مہاتما گاندھی کے
اشارے پر سامراج کا تختہ الٹنے کے در پے ہیں، اور جو ہڑتالیں ہو رہی ہیں اور جلسے منعقد
ہوتے ہیں، ان کے پس پردہ یہی سازش کام کر رہی ہے۔ ‘‘ (1919 کی بات،منٹو)
اس افسانے میں استعمار
اور مقامی باشندوں کے درمیان ہونے والے اختلافات،اپنے حقوق،سیاسی اور معاشرتی جبر کے
خلاف ہندوستانیوں کے پرسکون احتجاج کے بعد کی پرتشددفضا کو پیش کیا ہے کہ کس طرح مزاحمت
کی آوازیںشدید ہوتے ہوتے نوآبادیاتی اقتدار سے متصادم ہو گئیں۔ذیل کی سطروں سے اس
سچویشن کا ااندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
’’دور شور
کی آواز سنائی دے رہی تھی، جیسے بہت سے لوگ غصے میں چیخ چلا رہے ہیں۔ میں گندا نالا
عبور کرکے ظاہرا پیر کے تکیے سے ہوتا ہوا ہال دروازے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ تیس
چالیس نوجوان جوش میں بھرے پتھر اٹھا اٹھا کر دروازے کے گھڑیال پر مار رہے ہیں۔ اس
کا شیشہ ٹوٹ کر سڑک پرگرا تو ایک لڑکے نے باقیوں سے کہا، ’’چلو... ملکہ کا بت توڑیں!‘‘
دوسرے نے کہا، ’’نہیں
یار... کوتوالی کو آگ لگائیں!‘‘
تیسرے نے کہا، ’’اور
سارے بینکوں کو بھی!‘‘
چوتھے نے ان کو روکا،
’’ٹھہرو... اس سے کیا فائدہ... چلو پل پر ان
لوگوں کو ماریں۔‘‘ (1919 کی بات، منٹو)
پریم چند اور منٹو
کے علاوہ اردو کے دوسرے فکشن نگاروں کے یہاں سفید فام حکمرانوں کے غاصبانہ اور جابرانہ
رویوں کے خلاف احتجاجی اقدام کے واقعات موجود ہیں۔ اس ضمن میں بلونت سنگھ کا افسانہ
’ہندوستان ہمارا‘ قابل ذکر ہے۔مذکورہ افسانے میں دوران سفر ایک انگریز اور قوم پرست
سکھ کے تنازع کے ذریعے استعماریت کے جبر اور اس جبر سے مزاحمت کی شدید صورت حال کی
عکاسی کی گئی ہے۔
’’جنگ کی
وجہ سے بھیڑ بھاڑ بہت زیادہ تھی،۔ گاڑی ٹھساٹھس بھری ہوئی تھی۔ سکنڈ کلاس کے صرف ایک
ڈبہ میں ایک انگریز کے سوا اور کوئی نظر نہ آتا تھا۔ جگجیت سنگھ دروازہ کھول کر اندر
جانے لگا تو انگریز اٹھ کر دروازے پر آن کھڑا ہوا، ’’کسی اور ڈبہ میں بیٹھیے جا کر۔‘‘
وہ بہت حیران ہوا، ’’اور کوئی ڈبہ خالی نہیں ہے۔‘‘
’’خیر اس
ڈبے میں نہیں بیٹھنے دوں گا۔‘‘
’’کیوں، کیا
یہ ریزرو ہو چکا ہے؟‘‘ انگریز نے نتھنے پھلا کر کہا، ’’ریزرو ہی سمجھ لو۔‘‘ جگجیت سنگھ
بہت پریشان ہوا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، کہیں
بھی ریزرو لکھا ہوا نظر نہ آیا۔ ’’یہ ریزرو نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اندر داخل ہونے
لگا تو صاحب نے پھر راستہ روک دیا۔ اس بات پر کچھ تو تو میں میں ہو گئی۔ کچھ لوگ بھی
جمع ہو گئے۔ اسٹیشن کا بابو بھی آ نکلا۔ جگجیت سنگھ نے بابو کو ساری بات سمجھائی۔
صاحب نے چلاکر کہا، ’’میں اسے اپنے ڈبے میں سفر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘
بابو نے کہا اسٹیشن
ماسٹر سے کہیے۔ جگجیت سنگھ اسٹیشن ماسٹر کے پاس گیا۔ اس نے آکر صاحب کو سمجھایا لیکن
صاحب نے سو سوالوں کا جواب ایک ’’نہیں‘‘ میں دے دیا۔ پولیس کے کانسٹبل چپ چاپ ادھر
ادھر کھسک گئے۔۔۔مادر وطن کے سینے پر مادر وطن کی ریل گاڑی کھڑی تھی اور مادرِ وطن
کے ایک بیٹے کو اس سرزمین سے ہزارہا میل پر رہنے والا اجنبی گاڑی کے اندر داخل نہیں
ہونے دیتا تھا۔ اس کا یہ جائز حق کوئی قانون واپس نہ دلا سکتا تھا۔ جگجیت سنگھ کا جسم
تنگ وردی میں جکڑن سی محسوس کرنے لگا... دفعتاً
اس نے قلیوں کو سامان اٹھانے کے لیے کہا اور بیوی کو ساتھ لے کر گاڑی کے اسی ڈبے کی
طرف بڑھا۔ پیشتر اس کے کہ صاحب اٹھ کر اس کاراستہ
روکے،وہ پھرتی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ صاحب کی گردن پکڑی اور اس کی ٹانگوں
میں ہاتھ دیا اور اچھال کر پلیٹ فارم پر پھینک دیا۔ بیوی کا ہاتھ پکڑا، اسے سیٹ پر
بٹھایا۔ قلی سامان لے کر اندر آ گئے اور اس نے صاحب کا سامان اٹھا اٹھا کر پلیٹ فارم
پر پھینکنا شروع کر دیا۔
‘‘
(ہندوستان ہمارا ہے،بلونت سنگھ)
ٹرین کے ڈبے میں سیٹیں
خالی ہونے کے باوجود جگجیت سنگھ کو سیٹ نہ دینے کے پس پشت وہی سامراجی حاکمیت کارفرما
ہے جو استعماریت نے قائم کی تھی۔اسٹیشن ماسٹر اور پولیس کانسٹیبل کے مفاہمت پسندانہ
رویے دراصل اس پوری قوم کی محکومیت اور انھیں ائمپائر تسلیم کرنے کی علامت کے طور پر
سامنے آتے ہیں۔
برطانوی استعمار کا
بنیادی مقصد معیشت پر قبضہ تھا۔ انھوں نے قبضہ کرنے کے نئے انداز اختیار کیے،اپنے آپ
کو مہذب ثابت کرنے کے لیے مقامی لوگوں کو بودو باش اور تعلیم وحکمت کا سبق پڑھاکر یہ
باور کرایا کہ اب تک وہ قعر مذلت میں جی رہے تھے،اپنے حسن کارکردگی کا یقین دلا کر
مخالف آوازوں کو خاموش کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ مقامی با شندوں میں شرح خواندگی بہت کم
تھی،اسی لیے استعمار کے سازشی عوامل لائق تقلید معلوم ہوئے اور ذہنی غلامی کا سلسلہ
شروع ہوا، جو اب تک کسی نہ کسی صورت میں برقرار ہے۔ یہ بات بھی خاطر نشان رہے کہ استعماری
طاقتوں نے نو آبادی باشندوں کو اپنا آلہ کار بنانے اور ان کے عزائم کو متزلزل کرنے
کے لیے تمام حربے آزمائے۔ ایک قسم ان لوگوں کی بھی تھی جنھیں استعمار نے اپنی حکمرانی
میں شریک کر کے مخالف آواز وں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا۔ہندوستان میں بلند
ہمت اور اولوالعزم افراد برطانوی سامراج کے
اس حربے کا شکار رہے۔اپندر ناتھ اشک کے افسانہ ’ لیڈر‘ میں اس المیے کی بھی عکاسی کی
گئی ہے۔
’’جنرل گنج
پہنچتے پہنچتے شرماجی کے جوش کی انتہا نہ رہی۔ ان کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی۔ رگیں ابھر
آئیں۔ انھوں نے پورے زور سے نعرہ لگایا، ’کھادی پہننا...‘ اور ہزاروں آوازیں ایک
ساتھ گونج اٹھیں، ’’غریب ہندوستان کو فاقے
سے بچانا ہے۔‘‘
جھنڈے کو ایک ہاتھ میں تھام کر اپنے حلق کی
پوری آواز سے پنڈت جی نے کہنا شروع کیا، ’’دوستو، آج ہم ایک نازک دور سے گزر رہے
ہیں، اس وقت ہمیں سرکار انگلشیہ ہی سے نہیں لڑنا، بلکہ اپنے ان بھائیوں کا بھی مقابلہ
کرنا ہے جو خودغرضی سے اندھے ہوکر ہندوستان کی غلامی کی زنجیروں کو اور بھی مضبوط بنا
رہے ہیں۔
آج ہم گاندھی ہفتہ منا رہے ہیں۔ ہندوستان ہی نہیں، دنیا کی اس برگزیدہ ہستی کا فرمان ہے کہ آج زیادہ سے زیادہ مقدار میں کھدر فروخت کیا جائے۔ لیکن وہ ہمارے بھائی مل کے کپڑے کو ہی کھادی کہہ کر فروخت کر رہے ہیں۔‘‘ لیکن اگر تمہاری رگوں میں جان ہے، تمہاری تنظیم میں طاقت ہے،تمہاری آہوں میں اثر ہے تو بازی تمہارے ہاتھ رہے گی۔‘‘
(لیڈر،اپندر ناتھ اشک)
استعماری تسلط کے اس
طویل عرصے میں تخلیق کردہ ادب میں اس نظام کے مثبت نتائج پر زیادہ لکھا گیا، مزاحمت
کی آوازیں کم مگر موثر اور دور رس ہیں۔ مندرجہ بالا صفحات میں جن تخلیقات کا ذکر کیا
گیا ہے وہ سب آزادی سے پہلے کی ہیں۔آزادی کے بعد بھی کئی فکشن نگاروں نے اس عہد کی
مزاحمتی اورستائشی دونوں صورتوں کو پیش کیا ہے جس کا مطالعہ نو آبادیاتی اور مابعد
نو آباتی ڈسکورس کے حوالے سے کیا جا رہا ہے۔
Shahnaz
Rahman
C-4/3 Suroor Apartment
Sir Syed Nagar
Aligarh- 202001
Mob.: 9458537513
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں