زبان کی قواعد دو ساختی
تصورات کا مجموعہ ہے (1)صرف (2) نحو۔ دونوں تصورات فقروں/ جملوں میں مستعمل
حرفوں/ لفظوں کے تقریری /تحریری لسانی تعمل میں اپنے وقوع کی اہمیت کے حامل ہیں۔
ہمارا سروکار یہاں چونکہ شعری نحو سے ہے اس لیے لسانی نحوی مظہر میں نثر کی نحوی
ساختوں کے ساتھ شعری نحو پر بھی خاص توجہ صرف کریں گے۔
نحو (لغوی معنی =طرح،
طریق/ اصطلاحی معنی= تقریری /تحریری) لسانی تعمل میں مستعمل لسانی آوازوں (حرفوں/
لفظوں) کا فقرے/ جملے میں اپنے متعینہ مقام پر ہونا۔ اس تعریف کے بموجب قواعد زبان میںنحو لسانی آوازوں
کی جملاتی دروبست سے خاص رشتہ رکھتی ہے۔ دراصل نحو لفظ میں آوازوں کی ترتیب ہی سے
اپنی نمود کی اہمیت و افادیت ثابت کرنے لگتی ہے۔ کوئی لفظ صوتی ترتیب کے بغیر وجود
میں نہیں آتا۔ اگر لفظ میں یہ ترتیب نہیںہے تو وہ ’بے معنی‘ لفظ ہے۔ آوازوں
کی ’روایتی‘ ترتیب ہی کے سبب سے لفظ معنی بردار اکائی میں تبدیل ہوتا ہے۔ اس طرح لفظ
سے بات فقرے اور جملے تک بڑھتی ہے۔ اس سطح پر آکر جملے میں الفاظ کی ترتیب معنی کی
نمود کے مقصد سے جملے کے اجزا یعنی الفاظ کو اس طرح ربط دیتی ہے کہ یہ ’ربط‘ زبان کی
روایت بن جاتا ہے۔ اس کے بغیر زبان کے کسی بھی استعمال میں ’بات‘ نہیں بنتی۔ لفظوں کے
ربط سے ساختیاتی سطح پر اجزاے متصل کا تصور پیدا ہوا ہے جن کی بالترتیب موجودگی
جملے میں نحو کے وجود کا سبب بنتی ہے۔ ذیل کی مثال سے اسے سمجھا جاسکتا ہے ؎
ہے یہ بن روایت جاتا
کی زبان
یہ سات الفاظ زبان
کے عمومی ذخیرے (لینگ*) سے لیے گئے ہیں۔ انھیں دی گئی ترتیب میں پڑھیں یا بولیں
تو ان کے توسط سے کہی جانے والی بات کا ابلاغ نہیں ہوتا لیکن یہی الفاظ جب ذیل
کی ’ترتیب‘ میں آتے ہیں یعنی اس طرح ؎
یہ زبان کی روایت بن
جاتا ہے
تو یہ خاص ترتیب ان
میں کچھ معنی/ مفہوم پیدا کر دیتی ہے۔ لفظوں کے اس استعمال (پرول**) میں ان کا
جملے کی در و بست میں متعینہ مقام پر ہونا
ناگزیر ہے اور یہ در و بست جملے کے اجزاے متصل کے سبب وجود میں آتی ہے۔ اجزاے متصل
کا ربط ذیل کے خاکے میں ملاحظہ کیجیے:
یہ زبان کی روایت بن جاتا ہے
اس قسم کے ’نثری‘ تعملات
اشعار میں پائے جاتے ہیں یعنی نحوی اصول سے نثر ہونے والے یہ فقرے/جملے دراصل
مصرعے ہوتے ہیں۔ دو مصرعے یکجا ہوں تو یہ شعر کہلاتے ہیں جیسے ؎
مفلسی سب بہار کھوتی
ہے
مرد کا اعتبار کھوتی
ہے
میر، ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی
سی ہے
کوئی ویرانی سی ویرانی
ہے
دشت کو دیکھ کے گھر
یاد آیا
تم مرے پاس ہوتے ہو
گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اب توگھبرا کے یہ کہتے
ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا
تو کدھر جائیں گے
(ذوق)
اٹھو، مری دنیا کے
غریبوںکو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار
ہلا دو
(اقبال)
یہ عشق نہیں آساں،
بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے
اور ڈوب کے جانا ہے
(جگر)
وغیرہ عروضی آہنگ
کے حامل یہ مصرعے ساختی لحاظ سے نثری نحو کے
بھی حامل ہیں (لیکن یہ نثری تعملات نہیں ہیں) ان کا نحوی تجزیہ :
مفلسی
سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی
ہے
مبتدا
خبر(1)
خبر (2)
ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی
سی ہے
تخاطب
مبتدا
خبر
اگر میرکو مبتداما
نیں تو اس تخاطب کے بعد کا پورا لسانی تعمل خبر کی ذیل میں آجائے گا۔
یہ اشعار نثری نحو
کے حامل ہیں۔ شعری نحو کے حامل تعملات کا تجزیہ نثری نحو کے تجزیے کی طرح نہیںکیا جاسکتا
کیونکہ عروضی آہنگ لسانی تعملات کی نحو کو تبدیل کر سکتا/ کر دیتا ہے۔ جیسے ؎
نقش فریادی ہے کس کی
شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر
پیکر تصویرکا
غالب کے اس شعرکی نحو
اس کی نثری ساخت کی نحو سے بالکل مختلف ہے۔ شعر کی نثری ساخت :
نقش کس کی شوخیِ تحریر
کا فریادی ہے (کہ) ہر پیکر تصویر کا پیرہن کاغذی ہے
قابل توجہ امر یہ ہے
کہ نثری ساخت میں واقع ترکیب اضافی ’شوخیِ تحریر کا فریادی‘کی ساخت دو لخت ہو کر مصرعے
کی ابتدا اور انتہا تک پھیل گئی ہے اور استفہام جو نثری نحو میں دوسرا لسانی تعمل ہے،
مصرعے کی نحو میں اضافی ترکیب’شوخی تحریر کا‘سے ہمرشتہ ہو گیا ہے۔ یعنی ’کس کی شوخی
تحریر کا‘ یہاں دراصل ترکیب ’شوخیِ تحریر کا فریادی‘ میں شامل مضاف (فریادی) شعری
نحو کے ابتدائی حصے میں شامل ہے۔ اسی طرح دوسرے مصرعے کی نحو میں بھی عروضی
آہنگ کی وجہ سے تبدیلی واقع ہوتی ہے یعنی خبر (پیرہن کاغذی ہے) مبتدا (ہر پیکر تصویر
کا) سے پہلے نظم کی گئی اور اسے عروضی آہنگ کا تقاضا سمجھنا چاہیے۔ کہہ سکتے ہیںکہ
شعری نحو عروضی آہنگ کے زیر اثر نموپاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آہنگ، عروضی آہنگ
اور عروضی صوتیات کے مظاہر دراصل کیا ہیں؟
رنگ و سنگ، جسمانی
حرکات و سکنات، موسیقی اور لسانی اظہار میں آوازوں کی مخصوص دروبست جس سے بننے والی
منظم ساخت (ڈزائن) کی اکائی کی تکرار ممکن ہو، آہنگ ہے۔ اس آہنگ کے تجربے سے جمالیاتی
احساس متاثر ہوتا ہے مثلاً مصوری کا نقش، مجسموں کے اعضا کی ترتیب وار تراش، رقص کی
حرکات و سکنات، کسی ساز سے پیدا آوازوں کا منظم سلسلہ اور گانے کی آوازوں کا زیر
و بم، سب اپنے اپنے آہنگ سے سننے یا دیکھنے والے کے جمالیاتی احساسات پر اثر انداز
ہوتے ہیں۔ آہنگ نثر اور نظم دونوں میں پایا
جاتا ہے۔ نثری آہنگ غیرمحسوس داخلی اور شعری آہنگ اضافی اور عروضی ہوتا ہے۔
زبان کا ہر لفظ متعدد
تکلمی اصوات کی مخصوص ترتیب سے پیدا ہوتا ہے۔ متکلم جب اپنے خیالات کو ظاہر کرنے کے
لیے اپنے اعضا ے نطق یعنی ہونٹ زبان، دانت، تالو اور ناک کے اعضا کا استعمال کرتا ہے
تو وہ اپنے ہر لفظ کی آواز جو مصوتوں اور مصمتوں پر مشتمل ہوتی ہے، ادا کرتا
ہے۔ ان آوازوں کی تکرار (مثلاً بار بار کسی لفظ کا تلفظ) کا نتیجہ ایک مخصوص
صوتی آہنگ میں ظاہر ہوتا ہے، یہ نثری آہنگ ہے۔ عام بول چال میں فرد جب
زبان کا استعمال کرتا ہے تو اس کے لفظوں کی ادایگی میںلفظوں کی آوازیںکبھی زور
دے کر، کبھی طول دے کر اور کبھی آواز کے نشیب سے ادا کی جاتی ہیں۔ زبان کے ایسے استعمال
سے سننے والے کے سمعی اعصاب ایک صوتی پیکر بنتا محسوس کرتے ہیں جو لفظوں کے، خصوصاً
مصوتوں پر بل یا سر لہروں کی وجہ سے، نثری آہنگ میں ڈھلا ہوا ہوتا ہے۔
لفظوں پردیے گئے بل
یا ان کی سر لہروں کا تعارف یہاں اس لیے کیا گیا کہ شعری آہنگ کی نمود میں آوازوں
کے اس نشیب و فراز کا بڑا کردار ہوتا ہے۔شعر/نظم کو بآواز بلند پڑھنے سے شعری عروضی
آہنگ سامع کی سماعت پر نقش گری کرتا ہے۔ شعر میں مستعمل ہر لفظ میں(مصمتوں سے قطع
نظر) مصوتوں کی صوتی خصوصیات (طول، اختصار
وغیرہ) کے مسلسل سننے سے جو آہنگ نمو پاتا ہے، وہ اضافی عروضی آہنگ ہے۔ اس
کا گہرا تعلق ایک مخصوص علم یعنی علم عروض میں بتائے گئے مختلف بحروں کے
مختلف اوزان کے آہنگ سے ہے۔ اس آہنگ کو شعری نحو کی نمود کا عامل بھی قرار دیا
جاسکتا ہے۔
لسانی گروہ کے ہر فرد
کو یہ اہلیت حاصل نہیںہوتی کہ وہ شعر کو موزوں یعنی عروضی آہنگ کے مطابق پڑھ سکے۔
شعر کو شعری آہنگ کے ساتھ، خاص طور پر بلند آواز سے پڑھنا اپنے آپ میں ایک فن ہے۔
نثری آہنگ شعری نحو کے تحت کس طرح شعری آہنگ میں تبدیل ہوتا ہے۔ ’دیوانِ غالب‘ کے
پہلے مطلع سے اس کی مثال مع تحلیل و تجزیہ پیش کی جاچکی ہے جس میں نثری آہنگ کے حامل
ایک نثری اظہار کو شعری نحو کے اثر سے ایک خاص صوتی آہنگ حاصل کرتے دیکھا گیا ہے۔
مذکورہ شعر کا نثری اظہار
:
نقش کس کی شوخیِ تحریر
کا فریادی ہے (کہ) ہر پیکر تصویر کا پیرہن کاغذی ہے۔
اس اظہار کے آہنگ
میں شعری نحو کے تاثر سے یعنی اس کے لفظوں کی سر لہروں اور بل کے تاثر سے شعری آہنگ
کس طرح پیدا ہوا، اس کی ساختی تحلیل کا جائزہ جو شعر کی تقطیع سے سامنے آتا ہے،
اس طرح کا تفاعل ہے ؎
نقش فریا/ دی ہے کس
کی/شوخیِ تح/ریر کا
کاغذی ہے/پیرہن ہر/پیکرِ
تص/ویر کا
لفظ ’نقش‘ کی آخری
آواز مصمتہ/ ش/ نثری جملے میں ساکن ہے مگر تقطیع میں وہ متحرک ہو گئی ہے۔
(اسی لیے اکثر افراد اسے متحرک مکسور کی طرح پڑھتے ہیں یعنی / ش/ کے نیچے زیر لگا کر
اسے متحرک کر دیتے ہیں) لفظ ’فریادی‘ کا صرفیہ }دی{ تقطیع کے دوسرے قطعے میں شامل
ہو گیا ہے۔ اسی قطعے میں فعل ناقص ’ہے‘ کے صرفیے کی طویل آواز مختصر ہو گئی ہے
یعنی ’ہے‘جو نثر میں ایک طویل لینیہ (ہَے) وہ محض ’ ہ مکسور مختصر‘رہ گیا ہے۔ تیسرے
قطعے میں ترکیب ’شوخیِ تحریر‘ کا مضاف الیہ ’تحریر‘ بھی تقطیع کے مطابق دو صرفیوں کا
حامل ہو گیا ہے۔ ’تح‘ صرفیہ تو تیسرے قطعے میں ہے لیکن ’ریر کا‘ کے قطعے میں پہلا صرفیہ }ریر{ جس کا جز اول تیسرے قطعے کا آخری صرفیہ ہے،
حرف اضافت ’کا‘ سے مل گیا ہے۔ اب دیکھیے کہ دوسرے مصرعے کی تقطیع میں کیا ہوا۔
یہ کہ پہلے قطعے/کاغذی
ہے/کا فعل ناقص ’ہے‘ یہاں پہلے مصرعے کے ’ہے‘ کی طرح مختصر نہیں ہوا ہے بلکہ
اپنی فطری طوالت کا حامل ہے۔ مصرعے کے دوسرے قطعے میں زیادہ تبدیلی واقع نہیں ہوئی
ہے۔ بس تیسرے قطعے میں ترکیب ’پیکر تصویر‘ میں لفظ ’تصویر‘ کا پہلا صرفیہ }تص{
مضاف ’پیکر‘ کے ساتھ ہے۔ البتہ اس کا دوسرا صرفیہ } ویر{ آخری قطعے میں شامل ہو گیا
ہے۔ شعر کی دونوں ترکیبوں کے مضاف کی آخر ی آوازیں (شوخی میں یِ اور پیکر میں
رِ) مکسور مجہول طویل کی طرح (شوخیے/ پیکرے) تلفظ میں آتی ہیں۔
معلوم ہوا کہ تقطیعی
جانچ میںشعر کے بعض لفظوں کی طویل آوازیں مختصر ہو جاتی ہیں اور مختصر آوازیں طویل۔
جس کی مثال نثری ساختوں والے شعروں میں دیکھیے۔ اقبال کے شعر کے دوسرے مصرعے
کی ترکیب ’کاخِ امرا‘ کے مضاف ’کاخ‘ میں/خ /مکسور مجہول طویل ادا کیا جاتا ہے : کاخے
امرا۔ نثری نمونے اور شعر کی مثال کو دو چار مرتبہ بآواز بلند پڑھنے پر دونوں کی اصوات
اور آہنگ کا فرق واضح ہو جائے گا۔ شعری نحو اور عروضی آہنگ کے سبب سے شعر کہتے ہوئے
شعر کا نثری خیال تقطیع میں دکھائی گئی صوتی تبدیلیوں کا حامل ہوجاتا ہے۔ ان تبدیلیوں کے
علاوہ بھی شعری نحو میں اکثر تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جیسے اقبال کے شعر میںتقطیع کے
وقت ’غریبوں‘ کی غنائیت کو شعری صوتی اکائی میں شامل نہیںکیا جاتا۔ جگر کے شعر میں
لفظ ’آساں‘ کے غنّے کی بھی یہی صورت ہوگی۔ ’اتنا‘ کا نون مفتوح اور دوسرے
مصرعے میں ’کے‘ بھی مختصر ادا کیا جائے گا۔ اسی شعر کے لفظ ’اور‘ کو ’اَر‘ پڑھا جائے
گا۔ غالب کے شعر میں ’یاد آیا‘‘ کو ’یاد۔آیا‘ نہیں ’یادایا‘ پڑھیں گے وغیرہ۔
اسے شاعری کے پورے ذخیرۂ الفاظ کی جو شعر میں استعمال کیا جاتا ہے، خصوصیت تسلیم کرتے
ہیں۔
بہت سے شعروں میںمستعمل
الفاظ نثری نحو کے مطابق ہوتے ہیں۔ (مثالیں گزر چکی ہیں) لیکن یہ عمومی صورت حال نہیںہے۔
کبھی کبھی شعر کہتے ہوئے نثری نحو کے حامل اشعار تخلیق ہوجاتے ہیں۔ مگر اکثر ایسا نہیں ہوتا۔
شاعری اگر عروضی آہنگ کی پابند ہے تو شعر کہنے کے لیے منتخب کیے گئے لفظوں میں عروضی
آہنگ سرایت کر جاتا ہے اور نثری نحو کی ساخت کو لازما متاثر کرتا ہے۔ چونکہ نثر کے
لفظوں کا آہنگ بھی لسانی خصوصیت (بل، سر لہر وغیرہ) کی وجہ سے شعری لفظوںکو متاثر
کرتا ہے اور ایک شعری نحو کی نمود ہوتی ہے اس لیے عروضی آہنگ سے شعر میںمستعمل زبان
کی نثری نحو اکثر میل نہیںکھاتی اور ارادہ کر کے نثری نحو کو شعر میںبروے کار نہیں لایا
جاسکتا کہ عروضی آہنگ کا اثر شاعر کی فکر پر حاوی رہتا ہے۔ اس اضافی آہنگ کو شاعر
کی موزونی ِطبع کے زیر اثر سمجھنا چاہیے۔ یہ صلاحیت یعنی موزونی طبع ہر فرد کا حصہ
نہیں ہوتی۔ اسی کی وجہ سے شاعر کی زبان پر عروضی آہنگ کا تسلط بن جاتا ہے۔
(2)
عروضی آہنگ ایک اضافی
تصور ہے۔ اس کی تفتیش کے لیے علم عروض کے نظام اصوات کو سمجھنا ہوگا۔ یہ نظام لسانی
صوت کے طول و اختصار اور لفظوں کی ساخت میں ان کی آوازوں پر صوتی بل، سر لہر اور اترتے
چڑھتے لہجوں کے سبب مختلف صوتی آہنگوں میں نمو پاتا ہے۔ علم عروض میں ان
آہنگوں کو بحر کہتے ہیں۔ شعر میں ادا کی گئی آوازوں کا بحروںکی متعینہ آوازوں سے
مطابقت رکھنا ضروری ہے۔ ماہرین نے بحروں کی آواز کا تعین انسانی آواز کی کم و بیش
طوالت سے کیا ہے۔ یہ صر ف دو آوازیں ہیں (1) مختصر (2) طویل مثلاً ’اَ
‘ مختصر ہے اور ’ آ ‘ طویل۔
انھی مصوتوں کے میل سے آوازوں کا جو نظام بنتا ہے، ان کے آٹھ دس کلمات
بنائے گئے ہیں۔ ہر کلمہ وزن کہلاتا ہے۔ جیسے فعولن/ فاعلن/ فاعلاتن/ مفاعیلن وغیرہ۔ انھیں ارکان افاعل کہتے ہیں۔ یہ ارکان بے
معنی الفاظ ہیں مگر اردو عروض میں انشاء اللہ خاں انشا نے ان کے ہم وزن کچھ بامعنی
الفاظ بھی متعین کیے تھے جیسے ’پری خانم‘ (مفاعیلن)، خانم پری، (مستفعلن) ’چت لگن‘
(فاعلن) وغیرہ۔ ہمارے زمانے میں ڈاکٹر عصمت جاوید نے ’لللائی عروض‘ لکھا تو لا
للا لا (فاعلاتن) للا لا (فعولن) لاللا (فاعلن) وغیرہ کو ارکان افاعیل کی جگہ استعمال
کرنے کی سفارش کی۔ مذکورہ ارکان / افاعیل کو تشکیل دینے والے صوتی اجزا کی ساختوں کے
تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ متحرک اور ساکن آوازوں (صرفیوں) سے مل کر بنے ہیں۔ عروض
میں انھیں تین اجزا کی طرح قبول کیا جاتا ہے اس لیے ان کا نام اصول سہ گانہ پڑ گیا
ہے۔ یہ تین اجزا (1) سبب (2) وتد اور (3) فاصلہ
کہلاتے ہیں۔ مثالیں
(1) سبب :جس صرفیے میں پہلی آواز متحرک
اور دوسری ساکن ہو : کب، سر، ہٹ، وغیرہ میں۔
(2) وتد: تین آوازوں کے ملنے سے بنتا ہے۔
اس میں پہلی دو آوازیںمتحرک اور تیسری ساکن ہوتی ہے جیسے ’غضب، مگر، حیا‘ وغیرہ
میں۔
(3) فاصلہ : ایسا
لفظ یا صرفیہ جو چار صوتیوں سے مل کر بنا ہو اور اس میں پہلے تین متحرک اور آخری
ساکن ہو جیسے ادبی، ورثہ، شعرا وغیرہ میں۔
ان صرفی اجزا کو مزید
قسموں میں بھی تقسیم کیا گیا ہے۔
شعرکے دونوں مصرعوں
کے وزن کی مطابقت معلوم کرنے کے لیے ان کی تقطیع کی جاتی ہے جس سے ان کا وزن بھی معلوم
ہوجاتا ہے۔
مفلسی سب / بہار کھو
/ تی ہے
مرد کا اع / تبار کھو
/ تی ہے
فاعلاتن/ مفاعلن /
فعلن
غالب کے مطلع کی تقطیع
بھی ملاحظہ کیجیے ؎
نقش فریا / دی ہے کس کی /شوخیے تح /ریر کا
فاعلاتن/ فاعلاتن/
فاعلاتن / فاعلن
کاغذی ہے/پیرہن ہر
/پیکرے تص/ویر کا
فاعلاتن/ فاعلاتن/
فاعلاتن / فاعلن
شعر کی آوازوں کا
آہنگ یہ ہے کہ دونوں مصرعوں میں ہم وزن آوازیں جمع ہوگئی ہیں اور بڑی آواز
کے مقابل بڑی آواز جیسے فا اور چھوٹی آواز کے مقابل چھوٹی آواز جیسے عِ۔ اس خاکے
میں ایک بڑی آواز کے بعد ایک چھوٹی آواز اور اس کے بعد دو بڑی آوازیں شعری نحو کے
مطابق شعر میں اپنا مقام پاتی ہیں۔ اس میں نثری نحو کی ساختیں اکثر باقی نہیں رہتیں
(یعنی خبر پہلے اور مبتدا بعد میں یا فعل پہلے اور فاعل مصرع کے آخر میں آسکتا ہے)
غرض یہ کہ عروضی آہنگ کی وجہ سے نثری آہنگ میں کوئی بھی تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔
علم عروض کی متعینہ
بحروں میںمستعمل ارکان افاعیل سے عروضی آہنگ وجود میںآتا ہے۔ ایک بحر کا آہنگ دوسری
بحر کے آہنگ سے مطابقت نہیںرکھتا۔ مثال کے طور پر دو ارکان افاعیل فعولن اور فاعلن
کے اجتماع سے تشکیل پانے والے آہنگ ملاحظہ کریں ؎
فعولن ، فعولن ،
فعولن فعولن
اس میں پہلی آواز
ف مختصر ہے۔ اس کے بعد عو۔لن میں دو بڑی
آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ انھیں تکرار سے بآواز بلند ادا کریں تو ایک مخصوص صوتی ساخت
تشکیل پاتی ہے۔ اسی طرح
فاعلن فاعلن
فاعلن فاعلن
کی صوتی تکرار میںپہلے
ایک طویل آواز فا سنائی دیتی ہے۔ پھر دوسری آواز مختصر ہے۔ یعنی
’ع ‘ اور تیسری آواز ’لن‘ پہلی آواز کی طرح طوالت رکھتی ہے۔ ان ارکان کی ادایگی سے
پہلی مثال کے آہنگ سے مختلف آہنگ نمو پاتا ہے۔ اسی طرح تمام بحروں کے آہنگ اپنی
انفرادیت رکھنے والے ہیں۔ واضح کرنا ضروری ہے کہ عروضی آہنگ بحروں کے ارکان کے اجماع سے پیدا ہوتا ہے لیکن اوپر کی
مثالوں کے آہنگ ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ ان کے آخری ارکان کبھی کبھی کچھ
تبدیلیوں سے بھی گزرتے ہیں جیسے ؎
فعو لن فعو لن
فعو لن فَعَل
یا ؎
فعو لن فعو لن
فعو لن فعول
ملاحظہ ہو کہ آخری
فعولن یہاں (1) فعل اور (2) فعول
میں بدل گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی عروضی آہنگ کے آخری رکن ہی میںتبدیلی آتی
ہو، یہ آہنگ (بحر) کے بیچ میںبھی واقع ہو سکتا ہے جیسے ولی کے شعر میں ؎
فاعلاتن مفاعلن فعلن
کے ارکان استعمال کیے
گئے ہیں۔ یہ دراصل بحر خفیف کے وزن فاعلاتن مستفعلن فاعلاتن سے ظہور میں آئے ہیں۔
ان کے آخری رکن میںمزید تبدیلیاں واقع ہو سکتی ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ انیس بحروں کے
اصلی اور مبدل ارکان کی یکجائی سے متعدد عروضی آہنگ ظہور کرتے ہیں۔
لسانی صوتیات کی طرح
عروضی صوتیات کے مطالعے کی بنیادی اکائی بھی صوت یعنی انسانی آواز ہے۔ اس صوتیات میں
شعر میں مستعمل آوازوں کی کم و بیش طوالت کے انسلاک سے شعری نحو کا تعین کیا جاتا
ہے جو نثری نحو سے بہت حد تک مختلف ہوتی ہے۔ آوازوں کی طوالت کو چھوٹی/ بڑی آواز
کا نام دیا جاسکتا ہے۔ جسے فعولن (جو عروضی آہنگ کو ناپنے کا ایک مجرد پیمانہ ہے)
میں پہلی آواز ’ف‘ مختصر اور بقیہ دو آوازیں ’عو۔ لن‘ طویل آواز ’آ‘کی طوالت
کے برابر تسلیم کی جاتی ہیں۔ اگر فعولن سے ’ن‘ کم کر دیا جائے تو ’فعول‘ ایک اور صوتی
اکائی حاصل ہوجائے گی۔ عروضی آہنگ کو ناپنے والے متعدد پیمانوں (ارکان/ افاعیل) میں ہونے
والی تبدیلیاں زحاف کہلاتی ہیں۔ واضح رہے کہ ہر عروضی آہنگ (بحر) اپنے آپ میں منفرد
ہے۔ ایک آہنگ پر دوسرا آہنگ پوری طرح منطبق نہیں ہوتا البتہ بعض آہنگ
آپس میں صوتی مشابہت ضرور رکھتے ہیں۔ شعر کہتے ہوئے اس کا خیال نہ رکھا جائے تو بحررجز
میں بحر رمل شامل ہوجاتی ہے جو معیوب ہے۔ شعر کہنے کے لیے شاعر کو موزوتی طبع
کا مالک ہونا چاہیے یعنی شاعر کی طبیعت کی عروضی آہنگ سے مطابقت ہونی چاہیے۔ دراصل
وزن کے پیمانے میں آہنگ اور مستعمل الفاظ
میں مطابقت ناگزیر ہے ورنہ سکتہ، سقوط وغیرہ عیوب کی وجہ سے شعر بحر سے خارج ہوجاتا
ہے۔ چند مثالیں :
یوں ہوا دوریاں کم
کرنے لگے تھے دونوں
(ندا فاضلی)
لفظ ’دوریاں‘ میں الف
کا سقوط
لمحوں کو جدا لمحوں
سے کر کون رہا ہے
(محسن احسان)
دوسرے ’لمحوں‘ میں واو
کا سقوط
وصل کی شب تو ہوا جاتا
ہے سناٹا بہت
(شجاع خاور)
لفظ ’سناٹا‘‘ کے دوسرے
الف کا سقوط
بس اک سلسلہ ہے آج
اک بیتی کہانی کے
(اختر الایمان(
فقرے ’بس اک سلسلہ
ہیں‘ میں برا سکتہ ہے۔
یہ تمام مصرعے عروضی
آہنگ سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں شاعروں کے یہاں دیکھی جاسکتی
ہیں۔
(3)
شعری نحو کا انحصار
عروضی آہنگ پر ہے۔ اکثر اوقات شعری نحو اور منتخب آہنگ ایک دوسرے پر منطبق نہیں ہوتے
اس لیے من چاہا قافیہ شعر میں نظم نہیں ہوپاتا۔ اس سے واضح ہے کہ شعر میں قافیے کی
دروبست کا ایک خاص مقام ہے اور اس مقام پر مخصوص صوتی طول کا حامل قافیہ ہی نظم کیا
جاسکتا ہے۔ ماہرین نے قافیے کے نو حروف متعین
کیے ہیں۔ ان میں درمیانی یعنی پانچواں حرف جسے حروف روی کہتے ہیں، قافیے کا اصل حرف
ہے اس کے بعد اگر ردیف ہو تو اسے نظم کیا جاتا ہے اور ردیف نہ ہو تو قافیے پر مصرع
ختم ہو جاتا ہے۔
عروضی صوتیات میں حرف
قافیہ (جو اکثر مصمتہ اور شاذ مصوتہ ہوتا ہے) ایسا حرف ہے جس کی صوتی تکرار سے شعر
میں موسیقی پیدا ہوتی ہے جیسے ’سفر، خطر، ڈر‘ میں ’ر‘ حرف روی ہے اور اس سے پہلے
آنے والی صوت پر ایک مخصوص حرکت (زبر) ہے۔ اصولاً حرف روی سے پہلے آنے والے حرف کی
حرکات (زبر، زیر، پیش) ہی سے قافیے میں صوتی حسن نمو پاتا ہے۔ روی سے لگے ہوئے قافیے
کے دیگر حروف قافیے میں محض تکرار کے لیے آتے ہیں۔ ان حروف کا قافیے میں شامل
رہنا ضروری نہیں ہے۔ جیسے ’شامل، کامل‘ میں صوتیہ ’م‘۔ ’شامل‘ کا قافیہ ’دل‘ بھی ہوسکتا
ہے کیونکہ ’ل‘ حرف روی سے پہلے آنے والے مصمتے ’م/ د‘ مکسور ہیں۔ اسی طرح ’ہوش، جوش، سروش‘قافیوں میں واو
مضموم مجہول حرکت ہے اور ’غرور، شعور، وفور‘ میں واو مضموم معروف۔ ’بادل،کامل، بلبل‘ میں
ل حرف روی تو نظر آتا ہے مگر اس سے پہلے آنے والے حروف مختلف الحرکات ہیں اس لیے
یہ قافیے نہیں بن سکتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اُردو عروض کا نظام صوت لسانی کی بنیاد
پر اپنی ساخت قائم کرتا ہے۔
قافیے کا استعمال شاعری
کی مختلف ہیئتوں میں مختلف طریق (نحو) کے مطابق کیا جاتا ہے۔ جس شعر کے دونوں مصرعوں میں قافیے ہوتے ہیں وہ مقفا یعنی قافیے
والا شعر کہلاتا ہے اور یہ مقفا شعر اگر غزل یا قصیدے میں ہو تو اسے مطلع کہتے
ہیں۔ مطلع کے بعد آنے والے اشعار مطلع کے قافیوںکی اتباع میںلکھے/ رکھے جاتے ہیں تا
کہ ہیئت کا تقاضا پورا ہو۔ غزل/ قصیدے کے باہر ان کے کسی شعر میں قافیہ نہیں ہوتا۔
ایسے مخصوص لفظ کو قافیہ کہلانے کے لیے مطلع سے مقفا ہونا لازمی ہے۔
شعر میں قافیے کا استعمال
عروضی آہنگ کے تقاضے کے مطابق کیا جاتاہے۔ ہر قافیہ ہر آہنگ میں کھپ نہیں سکتا۔
یہ بحر کے ارکان کی صوتی بناوٹ پر منحصر ہے کہ ’بار، بہار، اعتبار‘ وغیرہ کے ساتھ قافیہ
’بیدار‘ بھی نظم کر دیا جائے۔ محاورہ ’قافیہ تنگ ہونا‘ اسی صورت کی معنی افشائی کرتا
ہے کہ غزل/ قصیدے میں شاعر کی کوشش کے باوجود کوئی قافیہ اپنے صوتی نشیب و قراز
کے ساتھ نظم ہونے سے رہ جائے یا نظم نہ ہوسکے یا اسے نظم کرنا ممکن نہ ہو۔ قافیہ شاعری
کا صوتی حسن ہے جس کی تکرار صوتی خوش آہنگی پیدا کرتی ہے۔ بعض اشعار محض قافیے کی
معنوی تہ داری کے سبب شعری تخلیق میں اہمیت حاصل کر لیتے ہیں۔ قافیہ اپنی مخصوص آوازوں
کی تکرار کے سبب اشعار کو حفظ کرنے میں معاون بھی ہوتا ہے۔
شعر میں قافیے کے بعد
ردیف بھی صوتی اکائی ہے جسے قافیہ کے بعد نظم کیا جاتا ہے۔ یہ صوتی مظہر اکثر شعر در
شعر اپنے معنی تبدیل نہیںکرتا، خاص طور پر ایسی ردیف جو کسی فعل ناقص (ہے، تھا، تھی
وغیرہ) یا مجرد حرف (کا۔ کی۔ کیوں، کیا وغیرہ) سے بنتی ہو جیسے ذیل کی ردیفیں :
گھر کے ہر ایک گوشے
میںمکڑی کا جال ’ہے‘
کاغذی ہے پیرہن ہر
پیکر تصویر ’کا‘
زخم کے بھرنے تلک نا
خن نہ بڑھ جاویں ’گے کیا‘
البتہ بعض ردیفیں جو
کثیر لفظی فقرے ہوتی ہیں، قافیوں کے معنوں سے ربط میں آکر اپنے معنی بدل بھی
سکتی ہیں مثلاً ؎
دشت کو دیکھ کے گھر
’یاد آیا‘
یہاں ردیف ’یاد آیا‘
مخصوص معنوی ہے۔اس لیے قافیوں سے ربط میں آکر اس کے معنی میں تبدیلی آسکتی ہے :
دل جگر تشنۂ فریاد
آیا
یہاں ردیف کا پہلا
جز قافیے میں شامل ہوگیا ہے۔ ’فر‘ کوئی لفظ نہیں، محض ایک بے معنی صرفیہ ہے لیکن شاعر
نے ردیف سے اس کا ناتا جوڑ کر اسے قافیے کے مقام پر بٹھا دیا ہے۔
شعری نحو اور عروضی
صوتیات کے اس جائزے سے درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں :
- لفظوں کے صوتی آہنگ سے شعری نحو مرتب ہوتی ہے۔
- شعری نحو عروضی آہنگ سے متاثر ہوتی ہے۔
- عروضی آہنگ ارکان افاعیل کی ترتیب سے وجود میں آتا ہے۔
- ارکان افاعیل متحرک اور ساکن چھوٹی بڑی آوازوں (اَ۔ آ) کا امتزاج ہیں۔
- ماہرین نے ارکان افاعیل کی جگہ دیگر متبادل بھی سجھائے ہیں۔
- اصول سہ گانہ عروض میں صرفی تحلیل و تجزیے کے عوامل ہیں۔
- شعری نحو نثری نحو سے مشابہت نہیں رکھتی۔
- نثری جملے اور شعری جملے (مصرعے) اجزاے متصل کے اصول کے پابند ہوتے ہیں۔
- شعر کی تقطیع دراصل شعری/عروضی ارکان کے متحرک اور مسکون صرفیوں کا تجزیہ ہے۔
- بحر دراصل عروضی آہنگ ہے جو زبان کے اجزاے متصل کے ربط سے نمو پاتی ہے۔
- قافیے اور ردیف عروضی آہنگ کا حصہ ہونے کی وجہ سے اپنی آوازوں کی اہمیت رکھتے ہیں۔
- بحر، تقطیع، قافیہ ردیف وغیرہ عروضی صوتیات کے مطالعے کے معمول ہیں۔
Salim Shahzad
323, Mangalwar ward, Malegaon -
423203 M.S.
Mobile : 9890331137 khansalimshahzad@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں