17/1/24

اردومیں انگریزی رموزِ اوقاف اور صہبائی:شمس بدایونی

اردو زبان، ادب اوراصناف نثر ونظم کی علاحدہ علاحدہ متعدد تاریخیں لکھی جاچکی ہیں۔ اردو املا کی تاریخ پربھی ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں (ف2005) مقالہ لکھ چکے ہیں۔1 لیکن اردو میں مستعمل رموز اوقاف کی تاریخ پر ہنوز کام نہیں کیاجاسکا ہے۔ خاکسار نے 2017 میں ایک مقالہ بہ عنوان ’تجاویز سرسید اورتاریخ رموز اوقاف‘ لکھا تھا، جس میں رموز اوقاف کے استعمال سے قبل کی داستان اور رموز اوقاف کی سلسلہ وار تاریخ کو بیان کرتے ہوئے سرسیداحمدخاں (ف1898) کی مجوزہ علامات قرأت2 پر گفتگو کی تھی اور انھیں موجودہ دور میں مستعمل رموز اوقاف کے سلسلے کی پہلی مضبوط کڑی قرار دیا تھا۔ اس مقالے میں 1845 سے 1990 تک تقریباً ڈیڑھ سو برس کی رموز اوقاف کی تاریخ زیرگفتگو آگئی ہے۔ یہ مقالہ راقم الحروف کی کتاب ’جہات سرسید‘ (علی گڑھ 2018) میں دیکھا جاسکتا ہے۔

زیرنظرمضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس میں غالب کے معاصر اور دوست شیخ امام بخش صہبائی (1805-1857) کے ایک رسالے کا تعارف کراتے ہوئے اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ اردومیں مروج ومستعمل انگریزی رموز اوقاف کو پہلی بار اردو حلقے میںمتعارف کرانے اور ان کی افادیت پر گفتگو کرنے کا سہراصہبائی کے سر ہے۔تحقیق کی اصطلاح میں اسے اردو رموز اوقاف کی پہلی روایت کہہ سکتے ہیں۔

شیخ امام بخش صہبائی بنیادی طور پر فارسی زبان کے عالم تھے۔ ان کا بیشتر سرمایۂ تصنیف وتالیف، فارسی زبان میں ہے۔ اردو میں ان کی تین کتب دستیاب ہیں جو انھوں نے فیلکس بوترس (Felix Boutros)پرنسپل دہلی کالج کی فرمائش پر 1841 سے 1845 کی درمیانی مدت میں لکھی تھیں۔ ان میں ایک حدائق البلاغت (ترجمہ 1842)، دوسری انتخاب دواوین (تالیف 1844)، تیسری رسالۂ قواعدِ صرف و نحوِ اردو (تصنیف1845) ہے۔ یہ تینوں کتابیں گمان بہ درجہ یقین ہے کہ دہلی کالج کے نصاب تعلیم کا حصہ تھیں۔

تیسری کتاب بہ اسم ’رسالۂ قواعد اردو‘ پہلی بار 1261ھ/ 1845 میں سرسید کے بھائی سیدمحمدخان کے چھاپہ خانہ سیدالاخبار یعنی لیتھوگرافک پریس دہلی سے بہ اہتمام سید عبدالغفور چھپ کر شائع ہوئی۔ ڈاکٹر محمد انصاراللہ کی اطلاع کے مطابق اس کا سرورق یہ ہے:

’’رسالہ قواعد اردو/ مشتمل اوپر چارباب کے/ باب اول علم صرف، باب دوم علم نحو، باب سوم لغات زبان اردو، باب چہارم امثال/ تصنیف کیا ہوا،مولوی امام بخش مدرس اول، مدرسۂ فارسی کا۔ جناب محمدخاں بہادر کے چھاپہ خانے کے لیتھو گرافک پریس میں تیسری مئی 1845 سیدعبدالغفور کے اہتمام میں چھپا۔‘‘3

یہ رسالہ نایاب و کمیاب ہے۔ اس کا دوسرا ایڈیشن مطبع العلوم کشمیری دروازہ دہلی سے بہ اہتمام سید اشرف علی 1849 میں چھپ کر شائع ہوا۔ اسی دوسری اشاعت کو عام طور پر پہلی اشاعت لکھاجاتا رہا ہے، جو غلط ہے۔4

تیسری بار یہ رسالہ کلیات صہبائی،مطبوعہ نظامی پریس کانپور 1879 کی جلد دوم میں شامل ہوا۔5 اسی دوران اس رسالے کا ایک علاحدہ ایڈیشن اپریل 1880 میں مطبع نولکشور لکھنؤ سے شائع ہوا۔ راقم الحروف کے پیش نظر اسی کا عکس6 ہے۔ اس کا سرورق مختلف ہے اور آخر میں خاتمۃ الطبع کے عنوان سے ناشر کی جانب سے ایک عبارت کابھی اضافہ کیا گیا ہے۔

سرورق یہ ہے:

بہ عون صناع مکین ومکان وفضل خلاق زمین وزمان/  رسالۂ صرف ونحو، قواعد اردو/ جامعِ قوانینِ صحت الفاظ ومحاورات زبان اردو، بہ تحقیق اعراب صرفیہ ونحویہ بہ صد خوبی وزیبائی مولفہ مولوی امام بخش دہلوی صہبائی، بموجب تحریک، قدرفہم، اہل کمال منشی دین دیال صاحب میرمنشی ایجنٹی بھوپال/ مطبع نامی منشی نول کشور میں بہ طبع مزین مقبول جہاں ہوا۔

خاتمۃ الطبع کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ اسی دوران منشی نول کشور نے کلیات صہبائی جلد دوم کا بھی ایک ایڈیشن شائع کیا تھا۔

اس رسالے کا نولکشوری ایڈیشن (1880) ریختہ او آر جی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کی پی ڈی ایف مولانا ابوالکلام آزاد لائبریری علی گڑھ میں بھی موجود ہے۔

یہ رسالہ جیسا کہ سرورق کی عبارت میں مذکور ہوا مقدمہ کے علاوہ چارابواب پرمشتمل ہے۔ہماری گفتگو کا محور صرف مقدمہ ہے جواردو میں مقدمہ نگاری کی پہلی روایت قرار دیاجاسکتا ہے۔ اب تک دیوان حالی (طبع اول1893) کے مقدمہ (یعنی مقدمۂ شعروشاعری) کو مقدمہ نویسی کی پہلی روایت لکھاجاتا تھا۔ زیرنظرمقدمہ تک رسائی کے بعد یہ سنہ 48 سال مقدم ہوگیا۔ اس طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردومیں مقدمہ نویسی کا آغاز 1845 سے ہوا او راردو کے پہلے مقدمہ نگار حالی نہیں، صہبائی ہیں۔یہ مقدمہ کل نو صفحات (4تا12) پر مشتمل ہے۔ چار صفحات میں زبان اردو کے آغاز اور اس کے ارتقا پر گفتگو کی گئی ہے،جس میں کوئی قابل ذکر بات نظر نہیں آئی۔ پانچ صفحات (7تا12) پرایک مقدمہ اورتمہید کیا گیا ہے، جس میں لہجے کے تغیر سے گفتگو او رعبارت میں جو توقف پیدا ہوتا ہے، اس کو ممیز کرنے کے لیے انگریزی پنکچویشن سے علامتوں کو قدرے ترمیم کے ساتھ  اردو نام دے کر دو طور پر تقسیم کیا ہے اور ان کے استعمال کی صورتیں واضح کی ہیں۔ ان کی گفتگو کا ماحصل انہی کے الفاظ میں یہ ہے:

اقتباس طویل ہے لیکن اسے مکمل نقل کیے بغیر صہبائی کی کوشش کو صحیح طورپر سمجھا نہیں جاسکتا۔

’’جب یہ مقدمہ تمام ہوا، اب مقصود سے پہلے ایک مقدمہ اورتمہید کیاجاتا ہے کہ اس سے عبارت کا پڑھنا بہ سہولت وآسانی حاصل ہوتا ہے۔ معلوم کیاچاہیے کہ مہارت پڑھنے میں بعضے مقام پر اس طرح سے آواز متغیر ہوجاتی ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مقام توقف کا ہے اورمراتب، توقف کی بھی متفاوت ہوتی ہیں؛ بعضے جگہ کم اوربعضے جگہ زیادہ۔ مثلاً ’’میں نے سنا تھا  کہ کل آپ میرے گھر تشریف لائے تھے۔ 

ازبسکہ مجھ سے ملاقات نہ ہوئی  بے تامل چلے گئے   آج تشریف لانے میں کمالِ بندہ نوازی ہے۔‘‘ سنا تھا پر کچھ توقف کیا گیا ہے اور لائے تھے پر اس سے زیادہ۔ اور اسی طرح نہ ہوئی پر گونہ توقف ہواہے اورچلے گئے پر اس سے زیادہ۔ اوربعضے مقام میں زمانہ کو کچھ دخل نہیں بلکہ تغیر آواز اس واسطے ہوتی ہے کہ اس سے امتیاز، مضمون کی ہوجاوے۔ مثلاً یہ عبارت:’’وہ آوے گا‘‘ محتمل دو وجہ کو ہے: اخبار یا استفہام۔ بوقت اخبار کے تغیر، آواز کی اور طرح ہے اوربوقت استفہام کے اورطرح؛ چنانچہ روزمرہ دان پر یہ بات ظاہر ہے۔ پس بعضے عقلا نے یہ چاہا کہ بعض علامتیں ایسی مقرر کرنا چاہئیں کہ لکھی ہوئی عبارت میں سے بھی امتیاز ان امور کی ہوسکے۔ اور جانا چاہیے کہ موافق تقسیم سابق کے علامتیں منقسم ہوئیں دو قسم پر... علامات،قسم اول کی تین ہیں:یعنی ایک تھوڑے توقف کے واسطے حرف واو، اور اس سے دو چند توقف کے واسطے دو نقطہ بالائی یک دیگر، اور اس سے دو چند کے واسطے ایک خط۔عرضیِ اول کانام واو، دوسرے کا زوج، تیسرے کا مد رکھا گیا۔چنانچہ اسامی ان کی مع نشانوں کے یہ ہیں:      

اسامی[نام]      علامت

 واو    و       Comma

زوج          :        Colon

مد                ۔      Dash  [اس ایڈیشن میں یہ علامت چھپنے سے رہ گئی]

علامت،قسم دوم کی بھی تین ہیں، یعنی اگر استفہام کا مضمون ہو اس کے واسطے نو کے ہندسہ کی صورت اور اس کے نیچے ایک نقطہ،اور اگر تعجب یا تہدید یا تحقیر یا اظہارِ رنجِ طبیعت یا مستعد کرنا کسی امر پر ہو، اس کے واسطے ایک خط طولانی اور اس کے نیچے ایک نقطہ،اور جملۂ معترضہ کے واسطے دو خط منحنی، ایک اول جملۂ مذکورہ کے اور دوسرا بعد اس کے۔ اول کا نام استفہام اور دوسرے کا فاصلہ، تیسرے کا حشو۔ ان کی اسامی مع نشانوں کے یہ ہیں:

         اسامی [نام]   علامت

        استفہام 9

          فاصلہ !

         حشو   (  )

(رسالۂ صرف و نحو،قواعد اردو، ص8,9)

اردو میں اس وقت عموماً آٹھ انگریزی پنکچویشن مستعمل ہیں۔ ان میں سے دو علامتوں وقفہ[؛] اور واوین [ــ’’  ‘‘] کو چھوڑ کر چھ علامتوں کو اردو نام دینے اوراردو کتابت کی روش سے ہم آہنگ کرنے کی غالباً پہلی کوشش صہبائی نے کی ہے، تاکہ یہ نستعلیق کتابت اور ٹائپ دونوںمیں رواج پاسکیں۔ مندرجہ ذیل نقشے کے تحت انھیں سمجھاجاسکتا ہے۔

انگریزی نام مع علامت      اردو نام       صہبائی کا مجوزہ نام اورعلامت

  1. Comma [,] سکتہ (وقف خفیف)    واو     و
  2. Colon [:] رابطہ   زوج   :
  3. Full Stop [.]ختمہ (وقف کامل)     مد      -(یعنی ڈیش)
  4. Note of Interrogation [?]سوالیہ  استفہامیہ       9(نو کا ہندسہ)
  5. Note of Exclamation [!] ندائیہ/فجائیہ     فاصلہ   !
  6. Parenthesis [()]قوسین حشو    ()

مذکورہ بالا چھ علامتوں کے استعمال کے طریقۂ کار پر آئندہ صفحات میں مثالیں دے کر وضاحت کی گئی ہے، مثلاً کاما جس کے لیے واو کو علامت قرار دیا گیا، اس کی مثال یہ دی ہے: ’’میری بھلائی    برائی   رنج       

راحت سب تم پر واضح ہیں‘‘یہاں بھلائی، برائی، رنج اور راحت الفاظ کے نیچے واو[و] کا اندراج کرکے کاماکے استعمال کی صورت پیدا کی گئی ہے۔ زوج یعنی کولن کے اندراج میں کتابت کی غلطی سے  مثالوں میں واو یعنی سکتے کا اندراج ہوا ہے۔ جس نے مصنف کی مجوزہ علامت کو مشکوک بنادیا ہے۔ سردست یہ طے کرپانا مشکل ہے کہ زوج سے ان کی مراد کولن ہے یا سیمی کولن۔بظاہر مراد کولن ہی معلوم ہوتی ہے لیکن مثال میں واو کتابت ہوگیا ہے۔ صہبائی نے انگریزی پنکچویشن کو باقاعدہ سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ان کے انگریزی نام: ایکس کلامیشن(Exclamation) اور پرن تھیسس (Parenthesis) کا بھی مقدمے میں استعمال ہوا ہے۔

صہبائی کے دراک ذہن نے انگریزی کی علامت استفہام پر بھی سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ ان کے بقول استفہام تین طرح پر ہے: استخباری،اقراری اور انکاری؛ لیکن انگریزی میں صرف ایک ہی علامت استفہام[؟] ہے۔

صہبائی مقدمہ کے آخری حصے میں مذکورہ بالا چھ علامتوں پر بالتفصیل گفتگو کے بعد واوین (’’-‘‘) Inverted Commasاور علامت خط لکیر یعنی Under Lineکا مع مثالوں کے تذکرہ کرتے ہیں اور ان کے استعمال کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ واوین کو وہ دو واو معکوس آگے پیچھے سے متعارف کراتے ہیں۔ اس طور وہ آٹھ علامتوں کے استعمال کی پوری قوت کے ساتھ تجویز پیش کرتے ہیں۔

صہبائی کی یہ کوشش رموز اوقاف کی جانب متوجہ کرنے کی پہلی کوشش کے ضمن میں شمار کی جاسکتی ہے۔اگر وہ اس کتاب کے متن میں بھی ان ساری علامتوں کا استعمال کرتے تو یہ ایک مثالی کوشش ہوتی۔ اکثر ڈیش اور کاما کی جگہ جمع کا نشان+ لگا دیا گیا ہے۔ البتہ لفظوں کو نمایاں کرنے کے لیے بالعموم اوپر کھینچی گئی لکیر کا استعمال کیا گیا ہے۔ نئے جملے کے شروع میں علامت تخلص [    ]ؔ بھی استعمال کی گئی ہے۔

یہاں یہ وضاحت کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ صہبائی سے پیشتر فورٹ ولیم کالج کے زیراثر اصلاحِ املا کی کوششوں کے ساتھ رموز اوقاف پر کب اورکتنی توجہ دی گئی اور اس کے اثرات کالج سے باہر کی دنیا میں کس حد تک قبول کیے گئے۔

فورٹ ولیم کالج کلکتہ[قیام 10جولائی 1800] سے پیشتر اردو میں توقیف نگاری پر غور وخوض کی مثال نہیں ملتی۔ قدیم مصنّفین اپنی کتب میں عربی و فارسی میںمروج اس زمانے کی ضرورت کے مطابق بعض لفظی علامتوں کا استعمال ضرور کرتے تھے[مثلاً ترک، فقط، تمت، ترقیمہ، ولہٗ، الخ، تحشیہ، ضمیمہ وغیرہ]، لیکن ان کا بھی التزام نہیں تھا؛ ظاہر ہے ان کی حیثیت رموزِ اوقاف سے جدا گانہ تھی۔ ڈاکٹر جان گِل کِرسٹ John Gilchrist] ، [1789-1841 کالج کے قیام کے ساتھ ہی اُس سے بحیثیت ہندوستانی زبان کے پروفیسر وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے کالج میں موجود طلبہ کے لیے ایک خاص نظام املا مرتب کیا، اور اس املا کو وہاں سے شائع ہونے والی کتب میں التزام کے ساتھ مستعمل کیا۔ انھوں نے املا پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا،جو بدقسمتی سے آج دستیاب نہیں۔اس کا خلاصہ کالج کی جانب سے شائع ہونے والی میر شیر علی افسوس (ف1809) کی کتاب ’باغِ اردو ‘ (ترجمہ گلستانِ سعدی) طبع اول 1802 میں اور حفیظ الدین کی کتاب ’خرد افروز ‘(طبع اول 1804) میں بھی شامل ہے۔ رشید حسن خاں (ف2006) کے پیش نظر یہ خلاصے رہے ہیں، جن کی بنیاد پر انھوں نے اپنی مدوّنہ ’باغ و بہار‘  کے مقدمہ میں اس پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:    

’’اس نے۔ ۔۔ ایک جامع نظام املا مرتب کیا تھا، پھر اُس سے بھی بڑا یہ کام کیا تھا کہ نہایت سختی کے ساتھ اور بہت التزام کے ساتھ مطبوعات میں اس کی پابندی کرائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عہد گل کرسٹ کی چھپی ہوئی (نستعلیق ٹائپ) کی کتابوں میں ایک ہی نظام املا سامنے آتا ہے۔‘‘7

اس نظام املا میں ’ ی ‘ اور ’ و ‘کے استعمال کی چار قسمیں کی گئی تھیں: یاے معروف، یاے مجہول، یاے مشموم، یاے شوشہ دار۔ وائو معروف، مجہول، ماقبلِ مفتوح، اور معدولہ۔ ہر ایک کی پہچان کے لیے اس نے کچھ علامتیں مختص کی تھیں۔[مثلاً گول دائرہ، 8 کے ہندسے کا دائرہ، کھڑے نقطے وغیرہ] اس زما نے میں ہندی حروف ٹ، ڈ، ڑ  پر’ ط‘ کا اندراج نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ ت، د، ر ہی  کی طرح لکھے جاتے تھے۔ سیاق و سباق سے قاری ان کا تلفظ کر لیتا تھا۔ غیر ملکی طلبہ کے لیے یہ صورتِ حال دشوار کن تھی چنانچہ گِل کِرسٹ نے ٹ، ڈ، ڑ کے تلفظ کے لیے  ت، د، ر  پر چھوٹا سا خط [-] بنا نا تجویز کیا۔ جیسے: مٹّی کو متی لکھا گیا ہے۔ عبارت میں جگہ جگہ پیراگراف بنائے گئے ہیں۔ کاما کے لیے چھوٹاخط [۔]یعنیHyphen اور فل اسٹاپ کے لیے کھڑا خط[۱]جسے انگریزی میںVertical bar کہتے ہیں، ندائیہ [!] سوالیہ [؟] اور جملہ معترضہ کے لیے قوسین () کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔

اس طور ’ رموز ِ اوقاف‘ کے استعمال کی جانب اردو میں یہ پہلا قدم تھا۔ بعد میں اس میں ترمیم و اضافے ہوتے رہے؛ اُس وقت تک توقیف نگاری کو املا ہی کا حصہ سمجھا جاتا تھا، اس کے لیے کوئی علاحدہ لفظ وضع نہیں ہوا تھا۔ بعد میں انھیں علاماتِ قرأت، نشاناتِ املا، اشاراتِ املا، اوقاف العبارت اور اوقاف قرأت بھی لکھا جانے لگا۔

گِل کرِسٹ کے بعد اس کا وضع کردہ املا کالج سے باہر کی کتابوں میں رائج نہیں ہوسکا۔ڈاکٹر عبد الستار صدیقی نے ایک جگہ لکھا ہے:

’’اٹھارہویں صدی عیسوی کے اواخر میںفورٹ ولیم کالج میں قواعد منضبط ہوئے، تو معروف ’ے‘ کے لیے ’ی‘، مجہول کے لیے ’ے‘، مخلوط ’ہ‘ کے لیے دو چشمی ’ھ‘ معین کی گئی؛مگر دہلی تک ان قاعدوں کا اثر بہت دیر میں پہنچا اور غالب کے زمانے میں، بلکہ اس کے بہت بعد تک کوئی فرق ان حرفوں کی کتابت میں نہیں کیا جاتا تھا۔‘‘

(مقالات عبدالستار صدیقی،ج2، ص143)

حواشی

  1. اردو املا کی تاریخ، مشمولہ تنقید وتحقیق (مجموعہ مقالات) ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں، مرتبہ ڈاکٹر اسلم فرخی،کراچی 2001،ص:196 تا 123
  2. علامات قرأت، سرسیداحمدخاں، تہذیب الاخلاق، علی گڑھ، 12اکتوبر 1874
  3. صہبائی: ایک مختصر تعارف، ڈاکٹر محمدانصاراللہ، علی گڑھ 1986، ص:3،102
  4. خواجہ محمدحامد نے اپنی کتاب ’امام بخش صہبائی:شخص شاعر، شارح‘ ( کامٹی 1982) میں دوسرے ایڈیشن کو طبع اول قرار دیا ہے (ص194) انہی کی اتباع میں چودھری محمدنعیم نے اپنے مقالے ’شیخ امام بخش صہبائی: استاد،عالم، شاعر اورمعمی‘ میں طبع دوم کو طبع اول نقل کیا ہے۔ (دیکھیے: منتخب مضامین ج/1، دہلی 2023) دراصل اس رسالے کے جملہ ایڈیشن نایاب وکمیاب ہیں۔ پروفیسر ضیاء احمد بدایونی نے صہبائی پر طویل مقالہ لکھا ہے لیکن یہ اعتراف کیا ہے کہ یہ رسالہ میری دسترس میں نہیں۔ مسالک ومنازل (دہلی 2011، ص:381) بعینہ چودھری محمدنعیم نے بھی مذکورہ بالا طویل مقالے میں اس تک رسائی حاصل نہ کرپانے کااعتراف کیا ہے۔
  5. منتخب مضامین، ج/1، ص170
  6. اس کتاب کی پی ڈی ایف کاپی عزیز مکرم سالم سلیم کی عنایت سے حاصل ہوئی، ان کا شکریہ اداکیاجاتا ہے۔
  7. مقدمۂ باغ و بہار،انجمن ترقی اردو ہند دہلی، بار سوم، 2009، ص85

 

 

Dr. Shams Badauni

58, New Azad Param Colony

Izzat Nagar

Bareilly- 243122 (UP)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...