ایک بہترین انشائیہ
وہ ہے جس میں انشائیہ کے تمام لوازمات یعنی شگفتہ اندازِ بیان، خوب صورت لب و لہجہ،
موضوع کا تنوع، غیر رسمی طریقِ کار، احساسِ عدمِ تکمیل، اختصار و سادگی، فلسفیانہ نکتہ
رسی، غزل سا اسلوب وغیرہ کا التزام کیا گیا ہو اور اس میں کوئی ایسا پہلو شامل نہ ہو
جو کہ انشائیہ کا بنیادی وصف نہ ہو۔
ایک اچھے انشائیہ نگار
کی خوبیوں میں سے صرف یہ نہیں ہے کہ اس کا مطالعہ وسیع، اس کے مشاہدات عمیق اور اس
کے تجربات دور رس ہوں بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ کس طرح اپنی فنی چابک دستی، لفظی اختصار،
غیر منطقی ربط، جدتِ موضوع اور لفظی الٹ پھیر سے عام فہم خیالات کو نادر و نایاب بنا
کر قاری کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس پر بعید از قیاس ایسی باتوں کا انکشاف کرتا ہے
جو کہ اس کے تصور سے بالا تر اور اس کی فکر سے پرے ہوتی ہیں. یہی وہ بنیادی خصوصیات
ہیں جن کی وجہ سے ایک انشائیہ نگار دوسرے نثر نگاروں سے ممتاز نظر آتا ہے۔
انشائیہ کا مطلب یہ
ہرگز بھی نہیں ہے کہ اس میں صرف ہنسی مذاق اور دل بستگی کی ایسی باتیں ہوں جو قاری
کو فرحت و سرور اور انبساط تو فراہم کریں لیکن کسی قسم کی دعوتِ فکر اور ذہنی تحریک
نہ دے سکیں، اس لیے ضروری ہے کہ تخلیقِ انشائیہ کے وقت اس کے اعلا مقاصد پر بھی نظر
ہو اور ایسی تخلیق پیش کی جائے جس میں طنز کے نشتر اور مزاح کی گدگدی ہو تو اصلاح پذیری
کی ہوائیں بھی بہتی ہوں۔
اب اگر آپ ان تمام
باتوں کو پیشِ نظر رکھ کر انشائیوں کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو آپ سو فی صدی یقین
کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ احمد جمال پاشا اپنے ندرتِ خیال، بعید از قیاس موضوعات
کے انتخاب، شاندار اسلوبِ بیان، بہترین طرزِ
ادا، مسرت آفریں پہلو اور فنِ انشائیہ کی نزاکتوں، لطافتوں اور باریکیوں کو خوش اسلوبی
سے اپنی تخلیقات میں برتنے کی وجہ سے نہ صرف ایک کامیاب انشائیہ نگار بن کر ہمارے سامنے
آتے ہیں بلکہ اپنے ہم عصروں میں بھی ایک الگ پہچان اور بلند ترین مقام رکھتے ہیں۔
احمد جمال پاشا کے
غالباً سبھی انشائیوں کا موضوع ہمارے روز مرہ کے واقعات اور گرد و پیش کی معمولاتِ
زندگی سے ماخوذ ہے اور وہ سماجی کشمکش، معاشرتی عدمِ مساوات، عائلی زندگی، قومی شناخت،
ملی تشخص، مذہبی رواداری، تہذیبی تصادم، ثقافتی تنوع، تمدنی نظام، سیاسی گہما گہمی،
آپسی رسا کشی اور اخلاقی زوال جیسے موضوعات کو با وقار لب و لہجے اور شائستہ انداز
میں اس طرح قلم بند کرتے ہیں کہ سیدھے دل پر ان کی باتیں اثر انداز ہوتی ہیں۔
ان کے انشائیوں میں
جہاں ایک طرف اصلاحی، تبلیغی اور اخلاقی پہلو غالب نظر آتا ہے تو وہیں دوسری طرف طنز
و مزاح کا عنصر بھی نمایاں نظر آتا ہے یعنی جہاں وہ طنز کے تیر برساتے اور مزاح کے
پھول بکھیرتے ہیں تو وہیں معاشرے کی تشکیل کے لیے راہیں بھی ہموار کرتے اور جوانوں
کے اندر غیرتِ قومی بھی بیدار کرتے ہیں۔یہ میں نہیں کہتا بلکہ ڈاکٹر سید معصوم رضا
اپنی کتاب ’اردو انشائیہ اور احمد جمال پاشا‘ میں بہ عنوان ’احمد جمال پاشا کی انشائیہ
نگاری کا تجزیاتی مطالعہ‘ کے تحت لکھتے ہیں:
’’ان کے اسلوب میں طنز کا رنگ غالب ملتا ہے۔ انھوں نے کبھی طنز و مزاح کی شاہ راہ کا سفر کیا تو کبھی پگڈنڈی پر چل نکلے۔یہ پگڈنڈی ہی ان کی انشائیہ نگاری ہے۔طنز و مزاح اور احمد جمال پاشا ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن چکے تھے۔‘‘ (اردو انشائیہ اور احمد جمال پاشا،ص107)
اور دوسری جگہ اصلاحِ
معاشرہ کے حوالے سے کہتے ہیں:
’’ادب کی اصلاح ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ وہ زمانے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے جتنا کوشاں رہتے ہیں، اتنا ہی ادب کے معیاری اور اعلا ہونے کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص 121)
جوتا ایک حقیر سی شے
ہے جس کی طرف عام طور پر اس حوالے سے انسانی ذہن منتقل نہیں ہوتا کہ اس سے بھی تقاضائے
وقت کے پیشِ نظر کسی قسم کا کام لیا جا سکتا ہے لیکن یہ بات سچ ہے کہ ہر زمانے میں
جوتے کی اپنی اہمیت رہی ہے اور اس سے وقت اور حالات کے تناظر میں مختلف قسم کے کام
لیے جاتے رہے ہیں اور آج بھی لیے جا رہے ہیں۔کبھی وہ کسی کے پاؤں کی زینت بنتا ہے
تو کبھی کسی کے سر پر آ گرتا ہے۔کبھی وہ ہماری عظمتِ رفتہ یاد دلا کر ہمیں اشکبار
کر دیتا ہے تو کبھی ہمیں اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے، غرض کہ وجود تو ایک ہے لیکن
کام اس کے ذمے بہت سارے ہیں۔
احمد جمال پاشا کا
تاریخ ساز انشائیہ ’جوتا کانفرنس‘ جو ان کے مجموعے ’چشمِ حیرت‘ میں شامل ہے، بہت سی
خوبیوں کا جامع ہے، جن میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ انشائیہ قاری کا رشتہ ماضی
کے اوراقِ گم گشتہ سے جوڑتا ہوا اسے حال کی تشویش ناک دہلیز پہ لا کھڑا کرتا ہے۔
اس انشائیے میں موصوف
نے تاریخی اعتبار سے جوتے کی مختلف قسمیں شمار کرتے ہوئے اسے ایک منفرد نقطئہ نظر سے
دیکھنے کی کوشش کی ہے جس سے اس کی وسعتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس انشائیے کی
قرأت کے وقت تاریخ کے بہت سے بند دروازے جوتے کے سہارے قاری کے سامنے کھلتے نظر آتے
ہیں۔کبھی وہ جوتے پر سوار ہو کر ملکِ چین کی تنگ و تاریک، کثیر آبادی والی گلیوں اور
پر شکوہ عمارتوں کی سیر کرتا نظر آتا ہے، کبھی وہ اپنے ہاتھوں میں جوتے لیے پناہ گاہ
کی تلاش میں چنگیزی تباہیوں کے مہیب سائے میں بھاگتا نظر آتا ہے، کبھی وہ سقراط کی
فلسفیانہ باتیں اور منطقی دلائل سمجھنے سے قاصر رہنے کی وجہ سے اپنے سر پر جوتے مارتا
نظر آتا ہے، کبھی وہ جوتے اتار کر شیخ سعدی کے بوستاں سے گلِ لالہ ذخیرہ کرتا نظر
آتا ہے، کبھی وہ فرعون کے دار السلطنت میں عصاے موسیٰ بن کر دریائے نیل کا کشادہ سینہ
چاک کرتا نظر آتا ہے، کبھی وہ ملکئہ وکٹوریہ کے خلاف ہندوستان کی آزادی کے لیے اشفاق
و بھگت کی طرح سر پر موت کا کفن باندھے جوتے پہن کر لڑتا کٹتا نظر آتا ہے، کبھی وہ
انقلابِ روس کے زمانے میں حامیِ مظلوم بن کر 1917 کی ہلاکت خیز وادیوں میں ان کے حقوق
کی بازیابی کے لیے بوسیدہ جوتے پہن کر گلی گلی کی خاک چھانتا نظر آتا ہے، کبھی وہ
زمیندارانہ نظام سے تنگ آ کر غریبوں کو ان کا بنیادی حق دلانے کے لیے زمینداروں کے
خلاف جنگی تدبیریں کرتا نظر آتا ہے، کبھی وہ مزدوروں کا ساتھ دینے کے لیے ترقی پسند
تحریک کے بینر تلے شاہانہ جوتے پہن کر ادبی جواہرات بکھیر رہا ہوتا ہے، کبھی وہ پولیس
کے فولادی جوتوں کی مار سے ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جانے کے باوجود راست گوئی کا پرچم
مضبوطی سے تھامے لہرا رہا ہوتا ہے، کبھی وہ قائدینِ وقت کا زر خرید غلام بن کر ان کے
اشاروں پر جوتے کھول کر ناچ رہا ہوتا ہے غرض کہ پانچ چھ صفحات کے مختصر سے اس انشائیے
میں احمد جمال پاشا نے جس خوبی کے ساتھ ماضی سے اب تک بلکہ کل قیامت تک کی صورتِ حال،
حکومتِ وقت کی تانا شاہی اور اس کے غیر منصفانہ رویے کی وجہ سے سالوں سے ظلم و ستم
کی چکی میں پس رہے عوام کی تصویر کشی کی ہے، بڑی مشکل سے کہیں دیکھنے کو ملتی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں اس انشائیے کا ایک اقتباس جس
میں احمد جمال پاشا نے چنگیز خان کے جوتے کی زبانی اس دور کی ذہنی غلامی، قتل و غارت
گری اور احساسِ زیاں کا دل سوز منظر بیان کیا ہے:
’’ابھی وہ اپنی بات پوری بھی نہ کر پایا تھا کہ ایک بہت ہی زبردست جوتا کھڑا ہو گیا اور گرج دار آواز میں چلایا ''خان! چنگیز خان کا جوتا ہے. یہ وہ جوتا ہے جو بڑے بڑے بادشاہوں کے سر پر بھی چل چکا ہے۔‘‘ میں نے زمین ہلتی ہوئی محسوس کی۔ چنگیز خان کی فوج اسے روندتی ہوئی گزر رہی تھی۔گھوڑوں کی ٹاپیں، انسانی چیخیں اور قتل و خون کی تاریخ کی ایک جھلک نگاہوں کو چکا چوند کر گئی۔ اتنے میں ایک نسوانی آواز نے چونکا دیا۔بہنو! میں سقراط کی بیوی کی سلیپر ہوں۔‘‘(جوتا کانفرنس،ص 38)
یہ اقتباس پڑھ کر شدت
سے محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر سے وہ خونی منظر ہماری نگاہوں کے سامنے جی اٹھا ہے
اور ہم زندگی کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھاگے پھر رہے ہیں۔
انشائیے کی ایک اہم
خوبی جو انشائیہ کو دوسری اصنافِ ادب سے ممتاز کرتی ہے، اس کا غیر رسمی طریقہ کار ہے
وزیر آغا کہتے ہیں:
’’ایک چیز
جو انشائیہ کو دوسری اصنافِ ادب سے ممیز کرتی ہے، اس کا غیر رسمی طریقِ کار ہے۔ در
اصل انشائیہ کے خالق کے پیشِ نظر کوئی ایسا مقصد نہیں ہوتا جس کی تکمیل کے لیے وہ دلائل
و براہین سے کام لے اور ناظر کے ذہن میں رد و قبول کے میلانات کو تحریک دینے کی سعی
کرے۔‘‘
اس نکتے کو پیشِ نظر
رکھ کر احمد جمال پاشا کے انشائیوں کا مطالعہ کریں تو محسوس ہوگا کہ انشائیہ نگار خود
ہمارے سامنے بیٹھا ہوا ہے اور ایک پرانے دوست کی طرح بے تکلف ہو کر ہمارے سامنے اپنے
دل کا غبار نکال رہا ہے۔ ان کے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے، جن میں ان کی فنی چابک دستی
اور قلمی مہارت کا زندہ ثبوت دیکھنے کو ملتا ہے نیز یہ کہ وہ کس طرح قاری کو غیر رسمی
گفتگو کے ذریعے اپنا گرویدہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں:
’’جیسے ہی
میں نے ایک عجیب قسم کے جوتے کو اٹھایا وہ بولا:
ارے صاحب! یہ آپ کہاں
سے ٹپک پڑے، دیکھ نہیں رہے ہیں کہ میں اس وقت تقریر کر رہا ہوں۔رکھیے، مجھے رکھیے،
میں تاریخی ’جوتا کانفرنس‘کو خطاب کر رہا ہوں۔‘‘
(ایضاً، ص 38)
’’خدا کا شکر ہے کہ اس کو میرے معدے میں جانے والے شہد کی خوش بو نہیں لگی ورنہ بجائے عینک کے لاتعداد چیونٹیاں میرے پیٹ میں اس وقت دوڑ رہی ہوتی۔‘‘ (چیونٹی، ص 94)
اماں، نوکری کر لی؟
لاحول ولا قوۃ!
ارے تم اور نوکری؟
ہائے اچھے بھلے آدمی
کو کولھو کے بیل کی طرح دفتر کی کرسی میں جوت دیا گیا۔
اگر کچھ کام وام نہیں کرنا تھا تو کوئی کاروبار کرتے، اس نوکری میں کیا رکھا ہے؟ (دفتر میں نوکری، ص 197)
متذکرہ بالا اقتباسات
ان کی صاف گوئی اور سادہ کاری کے عکاس ہیں اور ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آسان لب
و لہجے میں اپنی بات کس طرح رکھی جاتی ہے۔ اسی طرح انشائیے کی ایک خوبی یہ ہے کہ انشائیہ
نگار ذاتی طور پر کوئی نتیجہ اخذ نہ کرے، نہ ہی کوئی مشورہ دے اور نہ ہی کوئی ٹھوس
نقطئہ نظر پیش کر کے انشائیہ کے حسن و جمال کو ضائع اور قاری کو بور کرے بلکہ اس کا
فیصلہ خود قاری کے اپنے زاو یۂ فکر پر چھوڑ دے تاکہ وہ اپنے طور پر صحیح یا غلط جو
چاہے، نتیجہ اخذ کر سکے اور انشائیہ کے خالق کی فکری جہتوں کو کوئی مناسب سمت دے سکے۔ان
کے لازوال انشائیہ ’چیونٹی‘ کا یہ اقتباس دیکھیں:
’’ آج چیونٹیوں
پہ میری نگاہ بہت دوڑ رہی ہے پھر میں نے چیونٹیوں کی ایک فوج دیکھی جو ایک مردہ چھپکلی
لیے جا رہی ہیں۔ جس طرح جہاز کرین سے اٹھایا جاتا ہے، اسی طرح وہ چھپکلی کو اٹھائے
ہوئے ہیں، اس چھپکلی کو جو زندگی بھر انھیں کھاتی رہی۔ آج وہ ان کی دعوت اڑائیں گی۔در
اصل چیونٹیوں کی اس یلغار نے ہی مجھے ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔‘‘
)چیونٹی، ص 96)
اگر قاری اس اقتباس
کا ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لے تو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ چند لمحوں میں حظ، تعجب اور
مسرت و شادمانی کی بہت سی منازل طے کرآیا ہے اور اس کے ذہن کے بند دروازوں پہ سوالوں
کا ایک اتھاہ سمندر زوروں سے دستک دینے لگا ہے اور قبل اس کے کہ وہ کسی ایک نتیجے پر
پہنچ پائے، ایک دوسرا نقطئہ نظر اس کے سامنے سر ابھارنا شروع کر دیتا ہے اور یہ سلسلہ
یوں ہی جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ سوال و جواب کی رنگ برنگی دنیا سے کوئی مناسب حل تلاش
نہ کر لے۔
انشائیہ کی ایک اہم
خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں شگفتگی ہو تکرار نہ ہو، لب و لہجہ خوب آسان ہو بوجھل نہ
ہو۔شگفتگی اور لب و لہجے کی سادگی و پرکاری کے لیے بندشِ الفاظ یعنی الفاظ کی ایسی
نشست و ترتیب اور اس کا بر محل استعمال جس سے لفظی یا معنوی الجھن پیدا نہ ہو، ضروری
ہے۔
احمد جمال پاشا کے
انشائیوں کا مطالعہ کریں تو آپ یہ کہنے میں حق بہ جانب نظر آئیں گے کہ انھوں نے کبھی
بھی طنز و مزاح کو اپنے مضامین کا خاصہ نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ ان کی دور رس نگاہ کا
ارتکاز موضوعات کی سنجیدگی اور اصلاحی تقاضے پر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز بھی نہیں
ہے کہ وہ اپنے مضامین میں طنز و مزاح کا استعمال نہیں کرتے بلکہ وہ ان کا استعمال ضرور
کرتے ہیں اور کہیں کہیں تو پوری شدت کے ساتھ کرتے ہیں۔ان کا انشائیہ ’دفتر میں نوکری‘
کا یہ اقتباس دیکھیے جہاں پاشا قاری کو ایک لحظہ کے لیے روک کر زندگی کی یکسانیت اور
ٹھہراؤ سے اوپر اٹھا کر اپنے ارد گرد کے ماحول کا فلسفیانہ انداز اور حکیمانہ اسلوب
میں از سرِ نو جائزہ لینے پر مائل کرتے نظر آتے ہیں۔
’’بھئی! آخر
تم نوکری کیوں نہیں کرتے؟
نوکری ڈھونڈتے نہیں
ہو یا ملتی نہیں؟
ہاں، صاحب! ان دنوں
بڑی بے روزگاری ہے۔
بھئی! حرام خوری کی
بھی حد ہوتی ہے۔
آخر کب تک گھر بیٹھے
ماں باپ کی روٹی توڑتے رہو گے؟
لو اور سنو! کہتے ہیں
کہ غلامی نہیں کریں گے۔
میاں صاحب زادے! برسوں
جوتیاں گھسنی پڑیں گی تب بھی کوئی ضروری نہیں ہے کہ...‘‘
(دفتر میں نوکری، ص 196)
انشائیے کی ایک امتیازی
خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں موضوع کی مرکزیت تو قائم رہتی ہے لیکن اس کی مرکزیت کا
سہارا لے کر بہت سی ایسی باتیں بھی ضمناً بیان کر دی جاتی ہیں جن کا بہ ظاہر موضوع
سے کوئی گہرا تعلق نہیں ہوتا اور جن تک سطحی دلچسپی کے باعث ایک عام قاری کی رسائی
بہ آسانی ہو نہیں پاتی۔زندگی کی ان انوکھی اور تازہ کیفیات کا احساس دلانے اور اس
کے عام مظاہر کے باریک پہلوؤں سے پردہ اٹھا کر قاری کی دلچسپیوں کا مرکز بنانے کے لیے
انشائیہ نگار گونا گوں طریقے بروئے کار لاتا ہے۔
ان کے انشائیہ’دفتر
میں نوکری‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں معنی و مفہوم اور تعبیر و تشریح کی ایک
انوکھی دنیا آباد نظر آتی ہے:
’’اس کے بعد دو ایک دن دفتر میں سَوانگ رچایا۔ ایک دن دفتر میں چھٹی کی وجہ یہ بتائی کہ ہمارے افسر مختصر علالت کے بعد آج وفات پا گئے مگر یہ خوش آگیں لمحات بھی مدتِ وصل کی طرح جلد ختم ہو گئے۔اب کیا کریں؟ اسکول کے زمانے میں ہم نے چھٹی حاصل کرنے کے لیے ایک ایک کر کے تقریباً اپنے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔‘‘ .
(ایضاً، ص 199)
اب اگر کوئی عام قاری
یہ اقتباس پڑھے تو وہ متن کی حقیقی روح اور انشائیہ نگار کی ذہنی ترنگ اور آوارہ خِرامی
تک آسانی سے نہیں پہنچ پائے گا لیکن ایک ذوقِ سخن اور مذاقِ سلیم رکھنے والا باشعور
فرد تھوڑی سی ذہنی تفریح اور دماغی مشق و ممارست کے بعد نہ صرف جوہرِ متن اور مقصودِ
تحریر تک پہنچ جائے گا بلکہ عبارت کی تہوں میں چھپے بیش قیمت موتی بھی ڈھونڈ لائے گا۔انشائیہ
کی دیگر خصوصیات کی طرح انکشافِ ذات یعنی شخصیت شناسی بھی ایک اہم خصوصیت ہے۔مطلب یہ
کہ اپنی ذات و شخصیت کے پوشیدہ پہلوؤں، خوبیوں اور کارناموں کا اپنی تحریروں میں اظہار
کرنا اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب کہ اس کے تجربات کا دائرہ وسیع، مشاہدات کا
کینوس لامحدود، محسوسات کی وادیاں عمیق اور ذہن و فکر کی دنیا شاداب و زرخیز ہوں۔اگر
انشائیہ نگار ان خوبیوں سے متصف نہ ہو تو پھر نہ وہ ایک اچھا انشائیہ نگار بن سکتا
ہے اور نہ ہی احسن طریقے سے وہ اپنے خیالات و تفکرات کا اظہار کر سکتا ہے۔
انشائیہ کے اسی پہلو
کو مدِ نظر رکھ کر سنجیدگی سے آنے والے یہ دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیں جو احمد جمال
پاشا کے انشائیہ ’دفتر میں نوکری‘ سے ماخوذ ہیں:
’’اب ہم روزانہ بڑی پابندی سے پورا وقت دفتر میں گزارنے لگے. دن دن بھر دفتر کی میز پر رکھے ناولیں پڑھتے، چاے پیتے اور اونگھتے رہتے۔‘‘ (ایضاً، ص 200)
’’خوشی کے
مارے ہم پھولے نہ سمائے کہ ہم بھی دنیا میں کسی کام آ سکتے ہیں۔دو صفحے کا مقالہ تیار
کرنا تھا جو ہم نے بڑی محنت کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔‘‘
(ایضاً، ص 201)
یہ دو مختصر اقتباس
اطمینانِ قلب کے ساتھ پڑھیں اور پھر ان کے
حالاتِ زندگی خاص طور پر ان کے ادبی اسفار اور علمی خدمات کا جائزہ لیں تو آپ کو یہ
جان کر بڑی حیرت ہوگی کہ وہ حقیقت میں اپنی ہی زندگی کے رازِ سربستہ کا مزاحیہ رنگ
اور طنزیہ لب و لہجے میں انکشاف کر رہے ہیں اور قاری کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا
کہ انشائیہ نگار اپنی زندگی کا ایک مقفل دروازہ وا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔واقعی جس
خوب صورتی اور زندہ دلی سے انھوں نے اس صورتِ حال کی مرقع نگاری کی ہے، اس سے نہ صرف
عام قاری لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ خاص طبقہ بھی محظوظ ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔
انشائیہ کی ایک اور
نمایاں خصوصیت احساسِ شعریت یعنی غزل سا اندازِ بیان اور طرزِ ادا اختیار کرنا ہے۔
مطلب یہ کہ گہری سے گہری بات بھی خوشگوار انداز اور منفرد پیرایۂ اظہار میں اس طرح
بیان کر دی جائے کہ قاری کی طبعِ نازک پر گراں بھی نہ گزرے اور مسئلے کا حل بھی نکل
آئے۔ اسی نکتے کو حاضرِ دماغ رکھ کر انشائیہ ’جوتا کانفرنس‘ کا یہ حصہ ملاحظہ کریں
اور پاشا کی خدا داد قدرتِ بیان اور باکمال طرزِ تحریر کی رعنائیاں دیکھ کر عش عش کریں:
’’اگر آپ
لوگ اسی طرح لڑتے رہے تو کام کیسے چلے گا؟
کسی نے بھنا کر غصے
میں کہا۔
مگر آپ کون ہوتی ہیں؟
میں… میں سب کچھ ہوتی ہوں۔میں نہ رہوں تو انتظام کیسے چلے؟ میں سرکار کی جوتی ہوں۔ سرکار ہی کی جوتی کی چلے گی۔ جانتے نہیں! آج کل ہر طرف میں ہی تو چل رہی ہوں۔‘‘ (جوتا کانفرنس، ص 40)
ہے تو یہ حقیقت میں
معمولی سا ایک سادہ جملہ لیکن وسعتِ معنیٰ اور مفہوم کی گہرائی کی وجہ سے پورے انشائیہ
پر حاوی ہے۔بادی النظر میں آپ دیکھیں تو یہ احساسِ ذمے داری ہوگا کہ جب حکومتِ وقت
اپنی رعایا اور شہریوں کی فلاح و بہبود کو لے اتنی فکر مند ہے تو ہمیں بھی ایک وفا
شعار شہری بن کر موجودہ حکومت کے رفاہی اور تعمیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا
چاہیے اور قدم قدم پر حکومت کا ساتھ دینا چاہیے لیکن جب آپ بہ نظرِ غائر پرسکون انداز
میں اس کا مطالعہ کریں تو احساسِ زیاں ہوگا کہ حکومت اصل میں امن و شانتی کی تلقین
نہیں کر رہی ہے بلکہ اشاروں اور کنایوں میں اپنی طاقت و رسوخ کا اعلان کر رہی ہے اور
یہ باور کرانا چاہ رہی ہے۔
انشائیہ کی ایک اور
امتیازی خصوصیت اس کا عدم تکمیل یعنی بات کے مکمل نہ ہونے کا احساس ہے. انشائیہ کی
یہ خصوصیت کافی حد تک وحدتِ تاثر سے جا ملتی ہے۔جس طرح کہ افسانے کے اس حصے پر پہنچ
کر قاری کے ذہن و دماغ میں ایک قسم کی تشنگی باقی رہتی ہے اور افسانہ ختم ہو جانے کے
باوجود ادھورے پن کا احساس باقی رہتا ہے، بالکل اسی طرح انشائیہ کے اس حصے میں انشائیہ
کے اچانک ختم ہو جانے کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ زنجیر کی مختلف کڑیاں جو آپس میں
ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں، چھن سے ٹوٹ کر بکھر گئیں، جس کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لیے
قاری کا ذہنی توازن بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اب
اسے آگے کیا کرنا چاہیے اور کس طرح اس بکھرے خیال کو انجام تک پہنچانا چاہیے۔
خیر! پاشا نے تقریباً
اپنے سبھی انشائیوں میں عدمِ تکمیل کے اس پہلو کو اس خوش سلیقگی کے ساتھ برتا ہے کہ
قاری خود کو غور و فکر کے بحرِ عمیق میں غوطہ زن پاتا ہے۔ان کے شاہ کار انشائیہ ’دفتر
میں نوکری‘ کا یہ آخری پیراگراف ملاحظہ کیجیے جہاں عدمِ تکمیل کا عنصر پورے آب و
تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے اور قاری کو دعوتِ فکر دے رہا ہے:
’’شاید آپ پوچھیں کہ ملازمت کر کے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ تو میں عرض کروں گا تونوکری کھوئی اور دن میں اونگھنے، سونے، ناولیں پڑھنے اور وقت گزاری کی عادت پائی۔ ہمیں اور کیا چاہیے؟‘‘ (دفتر میں نوکری، ص 203)
اس اقتباس کے اخیر
میں ان کا جملہ ’’ہمیں اور کیا چاہیے‘‘ قاری کے ذہن و دماغ میں سوال و جواب کا ایک
نیا شگوفہ چھوڑ کر منظر سے غائب ہو جاتا ہے۔
مجموعی طور پر یہ بات
کہی جا سکتی ہے کہ پاشا کے انشائیوں میں ادبی لطافت کی چاشنی، زندگی کی رنگا رنگی اور
اسلوب کی شگفتگی کے ساتھ معیاری رنگ و آہنگ بھی شامل ہے۔نیز ان کے انشائیوں میں بذلہ
سنجی، برجستگی، واقعات کی تصویر کشی، مناسب الفاظ کا بر محل استعمال، ندرتِ خیال وغیرہ
شاندار طریقے سے موجود ہیں جس سے پاشا کی ہمہ گیر شخصیت سامنے آتی ہے۔یہ بات سچ ہے
کہ ان کی ادبی کاوشوں کو مقبولِ عام و خاص بنانے میں ان کے موضوعات کے تنوع کے ساتھ
ان کے دلکش اندازِ بیان، شوخ اور شگفتہ طرزِ ادا، مزاحیہ کیفیت کی روانی اور طنزیہ
اسلوب کا اہم کردار رہا ہے۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ احمد جمال پاشا نے جو بھی
لکھا، بہت خوب لکھا۔ان کی تحریریں ہمیشہ بیمار دلوں کو تازگی، بے قرار روحوں کو شادابی
اور ہمارے ہونٹوں پہ تبسم زیرِ لب کی کیفیت پیدا کرتی رہیں گی۔
Mohd Mohteshim
Research Schoolar, Dept of Urdu
Maulana Azad National Urdu
University
Hyderabad- 500032 (Telangana)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں