26/8/22

بہار میں شعری ادب اطفال - مضمون نگار : رئیس انور

 



ادب کا بنیادی مقصد انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی ہے اوریہ ترجمانی ایسے دلکش، چنندہ اور مؤثر لفظوں کی بہترین ترتیب میں ہوتی ہے کہ پڑھنے والا مسرور اور محظوظ ہوتا ہے۔ اس پر ایک کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اس کی آگہی میں اضافہ ہوتاہے۔ ذہن و دل میں زندگی کی نا آشنا سچائیوں کے ستارے جھلملا اٹھتے ہیں۔ اس طرح ادب کا کام محض خیال یا احساس کی ترجمانی کرنا اور قاری کوحظ پہنچانا نہیں، عرفان و آگہی کی روشنی بکھیرنا بھی ہے۔

بات اگر ادب اطفال کی ہو تو اس تعریف میں قدرے ترمیم لازمی ہے کیونکہ بالغ اور باشعور قاری کی فہم و فراست اور نفسیات پختہ اور بالیدہ ہوتی ہے۔ وہ لفظوں کی ترتیب و تزئین کے اشاروں اور معنیاتی دائروں سے واقف ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس بچوں (جن کی عمر چار سال سے بارہ سال تک کے درمیان ہو) کی سمجھ کی سطح، ان کی دلچسپیاں، ان کی خواہشیں، ان کی خیالی دنیا، ان کے خواب، ان کے الفاظ کا ذخیرہ، ان کا لسانی شعور اور ان کا موسیقیاتی لگائو بالکل الگ ہوتا ہے۔

بچے قوم و ملک کے بیش قیمت اثاثہ ہیں۔ جس طرح ان کی جسمانی پرورش و پرداخت کے لیے انھیں صاف ستھری آب و ہوا اور صحت بخش غذا فراہم کی جاتی ہے، اسی طرح ان کی ذہنی نشو و نما کے لیے صالح، روشن خیال، نصیحت آمیز اور اخلاقیات پر مبنی ادب سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے تاکہ ان کی جسمانی اور ذہنی بالیدگی توازن کے ساتھ ہوسکے۔اس اہم اور بنیادی فریضے کا آغاز ماں کی گود سے ہوتاہے۔ بہت سی بامعنی اور بے معنی باتیں سنتے سنتے بچہ جب کچھ بولنے کے مرحلے میں آتا ہے تو اپنے آس پاس کی دنیا ہی نہیں، زمین سے آسمان تک نظر آنے والی ساری چیزوں کے متعلق سوال کرتا ہے۔ اپنے ٹیڑھے میڑھے اور اٹ پٹے سوالوں کے ذریعے دراصل وہ اپنے خاندان، سماج اور کائنات سے جڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ چار سال کی عمر کے بعد بچوں کا شعور بیدار ہونے لگتا ہے اور اسی کے ساتھ ان کا زبانی درس، تحریری صورت میں ڈھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ لوریوں سے آگے نکل کر بچے پریوں کی کہانیوں، دیومالائی اور اساطیری قصوں، کرشماتی اور جادوئی واقعات، اخلاقی اور مذہبی حکایتوں اور پہیلیوں میں دلچسپی دینے لگتے ہیں۔ یہ سب نہ صرف بڑے چائو سے سنتے ہیں بلکہ یاد رکھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ہلکی پھلکی نظمیں اور گیت بھی مزے لے لے کر دہرانے لگتے ہیں۔ بچوں کی زندگی کا یہ دور بہت اہم ہوتا ہے۔ ا ن کی تربیت کے لیے ہر زبان کے قلمکاروں نے ایسے ادب پاروں کی تخلیق کی ہے جن کا مقصد انھیں لفظوں کی نغمہ بار لہروں میں ہچکولے دلانا، ہلکی پھلکی سچائیوں سے آگاہ کرنا اور ان کے اندر ایک پرتجسس، رنگا رنگ اور جگمگاتی دنیا خلق کرنا ہے۔

اردو میں ادب اطفال کی ایک بسیط تاریخ اور توانا روایت موجود ہے۔ غالباًاس کی شروعات تُک بندی والی لوریوں اور پہیلیوں وغیرہ سے ہوئی۔ ابتدائی نمونے کے طور پر محققوں نے تیرہویں صدی عیسوی کے مشہور فارسی شاعر امیر خسرو سے منسوب کئی ہندوی ؍  دہلوی دو سخنے، کہہ مکرنیاں اور پہیلیاں پیش کی ہیں۔ یہاں ان میں سے چند درج کی جاتی ہیں            ؎        

دو سخنے:

 

انار کیوں نہ چکھّا

وزیر کیوں نہ رکھّا

(دانا نہ تھا)

 

 

سموسہ کیوں نہ کھایا

جوتا کیوں نہ پہنا

(تلا نہ تھا)

کہہ مکرنی:

 

وہ آئے تب شادی ہوئے

اس میں دوجا اور نہ کوئے

 

 

 

میٹھے لاگیں اس کے بول

اے سکھی ساجن نہ سکھی ڈھول

(ڈھول)

پہیلی:

(1)

فارسی بولوں آئینہ

ترکی ڈھونڈھی پائی نہ

 

 ہندی بولوں آرسی آئے

خسرو کہے نہ کوئی بتائے

(آئینہ)

 

(2)

ایک کہانی میں کہوں سن لے میرے پُوت

 بن پنکھوں وہ گیا، باندھ گلے میں سوت 

(پتنگ)

فی الحال اس سے بحث نہیں کہ یہ تخلیقات امیر خسرو کی ہیں یا نہیں، دیکھنا صرف یہ ہے کہ قدیم صنفوں کے ان نمونوں میں بالکل سامنے کی باتیں آسان لفظوں اور دلچسپ انداز میں کہی گئی ہیں۔ ان میں ہندوستانی Textureہے اور ہندوستانی بچوں کے مزاج کی ترجمانی ہے۔ بعد کے دور میں جب اردو کا چوکھا رنگ ابھر کر سامنے آیا تو میر، نظیر اکبر آبادی، اسماعیل میرٹھی، آزاد اور حالی سے علقمہ شبلی، محبوب راہی، سراج انور اور حافظ کرناٹکی تک شاعروں، فکشن نگاروں اور مضمون نگاروں نے ادب اطفال پر بھی توجہ دی اور ایک قابل قدر ذخیرہ ہوگیا۔

بہار میں بھی نہ ادب اطفال کی کمی ہے اور نہ قلمکاروں کی۔ کئی جانے مانے قلمکاروں نے کبھی کبھی اپنی تخلیقی صلاحتیں بچوں کے لیے وقف کی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مختلف شہروں سے بچوں کے لیے رسالے بھی نکلتے اور بند ہوتے رہے ہیں۔ خوبصورت تصویری کتابچے بھی بڑے اہتمام سے شائع ہوئے ہیں۔ جہاں تک شعری ادب اطفال کا تعلق ہے، پچھلی صدی میں شاد عظیم آبادی کو اولیت حاصل ہے۔ انھوں نے نہ صرف مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی اور نو کلاسیکی غزل گو کی حیثیت سے اپنی ایک پہچان بنائی بلکہ بچوں کے لیے بھی عمدہ نظمیں لکھیں۔ انھوں نے اپنی نظموں میں بچوں کے فکر و شعور اور سہل زبان کا خاص لحاظ رکھا ہے۔ نظم ’نیند سے چونکو‘ میں وہ بچوں سے کتنے پیار بھرے لہجے میں مخاطب ہوتے ہیں          ؎

گہری نیند سے سونے والو

وقت کو اپنے کھونے والو

رات کٹی کچھ تم کو خبر ہے

چونکو، چونکو وقت سحر ہے

چاند کی رنگت ہوگئی میلی

دیکھو چمک سورج کی پھیلی

——

کوئلیں کوکیں، کُو کُو، کُو کُو

یاہو بولے، یاہُو، یاہُو

نیند سے چونکے پنکھ پکھیرو

بول رہے ہیں شاخوں پر ہر سو

کھِل گئیں کلیاں باغ کی ساری

چار طرف ہیں نہریں جاری

——

اٹھو، اٹھو احمد اٹھو

منہ کو دھوکر کپڑے پہن لو

سیر کرو، میداں کی نکل کر

پھول کو دیکھو، باغ میں چل کر

شاد عظیم آبادی نے اس نظم میں چھوٹے بچوں کا دل لبھانے کے لیے باغ، پھول، چرند پرند اور صبح کے خوبصورت نظارے کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں سویرے اٹھنے اور وقت کی قدر کرنے کی ہدایت دی ہے۔

شاد نے اور بھی نظمیں بچوں کے لیے لکھی ہیں۔ ایک نظم ’گائے‘ پر بھی ہے مگر اس کے مقابلے میں ان کے معاصر اسماعیل میرٹھی کی مشہور نظم ’ہماری گائے‘ کی زبان و بیان زیادہ سلیس اور رواں ہے۔

بہرحال ان کے بعد عبدالغفو ر شہباز ایسے شاعر ہیں جنہوں نے کئی نظمیں بچوں کے لیے لکھیں مثلاً بیر، جلیبی، پڑھنا، کھیل، ہنر مند گڑیا، ولایتی گڑیا، سہیلی کا بیاہ، شکریۂ پنیر، باغ کی بہار، چڑیا چڑے کی کہانی وغیرہ۔ شہباز کے یہاں دو طرح کا اسلوب ملتا ہے۔ پہلے نظم ’پڑھنا‘ کے یہ اشعار دیکھیے        ؎

ہنر کی راہ میں بڑھو

خرد کے بام پر چڑھو

پڑھو، پڑھو، پڑھو، پڑھو

لگائو علم و فن سے لو

ہے جس میں مہر و مہ کی ضو

کتابیں یاں ہیں نو بہ نو

پڑھو، پڑھو، پڑھو، پڑھو

جلائو علم کا دیا

کہ کرنے کی ہے بدّیا

پڑھو، پڑھو، پڑھو، پڑھو

ہے زنگ دل میں جو لگا

ہنر ہے اس کا مصقلا

جو چاہو دل میں ہو جلا

پڑھو، پڑھو، پڑھو، پڑھو

——

کتاب ہے عجیب شے

یہی دلاتی ہے روپے

پڑھو، پڑھو، پڑھو، پڑھو

کتاب نوکری دلائے

یہی خوشی کی مے پلائے

یہی خدا سے بھی ملائے

پڑھو، پڑھو، پڑھو، پڑھو

عبدالغفور شہباز کی ایک اور آسان اور رواں نظم ’کھیل‘ ہے۔ اس میں بھی تخاطب کا وہی انداز ہے جو ’پڑھنا ‘ میں ہے۔ بچوں کی ذہنیت کے لحاظ سے باتوں کو دو سطری اور تین سطری بندوں میں ترتیب دیا گیا ہے تاکہ انھیں یاد کرنے میں سہولت ہو۔ نمونہ دیکھیے      ؎

کھیل کاوقت ہے آؤ کھیلو

کھیل سے دل کو لگاؤ کھیلو

کھیلو، کھیلو، کھیلو، کھیلو

آئو دماغ کو دو کچھ راحت

دوڑو دکھائے پاؤں کی طاقت

جانو اس فرصت کو غنیمت

کھیلو، کھیلو، کھیلو، کھیلو

بیٹ اک ہاتھ میں لے لو کھیلو

کشتی لرو اور ڈنٹر پیلو، کھیلو

کھیلو، کھیلو، کھیلو، کھیلو

شطرنج اور پچیسی کھیلو

فٹ بال اور کبڈی کھیلو

گھر میں آنکھ مچولی کھیلو

کھیلو، کھیلو، کھیلو، کھیلو

لڑکی ہو تو گڑیا کھیلو

نہیں تو گلّی ڈنڈا کھیلو

کھیلو، کھیلو، کھیلو، کھیلو

شہباز نے بچوں کے لیے کئی بہت اچھی نظمیں اور رباعیاں لکھی ہیں مگر ان کی بعض نظمیں طویل بھی ہیں اور اسلوب کی سطح پر قدرے مشکل بھی۔ ان کی نظموں کے مجموعی مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی طبع بہت موزوں اور رواں تھی۔ وہ جب کوئی موضوع بچوں کی دلچسپی کے مطابق منتخب کرتے ہیں تو مصرع لگانے کے دوران اکثر بچوں کی خام سمجھ اور ناپختہ ذہن کو فراموش کر دیتے ہیں۔ شعر اور مصرعے ڈھلتے چلے جاتے ہیں، جن کے الفاظ اور تراکیب میں ثقالت آجاتی ہے۔ اس کے ساتھ اظہار وبیان کی طوالت ایسی چیزوں کو بچوں سے دور کردیتی ہے۔ ولایتی گڑیا، ہنر مند گڑیا، بیر، شکریہ پنیر، بھنگانامہ وغیرہ اسی طرح کی نظمیں ہیں جو بچوں کے جذبات، احساسات، سوچ سمجھ اور دلچسپی سے بالاتر ہوگئی ہیں۔

پرویز شاہدی نے ساٹھ کی دہائی میں ایک بہت ہی چبھتی ہوئی نظم ’بے چہرگی‘ لکھ کر عصری سماج کی کھردری سچائیوں کو بے نقاب کیا تھا اور ارد ونظم نگاری میں ایک معنویت سے بھرپور اصطلاح کا اضافہ کیا تھا۔ بہت کم قارئین جانتے ہیں کہ انھوں نے بچوں کے لیے بھی چند نظمیں لکھی ہیں جو عموماً کلکتہ کے اخبارات میں دفن ہوچکی ہیں۔ ایک نظم ’دوڑو لڑکو‘ کے چند ٹکڑے دیکھیے        ؎

دوڑو  لڑکو،  دوڑو  لڑکو

کیسا کھلونا لایا ہوں میں

ماں کا سپنا لایا ہوں میں

باپ کی آشا لایا ہوں میں

ہار دعا کا لایا ہوں میں

کیسا سندر ہے یہ کھلونا

رات کو جیسے چاند کا مکھڑا

دن کا اجالا لایا ہوں میں

بھر لو من میں گیت کوی کا

سن لو تم سنگیت خوشی کا

سندر باجا لایا ہوں میں

دوڑو  لڑکو،  دوڑو  لڑکو

پیار کوی کا لایا ہوں میں

کیسا کھلونا لایا ہوں میں

پرویز شاہدی کی نظم نگاری کا یہ ایک نیا روپ ہے۔ وہ جس طرح اردو ہندی کے آسان لفظوں اور روزمرہ سے مصرعے ڈھالتے ہیں وہ بچوں کی مزاج شناسی اور عصری تقاضے کا علامیہ ہے۔

جدید لب و لہجے کے معروف شاعر مظہر امام کی نظم ’ہم ایک ہیں‘ سمجھ دار بچوں کے فکر و شعور کی ترجمان ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں           ؎

رشک جناں ہندوستاں

ہندو ہیں اس کے باغباں

مسلم بہارِ گل فشاں

مہمل ہے فرق این و آں

ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں

دو ہیں رگیں اور اک لہو

دو پھول اور ایک بو

پیمانے دو اور اک سبو

پیکر ہیں دو اور ایک خو

ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں

مظہر امام نے اس نظم میں محض ایک پیغام ہی نہیں دیا ہے، شاعری بھی کی ہے۔ کئی مصرعوں سے شعریت کی خوشگوار پھوہار ہوتی ہے۔

ناوک حمزہ پوری ایک مستند عروض داں اور استاد شاعر ہیں۔ مختلف شعری صنفوں اور ہیئتوں میں ان کی ایک الگ پہچان ہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بڑی تعداد میں عمدہ نظمیں لکھی ہیں۔ مختلف نظموں کے درج ذیل ٹکڑوں سے ان کا طرز بیان عیاں ہوتا ہے      ؎

جاڑا         ؎

جاڑا آیا، جاڑا آیا

ہم بچوں کو دل سے بھایا

سویئٹر، موزے ہم لائیں گے

نئی رضائی سلوائیں گے

دادی اماّں آگ جلاؤ

مت یوں کٹ کٹ دانت بجائو

دھوپ میں بیٹھے پڑھتے ہیں ہم

نہیں یہ موسم نعمت سے کم

گنگا کا پیغام          ؎

سارے جگ میں نام ہے میرا

چلتے رہنے کام ہے میرا

ہر آفت سے میں ٹکرائی

مشکل سے میں کب گھبرائی

اٹھلاتی ہوں، بل کھاتی ہوں

بہتی ہوں، بہتی جاتی ہوں

چل نکلو تو چلتے جاؤ

بڑھ جائو تو بڑھتے جاؤ

رکنا اور ٹھہرنا کیسا

کٹھنائی سے ڈرنا کیسا

منزل پالوگے تم اپنی

بچو! ہے یہ بات یقینی

ناوک حمزہ پوری ادب اطفال کی مبادیات اورجزئیات سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ ننھے منے بچوں کی نفسیات، ان کی دلچسپیوں اور زبان کا خیال رکھتے ہیں۔ اس لیے سامنے کے ایسے موضوعات پر نظمیںکہتے ہیں، جن کی طرف بچے فوراً ملتفت ہوتے ہیں۔ ان کی نظموں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ نظمیں موضوع اور زبان دونوں سطح پر بچوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ سادہ اور سہل الفاظ میں ایسے رواں شعر ڈھلتے ہیں کہ بچے مزے لے لے کرآسانی سے یاد کرسکتے ہیں۔

طلحہ رضوی برق کی شعری کائنات غزلوں،نظموں، رباعیوں اور قطعۂ تاریخ سے جگمگا رہی ہے۔ یوں تو انھوں نے زیادہ تر سنجیدہ اور پختہ شعور قارئین کے لیے سامان بصیرت و بصارت فراہم کیا ہے مگر ان کی نظموں اور رباعیوں میں اخلاقیات اور پند و نصیحت بھی ہے۔ اکثر رباعیوں کا اسلوب قرآن کریم کی آیتوں کے حوالوں، احادیث مبارکہ کے اشاروں اور اسلامیات کے تلازموں سے مزین ہے۔ انھوں نے بعض رباعیاں ہوشمند بچوں کی ذہنی اصلاح کے لیے بھی کہیں ہیں۔ یہ مثالیں دیکھیے       ؎

ہر نیک اور بد کا ہے رزاق خدا

ہلتا نہیں بے حکم یہاں اک پتا

سب کچھ اسی دنیا کو سمجھنے والو

تعلیم سے غفلت کا نتیجہ ہے برا

——

آواز اگر دیں تو توقف نہ کرو

نقصان بھی کچھ ہو تو تاسف نہ کرو

جھڑکو نہ انھیں، بچھادو بازو جھک کر

ماں باپ کی خدمت میں کبھی اف نہ کرو

مناظر عاشق ہرگانوی نے ادب اطفال پر خاصی توجہ دی ہے۔ مضامین، کہانیاں اور نظمیں تواتر سے لکھی ہیں۔ ان کی اس ادبی ریاضت کا باضابطہ اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں کے مجموعے ’جیسے کو تیسا‘ پر انھیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ مل چکا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں بچوں کے معصوم مزاج اور ناپختہ ذہن کی تربیت پر خاص توجہ دیتے ہیں۔صنعت توشیح میں ان کی ایک نظم ہے جس میں حروف تہجی کے لحاظ سے ہر حرف پر ایک مصرع کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دیکھیے نظم کے آخری سات مصرعے         ؎

ک:

کار خیر عبادت ہے

ل:

لیتے کام جو ہیں اس سے

م:

مقصد اپنا وہ پاتے

ن:

نیکی کرنا ہے اچھا

و:

وقت کا رہ پابند سدا

ہ:

ہوتے ہیں وہ لوگ بھلے

ی:

یاد خدا کو جو کرتے

 ادب اطفال میں ذکی احمد چندن پٹوی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے مختلف عمر کے بچوں کے لیے بڑی تعداد میں نظمیں لکھی ہیں۔ وہ بنیادی طور پر استا د ہیں، اس لیے ان کی نظموں میں درس اخلاق اور ذہنی تربیت کی جہد مسلسل ملتی ہے۔ دیکھیے مختلف نظموں کے چند ٹکڑے         ؎

میری بات مانو،میرے دل کے پیارو

کبھی بھول کر تتلیوں کو نہ مارو

کہ تم بھی تگ و دو میں جیون گزارو

ان ہی کی طرح تم بھی ہمت نہ ہارو

(تتلیوں کو نہ مارو)

نظم ’منشی جی کے دانت‘ کا یہ حصہ بھی بڑا عمدہ اور غنائی ہے         ؎

منشی جی دانت نرالے

اجلے پیلے، بھورے، کالے

کرتے تھے اپنی من مانی

دانتوں کی کچھ قدر نہ جانی

ان کے دانت ہوئے دو نسلی

آدھے نقلی، آدھے اصلی

منشی جی کے دانت کا بیان ان کا اصل مقصد نہیں ہے۔ اس حوالے سے وہ بچوں کو درس دینا چاہتے ہیں۔ دیکھئے ان تین شعروں میں وہ کس خوبصورتی سے ننھے بچوں کو سمجھاتے ہیں          ؎

تم نہ صفائی سے منہ موڑو

ایسی گندی عادت چھوڑو

تھوڑی کسرت اورپڑھائی

دانتوں کی دو وقت صفائی

تم نہ کبھی پچھتائو ایسے

منشی جی پچھتائے جیسے

عبدالمنان طرزی اپنی زبردست موزونی طبع اور قادرالکلامی کے سبب منظوم تذکرہ، سوانح و سیرت، تنقید اور تبصرے لکھنے میں طاق ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی عمدہ نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی نگاہ میں بچوں کی نفسیات اور ان کا لسانی شعور ہے۔ اس لیے مختلف عمر کے بچوں کے ذہن اور فہم کا لحاظ کرتے ہوئے نظمیں لکھتے ہیں۔ نمونے کے طور پر دیکھیے، یہ حصے      ؎

چڑیا رانی گھر آئی ہے

چونچ میں اپنی کچھ لائی ہے

ممی میں اک بات بتائوں

میرے من کو وہ بھائی ہے

چڑیا رانی گھر آئی ہے

چونچ   میں   اپنی کچھ  لائی  ہے

 

(چڑیا)

کتنے سلیس، رواں اور سامنے کے الفاظ ہیں کہ تین چار سال کے بچے آسانی سے یاد کرلیں۔ چڑیا ہر چھوٹے بچے کی دلچسپی کا مرکز رہی ہے۔ اس کی چہچہاہٹ سے گھر گلزار بنا رہتا ہے۔ ذکی چندن پٹوی نے بھی چڑیا پر بڑی تعداد میں نظمیں لکھی ہیں۔ مذکورہ بالا نظم میں جناب طرزی نے بچے کی ننھی منی زبان میں قافیہ پیمائی کی ہے اور تین شعروں کی نظم میں پہلے شعر کو آخر میں دہرا کر Stressدیا ہے اور بچے کی دلچسپی بڑھائی ہے۔ اسی طرح کی آسان نظم ’کاغذ کے پھول‘ ہے جو کچھ بڑے بچوں کے لیے لکھی گئی ہے        ؎

ہم نے گھر پر پھول بنایا

اپنے ٹیچر کو دکھلایا

ویری گڈ‘ ریمارکس ملا ہے

پاپا نے انعام دیا ہے

پھول جو میرے ہیں کاغذ کے

خالی لیکن ہیں خوشبو سے

ان پھولوں کو عطا لگاکے

اسکول اپنے لے جائیں گے

آندھی، مفلس،کوئل، پبلک اسکول، سرکس، جامن وغیرہ پر بھی انھوں نے خیال آرائی کی ہے۔ وہ ممی، پاپا، ٹیچر، ویری گڈ وغیرہ جیسے انگریزی کے الفاظ بھی بے محابا استعمال کرتے ہیں جو ہمارے روز مرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔

ظفر کمالی نے بھی بچوں کے ذہن و فکر اور ان کی پسند یا شوق کی مناسبت سے قابل قدر نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی مشہور نظم ’پانی‘ کا یہ ٹکڑا دیکھیے        ؎

زندگی کا مدار ہے پانی

اس چمن کی بہار ہے پانی

اس سے ہے آن بان مٹی کی

ہے یہ پانی ہی جان مٹی کی

بے مزا ہے حیات اس کے بغیر

کچھ نہیں کائنات اس کے بغیر

راحتوں میں یہ بڑی راحت ہے

یہ خداکی عظیم نعمت ہے

کتنے خوبصورت اور آسان لفظوںمیں ایک حقیقت بیان کردی ہے۔ شعریت سے پُر مصرعے بھی تراش دیے ہیں۔ یہی کمال شاعری ہے۔

ان ہی کی طرح شبنم کمالی بھی آسان اور عام فہم لفظوں سے بچو ں کے لیے ایک شگفتہ اور رواں نظمیہ اسلوب تراشتے ہیں۔ ان کی نظم ’بھائی ہمارا‘ کے یہ شعر کتنے برجستہ ہیں    ؎

بھولا بھالا پیارا پیارا

ننھا منا بھائی ہمارا

گود میں امی کے بیٹھا ہے

سب کو ٹکٹک دیکھ رہا ہے

میٹھی میٹھی بولی اس کی

کتنی پیاری کتنی اچھی

یہ بچے کا مشاہدہ ہے اور اس کا بیان بھی بچے کی زبان سے ہے۔ ’ادب اطفال‘کی ایسی تخلیق یقینا بہت مقبولیت حاصل کرتی ہے۔

عطا عابدی اردوکے اچھے اور کہنہ مشق شاعر ہیں۔ نثر میں بھی ان کی تنقیدی تحریریں موجود ہیں۔ انھوں نے کئی نظمیں بچوں کے لیے لکھی ہیں۔ ان کا انداز عموماً ناصحانہ ہے۔ نظم ’علم‘ کایہ حصہ بڑا رواں اور شعریت سے بھرپور ہے       ؎

علم ایک ایسی دولت ہے

کوئی بانٹ نہ اس کو پائے

کوئی چھانٹ نہ اس کو پائے

ہرسو اس کی دھاک ہے ایسی

کوئی ڈانٹ نہ اس کو پائے

علم ایک ایسی دولت ہے

اب آخر کے یہ پانچ مصرعے دیکھیے۔ ان میں شاعر کے اندر کا استاد، باپ یا ناصح کھل کر سامنے آجاتا ہے       ؎

اس دولت کو پائو بچو

آپس میں پھیلاؤبچو

اونچا نام کمائو بچو

سب کو یہ بتلائو بچو

علم بڑی اک دولت ہے

تازہ دم شاعر امان ذخیروی نے بچوں کے لیے نظمیں لکھنے پر خاصی توجہ دی ہے۔ ادھر ان کی کئی عمدہ نظمیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ان کی ایک بالکل نئی نظم ’خالو جان‘ کے چند شعر یہاں درج کیے جاتے ہیں       ؎

ایک دن بلی نے چوہے سے کہا

تجھ کو خالہ جان سے ہے کیا گلہ

تو کبھی بھی میرے گھر آتا نہیں

اپنی پیاری شکل دکھلاتا نہیں

تجھ کو کچھ اپنی صحت کا ہے خیال

دیکھ توکیا ہوگیا ہے تیرا حال

میری چاہت کا اگر کر احترام

کرمرے گھر میں ہی تو آکر قیام

بات بلی کی سنی چوہے نے جب

کھول کر گویا ہوا وہ اپنے لب

سوچتاہوں میں بھی تیرے گھر رہوں

میں ترا لخت جگر بن کر رہوں

پر اسی اک وہم سے مجبور ہوں

آج تک میں گھر سے تیرے دور ہوں

بات یہ کہتاہوںمیں ایمان سے

مجھ کو ڈر لگتا ہے خالو جان سے

آسان الفاظ میں لکھی گئی یہ نظم بھی قدرے طویل ہے۔ مختصر ہوتی تو بچوں کے لیے زیادہ کارگر اور مفید ہوتی۔  انھیں کی طرح ڈاکٹر ضیا الرحمن جعفری بھی اچھی نظمیں لکھ رہے ہیں۔ نظم ’کانٹے بھی ہیں’ کے یہ چار شعر دیکھیے      ؎

رنگ برنگے پھول ہیں ایسے

ہیں دنیا میں بچے جیسے

بات بات پر یہ کھل جائیں

غیر بھی ہو تو یہ مل جائیں

بچے پڑھ کر بنیں گے افسر

پھول بچھیں گے ان پر آکر

پھول میںلیکن کانٹے بھی ہیں

پر نٹ کھٹ تو بچے بھی ہیں

ڈاکٹر جعفری کی نظموں میں بیان کی سادگی اور روانی ہے تاہم زبان مزید توجہ چاہتی ہے۔

نوجوان شاعر منصور خوشتر نے بھی بچوں کے لیے بڑی تعداد میں نظمیں لکھی ہیں۔ ان کے موضوعات کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ وہ روز مرہ کی زندگی میں نظر آنے والی چیزوں پر قلم اٹھاتے ہیں۔ سبزیوں کے ٹھیلے شہر کی ہر گلی سے گذرتے ہیں اور عموماً عورتیں تازہ سبزیاں خریدتی ہیں۔ ایک بچے کے بھولے بھالے جذبات کس طرح ابھرتے ہیں منصور نے اس نظم میں اس کی ترجمانی کی کوشش کی ہے          ؎

سبزی والے سبزی والے/کیا کیا ٹھیلے پر ہیں تیرے/ آلو، بیگن، سیم اور گوبھی/ ساگ ٹماٹر کدو چھیمی/ اس ٹھیلے پر بھی ہوگا/ سیب، انگور، امرود اور کیلا/ لے گی تجھ سے میری ممّی/ تازہ تازہ لیکن لانا/میرے گھر میں سب ہیں کھاتے

نئی نسل کے اور بھی کئی شاعر ہیں جو بچوں کے لیے اچھی نظمیں لکھنے میں مشغول ہیں اور ادب اطفال کے ذخیرے میں اضافہ کررہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پچھلے سو سوا سو سال کے دوران بہار کے شاعروں نے جس طرح بچوں کے لیے نظمیہ شاعری کی ہے، ان کی دلچسپیوں، ان کی سمجھ بوجھ، ان کے مشاہدوں اور تصورات کو ان ہی کی آسان، رواں اور بھولی بھالی زبان میں پیش کیا ہے، وہ شعری سطح پر ادب اطفال کی روایت میں استحکام اور اس کے سرمایے میں اضافے کا باعث ہے۔ اب رہا سوال ان نگارشات کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھنے کا تو اس ضمن میں ماننا پڑے گا کہ اردوکے نقادوں کی اکثریت اپنے پختہ اور بالیدہ فکر وشعور کے مطابق شعر وادب کے مطالعے میں محو رہتی ہے اور اسی کی تفہیم اورتجزیے سے ان کی پہچان بنتی ہے۔ بچوں کے لیے لکھی جانے والی ہلکی پھلکی نظمیں انھیں سطحی، خام اور محض تُک بندی معلوم ہوتی ہیں۔ حالاں کہ ادب اطفال کے پس پردہ کار فرما محرکات پر نظر رکھی جائے اور اس کا تناظرات کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ایک دھنک رنگ منظر نامہ ملے گا۔ جس میں لسانی، جمالیاتی اور فنی نیرنگی اور بوقلمونی ملے گی۔ اخلاقیات اور پند و نصیحت کے ذریعے مثبت انداز سے ذہن سازی کی دلکش کوشش نظر آئے گی۔ سیدھی سادی اور بھولی بھالی مسرت آمیز باتوں کے ستارے ٹمٹماتے نظر آئیں گے۔ ہر زبان میں ایسی تحریریں نوخیز بچوں کی ذہنی روئیدگی، فہم و فراست کی نموپذیری، قوت بیان میں جولانی، ذخیرئہ الفاظ میں افزونی اور ادبی جمالیات کی آگہی کا سبب بنتی ہیں۔ بچے سن شعور کو پہنچتے پہنچتے مربوط، متین اور سنجیدہ ادب کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ بہار کے تازہ دم قلمکاروں کی بڑی تعداد اس کی زندہ مثال ہے۔ ان کی لسانی اور فکری تربیت نیز مطالعے اور خامہ فرسائی کی عادت میں دوسرے اسباب کے ساتھ ساتھ ادب اطفال بالخصوص منظومات کا اہم حصہ ہے۔






Prof. Rais Anwar

Raj Toli Lane, Vigo

Darbhanga - 846004 (Bihar)





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں