25/8/22

1857 کے چند اردو مآخذ - مضمون نگار : عبدالحق




تاریخ عجائبات سے عبارت ہے اس میں صرف واقعات ہی سرزد نہیں ہوتے بلکہ حوادث کے زیر وبم تاریخ مرتب کرتے ہیں۔ سانحے ثقافت کو نابود کرتے ہیں اور تہذیبوں کے عروج کا باعث بھی بنتے ہیں۔ہماری تاریخ فتح وشکست کی دل دوز کہانیوں کا مرقع ہے۔ اس میں کثرت وقلت یا تخمین وظن زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ تاریخ کا اس سے بڑا اعجوبہ کیا ہوسکتا ہے کہ بیش وکم کے ساتھ چھ صدی سے زائد حکمراں جماعت سات سمندر پار بیرونی اور قلیل جماعت سے شکست کھا جائے اور لاکھوں باشندوں کے قتل عام کا منظر دیکھنے کے لیے ملک کی آبادی کو مجبور کردیا جائے۔ بادشاہ کو قید کرکے شہزادوں کو صلیبِ دار پر لٹکادیا جائے اور معصوم نو نہالوں کے سروں کو تن سے جدا کر کے رقصِ بسمل کا تماشا دیکھا جائے۔ نمک خوار انِ سلطنت اور وفادار انِ مملکت شاہی خاندان کے افراد کو شناخت کرکے سفاک قاتل کے حوالے کررہے ہوں۔ یہ بھی تاریخ کی بوالعجبی ہے کہ ایوانِ شاہی کے متوسلین ملک وقوم سے پیمانِ وفا توڑ کر دشمنوں کے لیے مخبر اور معاون بن جائیں۔ اقبال نے بڑی جرأت سے ان داغ دار انسانوں کی نشان دہی کی ہے       ؎

جعفر از بنگال وصادق از دکن

ننگِ آدم ننگِ دیں ننگِ وطن

الاماں از روح جعفر الاماں

الاماں از جعفرانِ ایں زماں

جعفر وصادق کی خبیث روحیں الٰہی بخش اور احسن اللہ خان، محبوب علی خاں، زینت محل میں نمودار ہوئیں۔ ایسے انسان صرف دربار وامارت سے ہی منسلک نہیں ہوتے اربابِ دانش میں بھی نظر آئیں گے،  اور ان سے محراب ومنبربھی خالی نہیں ہیں۔ غدر اقتدار کے ساتھ دو مختلف تہذیبوں کے تصادم کا بھی نام ہے اور مشرق ومغرب کی آویزش کا حرف آغاز ہے۔ جس سے ہم آج تک جانبرنہ ہوسکے۔ ابھی تک ہم اتنے سنگین واقعے کو صحیح نام بھی نہ دے سکے۔ عرف عام میں اسے غدر کہاجاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے بغاوت کہتے ہیں۔اسے تحریک اور انگریزی عمل داری کے خلاف عوامی بیداری اور شورش بھی کہا جاتا ہے۔ یعنیStruggle, Movement, Impressing, Revolt, Mutuny  جنگ وجہاد کا بھی نام لیا جاتا ہے۔ کچھ بھی کہیں قتل وخون کا ایسا ہولناک منظر اس سرزمین پر نہیں دیکھا گیا۔ یہ صرف اقتدار کی منتقلی کا منظرنامہ نہ تھا۔ بلکہ روئے زمینِ مشرق پر مغربیوں کی بالادستی کا اعلانیہ تھا۔ ساحلِ چین سے مراقش کے مغربی ساحل تک محکومی کے منظرنامے کا یہ حرفِ ناروا تھا       ؎

مشرق از سلطانیِ مغرب خراب

 شہیدوں کے خون سے کلکتہ سے کابل اور کشمیر سے ر اس کماری تک یہ زمین لالہ زار بنی ہوئی تھی۔ بے شمار جاں بازوں نے شوق ِ شہادت میں اپنی جانیں قربان کیں۔ تاریخ کی ستم ظریفی کہیے کہ بہت ہی کم لوگوں کے احوال قلم بند کیے گئے اور واقعات کو بھی محفوظ نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ تقاضا تھا۔ اس شہر کے ایک بزرگ ادیب اور تذکرۂ گلزار ابراہیم کے مصنف نے مراٹھوں کی پانی پت کی جنگ کی تفصیلات قلم بند کیں۔ لیکن انگریزوں سے لڑائی کے واقعات تفصیلات سے تشنہ ہی رہیں۔ بلکہ بددیانتی یہ کی گئی کہ انگریزی حکومت کی حمایت یا واقعات کو ان کے نقطۂ نظر سے پیش کیا گیا۔ یہ بھی عرض کروں کہ غدر کے ہنگامے کے بیشتر تذکرے اردو میں ہی محفوظ ہیں۔ غدرسے متعلق تقریباً بیس ہزار دستاویزات نیشنل آرکائیوز میں اردو اور فارسی زبان میں ہی محفوظ ہیں۔  ایل ایس ڈمپل نے اپنی حالیہ کتاب میں کچھ دستاویزات سے مدد لی ہے۔ اب کچھ مورخین نے توجہ دی ہے۔ شاید اس دور کی تاریخ از سر نو مرتب ہوسکے۔

دہلی میں وقوع پذیر ہونے والے غدر کے ہنگامے کا کچھ تفصیلی تذکرہ بعض کتابوں میں ملتا ہے۔ ان میں معین الدین حسن خاں کی غدر، خاصی اہمیت رکھتی ہے۔ اس مخطوطے کو پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے حاصل کیا اور دہلی یونیورسٹی سے شائع کیا۔ ناچیز نے اس کا ہندی ترجمہ کیا ہے غدر کے واقعات پر چند اور کتابیں بھی موجود ہیں۔  سرسید احمد خاں کی اسباب بغاوت ِ ہند، تاریخ سر کشیِ ضلع بجنور، ظہیردہلوی کی داستان غدر، جیون لال، روزنامچہ کنھیالال اور مولانا فضل حق خیر آبادی،غالب کی بعض تحریریں ایسی ہیں جن میں کچھ اشارے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ غالب جیسا ذی شعور اور زود حس فن کار بھی خوں چکاں خامہ اور انگلیوں کے فگار ہونے کا ماتم توکرتا رہا لیکن چشم دید واقعات کی تفصیلات کو قلم بند کرنے سے گریز کیا۔  دستنبو بھی جسے ڈائری کہا جاتا ہے۔ وہ بھی تفصیلات سے خالی ہے۔ اس دور کی سب سے اہم کتاب سید مبارک شاہ خاں کا تذکرہ ہے جو پاکستان سے شائع ہواہے۔

ان مصادر کی روشنی میں معین الدین حسن خان کی کتاب بہت غنیمت ہے۔ ’خدنگ غدر ‘چارلس مٹکاف کے  حکم ِکی تعمیل کے طور پر لکھی گئی تھی۔ غدر کے وقت معین الدین پہاڑ گنج تھانے پر کوتوال کے طور پر تعینات تھے۔ انھوں نے چارلس مٹکاف کو باغیوں سے بچایا تھا۔ لیکن مال واسباب کی ضبطی کے ساتھ ان کی گرفتاری کا حکم صادر ہوچکا تھا۔یہ جان بچاکر حجاز مقدس چلے گئے۔ لوٹنے پر چارلس مٹکاف نے ہی انھیں داروگیرسے بچایا۔ 1898 میں مٹکاف نے اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا اور کتر بیونت کے ساتھ۔مصنف نے مٹکاف سے یہ درخواست کی تھی کہ ان کے انتقال کے بعد کتاب شائع کی جائے مٹکاف نے ایسا ہی کیا۔

کتاب اودھ کی انقلابی بغاوت سے شروع ہوتی ہے۔ میرٹھ کے کارتوس کے واقعے کو بھی قدرے تفصیل سے قلم بند کیا ہے۔ دہلی سے باہر کے واقعات سناتے ہیں اور دہلی کا تو چشم دید بیان ہے۔مرزا یوسف غالب کے چھوٹے بھائی کی ہلاکت کا بھی ذکر ہے۔ غرض دہلی کی انتہائی دل دوز کہانی کو مصنف نے پر اثر انداز میں محفوظ کیا ہے۔ شہر رئیسان قوم مسلم سے خالی ہوگیا۔ کتاب کے آغاز میں انگریزی سرکار کی مدح سرائی کی گئی ہے اور اپنے کوائف بیان کیے ہیں۔اپنی دربدری اور مٹکاف کی طرف سے ہمدردی کا صدق دل سے اعتراف بھی کیا ہے۔ مصنف نے اقرار کیا ہے کہ وہ واقعات جو بڑے بزرگوں اور خوردوں کے ساتھ گزرے ہین اور جن واقعات کو بچشم خود یکھا ہے یا سنا ہے وہی محفوظ کیا ہے۔ آغاز میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ نہ عالم ہے اور نہ فاضل بس سپاہی پیشہ ایک گنہگار انسان ہے۔ 1887 میں کتاب مکمل ہوئی۔ سید ھی سادی زبان میں لکھی گئی ہے

 دوسری اہم کتاب ’تذکرہ جنگِ دہلی 1857‘کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ اس کے مصنف سید مبارک شاہ خان بھی دہلی میں شہر کوتوال کے منصب پر فائز تھے۔ اس اہم کتاب کو ترجمہ وتحقیق سے مرتب کرکے سعودالحسن خان روہیلہ نے 2007 میں لاہور سے شائع کیا ہے بیانات کے ساتھ خود مصنف کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ غدر کے بعد دوسال بعد یعنی 1859 میں یہ روزنامچہ مکمل کیا گیا ہے۔

معین الدین حسن خاں فصیل شہر سے متصل پہاڑ گنج تھانے کے کوتوال ہونے کی وجہ سے اس علاقے کا نظم ونسق سنبھالے ہوئے تھے۔ مگر آشوب قیامت جیسے ہولناک حالات سے نبرد آزما ہونا آسان نہ تھا۔ جان ومال کی حفاظت کی ذمے داری ان کے سر تھی۔ شورش زدہ شہر میں امن واماں عنقا تھا۔ انگریزی فوج کی بربریت کو روکنا یا لگام دینا ان کے بس میں نہ تھا۔ان کی وجہ سے کئی انگریزوں کی جان بھی بچ گئی جس کا انھیں صلہ بھی ملا۔ پھر بھی انھیں ہندوستانیوں کی حمایت کرنے کی سزا بھی ملی۔ چارلس مٹکاف درمیان میں سفارشی نہ ہوتے تو نہ جانے کیا گزرتی۔ انھیں کی فرمائش پر یہ واقعات قلم بند کیے گئے۔ مصنف دہلی میں مقیم تھا۔ مگر دور دراز کے واقعات کو سن کر اور بلا تحقیق محفوظ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ سنی سنائی باتیں بہت زیادہ اعتبار کے قابل نہیں ہوتیں۔ اس زمانے میں افواہیں بھی جھوٹ سچ کے ساتھ گشت کررہی تھیں اور ذرائع ابلاغ بھی بہت ترقی یافتہ نہ تھا دہلی میں بیٹھ کر گورکھپور، الہ آباد،جونپور، لکھنؤ،کانپور پھر جنوبی ہند کے واقعات کو ضبط تحریر میں لانا آسان نہ تھا۔ لہٰذا خبروں اور بیانات پر اکتفا کرکے ہنگامۂ غد ر کو صفحۂ کاغذ پر لایا گیا۔  اس لیے صداقت کا سو فیصد کتاب میں در آنا ممکن نہ تھا۔ ان سب خامیوں کے باوجود اس سانحے کا ایک عصری دستاویز میں محفوظ ہونا بہت غنیمت ہے۔ مصنف کو اندیشہ لاحق تھا خواہش تھی کہ یہ تحریر ان کی وفات کے بعد شائع ہو فسادِ خلق سے زیادہ انھیں اپنی عافیت عزیز تھی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ہم پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کے شکر گزار ہیں کہ ان کی بدولت یہ مسودہ برآمد ہوا اور شائع ہوا۔

معین الدین حسن خاں کے ہم پیشہ اور معاصر سید مبارک شاہ ہیں۔ جو معین الدین حسن سے منصب میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے یہ پورے شہر دہلی کے کوتوال تھے اور بادشاہِ وقت کی طرف سے مامور کیے گئے تھے۔ان کی یادداشت بھی کم وبیش خدنگ غدر کی طرح وجود میں آئی یہ آزادی کے علم بردار جاں بازوں سے ہمدردی رکھتے تھے جنرل بخت خاں سے ان کے قریبی مراسم تھے۔ 14 ستمبر کو شہر دہلی کے محاصرے میں یہ بھی تھے دوسرے ملازمین کی طرح ختم ہوگئے ہوتے اگر اس وقت بخت خاں کے خیمے میں نہ ہوتے۔ وہ انقلابیوں کے ہمراہ بریلی چلے آئے اور روپوش زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ عام معافی کے اعلان کے بعد وہ اپنے سابقہ افسر آر ایم ایڈورڈس کے پاس آکر اپنے کو سپرد کردیا۔ ان کے وطن بلند شہر میں موجود تمام جائداد ضبط کی جاچکی تھی انھیں معافی حاصل ہوگئی۔ مگر نہ ملازمت ملی نہ جائیداد ہی واگذاشت ہوسکی۔ ایڈورڈس نے انھیں 1857کے چشم دید واقعات لکھنے کی فرمایش کی۔ جو جنوری 1859 میں مکمل ہوئی۔ ایڈورڈس ایک افسر تھا۔ اس نے بھی کم وبیش واقعات دیکھے تھے۔ بلکہ اس دن وہ خود بھی اس موجِ خوں سے گزرا تھا۔سید مبارک شاہ کی تحریر کو اس نے انگریزی میں منتقل کیا اور بڑی دیانت داری سے جہاں اختلاف تھا اس نے اپنے نوٹس بھی دیے ہیں۔ اس نے اپنے ترجمے کا نام بھی دیا ہے'The Narrative of Syed Mubarak Shah' اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنے مسودے کا کوئی نام تجویز نہیں کیا تھا۔ ایڈورڈس نے لکھا ہے کہ یہ مسودہ انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ ہے۔

معین الدین حسن خاں کی طرح اس کتاب میں بھی کہیں کہیں انگریزوں کی تعریف موجود ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اسی طرح انگریز افسر کی فرمائش پر لکھی گئی ہے۔ مگر وہ ہندوستان کا وفادار ہے اس لیے انقلابی جوانوں کی بھی تعریف کرتا ہے ا س روز نامچے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بہت سے احراری یا انقلابی افراد کے نام بھی درج کیے گئے ہیں۔ مصنف کی رسائی اکابرین تک تھی۔ بہادر شاہ ظفر،بخت خان، مولانا فضلِ حق خیرآبادی وغیرہ کے ساتھ حکیم احسن اللہ خاںسے بھی مراسم رکھتا تھا۔ اس طرح اس شخص کے مشاہدات یا بیانات زیادہ وقیع اور اہم ہیں۔ واقعۂ غدر کی واقفیت کے لیے ان دونوں کتابوں کی یکساں اہمیت ہے۔ بلکہ ایک دوسرے کے لیے معاون ہیں۔ دونوں وفاداریوں کے باوجود معتوب رہے اور ملازمت وجائیداد سے محروم کیے گئے۔ انھیں تحریروں کی وجہ سے جاں بخشی بھی ہوئی۔ جو بھی ہو اردو کے دامن میں اس انقلاب کے مشاہدات کی ایسی دستاویز موجود ہے جو کہیں اور نہیں ملتی۔ یہ نکتہ بھی پیش نگاہ رہے کہ یہ واقعات اردو والوں سے زیادہ سے زیادہ متعلق رہے۔ اس لیے بھی نظر انداز کیا گیا۔ ابھی ذکر کیا گیا کہ ہمارے ادیبوں اور مورخوں نے بھی وہ توجہ نہیں دی جس کی توقع یا تقاضا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس بھی ہوا۔ اردو کی پہلی ادبی تاریخ آب ِحیات ہے۔ جس کے مصنف محمد حسین آزاد ہیں انھوں نے بھی کتمانِ حق سے کام لیا۔ مومن کا تذکرہ نہیں کیا۔بعد میں کچھ لکھا تو ان کی شاعری کو معائب سے معمور ہی بتایا۔ کیونکہ مومن خاں مومن پہلے معتبر ادیب ہیں جنھوں نے انگریزوں کے خلاف مثنوی جہاد لکھی۔ یہ بڑی جرأت تھی لہٰذا ان کا نام لینا آزاد کے نزدیک کلمۂ کفر سے کم نہ تھا۔ مثنوی جہاد کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔یہ غالباً 1813 کی تخلیق ہے       ؎

پلا مجھ کو ساقی شراب ِ طہور

کہ اعضا شکن ہے خمارِ فجور

کوئی جرعہ دے دیں فزا جام کا

کہ آجائے بس نشہ اسلام کا

بہت کوشش وجاں نثاری کروں

کہ شرعِ پیمبرؐ کو جاری کروں

نہ کیونکر ہووں اس کا میں ناشکیب

ظہورِ امامِ زماں ہے قریب

 فارسی کے دونوں قصیدے جو سید احمد شہید کی مدح میں ہیں۔ ان کا جوش وخروش طوفان انگیز ہے۔ انگریزی ستم رانیوں کے خلاف اسے اعلانیہ کہا جاسکتا ہے۔یہ عرفی کی زمین میں ہے۔ ایک دوسری مثنوی کے دو اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

جو داخل سپاہِ خدا میں ہوا

فدا جی سے راہِ خدا میں ہوا

امامِ زمانہ کی یاری کرو

خدا کے لیے جاں نثاری کرو

 

 ایں عیسویاں بلب رساندند

جانِ من و جانِ آفرینش

تا چند بخوابِ ناز باشی

فارغ ز فغانِ آفرینش

برخیز کہ شورِ کفر برخاست

اے فتنہ نشانِ آفرینش

اس دور میں ذوق وغالب بھی تھے مگر لاتعلق تھے۔ ایسے ہی محمد حسین آزاد نے دوسرا ستم کیا ہے کہ سعادت یار خاں رنگین (1835)کو ریختی کا شاعر قرار دے کر ان کی جملہ خصوصیات پر پانی پھیر دیا ہے۔ ایسا قادرالکلام اور وسیع الفکر شاعر اردو میں نظر نہیں آتا۔ جو یقینا نابغۂ روز گار تھا۔مگر رنگین کا قصور یہ تھا کہ اس جیالے نے آزادی کے سالار سلطان ٹیپو شہید کا قصیدہ لکھاتھا۔ جو ظاہر ہے کہ انگریزوں کے خلاف تھا۔

یہاں بھی ان کی انگریزپرستی ادبی تاریخ کی صفات کو داغ دار کرتی ہے۔ اس کے برعکس واجد علی شاہ کی مدح سرائی کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا۔ جو بیرونی اقتدار کے ہاتھوں بے دام بکنے کے لیے پہلے تیار ہوئے۔

داستانِ  غدر کے مصنف ظہیر دہلوی کو دیکھ لیجیے بادشاہ کے دربار میں پلے بڑھے۔ ذوق کے شاگرد تھے مگر واقعہ نگاری کا حق ادا نہیں کیا معتوب بھی ہوئے۔ ظہیر دہلوی کا شعر ہے        ؎

گھروں سے کھینچ کر کشتوں کے کشتوں ڈالے ہیں

نہ گورے ہیں نہ کفن ہے نہ رونے والے ہیں

  غالب غدر کے بعد تقریباً بارہ سال زندہ رہے اگر چاہتے تو دنیا ئے ادب کا لافانی شہرآشوب قلم بند کرسکتے تھے۔ مگر بے زبانی اور خموشی اختیار کی۔ فرما ںروی کے عہدِ زریں کے قصیدوں کی آب وتاب ختم ہوگئی۔غالب نے اشعار سے زیادہ خطوط میں کشت وخوں کے منظر کا ذکر کیا ہے۔ مفتی صدرالدین آزردہ بھی ضبط نہ کرسکے         ؎

روزِ موعود سے پہلے ہی قیامت آئی

کالے میرٹھ سے یہ کیا آئے کہ آفت آئی

کیوں کہ آزردہ نکل جائے نہ سودائی ہو

قتل اس طرح سے بے جرم جو صہبائی ہو

مولوی خرم علی (وفات 1856) نے بھی ایک قصیدۂ جہاد یہ لکھا تھا۔ مولوی لیاقت علی نے کاشف البغاوت لکھی یہ 147 صفحات کا مخطوطہ ہے ان کی1817پیدائش الہ آباد میں ہوئی۔

تاریخ عالم کے ایک عظیم حادثے کی بہت کچھ روداد اردو میں ہی قلم بند ہے۔ جو ذخیروں کے علاوہ نجی اندوختوں میں روز نامچے اور یادداشتوں کے طور پر محفوظ ہیں۔ عہدمغلیہ کے آخری دور کی کوئی بھی تاریخ اردو کے اکتساب کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ کھوئے ہوئے حوادث وافراد کی جستجو ہی اردو کی سرگذشت ہے۔


 

Prof. Abdul Haque

Delhi University

Delhi - 110007

 

 

 


 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

حرف ’’ب‘‘ بطور سابقہ اور وسطیہ، مضمون نگار: شمس بدایونی

  فکر و تحقیق،اکتوبر - دسمبر 2024 تلخیص ’بے‘ (ب+ے) کے سابقے سے بننے والے متعدد مرکبات بھی اردو میں موجود ہیں۔ قدیم املا میں یہ متصل یعنی...