اردو دنیا، مئی 2025
اردو شعر و ادب میں طنز و مزاح کی روایت قدیم بھی ہے
اور معیاری بھی۔اس روایت کی پاسداری کرنے والوں میں اکبر الہ آبادی، ظریف لکھنوی،
شوکت تھانوی، سید محمد جعفری، مجید لاہوری وغیرہ کے ساتھ ایک اہم ترین نام رضا نقوی
واہی (1914-2002) کا ہے۔ طنز اور مزاح کے الفاظ عموما ساتھ ساتھ استعمال ہوتے ہیں
لیکن ان دونوں کے مفہوم و مقصود اور اظہار و اسلوب میں گہرا فرق ہے۔ یہ بالکل ممکن
ہے کہ کسی ادب پارے میں طنز ہو مزاح نہ ہو یا اِس کے برعکس، اور دونوں صفات کا
اجتماع بھی ہو سکتا ہے۔ بہت سے ادیب و شاعر ایسے ہیں جنھیں یا تو صرف مزاح نگار ہی
کہا جا سکتا ہے یا طنز نگار۔ ایسا کم ہی ہوگا کہ ایک ہی شخصیت ان دونوں کی جامع ہو
اور انہی معدودے چند شخصیتوں میں رضا نقوی واہی بھی ہیں۔
شاعری خواہ رومانی ہو یا منظری، قومی ہو یا فکری، سنجیدہ
یا ظریفانہ، ان سب کے لیے ضروری اور اہم چیز یہ ہے کہ وہ بہرحال شاعری ہو۔ اشعار
کا تعلق شاعری کی کسی قسم یا صنف سے ہو،وہ کامیاب اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جا
سکتا جب تک کہ فن کے بنیادی تقاضوں کو پورا نہ کر سکے، ساتھ ہی اس میں شاعرانہ
لطافتوں اور نفاستوں کا اظہار بھی ہونا چاہیے تاکہ اس سے لطف اندوزی بھی کی جا سکے
اور اس کی سحر انگیزی بھی برقرار رہے۔ گویا ان مسلمات کی روشنی میں یہ بات کہی جا
سکتی ہے کہ ظریفانہ شاعری میں اگر ظرافت کی بہتات ہو لیکن شعریت ہی مفقود ہو تو
اسے ظرافت کا بہترین نمونہ کہا جا سکتا ہے مگر کم از کم معیاری شاعری تسلیم کر لینے
کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ مختصر یہ کہ شاعری کی دیگر قسموں کی طرح اچھی ظریفانہ
شاعری کے لیے ظرافت اور شعریت دونوں کا حسین امتزاج بے حد ضروری ہے۔ جناب واہی کی
شاعری کے امتیازات پر خامہ فرسائی سے قبل معیاری ظریفانہ شاعری سے متعلق ان کا نظریہ
پیش کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ:
’’اعلی
اور معیاری ظریفانہ شاعری کے لیے صرف طنز و مزاح کی حسین آمیزش ہی کافی نہیں ہوتی
بلکہ اس میں فکری عنصر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ایک شاعراسی وقت معیاری اور ظریفانہ
شاعری کا خالق ہو سکتا ہے جب طنز و مزاح کی آمیزش فکری بنیادوں پر کی جائے۔
معاشرے کی برائی، بد عنوانی اور کمزوریوں کے خلاف رد عمل کا نام ظریفانہ شاعری نہیں
کیونکہ اس طرح کا رد عمل انتہا پسندانہ ہوتا ہے اور ایک انتہا پسندی دوسری انتہا
پسندی کو جنم دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں رد عمل کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے جو
اصلاح حال کے بدلے حالات کو پیچیدہ اور غیر صحت مند بنادیتا ہے، لیکن اگر فکر کی
بنیادوں پر طنز و مزاح کی آمیزش ہوتی ہے تو ظریفانہ شاعری میں ہمدردی کے عناصر
شامل ہوتے ہیں اور شاعر مشاعرے کی کمزوریوں کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے اس انداز میں
اس کو پیش کرتا ہے کہ قاری یا سامع کا ذہن اصلاح حال کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ظریفانہ
شاعری میں پایا جانے والا ہمدردی کا یہی جذبہ اس صنف ادب کی افادیت اور مقصدیت کا
ضامن ہوتا ہے۔ ‘‘ 1
طنز و مزاح کا تعلق معاشرتی مسائل سے ہے، اس کے لیے
بالغ نظری اور گہرے شعور و ادراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان اس وقت تک طنز و مزاح کی
روح کو سمجھ نہیں سکتا جب تک کہ اس کا شعور بالغ نہ ہو۔ طنز یا مزاح محض بے معنی
ہنسی کا نام نہیں، یہ گہرے عرفان ذات یا معاشرے کے شعور سے پیدا ہوتا ہے۔
رضا نقوی واہی نے شعر گوئی کا بیس سالہ سفر طے کرنے اور
فن کی بھٹی میں تپ کر کندن ہونے کے بعد شعوری طور پر میدان ظرافت میں قدم رکھا اور
اسی وجہ سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے یہاں ظریفانہ شاعری بے حد معتدل و متوازن
ہے۔ نہ طنز اس قدر ہے کہ تنقید برائے تنقیص کا شائبہ ہونے لگے اور نہ ہی مزاح کا
اتنا غلبہ کہ قاری محض ہنسی اور ٹھٹھے پر ہی اکتفا کرنے کو کافی سمجھے، بلکہ انھوں
نے طنز و مزاح کی مناسب آمیزش کے ذریعے بیچ کی ایک ایسی راہ نکالی ہے کہ کسی کی
دل آزاری کے بغیر پیغام کی ترسیل خوشگوار انداز میں ہو جاتی ہے، پڑھتے وقت لطف
اندوزی بھی بحال رہتی ہے اور پڑھ کر عمل کا داعیہ بھی کسی نہ کسی درجے میں پیدا
ضرور ہوتا ہے۔میدان ظرافت کے انتخاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ہم نے معاشرے اور
سماج میں قدم قدم پر پھیلی ہوئی بد عنوانیوں پر اور اسی طرح کی ناہمواریوں پر نظر
رکھنے کے بعد دیکھا تو یہ محسوس ہوا کہ اگر ہم ان ناہمواریوں کو سنجیدہ شاعری کے پیکر
میں ڈھالیں تو یہ اتنے متاثر کن نہ ہوں گے جتنا طنزیہ انداز میں کہنے کا اثر ہوگا۔
ہنستے ہنساتے کچھ کام کی باتیں ہو جاتی ہیں۔‘‘
2
واہی کے کلام میں موضوعات کا تنوع اور فراوانی ہمیں اس
امر کا احساس دلاتا ہے کہ اگر فنکار کی نگاہ دور رس، قوت مشاہدہ وسیع، تخیل بلند و
بالا اور ساتھ ہی اخذ نتائج کا ملکہ بھی ہو تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کسی خاص پیرائے
میں لکھنے کے باوجود بھی موضوعات کی کمی جیسے مسائل درپیش ہوں۔ احمد جمال پاشا رقم
طراز ہیں:
’’واہی
کے یہاں موضوعات کی ایک وسیع کائنات ملتی ہے جس میں وہ زندگی کے سیاسی، سماجی،
انسانی، معاشی، قومی، اجتماعی اور ادبی مسائل کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے نظر
آتے ہیں... ان کی زبان مہذب اور شستہ ہے، ان کا لہجہ باوجود شوخی اور شرارت کے شریفانہ
اور قابل داد ہے، ان کے انداز بیان میں سادگی اور پرکاری ہے۔ ان کا ہمدردانہ انداز نظر، صحت مند والہانہ
پن، خوش طبعی، ظرافت، شگفتگی، توازن، رکھ رکھاؤ، طنز اور تیکھا پن ان کی طنز یہ
نظموں کو عام طنزیہ شعری ادب کی سطح سے بلند کر دیتی ہے۔‘‘3
ان کے یہاں الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے جنھیں وہ بلا تکلف
اپنے کلام میں استعمال کرتے ہیں۔ کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ محض تعداد میں
اضافے کے لیے اشعار کہے گئے ہوں، یعنی ہر شعر معنویت سے بھر پور ہوا کرتا ہے۔
مخمور سعیدی نے کلامِ واہی پر اپنے تاثر کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ان
کا کلام پڑھتے ہوئے کسی ایک مقام پر بھی یہ گمان نہیں گزرتا کہ شاعر نے آورد سے
کام لیا ہے، الفاظ کا ایک رواں دواں میل ہے جس میں قاری خود بھی بہتا چلا جاتا ہے۔
ان کی نظمیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ گرد و پیش میں پھیلی ہوئی زندگی کے تضادات
اور اس کے قابل گرفت پہلوؤں پر ان کی گہری نظر ہے اور ان میں کم ہی پہلو ایسے ہوں
گے جو ان کے طنز نگار قلم کا ہدف نہ بنے ہوں۔ مذہب، سیاست، اخلاق، ادب سبھی شعبوں
تک ان کی نظر رسا ہوئی ہے اور اس ریا کاری اور بددیانتی کا پردہ چاک کرگئی ہے جس
کے دم بدم بڑھتے ہوئے نفوذ نے زندگی کے ہر مثبت قدر کو غیر معتبر بنا دیا ہے۔‘‘ 4
واہی کو واقعہ نگاری، منظر کشی اور قصہ طرازی میں درک و
کمال حاصل ہے۔ ان کی نظمیں اوصاف مذکورہ سے پُر نظر آتی ہیں۔ ان کی شاہکار نظم جس
کا عنوان’ انتقال کے بعد‘ ہے، ان تمام جزئیات کے بیان کا بہترین مظہر ہے۔مکمل نظم
سے گریز کرتے ہوئے صرف اخیر کے دو اشعار جنھیں بطور نتیجہ انھوں نے لکھا ہے، پیش
کرتا ہوں ؎
کر دیا اس موت نے ثابت یہ
ہم پر کم سے کم
زندگی سے موت بہتر ہے، پئے اہل قلم
اہل فن کو موت سے ہرگز نہ ڈرنا چاہیے
بلکہ ممکن ہو تو کوشش کر کے مرنا چاہیے
کلامِ واہی میں ظرافت،
شائستگی کے ساتھ موجود ہے۔ ان میں سطحیت، ابتذال اور سوقیانہ الفاظ و انداز سے
مکمل اجتناب دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ چوں کہ دل درد مند اور طبع حساس کے مالک ہیں،
اس لیے وہ اپنی بصیرت و آگہی اور روشن دماغی کے ذریعے سماجی بے راہ رویوں کو طشت ازبام
تو کرتے ہیں لیکن وہ اپنے دل میں خود بھی بے قراری محسوس کرتے ہیں۔ اس کیفیت کی
ترجمانی کے لیے ان کا یہ شعر دیکھیں
؎
خود آگہی نے کیا ہے دماغ کو روشن
کسی کو درد ہو دل بے قرار اپنا ہے
واہی کے تیسرے مجموعہ کلام ’ نشتر و مرہم‘ پر ڈاکٹر
اختر اورینوی نے ایک مبسوط اور جامع مقدمہ تحریرفرمایا ہے اور واہی کی شخصیت و
شاعری کا بہترین محاکمہ پیش کیا ہے۔وہ رقمطراز ہیں:
’’واہی
کی شخصیت اور شاعری میں ہمیں یہ خوبیاں ملتی ہیں۔ ان کی ظریفانہ شاعری کہیں پر رکیک
اور سوقیانہ نہیں ہوتی۔ ان کے یہاں نہ بھونڈہ پن ہے اور نہ کھردرا پن۔ واہی کی
شاعری میں کسی پہلو سے ناتراشیدگی نہیں ملتی۔ ان کی نظمیں شائستہ اور مہذب ظرافت
کا نمونہ ہیں، ان میں نشتریت ضرور پائی جاتی ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ زخم پر مرہم بھی
ضرور لگاتی ہے۔ مختصر یہ کہ واہی کی شاعری قدر اعلی کی چیز ہے۔‘‘ 5
ان کا ایک قابل ذکر امتیاز یہ بھی ہے کہ انھوں نے منظوم
خطوط نگاری کی کمزور اور معدوم ہوتی روایت کو تواتر و تسلسل کے ساتھ لکھتے ہوئے
بار دگر زندہ و پائندہ کر دیا۔ واہی کے مکتوب الہیم زیادہ تر علم و ادب سے تعلق رکھنے والی باکمال
شخصیتیں ہیں، مثلا انھوں نے خلیل الرحمن اعظمی، مظفر حنفی، پروفیسر عبدالمغنی،
مظہر امام، دلاور فگار، مجتبی حسین، جگن ناتھ آزاد، وفا ملک پوری، وغیرہم کے نام
منظوم خطوط لکھے ہیں۔ ان کے خط کا اسلوب انتہائی سادہ اور تکلف سے خالی ہوا کرتا
ہے۔ حال احوال، شکوہ و شکایت، ادب و سیاست، روزمرہ کے واقعات، عالمی صورتحال، سماجی
ناہمواریاں، غرضیکہ تمام موضوعات کو معقول انداز میں وہ اپنے خطوط میں برتنے کے
ہنر سے واقف ہیں۔ مثال کے طور پر پروفیسر عبدالمغنی کے نام لکھے گئے ایک خط کے چند
اشعار کے ذریعے ان کی منظوم خطوط نگاری کے رنگ و آہنگ کا اندازہ لگائیں ؎
اے حضرت مغنی یہ جزا ہے کہ سزا ہے
کیوں تحفہ مریخ سے محروم رضا ہے
دفتر کی یہ غفلت ہے، کہ ہے ڈاک کی لعنت
یا آپ نے خود ہی نظر انداز کیا ہے
یہ اس لیے کہتا ہوں کہ مدت سے مرا خط
محروم جواب آپ کے بستر پہ پڑا ہے
کلام واہی کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان میں
محض زور تخیل کی کار فرمائی نہیں ہے بلکہ حقیقتوں کی نقاب کشائی اور سماجی مسائل کی
عکاسی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ روز مرہ کے واقعات و حالات کو اس انداز میں اپنی
شاعری کے ذریعے پیش کرتے ہیں کہ باذوق قاری اور حساس طبع انسان بیک وقت دو کیفیتوں
سے دوچار ہو جاتا ہے۔ ان کا ذوق شعر و ادب انھیں مسکرانے، ہنسنے اور بسا اوقات
قہقہہ لگانے پر آمادہ کرتا ہے تو دوسری طرف ان کی حساس طبیعت انھیں رونے، بلکنے
اور سر پیٹنے پر مجبور کر دیتی ہے۔اس طور پر ہم یہ کہہ سکے ہیں کہ ’نشتر و مرہم‘
اور ’طنز و تبسم‘ محض ان کے مجموعوں کا نام نہیں بلکہ فکر و خیال اور طرز و انداز
کا حقیقی مظہر ہے، جنھیں با معنی طور پر قلم کو قابو میں رکھ کر اپنے کلام میں پیش
کرتے ہوئے انھوں نے ادبی اور سماجی زندگی کی شعبدہ بازیوں کو جولان گاہ بنایا ہے۔
کہتے ہیں ؎
میرے کلام کی تلخی میں شہد کی ہے مٹھاس
گرفت میں قلم خوش عیار اپنا ہے
یہ بات اپنی جگہ بالکل درست اور مسلم ہے کہ واہی صاحب
نے اپنے تقریبا ستر سالہ شعری سفر کے طویل دورانیے میں نصف صدی سے زائد عرصے کا
سفر میدان ظرافت کے ماہر شہسوار کی حیثیت سے طے کیا ہے۔ انھوں نے نہ صرف اپنی طنزیہ
و مزاحیہ شاعری کے ذریعے اپنے ہم عصروں کو متوجہ کرتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس
دلایا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ واہی صاحب نے فنی چابکدستی، عمق فکر اور
اسلوب بیان کی یگانگت سے باذوق قارئین اور ناقدین ادب کو اپنا گرویدہ و اسیر بنا لیا
ہے۔ اس کا احساس خود واہی صاحب کو بھی تھا، کہتے ہیں ؎
خود اپنے ذوق نظر پر مدار اپنا ہے
حریف فن نہ کوئی ساجھے دار اپنا ہے
تمام عمر ظرافت کی آبیاری کی
اسی سے باغ ادب مشکبار اپنا ہے
یہ تو تھا فن واہی کا نمایاں
ترین پہلو لیکن’حکایتیں ہیں اور بھی ورق الٹ کتاب کا ‘۔ ایک اہم گوشۂ واہی جس کی
طرف توجہ ناگزیر ہے وہ رضا نقوی واہی کی کم و بیش دو دہائی پر مشتمل ابتدائی زمانے
کی روایتی اور سنجیدہ قسم کی شاعری کا گوشہ ہے۔ مطالعہ واہی کے دوران شدت سے اس
بات کا احساس ہوا کہ کسی بھی فنکار کی فنکارانہ عظمتوں کا مکمل اعتراف اس وقت تک
ممکن نہیں جب تک کہ اس کے فن کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہ کیا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ
عربی کے مشہور قاعدے ’للاکثر حکم الکل‘ یعنی اکثر پر حکم کلی نافذ کر دیا جاتا ہے،
کے تحت واہی صاحب کو شاعر ظریف تو تسلیم کر لیا گیا لیکن حیران کن اور قابل افسوس
امر یہ ہے کہ ان کی شاعری کے دوسرے رخ اور ان کے تقریبا بیس سالہ شعری سفر کو یکسر
نظر انداز کر دیا گیا، جبکہ اس زمانے کی شاعری کا مطالعہ ہمیں ایک الگ انداز کے
واہی سے متعارف کراتا ہے اور فن کی پختگی کے اعتراف پر مجبور بھی کر تا ہے، یہ
گوشہ نئی نسل کو دعوت مطالعہ دیتا ہے۔ ابتدائی زمانے کے شعری سرمائے میں نعت،
منقبت، سلام، غزلیں، نظمیں، قطعات، سہرا وغیرہ شامل ہیں۔
مجموعی طور پر رضا نقوی واہی کی شاعری، سنجیدگی اور
ظرافت کے حسین امتزاج کی عکاس ہے۔ ان کی سنجیدہ شاعری میں فکری گہرائی، کلاسیکی
روایات کی پاسداری اور عصری مسائل کی سچی تصویر کشی نظر آتی ہے، جبکہ ان کی ظریفانہ
شاعری میں شگفتگی، نکتہ آفرینی اور مزاحیہ پیرایے میں پیش کیے گئے عمیق خیالات کا
دلکش امتزاج ملتا ہے۔ان کی ظرافت محض سطحی مزاح تک محدود نہیں بلکہ اس میں تہذیبی
شعور، معاشرتی ناہمواریوں پر طنز اور انسانی نفسیات کا گہرا مطالعہ بھی موجود ہے۔
وہ اپنے منفرد اندازِ بیان، چابک دستی اور برجستہ لب و لہجے کے ذریعے قاری کو
مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں، لیکن اس مسکراہٹ کے پس پردہ ایک فکری پیغام بھی
ہوتا ہے۔ رضا نقوی واہی کی شاعری اردو ادب میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ ان کا تخلیقی
سفر، زبان و بیان کی لطافت، عروضی مہارت، اور سماجی رویوں پر ان کی گہری نظر انھیں
اردو کے ممتاز شعرا کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ نہ صرف لطف
فراہم کرتا ہے بلکہ قاری کو سوچنے اور غور و فکر کی نئی راہوں پر بھی گامزن کرتا
ہے۔ یہی ان کی شاعری کی اصل طاقت اور ان کے فن کی انفرادیت ہے۔یہی وجہ ہے کہ فن
واہی کی عظمت کے معترفین میں کنہیا لال کپور، ڈاکٹر عبد المغنی، احمد جمال پاشا،
اختر اورینوی، مخمور سعیدی اور وامق جونپوری جیسی نابغۂ روزگار شخصیتیں ہیں۔ واہی
نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف یہ کہ دنیائے شعر و ادب کو
اپنی موجودگی کا شدید احساس دلایا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہنا چاہیے کہ اس کی
عظمتوں کو چار چاند لگا دیا۔
حواشی
.1 رضا نقوی واہی آئینہ در آئینہ، مرتب: ڈاکٹر ہمایوں اشرف، 2003، کتابی دنیا، دہلی، ص: 133
(۲) ادب نکھار : واہی نمبر۔ مئوناتھ بھنجن، 1983، ص : 20
(۳) ز۔طنز
و تبسم،پیش لفظ : احمد جمال پاشا، 1963: مکتبہ ادب، پٹنہ
(۴)
حرف چند: مخمور سعیدی۔ نام بنام۔ مرتب: پریم گوپال
متل، پی کے پبلیکیشنز، دہلی، 1974، ص: 5
(۵)
مقدمہ: اختر اورینوی۔ نشتر و مرہم۔ 1968، ص 24
Hozaifa Shakil
Research Scholar, Dept. of Urdu,
Patliputra University, Patna
At : Ara House, Haroon Nagar Sector 2,
Phulwari Sharif, Patna - 801505
Mob : 8171222390
Email : huzaifashakil1996@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں