اردو دنیا، مئی 2025
صوبۂ مدھیہ پردیش میں واقع اور مہاراشٹر کی سرحد پر
واقع شہر برہان پور،جہاں اردو زبان و ادب کی ابتدا سے ہی تخلیقی سرگرمیاں وقوع پذیر
ہوتی رہی ہیں بڑے مراکز کی طرح اسے تاریخِ ادب میں مقام ومرتبہ خواہ نہ ملا ہو، لیکن
اس علاقہ کے قلم کاروں کی خدمات کی چمک کبھی ماند نہیں پڑی۔عبد الرحیم خان خاناں،
سعدی دکنی، ہاشم علی، متین برہان پوری، بالاجی تریمبک نائک ذرہ، سعد اللہ گلشن اور
ولی دکنی وغیرہ متعدد شعرا و ادبا کی اس علاقے سے وابستگی کے ذکر سے تاریخ کے
صفحات روشن ہیں۔یہ سلسلہ اسی طرح عہدِ حاضر تک چلا آتا ہے۔
ماضی قریب میں اس سرزمین کے استاد شاعر اختر آصف کا
نام اہمیت کا حامل ہے، جن کی شعری وادبی خدمات قابلِ ذکر ہیں۔ اصل نام اختر حسین
تھا لیکن اختر آصف کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔موصوف کی ولادت یکم جنوری 1939 کو
برہان پور میں ہوئی۔آپ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی، ساتھ ہی شہر کے مشہور استاد
مولوی محمد محسن سے فارسی زبان سیکھی۔1958
شعرو سخن کا شوق پیدا ہوا تو استاد الشعرا فاضل انصاری کے سامنے زانوئے ادب
تہہ کیا۔ پارچہ بافی کی صنعت سے متعلق مختلف ہینڈلوم اور پاور لوم کو آپریٹیو
سوسائٹیوں میں کلرک کی ملازمت کو اپنا ذریعۂ معاش بنایا۔ بیسویں صدی کے اواخر میں
برہان پور سے ہفت روزہ ’برہان پور ٹائمز‘ جاری ہوا جس کے آپ معاون مدیر رہے، بعد
ازاں ہفت روزہ ’الم نشرح‘ کے مدیر کی ذمے داری بھی بحسن وخوبی انجام دی۔ اس طرح
شاعری کے ساتھ ساتھ میدانِ صحافت میں بھی اپنی خدمات پیش کیں۔ اختر آصف نے تقریباً
چار دہائیوں تک ملک بھر کے مشاعروں میں شرکت کی اور اپنے پر سوز و دلکش ترنم سے
سامعین کو محظوظ کیا۔ استاد فاضل انصاری کی جانب سے فارغ الاصلاح قرار دیے جانے کے
بعد متعدد نو واردانِ سخن کی اصلاح کا ذمہ لیا۔موصوف کی عمر بھر کی شعری کاوشات سے
منتخب کردہ کلام کو 2005میں شعری مجموعہ
’آزاد پرندے‘ کی شکل میں شائع کیا گیا۔
16 اکتوبر 2008 میں اختر آصف اس جہاں سے رخصت ہوئے۔
اختر آصف کا نام دنیائے ادب میں محتاجِ تعارف نہیںہے،
مشاعروں کے توسط سے انھیں ملک گیر شہرت و مقبولیت ملتی رہی ہے۔ شاعری کے لحاظ سے دیکھیں
تو زبان و بیان کے ستھرے مذاق نیز پر سوز اور دل نواز ترنم کے باعث موصوف نے سامعین
میں اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ شعرو زبان کے رمز سے آشنائی اور شاگردوں کے وسیع
حلقے کی تربیت کے سبب برہان پورو اطراف کے استاد شعرا میں آپ کا شمار ہوا۔ تا دمِ
آخر شعری محفلوں سے وابستگی اور مشغلۂ فکرِ سخن سے وابستہ رہتے ہوئے شعری سلسلے
کوآگے بڑھانے میں بھی آپ نے اہم رول ادا کیا ہے۔ اشاعتِ کلام کے طور پرآپ کے
ہاں ایک عدد مجموعہ ’آزاد پرندے ‘ہے، جسے اختر آصف صاحب کے محتاط انتخاب کے مدِ
نظرکل کائنات یا نمائندہ کلام کہا جاسکتا ہے، اسے موصوف نے اپنی حیات میں شائع
کروایاتھا۔
اختر آصف کا مجموعۂ کلام چند ایک نظموںاور تقدیسی
کلام بطورِ خاص غزلوںپر مشتمل ہے۔ان کی غزلوں میں موصوف نے الگ الگ مضامین و
موضوعات کے سہارے شاعری بنانے کی سعی کی ہے۔ جذبات واحساسات، حالات و واقعات،
تجربات و مشاہدات اور عہدِ حاضر میں رونما ہونے والے مناظر وغیرہ سبھی کو موصوف نے
اپنی شاعری کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔
دیکھا جاتا ہے شعرائے کرام حسن و عشق کے مضامین کے ساتھ
بطورِ خاص اپنے افکار کو قرطاس پر بکھیر تے ہیں۔اختر آصف کے یہاں بھی حسن و عشق کی
حکایات ہیں،مگر یہ حکایات آٹے میں نمک کی طرح ہیں۔البتہ عصری حسیت اخلاقیات جیسے
موضوعات پر مشتمل اشعار سوا ہیں۔ معاملاتِ انسانی پر آپ کے ہاں کثرت سے منظوم
انداز میں رائے زنی ملتی ہے۔ اسی ضمن میں معاشرے میں موجود افراد کے منفی رویے سے
متعلق موصوف نے اپنی شاعری میں متعدد مقامات پر اپنا اعتراض درج کیا ہے، فی الحال یہی
ہماری گفتگو کا موضوع ہے۔
انسان مختلف طور سے معاشرے میںاپنے وجود کا احساس کراتا
ہے۔ سیاست داں، رہنمائے قوم،فردِ خانہ، ہم نشیں، ہم سایہ اور ایک دوست وبہی خواہ
وغیرہ کے روپ میں انسان اپنا کام کرتا چلا جاتا ہے۔ اختر آصف کے ذخیرۂ اشعار میں
ان رشتوں او ر کرداروں کے ذریعے سلوکِ انسانی کے نباہ کا خوبصورت انداز میں ذکر
ہے۔ تعلقات کی بنیاد پر ہر شخص دوسرے شخص کی جانب پر امیدنظروں سے دیکھتا ہے اور
اپنے گہرے تجربے کے باعث اسے بعض اوقات اپنا سب کچھ چھِن جانے کا خدشہ بھی لگا
رہتا ہے۔ایسے موضوعات سے اختر آصف کو گہری انسیت رہی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں ؎
میں نے کیا ہے جس پہ بھروسہ دغا نہ دے
وہ میرے اعتماد کی مسجد گرا نہ دے
سب کچھ تو اس نے لوٹ لیا اک مکان ہے
اس پر بھی اپنے نام کی تختی لگا نہ دے
اختر آصف کے کلام میں متعدداشعار ایسے بھی ہیں جن میں
معاشرے میں موجود افراد کے نازیبا برتائو اور ناروا سکوک پراعتراض اور ردِعمل نمایاں
طورپر دکھائی دیتا ہے، اس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کا ردِ عمل دکھائی دیتا
ہے۔ رشتوں کا اعتبار اور تقدس دوطرفہ برتائو پر منحصر ہوتاہے، مثبت عمل کے منفی
ردِ عمل سے یہ پامال ہوجاتا ہے، ایسی صورتِ حال میں منفی طرزِ عمل کو برداشت کرنے
والا شخص اپنی شکایت لازمی طور پر درج کرواتا ہے جو ہمیں اختر آصف کے یہاں ذرا
واضح اور تیکھے انداز میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں احباب کی طبیعت میں
وفاداری اوربیوفائی دونوں طرح کا برتائو اور رویہ پایا جاتا ہے، اختر آصف کی شاعری
میں اس قسم کے جو مضامین نظم ہوئے ہیں ان میں انسان کا ایک طرفہ رویہ اور ایک ہی
روپ بکثرت دیکھنے کو ملتا ہے، یعنی، سفاکی، دغا و فریب جیسے چلن کے بیان کا مجموعہ
غزلیات میں نمایاں ہے۔چند اشعار دیکھیں
؎
کیوںجلاتے ہومکاںمیرا،مرے بھائی بھی ہیں
یہ مکاں تو یوں ہی بے دیوار و در ہوجا ئے گا
ایسے تو نہیں لوگ کہ گرتے کو سنبھالیں
ایسے ہیںکہ گرتے کو سنبھلتے نہیں دیتے
یہ انسانی وجود اور شخصیت کا ایک منفی پہلو ہے،انسانوں
کو پرکھنے اور ان پر رائے زنی کرنے کا اگرچہ یہ اک طرفہ طرز معلوم ہوتا ہے، لیکن ایسے
اشعار کی قرأت سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عہدِ حاضر کا انسان بکثرت ایسی خصلتیں
اپنے اندرلیے پھرتا ہے جن میں خیر کا پہلو کم اور شر کا پہلو زیادہ ہے۔شاعر کے
اپنے تقاضے کے مطابق لوگوں کا رویہ حسبِ توقع نہیں ہوتا، گویا یہ اس دورکا المیہ
ہے۔ حالانکہ انسان خدا کا شاہکار ہے لیکن یہ اپنے کردارو اخلاق سے نیک وبد دونوں
طرح کی خصلتوں کا اظہار کرتا ہے۔ اس معنی میں اختر آصف کا تجربہ تلخ رہا ہے، یار
دوستوں سے انھیں آسودگی و مسرت غالباً کم کم ہی میسر آئی ہے،جس کا منظوم اظہار
شاعر موصوف کے یہاں الگ الگ غزلوں میں الگ الگ انداز میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً
یہ اشعار دیکھیں ؎
کاغذ کے پھول جیسے ہو گل دان میںسجے
ایسا ہی کچھ خلوص کا جذبہ دلوں میں ہے
بے وفائوں سے رکھی ہم نے وفا کی امید
جیسے پتھر پہ کوئی پھول اگانا چاہے
احباب جو زندگی کے سفر میں شجرِ سایہ دار کی مانند ہوتے
ہیں، ان سے گہرے رشتے کے باعث آدمی بعض اوقات ضرورت سے زیادہ تعاون اورنیک نیتی یا
احسان کے بدلے احسان کی توقع رکھتا ہے،بعض اقربا اس پر پورے اترتے ہیں اور بعض
توقع کے مطابق نہیں ہوتے۔ امید کے بر خلاف برتائو سے انسان تڑپ اٹھتا ہے، اختر
آصف نے ان کیفیتوں کو بھی بڑی خوبی سے اپنے اشعار کا جامہ پہنایا ہے ؎
ساتھی ہیں اجالوں کے ظلمت میں پرائے ہیں
احباب نہیں شاید احباب کے سائے ہیں
احباب کا حلقہ ہے کہ جنگل میں گھرا ہوں
ہے ناگ یہاں کوئی، کوئی ناگ پھنی ہے
غم خوار بن کے آئے دل آزار سے لگے
سارے عزیز اپنے اذکار سے لگے
ایسا بھی اک شفیق مرے دوستوں میں ہے
جس کے کرم کا عکس مرے آنسوئوں میں ہے
تو نے دغا جو دی تو تعجب کی بات کیا
تیرا شمار بھی تو مرے دوستوں میں ہے
جب بدلے میں انسان کو مسلسل غیر تسلی بخش جوابات نیز
توقع سے پرے اور نازیبا برتائو ملتے ہیں تو، ایسی صورت میں ایک نازک مزاج اور سنجیدہ
شخص کے دل پر ایسے گہرے زخم لگتے ہیں جن کی کسک وہ زندگی بھر محسوس کرتا ہے اور
بالآخر کسی نتیجے پر پہنچتا ہے تو اس کی زبان سے جملے ادا ہونے لگتے ہیں ’’ یہ دنیا
گویا انسانیت اور انسانوں سے خالی ہوچکی ہے۔ یہاں بھلائی کی امید عبث یا ایک سراب
کی سی ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اشعار دیکھیں
؎
آدمی برتر فرشتوں سے مگر
آدمی کہلائے ایسا کون ہے
مجھ سے انساں کا پتہ پوچھنے والے لوگو
میری مانو تو مزاروں کا پتہ لے جائو
انسان راہِ وفا میں چلتے چلتے کس قدر چوٹ کھاتاہے، کتنے
زخم سہتا ہے، سب کچھ سہہ کر بھی وہ ضبط وبرداشت کا ملبوس سینۂ جسم سے لگائے رکھتا
ہے لیکن اپنے اصول، ایثار، ثابت قدمی اور نیک نیتی پر قائم رہنے کی اپنی ضد کی
خاطراپنے حسنِ سلوک سے متنفر نہیں ہوتا، زمانہ کیا سوچتا ہے اس بات کی بھی پروا نہیں
کرتا، حتیٰ کہ وہ اس راہِ حق میں اپنے وجود کو لہولہان کرتا رہتا ہے، اور یہی
عظمتِ انسانی کی دلیل ہے ؎
وفا کی راہ کے سب پھول اِن قدموں سے لپٹے ہیں
زمانہ یہ سمجھتا ہے مرے پیروں میں چھالے ہیں
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اچھا تخلیق کار ایک اچھا انسان
بھی ہوتاہے، وہ دردوغم، محرومیوں اور تلخیوں کو اس وجہ سے بھی موضوعِ گفتگو بناتا
ہے کہ انسانوں کے درمیان تحمل و برداشت کے رویے کے ذریعے رواداری اور ایک دوسرے کو
قبول کرنے والے ماحول کی آبیاری ہوسکے۔ انسان کے مزاج و معیار اور اخلاق کو بلندیِ
فکر کی طرف مبذول کیا جائے، فکرِانسانی کو ذہنی، جذباتی اور قلبی،ہر قسم کی کشادگی
کی جانب موڑا جائے۔ شخصیت سازی کا امر بھی فن کار کی ترجیحات میں شامل ہوتاہے، کیونکہ
شاعربھی سماج کی اکائی ہے۔ اختر آصف کی شاعری کے مطالعے سے یہ احساس مزید گہرا
ہوجاتا ہے کہ وجودِ انسانی کے ان منفی و
تخریبی پہلوئوں سے انسانوں کے دل کس قدر مجروح اورداغ دار ہوجاتے ہیں۔
آیا یہ کہ اختر آصف نے اپنے اشعار میں افراد کے جن
منفی رویوںکاالگ الگ انداز سے اظہا ر کیا ہے وہ بہ ظاہر ہمیں گلے، شکوے جیسے محسوس
ہوتے ہیں، لیکن یہ عمل ایسے ہیں کہ اس کے ذریعے انسانی عادات و اطوار اور اقدار کی
اصلاح اورتعلقاتِ انسانی میں اخلاص و خیر خواہی کی فضا ہموار کرنے کی طرف ایک طرح
کی پیش قدمی بھی ہے،ساتھ ہی ساتھ منفی برتائو سے ناپسندیدگی کا اظہار کر کے اس رویے
سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش بھی ہے۔ الغرض آدمی، آدمی کی راہ کا پھول بنے
نہ کہ خار۔اس نظر سے دیکھیں تو اختر آصف کا یہ اقدام یقینا لائقِ ستائش محسوس
ہوگا۔
Dr. Asrar Ullah Ansari
Head, Dept. Of Urdu
Swami Vivekanand Govt. PG College
Neemuch 458441 (MP)
9753210869
asrar1607@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں