6/5/20

متن، قرأت اور معانی کے چند وظائف مضمون نگار: مصطفی علی

متن، قرأت اور معانی کے چند وظائف

مصطفی  علی

ادبی متن کی قرأت اوراس سے درست معانی کی یافت بھی ایک فن ہے۔ کسی متن کو متن تسلیم کر لینے کے بعد سب سے پہلے تو یہ طے کرنا پڑے گا کہ متن ادبی ہے یا غیر ادبی،ا گر غیرادبی ہے تووہ متن ہماری بحث سے خارج ہے اور اگر ادبی ہے تویہ سوچنا پڑے گا کہ اس کی قرأت (بہ لحاظِ تفہیم و تاویل)کا زاویہ کیا ہو، آزاد یا پابند؟اب یہاں پر دشواری یہ طے کرنے میں ہے کہ متن کی آزادانہ قرأت سے درست معنی تک رسائی حاصل ہوگی یا کسی نظریے کی پابند قرأت سے۔اگر آزادانہ قرأت طے پائی تو ایک بات ہوئی اور اگر نظریاتی قرأت جواب آیا تو پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ کس نظریے کا پابند ہو۔ ترقی پسند، جدید، ما بعد جدیدیا کوئی اور؟ اور اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ جو متن جس زمانے میں یا جس نظریے سے تحریک پاکر تخلیق کیاگیا ہو اسے اسی نظریے سے پڑھنا ٹھیک ہوگا تو پھر امیر خسرو، ولی، میر اور داستانوں و مثنویوں کو کس نظریے کے تحت پڑھا جائے گا؟ یا اگرمان ہی لیں کہ زید نے اپنے کو ترقی پسند نظریے کا پابند بنا لیا اور ترقی پسند دور کے ہی کسی فن پارے کو اپنی قرأت کا موضوع بنایا تو کیا اس کی قرأت سے بر آمد شدہ معانی درست ہی ہوں گے؟ اور یہ طے کون کرے گا کہ متن کے جو معنی زید نے سمجھے ہیں وہ درست ہیں کہ نا درست؟
مذکورہ بالا بیان سے یہ قطعی نہ سمجھا جائے کہ کسی فن پارے کی نظریاتی قرأت صحیح نہیں۔ میں تو بس یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ متن کی قرأت جس زاویے کا تقاضا کرے اور جس سے اس کو کما حقہ سمجھا جا سکے اسی زاویے سے اس کی قرأت کی جائے۔میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ایک متن کی قرأت محض ایک ہی زاویے سے ممکن ہے، جہاں پر بھی الگ الگ زاویہئ قرأت کے نتیجے میں قاری کے ذہن میں کیفیت و تأثر کے الگ الگ زاویے بنتے ہوں یا معنی کے کثیر الجہات پہلو روشن ہوتے ہوں وہاں مختلف زاویوں کے حوالے سے متن کے تخلیقی تنوع کا عرفان اسے حاصل کرنا چاہیے۔
کسی فن پارے کی قرأت کا زاویہ واحد ہو یا مختلف مگرقرأت کئی بار ہونی چاہیے کیونکہ الفاظ گنجینۂ معانی کا طلسم ہوتے ہیں؛ ان کے بندھن میں کوئی ایک معنی نہیں بندھا ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ پہلی دفعہ کی قرأت میں فن پارہ قاری کے پلے ہی نہ پڑے یا پڑے بھی تو بعد والی کسی قرأت میں اس سے ہٹ کر کوئی ایسا معنی ہاتھ لگ جائے کہ وہ اچھل پڑے۔یہی وجہ ہے کہ قرأت کو ایک بے حد صبرآزما کام تصور کیا جاتاہے۔ پروفیسر عتیق اللہ کے الفاظ میں کہیں تو ’قرأت ایک عمل ہی نہیں، ایک پورا عملیہ ہے‘ مکمل اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
ہر تخلیقی متن کئی لسانی اور تکنیکی پیچیدگیوں کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔وہ بہ یک وقت کئی نسلوں کو خطاب کرتا ہے اور کئی دماغوں اور تخیلات سے گزرکر ہم تک پہنچتا ہے۔قرأت ہمیشہ صبر کی متقاضی ہوتی ہے اور تخلیق ازخود بے حد شرمیلی،کم گو، نخریلی، شوخ اور چنچل ہوتی ہے ایک دم نہیں کھلتی اس کی ناز برداری کرنی پڑتی ہے۔ جب کہیں جاکر تھوڑی بہت، زیادہ سے زیادہ آپ کے قابو میں آتی ہے اور پھر نکل جاتی ہے۔ حصولِ معنی اس طرح صبر کا تقاضا کرتا ہے جس طرح بقول ٹیری ایگلٹن ہمیں عقل ڈاڑھ کو نکلوانے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ قرأت ایک عمل ہی نہیں ایک پورا عملیہ(پروسیس) ہے۔
(بحوالہ:مجلہ ارمغان، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، شمارہ:6، مقالہ:قاری اور قرأت از عتیق اللہ، ص117-18)
قاری کو ہر قرأت میں سابقہ قرأت سے مختلف یااضا فے کی صورت میں کچھ نیا معنی و مفہوم فراہم ہو سکتا ہے، اس لیے اس کو کسی بھی متن کے سرسری مطالعے سے پرہیز کرنا چاہیے اور متن کے غائر مطالعے سے جو معنی ہاتھ لگے اسے بر وقت اپنی درست رائے تسلیم کرلینی چاہیے۔ بر وقت اس لیے کیونکہ بعد میں کسی موقع محل (Situation)  کے تحت خود اس کے یا کسی اور قاری کے ذہن میں متن کے معنی کا کوئی نیا اورپہلے سے بہتر یا ان دونوں میں سے کوئی ایک پہلو آشکارہو سکتا ہے۔ قاری کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی معنی متن کے ساتھ دائمی طور پر مختص نہیں کیا جا سکتا۔ اسی بات کو پروفیسر عتیق اللہ یوں بیان کرتے ہیں:
کوئی بھی شعری یا افسانوی شہ پارہ کسی ایک خیال یا کسی ایک معنی نہیں خیالات اور معنی کے گچھوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور زبان کا اپنا مجرد اور تخلیقی عمل اسے نامانوس اور اجنبی بنا دیتا ہے۔ شاعری ہی نہیں فکشن میں بھی بہت کچھ مقدر چھوڑ دیا جاتا یا چھوٹ جاتا ہے جنہیں قاری کو قیاس کرنا پڑتا ہے..... ہر دوسری قرأت پہلی قرأت کو پیچھے ڈھکیل دیتی ہے اور خود کو اجنبی بنانے کے لیے تیار بھی ہو جاتی ہے۔ تنقیدی قرأت دراصل کئی قرأتوں کو اجنبی بنانے کا مجموعہ ہوتی ہے۔“ (ایضاً، ص 116)
در اصل الفاظ پردہئ متون میں وہ معنی بھی بیان کرجاتے ہیں جو منشائے مصنف اور منشائے متن سے خارج ہوتے ہیں کیوں کہ کسی معنی کی غلامی متن کی سرشت میں شامل نہیں ہوتی۔جب تک متن کا وجود باقی رہے گا قاری اس کی قرأت سے نئے معانی دریافت کرتا رہے گا۔ا س کی متعدد مثالیں ہیں مگر میں یہاں ایک کے ذکر پر اکتفا کروں گا۔ میرکو کافی عرصے تک لوگ رونے رلانے اور دل و دلی کی مرثیہ خوانی کرنے والا شاعر گردانتے رہے مگر عصرِحاضر کے معتبر نقاد شمس الرحمن فاروقی نے جب کلام میرکی قرأت کی تو انھیں ایک نیا اور منفرد گوشہ نظرآیا۔ جس کی بنا پر انھوں نے میر سے متعلق روایتی مفروضے کو غلط قرار دے دیا اور میر کے خدائے سخن ہونے کی دوسرے مدلل ومعتبر وجوہات کو پیش کیا مثلاً ڈرامائی اور افسانوی اظہار، جنس اور عشق کے معاملات میں بے تکلفی، زبان کے سلسلے میں تحکمانہ اور بے پروانہ انانیت، رعایت لفظی سے شغف، استعارہ اور پیکر کی کثرت، معنی آفرینی اور مضمون آفرینی کا التزام، حس مزاح اور طنز کی فراوانی، کائناتی احساس جو بیک وقت مقامی بھی ہے اور مقام سے ماورا بھی، تصوف سے واقعی اور اصلی دلچسپی وغیرہ۔
اس فہرست میں ہم کلیم الدین احمد کا نام ’اردو شاعری پر ایک نظر‘ کے حوالے سے اورشمیم حنفی کا نام بھی ’کہانی کے پانچ رنگ‘کے حوالے سے جوڑسکتے ہیں اور کلام ِ غالب و اقبال کی متعدد شرحوں کا وجود بھی اس کی زندہ مثال ہے۔
ملٹن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ مقبول رہے گا کیونکہ اسے کوئی نہیں پڑھتا۔یہ سچ ہے کہ شہرت یافتہ ادیب ہر دور میں بڑاادیب تسلیم کر لیا جاتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ بغیر مطالعے کے کر لیاجاتاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی ادیب کو خواہ وہ مقبول ہو یا نا مقبول،اس کے متعلق تسلیم شدہ آرا سے متأثرہوئے بغیرپہلے پڑھا جائے پھر جو بھی تاثر قائم ہو اسے تسلیم کیا جائے۔ ضروری نہیں کہ مقبول ادیب ازسرِ نوپڑھا جائے تواس کی مقبولیت پر سوالیہ نشان نہ لگے۔ ہو سکتا ہے اس کی شہرت کے دعوے میں جو دلیل پیش کی گئی ہو وہ باطل ہو جائے یاپھر اس کی مقبولیت کی کوئی نئی جہت مل جائے۔
اختلاف جنس پر بھی معنیِ متن تبدیل ہو سکتا ہے۔ مرد اور عورت دو الگ جنس ہیں۔دونوں کی طبیعت، ان کے مسائل اور ضروریات بھی مختلف ہیں،اس لیے ان کے زاویہ نگاہ بھی مماثل نہیں۔ کسی متن یا فن پارے میں بہت سی ایسی باتیں مضمر ہوتی ہیں،مرد کو جن کی ہوا تک نہیں لگتی اورعورتیں ان کو بآسانی پہچان لیتی ہیں،اس لیے کسی متن کی قرأت سے جو معنی مرد اخذ کرے گا یاجو اثرات اس پر مرتب ہوں گے ضروری نہیں کہ اس متن سے عورت بھی وہی معنی مستنبط کرے یا وہی اثرات اس پر بھی مرتب ہوں۔مثال کے طور پر نیر مسعود کا ایک مشہور افسانہ ہے ’طاؤس چمن کی مینا‘۔اس افسانے پر اظہارِ خیال کرنے والوں میں سے ہم ایک مرد ’قاضی افضال حسین‘ اور ایک عورت ’سیما صغیر‘کو منتخب کر لیتے ہیں۔ان دونوں نے دو مختلف نظریات کی روشنی میں اس کی قرأت کی ہے۔ قاضی افضال نے مابعد جدید اور سیما صغیر نے ترقی پسندنقطہئ نظر سے اس کا جائزہ لیا ہے لیکن ہمیں یہاں نظریاتی اختلاف اور تجزیاتی فضیلت سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ان دونوں سے الگ ایک اختلاف ہے جنس کا، ہمارا مدعا یہی Gender conflictہے۔
جب قاضی افضال حسین اس افسانے کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں تشکیل و لا تشکیل کی عینک سے چمن، قفس،تاریخ، تہذیب، طلسم اور روایت تو خوب نظر آتا ہے مگر کالے خاں کی بے ماں کی بیٹی کے جذبات اور باپ بیٹی کے رشتے کی لطیف و نازک کیفیات کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں جاتا۔اس ننھی بچی کا بس ایک بار ذکر ہوتا ہے اور وہ بھی عام چھوٹی بچیوں کی طرح۔اقتباس ملاحظہ کیجیے:
اسی طرح ایجادی قفس کی فلک آرا اور کالے خاں کی فلک آرا جو آواز کی میٹھاس و حرارت تک میں یکساں ہیں، ایک دوسرے کے معنی کو وہ جہات فراہم کرتے ہیں، جو اس افسانے میں ابھرتے ہیں یعنی ان دونوں کے صفات کی یکسانیت کے حوالے سے یہ کہانی ایجادی قفس کے اندر کی معلوم ہوتی ہے اور کبھی اس تمثیلی قفس کے باہر کی۔ کبھی کبھی فلک آرا پرندہ سے زیادہ شہزادی معلوم ہوتی ہے اور کبھی کالے خان کی فلک آرا وہ معصوم پرندہ لگتی ہے جو اس قفس/ شہر میں آزادی لطافت اور شفقت سے معمور زندگی گزار رہی ہے۔
(طاؤس چمن کی مینا: حسن تشکیل کا افسانہ/تاریخ کی لاتشکیل، قاضی افضال حسین، مشمولہ: متن کی قرأت، ص139)
اور جب سیما صغیر اس افسانے کا مطالعہ کرتی ہیں تو وہ ترقی پسند آلے سے کالے خان کو غریب، مزدور، محنت کش، بادشاہ کو مطلق العنان اور معاشرہ کوفیوڈل ہی نہیں ماپتی بلکہ ان کی نظر اس ننھی سی بے ماں کی بچی پر بھی مرکوز ہوتی ہے اور تہی دست باپ پر بھی اور ان کی نظر میں باپ، بیٹی کے یہ نازک جذبات کہانی کا بنیادی تھیم بن جاتے ہیں۔ اقتباس دیکھیے:
کہانی کا مرکزی نقطہ وہ انسانی واردات ہے جس میں ایک باپ اپنی بے ماں کی بیٹی کی محبت سے مجبور ہوکر اس کی دیرینہ خواہش پوری کرنے کے لیے بادشاہ کے چمن سے ایک پہاڑی مینا چرا کر گھر لاتا ہے جب کہ اس کو طاؤس چمن کی نگہداری کے لیے مقررکیا گیاہے۔اس طرح محبت اور ضمیر کی کش مکش جو اصلاًانسانی فطرت کے تضادات کا مظہر ہے اور جس کو کسی خاص وقت اور مقام سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا، کہانی کی بنیادی تھیم قرار پاتی ہے۔
(طاؤس چمن کی مینا‘ کا تجزیاتی مطالعہ: ترقی پسند نقطۂ نظر سے، مشمولہ: متن کی قرأت، ص144)
اسی طرح مشرف عالم ذوقی کے ناول ’لے سانس بھی آہستہ‘ کی قرأت سے جو نقطہ شائستہ فاخری اور دوسری عورتیں  دریافت کرلیتی ہیں ستیہ پال آنند اور دوسرے مردوں کو ان کے وجود کا احساس تک بھی نہیں ہوتا۔ ایک اور مثال غضنفر کے ناول ’فسوں‘ کی ہے۔اس کو شافع قدوائی اور سیما صغیر دونوں نے جس انداز سے پرکھا ہے اس میں بھی مردانہ اور زنانہ نظریاتی افتراق در آیا ہے۔      
جس طرح اختلافِ جنس سے ایک ہی متن کی قرأت سے الگ الگ معنی کی دریافت ممکن ہے،اسی طرح نظریاتی اختلاف سے بھی ایسا ہونا ممکن ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر عتیق اللہ رقم طراز ہیں:
ضروری نہیں کہ دو ناظرین یا قارئین کسی ایک رائے یا ردعمل پر متفق ہوں کیونکہ رائے زنی کا بھی ایک سیاق ہوتا ہے اور رائے زنی کرنے والے کے ذوق و مذاق کی بھی ایک سطح ہوتی ہے نیز بیشتر صورتوں میں اس سوال کی اہمیت ہے کہ آپ اس چیز کو کس زاویے سے دیکھ رہے ہیں یا وہ چیز کس رخ سے آپ کو نظر آ رہی تھی اور دیکھنے کے اس عمل کا سیاق و سباق کیا تھا، انسان کا اپنا داخلی جبرو دباؤ ہی اپنا اثر نہیں دکھاتا، خارجی جبرو دباؤ کا اثر بھی کم اہمیت نہیں رکھتا۔ اس لیے قرأتوں میں جہاں اشتراک کی صورتیں واقع ہوتی ہیں وہیں ان میں کم یا زیادہ افتراق و اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔
(بحوالہ:مجلہ ارمغان،شعبہئ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی، شمارہ:6، مقالہ:قاری اور قرأت از عتیق اللہ، ص123)
آپ کو معلوم ہوگا کہ’نظیر اکبرآبادی‘ کو ترقی پسندی سے قبل وہ رتبہ و مرتبہ حاصل نہیں تھا جوانہیں اس تحریک کے بعد حاصل ہوا۔ ترقی پسند ناقدین نے جب اپنے قائم کردہ اصول ونظریات کی روشنی میں اردو شاعری کو پرکھنا شروع کیا تو انھیں نظیر اکبرآبادی بڑا شاعرلگااور غالب چھوٹا۔ انھوں نے بڑے کے بڑاہونے کا اعلان تو کر دیامگر ان کی سوئی اٹکی غالب پر۔اس موقعے پر ان کے سامنے دو ہی صورتیں تھیں؛پہلی تو یہ کہ وہ اپنے متعینہ تنقیدی اصولوں پر کلام غالب کو پرکھیں اور غالب کوچھوٹا موٹا شاعر کہہ دیں اوردوسری صورت یہ تھی کہ وہ کلام غالب کو پڑھنے کا کوئی دوسرا ڈھنگ اختیار کریں۔ پہلی صورت اختیار کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا کیونکہ غالب کے عظیم شاعر ہونے پر اس وقت تک اجماع ہو چکا تھا، ایسے میں وہ اسے چھوٹا کہہ کر اپنی فضیحت کیوں کراتے، لہٰذااس وقت احتشام حسین جیسے قدآور ترقی پسند ناقد اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں کلام غالب کی قرأت کا کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
 اسی طرح فیض کی نظم’صبح آزادی‘ کے تعلق سے علی سردار جعفری کی رائے کو دیکھ لیجیے۔یہ فیض کی معروف ترین نظموں میں سے ایک ہے۔ پڑھنے کے بعدلوگوں نے اس نظم کی خوب پذیرائی کی لیکن جب اس نظم کی قرأت ترقی پسند ناقد علی سردار جعفری نے کی تو ان کو اس نظم کا آخری(مرکزی) مصرع ’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘ کسی پر بھی فٹ بیٹھتانظر آیااوراس طرح یہ نظم کسی بھی تحریک کی ترجمانی کرتی ہوئی معلوم ہوئی اس لیے انہیں ترقی پسند نقطہئ نظر سے یہ نظم کسی خاص اہمیت کی حامل نظر نہیں آئی۔
متن کی قرأت اگر بغور کیا جائے تو اس سے اسلوب نگارش کی پہچان سے عہدا ور مصنف کی پہچان بھی ممکن ہے۔خالق باری کو لوگ بڑے زمانے تک امیر خسرو کی تصنیف سمجھتے رہے لیکن جب حافظ محمود خان شیرانی نے اس کی قرأت کی تو اس کے اسلوب کو پہچان لیا اور اسلوب کی شناخت کی بنیاد پر ہی انھوں نے اس کے عہد کو جانا پھر عہدا ور اسلوب کی بنیاد پر خالق باری کے ضیاء الدین خسرو کی تصنیف ہونے کا اعلان کر دیا۔ اسی طرح شاعر عرب کو جب اطلاع دی گئی کہ دیوار کعبہ پر تم سے عمدہ کلام معلق ہے تو وہ بھاگا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کی قرأت کرتے ہی پکار اٹھا کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔در اصل اس دیوار پر کلام اللہ کی ایک چھوٹی سورۃ ’سورۃ الکوثر‘ لٹکائی گئی تھی اور شاعر کو عربی شعرا کے اسلوب کی بخوبی جانکاری تھی، اس لیے اول قرأت ہی سے اس نے جان لیا کہ یہ انسانی کلام نہیں ہے۔
 ایک آخری بات یہ کہ ادبی و فنی اصولوں کے تحت پڑھناادبی متن کی قرأت کی ترجیحی صورت ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ہوگا توقاری آزادانہ طور پر فن پارے کے درست معنی و مفہوم تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر خلفشار و اعتراض سے محفوظ بھی رہے گا اور اس کی یہ قرأت غیر جانبدارانہ تسلیم کی جائے گی۔خاص بات یہ ہے کہ ہر نظریے کے افراد اس سے متفق بھی ہوں گے۔ جس طرح انسان کو انسانیت کے نقطۂ نگاہ سے دیکھنے پر ملک و مذہب کی دیوار آڑے نہیں آ سکتی یعنی کوئی اس پر ہندو، مسلم، یہودی،عیسائی یا ہندوستانی، پاکستانی، افریقی، یورپی ہونے کے تعصب کا الزام نہیں لگا سکتا اور اس سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم نے انسانیت کے نظریے سے انسان کو کیوں دیکھاتمھیں اس کو فلاں مذہب یا ملک کے آئینے میں دیکھنا چاہیے تھا، ٹھیک اسی طرح ادبی متن کو ادب کے نقطۂ نگاہ سے پڑھنے پر کوئی نظریہ رکاوٹ نہیں بن سکتا اور کسی بھی نظریے کا ماننے والا اس سے یہ نہیں کہہ پائے گا کہ تم نے ادبی متن کو ادبی اصولوں کے تحت کیوں پڑھا تمھیں اس کو فلاں نظریے سے پڑھنا چاہیے تھا۔کسی نظریہئ مخصوصہ کے پابند قاری کے گلے میں تعصب کی گھنٹی باندھنے سے کوئی دریغ نہیں کرتا۔پروفیسر عتیق اللہ ایسے ہی لوگوں کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
ایک قاری متعصب یا جانب دار ہوتا ہے جو کسی خاص نظریے یا عقیدے کا پابند ہوتا ہے یا علاقائی اور گروہی عصبیت کے باعث اس میں معروضیت اور کشادگی ذہن و نظر کی گنجائش کم سے کم ہوتی ہے۔“(ایضاً، ص123)
اسی لیے میرا ماننا تو یہی ہے کہ کسی بھی متن کی قرأت ادبی و فنی اصولوں کے تحت اس دور کے سیاسی، سماجی، تاریخی اور تہذیبی سیاق و سباق میں کی جانی چاہیے۔ یہ منصف میزان ہوگا ورنہ تحریکاتی و رجحاناتی قرأت چاہتی ہے کہ متن وہی کہے جو وہ اس سے کہلوانا چاہتی ہے،گویا ایک طرح سے وہ مجبور کرتی ہے کہ متن اس کے مطابق تھیوری اور معانی بیان کرے۔ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح متن سے مبنی بر انصاف معانی کی دریافت ناممکن ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آزادانہ قرأت ہی بہتر تسلیم کی جانی چاہیے۔ ہاں!مگر آزادی ایسی نہ ہو کہ متن آم کی خصوصیات سے متصف ہو اور قاری اپنی قرأت سے املی تصور کر بیٹھے۔ جس معنی کا متن میں کوئی سیاق موجود نہ ہو اگر آزادی قرأت سے قاری اس طرف بھٹک رہا ہو تو ضروری ہے کہ اس کے پاؤں میں کوئی نظریاتی بیڑی ڈال کر ہی محفل متن میں رقص کرنے کے لیے لایا جائے،ورنہ ناظرین معانی برہم ہوکر چلے جائیں گے۔ ایسی ہی آزادی کوہدف تنقید بناتے ہوئے پروفیسر کوثر مظہری لکھتے ہیں:
بے شک قاری کو یہ آزادی ہے کہ وہ متن سے معنی اخذ کرے اور اپنی طرح کرے، لیکن وہ اس قدر بھی آزاد نہیں کہ اس متن کو اس کی اصل سے اتنی دور لے جائے کہ متن اور اس میں سانس لیتے ہوئے تہذیبی اور ثقافتی نشانات و علامات (Cultural signs)کا دم پھولنے لگے۔“(قرأت اور مکالمہ، کوثر مظہری، ص13)
ہر قاری کی اپنی لیاقت اوراستعداد ہوتی ہے۔ یہ قطعی ضروری نہیں کہ اسے ہر فن پارے کا متن سمجھ آ ہی جائے۔کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی متن اسے مہمل معلوم ہو مگر وہ بامعنی ہو۔ندا فاضلی کا ایک شعر ہے         ؎
سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی
اس شعر کو بہت سوں نے بے معنی خیال کرکے چھوڑ دیا مگر یہ شعر تھا بامعنی اور اس نے اپنی معنویت ثابت بھی کرا لی اور آج کی تاریخ میں یہ شعر جدید دور کا اعلامیہ بن چکا ہے۔ کبھی کبھی متن وا قعی مہمل ہوتا ہے،اس صورت میں اگر اسے معنی سے عاری گردانا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں،مگر اکثر قاری اپنی کم فہمی کی بنا پر گچا کھا جاتا ہے۔ دونوں صورتیں بعید از قیاس نہیں۔پروفیسر کوثر مظہری اس سلسلے میں بالکل درست فرماتے ہیں:
کبھی کبھی آپ جس طرح متن کو بے معنی اور ازکارِ رفتہ سمجھ کر پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح متن بھی قاری کو کبھی کبھی ٹھینگا دکھا دیتا ہے۔وہ بھی قاری کا منہ چڑھاتا ہے۔ جس طرح ہم آپ متن کی اوقات پرگفتگو کرتے ہیں اس کے ڈھیلے پن اس کی فرسودگی کوزیر بحث لاتے ہیں، متن بھی قاری کی بے ذوقی اور کچے تنقیدی شعور کو کوستا ہے۔“ (ایضاً، ص9)
خیر!یہ رہے متن کی قرأت اور اس کے معانی کے چندوظائف۔ ان متذکرہ وظائف کی روشنی میں میں پھروہی بات دہراؤں گا کہ ادبی متن کی قرأت اور اس سے درست معانی کی یافت بھی ایک فن ہے،جو کہ خود متن کی سیپ میں گہر کی طرح پنہا ں ہے لہٰذاجس کو اس معانیِ گوہر بار کی دولت سے مالا مال ہونا ہو اسے چاہیے کہ اس میں غوطہ لگائے اور اپنی مراد پائے۔
معاون کتب:
.1       متن کی قرأت (مجموعۂ مقالات سیمینارمنعقدہ 25,26 نومبر 2006)، مرتبہ: صغیر افراہیم، شائع کردہ: شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، سنہ اشاعت:2007
.2      قرأت اور مکالمہ،کوثر مظہری، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، کوچہ پنڈت، دہلی6، سنہ اشاعت2010
.3        معرفت شعر نو (تنقیدی مضامین)،شمس الرحمن فاروقی، مرتبہ: سید ارشاد حیدر، الانصار پبلی کیشنز، ریاست نگر، حیدرآباد59،  سنہ اشاعت2010
.4        شعر شور انگیز (تیسرا ایڈیشن مع ترمیم و اضا فہ)، شمس الرحمن فاروقی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی66، سنہ اشاعت 2006
.5        افسانوی ادب کی نئی قرأت،صغیر افراہیم، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ2، سنہ اشاعت 2011
.6        لے سانس بھی آہستہ کا تہذیبی پس منظر، جہاں نظیر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، سنہ اشاعت 2013
.7      فکشن مطالعات (پس ساختیاتی تناظر)، شافع قدوائی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی6، اشاعت 2010
.8      شعر،غیر شعر اور نثر(طبع سوئم تصحیح شدہ ایڈیشن)، شمس الرحمن فاروقی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی66، سنہ اشاعت2005
.9      اردو شاعری پر ایک نظر، کلیم الدین احمد، بک امپوریم، سبزی باغ، پٹنہ4
.10    کہانی کے پانچ رنگ، شمیم حنفی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی25، اشاعت: دسمبر 1983
.11    مجلہ ’ارمغان‘، شمارہ:6، نگراں: پروفیسر شہپر رسول،ناشر:شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی25، سنہ اشاعت2017

Mustafa Ali
Research Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025
Mob.:8299535742
Email: mustafaaliias@gmail.com

ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020

1 تبصرہ:

  1. ایک اچھا مضمون ہے۔ کسی بھی متن کی اہمیت کیا ہے؟ ، اس کا دارومدار صرف اسی پر ہے کہ آپ نے کیا سمجھا ہے؟ ۔متن کو اس کی روایت کے ساتھ سمجھ کر ، اس کے دور میں اس کی قیمت متعین کر کے حال میں اس کو جیا جا سکتا ہے۔ اور یہ غوطہ لگاۓ بغیر کرنا ایک مذاق ہوگا اور نا انصافی بھی۔

    جواب دیںحذف کریں