7/5/20

وارث علوی کی تنقیدی بصیرت مضمون نگار: محمد زبیر




وارث علوی کی تنقیدی بصیرت

محمد زبیر

وارث علوی دورِجدید کے ان ناقدین میں سے ہیں جنھوں نے نہ صرف اردو تنقید کو نئے امکانات سے روشناس کیا بلکہ اپنے فکروفن اور غیر جانب دارانہ رویوں سے اردو ادب کو اعتباربھی بخشا ہے۔ انھوں نے جس موضوع پر قلم اٹھا یا،بے لاگ لکھا اور بڑی جرأ ت مندی کے ساتھ اپنی ناقدانہ آرا پیش کیں۔ ان کی تحریریں دوسرے ناقدین کی خامیوں، کمزوریوں اور دیگر پہلوؤں پر گرفت کرتی ہیں۔ انھیں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر دسترس حاصل ہے، لہٰذا ہندوستانی ادبیات کے ساتھ مغربی لٹریچر بھی زیر مطالعہ رہے۔یہی مطالعے اور ذوقِ کتب بینی ان کے ادبی شعورکو پروان چڑھانے میں اہم اور کارگر ثابت ہوئے اور تنقید ی رجحان کا سبب بھی بنے۔  وارث علوی کی تنقید حقیقت پسندانہ اور منصفانہ رویوں پر مبنی ہے لیکن اسلوب میں طنز و استہزا کی فراوانی کے سبب بعض ناقدین کے لیے گراں بار ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اردو کے اکثر ناقدین ان کی ناقدانہ صلاحیتوں کے معترف تو ہیں لیکن انھیں وہ مقام دینے کے حق میں نہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔
وارث علوی نے ادب کی مختلف اصناف پر اپنے تنقیدی نظریے پیش کیے ہیں۔ہرچند کہ ان کا شمار فکشن ناقدین میں ہوتا ہے اور ان کی فکشن تنقید ایک مستقل عنوان کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ انھوں نے افسانے کی تنقید میں نظری اور عملی دونوں پہلوؤں سے اضافے کیے ہیں تاہم ان کی نگارشات نہ صرف ناول اورافسانے کا ہی احاطہ کرتی ہیں بلکہ اردو شاعری اور تنقیدیں بھی ان کے مطالعے کے اہم موضوعات رہے ہیں۔اس لحاظ سے دیکھیں تو ان کی درجن بھر کتابیں ان موضوعات کابھرپور احاطہ کیے ہوئے ہیں، جن میں ’خندہ ہائے بیجا’(1987)، ’پیشہ توسپہ گری کا بھلا‘ (1990)،’کچھ بچایالاہوں‘ (1990)، ’اوراق پارینہ‘ (1998)،’بورژواژی بورژواژی‘ (1999) ’ادب کا غیر اہم آدمی‘ (2001)، ’لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر‘ (2001)،’ناخن کاقرض‘ (2003)، ’حالی، مقدمہ اور ہم‘ اور ’بتخانہئ چین‘ (2010) وغیرہ اہم ہیں۔
 کسی اہم اور غیر جانب دارانہ ناقدکی تنقید ا دب میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا کرتی ہے۔ وارث علوی کا تنقیدی شعور ایسا ہی ہے جو ان کے خالص علمیاتی جذب واخذ کا نتیجہ ہے۔ تنقید کا کام نہ صرف شعروادب کی آبیاری کرنا ہے بلکہ باذوق قارئین بھی پیداکرنا ہے۔ تنقیدی دورانیے میں باذوق قارئین کا اضافہ اسی وقت ممکن ہے جب نقاد اپنے علومِ دبیزہ سے ادب میں کسی نئے پہلو کو ایک نئے استدلال اور نئے طریقۂ کار کے ساتھ پیش کرے اور یہ امر ملحوظ رکھے کہ موضوع اور لفظ ومعنی کے مابین کوئی حدفاصل موجود نہ ہو۔ کیونکہ موضوعِ نقد اپنے اندربے پناہ وسعت رکھتا ہے اور اس بات کا متقاضی بھی ہوتاہے کہ اسی کے موافق لفظ ومعنی لائے جائیں۔اگرموضوع ان خصوصیات سے  عاری ہے تو قاری کے لیے گراں بارہوتاہے اور بآسانی وہ اسے قبول بھی نہیں کرتا۔ وارث علوی کی تنقید اس کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔جیسا کہ آلِ احمد سرور کی تنقید سے متعلق لکھا ہے:
سرور کے یہاں تفحص اور انکشاف کی کوشش ملتی ہے، لیکن کوشش بارآور ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ تنقید میں موضوع اسی وقت اپنے معنوی اسرار بے نقاب کرتاہے جب تجزیہ، تحلیل، تفسیر اورتشریح کے محاذوں سے اس پر بیک وقت دھاوابولا جائے۔ سرور ایسا نہیں کرتے۔ وہ تلوار چلانے کے بجائے تلوار سے کھیلنے لگ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چکاچوند سے بھی وہی نتیجہ برآمد ہوگا جوتُلا ہوا وار کرنے سے پیدا ہوتاہے………… اگر وہ اپنے موضوع سے انصاف نہیں کرسکے تو اس میں قصور ان کی تنقیدی صلاحیتوں کا نہیں، بلکہ طریقۂ کار کا ہے۔سرور کے طریقۂ کار کے نقائص ہیں، تجزیاتی مطالعہ کی کمی، عمومی بیانات کی فراوانی، غیر متعلق مباحث کی بھرمار،پیش پا افتادہ خیالات کا چمک دار اقوال میں آواگون، اور وہ خاص نیم مدرسانہ، نیم شاعرانہ، نیم متصوفانہ اور نیم شاطرانہ رویہ شامل ہے۔ 
( خندہ ہائے بیجا:وارث علوی،ص88)
 وارث علوی نے ایک طرف سرورکی کمزوریاں اجاگر کی ہیں تو دوسری جانب ان کی ادب فہمی اور تنقیدی صلاحیتوں کا اعتراف بھی کیاہے۔ ہر چند کہ اردو تنقید میں آل احمد سرور کو ایک معتبر مقام حاصل ہے۔ ان کے ادب پاروں نے نہ صرف شعروادب کوایک معیار عطا کیاہے بلکہ اسے ایک رخ بھی دیا ہے اور مختلف زاویوں سے دیکھنے اورپرکھنے کی ضرورت کا احساس بھی دلایاہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ہمارے ناقدین اور ادیبوں کے یہاں مغربی دانشوروں کے طرزپر سوچنے، غور و فکر کرنے، حق وصداقت اورفنی خوبیوں کو اجاگر کرنے کی وہ صلاحیت نہیں جو ان کے یہاں موجود ہے تاہم اس بات سے انکار بھی نہیں کہ اردو ناقدین  نے اپنی تنقیدی صلاحیتوں سے ادب کو فروغ دینے میں حتی الوسع سعی کی ہے۔ وارث علوی نے مشرقی ادب اورناقدین کے تنقیدی رویوں  کے متعلق لکھا ہے:
علم کو علم کی طرح حاصل کرنا، جہانِ افکار کی بے لوث سیاحت پر نکل جانا، مکمل معروضیت سے حقائق کو چانچناپرکھنااور ایک بے لاگ اور بے پایاں تجسس کے تحت صداقت کی تلاش کرنا، دانشوری کے وہ آداب ہیں جن کا مغرب کے ادیبوں اور مفکروں کی طرح ہم نے کبھی پاس نہیں کیا۔کچھ سلیقے کا کام ہونے لگتاہے کہ عظمت لیڈری اور چودھراہٹ کا کیڑا سر میں کلبلانے لگتاہے۔ پھر تو نظریہ عقیدہ بن جاتاہے اور عقیدہ مذہب اور نقاد پیغمبریہ پورا رویہ مخالف دانشورانہ ہے۔
(لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر:ص150)
وارث علوی کا نظریۂ نقد نہ کسی عقیدہ اور مذہب کا پابند ہے اور نہ ہی ان کے یہاں پیغمبرانہ رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی تنقیدی نگارشات کا اگرہم بغور مطالعہ کریں تو یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے۔ان کی کتاب ”حالی، مقدمہ اور ہم“ اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں انھوں نے حالی اور مقدمہ پر کھل کر بحث کی ہے۔ یہ کتاب حالی فہمی میں بڑی کارآمد ثابت ہوئی ہے۔مولاناحالی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اردو تنقید کومقام ومعیاربخشا۔ انھوں نے ’مقدمہئ شعرو شاعری‘ اپنے دیوان کے لیے بطورمقدمہ لکھ کراردوتنقید کی بنیاد ڈالی۔ یہ کتاب ہمارے ناقدین ادب کے نزدیک اس قدر منفرد اورگراں قدرثابت ہوئی کہ انھوں نے اس کواردوادب کی مستند تنقیدی کتاب کے طورپر تسلیم کیا اورحالی کوباقاعدہ اردوتنقیدکا بانی مان لیاکیونکہ حالی سے پہلے جوتنقید ملتی ہے وہ محض چند تذکروں تک ہی محدود ہے۔ ان تذکروں میں میرکے تذکرے ’نکات الشعرا‘ کو اولیت حاصل ہے،اس کے بعد یہ سلسلہ قائم چاندپوری کے تذکرے سے ہوتاہوا محمد حسین آزاد کی کتاب ’آب حیات‘تک پہنچتاہے۔ آزاد نے اردوتنقید وتحقیق کے موضوع پر اپنی کتاب ’آب حیات‘ادبی دنیا کے سامنے پیش کرکے اپنی خلاقانہ صلاحیت کاثبوت پیش کیاہے۔ اردو تنقید کے ابتدائی دورمیں محمد حسین آزاد سے قبل تذکروں کی تنقید اورآگے چل کر مولاناحالی سے شروع ہونے والی ادبی تنقید سامنے آتی ہے۔
 محمد حسین آزاد کی کتاب ’آب حیات‘ کے بعد اردوادب میں باقاعدہ طورپر تنقید کی شروعات حالی کے ’مقدمہ‘  سے تسلیم کی  جاتی ہے۔ مولاناحالی نے اردوتنقید وتحقیق میں نظم وضبط کی پوری پوری پاسداری کی ہے جب کہ آزاد کے یہاں تنقیدی تصورات  نہ صرف منتشرمعلوم ہوتے ہیں بلکہ بنیادی مسائل پر تفصیلی اظہاربھی نہیں کرتے۔ حالی کواپنے ماقبل نقادوں پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ ان سے قبل تنقید کے موضوع پر کوئی تخلیق نہیں ملتی صرف چند تذکرے یادوایک تاریخی کتب ہی سامنے آتی ہیں۔ یہ تذکرے یاتاریخی کتب تنقید کے فرائض انجام نہیں دیتے۔ مولانا حالی کی تصنیف’مقدمۂ شعروشاعری‘ (1893) اردوکی پہلی باضابطہ تنقیدی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس مقدمہ میں جن باتوں پر تفصیلی بحث کی ہے، ان میں ایک اہم اوربنیادی پہلو اردو شاعری کی خصوصیات سے متعلق بھی ہے۔  ایک شاعرمیں شاعری کے لیے ایسی خصوصیات کا ہونالازم ہے جواسے غیرشاعر سے ممیز کرسکے۔مقدمۂ حالی کا سب سے اہم وصف یہ ہے کہ انھوں نے اپنی باتوں کو ثابت کرنے کے لیے دلائل کو بنیاد بنایا۔ ان  کے مطابق برائے شعر گفتن ایک شاعر میں تین خصوصیات،تخیل، مطالعۂ کائنات اورتفحصِ الفاظ کا پایا جانا ضروری ہے، جن کے بغیر عمدہ شاعری کا تصور ممکن نہیں کیونکہ حالی نے جن خصوصیات کو ناگزیرقراردیاہے ان میں اولیت تخیل کو ہی ہے۔ کسی شاعرمیں شاعرانہ تخیل کی پرواز جتنی بلندہوگی اس کی شاعری اسی قدر معیاری اوراعلیٰ پائے کی ہوگی، اگرپروازِ تخیل  بلند نہیں ہے تو اس کی شاعری کمتردرجے کی ہوگی۔ وارث علوی نے مولانا حالی اور ’مقدمۂ شعروشاعری‘ پر صرف اپنی ناقدانہ آراہی پیش نہیں کیں بلکہ ان ناقدین ادب پر ضربِ  کاری بھی لگائی ہے جنھوں نے حالی کو اپنا ہدف بنایا۔انھوں نے لکھا ہے:
ہمارے نقاد نئے نئے انگریزی کے پروفیسر بن کر آئے۔ انگریزی تنقیدمیں کالرج کے تخیل کے چرچے بھی عام تھے۔ انگریزی کا بی اے کا طالب علم چوں کہ اسکاٹ جیمز کو پڑھتاہے اس لیے فینٹسی اور امیجینیشن اور Esemplastic امیجینیشن کی گردان کیا کرتاہے۔ حالی کے نکتہ چیں بھی یہی گردان کرنے لگے۔ حالی آج کے فنکاروں کی طرح یہ بتانا نہیں چاہتے تھے کہ تخیل کے موضوع پر انھوں نے کون کون سے تیس مار خانوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔وہ تو تخیل کے موضوع پر کچھ ایسی کام کی باتیں بتانا چاہتے تھے جو تخلیق شعر کے عمل پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔ چناں چہ انھیں جانسن، مِکالے وغیرہ کے یہاں سے اس موضوع پر جو کچھ تھوڑا بہت مواد مل سکتاتھا اس سے فائدہ اٹھایا اوراس مواد کو بنیاد بناکر تخیل کی ایسی تعریف کی جو آج بھی اردو تنقید میں حرفِ آخر کا مقام رکھتی ہے۔
(حالی، مقدمہ اورہم:وارث علوی،ص19-20)
وارث علوی نے بھی تخیل کا گہرا مطالعہ کیاتھا۔ انھوں نے کالرج جیسے مغربی نقاد کو پڑھااوراپنی ذہنی اور فکری صلابت سے تخیل جیسے خشک موضوعات کی باریکیوں سے نہ صرف آگاہی حاصل کی بلکہ اپنی ناقدانہ آرا سے  نام نہاد ناقدین کو آئینہ بھی دکھایا۔حالی اردو کے اہم  نقاد تسلیم کیے گئے ہیں تاہم بعض ناقدینِ ادب نے نظریاتِ حالی سے اختلاف کیا ہے۔ لیکن وارث علوی کی نظر میں حالی کا مقدمہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ قبل ازیں اس موضوع پر کوئی مستند کتاب دستیاب نہیں تھی اور نہ ہی بعدمیں کوئی ایسی مفصل اور مدلل کتاب سامنے آسکی۔  لہٰذا اس کے بعد جن ناقدین نے مذکورہ موضوع پر لکھنے کی سعی کی ہے وہ تحریریں یا تو غیر معیاری ہیں یاحالی کے مقدمہ کی نقالی۔بقول وارث علوی ”حالی پورے آدمی تھے جب کہ ہم لوگ ادھورے آدمی ہیں۔ ہمارے پاس نظامِ اقدارنہیں، تاریخی تناظر نہیں، روایت کاشعورنہیں، کھرے کھوٹے کے پیمانے نہیں۔ روشن خیالی کی جگہ تنگ نظری اور انتہاپسندی ہے…… ہم اثرات قبول نہیں کرتے، نقالی کرتے ہیں۔ تنقید نہیں کرتے، رائے زنی کرتے ہیں، نظریہ سازی نہیں کرتے،  حزبی اور گروہی اعلان نامے شائع کرتے ہیں۔ تنقیدی کتابیں نہیں لکھتے، تعصبات کے دفتر سیاہ کرتے ہیں۔“ (ایضاً،ص84)
 بعینہٖ احسن فاروقی کی تنقید سے استدلال کرتے  ہوئے وارث علوی نے لکھاہے:
آپ یہ نہ سمجھیں کہ احسن فاروقی کے دل میں حالی کے لیے کوئی عزت نہیں۔ حالی کی تعریف میں چند بہترین جملے بھی انھوں نے ہی لکھے ہیں۔ میں تو صرف یہ بتانا چاہتاہوں کہ نقاد جب حولداروں کی طرح بات کرنا شروع کرتاہے تو اس کاطرزِ گفتگو بھی کتنا غیرشریفانہ بن جاتاہے۔ جوشِ تنقید میں انھیں یہ تک خیال نہیں رہاکہ حالی جیسے نقاد پر قلم اٹھاتے وقت ہمیں آداب گفتگو کی پاس داری کرنی پڑتی ہے۔ اگر احسن فاروقی ’مقدمہ‘ کو ذرا غورسے پڑھتے تو حالی کا اسلوب نگارش انھیں آدابِ تنقید بھی سکھاتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تنقید سخت نہیں ہونی چاہیے۔ میں توصرف عرض کرنا چاہتاہوں کہ سخت ترین تنقید میں بھی ایک لفظ ایسا نہیں آنا چاہیے جونقاد یا فن کار کی شخصیت کے شایانِ شان نہ ہو، یا جو نقاد کو ہمارے سامنے حقیر بناکر پیش کرتاہو۔احسن فاروقی کی نیت خراب نہیں، صرف زبان خراب ہے۔“ ( ایضاً، ص 25,26)
احسن فاروقی کی تنقیداور زبان  پر وارث علوی کا ایسا شدید طنزیہ وار ان کی ادب دوستی اور ادب پروری کاہی ثبوت ہے۔ اردو تنقید میں  کلیم الدین احمد، محمد احسن فاروقی اور وحید قریشی جیسے ناقدین ادب نے حالی کے مقدمہ سے جس قدر فیض حاصل کیا ہے اسی قدر اس کی تنقیص بھی کی ہے۔ ادب میں اس طرح کی نقص طرازی دانش مندانہ کام نہیں کیونکہ یہ رویہ ناقدین ادب اور ان کے دامن کو داغ دار کرتاہے۔حالی اور مقدمہ شناسی میں وارث علوی کا معیارِ نقد خاصا وقیع ہے جو  زبان پر ان کی قدرت اور مختلف ادبیات پر مطالعے کی وسعت کی دین ہے۔ انھوں نے مشرقی اصولِ تنقیدکے ساتھ مغربی افکار و نظریات کا نہ صرف سرسری مطالعہ کیا ہے بلکہ تصوراتِ نقد اور نت نئے اصول وضوابط کا بھرپور جائزہ بھی لیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ علوی نے مستند اور مدلل حوالوں سے مذکورہ ناقدینِ ادب کی تنقیدپر اپنی مہرِ تنقید ثبت کی ہے۔ اس لحاظ سے وارث علوی اور ان کی تنقیدی جہات دوسروں سے نہ صرف منفرد ہیں بلکہ لائقِ اعتنا بھی ہیں۔
حالی پر متعدد ناقدین نے اپنی بے لاگ آرا پیش کی ہیں ان میں کلیم الدین احمد کانام خصوصی اہمیت رکھتاہے۔ حالی کی تنقیدی بصیرت اور ادب فہمی کے بارے میں ان کا نظریہ تھا کہ”خیالات ماخوذ،واقفیت محدود، نظرسطحی، فہم وادراک معمولی، غوروفکر ناکافی، تمیز ادنیٰ، دماغ وشخصیت اوسط۔ یہ تھی حالی کی کائنات۔
(اردو تنقید پر ایک نظر: کلیم الدین احمد،ص109)
کلیم الدین احمدکی تنقید چونکہ مغربی ادب کے زیراثروجود میں آئی تھی،بایں سبب ان کی آنکھوں پر انگریزی ادب کی عینک چڑھ گئی تھی،لہٰذامشرقی ادب میں بھی ان کی نظر مغربی طرزِادب کی متلاشی تھی۔اسی لیے انھوں نے حالی کی انگریزی ادب سے واقفیت کو محدود گردانا۔یہ بات ملحوظ رہنا چاہیے کہ حالی کا مقدمہ مشرقی ادب خصوصاً اردو شاعری کی تنقید سے متعلق ہے نہ کہ انگریزی ادب سے۔ جیسا کہ کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب”اردو تنقید پر ایک نظر“میں حالی کے مقدمہ کے متعلق لکھا ہے ”یہ بات ایک حد تک صحیح ہے کہ مقدمہ میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ حالی پوری عربی، فارسی اور اردوشاعری پر حاوی نظر آتے ہیں لیکن انگریزی ادب سے حالی کی واقفیت محدودتھی۔“ (ایضاً،ص109)
وارث علوی نے کلیم الدین احمد کے ان جملوں پر گرفت کرتے ہوئے لکھا ہے:
ان جملوں میں حالی کی طاقت اور کلیم الدین احمد کی کمزوری کا پوراراز چھپا ہوا ہے۔ ’مقدمہ‘ کا اہم اور وافرحصہ انگریزی ادب پرنہیں بلکہ اردوشاعری کی نہایت جزرس اوربصیرت افروز تنقید پر مشتمل ہے۔ عربی، فارسی، اردوشاعری، غزل،قصیدے،مثنوی اور مرثیے پر حالی نے جوکچھ لکھا، کلیم الدین احمد کو اس سے سروکار نہیں۔ انھیں توصرف انگریزی ادب سے حالی کی ناواقفیت کوبے حجاب کرنے کے مزے لوٹنے ہیں۔ ایسی تنقیدطبیعت کو بہت منغض کرتی ہے کیونکہ اس کا بڑا عیب اکسپرٹائز (Expertise) کا کلچر پرحملہ ہے۔“   (حالی، مقدمہ اورہم:وارث علوی،ص51)
 بعینہٖ وارث علوی نے شمیم حنفی کی تنقیدپر اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے لکھا ہے:
شمیم حنفی کو اس بات کابڑابھرّا ہے کہ شاعری میں اساسی حیثیت خیالات کی نہیں شعری تجربے کی ہے۔ لیکن حالی کی کتاب کا نام ’مقدمۂ شعروشاعری‘ہے، جب کہ شمیم حنفی کی کتاب کانام ’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘ ہے۔ شمیم حنفی فلسفۂ تاریخ، سائنس، نفسیات پر نہایت بور مبتدیانہ لن ترانیاں کرتے ہیں اور پوری کتاب میں ایک نظم، ناول اورڈرامے کا تجزیہ نہیں ملتا۔ اِدھر حالی ہیں کہ غزل، مرثیے، قصیدے اورمثنوی پر لگاتار بحث کرتے چلے جاتے ہیں اوربحث بھی ایسی کہ قدامت پسند حلقوں میں مخالفت کا ایک طوفان کھڑاہوجاتاہے۔“  (ایضاً،ص62)
ان اقتباسات میں ہم دیکھتے ہیں کہ وارث علوی نے کس طرح اردو کے اہم ناقدین کے خیالات کی تردید کرتے ہوئے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ ان کے یہاں جس طرح کے بے باکانہ اور بے مہابانہ رویے دیکھنے کو ملتے ہیں، دوسروں کے یہاں اکثر مفقود ہیں۔ ان کی تنقید میں بصیرت کے ساتھ مسرت بھی ہے اور طنز کے ساتھ مزاح بھی ہے۔ان کی یہی خوبی انھیں دیگر نقادوں سے ممتاز ونمایاں کرتی ہے۔ شمیم حنفی سے وارث علوی کا یہ اختلاف کوئی ذاتی مسئلہ نہیں اور نہ ہی ان سے بغض وعناد رکھتے ہیں بلکہ یہ ان کے اسلوب، ان کی فکراور طرزِ تحریر کا تقاضا ہے جو ادب کے لیے کارآمد اور سودمند بھی ہے۔ شمیم حنفی کی کتاب ’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘ کی اہمیت وافادیت سے انکار ممکن نہیں اور نہ ہی وارث علوی کی سچی تنقید نگاری سے روگردانی کی جاسکتی ہے۔ ان کی تنقید براہ راست ہوتی ہے لہٰذا وہ سیدھی بات کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں تنقیدی رویے بالمقابل دیگر ناقدین کے مختلف اور معنی خیز ہوتے ہیں اسی لیے ذہن ودل پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں۔
وارث علوی نے اردوکے اکثر بڑے ناقدین پر اپنے تنقیدی مضامین لکھ کر اپنی ناقدانہ صلاحیتوں سے بھر پور جائزہ لیاہے۔   بات دراصل یہ ہے کہ وارث علوی نہ صرف ادب کے بنیادی پہلوؤں سے کماحقہٗ واقف تھے بلکہ تنقیدوتبصرہ کی اساس ان کی سرشت میں پوری طرح داخل تھی۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے اردو کی تقریباً تمام اصناف پر اپنے تنقیدی نظریات کھل کرپیش کیے ہیں۔ مولانا حالی کی کتاب ’مقدمہ شعروشاعری‘ پر ایک پوری کتاب (حالی، مقدمہ اور ہم) لکھ ڈالی ہے، انھوں نے مولانا کو جس روپ میں پایا اپنی تنقیدی بصیرت سے اسے جاوداں کردیا۔ اس سے حالی اور وارث علوی کے تنقیدی اسلوب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔انھوں نے اس کتاب  میں حالی کے مقدمہ کا عالمانہ جائزہ لیاہے اور اپنے منفرد طرزِ اسلوب سے اس کے وقارمیں نہ صرف اضافہ کیاہے بلکہ اس کو  ایک معیار بھی عطا کردیاہے۔ علاوہ ازیں وارث علوی نے اپنے مطالعے کی بناپر وزیر آغاکی تنقید نگاری اور گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی اور محمد حسن جیسے ناقدین ادب کے شعورِ نقد سے بھی اختلاف کیاہے، لہٰذا وارث علوی کا یہ اختلاف بے سبب نہیں۔ ادب کے ان  جید ناقدین سے اختلاف صرف وہی کرسکتاہے جس کے اندر جذبہ وحوصلہ ہو اور دلائل وبراہین بھی ہوں۔ اس لحاظ سے بھی غورکریں تو وارث علوی کے یہاں یہ فکری خوبیاں بدرجۂ اَتم پائی جاتی ہیں۔اس سلسلے میں پروفیسر انورظہیر انصاری کا یہ اقتباس  دیکھیے،  رقم طراز ہیں:
کسی کی تنقید پر تنقیدکرنا بہت مشکل نہ سہی لیکن آسان تو قطعاً نہیں ہے، وہ بھی پروفیسر نارنگ جیسا جید عالم ہوتو اور بھی ناممکن ہے۔ یہ کام وہی کرسکتاہے جونہ صرف الفاظ کے استعمال کاسلیقہ شعارہو بلکہ لفظیات پر قدرت، صنائع لفظی ومعنوی پر دسترس، ان کی جزئیات سے کماحقہٗ واقفیت اور اس سے بھی زیادہ اردوہی نہیں دوسری ادبیات سے متعلق گہرامطالعہ اوروسیع تر بصیرت وآگہی رکھتاہو اور سب پر بالابے مثل انتقادی قوت سے بہرہ وربھی ہو تو باورکرنا چاہیے کہ یہ حوصلہ وارث علوی کاہی ہوسکتاہے۔ 
(سرسید سے شہریارتک: پروفیسرانورظہیر انصاری، ص206)
وارث علو ی کے مطابق تنقید وہی اچھی ہوتی ہے جو ذوقِ سلیم کی تربیت کے ذریعے قاری میں ہر رنگ اور ہر آہنگ کے اشعار سے لطف اندوزی کی صلاحیت پیدا کردے۔ انھوں نے شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ’شعر غیر شعر اور نثر‘ پر اپنی تنقیدی آرا پیش کی ہیں اور حسن عسکری کی اس رائے کو بھی درست ٹھہرایا ہے جس میں انھوں نے فاروقی کا نام حالی کے ساتھ جوڑنے کی سعی کی ہے۔شمس الرحمن فاروقی اردو تنقید کا ایک معتبرنام ہے۔اردو تنقید خصوصاً شعریات فہمی میں جس ڈھنگ سے انھوں نے اپنا عندیہ پیش کیا ہے، عہدِ حاضر میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وارث علوی،شمس الرحمن فاروقی کی تنقید کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
فاروقی کے یہاں اکثر محسوس ہوتاہے کہ وہ شعر میں ضرورت سے زیادہ معنی پڑھ رہے ہیں۔لیکن یہ احساس بھی صرف ان مضامین میں ہوتاہے جو فی الواقعی سبق اور درس ہیں اور لفظ کے جدلیاتی استعمال، لفظی انسلاکات اور ابہام کی نوعیت سے بحث کرتے ہیں ورنہ فاروقی کو معنی آفرینی کا خاص شوق نہیں اور حتی الامکان وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر شوق ہوتا تو وہ اسطوری تنقیدکی طرف ضرور توجہ دیتے کیونکہ دور ازکار تاویلات، بوالعجب تفاسیر اور محیرالعقول معنی آفرینی کی جتنی گنجائش اسطوری تنقید میں ہے اتنی ہیئتی تنقید اور اسلوبیات میں نہیں۔“  (ادب کا غیر اہم آدمی: وارث علوی،ص28)
 وارث علوی نے اپنی زبان دانی، بے لاگ تنقیدی سوجھ بوجھ، اپنے بے باک لب ولہجے اور اپنے فکروخیال کی گہرائی  وجدت کے سبب معاصرناقدین میں ایک منفرد شناخت قائم کرلی ہے۔ ادب کے تئیں ان کا تنقیدی رویہ اور نظریہ غیر جانب دارانہ اور راست گوئی پر مبنی ہے۔ انھوں نے ادبی تجربات میں اپنا فکری ارتباط ہمیشہ برقرار رکھا۔ ان کے مطابق تخلیقی تجربات میں قلم کارکو مکمل آزاد ہوناچاہیے کیونکہ آزادیِ اظہار سے ہی فن کار اپنے فن کو بخوبی اجاگر کرسکتاہے۔انھوں نے اپنے مضامین کے ذریعے تنقیدی خیالات کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے موقف کو جس بے باکانہ انداز میں پیش کیاہے اردو تنقید میں ایسی مثالیں مشکل سے ملیں گی۔ان مضامین میں جس نہج پر انھوں نے مختلف اصطلاحات اور تشبیہات کے وسیلے سے اردو کا موجودہ منظر نامہ پیش کرنے کی سعی کی ہے  وہ یقینی طورپر قارئین کے لیے پرلطف ہونے کے ساتھ دل پذیربھی ہے۔برمحل فقروں، لفظوں اوراصطلاحوں کے استعمال میں ان کا طریقِ کار بڑا دلچسپ اور نرالاہے لیکن کبھی کبھی جارحانہ اندازاختیار کرجاتاہے اور گراں باربھی ہوتاہے۔ادب کے لیے انھوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی صداقت کو اجاگر کرنے میں بخل اور مصلحت پسندی سے کام لیاہے، جس کو جیسا پایا ویساہی پیش کردیا۔ ان کی یہی خوبی قارئین کو اپنی گرفت میں لیتی ہے اور مطالعے کی جانب راغب بھی کرتی ہے۔
Dr. Mohammad Zubair
Dept. of Urdu, Sahitya Vidya Peedh
Mahatma Gandhi Antar Rashtriya Hindi Vishv Vidyalaya, Wardha.(M.S)-442001
Mob:9022951081
Email:m.zubair.mau@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020

1 تبصرہ: