8/5/20

قرۃ العین حیدر کے چند منتخب افسانوں کے امتیازی خطوط مضمون نگار: فصیح الرحمن






قرۃ العین حیدر کے چند منتخب افسانوں کے امتیازی خطوط

 فصیح الرحمن

ایک صدی سے زائد عرصہ پر محیط تاریخ میں اردو افسانہ مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے مسلسل ارتقا پذیر رہاہے۔ افسانے کے ابتدائی یعنی رومانی دور میں علامہ راشدالخیری، سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری وغیرہ کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ جبکہ حقیقت نگاری کے رجحان کے تحت پریم چند، سدرشن اور اعظم کریوی وغیرہ نے کامیاب تخلیقات پیش کیں۔ 1932 میں ’انگارے‘ کی اشاعت نے اردو افسانے کو جہاں ایک طرف نئے موضوعات ومسائل سے روشناس کرایاتو دوسری جانب ہیئت و اسلوب کے اعتبارسے بھی انقلاب پیداکیا۔ دس کہانیوں کے مجموعے ’انگارے‘ میں ان پہلوؤں کی تصویر کشی کی گئی تھی جنھیں کراہیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ دولت کی نابرابری، جھوٹی مذہبیت،معاشرے میں حد درجہ بڑھی ہوئی ریاکاری، گھٹتے ہوئے ماحول کی نفسیاتی اور جنسی الجھنیں ان کہانیوں کے موضوعات بنے۔ 1936 کے لگ بھگ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کی ابتدا ہوئی۔ ترقی پسند تحریک جس نے غلامانہ سوچوں کی قدیم، بوسیدہ اور شکستہ دیواروں کو مسمار کرکے ادب کو روشن فکر تعمیر سے آشناکیا۔ آزادی سے قبل اردو افسانے میں جن افسانہ نگاروں نے اپنی شناخت قائم کی ان کی فہرست طویل ہے۔ اس ضمن میں بیدی، غلام عباس، منٹو،احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی، اپندرناتھ اشک، بلونت سنگھ، عزیز احمد، اختر انصاری، سہیل عظیم آبادی، کوثر چاندپوری، ممتاز مفتی، محمد حسن عسکری وغیرہ کے نام خاصے اہم ہیں۔
1956 کے بعد ترقی پسند تحریک کا زوال شروع ہوگیا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان افسانہ نگاروں کے پاس کوئی نیا مواد باقی نہیں رہاتھاکیونکہ یہ لوگ جنگ آزادی اور تقسیم ہند کے دوران جو نئے تجربات کرچکے تھے ان کے سامنے مزید نیا تجربہ کرنا ایک نہایت مشکل امر تھااور ان فنکاروں کے لیے قارئین کی توقعات پر کھرا اترناآسان نہیں تھا جس کا نتیجہ یہ ہواکہ انھیں پڑھنے والوں کی تعداد کم ہوگئی اس صورتِ حال میں یہ بات فطری تھی کہ کوئی نئی آواز، نیا رجحان افسانوی میدان میں دَر آئے لہٰذا ترقی پسند تحریک کے بعد دو ایسے منفرد افسانہ نگار افسانوی اُفق پر نمودار ہوئے جو پہلے سے خامہ فرسائی کررہے تھے اور کسی نہ کسی سطح پر ترقی پسند تحریک سے متأثر بھی تھے لیکن وقت کے ساتھ ان دونوں نے اپنا الگ الگ رنگ اور جدا انداز اختیار کرلیایہ دومنفرد تخلیق کار تھے: انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر۔
قرۃ العین حیدر 20 جنوری 1927 کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ اپنے والد سجاد حیدر یلدرم کی ملازمت اور والدہ کی غیر مستقل مزاجی کی وجہ سے ان کی ابتدائی تعلیم باضابطہ کسی اسکول میں نہیں ہو پائی۔ نتیجہ یہ ہواکہ کبھی دہرادون، کبھی علی گڑھ، کبھی لاہور، کبھی لکھنؤ کے مختلف اسکولوں میں وقت گزارا۔ آخر میں دہرادون لوٹ آئیں یہیں سے پرائیویٹ طورپر میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ایزا بیلا تھو برن کالج لکھنؤ سے انٹرکیا۔ اندرپرستھ کالج دہلی سے 1945 میں انگریزی میں بی اے کیا اور لکھنؤ یونیورسٹی  سے1947 میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔
تقسیم کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان ستمبر/ 1947 میں پاکستان منتقل ہوگیا۔ بعد ازاں 1960 تک پاکستان میں مختلف عہدوں پر کام کرتی رہیں۔ 1961 میں ہندوستان واپس آگئیں اور ممبئی میں ’امپرنٹ‘ اور ’السٹریٹیڈ ویکلی‘ کے ادارتی بورڈ میں شامل ہو گئیں۔ اردو، انگریزی میں صحافتی تحریریں لکھتی رہیں۔ انھوں نے ہندوستانی فلموں کے لیے مکالمے اور کہانیاں بھی لکھیں اور فلم سنسربورڈ کی ممبر بھی رہیں۔ ممبئی سے دہلی آئیں تو 1979 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں بطور وزٹنگ پروفیسر مقیم رہیں۔ 1981-82 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بطور وزٹنگ پروفیسر خدمات انجام دیں۔اس کے بعد مستقل طورپر نوئیڈا میں مقیم ہوگئیں۔ 21 اگست 2007 کو نوئیڈا میں ہی انتقال ہوا۔
اس سلسلے میں جمیل اختر لکھتے ہیں:
قرۃ العین حیدر آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اردو ادب کی عہد ساز، روایت شکن اور قدآورادیبہ آٹھ دہوں تک اردو ادب کے اُفق پر ایک درخشاں اور تابندہ ستارے کی مانند جگمگانے کے بعد آخر 21/ اگست 2007 کی درمیانی شب میں تقریباً ساڑھے تین بجے (کیلاش ہاسپٹل نوئیڈا میں جہاں وہ ایک ماہ سے زیادہ مدت تک زیر علاج تھیں)داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملیں۔“1
قرۃ العین حیدر کو بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔ جن میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ 1967، غالب ایوارڈ 1984، پدم شری ایوارڈ 1984 اور گیان پیٹھ ایوارڈ 1989 خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
قرۃ العین حیدر نے 6-7سال کی عمر میں لکھنا شروع کردیا تھا۔ پہلی تحریر ’کاٹھ گودام کا اسٹیشن‘کے نام سے لکھی۔ باقاعدہ طور پر پہلا افسانہ ’ایک شام‘ جسے وہ اسکرپٹ کہتی ہیں، فرضی نام لالہ رخ سے ’ادیب‘ نومبر 1943 میں شائع ہوا۔جس شخص کی تحریک اور دعوت پر قرۃ العین نے معتبر رسائل میں لکھنا شروع کیا اس کا ذکر خود مصنفہ نے کچھ یوں کیا ہے:
ایک روز حکیم یوسف حسن لاہور سے تشریف لائے اماں سے کہا ’نیرنگِ خیال‘ کی حالت دگر گوں ہوچکی ہے۔ کوشاں ہوں کہ پھر اسی آب وتاب سے نکلے۔ معاً مجھے مخاطب کیا، اب قلم آپ کے ہاتھ میں آیا ہے۔ آپ نیرنگ خیال میں لکھنا شروع کیجیے۔ میں نے نہایت اطمینان اور خود اعتمادی سے جواب دیابہت اچھا ضرور لکھیں گے۔“2
قرۃ العین حیدر کے مندرجہ ذیل افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔
(1)     ستاروں سے آگے  1947 (چودہ افسانے)
(2)     شیشے کے گھر 1954(بارہ افسانے(
(3)     پت جھڑ کی آواز 1966(آٹھ افسانے)
(4)     روشنی کی رفتار1982(اٹھارہ افسانے)
(5)     قندیل چیں 2007(تیرہ افسانے)
)مذکورہ آخری مجموعے کو جمیل اختر نے ترتیب دے کر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی سے شائع کیا۔(
اس مضمون میں قرۃ العین حیدر کے چند منتخب افسانوں پر گفتگو کرنا مقصودہے۔ اولاً مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے سیاسی اورسماجی محرکات کا جائزہ لیا جائے۔ جس زمانے میں قرۃ العین حیدر کا تخلیقی شعور پروان چڑھ رہاتھا۔
اردو افسانے کے تعلق سے قرۃ العین حیدر کے تخصص کو سمجھنے کے لیے یہ بھی جاننا اہم ہے کہ انھیں کس قسم کا سماجی، تہذیبی اور علمی ترکہ وراثت میں ملا۔ قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب ملک کے سماجی اور سیاسی حالات میں تغیرات کا دَور دورہ تھا۔ سیاسی حالات روز بروز تبدیل ہورہے تھے۔ ماضی کی قدریں سیّال ہوچکی تھیں حال کی کیفیت اضطرابی اور مستقبل شبہات کے دائرہ میں قید تھا۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے مخصوص علمی نظریے اور منفرد اسلوب کی بدولت اردو افسانے میں اپنی الگ پہچان قائم کی۔ اسلوب کی انفرادیت کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نفسیاتی اور فلسفیانہ پہلو ؤں پر گہری نظر ڈالتی ہیں۔ افسانوں میں عصری شعور کی روشنی میں انسانی تہذیب اور حیات وکائنات کے مسائل کو فلسفیانہ ڈھنگ سے پیش کرتی ہیں۔ انھیں ماضی کی بازیافت اور وقت کے تسلسل پر مکمل گرفت حاصل ہے۔ قرۃ العین حیدر موضوع اور اسلوب کے نقطہئ نظر سے بھی اپنے ہمعصروں میں ممتاز ہیں۔ تقسیم کے بعد ان کے موضوعات میں تنوع پیدا ہوا۔ بٹوارے کے المناک نتائج، ہجرت اور بے وطنی کا احساس، دونوں ملکوں کے عوام کی ذہنی کشمکش، اعلیٰ طبقے کا تہذیبی و اخلاقی زوال، سیاسی وسماجی اقدار کا انہدام، طبقاتی تضادات، وقت کا جبر، رومانیت سے گریز جیسے موضوعات کو انھوں نے جس فنی چابک دستی کے ساتھ اپنے افسانوں میں برتااس کی مثال نہیں ملتی۔
1960 تک آتے آتے قرۃ العین حیدر کے فن میں مزید پختگی پیدا ہوگئی اور ان کا افسانوی کینوس وسیع ہوتا گیا۔ شاید ہی کوئی ایسا ثقافتی اور تمدنی موضوع تھا جو ان کے قلم کی گرفت میں نہ آیا ہو۔ قرۃ العین حیدر تاریخ، تہذیب و تمدن پر عالمانہ گرفت رکھتی ہیں۔ وہ بیک وقت ماضی اور حال دونوں میں سانس لیتی ہیں اور اپنے جذبات و احساسات کو اپنی تخلیقات میں ضم کردیتی ہیں۔ان کی تخلیقات کو اقدار کی شکست و ریخت کی تاریخ بھی کہا جاسکتاہے جس کا بیان کرتے وقت وہ ایسی فضا قائم کرتی ہیں کہ قاری خود ان قدروں کے خاتمہ کا عینی شاہد بن جاتاہے۔ وہ اندھی تقلید سے اجتناب برتتی ہیں۔ ان کی، عالمی ادب، بطور خاص مغربی ادب سے گہری وابستگی تھی۔ اپنے وسیع مطالعے، گہرے مشاہدے اور بے پناہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انھوں نے اپنی راہ خود منتخب کی۔ قرۃ العین حیدر کی فنکارانہ عظمت کے پروفیسر گوپی چند نارنگ یوں معترف ہیں:
قرۃ العین حیدر جو پہلے سے لکھ رہی تھیں بلاکی ذہانت اور عمیق مشاہدہ رکھتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں خاص طور سے اودھ کی جاگیردارانہ اقدار کے مٹنے کا نوحہ اور ان سے متعلق Nostalgiaہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ فن، ہیئت، اسلوب واظہار کے تجربوں ہی نے انھیں انفرادی حیثیت عطاکی۔“ 3
قرۃ العین حیدر اپنی افسانہ نگاری کے شروعاتی دور میں جن حالات اور ماحول سے دوچار تھیں اس سے چشم پوشی ممکن نہیں تھی اس لیے انھوں نے اپنے افسانوں میں مٹتی ہوئی اعلیٰ قدروں کو پیش کیا۔ تقسیم کے بعد منظر عام پر آئے ان کے افسانوں میں ایسی تخلیقات کی کثیر تعداد ہے جن میں تقسیم ہند کے ردِّعمل کو موضوع بنایا گیاہے۔ اور منقسم خاندانوں کی روداد، ہندومسلم اتحاد، باہمی دشمنی، قتل وغارت گری، ملکی انتشار، ملک وعوام کے حالات و واقعات اور نفسیاتی کیفیات کا بھرپور نقشہ کھینچا گیا ہے۔ تقسیم کے اس المناک سانحہ کا اثر دیگر ادبی اصناف کی طرح افسانے نے بھی قبول کیا۔ آزادی کے بعد فرقہ وارانہ فسادات، نقل مکانی، مہاجرین کی آباد کاری، جمہوری نظام کا قیام، نئی منصوبہ بندی اور اس پر عمل جیسے موضوعات اردو افسانے میں پیش کیے گئے۔ ان موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے جن فنکاروں نے اعتدال کو ملحوظ رکھا اور انسانی اقدار کی پاسداری کی ان میں قرۃ العین حیدر کا نام اہمیت کا حامل ہے۔
قرۃ العین حیدر کے افسانوں میں ’جلاوطن‘ان کا شاہکار افسانہ ہے۔ افسانے میں 1947 کے فسادات، ان کی وجوہات، تقسیم کے سماج پر مرتب ہونے والے اثرات اور بٹوارے سے قبل کے منظرنامے کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ یہ افسانہ اس پورے ماحول کی عکاسی کرتاہے جس میں بے بسی، کرب اور انتشار ہے۔ قرۃالعین نے مؤثر انداز میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کس طرح دو تہذیبیں آپس میں متصادم ہوتی ہیں۔ کشوری،کھیم وتی، کنول کماری اور آفتاب رائے اس افسانے کے اہم کردار ہیں پوری کہانی انھیں کے ارد گرد گھومتی ہے علاوہ ازیں بعض ہندو، مسلم اور عیسائی رئیس گھرانوں کی تہذیبی زندگی کی عکاسی اس افسانے کا خاصہ ہے۔ افسانے کے ابتدائی حصے میں ہندو مسلم طبقے کی مشترکہ تہذیب کی تصویر کشی کچھ اس طرح کی گئی ہے:
زبان اور محاورے ایک ہی تھے۔ مسلمان بچے برسات کی دعا مانگنے کے لیے منھ نیلا پیلا کیے گلی گلی ٹین بجاتے پھرتے اور چلاتے... برسورام دھڑاکے سے بڑھیا مرگئی فاقے سے۔ گڑیوں کی بارات نکلتی تو وظیفہ کیا جاتا.. ہاتھی گھوڑا پالکی... جے کنہیا لال کی۔ ذہنی اور نفسیاتی پس منظر چونکہ یکساں تھا لہٰذا غیر شعوری طور پر... Imagery کبھی ایک ہی تھی۔ جس میں رادھا اور سیتا اور پنگھٹ کی گوپیوں کا عمل دخل تھا۔ مسلمان پردہ دارعورتیں جنھوں نے ساری عمر کسی ہندو سے بات نہ کی تھی۔ رات کو جب ڈھولک لے کر بیٹھتیں تو لہک لہک کر الاپتیں... بھری گگری موری دھرم کائی شام... کرشن کنہیا کے اس تصور سے ان لوگوں کے اسلام پر کوئی حرف نہ آتاتھا۔ یہ سب چیزیں اس تمدن کی مظہر تھیں۔ جنھیں پچھلی صدیوں میں مسلمانوں کی تہذیبی ہمہ گیری اور وسعت نظر اور ایک رچی ہوئی جمالیاتی حس نے جنم دیا تھا۔ یہ گیت اور کجریاں اور خیال یہ محاورے ’یہ زبان‘ ان سب کی بڑی پیاری اور دل آویز مشترکہ میراث تھی۔ یہ معاشرہ جس کا دائرہ مرزاپور اور جون پورسے لے کر لکھنؤ اور دلی تک پھیلا ہواتھا۔ ایک مکمل اور واضح تصویرتھا۔ جس میں آٹھ سو سال کے تہذیبی ارتقا  نے بڑے گمبھیر اور خوبصورت رنگ بھرے تھے۔“ 4
کہانی میں مشترکہ تہذیبی علامتیں اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اس طرح جلوہ گر ہیں کہ قاری کے سامنے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا پورا منظر گھوم جاتا ہے۔ لیکن تقسیم کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے جو حالات درپیش تھے وہ یقینا بڑے دشوار تھے۔ کشوری کا پورا خاندان پاکستان ہجرت کرجاتاہے۔ وہ اپنے بابا کے ہمراہ ہندوستان رہ جاتی ہے لیکن اسے اپنے اس فیصلے کے عوض اپنے ہی ملک میں رہ کر مشکلات سے نبردآزما ہونا پڑتاہے۔ اس صورتِ حال کا بیان فنکار نے بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔ افسانے کا آخری ٹکڑا دیکھیے:
کنول رانی.... کسی نے اندھیرے میں یک لخت پہچان کر چپکے سے پکارا۔ یہاں آجاؤ۔ اب کسی پچھتاوے، کسی افسوس کا وقت نہیں ہے۔
پرانے عہد نامے منسوخ ہوئے۔ کشوری نے آہستہ سے دہرایا۔ ہم اس طرح زندہ نہ رہیں گے۔ ہم یوں اپنے آپ کو نہ مرنے دیں گے۔ ہماری جلاوطنی ختم ہوگی۔ ہمارے سامنے آج کی صبح ہے، مستقبل ہے۔ ساری دنیا کی نئی تخلیق ہے۔
لیکن کنول کماری.... تم اب بھی رورہی ہو....؟“ 5
قرۃ العین حیدر ایک مؤرخ کی حیثیت سے کہانی بیان کرتی ہیں۔ جس کی قرأت سے پورے عہد کی سماجی، سیاسی اور ثقافتی صورتِ حال ہمارے سامنے واضح ہوجاتی ہے۔ ان کے افسانوں میں رومانیت کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور اور داخلی مشاہدات کی ترجمانی بھی شامل ہے۔ ’جلاوطن‘ کا یہ رجائی اختتام یقینا ٹوٹے پھوٹے اور شکست خوردہ انسانوں کو حوصلے کے ساتھ زندگی گزارنے کی ترغیب دیتاہے۔ ساتھ ہی نئے عہد، نئی صبح اور نئے مستقبل کی بشارت دیتاہے کہ ماضی کی ناکامیوں سے نہ گھبراتے ہوئے ایک تابناک مستقبل کی بنیاد رکھنی چاہیے جس سے آئندہ زندگی روشن ہو سکے۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تو یہ قرۃ العین حیدر کا ایک منفرد افسانہ ہے۔
افسانہ ’سیتاہرن‘ آزادی کے بعد کے ماحول اور نچلے طبقے کی غربت، بے بسی، المناکی اور محرومی کے حوالے سے لکھی گئی ایک عمدہ کہانی ہے۔ اس افسانے میں ایک سندھی پناہ گزیں لڑکی سیتا کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ معاشرے کے اعلیٰ طبقے کی ذہنیت اونچے عہدوں پرفائز لوگوں اور بین الاقوامی شہرت کے مالک آرٹسٹ اور تہذیبی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے آزاد خیال نوجوانوں، مرد اور عورتوں کے ذہن کی عکاسی اس کہانی میں بڑے فنکارانہ انداز میں کی گئی ہے۔ سیتا ایک ایسی لڑکی ہے جو جنگل میں وہاں کا قانون اپناکر زندگی گزار سکتی ہے۔ انسانی قوانین وہاں بے معنی ہیں۔ اس سیتا کو آج کے راون نے اغوا کرلیا ہے۔ عورت یہاں کمزوری اور استحصال کی علامت ہے۔ مگر یہ شکست اور استحصال صرف سیتا جیسی لڑکیوں کے لیے ہی مخصوص نہیں بلکہ کم وبیش یہی حال اس جدید معاشرے کا بھی ہے جہاں عورتوں کو آج بھی کمزور سمجھا جاتا ہے۔
ہاؤسنگ سوسائٹی‘ قرۃ العین حیدر کی علامتی انداز میں لکھی گئی کہانی ہے جس میں جدید تہذیب، سیاست و معیشت پر بے باک انداز میں طنز کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں موجودہ تہذیب کی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ افسانے کا ہیرو جمشید سید ایک نودولت مند انسان ہے جو دولت کے نشے میں اس قدر چور ہے کہ اپنا ماضی بھی فراموش کردیتا ہے۔ لیکن جب اسے اپنا ماضی یاد آتاہے تو وہ بہت شرمندہ ہوتا ہے۔ یہ افسانہ غیر منقسم ہندوستان سے شروع ہوکر تقسیم کے بعد پاکستان کی سرزمین پر اختتام پذیر ہوتاہے۔ اس افسانے میں انکشاف، اسرار، تجسس، اور حادثات قدم قدم پر رونما ہوتے ہیں۔ جمشید سید افسانے کے اختتام پر اعترافِ حق کے ذریعے انسان دوستی کا پتہ دیتا ہے۔
جاگیر دارانہ نظام کے زوال اور جدید طرز پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے نتیجے میں ہندوستانی معاشرے میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس صورت حال نے جہاں انسان کو اپنی آن بان کو خیرباد کہنے پر مجبورکیاوہیں شخصی آزادی کا ایک تصور بھی دیا کہ وہ یک لخت تمام بندشوں سے آزاد ہوگیا معاشرے کے ٹوٹنے بکھرنے کے باعث اخلاقی قدروں کی شکست و ریخت کو بھی اپنی زد میں لیا۔ چنانچہ شخصی آزادی کی آڑ میں انسان نے تمام سماجی، تہذیبی، تمدنی اور اخلاقی اقدار کو فراموش کردیا۔ نیز ہندوستان کے سیاسی حالات بہ طور خاص تقسیم ہند کے واقعے سے اس تصور کوجلاملی۔ انسان نہ صرف نقل مکانی کے عمل سے دو چار ہوا بلکہ اسے ایسے بہت سے مسائل بھی درپیش ہوئے جن کا حل تلاش کرنے سے اس کی ذات قاصر تھی۔ آزادی کے سبب اخلاقی قدروں کا انہدام ہوا اور جدید تعلیم کے زیر اثر اعلیٰ سوسائٹی سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جنسی کج روی کو فروغ دیاگیا۔
قرۃ العین حیدر نے ’پت جھڑ کی آواز‘ میں ان ہی دو تصورات سے پیداہونے والے معاشرتی مسائل کو پیش کیا ہے۔اس میں انھوں نے جہاں ایک طرف زمیندارانہ نظام کے خاتمے کا شدید احساس دلایاہے وہیں وہ دوسری جانب اعلیٰ سوسائٹی میں خوش حال زندگی بسر کرنے والے افراد کی جنسی آزادی کے وسیع پس منظر کے ذریعے زندگی کی ایک واضح اور نئی تصویر پیش کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے یہاں جنس کا ذکر محض جنسی تلذذ کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعے وہ سماج میں پھیلی برائیوں اور تلخ حقیقتوں سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ جنس بلاشبہ انسانی فطرت میں داخل ہے لیکن اس افسانے میں انھوں نے اعلیٰ طبقے کے افراد کے جنسی جذبات کی ترجمانی بڑے فن کارانہ انداز میں کی ہے اور سماج کو اصل حقیقت سے روشناس کرانے کی سعی کی ہے۔ کس طرح ہماری تہذیب و ثقافت پر مغربی تہذیب اثر انداز ہوئی ہے اس المیے کو اس افسانے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس افسانے میں نئی نسل کے خیالات کی ترجمانی بھی بڑے معنی خیز انداز میں کی گئی ہے۔
مندرجہ بالاباتوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرۃ العین حیدر کے اسلوب، فن اور تکنیک میں کثیرالجہتی پائی جاتی ہے نیز ان کی کم آمیزی، کم گوئی اور مشکل پسندی نے ان کی انفرادیت کو اور نمایاں کردیا اس لیے کہا جاتاہے کہ اپنے اسلوب کی خالق و خاتم وہی ہیں۔
قرۃ العین کے افسانے عصری شعور کی روشنی میں انسانی تہذیب اورحیات و کائنات کے مسائل کا فلسفہ بڑی دیانت داری سے پیش کرتے ہیں۔ وہ صدیوں کے رشتوں، ماضی کی بازیافت اور وقت کے تسلسل کو گرفت میں لینے میں ید طولیٰ رکھتی ہیں۔ ان کے کردار وقت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جلاوطن، ڈالن والا اور دوسیاح کے کردار وقت کے زندانی ہیں جو نامعلوم عہدقدیم سے محسوس ماضی قریب یا عہد جدید کا سفر کرکے پھر اپنے اس معین وقت میں مقید ہوجاتے ہیں۔ وقت کا یہ تصور قرۃ العین حیدر کے یہاں جبرکی علامت بن جاتاہے جو تقدیر اور تاریخ کا جبر ہے اور ان کے اکثر کردار وقت کی اسی جبریت کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرۃ العین نے مغربی ادیبوں کا براہ راست مطالعہ کیا اور اسے اپنے فن میں برتا۔ پروفیسر عبدالمغنی رقم طراز ہیں:
وہ (قرۃ العین حیدر) اردو کی پہلی افسانہ و ناول نگار ہیں جنھوں نے براہِ راست عصر حاضر کے انگریزی فکشن کے جدید ترین ہیئتی تجربوں سے استفادہ کیاہے، گرچہ یہ ایک مجتہدانہ استفادہ ہے، مقلدانہ نہیں“6
بیسویں صدی میں انگریزی کے جن فن کاروں سے قرۃ العین حیدر نے استفادہ کیا ہے ان میں جیمس جوائس اور ورجینیاوولف کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر نے یوروپ کی زندگی کو بھی اپنا موضوع بنایاہے اور بین الاقوامی سطح پر عصر حاضر کے متعدد واہم مسائل کو مدنظر رکھاہے، اس کے علاوہ ماضی سے حال تک وقت کا جو بسیط احساس قرۃ العین حیدر کے یہاں ہے وہ انگریزی ناول یا افسانہ نگار کے یہاں نہیں ہے۔
اس کے علاوہ قرۃ العین حیدر ایک Criticalذہن کی مالک ہیں اس لیے اشیاکو سطحی نظر سے دیکھنے کے بجائے ان کی ماہیت جاننے کی خواہش مند رہتی ہیں۔ ان کے لیے تخلیق ایک داخلی تجربہ کی حیثیت رکھتی ہے اور ان کے اکثر افسانوں کی فضا ان کے داخلی احساس کی فضا ہوتی ہے۔
حواشی
(1)     جمیل اختر: دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات (مضمون)  مشمولہ۔ کتاب نماکا خصوصی شمارہ قرۃ العین حیدر فن اور شخصیت۔ مرتبین۔ ہمایوں ظفر زیدی، محمد محفوظ عالم، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، 2007، ص 7
(2)     قرۃ العین حیدر:کارجہاں درازہے (جلداول، دوم) ایجوکیشنل  پبلشنگ ہاؤس،دہلی، 2003، ص425
(3)     گوپی چند نارنگ۔ اردو افسانہ روایت اور مسائل۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی،2013،ص736
(4)     قرۃ العین حیدر: جلاوطن، مشمولہ شیشے کے گھر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2019 ص284-85
(5)     قرۃ العین حیدر: جلاطن، مشمولہ شیشے کے گھر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2019، ص 311
(6)     عبدالمغنی۔ قرۃ العین حیدر کافن، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، 1994، ص 7


Fasi ur Rehman
Room No. 81, Amin Hostel, M.M Hall,
A.M.U, Aligarh-UP,
Pin code 202002
Mob: 9319949794
Email: fasi.khan90@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

رامپور میں تذکرہ نگاری کا اجمالی جائزہ، مضمون نگار: نظام الحسن

  اردو دنیا، نومبر 2024 علم و ادب کے حوالے سے رامپور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 1774میں   بہ حیثیت روہیلہ ریاست قائم ہونے والا یہ شہر...