ظفرگورکھپوری کے فلمی گیت
ناظر انور
ظفرگورکھپوری (1935-2017) کی پوری زندگی ممبئی جیسے بڑے
شہر میں گزری۔حالانکہ ان کی پیدائش گورکھپور کے ایک چھوٹے سے گاؤں بیدولی بابو میں
ہوئی جس کی وجہ سے انھوں نے اپنا قلمی نام ظفر گورکھپوری رکھ لیا۔بچپن کے ابتدائی ایام
گاؤں کے پرسکون ماحول میں گزرے۔9سال کی عمر میں ممبئی کا رخ کرنے کے بعد وہ یہیں کے
ہو کر رہ گئے۔1962 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’تیشہ‘ منظر عام پر آیا۔ادبی حلقے میں
اس مجمو عے کو مقبولیت حاصل ہوئی۔اس کے بعد غزلوں،نظموں،گیت اور دوہوں پر مشتمل ان
کے 11مجموعے شائع ہوئے، جن کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوئی۔
ظفر گورکھپوری نے جہاں غزل کے میدان میں فکری اور فنی سطح
پر اعلیٰ تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا ہے، وہیں ان کی نظموں کا موضوعاتی تنوع اور شعری
جوہر قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتاہے۔گیت اور دوہوں میں بھی انھوں نے ان کے بنیادی
تقاضوں کو برتتے ہوئے فنکارانہ مہارت کا اظہار کیا ہے۔بچوں کے ادب پر بھی ان کی گہری
نظر ہے،اور بچوں کے لیے خوب ساری نظمیں اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔غزل گائیکی کے میدان
میں بڑے بڑے سنگروں نے ان کی غزلوں کو اپنی آوازدی ہے۔ فلموں میں گانے لکھ کر اپنے
آپ کو فلمی دنیامیں متعارف بھی کرایا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ فلمی دنیاکی چمک دمک اور
مصنوعی زندگی کبھی بھی ظفر گورکھپوری کو اپنی طرف مائل نہ کر سکی۔یہی وجہ ہے کہ انھوں
نے کبھی بھی فلموں میں گانے لکھنے کو ترجیح نہیں دی۔ ان کی زندگی کا اصل مقصد ادب اور
درس و تدریس سے وابستگی اور اس کی آبیاری تھی، لیکن جب بھی کسی ڈائریکٹر،پرڈیوسر یا
موسیقار نے ان کو خود فلمی نغمہ لکھنے کے لیے مدعو کیا تو انکار بھی نہیں کر سکے۔
ظفر گورکھپوری نے فلموں کے علاوہ سیریلوں میں بھی بہت سے
گیت لکھے۔جن میں ’سب کا مالک ایک‘ اور ’عورت‘ جیسے سیریل قابل ذکر ہیں۔فلموں میں گانے
لکھنے کی شروعات1969میں ہوئی۔جب پہلی بار پروڈیوسر ایس پال نے اپنی فلم ’آتش‘ کا ایک
گانا لکھنے کے لیے خط لکھ کر ظفر گو رکھپوری کو مدعوکیا۔ان کی فرمائش پر ظفر گورکھپوری
نے ایک گانا لکھا، جس کی دھن موسیقار جے دیو نے بنائی۔اور محمد رفیع نے اپنی مترنم
آواز میں اس کو سامعین تک پہنچایا
؎
یہ شعلے بھڑکے ہیں کیسے دنیاکو سمجھائے کون
چتاکی آگ تو بجھ جائے گی دل کی آگ بجھائے کون
اگلے ہی سال 1970 میں فلم ’کھنس‘کے لیے ظفر گورکھپوری کی
ایک مشہور غزل محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈہوئی۔اس موسیقی کی دھن بھی موسیقار جے دیو
نے تیار کی۔گانا تو سامعین تک پہونچ گیا لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر یہ فلم ریلیز نہیں
ہو سکی ؎
عشق میں کیاکیامیرے جنوں کی،کی نہ برائی لوگوں نے
کچھ تم نے بدنام کیا کچھ آگ لگائی لوگوں نے
میرے لہو کے رنگ سے چمکی کتنی مہندی ہاتھوں پر
شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے
1972
میں ڈائریکڑ اشوک رائے کی مشہور فلم ’پتلی بائی‘ ریلیز ہوئی۔اس
فلم میں ظفر گورکھپوری کی ایک قوالی کو شامل کیا گیا۔جس کواس دور کے دو مشہور قوال
راشدہ خاتون اور یوسف آزاد نے گا یا تھا
؎
ایسے بے شر م عاشق ہیں یہ آج کے
ان کو اپنا بنانا غضب ہو گیا
اسی طرح فلم 1976 میں ریلیز ہوئی ایک فلم’نور الٰہی‘ میں
بھی ظفر گورکھپوری نے ایک قوالی لکھی،جو کہ
بہت مشہور ہوئی۔اس قوالی کو بھی راشدہ خاتون اور یوسف آزاد نے ہی گایا تھا ؎
جو ممی کی آنکھوں کے تارے تھے ہم تم
تو ڈیڈی کے دل کے سہارے تھے ہم تم
بڑا لطف تھا جب کنوارے تھے ہم تم
1976
میں ایک فلم’زمانے سے پوچھو‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کا ایک
گانا’بولیے حضور‘ ظفر گورکھپوری نے لکھاجس کو امریش کباڈیا،کیدار خان اور مراد نے اپنی
آواز میں لوگوں تک پہنچایا۔گانے کے بول یہ ہیں ؎
آپ کے قریب آپ ہی کے پاس
رات بھی جواں ہم بھی ہیں یہاں
بولیے حضور آپ ہیں کہاں؟
1979
میں نانو بھائی وکیل کی خواہش پر ظفر گورکھپوری نے فلم
’شان اللہ‘ کے سارے گیت لکھے۔اس فلم میں ایک قوالی خواجہ اجمیری کی شان میں بھی ہے
لیکن بد قسمتی سے فلم مکمل ہونے سے پہلے ہی نانو بھائی وکیل کا انتقال ہوگیا۔اور یہ
فلم ادھوری رہ گئی۔اسی سال پروڈیوسر مجید خان نے ظفر گورکھپوری کے مجمو عے میں شامل
ایک غزل کو اپنی فلم ’زمانے سے پوچھو‘کے لیے ریکارڈ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔یہ غزل شارداکی
آواز میں ریکارڈہوئی ؎
ہم بھنور میں کنارے بنایا کریں، تم کناروں سے طوفاں اٹھاتے
رہو
ہم چراغوں کو خوں دے کے روشن کریں تم اندھیروں کی ہمت بڑھاتے
رہو
اس کے بعد مجید خان نے اس فلم کے دوسرے گانے بھی ظفر گورکھپوری
سے ہی لکھوائے۔جو محمد رفیع اور کشور کمار کی آواز میں ریکارڈ ہوئے۔
1980
میں فلم ’شمع‘ کے گانے کے لیے فلم ساز قادر خان نے ظفر گورکھپوری
کو اپنے گھر بلایااور اس فلم میں گانے لکھنے کے لیے درخواست کی۔اس فلم کے اکثر گانے
ظفر گورکھپوری نے ہی لکھے۔ان گانوں میں لتا منگیشکر کا گایا ہو اٹائٹل سانگ بہت مشہور
ہوا ؎
چاند اپنا سفر ختم کرتا رہا
شمع جلتی رہی رات ڈھلتی رہی
دل میں یادوں سے نشتر ٹوٹا کیے
ایک تمنا کلیجہ مسلتی رہی
اس کے علاوہ آشا بھونسلے نے اس فلم میں ظفر گورکھپوری کے
لکھے ہوئے دو گانوں کو اپنی آواز دی
؎
ایک بار صرف ایک بار تو جو مسکرا دے
ایک بار مسکرا دے رونے سے کیا ملے گا
او ماں مجھے بتا دے
خوشبو بن توہرے آنگن میں مہکوں
توہری چوکھٹ پے بیتے عمریا
اونچی اٹریا ریشمی چنریا
چاہوں نہ کچھ بھی سنوریا
1993
میں ظفر گو رکھپوری کا تعارف میوزک ڈائریکٹر انو ملک سے
بذریعہ فون ہوا۔انہوں نے ظفر گورکھپوری کو عباس مستان کی ڈائریکٹیٹ مشہور فلم ’بازی
گر‘ کے لیے گانے لکھنے کی دعوت دی۔ظفر گورکھپوری
نے اس فلم میں ایک گانا لکھا، جس کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، اس گانے کوونود راٹھور
اور آشا بھونسلے کی آواز میں سامعین نے بہت سراہا ؎
کتا بیں بہت سی پڑھی ہوں گی تم نے
مگر کوئی چہرہ بھی تم نے پڑھا ہے
اس ہٹ گانے کے بعد ظفر گورکھپوری کی قربت انو ملک سے بڑھتی
گئی،جس کے نتیجے میں ظفرگورکھپوری نے کئی فلموں کے لیے گانے لکھے۔ان فلموں میں غنڈہ
راج، ہلچل، کھلونا،خوددار اور ظالم وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔جن کی تفصیل درج ذیل
ہے۔
1994
میں فلم ’ظالم‘ کے لیے ایک گانا لکھا۔جس کو کمار سانو اور
الکا یاگنک نے اپنی آواز دی۔اور انو ملک اس گانے کے میوزک ڈائریکٹر تھے ؎
مبارک ہو مبارک ہو محبت گنگناتی ہے
تمھارا دل دھڑکتا ہے مجھے آواز آتی ہے
1995
میں فلم ’غنڈہ راج‘ ریلیزہوئی۔اس فلم کا ایک گانا بہت مشہور
ہوا،جس کو ظفر گورکھپوری نے لکھا تھا۔اس گانے کے میوزک ڈائریکٹر انو ملک تھے،جبکہ علیشا
چینوئی اور کمار سانو نے اس کو گایا تھا
؎
نہ جانے ایک نگاہ میں کیا لے گیا کوئی
میری تو زندگی چرا لے گیا کوئی
1995
میں فلم ’ہلچل‘ کے لیے ظفر گورکھپوری نے ایک گانا لکھا۔جس
کے میوزک ڈائریکٹر انو ملک تھے۔ علیشا چینوئی اور ونود راٹھور نے اس گانے کو اپنی خوبصورت
آواز میں سامعین تک پہونچایاتھا:
I
am sixteen, going on seventeen
دل کیوں نہ دھک دھک کرے
1996میں
مشہور فلم ’کھلونا‘ ریلیز ہوئی۔اس فلم کے ایک گانے کو سامعین نے بہت پسند کیا، جس کو
الکا یاگنک اور ونود راٹھور نے گایا تھا۔اس گانے کے میوزک ڈائریکٹر نریش شرماتھے،جس
کو ظفر گورکھپوری نے لکھا تھا ؎
ہم جانتے ہیں تم ہمیں ناشاد کروگے
توڑوگے میرا دل مجھے برباد کروگے
دل پھر بھی تمھیں دیتے ہیں کیا یاد کروگے
ظفر گورکھپوری بھوجپوری زبان بھی جانتے تھے۔ انھوں نے
1984 میں ایک بھوجپوری فلم ’گنگا کی بیٹی‘ کے لیے ایک گانا لکھاجو بھوجپوری علاقوں
میں خاصا مقبول بھی ہوا۔اس گانے کے بول تھے
؎
دھیان چھوڑے پنڈت ایمان چھوڑے ملاّ
ہم نہ پہیرب راجا نک بلاّ
اس کے علاوہ ظفر گورکھپوری نے کئی بھوجپوری فلموں کے لیے
گانے لکھے۔جن کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ بے حد مقبول اور مشہور فلمی گانے لکھنے کے
باوجود بھی ظفر گورکھپوری نے بحیثیت فلمی نغمہ نگار کبھی اپنی پہچان بنانے کی کوشش
نہیں کی،نہ ہی اس کو ذریعہ معاش بنانے کا خیال ان کے دل میں آیاکیونکہ فلمی دنیا کی
بھاگ دوڑ اور جی حضوری ان کی مزاج سے میل نہیں کھاتی تھی۔اپنا وقت وہ فلمی دنیا کے
گلیاروں میں چکر کاٹتے ہوئے گزارنا نہیں چاہتے تھے۔فلمی دنیا کے شور اور گہما گہمی
میں اپنے سکون اور چین کا سودا کرنا ان کو پسند نہیں آیا۔ ظفرگورکھپوری کا ذریعہ معاش
درس و تدریس تھا۔اور اسی پیشے میں وہ پر سکون اور مطمئن بھی تھے۔اس سلسلے میں صاحب
حسن کو دیے گئے ایک انٹر ویو میں وہ کہتے ہیں کہ:
”میں
نے فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے کبھی اپنی شناخت بنانے کی کوشش نہیں کی۔اور نہ ہی اپنے
اوپر فلمی گیت کار کا لیبل لگانا پسند کیا۔بعض حلقوں کے اصرار پر کہ فلم ایک بڑا میڈیم
ہے اسے نظر انداز کرناٹھیک نہیں ہوگا۔میں نے کچھ فلموں کے گیت لکھے۔وہ بھی کب؟ جب مجھے
کسی موسیقار یا پرو ڈیوسر نے خود بلایا۔میں نے اپنے طورپر کبھی کسی موسیقار یا پروڈیو
سر کے دروازے پر دستک نہیں دی۔فلم ’شمع‘اور ’بازی گر‘کے ہٹ ہوجانے پر کچھ دوستوں نے
یہ اصرارکیاکہ اب معلمی چھوڑ دو اور فلم کے ہو جاؤ،لیکن میں نے ایسا نہیں کیا،ادب اور
تعلیم میرے لیے اوڑھنا بچھوناتھے۔میری معاش کا ذریعہ بھی یہی تھے۔میں ان سے مطمئن رہا
اور اپناکام کرتا رہا۔“
(ظفر
گو رکھپوری؛ سر آئینہ(خود نوشت)، سہ ماہی شناخت، ممبئی، مارچ-مئی2013،ص33(
فلمی دنیا سے دوری کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ظفر گورکھپوری
کا مزاج کبھی کاروباری نہیں رہا۔ ایک زمانے تک فلموں میں گانے لکھنے کے لیے شعرا کو
پوری تخلیقی آزادی ہوتی تھی،اور وہ پوری آزادی سے ادبی و معیاری اور سطحیت سے پاک گیت
لکھتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ بیشترفلمی گانے کی دھن (Tune)پر لکھے جانے لگے اور ایسے
گانوں کو مقبولیت ملی جس میں تہذیب، شائستگی، اخلاقیات اور اعلیٰ ظرفی کو پس پشت ڈال
دیا گیا۔گانوں میں فحش الفاظ اورفحش مناظر کے بے جا استعمال نے ظفر گورکھپوری کو فلمی
دنیا نے بد دل کر دیا اور اسی وجہ سے انھوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔انھوں
نے کئی ایسے گانوں کے آفر کو اسی بنا پر ٹھکرا بھی دیا۔شجا ع الدین شاہد کو دیے گئے
ایک انٹر ویو میں ظفر گورکھپوری کہتے ہیں کہ:
”میرا
ذریعہئ معاش درس و تدریس تھااور میں اسی سے پوری طرح مطمئن تھا۔شاعری میرا شوق ہی نہیں
میرا مشن بھی تھی۔میں اپنا مشن چھوڑ نے کے لیے تیار نہیں تھا۔مجھے ادبی اور تعلیمی
کاموں میں ہی سکون تھا۔یوں بھی فلم، اس کی دنیا کا گلیمر، اس کی چکا چوند اور کاروباری
کلچر میرے مزاج سے میل نہیں کھاتا تھا“
)ظفر
گورکھپوری؛ شجاع الدین شاہد، ظفر گورکھپوری سے گفتگو (انٹرویو)، شعرو حکمت، حیدرآباد، مئی 2011، ص185(
فلمی دنیاکے اس مختصر سفر کے دوران جن سنگروں نے ظفر گورکھپوری
کے نغموں کوآواز دی، ان میں محمد رفیع، آشا بھونسلے، لتا منگیشکر، طلعت عزیز، کشورکمار،
کمارسانو، الکایاگنک، علیشاچینوئی اور ونود ٹھاکر وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
Nazir Anwar
Research Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025
Mob.: 7417463821
ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں