ثانوی درجات میں اردو قصائد کی تدریس
سعود عالم
قصیدے کی حیثیت اردو اصناف سخن میں ’ماں‘ کی سی ہے۔ قصیدہ
ہی وہ صنف سخن ہے جس سے غزل، رباعی، مرثیہ اور قطعہ جیسی اصناف نکل کر سامنے آئی ہیں۔دنیا
کی مختلف زبانوں کی طرح اردو ادب کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ان میں ایک نظم اور دوسری نثر
کی حیثیت سے دنیائے ادب میں اپنی شناخت رکھتی ہے۔
جہاں تک ’نظم‘ کاتعلق ہے تو شاید ہی اردو کا کوئی ایسا طالب
علم ہوگا کہ جو اس بات سے ناآشنا ہو کہ اردوادب میں نظم دو معنوں میں مستعمل ہے۔ ایک
بالعموم شاعری کے معنی میں اور دوسراشاعری کی اُن تمام اصناف کے معنی میں جو غزل کے
علاوہ ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ غالب یا حالی کونظم ونثر میں یکساں
کمال تھا، تو اِس طرح کے جملے میں نظم سے مراد شاعری ہوتی ہے، جو کہ نثر کی ضد ہے اور
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اقبال یا فیض کو نظم وغزل دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہے تو یہاں
نظم سے مراد شاعری کی وہ تمام اصناف ہیں جنھیں غزل کی ضد کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً قصیدہ،مثنوی،
مرثیہ، قطعہ، رباعی یا شہر آشوب وغیرہ۔یہ تمام اصناف نظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اِس اعتبار
سے یہ غزل کی ضد ہیں کہ اِن میں سے ہر صنف کا ایک موضوع ہوتا ہے اور صنف کا ہر شعر
اُس موضوع سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ غزل کا کوئی ایک موضوع نہیں ہوتا۔ ایک غزل میں کئی
موضوعات ہوتے ہیں۔بسا اوقات ایک غزل میں جتنے شعر ہوتے ہیں اتنے ہی ان کے موضوعات بھی
ہوتے ہیں۔
اردو نظم کے اقسام پر غور کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اردوادب
میں کئی قسم کی نظمیں موجود ہیں۔ ان میں زیادہ ترپابند نظمیں ہیں۔یہ اقسام عربی /فارسی
کے توسط سے ہم تک پہنچی ہیں۔ان میں قصیدہ، رباعی، مثنوی، قطعہ، شہر آشوب اور واسوخت
وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ان ہی پابند نظموں میں ایک مقبول صنف قصیدہ بھی ہے۔ قصیدہ،
نظم یا دیگر ناموں سے ہٹ کر اپنی خودکی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔اپنے موضوع پر آنے سے
پہلے میں ایک بات اور واضح کرتاچلوں کہ صنف قصیدہ دیگر اصناف سے اس طور پر بھی مختلف
ہے کہ قصیدہ میں تخیل بلند، الفاظ پر شکوہ دیگر اصناف کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی پایا
جاتا ہے۔ان ہی تمام وجوہات کی بنا پر قصیدہ ابتدائی درجات میں تو بالکل بھی نہیں پڑھایا
جاتا،تاہم اتنا ضرورہے کہ ثانوی درجوں میں برائے نام یا یوں کہہ لیجیے کہ بطورصنف اِس
کا تعارف ضرور کرایادیا جاتا ہے۔
ان ہی باتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں نے اس موضوع کا
عنوان ’ثانوی درجات میں اردوقصائد کی تدریس‘ رکھاہے۔ اس مقالے کے لیے سب سے پہلے ہم
نے ملک کے کئی صوبوں کے نصاب کاسرسری جائزہ لیا، اس کے بعد ان صوبوں کے ثانوی درجات
میں شاملِ نصاب قصائد کا بغور مطالعہ کیا۔ اُس کی روشنی میں ایک منصوبہئ سبق تیارکیا۔جس
کا خاکہ آپ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کسی بھی صنف کو پڑھانے کے لیے
بنیادی چیز اُس صنف کا تعارف ہے۔اس لیے ایک استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ منصوبہئ سبق
بناتے وقت تمہیدی گفتگو سے پہلے کمرہ جماعت طلبا سے سابقہ معلومات سے متعلق چند سوالات
کرے، پھراس کی روشنی میں ان کی توجہ اصل موضوع کی طرف مرتکز کرائے۔ اس طرح طلبا واساتذہ
دونوں کا باہم متعلقہ سبق سے دلچسپی بڑھ جائے گی۔ اس کو منصوبہئ سبق کی اصطلاح میں
’اعلان سبق‘ کہتے ہیں۔
اعلان سبق کے بعد استاد کو چاہیے کہ وہ صنف سے متعلق تمام
لوازمات وبارکیوں سے طلبا کو روشناس کرائے۔ تاکہ طلبا کو مذکورہ بالامختصر تعارفی نکات
کی مدد سے سبق کو سمجھنے میں آسانی ہوسکے۔ مثال کے طور پر اگر استادقصیدہ پڑھارہا ہے
توسب سے پہلے صنف قصیدہ کا تعارف کرائے کہ قصیدہ کیا ہے۔قصیدہ کے معنی کیا ہیں۔یہ کس
زبان کا لفظ ہے۔قصیدہ اردو میں کیسے متعارف ہوا، عربی میں اس کی کیا اہمیت ہے۔ صنفی
اعتبارسے فارسی میں قصیدہ کا کیا مقام ہے۔چند مشہورعربی وفارسی قصیدہ گو شعرایا کم
سے کم ان کے نام سے متعلق مختصرتعارف کرایا جائے، تو زیادہ مناسب ہوگا۔اسی طرح طلبا
وطالبات کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ قصیدے کے عربی وفارسی زبان سے کیا انسلاکات ہیں۔
کیوں کہ پڑھانا اردو قصیدہ ہے، اس لیے طلبا کویہ بھی بتانا ضروری ہے کہ اردو ادب میں
قصیدہ کی ابتدا کہاں ہوئی، اردو کا پہلا قصیدہ گو شاعر کون ہے، ان کے چند معاصرین سے
بھی آگاہی ضروری ہے۔ قصیدہ کے زرّیں دور سے بھی طلبا وطالبات کی واقفیت ضروری ہے تاکہ
طلبا یہ ذہن نشین کر لیں کہ اردو ادب کی تمام اصناف کی طرح قصیدے کی ابتدا بھی دکن
میں ہوئی، مگر اس کی پرورش وپرداخت شمالی ہند میں ہوئی۔قصیدہ کی تدریس میں طلبا کو
یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ شمالی ہندمیں قصیدہ کا پہلا شاعر کون ہے،اسی طرح اُن کے معاصرین
کا مختصرتعارف۔ اور آخر میں ان کے ذہن میں یہ بھی نقش کرادینا چاہیے کہ اردو کا سب
سے مقبول قصیدہ گوشاعر کون ہے؟
قصیدہ پڑھاتے وقت استادکویہ بھی واضح کردیناچاہیے کہ اردو
شاعری کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی بعض اصناف کی تعریف صرف موضوع کے حوالے
سے ہوتی ہے اور بعض کی صرف ہیئت کے حوالے سے اور بعض کی موضوع اور ہیئت دونوں حوالوں
سے۔اگر ہوسکے تو طلبا کی آسانی کے لیے ہر ایک سے ایک ایک مثال بھی پیش کر دی جائے توزیادہ
بہتر ہوگا۔
مذکورہ بالاتمام خاص خاص باتوں کواعلان سبق اورتمہیدی گفتگو
کے ضمن میں لا کر ایک استاد کو اپنی بات آگے بڑھانی چاہیے۔ بایں ہمہ سب سے پہلے ایک
استاد کوچاہیے کہ وہ قصیدہ کا متن بآواز بلند، ٹھہر ٹھہر کے اورصاف ادائیگی کے ساتھ
قرأت کرے۔ ادب کی اصطلاح میں اسے معلّم کی بلند خوانی کہتے ہیں۔
اب ہم یہاں ثانوی درجات کے طلبا کومدنظر رکھتے ہوئےNCERTکی
درجہ گیارہ کی کتاب (گلستانِ ادب)سے ماخوذ ایک قصیدہ کی عبارت پیش کررہے ہیں ؎
ہاں مہِ نو سنیں ہم اس کا نام
جس کو توجھک کے کررہا ہے سلام
دو دن آیا ہے تو نظر دمِ صبح
یہی انداز اور یہی اندام
بارے دو دن کہاں رہا غائب
بندہ عاجز ہے گردشِ ایام
اُڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام
مرحبا اے سرور خاص خواص
حبّذا اے نشاطِ عام عوام
عذر میں تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام
اس کو بھولا نہ چاہیے کہنا
صبح جو جائے اور آئے شام
ایک میں کیا، کہ سب نے جان لیا
تیرا آغاز اور ترا انجام
رازِ دل مجھ سے
کیوں چھپاتا ہے
مجھ کو سمجھا ہے کیا، کہیں نمّام
جانتا ہوں کہ آج دنیا میں
ایک ہی ہے امید گاہِ اَنام
میں نے مانا کہ توہے حلقہ بگوش
غالب اِس کا مگر نہیں ہے غلام؟
دوران قرأت ایک استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ چند باتوں کو
ملحوظ خاطر رکھے:
.1 استاد کو چاہیے کہ
وہ دوران قرأت الفاظ کی صحیح ادائیگی اور درست تلفظ کا خاص خیال رکھے۔
.2 دوران
قرأت قصیدہ کی لے،وزن اور آہنگ کاخیال بھی رکھے۔تاکہ سماعت میں طلبا پر اس کا بہتر
اثرہوسکے۔
.3 استاد چاہیں توٹیپ
یا رکارڈرکی مدد سے بھی طلبہ میں شوق پیدا کرسکتے ہیں۔
استاد کی بلندخوانی کے بعد اب استاد کو چاہیے کہ کچھ دیر’خاموش
مطالعہ‘ کے بعد وہ طلبا سے بھی بآواز بلندمتن کی قرأت کروائے۔(ادب کی اصطلاح میں اسے
متعلم کی بلند خوانی کہتے ہیں)دوران قرأت ان کی غلطیوں کی نشاندھی کرے اورصحیح تلفظ
یا صحیح ادائیگی کے ذریعے اُن کی غلطیوں کا ازالہ بھی کروائے۔اور ضرورت پڑنے پر Writing Board کا
بھی استعمال کرے۔ یہ ادائیگی کبھی فرداً فرداً اور کبھی پوری جماعت کے ساتھ کرائی جائے
تو زیادہ مناسب ہوگا۔
تمہیدی گفتگو، اعلان سبق، معلّم کی بلندی خوانی اور متعلّم
کی بلند خوانی کے بعد استاد کو چاہیے کہ وہ مذکورہ قصیدہ کی ’عملی قواعد‘کی طرف طلبا
کی توجہ مبذول کرائے۔عملی قواعد، منصوبۂ سبق کی جان ہوتی ہے۔اس کے ذریعے طلبا میں
مشق وآموزش کی دلچسپی پیداکی جاتی ہے۔ اس لیے استاد پر لازم ہے کہ وہ عملی قواعد کے
ذریعے سبق کو آسان سے آسان تراور دلچسپ سے دلچسپ تر بنانے کی بھرپورکوشش کرے۔ عملی
قواعد میں ایک استاد کو مندرجہ ذیل باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے:
(1) استاد
کو چاہیے کہ وہ سبق میں مذکور مشکل الفاظ کے معنی ڈکشنری کی مددسے طلبا کوبتائے۔ یہاں
یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ طلبا کو وہی معنی بتائے جائیں جو سیاق وسباق کے لحاظ سے وہاں
مستعمل ہورہے ہوں۔منصوبۂ سبق کو بہتر بنانے کے لیے استاد اگر مناسب سمجھیں توچارٹ
کا بھی سہارالے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
الفاظ معنی
بارے آخر کار
گردش ایّام دنوں کا پھیر، وقت کی گردش
دام جال
مرحبا کلمۂ تحسین، کسی کی تعریف کرتے وقت یا شاباشی
کے موقع پر بولا جاتا ہے
سرور خاص خواص خاص
لوگوں کی مسرّت
حبّذا کلمۂ تحسین
نشاط عام عوام عام
اور معمولی لوگوں کی خوشی
نمّام چغل خور
اَنام مخلوق
(2) دوران
تدریس بعض ایسے مشکل الفاظ بھی آتے ہیں،جن کے مترادفات سے طلبا کو آشناکرنا اشد ضروری
ہے۔ کیونکہ قصیدہ ایک مشکل صنف سخن ہے۔اس صنف میں صرف انھیں شعرا نے طبع آزمائی کی
ہے جنھیں اپنی زبان پرمکمل گرفت تھی۔اس طور پر کہا جاسکتا ہے کہ قصیدہ ہر خاص وعام
کی زبان نہیں۔ قصیدہ کے قاری کے لیے واجب ہے کہ وہ صرف الفاظ پر ہی دست رس نہ رکھے
بلکہ الفاظ کی بندش کے ساتھ ساتھ زبان پر بھی قادر ہو۔قصیدہ میں زبان دانی کے ساتھ
ساتھ ہماری تہذیبی وراثت بھی مضمر ہے۔
عملی قواعد کے بعداب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مذکورہ بالا
قصیدہ میں ”غور کرنے کی کون کون سی باتیں“ ہیں۔
اس ضمن میں ایک استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے
طلبا سے چند بنیادی سوال کرے جیسے کہ؛ اِس قصیدہ کے خالق کون ہیں۔ یہ قصیدہ کس کی مدح
میں لکھاگیا ہے۔اور یہ قصیدہ کس موقع پر لکھا گیاہے؟اگر طلباکومتعلقہ سبق سے متعلق
پہلے سے کچھ معلومات ہے تو بہتر،ورنہ استادکو چاہیے کہ وہ اُن کی رہنمائی کرے۔مذکورہ
بالا قصیدہ کیوں کہ مدحیہ قصیدہ ہے اس لیے طلبا کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ قصیدہ
صرف مدحیہ ہی نہیں ہوتا بلکہ ہجویہ /ذَمِّیہ بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ طلبا کی معلومات
کے لیے انھیں قصیدہ کے اقسام؛شہرآشوب، تضحیک روزگاراور مذہبی قصیدے سے بھی واقف کرایا
جاسکتا ہے۔
ایک استاد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ طلبہ /طالبات سے
چند ایسے سوالات کرے، جن کے جوابات؛ تحلیلی،توضیحی وتشریحی نوعیت پر مبنی ہوں۔مثال
کے طورپر:
قصیدہ
کے پہلے مصرع میں شاعر نے ’مہ نو‘یعنی:’نیاچاند‘سے مراد عید کا چاند لیا ہے۔ جو بادشاہ
ِ وقت بہادر شاہ ظفر کی طرف اشارہ ہے۔
’مہ
نو‘ سے ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ؛ نیاچاند باریک ہوتا ہے اور اس کی شکل
خمیدہ (جھکی ہوئی)ہوتی ہے۔اور ہماری گنگاجمنی تہذیب بھی یہی رہی ہے کہ جب ہم کسی کو
سلام کرتے ہیں تواپنی گردن تھوڑی سی جھکالیتے ہیں۔
٭ طلبا میں مزید معلومات
بہم پہنچانے کے لیے استادایک اسلامی روایت کی طرف بھی اشارہ کرسکتا ہے جیسے کہ قمری
مہینے کے ابتدائی تین روز کے باریک چاندکو ’ہلال‘ کہتے ہیں۔
٭ ’مہ نو‘(یعنی نیاچاند) علم بیان کی روشنی میں یہاں صنعت ’حسن تعلیل‘
کے طور پر استعمال ہوا ہے جس سے شاعر نے یہ مراد لیا ہے کہ’نیا چاند‘ کسی کو سلام کررہا
ہے۔
طلبا
کو اس جگہ یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ مطلع میں لفظ ’مہ‘ دراصل ’ماہ‘ کا مخفف ہے۔جیسے
’شاہ‘ کا مخفف ’شہ‘ اور ’راہ‘ کا مخفف ’رہ‘ وغیرہ۔
l اب
جہاں تک تعلق دوسرے مصرع کا ہے تو اس روایت سے شاید ہی کوئی ناواقف ہوگاکہ نیا چاند
نکلنے سے پہلے دو روزتک بالکل بھی چاند نظرنہیں آتا۔اسی کو شاعر نے یہاں استفہامیہ
انداز میں بیان کیا کہ ”بارے دو دن کہاں رہا غائب؟“اور اس کا جواب بھی خود شاعر قصیدے
کے چھٹے مصرع میں دے رہا ہے ”عذر میں تین دن نہ آنے کے /لے کے آیا ہے عید کا پیغام“
اب ایک استاد کو سمجھنا ہے
کہ یہاں، اِن اشعارمیں غور کرنے کی بات کیا ہے؟کیا شاعر کوئی نئی بات کہہ رہا ہے یا
وہی گھسی پٹی بات دہرارہا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بات پرانی ہو لیکن اس میں غور کرنے
کی بات یہ ہوکہ شاعر کا انداز نیا ہویا یہ کہ شاعر کااسلوب اوروں سے مختلف ہو یااسی
طرح کی کوئی دوسری بات بھی ہوسکتی ہے۔
میرے خیال سے اِن اشعار میں دونوں ہی باتیں نئی ہیں۔ ایک
تو دو دن پہلے چھپنے اور دو دن بعد نکلنے والی بات اور دوسری”اس کو بھولا نہ چاہیے
کہنا/صبح جو جائے اور آئے شام“ یعنی وہ چاند جس نے صبح سے شام تک کا جو سفر طے کیا،اس
کو بھول نہیں کہنا چاہیے، بلکہ یہ اس کی عادت ِ خاصہ میں شامل ہے۔یہاں شاعرکا فن دیکھنے
کے لائق ہے۔قابل تحسین ہے وہ شاعرجس نے اس مثل کوحسین تعبیر کی زینت بخشی۔جیسا کہ میں
نے اوپر کہیں ذکر کیا ہے کہ قصیدہ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک خاص مقصد زبان کی اصلاح
بھی ہے۔
٭ ’آغاز اور انجام‘سے مراد چاند کا گھٹنا اور بڑھناہے۔ جیسا کہ آپ سبھی
جانتے ہیں چاند پہلے بڑھتا ہے اور 14/ دنوں میں مکمل چاند ہو جانے کے بعد چودھویں کا
چاند کہلاتا ہے،پھر آہستہ آہستہ گھٹنے لگتا ہے اورگھٹتے گھٹتے ختم ہونے کے بعد پھر
از سر نو بڑھنے لگتا ہے۔اور بالآخر مہینہ ختم ہونے سے دو روز قبل تک پورا چاند چھُپ
جاتا ہے کہ جیسا کہ شاعر نے اِ س کو ابتدائی اشعار میں بیان کیا ہے۔ اسی فلسفے کی اگلی
کڑی کویہاں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک
استاد کو مندرجہ بالا تمام باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے پوری تیاری کے ساتھ درجے
میں قدم رکھنا چاہیے اور پوری ایمانداری کے ساتھ طلبا وطالبات کے ذہن میں اٹھنے والے
تمام سوالات کے مدلل جوابات دینے چاہیے۔
l اب
ذرا آٹھویں شعر کو غور سے پڑھیے تواندازہ ہوگا کہ شاعر نے اس شعر میں کس ہنر مندی کا
بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔ متذکرہ بالا تمام اشعار تشبیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے چند
اشعار کے بعدگریز کاشعرمذکور ہے۔ اس کے فوراً ہی بعد شاعر اپنے اصل موضوع یعنی مدح
کی طرف عودکرآتا ہے۔
l ساتھ
ہی ساتھ یہاں اس نکتے کو بھی واضح کرتا چلوں کہ ایک استاد کومختصراً ہی سہی، قصیدے
کی اجزائے ترکیبی سے طلبا وطالبات کو روشناس کرادینا چاہیے۔
اب ذرا اس شعر پر غور فرمائیے ؎
میں نے مانا کہ توہے حلقہ بگوش
غالب اس کا مگر نہیں ہے غلام؟
یہ
شعر استفہامیہ نوعیت کاحامل ہے۔ اس شعر میں غالب سوالیہ پیرائے میں کچھ یوں گویا ہیں
کہ:”غالب اس کا مگر نہیں ہے غلام“اب دیکھیے اِس شعرمیں لفظ ’نہیں‘ کا بھی استعمال ہوا
ہے اورانداز بیان بھی سوالیہ ہے۔ ایسے اقوال کونحو وصرف کی اصطلاح میں ’استفہامِ انکاری‘
کہتے ہیں۔
استاد
کو چاہیے کہ وہ طلبا وطالبات کے سامنے ایسی گنجلک اور پیچیدہ اصطلاحات کو واضح کردیں
تاکہ مستقبل میں ان کودقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
استفہام
انکاری میں دراصل اُسی بات کی تصدیق کی جاتی ہے جس کا وہ بظاہر انکار کر رہا ہوتا ہے۔بایں
طور پر اس کا مطلب کچھ اس طرح سے ہوگا: ”بے شک غالب اس کا غلام ہے“مثال کے طور اگر
کوئی یہ کہے کہ؛ ”کیا یہ اچھی کتاب نہیں ہے“تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ”یہ کتاب اچھی
ہے“۔
مندرجہ بالا قصیدے کے متن سے متعلق”عملی کام اور غور کرنے
کی باتیں“پرتحلیلی، تشریحی اور دیگر کاموں کے بعد ضروری ہے کہ ایک استاد اپنے پڑھائے
ہوئے قصیدے سے متعلق طلبا وطالبات سے چند معروضی سوالات کرے تاکہ اس سے ان کی تفہیم
کا اندازہ لگایا جاسکے۔
اورآخر میں ’عملی کام‘ کے طور پر سبق کی روشنی میں طلبا
وطالبات سے سبق سے متعلق چند کاموں کی پیش کش کی جائے تاکہ ان کی آموزش میں پختگی آسکے،جو
ان کے مستقبل کو بنانے اور سنوارنے میں ممدومعاون ثابت ہو۔
اس طور پر ایک استاد پوری تیاری کے ساتھ ایک سبق کو بہتر
سے بہتر طریقے سے پیش کرنے اور سبق کو آسان سے آسان تر بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا
ہے جس کی آج کے موجودہ دور میں بہت ضرورت ہے۔
Saud Alam
B.114, Okhla Main Market
Jamia Nagar
New Delhi- 110025
Mob: 8076495936
saudalam1983@gmail.com
ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020
مضمون تو بہت اچھا لکھا گیا ہے۔ لیکن میرے خیال میں میں ثانوی درجات میں قصیدے کو نصاب میں شامل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ قصیدہ کب اور کیوں لکھا جاتا تھا یہ سب کو معلوم ہے۔ آج کے دور میں قصیدے کے معنی کے حساب سے اس کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہیں۔ کم ازکم طالبات کو قصیدے جیسی چیز مناسب نہیں۔ انہیں تنقیداور تعریف کا فرق پتہ ہونا چاہیے۔ پہلے کی طرح قصیدے کا کا نام باقی رکھنا ٹھیک ہوگا۔مبالغہ آرائی اب صرف اردو میں ہی رہ گئی ہے۔ جو قصیدے کا خاص جز ہے۔ایسی تعلیم دی جانی چاہیے جس سے وہ ایک آزاد خیال بنے اور ایک اچھا نظریہ قائم کرے۔ اور موجودہ دور سے جوڑنے والی لی علی مواد جوڑنے والی چیزیں شامل کی جانی چاہئے۔
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
جواب دیںحذف کریںبرادر عالی مرتبت
امید کرتا ہوں کہ آپ بخیر ہوں گے
مضمون نہایت ہی جامع اور مانع ہے خاص طور سے ان لوگوں کے لیے جن کا تعلق درس و تدریس سے ہے۔
آپ کو تو ویسے بھی عقیدتا و احتراماً میں روز اول سے ہی استاد ہی کہتا ہوں اور آپ بھی مجھے اپنی محبتوں سے نوازتے رہتے ہیں۔
اسی سلسلے کی ایک اضافی کڑی ہے کہ میں نے آپ کے اس گراں قدر سرمایہ سے استفادہ کرکے آج اپنی کلاس میں بچوں کو پڑھایا۔
اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی آپ اسی طرح درس و تدریس سے متعلق عملی کام کر کے عوام کو مستفیض کرتے رہیں۔
شکریہ 💐
آپ کا بھائی جیسا شاگرد
امتیاز احمد بہاری فرام موتیہاری