11/5/20

تعلیم اساتذہ کے عصری تقاضے مضمون نگار: محمد افروزعالم




تعلیم اساتذہ کے عصری تقاضے
محمد افروزعالم
تعلیم کا اولین مقصد انسان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی نشوونما کرنا ہے۔ حصولِ تعلیم کے لیے قابل اساتذہ بے حد ضروری ہیں جو طلبہ کو تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ تعلیم محض معلومات کو طلبہ کے ذہنوں تک پہنچادینے کا نام نہیں۔ بلکہ ان کے ذہنوں کو جلا بخشنے، انھیں سوچنے کا صحیح اسلوب سکھانے، ان میں ذوق نظری اور تنقیدی نگاہ پیدا کرنے اور انھیں فکری اجتہاد کے قابل بنانے کا نام ہے۔ تو یہ مقاصد ہم اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ قابل، باصلاحیت اور تربیت یافتہ استاد دستیاب نہ ہوں۔حقیقی استاد وہ ہے جو طلبہ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور انھیں شعور و ادراک، علم و آگہی نیز فکر و نظر کی دولت سے مالامال کرے۔ رابرٹ فراسٹ نے کہا تھا کہ ”میں پڑھاتا نہیں جگاتا ہوں“۔ جن اساتذہ نے اپنی ذمہ داری کو بہتر طریقے سے نبھایا ان کے شاگرد آخری دم تک ان کے احسان مند رہتے ہیں۔
طلبہ کی تعلیمی تشکیل اور ان کی تربیت میں بہت سے عوامل کارفرماہوتے ہیں۔ ان عوامل میں مادری تربیت، ماحول، دوست واحباب، تعلیمی ادارے اور ذرائع ابلاغ اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل وہ  اساتذہئ کرام ہیں جن کے بغیر طلبہ اور معاشرے کی تشکیل اور ترقی ممکن نہیں۔ ایک استاد کا اپنے مضمون کے ساتھ ساتھ تدریس کے شعبے میں ماہر ہونا بھی لازمی ہے۔ استاد کو نہ صرف اپنے مواد ومضمون پر مکمل مہارت ہونی چاہیے بلکہ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مضمون کس طرح پڑھانا ہے؟ تدریس کے کون سے طریقے استعمال کرنے ہیں؟ اور ان طریقوں کے استعمال کے کیا فوائد و نقصان ہوسکتے ہیں؟ استاد کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے پاس کیا وسائل ہیں؟ اور ان وسائل کو کس طرح استعمال کرنا ہے؟ عصر حاضر میں استادکو جدید اطلاعاتی اور ترسیلی ٹکنالوجی کا استعمال آنا چاہیے اور کسی سہولت کی عدم دستیابی میں بھی پڑھانے کا سلیقہ آنا چاہیے۔
وقت کے ساتھ ساتھ تدریس کے مراحل میں اضافہ اور طریقہئ کار میں مسلسل تبدیلی واقع ہوتی جارہی ہے۔ لہٰذا شعبہ تعلیم و تربیت میں داخلہ لینے والے یعنی اساتذہ کی اپنی تیاری کا کام بھی سائنسی انداز اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جب یہ اساتذہ اپنے تربیتی کورس سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو مختلف عمر وں اور جماعتوں کے طلبہ کی تعلیم و تدریس کے فن سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں۔
تدریس کوئی جزوقتی پیشہ نہیں بلکہ اساتذہ کو اپنے طلبہ کی فلاح و بہبود کے لیے ہمہ وقتی ذہنی اور جسمانی محنت و مشق کے لیے تیار رہنا ہوتا ہے۔ کمرہئ جماعت میں انھیں جو سبق پڑھانا ہے، اس کے لیے ایک روز قبل سبق کے تمام مراحل کا منصوبہ بنانا پڑتا ہے جسے سبق کی منصوبہ بندی کہتے ہیں۔ پھر کمرہئ جماعت میں طلبہ کی خوبیوں اور خامیوں کے مدِنظر اسی مناسبت سے ان پر توجہ بھی دیتے ہیں۔ سبق کے اختتام پر عمومی جائزہ لے کر نتائج کا اندازہ کیا جاتاہے اور آخر میں گھر کا کام تفویض کرتے ہیں۔ یہ تدریس و اکتساب کا سائنسی طریقہ بھی ہے۔
علمی قابلیت اور صلاحیت کو بڑھاتے رہنا اساتذہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جو مضامین پڑھانا ہے، ان سے متعلقہ مطلوبہ تمام معلومات طلبہ کو فراہم کی جائیں۔ یہ تب ہوسکتا ہے جب آپ خود ان سے مالامال ہوں۔ تدریس کے لیے مفوضہ فن میں قابلیت اور متعدد معلومات کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مباحث کا مربوط انداز میں تجزیہ کرکے پڑھائیں۔
تدریس کے مختلف طریقے ہیں، ان میں سے ایک ہی طریقہ ہر حالت اور ہر ماحول کے لیے مناسب نہیں ہوتا بلکہ اساتذہ کو مختلف اوقات اور احوال کے مطابق مفید سے مفید تر طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ طلبہ کے لیے سب سے مفید طریقہ وہ ہوتا ہے جس طریقے سے وہ سبق سمجھ سکیں اور اساتذہ کے لیے بھی بہتر طریقہ وہی ہے جس سے وہ آسانی کے ساتھ سبق سمجھا سکیں۔ تدریس کے لیے ہمیشہ ایک ہی طریقہ اور اسلوب اپنانا ایسی چیز ہے جو طلبہ کو سستی اور پریشانی میں مبتلا کردیتی ہے۔ اس لیے ہر سبق کو پڑھانے کے لیے نیا اسلوب و طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ طلبہ میں نشاط پیدا کرنے کے لیے ان سے بھی کام لیا جائے۔
افلاطون نے کہا تھا کہ بہترین معاشرہ تشکیل دینے کے لیے بہترین نظام تعلیم ضروری ہے، لیکن دوسری طرف کسی بھی معاشرے کا تعلیمی نظام اس معاشرے کے مجموعی ثقافتی معیار سے مشروط ہے۔
بقول علامہ اقبال معلم کا فرض تمام فرائض سے زیادہ مشکل او راہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور تمام قسم کی ملکی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے۔
بقول ڈاکٹر ذاکر حسین استاد وہاں امید کرتا ہے جہاں دوسرے دل چھوڑ دیتے ہیں، وہاں تازہ دم رہتا ہے جہاں دوسرے تھک جاتے ہیں، اسے وہاں روشنی دکھائی دیتی ہے جہاں دوسرے اندھیرے کی شکایت کرتے ہیں۔
بقول خواجہ غلام السیدین معلم کے پیشے کی ایک خصوصیت ایسی ہے جو اسے تقریباً تمام پیشوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اسے اپنے طلبہ کے دل ودماغ اور روح سے براہِ راست سابقہ پڑتا ہے اور ان پر اس کی شخصیت، فلسفہئ زندگی، اس کے طرز عمل کا اثر بالواسطہ پڑتا ہے۔
سید حامد کے مطابق بچوں کو پڑھانا صرف ان لوگوں کا حق ہے جن کو بچوں سے متعلق جانکاری ہو۔
*        معلم کا کام طلبہ کی تربیت اور اصلاح، معلومات کی منتقلی اور اپنے مثالی کردار کا تاثر قائم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ ٹھوس حقائق کو بے رنگ انداز میں بیان نہ کر ڈالے بلکہ اپنی شگفتہ بیانی اورشیریں مقالی سے اپنے درس کو دلچسپ او رپر کشش بنائے۔
*        ایک استاد کو ماہر مضمون ہونا چاہیے۔ایک استاد کو فن تدریس او رطریقہئ تدریس میں بھی ماہر ہونا چاہیے تاکہ وہ علم کو مؤثر طور پر منتقل کرسکے۔ ایک استاد کو منفرد شخصیت کا حامل ہونا چاہیے۔ کیونکہ تدریس میں استاد کا اپنا ذاتی تشخص بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ استاد کی انفرادیت اور شخصی عادات و اوصاف کو مؤثر تدریس سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ استاد کی شخصیت، طلبہ کی تعلیم و تربیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس ضمن میں متوازن نقطہئ نظر یہی ہے کہ استاد نفسِ مضمون او رطریقہئ تدریس کے سائنسی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اخلاق، متحرک، ادب شناس اور مقصد حیات سے باخبر منفرد شخصیت کا حامل بھی ہو۔
*        اچھا استاد ذوق مطالعہ و تحقیق رکھتا ہے۔ پوری زندگی طالب علم رہتا ہے اور ہمیشہ حصول ِعلم کا شائق ہوتا ہے۔
*        معلم او رمتعلم دونوں قابل احترام ہیں یعنی معلم کو متعلم کا اور متعلم کو معلم کا احترام کرنا چاہیے۔ معلم تربیت کی خاطر اگر سختی بھی کرے تواسے جذبہئ رحمت کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ معلم کو اس تدریسی اصول کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ استاد او رشاگرد کے درمیان باہمی احترام کی فضا بحال کیے بغیر بہتر اور خوشگوار تعلیمی ماحول ممکن نہیں۔
*        سوال اٹھانااور سوالات کا خیر مقدم کرنا بھی منصب تدریس کا لازمی جز ہے۔
*        ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ اساتذہ آج اس پیشے کو مجبوری میں اپناتے ہیں اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب کوئی اور شعبہ حیات میں مقام نہیں بناپاتے تو اس کو اختیار کرتے ہیں جو سراسر اس فرض سے ناانصافی ہے۔
*        موجودہ وقت میں تعلیم ایک کاروبار کی حیثیت اختیار کرگئی ہے جس نے معلم کے مقام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
*        استاد کا کام صرف بچوں کو تعلیم دینا نہیں بلکہ ان کی تربیت کرنا بھی ہے۔ بچوں کی تربیت سازی میں اساتذہ کا کردار کم ہورہا ہے۔ لہٰذا اسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
*        درس و تدریس کے عمل میں اساتذہ کو ایک انتہائی اہم اور قابلِ عزت مقام حاصل ہے۔ اساتذہ اپنے پیشے سے منسلک رہ کر نئی نسل کو نت نئے علوم اور درس دے کر انھیں ایک مہذب انسان بناتے ہیں۔ استاد کو اپنے پیشے سے تو اتر کے ساتھ منسلک ہونا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ لمبے عرصے تک درس وتدریس کے عمل سے دوری کی صورت میں اس کی مہارت اور علم دونوں متاثر ہوتے ہیں۔

تعلیم اساتذہ کے عصری مواقع:

تعلیم و تدریس کے مسلسل فروغ کے باعث اس شعبے میں روزگار کی گنجائش او رمواقع بھی زیادہ ہیں۔ ڈی۔ایل ایڈکی ڈگری کے بعد ابتدائی اور تحتانوی سطح کے اسکولوں میں مواقع دستیاب ہیں۔ جب کہ بی۔ ایڈ کی ڈگری کے بعد ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے اسکولوں میں تدریسی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ایم۔ ایڈ کی ڈگری کے بعد کالج آف ٹیچر ایجوکیشن، ٹیچرس ٹریننگ کالج، ڈسٹرکٹ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ (DIET) اور یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیمات میں تدریسی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
موجودہ وقت میں مرکزی حکومت کی جانب سے سنٹرل بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن (CBSE) کے ذریعہ سنٹرل ٹیچر الجبلیٹی ٹسٹ (CTET) امتحان منعقد کیاجاتا ہے۔ جس میں کامیاب ہونے پر مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کے تحتانوی،ثانوی اور اعلیٰ ثانوی اسکولوں میں بطور اساتذہ تقرری ہوتی ہے۔ حال ہی میں جاری کردہ سنٹرل ٹیچر الجبلیٹی ٹسٹ دسمبر 2018 کے نتائج میں مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہئ تعلیم وتربیت کے لیے بڑی خوشخبری لے کر آیا۔ نتائج کے مطابق سینکڑوں طلبہ نے اپنی کامیابی درج کروائی۔ زیادہ تر طلبہ نے سی ٹی ای ٹی کی دونوں سطحوں پر کامیابی حاصل کی۔ واضح رہے کہ نیشنل کونسل فار ٹیچر ایجوکیشن (NCTE) کی ہدایات اور رہنماخطوط کی بنیاد پر باصلاحیت اساتذہ کی فراہمی کے لیے قومی سطح پر اس ٹسٹ کا انعقاد کیاجاتا ہے، جو طلبہ کی کیندریہ ودیالیہ، نودے اسکول ودیگر مرکزی وریاستی اسکولوں میں بھرتی کے لیے معاون ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ مختلف ریاستی حکومتوں کے ذریعہ اسٹیٹ ٹیچر الجبلیٹی ٹسٹ (STET) کا بھی انعقاد کیاجاتا ہے، اس میں بھی سینکڑوں طلبہ کا میاب ہوچکے ہیں۔ اس ضمن میں ابتدائی اور ثانوی اسکولوں کے لیے عصری تقاضوں کی روشنی میں زیر تربیت معلمین کی تربیت کرتے ہوئے اردو ذریعہئ تعلیم سے بہترین اساتذہ تیار کرنے کے لیے مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اسکول برائے تعلیم وتربیت قائم ہے۔ اس اسکول کے تحت ایک شعبہئ تعلیم وتربیت اور آٹھ کالجز آف ٹیچر ایجوکیشن چلائے جارہے ہیں۔ ان کا مقصد درس وتدریس میں دلچسپی رکھنے اور کیریئر بنانے والے افراد کی تربیت کرنا ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ ملک گیر سطح پر نہ صرف برسرِ روزگار ہورہے ہیں بلکہ زیر تعلیم طلبہ بھی مختلف مقابلہ جاتی امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کررہے ہیں۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اسکول برائے تعلیم وتربیت سے منسلک مرکز پیشہ وارانہ فروغ برائے اساتذہ اردو ذریعۂ تعلیم (CPDUMT) بھی اس ضمن میں اہم رول نبھا رہا ہے۔ اس کے ذریعہ اردو ذریعہ تعلیم کے اسکولوں اور دینی مدرسوں سے وابستہ اساتذہ کی تدریسی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔ تاکہ اساتذہ کو تعلیم وتدریس کے شعبے میں آرہی تبدیلیوں سے واقف کرایا جائے اور اردو ذریعہئ تعلیم کے تدریسی معیار کو بلند کیاجاسکے۔ جس سے اردو کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ عصری تقاضوں کو پورا کرسکیں۔
حوالے:
.1       خواجہ غلام السیدین، اصولِ تعلیم، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔
.2       ڈی ایس گورڈن، اصول تعلیم اور عمل تعلیم، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔
.3       محمد مجیب، قومی سوانح حیات کا سلسلہ:  ڈاکٹر ذاکر حسین، نیشنل بُک ٹرسٹ، انڈیا۔
.4       محمد اکرام خاں، مفکرین تعلیم، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی۔
.5       محمد اختر صدیقی، تدریسی۔آموزشی حکمتِ عملیاں، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی
.6       محمد افروز عالم، تعلیمی نفسیات کے جدید تصورات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
.7       www.manuu.ac.in
.8       www.ctet.nic.in
.9       www.ncte-india.org

Dr. Md. Afroz Alam
Assistant Professor
Dept. of Education & Training
Maulana Azad National Urdu University
Gachibowli, Hyderabad - 500032
Email: afrozmanuu@gmail.com
Mobile: +918885472844


ماہنامہ اردو دنیا، اپریل2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں