آگرہ بازار کے آئینہ میں نظیر اکبرآبادی کی شخصیت اور شاعری
رضوان الحق
نظیر اکبرآبادی عوام کے شاعر تھے اور وہ ایسے
زمانے میں پیدا ہوئے جب عوام کی کوئی سماجی، تہذیبی تاریخی و سیاسی حیثیت نہ تھی۔ سب
کچھ بادشاہ اور اشرافیہ کے لیے تھا، اس لیے اس زمانے میں نظیر اکبرآبادی کی کوئی شناخت
نہ بن سکی۔ انھیں اس زمانے کے تذکروں اور تہذیبی تاریخوں میں کوئی جگہ نہ مل سکی۔ لیکن
جیسے جیسے زمانہ تبدیل ہوا اور عوام الناس کی اہمیت بڑھی، نظیر اکبرآبادی کی حیثیت
بھی بدلتی گئی، پہلے حاشیے میں ان کا ذکر شروع ہوا، پھر مرکزی دھارے میں آئے اور ایک
وقت ایسا بھی آیا کہ احتشام حسین کی ’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘ میں نظیر اکبرآبادی
اردو کے واحد ایسے شاعر ٹھہرے جن پر ایک علیحدہ باب لکھا گیا، میر و غالب پر بھی علیحدہ
باب کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی۔ اس طرح تنقید نے نظیر اکبرآبادی کی قدر و قیمت کے تعین
میں انتہا پسندی سے ہی کام لیا ہے، چاہے وہ
ان کی حمایت کرنے والے ہوں یا ان کو نظر کرنے والے ہوں۔
یوں تو نظیر اکبرآبادی کا ذکر 1936 سے پہلے
بھی ہونے لگا تھا لیکن ترقی پسند تحریک نے نظیر اکبرآبادی کی معنویت کو سب سے زیادہ
قبول و مقبول کیا۔ اسی سلسلے میں 1954 میں حبیب تنویر نے نظیر اکبرآبادی کی حیات و
شاعری پر ایک ایسا ڈراما اسٹیج کیا، جس نے نہ صرف نظیر اکبرآبادی کو غیر معمولی شہرت
دلائی بلکہ خود حبیب تنویر ہندستانی ڈرامے کی دو ہزار سالہ تاریخ میں ایک روشن باب
بن کر ابھرے اور یہ ڈراما ہندستان کی سر زمین پر اب تک کھیلے گئے چند بہترین ڈراموں
میں شمار ہونے لگا۔ جنھوں نے یہ ڈراما صرف پڑھا ہے دیکھا نہیں ہے، وہ اس ڈرامے کی عظمت
کا صحیح تصور نہیں کر سکتے ہیں۔ ڈراما کے مقام کا تعین اسٹیج کیے گئے ڈرامے سے ہی ہوتا
ہے۔ شائع شدہ متن سے نہیں۔ میں نے بھی جب تک اسے دیکھا نہیں تھا، صرف پڑھا تھا تب تک
اسے اتنا عظیم ڈراما نہیں سمجھتا تھا۔ نظیر اکبرآبادی کو ان کی شاعری کے بعد جس ایک
چیز نے سب سے زیادہ مقبول کیا، وہ حبیب تنویر کا ڈراما آگرہ بازار ہے بلکہ اردو کے
ادبی حلقے سے باہر اگر آج لوگ نظیر اکبرآبادی کو جانتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ
یہی ڈراما ہے۔ اس ڈرامے کی وجہ تخلیق کے سلسلے میں حبیب تنویر نے آگرہ بازار کے دیباچے
میں لکھا ہے۔
”اطہر پرویز کا ٹیلی
فون آیا کہ ۴۱ مارچ کو جامعہ ملیہ
میں انجمن ترقی پسند مصنّفین، جامعہ ملیہ کی طرف سے یوم نظیر منایا جا رہا ہے، کیا
ہی اچھا ہو کہ میں اس سلسلے میں نظیر پر ایک ڈراما تیار کرا دوں۔“ 1
یہ بات 1954 کی ہے، جب اس ڈرامے کی داغ بیل
پڑی، یہ وہ زمانہ تھا جب انگریزوں سے آزادی ملے چند ہی برس ہوئے تھے اور عوام الناس
کے خواب اور امنگیں جواں تھیں۔ حبیب تنویر اپنے زمانے کی نبض کو صحیح سے سمجھ رہے تھے۔
اس ڈرامے میں وہ تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل کے ایک شاعر اور اس کی شاعری کی بات کر رہے
تھے۔ لیکن اس کے ذریعے وہ اپنے زمانے کے جذبات کی عکاسی بھی کر رہے تھے۔ اس سے قبل
ہندستانی تاریخ و تہذیب میں کبھی بھی کسی ککڑی بیچنے والے کو، کسی لڈو بیچنے والے کو،
کسی تربوز بیچنے والے کو، کسی پان بیچنے والے کو اورکسی مداری کا تماشا دکھانے والے
کو وہ اہمیت نہیں ملی تھی جو آگرہ بازار میں ملی، نظیر اکبرآبادی نے ان لوگوں کو اہمیت
دی تھی لیکن خود انھیں نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حبیب تنویر اپنے
وقت کے ساتھ چل رہے تھے اور نظیر اکبرآبادی اپنے وقت سے بہت پہلے آ گئے تھے۔ اگر یہ
ڈراما آزادی سے قبل یا ترقی پسند تحریک شروع ہونے سے قبل لکھا گیا ہوتا تو یقینا یہ
اپنی موجودہ شکل میں نہ ہو کرکسی اور شکل میں ہوتا اور نہ اس ڈرامے کو اس طرح ہاتھوں
ہاتھ لیا جاتا جس طرح اسے لیا گیا۔
اب اگر اس ڈرامے کا جائزہ لیا جائے تو اس جائزے
کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول اس ڈرامے میں نظیر اکبرآبادی
کی شخصیت اور دوم اس ڈرامے میں نظیر اکبرآبادی کی شاعری۔ میں پہلے اس ڈرامے میں نظیر
اکبرآبادی کی شخصیت پر بات کرنا چاہوں گا اس کے بعد ان کی شاعری پر۔ لیکن سب سے پہلے
ہم اپنے زمانے کے ایک شاعر احمد محفوظ کا ایک شعر پڑھنا چاہوں گا، جو اس ڈرامے میں
نظیر اکبرآبادی کی شخصیت کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے۔ شعر اس طرح ہے ؎
کہاں ہوتے جو ہم موجود ہوتے
نہ ہونا ہی تو ہے ہونا ہمارا
اس پورے ڈرامے کے دوران نظیر اکبرآبادی اسٹیج
پر نظر نہیں آتے ہیں، لیکن اسٹیج پر موجود تمام کرداروں کے حواس پر وہ کچھ اس طرح چھائے
ہوئے ہیں کہ ہر جگہ نظیر ہی نظیر محسوس ہوتے ہیں۔ نظیر اکبرآبادی کو مرکز میں رکھ کر
اور جشن نظیر منانے کے لیے تیار کیے گئے ڈرامے میں پورے ڈرامے کے دوران خود نظیر کا
اسٹیج پر نہ آنا اپنے آپ میں ایک حیرانی کی بات ہے، سوال اٹھتا ہے حبیب تنویر نے ایسا
کیوں کیا؟ اس سلسلے میں حبیب تنویر رقم طراز ہیں:
”مطالعے کے دوران نظیر
کے کلام سے میری دلچسپی تو ضرور بڑھتی چلی گئی لیکن ساتھ ہی ڈراما لکھنے کے سلسلے میں
میری الجھنیں بھی بڑھ گئیں۔ میں ڈرامے کی کشمکش کی تلاش میں تھا، نظیر کے حالات زندگی
معلوم کر رہا تھا۔ اور ان کے حالات کی تصدیق و تحقیق کے لیے سندیں ڈھونڈ رہا تھا کہ
مجھے یکایک اردو شاعری کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈراما مل گیا۔“ 2
حبیب تنویر اردو شاعری کی تاریخ کے اس بڑے ڈرامے
کی وضاحت کرتے ہوئے آگرہ بازار کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ نظیر اکبرآبادی کا نام کسی
ناقد یا تذکرہ نویس نے ان کی تقریباً سو سالہ زندگی میں کسی نے نہیں لیا اور ان کے
انتقال کے سو سال بعد تک بھی کسی نے اس شاعر کا ذکر نہیں کیا لیکن عوام نے اسے زندہ
رکھا اور اس کی نظمیں سینہ بہ سینہ چلتی رہیں۔ ان کی نظمیں فقیر اور درویش شمال سے
جنوب تک گاتے رہے۔ نظیر اکبرآبادی کی زندگی اور شاعری کا یہی سب سے بڑا ڈراما ہے اور
تاریخِ ادب کا سب سے دلچسپ باب۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ نظیر کے حالات زندگی معلوم کرنے
میں جو دشواریاں پیش آئیں وہی ڈرامے کے حق میں رحمت بن گئیں، ڈرامے کی تکنیک اور موضوع
کے تعین میں یہ بات معاون ثابت ہوئی۔ اس سے ظاہر ہے کہ ادبی تاریخوں نے نظیر اکبرآبادی
کی زندگی کے حالات درج نہیں کیے۔ شاعری بھی کتابوں میں محفوظ نہ ہو سکی، لیکن عوام
نے ان کی شاعری کو اپنے سینوں میں بسا لیا اور اسے زندہ رکھا۔ جب مستند حالات زندگی
ہی نہ معلوم ہوں تو اور کیا کیا جا سکتا تھا؟ یہی وجہ بنی کہ پورے ڈرامے میں کہیں بھی
نظیر اکبرآبادی کو اسٹیج پر نہیں لایا گیا۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ڈرامے سے نظیر اکبرآبادی
کی شخصیت کس طرح ابھرتی ہے؟اسے ڈرامے کی ہی چند مثالوں کے ذریعے نمایاں کیا جائے گا۔
اس ڈرامے کا ایک اہم کردار تذکرہ نویس نظیر اکبرآبادی کی شخصیت کا تجزیہ اس طرح کرتا
ہے۔
”بھئی، بہت باغ و بہار
آدمی ہیں۔ خوش مزاج شگفتہ افتاد، ہر شخص سے ہنس کر ملنے والا، کسی کا دل نہ دکھانے
والا، ایسا کہ شاید جس کی مثال دنیا میں مشکل سے ملے گی۔ لیکن شاعری آں چیزِ دیگر است“۔
فحش کلامی، ہرزہ گوئی، ابتذال اور عامیانہ مذاق کی تکبندی کو ہم نے شعر نہیں مانا۔
میاں نظیر کو شاعر ماننا ان پر بہت بڑا بہتان ہوگا۔ شعرا کے تذکرے میں ان کی کوئی جگہ
نہیں۔“ 3
ایسا نہیں ہے کہ اس ڈرامے میں سبھی لوگ نظیر
اکبرآبادی کی شخصیت کے قائل ہی ہوں اور سب ان کی تعریف ہی کرتے ہوں، تذکرہ نویس دنیاوی
معاملوں میں ایک معتدل شخص ہے، اگرچہ شاعری کے معاملے میں وہ اپنا ایک مخصوص مذاق رکھتا
ہے اور اس پیمانے پر نظیر پورے نہیں اترتے لیکن بطور انسان وہ اس کی عزت کرتے ہیں۔
آگے پتنگ والا جب یہ کہتا ہے ”میں گیا تھا میاں نظیر کے ساتھ تیراکی کا میلا دیکھنے۔“
4 پتنگ والے کی یہ بات سن کر اس سے چند قدموں کی دوری پر اپنی دکان پر بیٹھا کتاب والا
اپنے دوستوں سے کہتا ہے۔ ”سن لیا حضور، میاں نظیر دریا کنارے نیم عریاں پریوں کا تماشا
دیکھنے گئے تھے، پیری میں بھی وہی عالم ہے۔“5 اس مکالمے سے واضح ہے کہ کتاب والا نظیر
اکبرآبادی کی کردار کشی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک سیدھی سادی سی بات کا کہ میاں نظیر
جمنا پر ہونے والا پیراکی کا تماشا دیکھنے گئے تھے، یہ فعل آگرہ کی عوامی زندگی کا
بہت اہم جز ہے لیکن کتاب والا نظیر اکبرآبادی کے اس فعل کو نیم عریاں پریوں کا تماشا
دیکھنے سے تعبیر کرتا ہے، وہ بھی ان کی پیری کے زمانے میں۔
اس ڈرامے میں پتنگ والا دراصل ایک ایسا شخص
ہے جو نہ صرف نظیر اکبرآبادی کا معتقد ہے بلکہ دوست بھی ہے، جو آگرہ کی عوامی سرگرمیوں
میں نظیر اکبرآبادی کے ساتھ شامل رہتا ہے۔ وہ نظیر اکبرآبادی کی شخصیت سے متعلق ایک
قصہ یوں بیان کرتا ہے۔
”میاں نظیر نے ایک چابک
جو اس کو رسید کی تو وہ منظور حسین کو لگتی ہوئی ٹٹو کو لگی۔ میاں نظیر ٹٹو سے اتر
پڑے زبردستی ان کے ہاتھ میں چابک دے کر کہا۔ میاں میرے بھی ایک جڑ دو، انھوں نے بہت
منت کی، وہ نہ مانے۔ آخر مجبوراً منظور حسین نے چابک لے کر ذرا سا ان کے چھوا دیا اور
دوڑے ہوئے میرے پاس آئے۔ مجھ سے سارا حال بتایا اور گھر جاکر پڑ رہے۔ دو دن تک کھانا
پینا سب موقوف۔ جب میاں نظیر نے میری زبانی یہ حال سنا تو بے چین ہو کر ان کے پاس گئے۔
انھیں اپنے گھر لے گئے، خاطر تواضع کی۔ ان کے ساتھ ہولی کھیلی، مٹھائی کھلائی، اپنی
نظمیں سنائیں۔“ 6
اس واقعے سے ظاہر کہ نظیر اکبرآبادی کس قدر
انصاف پسند ہیں اور اگر غلطی سے بھی کوئی بری بات ہو جائے تو اس کا پورا انصاف چاہتے
ہیں، صرف زبانی معافی پر اکتفا نہیں کرتے۔ نظیر کی شخصیت سے متعلق ایک اور واقعہ بہ
زبان نظیر کی نواسی سنیے۔
”میں بتاؤں! ہمارے نانا
پیسے کو ہاتھ نہیں لگاتے، جیسے ہم کو اماں کہتی ہیں نا کہ گندی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا
چاہیے ویسے ہی۔“7
در اصل نظیر اکبرآبادی اپنی ذاتی زندگی میں
ایک صوفی صفت انسان تھے اگرچہ وہ گدی نشین صوفی نہیں ہیں، شہر کی تمام سرگرمیوں میں
پوری دلچسپی کے ساتھ حصہ لیتے ہیں لیکن صوفیہ کی اس صفت کو پورے اعتقاد کے ساتھ نبھاتے
ہیں۔ پیسے کو ہاتھ نہ لگانے کی طریقت کو پتنگ والا اس طرح بیان کرتا ہے۔
پتنگ والا: روپیوں کی تھیلی لیے نواب سعادت
علی خاں کے پاس سے آدمی آیا۔ رات بھر روپیہ گھر میں پڑا رہا اور روپیے کی وجہ سے میاں
نظیر کو نیند نہ آئی، صبح کو جواب میں کہلا بھیجا کہ ذرا سے تعلق سے تو یہ حال ہے،
اگر زندگی بھر کا ساتھ ہو گیا تو نہ جانے کیا ہوگا۔ بلاوے بہت آئے، پر میرا یار آگرے
سے نہ ٹلا۔ ہر بار یہ کہہ کر ٹال گیا کہ میں ماشے بھر کا قلم چلانے والا، میری کیا
مجال! بس یہیں بیٹھے بیٹھے ساری دنیا دیکھ لی۔ کہتے ہیں۔
سب کتابوں کے کھل گئے معنی
جب سے دیکھی نظیر دل کی کتاب8
اس ڈرامے میں نہ صرف نظیر کی شخصیت پوری آب
و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے بلکہ وہ کہاں رہتے ہیں؟ کیسے لباس پہنتے ہیں، ان کی شکل و
صورت کیسی ہے ان سب کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اگر آج کے تناظر میں نظیر اکبرآبادی
کی شخصیت دیکھیں تو ان میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جمہوری اقدار میں یقین رکھتے
ہیں۔ بقول پتنگ والا ”میاں نظیر کی نگاہ میں آدمی آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ وہ پتنگ
بنانے والا ہو، چاہے کتاب بیچنے والا، ان کے لیے تو بس آدمی ہے۔“
9نظیر کی یہی وہ فکر
تھی جس کی وجہ سے تاریخ ادب میں نظر انداز کر دیے جانے کے باوجود، عوام نے انھیں اپنے
سینے میں بسائے رکھا۔
نظیر اکبرآبادی نے خود اپنی شخصیت کے بارے میں
ایک نظم کہی تھی، اس میں وہ اپنے بارے کئی اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ
ہے کہ آج ہم جس تصویر کو نظیر اکبرآبادی کی تصویر سے پہچانتے ہیں، دراصل وہ ان کی نظم
کو پیش نظر رکھ کر کسی مصور نے بنائی تھی۔ ان کی کوئی اصل تصویر موجود نہیں ہے، اس
وقت کیمرا تو وجود میں ہی نہیں آیا تھا۔ آئیے اب وہ نظم ملاحظہ فرماتے ہیں ؎
کہتے ہیں جس کو نظیر سنیے ٹک اس کا بیاں
تھا وہ معلم، غریب، بزدل، و ترسندہ جاں
سست روش، پستہ قد، سانولہ ہندی نژاد
تن بھی کچھ ایسا ہی تھا، قد کے موافق عیاں
ماتھے پہ اک خال تھا، چھوٹا سا مسے کے طور
تھا وہ پڑا آن کر، ابروؤں کے درمیاں
وضع سبق اس کی تھی، تس پہ نہ رکھتا تھا ریش
مونچھیں تھیں اور کانوں پر پٹے بھی تھے پنباں
ساں
پیری میں جیسی کہ تھی کہ اس کو دل افسردگی
ویسی ہی تھی ان دنوں جن دنوں میں تھا جواں
فضل سے اللہ نے اس کو دیا عمر بھر
عزت و حرمت کے ساتھ پارچہ و آب و ناں
آگرہ بازار میں نظیر اکبرآبادی کی شاعری:
اب ہم آگرہ بازار میں نظیر کی شاعری پر بات
کریں گے۔ اس ڈرامے میں نظیر اکبرآبادی کی شاعری کے دو پہلو ہیں اول وہ جو ان کی شاعری
پر اس کے کردار بات کرتے ہیں، یہی اس ڈرامے کا مرکزی خیال ہے اور دوم وہ شاعری جو اس
ڈرامے میں استعمال ہوئی ہے، ان کی شاعری کی عظمت کی دلیل کے طور پر بھی اور نظیر اکبرآبادی
کے پیغام کے طور پر بھی۔
اس ڈرامے میں جب پہلی بار نظیر اکبرآبادی کا
ذکر ہوتا ہے وہ ذکر کتاب والے اور ایک شاعر کے درمیان کا مکالمہ ہے۔
”کتاب والا: میاں نظیر
کے ایک شاگرد حال ہی میں میرے پاس آئے، ان کی ایک نظم کو لے کر کہ کیا میں اسے اپنے
رسوخ سے شائع کروا سکتا ہوں۔ اب بھلا بتائیے، کون پڑھے گا میاں نظیر کا کلام؟
شاعر: صاحب، ایک زمانہ آنے والا ہے کہ یہی بازاری
چیزیں چلیں گی۔ ہولی یا دیوالی پر کچھ تکبندی کر لیجیے، علم و فضل کی معراج پر پہنچ
جائیے گا۔ یہ تو ذوق کا عالم ہے آج کل۔ ابھی ابھی یہ ککڑی والا میرے پاس دوڑا ہوا آیا
اور کہنے لگا: ’صاحب، میری ککڑی پر نظم لکھ دیجیے‘۔“10
یہ مکالمے اس وقت کے اشرافیہ کی ذہنی کیفیت
اور ان کے شعری رویے کا اشاریہ ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ نظیر کا کلام پڑھنے لائق نہیں
ہے اور ان کے شاگرد اسے شائع کروانا چاہتے ہیں، اس لیے کتاب والا نظیر کی شاعری کا
مضحکہ اڑاتے ہیں۔ ان کی شاعری کو ہولی دیوالی پر قافیہ پیمائی کہتے ہیں۔ لیکن شاعر
آنے والے وقت کو بھی سمجھ رہا ہے اور کہتا ہے کہ آنے والے زمانے میں یہی چیزیں چلیں
گی، اس صورت حال کو وہ زوال سے تعبیر کرتا ہے۔ لیکن آج یہ حقیقت زوال کی نشانی نہیں
بلکہ سماجی مساوات کی جدو جہد ہے۔
شاعری اور موسیقی ڈرامے کا ایک لازمی حصہ ہمیشہ
سے رہی ہے، چاہے ہم عالمی سطح پر کسی زبان کی بات کریں یا اردو ڈرامے کی روایت کو دیکھیں۔
آگرہ بازار سے قبل جو ڈرامے کھیلے جا رہے تھے چاہے وہ پارسی تھیٹر ہو یا اپٹا اور دیگر
اداروں کے ذریعے کھیلے جا رہے ڈرامے ہوں۔ ان سب میں موسیقی اور شاعری زیادہ تر ڈرامے
کی زیبائش کے لیے استعمال ہوتی تھی، وہ ڈرامے کا داخلی حصہ نہیں بن پاتی تھی۔ آگرہ
بازار کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے شاعری اور موسیقی کو ڈرامے کا داخلی حصہ بنا لیا ہے۔
ان کے بغیر اس ڈرامے کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب ہم یہ ڈراما دیکھتے نہیں
بلکہ کتاب میں پڑھتے ہیں، تو موسیقی اور شاعری کا وہ جادو نہیں ابھر پاتا ہے، جو اس
ڈرامے کا سب سے بڑا کمال ہے۔
ڈراما شہر آشوب سے شروع ہوتا ہے اور مشہور نظم
آدمی نامہ پر ختم ہوتا ہے۔ یہ ڈراما تقریباً دو درجن نظموں، غزلوں اور متفرق اشعار
پر مبنی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ آگرہ بازار میں نظیر اکبرآبادی کی جو شاعری استعمال
ہوئی ہے وہ کوئی بڑا روحانی تجربہ تو نہیں ہے لیکن روزمرہ زندگی میں اس کی افادیت بکثرت
موجود ہے۔ اس میں ہر جگہ ایک رجائی پہلو ہے اور اس میں غیر معمولی طور پر زندگی کی
تمام گہما گہمی موجود ہے۔ یہ شاعری آگرہ کے بازار کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔
اس میں نہ جانے کتنے ایسے لفظ استعمال ہوئے ہیں، جو نہ کبھی اس سے قبل اردو شاعری میں
استعمال ہوئے تھے اور نہ بعد میں استعمال ہوئے۔ لیکن وہ الفاظ آج بھی روزمرہ زندگی
میں سننے کو مل جاتے ہیں۔ اس ڈرامے میں نظیر کی شاعری کے متعلق کس طرح کی گفتگو ہوتی
ہے اس کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔
”تذکرہ نویس: سنیے میر
اسی زمین میں کہتے ہیں۔
دیکھے ہے مجھے دیدہئ پر چشم سے وہ میر
میرے ہی نصیبوں میں تھا یہ زہر کا پیالہ
اور یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں۔ چھالا کا قافیہ
باندھا ہے۔
گذرے ہے لہو واں سرِ ہر خار سے اب تک
جس دشت میں پھوٹا ہے میرے پاؤں کا چھالا
شاعر: بے شک اس قافیے میں انشاء کا شعر بھی
خوب ہے۔ فرماتے ہیں
اتنا تو پھرا وادیِ وحشت میں کہ میرے
ہے پائے نظر میں بھی پڑا اشک کا چھالا
ہم جولی: لیکن صاحب نظیر کا شعر بھی اپنی جگہ
لطف سے خالی نہیں ہے کہ
صحرا میں میرے حال پہ کوئی بھی نہ رویا
گر پھوٹ کے رویا تو مرے پاؤں کا چھالا“11
اس ڈرامے میں نظیر اکبرآبادی کی نظمیں شہر آشوب،
روٹی، مفلسی،خوشامد، مدح گرونانک، بلدیو جی کا میلا، برتن والا، جنم آشٹمی، چوہا، طوائف
کی گائی غزل، اور پیسا پہلے باب میں ہیں جب کہ دوسرے باب کی شروعات بنجارہ نامہ سے
ہوتی ہے یہ نظم پہلی دفعہ جب یہ ڈراما کھیلا گیا تو نہیں تھی لیکن بعد میں ان نظموں
کو خصوصی طور سے شامل کیا گیا، جو نظیر کی نمائندہ نظمیں ہو سکتی ہیں۔ بنجارہ نامہ
کے بعد جو نظمیں ہیں ان کی تفصیل اس طرح ہے۔ نظیر کی ایک غزل ہے جو حمید گاتا ہے۔ اس
کے بعد پیراکی، اس کے بعد ایک نابینا فقیر کی دعائیہ نظم ہے۔ اس کے بعد ریچھ کا بچہ،
ککڑی، تربوز، لڈو نظمیں ہیں۔ یہ نظمیں ڈرامے کا بہت اہم حصہ ہیں۔ اس ڈرامے کا اختتام
جس نظم سے ہوتا ہے، وہی اس ڈرامے کا پیام بھی ہے اور نظیر کی شاعری اور حیات کا بھی،
یہ نظم ہے آدمی نامہ۔ چونکہ ان میں بیشتر نظمیں لوگوں کی پڑھی سنی ہوئی ہیں، اس لیے
صرف آدمی نامہ کے ساتھ میں اپنی بات یہیں ختم کرتا ہوں ؎
آدمی نامہ
دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
زردار، بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نماز یاں
اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں
جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
حوالہ جات:
٭ حبیب تنویر نے لکھا ہے، اردو میں شائع
آگرہ بازار، پرانا متن ہے، جب کہ اس کے بعد کافی ترمیم اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اس لیے
میں نے اس ہر جگہ قول دیوناگری اشاعت سے لیا ہے۔
.1 حبیب تنویر،
آگرہ بازار، وانی پرکاشن، نئی دہلی۔ 2010، ص 5 (ہندی رسم الخط میں)
.2 ایضاً،
ص 5,6 .3 ایضاً، ص 75
.4 ایضاً،
ص 85 .5 ایضاً، ص 86
.6 ایضاً،
ص 95 .7 ایضاً، ص 99,100
.8 ایضاً،
ص 100 .9 ایضاً، ص 101
.10 ایضاً،
ص 70,71 .11 ایضاً،
ص 89
Dr. Rizvanul Haque,
Assistant Professor, Urdu,
Regional Institute of Education,
Shyamla Hills, Bhopal-462013 (MPO)
Mob 09479438340
E-mail rizvanul@yahoo.com
ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2020
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں