پروفیسر مولانا سعید احمد اکبرآبادی: شخص و عکس
عبدالباری قاسمی
پروفیسر مولانا سعید احمد اکبرآبادی بیسویں صدی کے ایک جید
عالم دین اور جہاں دیدہ شخص تھے، وہ جہاں علوم دینیہ پر گہری نگاہ اور دسترس رکھتے
تھے وہیں علوم عصریہ کو گرفت میں لے رکھا تھا، قدیم و جدید دونوں ہی علوم پر درک اور
عبور حاصل تھا، فکرو خیال کی وسعت کا اندازہ لگانے کے لیے بس اتنی بات کافی ہے کہ اس
زمانے میں جب علی گڑھ اور دیوبند کے درمیان کافی گہری کھائی نظر آتی تھی،باہمی تعلقات
اچھے نہیں تھے اس زمانے میں بھی انھوں نے ایسی ڈگر اور راہ اپنائی کہ علی گڑھ یونیورسٹی
کے ڈین فیکلٹی اور صدر شعبہ دینیات بھی رہے اور دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ بھی،
اس وقت کے علمائے دیوبند میں سب سے منفرد نظریہ رکھنے والے دانشور تھے،کسی ادارہ کو
کیسے ترقیات کے منازل طے کرائے جاتے ہیں اس کا بھی ملکہ تھا تو بے باک صحافت کے ذریعہ
ملک اور قوم و ملت کو آئینہ دکھانے کا ہنر بھی بلا کا تھا،حق کو حق اور غلط کو غلط
کہنے کی ایسی صلاحیت اور ہمت رکھتے تھے کہ خواہ اپنا ہو یا پرایا،عالم ہو یا دانشور،
سبھی کی غلطیوں کی نشاندہی بلاجھجک اور بے باک طریقے پر کیا کرتے تھے، ان کے زمانہ
ادارت میں پورے بر صغیر میں ماہنامہ برہان کا کوئی ثانی رسالہ نہیں تھا،زبان بھی صاف
و سلیس اور اسلوب میں بھی پختگی اور ندرت ان کو اگر ادیب کی صف میں رکھا جائے تو بڑے
ادیب، دانشوروں کے ترازو میں تولا جائے تو دانشور،علما کے صف میں یکتا اور صحافی کے
صف میں انصاف پسند اور صحافتی رموز و اصول سے آشنا صحافی اور پروفیسرو ں کے صف میں
ان کی کوئی نظیر نہیں تھی۔
اور ایسا اس لیے بھی ہواکہ ان کی تعلیم ہی ایسے ماحول میں
ہوئی کہ بڑے سلیقے اور قرینے سے تراشا اور نکھارا گیا دارالعلوم دیوبند میں بھی ان
کو جید علما اور صلحا سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا اور سینٹ اسٹیفن کالج میں بھی ان
کو جوہر شناس اساتذہ ملے جنھوں نے انھیں ایک تجربہ کار جوہری کی طرح تراشا اور سنوارا
جس کے نتیجے میں ایسے آفتاب وماہتاب بنے کہ پوری دنیا میں ان کے شاگرد پھیلے ہوئے ہیں
اور اپنی روشنی سے دنیا کو منور کر رہے ہیں۔یورپی ممالک میں بھی اور برصغیر میں بھی
بڑے بڑے دانشور ان کے شاگرد ہوئے بلکہ پڑوسی ملک کے سابق حکمراں جنرل ضیاء الحق بھی
ان کے شاگرد تھے اس کا اعتراف جنرل ضیاء الحق نے انتقال کے بعد اپنے تعزیتی مکتوب میں
بھی کیا ہے۔
پروفیسر مولانا سعید
احمد اکبرآبادی کی پیدائش نومبر 1908 میں اکبر آباد (آگرہ) میں ہوئی،اسی مناسبت سے
اکبر آبادی کہلاتے ہیں۔ ورنہ اصل آبائی وطن بچھرایوں ضلع مرادآباد ہے۔
مولانا سعید احمد اکبرآبادی
کے والد ماجد کا نام ابرار حسین تھا،ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے، معالج کی حیثیت سے ہی
آگرہ میں تعینات تھے۔
سعید احمد اکبر آبادی کے والد صاحب ایک تعلیم یافتہ شخص
تھے ا س لیے انھوں نے ان کی تعلیم و تربیت کا بندو بست بھی بہت ہی عمدہ کیا،سعیدا کبرآبادی
کی بسم اللہ کی رسم ایک مجذوب مزاج بزرگ میا ں محمد افضل نے کرائی، اس کے بعد بنیادی
عربی اور فارسی کی تعلیم ان کے گھر پر ہی ہوئی،ابتدائی تعلیم کے لیے ان کے والد نے
دیوبند کے ایک عالم دین مولانا خورشید علی، ریاضی، جغرافیہ اور تاریخ وغیرہ کی تعلیم
اور ابتدائی علوم عصریہ کی تعلیم کے لیے ماسٹر مکٹ بہاری لال اور صرف و نحو کی تعلیم
کے لیے مولانا غلام نور کا انتخاب کیا،ان حضرات سے سعید احمد اکبر آبادی نے ابتدائی
تعلیم حاصل کی اور عربی درجات کے اعتبار سے کافیہ اور قدوری تک کی تعلیم مکمل کی۔ آج
مدارس کی جس طرح نصاب بندی ہے اس اعتبارسے کہا جا سکتا ہے کہ عربی سو م تک کی تعلیم
گھر پر ہی حاصل کی۔
ابتدائی عربی کی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد متوسط عربی
کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کے والد ماجد ڈاکٹر ابرار حسین صاحب نے سعید احمداکبرآبادی
کو مرادآباد کے مشہور تعلیمی ادارہ مدرسہ امدادیہ میں داخل کرایا اور ان کو کسی طرح
کی وہاں دشواری نہ ہو اس لیے مکان کرایہ پر لے کر ان کی والدہ ماجدہ شمس النسا اور
چھوٹی بہن قبول فاطمہ کو بھی ان کے ساتھ وہیں منتقل کر دیا، سعیداحمد اکبر آبادی نے
یہاں شرح جامی اور شرح وقایہ وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ یہاں ان کے اہم اساتذہ مولانا سید
مرتضی حسین چاندپوری، مولانا اسحاق کانپوری اور مولانا حنیف امروہوی وغیرہ تھے۔ سعیدا
حمد اکبرآبادی کے مطابق یہ 1921یا 1922کی بات ہے۔
مرادآباد میں مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے اہم استاد
صدر مدرس مولانا مرتضی حسن چاندپوری تھے،اسی سال وہ دارالعلوم دیوبند چلے گئے اس لیے
ان کے والد نے بھی انہیں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کرانے کا فیصلہ کر لیا اور مرادآباد کی طرح دیوبند میں بھی محلہ شاہ ابولمعالی
میں کمرہ کرایہ پر لے کر ان کو ٹھہرایا گیااور دیوبند میں ابتدائی دور باہر ہی گزرا،اسی
دور میں ان کے والد دیوبند تشریف لائے تو مولانا حبیب الرحمان عثمانی مہتمم دارالعلوم
دیوبندنے کہا:ڈاکٹر صاحب! آپ فرزند کو تعلیم دلانے لائے ہیں یا نوابی کرانے اس وقت
ان کے والد نے ایک سال کی اجازت لی اور ایک سال بعد دارالاقامہ میں ہی منتقل کر دیا
اس وقت سعیدا کبرآبادی کی رہائش دارالعلوم کے سینئر استاد مولانا سید سراج رشید ی کے
ساتھ تھی،اس وقت عمر 13یا 14 سال تھی۔ اس کے بعد سے1925 فراغت دورہ حدیث تک احاطہ دارلعلوم
میں ہی قیام رہا۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ
کے اہم اساتذہ میں علا مہ انور شاہ کشمیری، مفتی عزیزالرحمن عثمانی،مولانا حبیب الرحمن
عثمانی،مفتی اعزاز علی اور مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ شامل ہیں۔
آپ کی عصری تعلیم کا
سلسلہ تو ایام طفولیت میں ہی شروع ہو گیا تھا مگر دارالعلوم سے فراغت کے بعد
1928 میں ڈابھیل گجرات میں تدریس کے فرائض
انجام دینے لگے تھے وہاں تین سال قیام کے بعدمدرسہ عالیہ فتح پوری میں استاد مقرر ہوئے
اب دوبارہ شوق ہوا کہ باضابطہ کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے کر اعلی تعلیم حاصل کرنا
چاہیے اسی کے پیش نظر پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پرائیویٹ داخلہ لیا اور یہیں سے 1934 میں بی اے کی تعلیم
مکمل کی،اس کے بعد شمس العلما مولوی عبدالرحمن کی دعوت پر سینٹ اسٹیفن کالج دہلی یونیورسٹی
میں ایم اے عربی میں داخلہ لیا اور 1936 میں ایم اے عربی مکمل کرنے کے بعد اسی کالج
سے ایم اے انگریزی کی بھی تعلیم مکمل کی اور حسن اتفاق ایسا ہوا کہ ادھر ان کی تعلیم
مکمل ہوئی ادھر استاد محترم مولوی عبدالرحمن سبکدوش ہوگئے جس کے نتیجے میں آپ شعبے
کے استاد مقرر ہو گئے۔
باضابطہ تدریسی سفر کی ابتدا تو ڈابھیل گجرات اور عالیہ
فتح پوری سے ہو چکی تھی مگر ایم اے سے فراغت کے بعد 1940-41 کے تعلیمی سیشن میں سینٹ
اسٹیفن کالج میں عربی کے استاد مقرر ہوئے اور جب دہلی یونیورسٹی میں عربی،فارسی اور
اردو کے مشترکہ شعبے کی بنیاد رکھی گئی تو سعید اکبرآ بادی ہی پہلے صدر بنائے گئے،یہاں
چھ سال تدریسی فرائض انجام دینے کے بعد 1947میں مرادآباد چلے گئے،اسی درمیان ابوالکلام
آزاد کی تحریک پر آ پ کو مدرسہ عالیہ کلکتہ کا پرنسپل مقرر کیا گیا،1959 میں علی گڑھ
مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کرنل بشیر حسن زیدی کی دعوت پر بحیثیت ریڈر اے ایم یو
تشریف لائے اور سنی دینیات کے صدر کے ساتھ ساتھ فیکلٹی کے ڈین بھی مقرر کیے گئے۔
1962
میں میک گل یونیورسٹی کینیڈا نے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز
میں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے لکچر دینے کے لیے مدعو کیا،اس سفر میں آپ نے امریکہ،برطانیہ
اور چند اسلامی ممالک کا دورہ کیا۔1972 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سبکدوش ہوئے
اور جامعہ ہمدرد دہلی کے تحقیقی ادارہ سے وابستہ ہوئے۔1978 میں کالی کٹ یونیوروسٹی
مالابار نے وزیٹنگ پروفیسر منتخب کیا یہاں ایک سال تک خدمات انجام دینے کے بعد
1979 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے مہمان پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ ہوئے اور ایک سال تدریسی فرائض انجام دیے۔25
دسمبر 1982میں دارالعلوم دیوبند میں شیخ الہند اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا توپہلا ڈائرکٹر
آپ کو ہی بنایا گیا اور اس وقت سے لے کر وفات تک اسی عہدے پر جلوہ افروز رہے۔
1985 میں دیوبند میں ہی
طبیعت خراب ہوئی اور اس عرصہ میں چھٹی بھی تھی اس لیے لاہور بیٹی کے یہاں تشریف لے
گئے وہیں 24 مئی 1985 کو افطار کے وقت وضو کے لیے غسل خانہ تشریف لے گئے،وہیں سے داماد
کو آواز دی جنہیں مونا کہتے تھے انھوں نے لاکر بستر پر لٹایا مگر چند لمحہ میں ہی روح
پرواز کر چکی تھی۔
26
مارچ 1975کو عربی زبان میں نمایاں خدمات انجام دینے کی وجہ
سے صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا، اس کے علاوہ دیگر انجمنوں اور اداروں کی
طرف سے بھی انھیں اعزازات اور اکرامات سے نوازا گیا۔
سعید اکبرآبادی ایک دانشور اور روشن خیال مفکر و مصنف تھے
انھوں نے تقریباً پچاس سال تک تدریسی، تعلیمی، تصنیفی اور صحافتی خدمات انجام دیں،
انھوں نے مختلف علمی اور ادبی موضوعات پر ایک درجن سے زاید کتابیں تحریر کیں جنھوں
نے نہ صرف یہ کہ غیر معمولی پذیرائی حاصل کی؛بلکہ متعدد کتابیں جامعات میں داخل نصاب
بھی کی گئیں، آپ نے 1938میں اپنے ہم عصر علما کے ساتھ مل کر ’ندوۃ المصنّفین‘ کے نام سے تصنیفی ادارہ قائم کیا،
اسی کے زیر اہتمام مشہور رسالہ برہان جاری کیاتھا جس کے ایڈیٹر بھی بنے۔آپ کی تقریباً
20تصانیف ہیں جن میں اہم صدیق اکبر،عثمان ذوالنورین، غلامان اسلام، اسلام میں غلامی
کی حقیقت،مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے ناقد،مسلمانوں کا عروج و زوال،وحی الہی،فہم
قرآن، خطبات اقبال پر ایک نظراور نفثۃ المصدر اور ہندوستان کی شرعی حیثیت وغیرہ ہیں۔
سعید اکبر آبادی کی نثر میں سادگی،سلاست، شگفتگی،توانائی،علمیت
اور استدلالیت دیکھنے کو ملتی ہے، جس موضوع کو جیسے اسلوب کی ضرورت ہوتی ہے اس کے مطابق
ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں،آپ نے متعدد موضوعات پر کتابیں،مقالات اور مضامین لکھے ہر
ایک میں جداگانہ کیفیت ہے،قاری کو باندھنے
پر عبور حاصل تھا کیسا ہی بورکن موضوع اور مضمون ہو بور نہیں ہونے دیتے، مولانا اپنے
اسلوب پر شبلی اور داغ کا اثر بتاتے ہیں مگر ان کی نثر کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ
ہوتا ہے کہ ان کے یہاں متعدد صاحب اسلوب ادبا کے اسالیب کے اثرات ہیں،اس طرح کہا جا
سکتا ہے کہ سعید اکبر آبادی کے یہاں شبلی کے علمی،داغ کے عوامی اسلوب کے ساتھ ساتھ
کثیر لسانی اسالیب کے بھی گہرے اثرات ہیں۔
سعید اکبرآبادی ایک اچھے مکتوب نگار بھی تھے، خطوط میں وہ
تمام خصوصیات موجود ہیں جو خطوط کو مکتوباتی ادب میں اعلی مقام پر جلوہ افروز کرتی
ہے،خطوط میں آپ کا لہجہ علمی اور سادہ ہے،بے ساختگی،بے تکلفی اور برجستگی کے ساتھ اپنی
بات کہتے چلے جاتے ہیں مختصر الفاظ میں بڑے سے بڑے موضوع کو آسانی سے سمیٹ لیتے ہیں،
اگر آپ کے خطوط کو شمار کرنے کی کوشش کی جائے تو سیکڑوں کی تعداد میں ہوں گے مگر خطوط
کی حفاظت کا سلسلہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے خطوط ضائع ہو گئے اس کے باوجود جو موجود
ہیں ان سے ہی ان کی علمی و ادبی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،زیادہ تر ان کی مراسلت
جن مشاہیر اور اہل علم سے رہی ان میں سے چند نام یہ ہیں: عبدالماجد دریابادی، مناظر
احسن گیلانی، ضیا احمد بدایونی، شورش کاشمیری،عتیق الرحمن عثمانی،مفتی ظفیر الدین مفتاحی،
سید سلیمان ندوی، پروفیسر عبدالعلی، مولوی عبدالرحمن اور علی میاں ندوی وغیرہ۔
سعید اکبر آبادی اعلی درجہ کے مبصر بھی تھے، 1938میں سید
طفیل کی کتاب ’مسلمانوں کے روشن مستقبل‘ پر
تبصرہ کرکے تبصرہ نگاری کاآغاز کیا،تقریباً 45 سال یہ سلسلہ جاری رہا،سعید احمد اکبر
آبادی نے برہان میں مختلف موضوعات کی کتابوں پر بہت ہی عمدہ اور گراں قدر تبصرے لکھے
اور جو محسوس کیا بلاجھجک تحریر کیا کسی کی کوئی رعایت کی اور نہ ہی مکمل مداحی کا
معاملہ کیا،ان کے تبصرے کی تعداد سیکڑوں ہے، محمد تقی میر از جمیل جالبی والے تبصرہ
میں میر کے متعدد اشعار کی نشاندہی کی ہے اور جالبی صاحب کو بہت سے مشورے دیے ہیں اس
کے علاوہ، غالب مدح و قدح کی روشنی میں، لغات گجری، مکاتیب گیلانی، سیرت رسول کریم،
بزم تیموریہ، دکھنی (قدیم اردو)، اور پولیٹکس اینڈ سوسائٹی وغیرہ کتابوں پر لکھے گئے
تبصرے بہت ہی عمدہ ہیں جن کو شاہکار کہا جا سکتا ہے۔
سعید احمد اکبر آبادی ایک اچھے سوانح نگار بھی تھے، سوانح
نگاری میں ان کا انداز بالکل شبلی جیسا ہے جس طرح شبلی نے الفاروق تحریر کیا اسی طرح
سعید اکبرآبادی نے صدیق اکبر اور عثمان ذی النورین، اس کے علاوہ مشاہیر علما و دانشوران
کی وفات پر برہان میں بھی بہت سی سوانحی تحریریں لکھیں وہ بہت ہی عمدہ اور لاجواب ہیں۔
مولانا اکبرآبادی نے عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی غرض سے
جنوبی افریقہ، برطانیہ، مصر، سعودی عرب، ایران اور پاکستان وغیرہ درجنوں ممالک کے اسفار
کیے، آپ کا مطالعہ وسیع و عریض اورمشاہدہ عمیق تھا،ایک جہاں دیدہ شخص اور دانشور تھے
آپ نے اپنے علمی اسفار کی روداد کو قلم بند کرکے سفرنامہ کی شکل میں پیش کیا وہ کسی
نایاب تحفہ سے کم نہیں،پہلا سفر نامہ حج بیت اللہ،دوسرا نینی تال کا سفر،تیسرا دیار
غرب کے مشاہدات و تاثرات یہ امریکہ اور یورپ کا سفر نامہ ہے،چوتھا قاہرہ میں پہلی اسلامی
کانفرنس،پانچواں بنگلور میں ایک اہم سیمینار،چھٹا ایران میں چند روز،ساتواں جاپان میں
چند روز یہ تو چندا ہم سفرنامے ہیں ا س کے
علاوہ بھی پاکستان،کلکتہ،میسور اور دیگر مقامات کے متعدد سفرنامے ہیں،آپ کے اکثر اسفار
علمی،ادبی اور مذہبی مذاکرات پر مبنی ہیں مگر تاریخی، سماجی، تہذیبی،ثقافتی اور جغرافیائی
ہر اعتبار سے معلومات کا خزانہ ہیں، ان سفرناموں میں احساسات، نظریات اور تاثرات اس
طرح شامل ہیں کہ اسے ان کی ذات کا بیانیہ کہا جا سکتا ہے،سفرنامہ میں زبان و بیان اور
اسلوب بھی بہت عمدہ ہے،آپ کے بیشتر سفرنامے برہان میں شائع ہوئے ہیں۔
سب سے زیادہ جس چیز نے سعید اکبر آبادی کو شہرت دوام عطا
کیا وہ ان کی اداریہ نگاری ہے وہ 1938 سے 1985 کے درمیان تقریبا 44 سال ماہنامہ ’برہان‘
کے مدیر رہے اس عرصے میں وقیع اداریے اور بیش قیمت شذرات و مضامین تحریر کیے، آپ کا
اداریہ نظرات کے عنوان سے ہوتا تھادرمیان میں تین سال 1943 سے 1946 کے عرصے میں انقطاع
بھی رہا مگر دوبارہ پھر اسی آب و تاب کے ساتھ اداریے تحریر کیے جیسے پہلے کرتے تھے،آپ
نظرات کے عنوان سے اپنے اداریے میں مختلف موضوعات پر مضامین تحریر کرتے تھے، آپ کے
اہم اداریوں میں ترقی پسند تحریک اور اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مسئلہ اردو
زبان وغیرہ ہیں آپ کے اداریوں کی سب سے اہم خصوصیت بے باکی اور حق بیانی ہے،کسی بھی
موضوع پر بہت ہی کھل کر اظہار کرتے ہیں۔
سعید اکبرآبادی ایک ماہر اقبالیات بھی تھے،آپ نے اقبالیات
کے اس گوشے کو واضح کیا جس پر کسی بھی ادیب اور دانشور نے توجہ نہیں دی تھی وہ ہے اقبال
کی مذہبی فکر، اس میں اسلامی فلسفہ کے حوالے سے بہت ہی عمدہ تجزیہ کیا گیا ہے، اقبالیات
پر چند مضامین کے علاوہ آپ کی بہت ہی عمدہ کتاب ہے ’خطبات اقبال پر ایک نظر‘ اس کتاب
میں سعید اکبر آبادی نے اقبالیات کی اس جہت کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ بہت ہی عمدہ
محاکمہ بھی کیا ہے۔
قرآن فہمی پر بھی
سعید اکبرآبادی نے خاص توجہ دی اور متعدد تحقیقی مقالات اور کتابیں تحریر کیں جن میں
’وحی الٰہی‘، الصائبون،الامیون،وغیرہ بہت ہی اہم ہیں،قرآ ن فہمی کے حوالے سے آپ نے بہت
سی ایسی باتیں بھی تحریر کی ہیں جو پہلے کسی نے نہیں لکھی۔
سعید اکبر آبادی ایک مایہ ناز فقیہ اور متبحر عالم دین بھی
تھے،آپ کا فقہی توسع،بالغ نظری اور مذہبی امور میں اعتدال اور توازن بہت ہی اہم اور
نمایاں پہلو ہے،آپ نے فیملی پلاننگ،طلاق،پردہ،انشورنس،بینکنگ نظام اور مشینی ذبیحہ
وغیر حساس فقہی مسائل کو نہایت معتدل انداز
سے حل کیا ہے۔اس سے ان کی فقہی بصیرت اور درک کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
خلاصہ کلام سعید احمد اکبر آبادی دانشور عالم،روشن خیال
مفکر، باکمال مصنف اور صاحب قلم تھے، آپ جہاں کامیاب مدرس رہے وہیں قلم و قرطاس سے
بھی بیش بہا خدمات انجام دیں،اپنے انہیں خدمات کی وجہ سے علمی اور ادبی دنیا میں زندہ
ہیں اور رہیں گے۔
Abdul Bari
C-145/1 Ground Floor
Tayyab Lane,Shaheen Bagh, Jamia Nagar
Okhla New Delhi-110025
Mob.: 9871523432
Email.: abariqasmi13@gmail.com
ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2020
بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریں