علی گڑھ میں اردو سفر نامہ
نگاری
محمد
اکمل خان
اردو ادب کی تمام اصناف میں ادوار کے اعتبار سے نشیب و فراز
آتے رہے ہیں۔کبھی نظم کو غزل پرترجیح دی گئی۔ کبھی مغربی نظموں کو روایتی نظموں پر
فوقیت حاصل ہوئی۔کبھی یوں ہوا کہ ملک کے چند کم علم فکشن نگاروں نے ڈرامے کو فکشن سے
الگ کر دیا تو کبھی افسانچہ کو افسانے پر اور ناولٹ کو ناول پر ترجیح دی جانے لگی۔
ان اصناف میں آنے والے یہ تمام نشیب و فراز وقت کی تنگی کی وجہ سے ضرورت کے مطابق جگہ
تبدیل کرتے رہتے ہیں۔کبھی غزل کو نیم وحشی صنف کہا گیا اور اس کی گردن اڑانے کی بات
کہی گئی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی مقبولیت کے باعث لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔
جب کبھی اردو ادب کی بات ہوتی ہے تو عام طور پر لوگوں کا
ذہن غزل اور نظم کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔لیکن ادب کا دامن صرف شاعری تک محدود نہیں۔یہ
ضرور ہے کہ شاعری سے بڑے بڑے کام لیے گئے ہیں لیکن نثری ادب کی اہمیت سے بھی انکار
نہیں کیا جا سکتا ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ اردو نثر میں بھی یہ دائرہ فکشن اور خاص طور
سے ناول اور افسانے تک محدود ہو کر رہ گیاہے۔غیر افسانوی ادب اور اس سے متعلق تحریروں
کا توکوئی تذکرہ ہی نہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اپنی خیالی دنیا سے بیزار ہو جاتے
ہیں۔خوابوں کا آبگینہ ٹوٹ کربکھر جاتا ہے اورلفظ خیال کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو عمومی
فکر و نظر کوبیان کرنے کے لیے فرصت کے لمحات جس تحریر کا تقاضا کرتے ہے، وہ تحریرغیر
افسانوی ادب کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ہر دور میں علم و ادب کی خدمت
کے فرائض انجام دیے ہیں۔ابتدا میں حالی نے نظم کو فروغ دیا۔ پھرسر سید اور ان کے رفقا
نے اصلاحی مضامین لکھ کر علمی نثر کے دامن کو وسیع کیا۔بعد میں آنے والی نسلوں میں
سے بہت سے لوگ افسانہ نگار اور شاعر بھی ہوئے۔ غیر افسانوی ادب کی تمام اصناف میں طبع
آزمائی بھی ہوئی اور خودنوشت اور سوانح کے میدان میں بھی علی گڑھ نے ایک نئی سمت کا
تعین کیا۔ غیر افسانوی ادب کے سلسلے میں علی گڑھ نے جن اصناف کو فروغ دیا ان میں سفرناموں
کوان کی اہمیت،افادیت اور ادب پرپڑنے والے ان کے اثرات کے اعتبار سے فراموش نہیں کیا
جا سکتا۔لہٰذا سفرنامے کے فن اور تکنیک پر گفتگو کرنے کے بجائے براہ راست علی گڑھ میں
اردو سفر نامہ نگاری کاجائزہ لینا زیادہ مناسب ہوگا۔
اردو میں سفرنامے کی روایت عربی اور فارسی کی مرہون منت
ہے۔اردو کا پہلا سفر نامہ یوسف حسین خاں کمبل پوش کے ’عجائباتِ فرنگ‘کو قرار دیا جاتا
ہے۔ یوسف خاں کمبل پوش کے سفرنامے میں لندن کی داستان ہے اور اس میں وہاں کی طرز معاشرت
کے علاوہ دیگر تفصیلات کا بیان ملتا ہے۔اس کے بعد بہت سے سفر نامے لکھے گئے، جن سے
اردو میں سفر نامے کی روایت کی توسیع ہوئی اور سفر نامے میں کچھ نئے رنگ و نور داخل
ہونے لگے۔
علی گڑھ نے سفرنامہ کی توسیع و تجدید میں اہم کردار ادا
کیا۔اس سلسلے میں سب سے پہلا نام تو خود بانی درسگاہ سر سیداحمد خاں کا ہے۔ جنھوں نے
’مسافرانِ لندن‘ کے نام سے اپنا سفرنامہ تحریر کیا اور اپنے مشاہدات و تجربات پر مشتمل
ایک ایسی کتاب لکھی، جس سے نہ صرف لندن کی تہذیب و معاشرت کا علم ہوتا ہے بلکہ سر سید
کو اس سفر سے ایک نئی روشنی اور نئی تحریک بھی ملی اور لندن کے اس سفرنامے نے نہ صرف
ان کے طرز فکر واحساس کو بدلا بلکہ ان کے اندر ایک ایسا شعوراور جذبہ پیدا کر دیا،
جس کی وجہ سے انھوں نے جدید تعلیم پر زور دیا اور انگلستان کے نظام تعلیم کو ہندوستان
میں رو بہ عمل لانے کی کوشش کی۔اگر یہ کہا جائے کہ سر سید نے لندن کا سفر نہ کیا ہوتا
تو ان کے ذہن میں کیمبرج یونیورسٹی کے طرز پر ایک ادارہ تعمیر کرنے کا خیال نہ پیدا
ہو اہوتا۔
سر سید کا سفر دراصل ایک بڑی ذہنی تبدیلی کا باعث بنا اور
اسی سفر کا رہین منت ہے وہ تعلیمی تصور جس کی بنیادپر آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسی
عظیم درسگاہ قائم ہے۔سر سید کا رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ بھی اسی سفرنامے کی ایک کڑی ہے
جس نے مسلمانوں کے ذہن و فکر کی تبدیلی میں ایک اہم رول ادا کیا۔سر سید کے اس سفرنامے
میں ان کے سوز دروں اور اپنی قوم کے تئیں مکمل فکرمندی کا جذبہ نظر آتا ہے۔انھوں نے
یہ سفر بلامقصد نہیں کیا تھا بلکہ وہاں کے احوال و نظام کی تفہیم کے لیے کیا اور پھر
وہاں کے نظام تعلیم کو ہندوستان میں رائج کرنے کا منصوبہ بنایا۔سر سید نے سفرنامے میں
وہاں کی عمارتوں سے زیادہ علمی احوال و مراکز پر روشنی ڈالی اور ایک طرح سے انگلستان
سے تعلیمی تحریک حاصل کی۔ان کا مقصد وہاں کی سیاحت نہیں تھا اور نہ ہی وہاں کی عمارتوں
کی تفصیل کا اندراج کرنا تھا بلکہ انگریزوں کی ترقی کا راز معلوم کرنا تھا۔یہی وجہ
ہے کہ سر سید کے اس سفر نامے میں نہ ادبی چاشنی ہے اور نہ ہی بے جا تخیل آرائی بلکہ
وہ پختہ حقائق ہیں جن کے ذریعے کسی بھی قوم کوایک نئی روشنی مل سکتی ہے۔ان کے سفرنامے
میں ایسا محسوس نہیں ہوتا جیسے وہ قاری کو لندن کی سیاحت سے محظوظ کرا رہے ہوں بلکہ
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ قاری کو ایک نئے مشن سے آگاہ کر رہے ہوں۔
سرسیدکے اس سفر نامے میں انگریزوں اور ہندوستانیوں کے ذہنی
نظام کاموازنہ ہے اوریہ احساس بھی کہ تعلیمی سطح پر انگریز ہندوستانیوں سے بہت آگے
ہیں اور ان سے ہندوستان کو روشنی حاصل کرنی چاہیے۔یہ ایک بامقصد سفرنامہ ہے۔ جب یہ
سفر نامہ شائع ہوا، تو اس کے خلاف متشدد مسلمانوں کی جانب سے ردِ عمل سامنے آیا اور یہ بات مشہور کر دی گئی کہ لندن جا
کر سرسید ’عیسائی‘ ہو گئے ہیں۔سر سید جستہ جستہ اپنے سفر کے احوال لکھتے تھے۔وہ شروع
میں اخبار ’سائنٹفک سوسائٹی‘ میں شائع ہوتے رہے اور پھر بعد میں ’تہذیب الاخلاق‘ میں
شائع ہوئے۔ اس سفرنامے کو مکمل طور پر مولوی اسماعیل پانی پتی نے مرتب کیا پھر بھی
یہ سفر نامہ مکمل اور مربوط نہیں ہے۔
سر سید کے اس سفرنامے سے بہت ساری حقیقتوں کا انکشاف ہوتا
ہے۔حالی نے گویا سر سید کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ ان کے لند ن کے
سفر کا ارادہ سیر و سیاحت کی غرض سے نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے قوم کی ترقی کا جذبہ
پوشیدہ تھا۔حیاتِ جاوید میں لکھتے ہیں:
”ان
کے اصل مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد انگلستان کے طریقہئ تعلیم کو دیکھنا اور اس پر غور
کرنا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اس غرض سے کیمبرج یونیورسٹی کو خود جاکر دیکھا اوربڑی سے
بڑی چیز اور چھوٹی سے چھوٹی چیز جو یونیورسٹی سے علاقہ رکھتی تھی،اس پر غور کیا اور
اس کا تمام نقشہ ذہن نشین کر لیا۔ پھر ملک کی عام تعلیمی حالت کا اندازہ کیا۔تعلیمِ
نسواں کو غور سے دیکھا اور اس تعلیم کے مختلف طریقوں میں سے جو طریقہ ہندوستان کے مسلمانوں
کی حالت کے مناسب سمجھا، اس کو نگاہ میں رکھا۔“
)الطاف
حسین حالی، حیات جاوید،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،دہلی،1999،ص858(
اس سفر سے انھیں مادری زبان کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا،
جسے انھوں نے اپنے سفرنامے میں بھی لکھا ہے۔ انھوں نے انگلستان کے نظام تعلیم اور وہاں
رائج مادری زبان میں طریقہئ تعلیم سے تحریک پا کر لکھا:
”پس
جو لوگ حقیقت میں ہندوستان کی بھلائی اور ترقی چاہنے والے ہیں،وہ یقین جان لیں کہ ہندوستان
کی بھلائی صرف اسی پر منحصر ہے کہ تمام علوم اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک انھیں کی زبان
میں ان کو دیے جائیں۔ میری یہ رائے ہندوستان کے ہمالیہ پہاڑ کی چوٹی پر نہایت بڑے بڑے
حرفوں میں آئندہ زمانہ کی یادگاری کے لیے کھود دیے جائیں۔اگر تمام علوم ہندوستان کی
اسی کی زبان میں نہ دیے جائیں گے، توکبھی ہندوستان کو شائستگی و تربیت کا درجہ نصیب
نہیں ہونے کا،یہی سچ ہے،یہی سچ ہے،یہی سچ ہے۔“
(محمد
اسماعیل پانی پتی،مسافران لندن،مجلس ترقی ادب، لاہور، 1961، ص197-198)
سرسید کے اس سفرنامے میں جہاں انھیں ہندوستانیوں کی کمتری
کا احساس ہوا،وہیں انگریزوں کی برتری کا بھی پتہ چلا۔سرسید احمد خاں کے اس سفر نے ان
کے اندر جذبے کی روشنی پیدا کی، ان کے ہاتھ میں ایک نئے عزم اور ایک نئے مشن کی مشعل
تھما دی۔تہذیب الاخلاق کے اجرا کا فیصلہ بھی اسی سفر کا رہین منت ہے۔ انھوں نے اپنے
سفرنامے میں ہندوستانیوں اور انگریزوں کا تقابل کرتے ہوئے لکھا ہے:
”میں
بلا مبالغہ نہایت سچے دل سے کہتا ہوں کہ تمام ہندوستان کو اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک،امیر
سے لے کر غریب تک، سوداگر سے لے کر اہلِ حرفہ تک، عالم فاضل سے لے کر جاہل تک انگریزوں
کی تعلیم و تربیت اور شائستگی کے مقابلے میں در حقیقت ایسی ہی نسبت ہے جیسے نہایت لائق
اور خوبصورت آدمی کے سامنے نہایت میلے کچیلے وحشی جانوروں کو قابل تعظیم یا لائق ادب
کے سمجھتے ہو؟کچھ اس کے ساتھ اخلاقی اور بداخلاق کا خیال کرتے ہو؟ہرگز نہیں کرتے۔بس
ہمارا کچھ حق نہیں ہے (اگر چہ وجہ ہے)کہ انگریز ہم ہندوستانیوں کو ہندوستان میں کیوں
نہ وحشی جانور کی طرح سمجھیں۔“ (ایضاً،ص184(
سرسید کے اس سفر نامے کو موجودہ تنقید کے معیار پر پرکھا
جائے تو یقیناًاسے اچھا سفرنامہ نہیں کہا جا سکتا،کیونکہ اس میں داستان یا ناول کی
طرح پر کشش اور دل آمیز منظر نگاری نہیں ہے بلکہ ایک مقصد پنہاں ہے اور قاری کو معلومات
کے خزانے سے آگاہ کرنا ہی اس کا مقصود نہیں ہے بلکہ ایک تحریک کو جنم دینا بھی ہے اور
باطنی سطح پر پڑھنے والے کے ذہن و احساس کو مرتعش کرکے ایک ایسے مشن سے آگاہ کرنا ہے،
جس میں قوم کی ترقی کا راز مضمر ہے۔
اسی طرح سرسید کا ’سفرنامہئ پنجاب‘ بھی ہے۔ حالانکہ یہ تقاریب
کا مجموعہ ہے اور اسے مکمل طور پر سفرنامہ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی حیثیت سفرنامے سے
زیادہ ایک تاریخی دستاویز کی ہے۔اس میں سر سید کے وہی خیالات ہیں، جو قوم کی تعلیم
اور ترقی سے متعلق ہیں۔اس میں انگریزی تعلیم کی افادیت اور مسلم قوم کی تنزلی کے حوالے
سے سر سید کے جذبات و خیالات مندرج ہیں۔چونکہ یہ تقاریب پنجاب میں کی گئی تھیں اس لیے
اسے ’سفرنامۂ پنجاب‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔
سرسید کے یہاں جو معروضیت اور منطقیت ہے اور تخیل کے بجائے
حقیقت بیانی کاجو جذبہ موجود ہے،وہی ان کے ہم عصر سفرنامہ نگاروں اور ان کے رفقا کے
سفرناموں میں نظر آتا ہے۔چنانچہ اس دور میں علی گڑھ سے وابستہ سرسید کے معاصرین اور
ان کے احباب میں جس نے بھی سفرنامے لکھے ہیں، ان میں تخیل کی رنگ آمیزی سے زیادہ حقیقت
آفرینی اور جذباتیت کے بجائے سنجیدگی اور مقصدیت نمایاں ہے۔ان سفرناموں سے نہ صرف قوم
میں بیداری آئی بلکہ ان سفرناموں نے قومی و ملی شعور کو بیدار کیا۔ ان سفرنامہ نگاروں
کے پیش نظر اپنی تخلیقی جولانیوں کی نمائش نہیں تھی بلکہ ان حقائق کا اظہار تھا،جن
سے آگاہ ہوئے بغیر پوری قوم انحطاط کی دلدل میں دھنسی ہوئی اور خوابِ خرگوش میں محو
رہتی۔یہ سفرنامے انھیں خواب سے بیدار کرنے کا ایک ذریعہ اور ان کے خفتہ ذہن و ضمیر
کو جگانے کا وسیلہ بھی بنے۔
حاجی سمیع اللہ خاں بہادر کے سفرنامے کا نام بھی ’سفرنامہئ
لندن‘ہے اور اس سفرنامے کا بھی وہی مقصد ہے، جو سر سید کے سفرنامے کا ہے۔یہ سفرنامہ
پہلے ’تہذیب الاخلاق‘ کے دو شماروں میں شائع ہوا اور پھر کتابی شکل میں اس کی اشاعت
عمل میں آئی۔سفرنامہ کی افادیت، اہمیت اور معنویت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے
کہ کنور جوالا پرشاد بہادر نے 1882 میں اس کا انگریزی میں ترجمہ کر کے کلکتہ سے شائع
کیا۔سر سید کے رفیق کار مولوی سمیع اللہ نے لندن کا یہ سفر انگلستان کی اعلی تعلیمی
صورت حال کا جائزہ لینے اور وہاں کی تہذیبی اور سیاسی زندگی کا مطالعہ کرنے کے لیے
کیا تھا اور اس کے پیچھے بھی یہی ایک جذبہ کارفرما تھا کہ ہندوستانیوں میں انگلستان
کے طرز پر اعلی تعلیم کا شوق پیدا کیا جائے۔ گویا سرسید اور سمیع اللہ کے سفرناموں
کا بنیادی مقصد تعلیمی ترقی سے جڑاہوا تھا۔
کنور عندالغفور خان کا ’سفرنامہئ عالم‘اگر چہ اب دستیاب
نہیں ہے لیکن یہ پہلا سفر نامہ ہے جو34 ممالک کی سیاحت پر مشتمل ہے۔زبان و بیان اور
مواد کے اعتبار سے انتہائی متاثر کن ہے۔امریکہ،آسٹریلیا،جرمنی،اسپین تمام ممالک کااحوال
نہایت دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کنور صاحب کو زبان و
بیان پر مکمل عبور تھا اور ان کے اسلوب میں روانی بھی تھی۔ان کے سفر کا مقصد شاید مختلف
قوموں کی تعلیمی، تہذیبی اور سیاسی صورت حال سے آگہی حاصل کرنا تھا اور اس آگہی کے
ذریعے وہ ہندوستانی قوم کو بیدار کرنا چاہتے تھے۔
اس کے علاوہ حاجی مولوی محمد اسحاق خان مائل کے ’سفرنامہئ
مائل‘ اور راحل شیروانی بنت حاجی عیسیٰ خان شیروانی، رئیس دتاولی علی گڑھ کی ’زادالسبیل‘ اور ’رحلۃ الراحل‘ کے سفرنامے کا بھی
ذکر کیا جاسکتا ہے۔یہ سفرنامے حج اور زیارت سے متعلق ہیں۔اس طرح کا ایک اور سفرنامہ
محمدزبیر کا بھی ہے،جس کا نام ’چند دن حجاز میں‘ ہے۔ اس میں بھی زبان و بیان کا حسن
ہے۔اسی ضمن میں سید علی نقوی کے سفرنامہئ حج کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے۔
انیسویں صدی کے بعد بیسویں صدی کے آغاز سے ہی علی گڑھ میں
سفرنامہ نگاری کو ایک نئی جہت ملی اور سفرنامے کے فنی معیار کو ملحوظ رکھتے ہوئے سفرنامے
تحریر کیے گئے۔یہ سفرنامہ لندن کے علاوہ دوسرے ممالک اور مراکز سے متعلق تھے۔گویا سر
سید کے یہاں لندن کو جو مرکزیت حاصل ہے، اس مرکزیت سے انحراف کرتے ہوئے دوسرے ممالک
کو بھی محور بنایا گیا اور وہاں کی صورت حال کے مشاہدے کے لیے سفر کیے گئے اور پھر
سفرناموں کی تشکیل عمل میں آئی۔پروفیسر ثریا حسین کا سفرنامہ ’پیرس و پارس‘ اس لحاظ
سے اہمیت کا حامل ہے۔ ثریا حسین کا تعلق شعبۂ اردو سے ہے اور انھوں نے 1979 سے
1984 کے درمیان شعبے میں صدر کی حیثیت سے اردو ادب کی خدمات کے فرائض انجام دیے۔
ثریا حسین کا سفرنامہ ’پیرس و پارس‘کئی لحاظ سے اہمیت کا
حامل ہے۔اس کے نام میں جو حسن ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ’پیرس و پارس‘گویا
مشرق و مغرب کی تہذیبوں کا وصال ہے۔یہ جدید و قدیم دو متضاد لہروں اور سمتوں کا حسین
امتزاج بھی ہے۔گویا ثریا حسین نے ’پیرس و پارس‘ کے ذریعے دو مختلف اور متضاد تہذیب
و تمدن سے عوام کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے اور ان دونوں کے تضادات اور مماثلات
کو بھی روشن کیا ہے۔ثریا حسین کے اس سفر نامے میں ان کی مشاہداتی قوت اور تجزیاتی صلاحیت
کے سارے نقوش موجود ہیں۔ انھوں نے تمام تر جزئیات کا مطالعہ نہایت باریک بینی سے کیا
ہے اور اپنے مطالعے،مشاہدے اور تجربے میں سبھی کو شامل کیا ہے۔
ثریا حسین کا یہ سفر نامہ بنیادی طور پر ان کے پیرس کے قیام
پر محیط ہے۔انھوں نے وہاں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، جس طرح کے افراد سے ملاقاتیں
ہوئیں، جیسے جیسے مقامات مشاہدے میں آئے،جیسے جیسے افکار و خیالات کے جزیروں سے آشنائی
ہوئی،ان سب کو انتہائی خوبصورت پیرایے میں ڈھال کر اسے سفرنامے کی شکل عطا کر دی۔ اس
میں جہاں پیرس کی تہذیبی، ثقافتی، علمی، ادبی صورت حال سے آشنائی ہوتی ہے وہیں وہاں
کے رنگ و بو سے بھی ذہن کو نئی روشنی ملتی ہے۔ انھوں نے ہر چیزکو انتہائی تحقیقی نظر
سے دیکھا اور اسے اس طرح بیان کر دیا کہ پیرس کی پوری تاریخ اور تہذیب اجمالی طور پر
کتاب میں سمٹ آئی ہے۔اس کے لیے جس دقت نظر اور تجزیاتی نگاہ کی ضرورت ہے، وہ ان کے
پاس موجود ہے۔ وہاں کے دریا،محلات،مصوری اور گیت، غرض یہ کہ ہر چیز کا ذکر تمام تر
تفصیلات کے ساتھ موجود ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ کتاب محض جغرافیائی اور تاریخی
معلومات کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہے، بلکہ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس ملک
کا سفر کر رہے ہیں اور ایک ایک ذرے سے آشنا ہو رہے ہیں۔وہاں کے جتنے تاریخی مقامات
ہیں ان کا بھی ذکر ہے۔چونکہ پیرس مصوری کا مرکز رہا ہے، تو وہاں کے مصوروں کی تفصیلات
بھی درج ہیں۔شہر دل ربا سے ایک داستان کا آغاز ہوتا ہے۔شہر دل ربا پیرس کے بارے میں
وہ لکھتی ہیں:
”رات
کے دو بجے پیرس سے پندرہ میل دور ’اورلی‘ ایئرپورٹ طیارہ کی کھڑکی سے دیکھا، دور دور
تک پیرس چمک رہا تھا۔دل کی شکل یہ سحر آفریں، روشنیوں کا شہر! پیرسیائی نام کے کیلٹک
قبیلہ نے پہلی صدی قبل مسیح دریائے سین کے کنارے ایک گاؤں آباد کیا جو لوٹیشیا کہلاتا
تھا، بعد میں اس جگہ رومن سپاہیوں نے اپنی چھاونی چھائی۔ تیسری صدی عیسوی میں جرمن
قبائل کے حملوں سے بچنے کے لیے لوٹیشیا کے باشندے دریائے سین کے جزیروں پر چلے گئے۔ان
کی یہ بستی بہت جلد پیرسیوں کا شہر کہلانے لگی اور اس قبیلہ نےSle
De La Cite جزیرے کے شہر کو قلعہ بند کیا(اسی جزیرہ پر
آج نو تردام کا کلیسا اور پولیس کا ہیڈکوارٹر موجود ہے)۔پیرس بہت جلد ایک اہم مسیحی
مرکز بن گیا اور یہاں بہت سی خانقاہیں قائم ہوئیں۔کئی بادشاہوں نے اس شہر کو اپنی راجدھانی
بنایا۔ نویں صدی میں نارویجین حملہ آور اپنے جہاز لے کر سین پر اترے لیکن جزیرہ کے
قلعے کو فتح نہ کر پائے۔“
(پروفیسر
ثریا حسین،پیرس و پارس،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،جامعہ نگر،نئی دہلی، 1981،ص15)
ثریا حسین نے اس سفرنامے میں بہت سے ادیبوں کا ذکر بھی کیا
ہے، جن میں موپاساں،برگ ساں، موزاٹ اور فرائڈ شامل ہیں۔ان ممالک میں ہندوستانی طلبا
سے ملاقات کا بھی ذکر ہے۔وہ حصہ جو پیرس پر مشتمل ہے اس میں وہ ہر چیز کو حیرت کی نگاہوں
سے دیکھتی نظر آتی ہیں۔انہوں نے اس سفرنامے میں پیرس کے سیاسی حالات پر بھی گفتگو کی
ہے اوربتایا ہے کہ وہاں کے ادبا قومی،عالمی مسائل پر اپنا نقطہئ نظر ضرور پیش کرتے
ہیں،وہ معاشرے سے علاحدہ نہیں ہیں بلکہ معاشرے کا ضمیر سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں
یہ صورت حال نہیں ہے، یہاں زیادہ تر ادیبوں کے لب سلے ہوئے ہوتے ہیں اور خاموشی میں
ہی وہ اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔عصری سیاسی مسائل میں ان کی دلچسپی برائے نام ہوتی ہے،
جبکہ فرانس کے معاملات اس سے مختلف ہیں۔
اس سفرنامے میں پارس کا ذکر بھی بہت خوبصورت انداز میں کیاگیا
ہے اور وہاں کی تاریخ کو چھوتے ہوئے آج کی صورت حال کا نہایت خوبصورت جائزہ لیا گیا
ہے۔ یہاں کے مختلف مقامات کا ذکر ان کی جزئیات کے ساتھ ہے۔انھوں نے شاہ عباس کبیر کے
شہر کا ذکر بھی کیا ہے یعنی اصفہان،جو نصف جہان کہلاتا تھا۔ یہیں انھوں نے قصرِ چہل
ستون بھی دیکھا،جو شاہانِ صفویہ کی جائے رہائش تھی،یہاں وہ ندی ہے جس کاذکرفارسی شعر و ادب میں آیاہے یعنی زندہ رود۔ انھوں نے شیراز
کا بھی ذکر کیا ہے،جہاں حافظ و سعدی مدفون ہیں۔انھوں نے اس علاقے کی رومانیت اور دلکشی
کا اس طرح بیان کیا ہے:
”شیراز
پہنچے۔یہ شہر حافظ اور سعدی کے پرستاروں کے لیے زیارت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔مزار سعدی
کو بھی دوبارہ تعمیر کروایا گیا تھا،جس کے اطراف میں وسیع باغ تھا۔یہ پورا علاقہ سعدیاکہلاتا
ہے۔مقبرے کی دیواروں پر بوستاں کے اشعار اور گلستاں کی حکایتیں کندہ ہیں۔“
(ایضا،ص29-30)
انھوں نے فردوسی کے شہر طوس کا بھی ذکر کیا ہے، جو ایران
کے قومی شاعر کی حیثیت سے مشہور ہے۔ انھوں نے ماژندراں، گل افیون کے کھیت کا بھی ذکر
کیا ہے۔ استنبول اور مصطفی کمال پاشا وغیرہ کا ذکر بھی اس کتاب میں موجود ہے۔اس کے
علاوہ بغداد، نجف اشرف، الکاظمیہ، المدائن اور سلویسیہ، قصرہ اور کوہ بے ستوں کا تذکرہ
بھی کیا ہے۔
ثریا حسین کا یہ سفرنامہ نہایت معلوماتی اور مشاہداتی ہے۔
انھوں نے مختلف ممالک کے اسفار کے دوران جو کچھ بھی دیکھاہے اورجوچیزیں انھیں تحیر
خیز یا معلوماتی لگیں، ان کا ذکر کر دیا ہے۔ان کی زبان میں سلاست اور وضاحت بھی ہے
اور وہ تہذیب و شائستگی بھی، جو اردو زبان کی خصوصیت ہے۔ایسا کہیں نہیں لگتا کہ انھوں
نے قاری کوبیزار کیا یا اپنی زبان و بیان سے اس کے ذہن کومکدر کیا ہے۔ان کی نثر بڑی
خوبصورت ہے اور منظر نگاری بھی نہایت دلکش ہے۔مثال کے طورپر ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”وہاں
جب میں اور کیتھرین پہنچے،تو پارٹی عروج پر تھی۔لڑکے لڑکیاں ناچ رہے تھے۔آرکیسٹرا بج
رہا تھا۔ میزیں فرانسیسی کھانوں اور مشروبات سے لدی تھیں۔ جارڈن کی لڑکی ہالہ وہاں
ہماری منتظر تھی،کئی طالب علموں سے تعارف ہوا۔سب ایک برادری معلوم ہو رہے تھے۔ حالانکہ
مشرق و مغرب کے دوردراز ملکوں سے آئے تھے اور پیرس میں خود کو موجود پا کر بے حد مسرور
دکھائی دیتے تھے۔مجھے گھر کی یاد ستا رہی تھی۔نیم تاریک علی گڑھ اس منور حال سے کتنا
دور رہ گیا تھا۔“ (ایضاً، ص 18)
پروفیسر ثریا حسین کا سرنامہ’پیرس و پارس‘ اس لحاظ سے بھی
اہم ہے کہ نھوں نے سر سید کی طرح مغربی ممالک کے مسائل کا سنجیدگی سے تجزیہ پیش کیا
ہے۔یہ سفرنامہ زبان و بیان،اسلوب،اندازِ نگارش اور اپنی معروضیت کی وجہ سے قابل ستائش
ہے۔وہ چونکہ جمالیات کی پروفیسر بھی رہی ہیں اس لیے مشرق و مغرب کی جمالیات پر ان کی
گہری نظر ہے اور ان کی تحریروں میں جمالیاتی عناصر کی جستجو بھی کی جا سکتی ہے۔
پروفیسر ثریا حسین کے بعدجن لوگوں نے علی گڑھ میں اردو سفرنامہ
نگاری کو فروغ دیا، ان میں خواجہ احمد عباس کا سفر نامہ’مسافر کی ڈائری‘، قرۃالعین
حیدر کا سفرنامہ ’جہاں گرد‘ اور ’دکھلائیے لے جا کے اسے مصر کا بازار‘، عابد حسین کا
سفرنامہ’رہ نوردِ شوق‘، خواجہ غلام السیدین کا ’دنیا میرا گاؤں‘ جاوید دانش کا ’آوارگی‘ اورخواجہ غلام الثقلین کا سفرنامہ ’روزنامچہئ
سیاحت‘ وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ یہ تمام سفرنامے مختلف نوعیت کے ہیں۔ان میں کچھ
تو ایسے ہیں جو خطوط پر مشتمل ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو روزنامچے کے طرز پر لکھے
گئے ہیں۔
علی گڑھ میں روزنامچہ کے طرز پر لکھے جانے والے سفرناموں
میں ایک نام ’خوابوں کا جزیرہ،موریشس‘ کا بھی ہے۔یہ سفرنامہ شعبۂ اردو علی گڑھ کی
پروفیسر دردانہ قاسمی کے سفر موریشس کی روداد ہے، یہ 2014 میں علی گڑھ سے شائع ہواہے۔اس
میں شعوری طور پر سفرنامہ کی تکنیک کو ذہن میں رکھ کر نہیں لکھا گیا بلکہ مصنفہ نے
اپنی ڈائری کے ذریعے روزمرہ کے معمولات کو تفصیل سے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس میں موریشس
کی مشہور ہستیوں کا بھی ذکر آگیا ہے اور وہاں کی تہذیب،تمدن،ثقافت اور جغرافیہ نے بھی
اپنی جگہ بنا لی ہے۔
دردانہ قاسمی نے موریشس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا
کا سفر بھی کیا لیکن انھوں نے ان تمام اسفار کو اپنی تحریروں میں محفوظ نہیں کیا۔ دردانہ
قاسمی مشہور نقاد ابوالکلام قاسمی کی زوجہ ہیں اورچونکہ قاسمی صاحب نے موریشس کا بارہا
سفر کیاہے، توگویایہ ان کے لیے کوئی نئی دنیا نہ تھی۔ علی گڑھ سے موریشس کا گہراتعلق
ہے۔ وہاں کے طلباعلی گڑھ تعلیم حاصل کر نے کے لیے آتے رہتے ہیں۔ دردانہ قاسمی کایہ
سفران کے موریشس میں چھ ہفتوں کے قیام پر محیط ہے۔اس دوران انھوں نے نہ صرف اردو کی
خدمت کی بلکہ وہاں کی زبان اور تہذیب و ثقافت کو بھی قریب سے دیکھا۔
اس سفر نامہ میں دردانہ قاسمی نے موریشس کی تاریخ اور اس
کے جغرافیہ پر روشنی ڈالی ہے۔اس کے بعد موریشس کے بعض اہم لوگوں کا تعارف کرایاہے،
جن سے علمی وادبی اعتبارسے شناسائی ہے یاجن لوگوں نے اس سفرمیں انھوں نے ساتھ دیاہے۔
اسی طرح وہاں کے ادارے مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ اوراردو اسپیسنگ یونین کا تعارف کرایااوراس
کی تاریخی وتعلیمی حیثیت واہمیت کو اجاگر کیا ہے اورکتب خانہ سے استفادہ،شاگردوں سے
ملاقاتیں، شناساؤں کی محبتیں، مختلف مقامات کی سیر وسیاحت، رہن سہن اور عادات واطوار وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ موریشس کے ایک اہم مقام،ہرن گھاٹی کی دلچسپ سیر
کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ یوں لکھتی ہیں:
”تقریباًساراکاساراپہاڑی
علاقہ ہے۔ کبھی چڑھائی ہے، کبھی اتار، غرض
اس گھاٹی کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک پیالہ کی طرح معلوم ہوتی ہے اورپیالہ اتناگہرا ہے
کہ اس کا پیندا یا دوسرے لفظوں میں نچلا حصہ، بالکل نظر نہیں آتا، چاروں طرف بے انتہا
ہریالی، حسین اور خوبصورت پیڑوں کا گہرا گھیرا اس کے علاوہ نظر کچھ نہیں آتا۔نیچے جھرنا
بہنے کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔“
(دردانہ
قاسمی،خوابوں کا جزیرہ، موریشس،مسلم ایجوکیشنل پریس،علی گڑھ، 2014،ص62(
چونکہ دردانہ قاسمی کا مادرعلمی علی گڑھ سے دیرینہ تعلق
ہے اس لیے موریشس کے حالات اور علی گڑھ کے حالات کا موازنہ کرکے دیکھنے کی کوشش کی
ہے کہ دونوں مقامات کے حالات میں کس قدر فرق پایا جاتا ہے۔ ایک جگہ علی گڑھ کی شام
کو یاد کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
”آج
کی شام خالی تھی اور ہم لوگ گیسٹ ہاؤس میں ہی تھے اس لیے دو تین ضروری فون کیے اور
ٹہلنے چلے گئے۔موریشس میں شام 6بجے سے ہی ڈنر شروع ہوجاتا ہے اس کے بعد خاموشی اور
سناٹا۔ہم لوگ ڈنر اتنی جلدی کھانے کے عادی نہیں ہیں،اس لیے ٹہلنے نکل جاتے اور خوب
لمبی سیر کے بعد ہر چیز کا جائزہ لیتے ہوئے واپس آتے، شام کے وقت گیسٹ ہاؤس میں بالکل
اچھا نہیں لگتا۔ سب کھانا کھا کر کمروں میں جا چکے ہوتے۔ہم لوگ زبردستی دس بجے تک ٹی
وی کے آگے بیٹھے رہتے،اس کے بعد مجبور ہو کر ہمیں بھی اپنے کمرے میں جانا پڑتا۔ علی
گڑھ میں دس بجے سے شام شروع ہوتی ہے۔ بہر کیف اپنے معمولات میں اس جلدی سونے کو بھی
قبول کرلیا تھا اور وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ وہاں اکثر ہندوستان اور موریشس کے انداز
ِترقی کا موازنہ کرتی۔“(ایضاً،ص71)
علی گڑھ میں ادب کو ہمیشہ افادیت اور مقصدیت کا ذریعہ بنایا
گیا ہے۔یوں تو اردو ادب میں سفرناموں کی تعداد بے شمار ہے لیکن علی گڑھ میں لکھے جانے
والے سفرناموں کا امتیاز یہ ہے کہ ان میں بیک وقت سیاحت اور قوم کی فلاح دونوں کو پیش
نظر رکھا گیا ہے۔’مسافرانِ لندن‘سے ’خوابوں کا جزیرہ،موریشس‘ تک جو بھی سفرنامے لکھے
گئے ہیں،ان سے اردو کی علمی و ادبی ترقی کے ساتھ قوم کی فلاح و بہبودبھی مقصود ہے۔
Mohd Akmal Khan
Research Scholar, Dept of Urdu
Maulana Azad National Urdu University
Hyderaba (UP)
Mob.: 8328467861
ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2020
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں