15/5/20

اردو فکشن میں راوی اور بیانیہ کی نوعیتیں مضمون نگار۔ انجم پروین



اردو فکشن میں راوی اور بیانیہ کی نوعیتیں
 انجم پروین

فکشن کی اساس کسی نہ کسی واقعے پر ہوتی ہے۔ واقعے کے وجود کے بغیر فکشن کی تعمیر ناممکنات میں سے ہے۔فکشن میں بیان ہونے والا واقعہ ازخود معرض وجود میں نہیں آتا، بلکہ اس کی ترسیل کے لیے کسی ذریعہ یا آلۂ کار کی ضرورت درکار ہوتی ہے جوتکلمی یا تحریری زبان میں اس کا اظہار کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر کوئی بھی متن زبان اور بیان کے بغیر تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ایک لاحقہ ہے گوئی(تکلمی) اور دوسرا لاحقہ ہے نگاری(تحریری)۔ دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جن اصناف کا تعلق بنیادی طور پرکہنے اور سننے سنانے سے ہے، ان میں گوئی کا لاحقہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً داستان گوئی،مرثیہ ’گوئی‘، غزل گوئی وغیرہ۔گرچہ ان کا بنیادی تعلق گویائی سے ہے لیکن ان کی پیش کش اور تحفیظ (Presentation & (Documentation  کے لیے تحریر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو اصناف نگارش کے ضمن میں آتی ہیں وہ لکھنے والی ہوتی ہیں اور لکھنے کے بعد انھیں پڑھا جاتا ہے۔ یہیں سے بیانیہ (Narration) کا تصور پیدا ہوتا ہے۔بیانیہ دونوں طرح کی اصناف کا بنیادی عنصر ہے۔فکشن کی اصطلاح میں قصہ بیان کرنے والے کو ’راوی‘ کہا جاتا ہے۔اس ضمن میں شمس الرحمن فاروقی رقم طراز ہیں:
افسانہ چاہے واقعے کا اظہار کرے یا کردار کا،یا دونوں چیزوں کا،یا چاہے وہ کسی سماجی حقیقت کو بیان کرے یا نفسیاتی نکات کی گہرائیاں کریدے،وہ بیان یعنی Narration کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔بیانیہ اس کے لیے ہاتھ پاؤں کا کام کرتا ہے۔اگر افسانے میں سراسر مکالمہ ہے یا صرف خود کلامی ہے تو بھی افسانہ اسی وجہ سے ہے کہ اس کے ذریعے ہمیں کسی واقعے کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ہم واقعات کی ترتیب کو الٹ پلٹ دیں،یا واقعے کی طرف اشارہ کریں، اسے بیان نہ کریں، یا صرف فرض کر لیں کہ کوئی واقعہ یا واقعات رونما ہو چکے ہیں اور ہمارے افسانے میں اب جو کچھ ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا ہے،وہ ان واقعات ماضیہ کی وجہ سے ہے،لیکن بیانیہ کسی نہ کسی شکل میں ہمارے ساتھ رہتا ہے،اور جب بیانیہ کا وجود افسانے کی شرط ٹھہرا تو بیان کنندہ یعنی راوی کا وجود بھی افسانے کی شرط ٹھہرتا ہے۔“ (افسانے کی حمایت میں،ص 54(
 معلوم یہ ہوا کہ فکشن کسی بھی قسم کا ہو اور کسی بھی فارم میں ہو اس کے بیان کے لیے فکشن نگار ایک راوی (جو فنکار کا قائم مقام ہوتا ہے) خلق کرتا ہے۔جو اپنی زبان میں واقعات کی ترجمانی کرتا ہے۔یہاں یہ سوال قائم ہو سکتا ہے کہ آخر مصنف/ فکشن نگار کو راوی کی ضرورت کیوں کر پیش آتی ہے؟چونکہ انسانی زندگی نشیب و فراز سے عبارت ہے اورعام انسانی رویوں میں تضاد پایا جاتا ہے،بلکہ انسان کے ظاہر و باطن میں بھی اختلاف رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اب جب کہ افسانے میں بلکہ ناول میں ایک سے زائد کردار ہوتے ہیں اور سب کے مزاج، رویے اور عادات و اطوار ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں یا پھر کوئی ایک شخص بھی مختلف حالات و واقعات میں کئی صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔کسی صدمے یا واقعے کے زیر اثریا پھر کسی سے محبت، نفرت،رقابت اور عداوت کی بنا پر اس کی شخصیت تغیر پذیر ہو سکتی ہے۔
ایک صورت حال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کوئی کردار عادات و اطوار کے لحاظ سے بد ہو، یا عمر دراز ہو اور اس کا فعل اس کی عمر اور مرتبے کے برعکس ہو۔یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کردار کا ظاہر اس کے باطن کے بر عکس ہو۔ مذکورہ تمام صورتوں میں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ متضاد افعال و اعمال،اخلاقی غیر اخلاقی امور کو کیسے ایک مصنف کی ذات سے منسوب کیا جا سکتا ہے،جبکہ اس کی حیثیت ایک خلاق، ذہین اور باشعور فرد کے طور پر متصور کی جاتی ہے۔ لہٰذا مصنف کو راوی سے علیحدہ کرنے کے لیے اس امر پر زور دیا گیا کہ فکشن میں مصنف جو کچھ تحریر کرے اس کے بیان کے لیے ایک راوی خلق کرے گا جو مصنف سے منفرد شخصیت کا حامل ہوگا۔فکشن کی اصطلاح میں وہ تصنیفی راوی ((Authorial/Implied Narrator کہا جاتا ہے۔ راوی کی تھیوری اور اس کی اقسام پر، وین سی بوتھ ((Wayne C. Boothکی مشہور کتاب فکشن کی شعریات (The Rhetoric of Fiction (ہے اس میں بوتھ نے  Implied Narrator  (تصنیفی راوی) لفظ کا استعمال کیا ہے۔جسے وہ مصنف کا وجودِ ثانی (Second Self)  کہتا ہے۔فکشن میں راوی کی تخلیق دراصل کہانی بیان کرنے کا ایک ایسا حربہ (Tool)ہے جسے فکشن نگاراپنی ذات سے علیحدہ کرکے استعمال کرتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ راوی کس نوعیت کا ہوگا؟ مصنف اس کاانتخاب کہانی یا واقعہ کی قسم یا نوعیت کے اعتبار سے کرتا ہے یا نہیں؟ قاضی افضال حسین راوی کی نوعیت کے ضمن میں لکھتے ہیں:
ہر نوع کے بیانیہ میں ایک بیان کرنے والا لازماً ہوتا ہے۔لیکن جس طرح واقعے کی نوعیت / قسم کے اعتبار سے بیانیہ کی لسانی صفات بدل جاتی ہیں اسی طرح واقعہ  کے بیان کی نوعیت بدل جانے سے راوی کی صفات و کردار بدل جاتا ہے………… اور بیانیہ کے اوصاف و امتیازات اسی ’راوی‘ کے نقطہئ نظر اور اس کی ترجیحات سے  براہ راست مربوط ہوتے ہیں۔
(واقعہ، راوی اور بیانیہ،مشمولہ رسالہ تنقید،ص198,199)  
 لہٰذا ہر واقعہ اور اس کے تناظر کا بیان کنندہ راوی ہوتا ہے۔بیانیہ کا نقطہئ نظر راوی سے منسلک ہوتا ہے۔ کسی متن کی تفہیم کے دوران اس بات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے کہ واقعہ کس کی زبان سے بیان کیا جا رہا ہے۔اگر واقعہ ’میں‘کے ذریعے واحد متکلم کے صیغے یا’ہم‘کے ذریعے جمع متکلم کے صیغے میں بیان ہو رہا ہے تو وہ متکلم یا حاضر راوی ((First Person Narrator کہا جاتا ہے۔مثال کے طور پر عصمت چغتائی کا افسانہ‘لحاف‘ ضمیرِ صیغہئ واحد متکلم ’میں‘ کے ذریعے بیان ہوا ہے۔ اس کے بر عکس جب کہانی ’وہ‘ کے ذریعے واحد غائب کے صیغے میں بیان کی جائے یعنی بیان کنندہ قاری کے سامنے ظاہر نہ ہو،اس کی ذات کو متصور کر لیا جائے کہ کوئی ایساشخص واقعات بیان کر رہا ہے جسے بذات خود تمام واقعات کا علم ہے، تواسے غائب راوی یا ہمہ بیں راوی (Omniscient / Omnipresent Narrator) کہا  جاتا ہے۔جیسے منٹو کا افسانہ ’دھواں‘ضمیر ’وہ‘ کے ذریعے واحد غائب کے صیغے میں لکھا گیا ہے۔کبھی کبھی کہانی یا واقعہ بیک وقت ’میں‘ اور ’وہ‘ کے صیغے میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ عموماً فکشن میں کہانی یا واقعہ کی ترسیل کے لیے دو اقسام کے راوی تخلیق کیے جاتے ہیں۔اس ضمن میں ناصر عباس نیر کا کہنا ہے:
یہ دونوں (میں، وہ)صیغے اپنی اصل میں لسانی ہیں، یعنی کسی کہانی کو بیان کرنے کے وہ پیرائے ہیں جو زبان میں موجود ہیں۔ان پر کسی ایک شخص کا اجارہ نہیں ہو سکتا، یہ بلاتفریق مذہب و ملت،صنف و نسل،ہر ایک کو اپنی یا دوسروں کی بات سچی یا جھوٹی، افسانوی یا حقیقی ہر طرح کی بات کہنے کا یکساں موقع دیتے ہیں۔مصنف انھیں اختیار کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں ان پر مصنف کا گمان نہیں کیا جانا چاہیے۔
(بیانیات کی اصطلاحات:  وضاحتی فرہنگ،مشمولہ بیانیات مرتبہ قاضی افضال حسین،ص268(
ان دونوں کے علاوہ راوی کی ایک اور قسم سامنے آتی ہے۔جب ناول یا افسانے کا کوئی کردار واقعہ بیان کرے تو وہ بھی اس کا راوی کہا جائے گا۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مصنف اپنے اصل نام کے ساتھ خود ناول یا افسانے میں کردار کی حیثیت سے داخل ہو جائے اور بطور راوی کہانی بیان کرے۔وہاں بھی وہ مصنف نہیں بلکہ راوی یا ایک کردار سمجھا جائے گا۔ان دونوں صورتوں میں راوی کے وہی اوصاف و امتیازات ہوں گے جو واحد غائب اور متکلم کے لیے لازمی قرار دیے گئے ہیں۔اس نوع کی کئی مثالیں اردو فکشن میں دیکھی جا سکتی ہیں۔مثلاً: ناول امراؤجان ادا میں رسوا بحیثیت کردار اس میں شامل ہے، وہ صرف مرزا محمد ہادی رسوا ہیں امراؤ جان ادا کا مصنف نہیں ہے۔اسی طرح منٹو کا افسانہ ’بابو گوپی ناتھ‘ میں منٹو نے اپنے اصل نام کے ساتھ ایک کردار ادا کیا ہے۔ علاوہ ازیں اسد محمد خاں کے افسانوں میں بھی اسی نوع کے کردار دیکھے جا سکتے ہیں۔جب اس طرح کی تحریروں کا محاکمہ کیاجاتا ہے تو فکشن کی رسمیات اور تنقیدی اصولوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔فکشن کے اصول و ضوابط اس امر کے متقاضی ہوتے ہیں کہ انھیں کسی حقیقی کردار یا حقیقی واقعہ پر مبنی بیانیہ کے بجائے فکشن کے متن کو ذہن میں رکھ کر پڑھنے اور اس کی تعبیر و تفہیم کرنے کی کوشش کی۔اس قسم کے راوی کے حوالے سے قاضی افضال حسین اپنے مضمون ’واقعہ،راوی اور بیانیہ میں لکھتے ہیں:
ماہرین بیانیات اس بات پر متفق ہیں کہ ’متن کا مصنف/مرتب اور اس کا ’راوی‘ خواہ وہ مصنف خود ہی کیوں نہ ہو، ایک ہی شخص نہیں ہوتے،بلکہ متن میں واقعہ تعمیرکرتے ہوئے مصنف ’راوی‘ میں منقلب ہو جاتا ہے اور اس پر بھی محاکمے ((Evaluation کے وہی اصول جاری ہو جاتے ہیں جو کسی دوسری نوع کے راوی کے لیے معیار تصور کیے جاتے ہیں۔ 
(رسالہ تنقید، ششماہی، علی گڑھ،ص200)
 متکلم راوی ’میں‘ کے صیغے میں کہانی بیان کرتا ہے۔ ا س لیے اس کی کچھ حدود متعین ہیں۔افسانے میں وہ بطور مرکزی کردار موجود ہو سکتا ہے۔یعنی وہ کردار بھی ہے اور راوی بھی کیوں کہ تمام روئداد وہ خود بیان کررہا ہوتا ہے۔ منٹو کا افسانہ ’سڑک کے کنارے‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ دوسری صورت میں وہ راوی کہانی کا مرکزی کردار نہ ہوکر ضمنی کردار کی حیثیت سے مرکزی کردار کے واقعات بیان کرتا ہے۔یعنی کہانی کے واقعاتی تسلسل میں اس کا کوئی رول نہیں ہوتا۔یہاں ان ناقدوں کے اس خیال کی تردید ہو جاتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں، کہ اگرکہانی راوی متکلم کے ذریعے بیان ہوگی تو اس میں ’میں‘ ایک کردار کے طور پر لازماً شامل ہوگا اور وہ خود اپنی کہانی بیان کر رہا ہوگا۔یہ نظریہ اس لیے درست نہیں ہے کہ ہر چند کہ متکلم راوی کے وسیلے سے بیان کردہ کہانی پراکثر یہ گمان ہو تا ہے کہ وہ لا محالہ متکلم کی کہانی ہی ہوگی۔لیکن ہوتا یہ ہے کہ کئی کہانیوں میں متکلم محض راوی ہوتا ہے جو کہانی کے بیانیاتی سلسلے کو تو مہمیز کرتا ہے لیکن واقعاتی تفاعل میں اس کا رول نہیں ہوتا۔ غلام عباس کا ’سرخ جلوس‘سے معنون افسانہ مکمل طور پر متکلم راوی بیان کرتا ہے۔ وہ کہانی میں موجود بھی ہوتا ہے البتہ کہانی کے تحرک میں اس کا کردار غیر اہم سا ہے۔ اس میں راوی صرف انہی واقعات کی تفصیل بیان کرتا ہے جن کا اس نے خودمعائنہ ومشاہدہ کیا ہے۔ گویا مذکورہ دونوں صورتوں میں یہ راوی صرف انہی وقوعوں کو بیان کرنے کا اہل ہوگا جن میں وہ خود شامل رہا ہے یا پھر ان واقعات کا وہ عینی شاہدہے۔ جس کی بہترین مثال کرشن چندر کا افسانہ ’کالوبھنگی‘ ہے جو اسی نوعیت کے راوی پر مشتمل ہے۔متکلم راوی اپنی جانب سے کوئی بات یا رائے دیتا ہو یا ایسے واقعہ کی ترجمانی کرتا ہو جس کا اسے مطلق علم نہیں یا کسی واقعے کے متعلق اپنا قیاس یا قیافہ استعمال کرے تو ایسے حالات میں اس کی حیثیت مشتبہ ہو جائے گی۔ اس کے تدارک کے لیے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
اگر حاضر راوی کسی ایسی بات کو بیان کرنا چاہے جو اس کے براہ راست علم میں نہیں ہے تو وہ کسی کردار کو اس واقعے کا عینی شاہد بنا کر پیش کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کردار سے اپنی ملاقات کس طرح کرائے اور پھر اس سے اپنی گفتگو کا رخ اس طرف موڑے کہ وہ بات معرض بیان میں آجائے۔
(افسانے کی حمایت میں،ص55)
ہر چند کہ غائب کے صیغے میں راوی کرداروں کے حالات،عادات،مزاج اور دیگر اشیا کو غیر جانبداری سے کہانی میں بیان کرتا ہے۔لیکن بسااوقات غائب راوی بھی کہانی میں تبصرے، اصلاحیں، نصیحتیں اور آرا پیش کرکے مداخلت کر بیٹھتا ہے۔ابتدائی دور کے ناولوں بالخصوص نذیر احمد، سرشاراور ابتدائی خواتین ناول نگاروں کے یہاں راوی نیز مصنف کی بھی مداخلت دیکھی جا سکتی ہے۔اس کی دوسری مثال میں پریم چند کے معروف افسانے ’کفن‘ کا نام لیا جاسکتا ہے۔یہ افسانہ غائب راوی کے صیغے میں بیان ہواہے لیکن کئی جگہوں پرر اوی کی مداخلت ظاہر ہوتی رہتی ہے۔
تاہم کچھ معاملات میں غائب راوی متکلم راوی پر فوقیت رکھتا ہے۔واحد غائب راوی کچھ اس انداز سے کہانی بیان کرتا ہے کہ کہانی تو بتدریج آگے بڑھتی رہتی ہے تاہم وہ ایک ہی مقام پہ کھڑا ہوتا ہے۔یعنی وہ ایک خاموش تماشائی کے مانند ساحل پر کھڑا ہوتا ہے اور وہیں سے سمندر میں اٹھنے والی لہروں کی تڑپ اور تموج کی کیفیات کو بخوبی جانتا اور سمجھتا ہے اور بیان کرتا ہے،لیکن خود سمندر میں نہیں اترتا،یعنی وہ اپنے آپ کو کہانی اور واقعات سے علیحدہ رکھتا ہے۔غائب راوی والے متن میں تمام کردار، ان کے احوال،کوائف یہاں تک کہ باطنی کیفیات،احساسات ان کی سوچ تک سب ہمہ داں راوی کے وسیلے سے دریافت کیے جاتے ہیں۔اس لیے وہ متنوع صفات کا حامل راوی سمجھا جاتا ہے اور اس کی پیش کردہ معلومات کو من و عن قبول کر لیاجاتا ہے۔اس کے بیان کردہ واقعات محتاجِ شہادت تصدیق نہیں ہوتے۔ علاوہ ازیں اس کے لیے متکلم راوی کی طرح زمان و مکان کی بھی کوئی قید نہیں ہوتی۔واقعات خواہ کسی بھی زمان و مکان پر رونما ہوئے ہوں وہ ان سب پر یکساں گرفت رکھتا ہے۔اس کے بیان کردہ واقعات کو چیلینج نہیں کیا جا سکتا۔اسی لیے اس کا نام ہمہ بیں / ہمہ داں راوی ہے۔ اسے فکشن میں دیگر راویوں میں سب سے زیادہ قابل یقین راوی ((Reliable Narrator کہا جاتا ہے۔ غائب اور متکلم دونوں راویوں کے دائرہئ کار کے ضمن میں شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
غائب راوی والا افسانہ بہ یک وقت لیکن مختلف جگہوں میں ہونے والے،یا ایک جگہ پر لیکن مختلف اوقات میں ہونے والے واقعات کے بیان پر قادر ہوتاہے…… حاضر راوی والے افسانے میں وقت کا تعین ذرا سختی سے کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ قرین قیاس نہیں کہ وہ شخص جو خود واقعات کو بیان کر رہا ہے،اس بات کو بھول جائے کہ پچھلے واقعے یا حادثے کو کتنا عرصہ ہوا ہے،غائب راوی کو وقت کے تعین میں آزادی یا نسبتاً زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے مثلاً وہ یہ کہہ کر کام چلا لیتا ہے:گزشتہ واقعے کو کچھ عرصے یا چند ہفتے یا کئی سال گزر گئے وغیرہ۔حاضر راوی اس طرح کی گول مول بات نہیں کہہ سکتا۔  (ایضاً،ص57(
اردو فکشن میں بیشتر فن پارے غائب راوی کی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ہمہ داں راوی کے تعلق سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جہاں مصنف اسے اتنی آزاد روی سے استعمال کرتا ہے وہیں اس کی بے جا آزادی پر قدغن بھی لگاتا رہتا ہے تاکہ وہ اس قدر آزاد نہ ہوجائے کہ فن پارہ کی واقعیت اور تاثر کو مجروح کر بیٹھے۔
راوی اور بیانیہ کے ذیل میں نقطہئ نظر(Point of View)کی اصطلاح وضع کی گئی۔یعنی بیانیہ میں کوئی متن، راوی کے نقطہئ نظر سے مرتبت ہوتا ہے۔بیسویں صدی کے اوائل میں پرسی لُبّوک  (Percy Lubbock) نے اپنی کتاب The Craft of Fiction   میں نقطہئ نظر کا تصورپیش کیا ہے۔اس سے یہ مراد لیا جاتا ہے کہ راوی کہانی یا واقعات کے بیان میں کیا موقف / طریقہ اختیار کرتا ہے۔وہ کہانی میں خود شامل ہے یا کہانی سے خود کو باہر رکھتا ہے۔آیا وہ صرف اپنی سوچ یا تجربہ بیان کر رہا ہے یا کرداروں کی سوچ اور ان کے خیال کی ترجمانی کررہا ہے۔ یا مصنف کا نقطہئ نظر حاوی ہے۔یہاں مصنف کی تخلیقی ذہانت قابل دید ہوتی ہے کہ وہ کس کے نقطہئ نظر سے متن کی تعمیر کرتا ہے۔اس معاملہ میں قاری کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے، اسے دوران قرأت فن پارہ میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ راوی جو کچھ بیان کر رہا ہے وہ کس کے نقطہئ نظر سے بیان کیا جا رہا ہے۔جدید فکشن میں خواہ راوی (متکلم، غائب،کردار راوی)کوئی بھی ہو وہ جو کہانی بیان کرتا ہے اسے اپنے نقطہئ نظر سے دیکھتا ہے اور اپنے منتخب کردہ لفظیات میں بیان کر تاہے۔راوی کے مشاہدے اور بیان کے لیے اب Point of view کی جگہ ارتکاز نظر lization) (Foca کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی واقعہ، منظر یا روئداد کے حوالے سے متعدداور متنوع تناظر سامنے آسکتے ہیں،  جو متن کے تعین قدر کو زیادہ با معنی بنا سکتے ہیں۔اب تجزیہ نگار اس بات پر زیادہ توجہ صرف کر ہے ہیں کہ کس نے دیکھا اور کس انداز،زاویے سے دیکھا۔اس طرح شاہد و مشہود کے مابین تعلق کی نوعیت کو واضح کرنا مقصد ہوتا ہے۔اس کی عمدہ مثال منٹو کا مشہور افسانہ ’بابو گوپی ناتھ‘کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس کاراوی ایک ہی واقعے کو تین مختلف زاویوں سے بیان کرتا ہے جسے اس کے علاوہ افسانے کے دو اور کردار مختلف نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔سب کے دیکھنے کا نظریہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔کرشن چندر کے افسانے ’ان داتا‘ میں بھی یہی ارتکاز نظر کا معاملہ سامنے آتا ہے۔اس طرح کوئی بھی کردار، واقعہ، مسئلہ Three Dimentional  ہو جاتا ہے۔ممتاز شیریں اس حوالے سے لکھتی ہیں:
”...ایک ہی چیز کی مختلف زاویوں سے کئی تصاویر لی جاتی ہیں۔کئی زاویوں سے دکھانے پر اس چیز کے مکمل خط و خال ابھر آتے ہیں اور یہ شبیہ تصویر سے زیادہ واضح   ہوتی ہے۔فوٹو یا تصویر یا چٹے کاغذ پر کسی چیز کا صحیح نقش اور اس کی لمبائی چوڑائی تو دکھاسکتی ہے لیکن ابھار پیدا نہیں کر سکتی۔لیکن بُت میں لمبائی چوڑائی کے علاوہ موٹائی بھی  آسکتی ہے اور گولائی بھی،اور اس طرح وہ چیز اصل سے قریب تر ہو جاتی ہے اور فن کار اگر افسانے یا ناول میں کسی واقعے،مسئلے،کردار یا انسانی زندگی پر کئی زاویوں سے روشنی ڈال کر شبیہ پیش کرے تو وہ مصور سے آگے بڑھ کر بت تراش بن جاتا ہے اور ہیئت Three Dimentional نکل آتی ہے، یعنی وہ مسئلے پر مختلف ذرائع سے شواہد حاصل کرکے روشنی ڈالتا ہے۔
(ناول اور افسانے میں تکنیک کا تنوع،مشمولہ رسالہ تنقید،ص36(
واقعہ خارجی ہو یا داخلی بذات خوداس وقت تک معنی برآمد نہیں کر سکتا جب تک اس کا اظہار نہ کیا جائے،اس میں معنی کی دریافت بیانیہ کی وساطت سے نمو پذیر ہوتی ہے۔گویا واقعہ بیان کا محتاج ہوتا ہے۔اور راوی، واقعے اور بیان کے مابین ایک لسانی ذریعۂ ترسیل (میڈیم)کی حیثیت سے نمو دار ہوتا ہے۔اس کے بیان سے واقعہ کا بیانیہ سماجی،معاشرتی،فکری غرض کوئی بھی صورت اختیار کر سکتا ہے۔اوروہ جو صورت اختیار کرتا ہے اس کے نتیجے میں راوی کا نقطہئ نظر وضع ہوتا جاتا ہے،جس کی روشنی میں وہ واقعہ کو جس زاویے سے دیکھتا اور تجربہ کرتا ہے اپنی ترجیحات سے آمیز کرکے بیان کر دیتا ہے۔   اس کی ایک مثال ناول ’باغ‘ ہے۔
مرنے والے وہاں کی عوام کے لیے دشمن ہیں کیونکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں عوام پر ظلم ڈھاتے ہیں اور طرح طرح سے ستاتے ہیں۔وہاں کی عوام(مجاہدین) چھپ چھپا کر یا دھوکہ دھڑی سے ان کو قتل کرکے اپنا انتقام لیتے ہیں۔قاری بھی یہی سمجھتا ہے لیکن راوی نے جس طرح ان کے قتل کی روئداد بیان کی ہے۔ اس سے ناول کے کردار اسد، ریاض اور خود قاری پر خوف و دہشت اور استعجابی کیفات طاری ہو جاتی ہیں،اب دونوں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔قاری کو یکایک ریاض اور اس کے ساتھی ظالم اور مرنے والے مظلوم لگنے لگتے ہیں۔ راوی قاری کا نظریہ بدل دیتا ہے۔ان کی اچانک اور بے رحم موت، اس کے دل میں ترحم و ہمدردی کا جذبہ پیدا کردیتی ہے۔ قتل کا موضوع دیگر فن پاروں میں بھی بیان ہواہوگا لیکن ان کی اثر انگیزی ان کے بیان کے سبب منعکس ہوگی نہ کہ واقعے کے سبب۔اسی طرح خواہ کوئی بھی واقعہ ہو یا صورت حال، اس کی تعبیر،معنی خیزی یا اسباب و علل سب راوی کے بیان سے ہی تشکیل پائیں گے۔
راوی کی ترجیحات میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ کہیں پہ کوئی منظر کشی کرتا ہوا نظر آتا ہے،کبھی دو یا دو سے زائدمتضاد خیالات کو یکجا کرتے ہوئے اور کبھی تائیدی دلائل پیش (Justify (کرتے ہوئے متن میں دیکھا جاسکتا ہے۔مثلاً ناول ’نادار لوگ‘ کا بیانیہ گرچہ ہمہ بیں راوی کی زبان میں تشکیل پاتا ہے۔راوی ناول کے ایک کردار سرفراز کی ذہنی کیفیات،اس کے خواب،خیالات کی رواور وہ کیا سوچ رہا ہے ان تمام عناصر کو باہم متحد کرنے اور بامعنی بنانے کے لیے آگے آتا ہے اورناول کے دیگر کرداروں کے حوالے سے یا خود اس کی اپنی زندگی کے تئیں جو جو خیال سرفراز کے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتا ہے راوی قاری کو اپنی استعداد کے مطابق بتاتا جاتا ہے۔بالکل ایسے جیسے قاری خود کردار کے ہمراہ ہو اور اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا ہو۔اس طرح کہانی سرفراز کے ذہن سے نکل کر وسعت اختیار کرنے لگتی ہے۔جیسے سطح سمندر میں کنکر پھینکنے سے متعدد لہریں دائرہ در دائرہ دور تلک پھیلتی چلی جاتی ہیں۔لیکن بوقت ضرورت ہی یہ Applied Author خود راوی میں اس لیے منقلب ہوتا ہے کہ موضوع کے مطابق مواد کے ساتھ ساتھ اپنی معلومات کو بھی بیان کر سکے۔مثلاًاقتباس ملاحظہ ہو:
ملک کے بٹوارہ کا موقع آن پہنچا تھا۔سال چڑھا تو افواہیں پھیلنی شروع ہو ئیں کہ آبادی کی ادل بدل شروع ہو چکی ہے۔پھر فساد اور ماردھاڑ کی کہانیاں کانوں تک   پہنچنے لگیں۔کبیر سنگھ والا میں اگر چہ مسلمانوں کا ایک ہی گھرانہ تھااور اس میں بھی اب  فقط چندفرد رہ گئے تھے،مگر جدی پشتی رہائش کے مقام پر ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔
یعقوب اعوان کو ایک پل کے لیے بھی اس بات کا گمان نہ ہوا کہ وہ نقل مکانی کرے،یہاں تک کہ جلسے جلوس اور نعرے امرتسر کے شہر سے نکل کر نواح کے قصبوں اور گاؤں میں سرایت کر آئے۔پھر پکی سڑکوں پر ہجرت کرتے ہوئے بدحال قافلے مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کو آتے ہوئے نظر آنے شروع ہوئے۔عورتوں بچوں کی چیخ و پکار اور انسانی خون کے نظاروں نے ہوا کا رخ بدل دیا۔اس ہوا نے آگ کے  شعلے بھڑکائے جو خون اور آہ وبکاء کے طوفان میں شامل ہوگئے۔۔۔دن چڑھنے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا کہ اعوانوں کا کنبہ اپنے گاؤں کی حدود سے نکل گیا۔سورج ایک  ہاتھ اوپر آچکا تھا جب وہ زینب کے باپ کے گھر پہنچے۔
)نادار لوگ،ص66,70(
یہاں تقسیم ہند،فسادات،بلوائیوں کی ہنگامہ آرائی،اسی میں سرفراز کے خاندان کی ہجرت اور دیگر جزئیات کوراوی اپنے بقدر مشاہدہ بیان کرتا ہے۔ اس طویل اقتباس میں کئی اہم باتوں کی جانب اشارہ ہے، جو پورے ناول کومعنوی جہات عطا کرتا ہے۔اس میں تقسیم اور بٹوارہ کا دلدوز سانحہ پوشیدہ ہے۔یہ معلوم ہوتا ہے کہ سرفراز کا گھرانہ مہاجر ہے، جو ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آتا ہے۔اس کااثبات ناول کے اختتام پر ہوتا ہے کہ یہی مہاجرت سرفراز اور اس کے بھائی اعجاز کو کن کن صعوبتوں سے دو چار کرتی ہے۔راوی کا یہ تفصیلات بیان کر دینا یہاں ناگزیر ثابت ہوتا ہے۔قاری ان تمام اسباب و نتائج کا بہ آسانی ادراک حاصل کر لیتا ہے کہ کیوں سرفراز کو فوجی خدمات سے معطل کر دیا جاتا ہے اور کیوں اس کے بھائی اعجاز پر خفیہ ادارے کی جانب سے تشدد کیا جاتا ہے۔سب کا سِرا راوی کی ابتدائی معلومات میں پیوست ہوتا ہے۔ یوں راوی کا بیانیہ ناول کی فنی قدرو قیمت میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے۔
راوی کے حوالے سے ایک بات یہ ہے کہ راوی خواہ متکلم ہو یا غائب کہانی اور واقعات کی نوعیتوں اور تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر ہی تخلیق کیا جاتا ہے۔یعنی اس کے انتخاب یا تشکیل میں جنس، عمر، تعلیم، زبان، ثقافتی، سماجی و معاشرتی معیار و اقدار وغیرہ کا خاص خیال کیاجاتا ہے۔ راوی کے فرق اور اس کے مناسب انتخاب پر ممتاز شیریں نے روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ:
افسانے کے بیان میں صیغہ اور تذکیر و تانیث (عورت کی زبانی،مرد کی زبانی) کا فرق بہ ظاہر معمولی دکھائی دیتا ہے،لیکن اس سے تاثر میں بہت زیادہ فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ایسے افسانوں کے لیے جن میں مصنف اپنے آپ کو کرداروں اور ماحول سے الگ رکھ کر غیر جانب دارانہ طور پر نقشہ کھینچتا ہے، صیغہئ غائب اور اِن ڈائرکٹ نریشن موزوں ہے۔یا اگر مصنف خود ایک طبقہ سے تعلق رکھتا ہو اور ایک دوسرے طبقے کی زندگی کا نقشہ کھینچ رہا ہو تو صیغہ غائب استعمال کرنا پڑتا ہے۔صیغہ متکلم میں بیان کرنے سے جذباتی اثر زیادہ ہوتا ہے۔بعض افسانوں میں مواد اور موضوع ایسا ہوتا ہے کہ مرد کی زبانی کہے جانے سے وہ بات پیدا نہیں ہوتی جو عورت کی زبان سے پیدا ہو سکتی ہے۔          
)ناول اور افسانے میں تکنیک کا تنوع۔مشمولہ رسالہ تنقید،ص14(
مذکورہ اقتباس کی توثیق کے لیے متعدد افسانوں کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، جن میں بیانیہ کی مکمل اور فطری ترسیل کے لیے راوی کی جنس، عمر اورلیاقت کا انتخاب مواد اور موضوع کے لحاظ اور مناسبت سے کیا گیاہے۔جیسے عصمت کے افسانے ’لحاف‘میں ہم جنسی کے میلان کو پیش کرنے کے لیے ایک کم سن راوی کا انتخاب کیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کم سن راوی کی زبان میں افسانہ فحش ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔جو کچھ وہ بیان کرتی ہے اس میں معصومانہ اندازِ اظہار اور جنسی افعال سے اس کی نیم لا علمی بیانیہ کو اثر انگیز بنا دیتی ہے۔انتظار حسین نے عصمت کے راوی کے انتخاب کی پذیرائی کرتے ہوئے کہا تھا:
میرے خیال میں تو عصمت نے صحیح انداز بیان اختیار کیا۔کہنے والا بالغ ہوتا تو یہ چیز گھناؤنی ہو جاتی۔ بچوں کی زبان سے یہ ہم تک پہنچ گئی اور اس میں عریانی نہیں رہی۔ 
)سمپوزیم اردو افسانہ،نقوش،افسانہ نمبر،لاہور،ص39(
گزشتہ بیانات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ فکشن کا بیانیہ اپنے راوی کے اوصاف اور اس کے نقطۂ نظر سے متصل ہوتا ہے۔موضوع و مواد خود اس کا متقاضی ہوتا ہے کہ اسے کس کے نقطہئ نظر اور کس کی زبان سے بیان کیا جائے۔یہی بیانیہ راوی کی صفات اور امتیازات کی دریافت میں قاری کے لیے معاون ثابت ہوتا ہے۔ ہر فکشن نگار مذکورہ نظری مباحث کی متعددجہات کو اپنی تخلیقات میں برتنے کی کوشش کرتا ہے۔

Dr. Anjum Parveen
Dept of Urdu
Aligarh Muslim University
Aligarh - 202001 (UP)
anjumparveen1491@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...