15/5/20

اردو میں مذاہب و ملل کی ترجمانی مضمون نگار: تفسیر حسین





اردو میں مذاہب و ملل کی ترجمانی

تفسیر حسین

ہندستان ایک کثیر مذہبی اورکثیر تہذیبی ملک ہے۔ یہاں زبانوں اور بولیوں کی انگنت شکلیں اور صورتیں موجود ہیں۔ اسی طرح مذاہب بھی قسم قسم کے پائے جاتے ہیں۔ تہذیب کی تشکیل میں مذہب کے کردار سے کسے انکار ہوسکتا ہے۔ کسی ملک میں مذہب کی کثرت ہی تکثیریت کو ناگزیر کرتی ہے۔ترقی کے لیے ایک پرامن زندگی ناگزیر ہے جو ملک کی ذہنی قوت کو ترقی کی راہ کھوجنے اور اس پر قائم رہنے میں تعاون کرے۔ یہی ضرورت بقائے باہم کے اصول کوبھی قائم کرتی ہے۔ جب ہم اردو کے مزاج اور اس کے خلاق اذہان کے مالک تخلیق کاروں کے منہاج کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے ایک تکثیری سماج کے ترقی پسند اورانسان دوست مزاج کی تیاری میں کیا اہم کردار ادا کیا ہے۔
جب اردو طباعت میں تہذیب کے ناگزیر جز یعنی مذہب کی نمائندگی اور مذہبی ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہندستان میں شاید ہی کو ئی ایسا مذہب ہو، جس کی اردو میں نمائندگی نہ ملتی ہو۔ 
ہندستان کا سب سے بڑا اور قدیم مذہب ہندو مذہب ہے۔ اس مذہب میں سناتنی اور غیر سناتنی پرمپرائیں ہیں، جن سے مذہب کی کئی دھارائیں متشکل ہوتی ہیں۔ ہندومذہب میں کائنات کی تفہیم کا اپنا ایک فلسفہ  ہے۔ الٰہ، انسان، روح اور کائنات سے متعلق ایک ایسا عقیدہ موجود ہے، جہاں کائنات کے خالق کے ساتھ، اس کے فرستادے اور کائناتی مظاہر اس نظام عالم کو چلانے میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندومذہب میں عبادتوں کے موسم اور اشیا کو دیکھ کراندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ماحولیاتی کائنات سے وابستہ ہر چیز ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ہندو مذہب کی ایک خصوصیت، اس کے دیوتا بھی ہیں۔ اس دھرم کے پیرووں میں یہ کشادگی پائی جاتی ہے کہ ہر پیرو اپنی افتاد طبع اور مزاج کے مطابق کسی ایک دیوتا کی بھکتی کرتا ہے۔
 اس مذہب میں ویدوں، اپنشدوں، پرانوں کو اہم مذہبی کتابوں کی حیثیت حاصل ہے۔ ہندو مت میں ویدوں کو اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ اردو میں ہندو دھرم کی اساسی کتب اوراس کی مختلف شاخوں، تحریکوں اور برگزیدہ شخصیات پر مشتمل کتابوں کی تعداد دو سو کے قریب ہے۔ منوسمرتی، شریمد بھگوت گیتا، راماین، وشنو پران، گنیش پران، رگ وید، جیسی بنیادی کتابیں اردو میں موجودہیں۔ محمد عزیز نے ہندو مذہب کی 105 کتابوں کے نام اپنی کتاب میں درج کیے ہیں۔
)محمد عزیز، اسلام کے علاوہ مذاہب کی ترویج میں اردو کاحصہ، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی، 1989،ص305تا299(
ہندو مذہب کے ماننے والوں نے انسانی تہذیب وتمدن اور علم وادب میں بہت سے اضافے کیے۔ قدیم عہد میں طبابت، ریاضی، مصوری، مجسمہ سازی اور ادبی شعریات وسیاسی اصولیات میں ناقابل فراموش کارنامے ان کے رہین منت ہیں۔
ہندو مذہب کے بعد جین مذہب کو اہمیت حاصل ہے۔ اس مذہب کی ابتدائی تبلیغ کا زمانہ557ق م، 527ق م بتایا جاتا ہے۔ اس مذہب کے مطابق انسان مادہ اور روح کا مجموعہ ہے۔ انسان کامل نہیں ہے۔ وہ روحانی ترقی کے ذریعے کمال حاصل کر سکتا ہے۔روح مادے پر فتح دلا سکتی ہے۔ انسان اپنے اعمال کے لیے بذات خود ذمے دار ہے۔ روح جب کمال کو پالیتی ہے تو اننت اربعہ پر متمکن ہوتی ہے۔ اننت درشن، اننت گیان، اننت ویرج اور اننت سکھ۔
جین مت کے پیروکاروں نے مختلف علوم وفنون  اور سیاست کے مختلف میدانوں میں جوخدمات انجام دیں، ان کا تعارف کراتے ہوتے عمادالحسن آزاد فاروقی لکھتے ہیں:
زبان،ادب،فنون لطیفہ، فلسفہ،اخلاقیات اور دیگر علوم وفنون میں خدمات کے علاوہ جین مت کے پیروکاروں نے ہندستا ن کی سیاسی اور معاشی زندگی میں بھر پور حصہ لیا۔ ایک مدت دراز تک جین طبقے سے لائق بادشاہ، وزرا، سپہ سالار اور امرا پیدا ہوتے رہے، اور ملک کی معاشی زندگی میں تو آج بھی جین فرقہ مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح سماجی خدمت اور فلاح وبہبود کے عوامی کاموں میں حصہ لینا ابتدا سے ہی جین روایت کا حصہ رہا ہے۔ اور اس طرح سے بھی انھوں نے بلاتفریق مذہب وملت ہندستانی عوام کی بہت خدمت کی ہے۔
)عمادالحسن آزاد فاروقی، دنیاکے بڑے مذاہب، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، 1986،ص151(
جین مت سار، سناتن جین درشن پرکاش، جین کرم فلاسفی، جین دھرم وپرماتما، جین رتن مالا، گیان سورج ادے، جین تتوودرپن، نوتت،ویراگ پرکاش، جین کتھا رتن مالا، نرگرنتھ پروچن جیسی کتابیں اردو میں لکھی گئیں جو جین مت کے مختلف پہلوؤ ں پر روشنی ڈالتی ہیں۔
)محمد عزیزاسلام کے علاوہ مذاہب کی ترویج میں اردو کاحصہ، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی، 1989ص،311,312(
بودھ مذہب ایشیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک ہے۔ اس مذہب کی جائے پیدائش ہندستان ہے۔ یہ ایک زمانے میں ہندستان کا ایک بڑامذہب رہا ہے۔ یہ آج ایشیا کے کئی ممالک کااکثریتی مذہب ہے۔ مہاتما بدھ نے اپنے مجاہدے سے جس عرفانی منزل کو خود پر منکشف کیا وہ نروان کے نام سے متعارف ہوئی،جس میں ایک طرح سے نجات کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔مہاتما نے آٹھ ایسے اصول بنائے جو دکھوں کے ازالے کو آسان کرتے ہیں۔
سمیک درشٹی(صحیح اعتقاد،)، سمیک سنکلپ(صحیح نیت یا خیال)، سمیک واک(قول صحیح)، سمیک کرمانت (صحیح کرم یا رویہ)، سمیک آجیوکا(صحیح ذریعہئ معاش)، سمیک ویایام(مناسب جدوجہد)، سمیک اسمرتی، (اچھی یادداشت، صحیح لحاظ)سمیک سمادھی (خدامیں کامل محویت) ان آٹھ صفات یا اصول کی پابندی یا حصول اسی وقت ممکن ہے جب انسان اچھے اخلاق وکردار کاحامل ہو اور یہ کردار دس طرح کے قاعدوں کی پابندی سے حاصل ہوتا ہے۔ اہنسا، ستیہ، برہم چریہ، ناچ گانے اور نشے سے پرہیز، خوشبو دار اشیا سے پرہیز، نرم ونازک بستر سے پرہیز، اسباب تعیش جمع نہ کرنا، بلاوقت کھانا نہ کھانا،برے خیالات کوترک کردینا۔ (ہندوستانی مذاہب نمبر سہ روزہ دعوت، جلد نمبر41،شمارہ نمبر27،22مارچ 1994)اردو میں بدھ مت سے متعلق کتابیں لکھی گئیں۔’بدھ اور اس کا مت‘ مصنفہ مسٹر اسٹراس مترجمہ شیونرائن شمیم حصہ اول اور حصہ دوم طبع ثانی 1926کاشی رام پریس لاہو ر بدھ مت سے متعلق اہم کتاب ہے۔ حصہ اول میں مترجم نے امریکی مصنف مقیم سوئٹزرلینڈ کے بارے میں سرسری گفتگو کی ہے۔بدھ ازم کے اہم مقامات اور احوال وتاریخ کے بارے میں لکھتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ:
”1900میں راقم آثم نے سوانح عمری گوتم بدھ لکھی تھی۔ جس کی طبع ثانی نہیں نکلی۔ بدھ نہ صرف ہندوؤں کی طبیعت پر اثر کرتا ہے۔ بلکہ اہل اسلام سے بھی خراج تحسین لے رہا ہے۔
)الف)  بیگم صاحبہ والیِ بھوپال نے سانچی ٹوپ صرف کثیر سے مرمت کراکے اس کے قریب سیاحوں کے لیے قیام گاہ بنا دیا ہے۔
)ب) اعلیٰ حضرت نظام والیِ حیدرآباد دکن نے الورا اور اجنتا کی سیر کے واسطے سہولتیں پیدا کردی ہیں اور محکمۂ آثار قدیمہ قائم کردیا ہے جو نہایت مفید کام کر رہاہے۔
)ج)     ایک مسلم شاعر سارناتھ دیکھ کر ایسامتاثر ہوا کہ ایک نظم اس نے رسالہ ہمایوں میں شائع کی۔
)د)      مولوی محمد اسماعیل صاحب ہاتف بھوپالی نے بدھ کی تعلیم رسالہ زمانہ دسمبر 1923میں لکھی۔
)ر)      مولوی امیر احمد صاحب علوی بی اے جنھوں نے طبع ثانی ہذا کو اصلاح دی ہے، نہایت پاکیزہ بدھ کی سوانح عمری لکھی ہے۔ جو ”الناظر“ لکھنؤ میں شائع ہوئی۔
)ز)      ایک مسلم ادیب نے انگریزی کے ایک رسالے کو اردو کاجامہ پہنایااور اس کا نام ”بدھ کی کہانی پتھروں کی زبانی“ رکھاجو لاہور کے عجائب گھر کے دروازے پر بکتی ہے۔“ (ص، 22,21)
مترجم کے خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں سارے ہی مذاہب کے ذی ہوش اور باشعور لوگ یہ محسوس کررہے تھے کہ سائنس نے جو تعقلاتی طریقۂ کار اختیار کیا، مذہب اس کی زد پر ہے۔ اس لیے مذہبی رویے اور معتقدات کی خدمت میں جدید علوم کو لگانا ناگزیر ہے کہ ان کی منطقی اور عقلی تعبیر سامنے لائی جاسکے۔ اس سلسلے میں مصنف نے تہذیب الاخلاق میں شائع ہونے والے محسن الملک کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے۔ حالی کی ایک رباعی بدھ مت کے فلسفے کے طور پر پیش کی گئی ہے۔ اخیر میں مترجم نے بدھ مت کو ہندستان میں موجود کئی مسائل کے حل کے طور پر پیش کیا ہے۔
بدھ مت سے متعلق منشی امیر احمد علوی کا ذکر اس مترجم نے بدھ مت سے متعلق ان کی کتاب کے حوالے سے کیا تھا۔ امیر احمد کی کتاب کاحجم مختصر ہے۔ اس کتاب کے سر ورق پر جو عبارت درج ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ رسالہ ’الناظر‘ میں گوتم بدھ سے متعلق شائع ہونے والے مضامین کی تلخیص ہے۔
منشی احمد الدین کی کتاب ’سوانح عمری مہاتما بدھ‘ 1903 میں کشمیر پریس لاہو ر سے شائع ہوئی۔
ٹی ڈبلیو، ریس، ڈیویس کی کتاب’بدھسٹ انڈیا‘ کا ترجمہ مولوی سید سجاد صاحب ایم اے نے کیا اوریہ ترجمہ دارالترجمہ عثمانیہ حیدرآباد سے 1922میں طبع ہوا۔
ڈاکٹر، م حفیظ سید ایم اے کی کتاب ’گوتم  بدھ سوانح حیات وتعلیمات‘ انجمن ترقی اردو ہند دہلی نے1942 میں شائع کی۔
گوتم بدھ سے متعلق بچوں کے ڈراموں کا ایک مجموعہ خدیجہ بیگم نے تصنیف کیا۔یہ مجموعہ عبدالقادر سروری اینڈ سنس گورنمنٹ ایجوکیشنل پرنٹر وپبلشر سے1939 میں شائع ہوا
دھرما نند کوسمبی کی مراٹھی کتاب ’بھگوان بدھ‘کا ترجمہ پرکاش پنڈت نے کیا جو ساہتیہ اکادمی دہلی سے 1960 میں شائع ہوا۔
اس معلوم تعداد کے علاوہ بھی ایک امکانی تعداد ایسی کتابوں اور مضامین کی ہوسکتی ہے جو پردہئ خفا میں ہوں۔
سکھ مت ہندستان میں اصلاح اور انسانی مساوات اور وحدت رب کی خصوصیات کے ساتھ جانا جاتا ہے۔ اس مذہب کے بانی حضرت گرونانک صاحب ہیں۔ آپ کے احوال میں جو باتیں ملتی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ایک برگزیدہ ہستی تھے اور بلاتفریق رنگ ونسل انسانوں کو عرفان ذات اوررب سے جوڑنے کے لیے زندگی بھر کوشاں رہے۔ آپ کے جانشینوں کا ایک سلسلہ چلا جو اورنگ زیب کے جانشین بہادر شاہ کے عہد تک جاری رہا اور گروگووند پر منتہی ہوا۔
سکھ مت کی بنیادی کتا ب گرو گرنتھ صاحب ہے جس کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ منظوم اقوال ومقولات پر مشتمل ہے۔ یہ اقوال چھ گروؤں اور چودہ بھکتوں سے منسوب ہیں۔
سکھ مت سے متعلق کئی کتابیں اردو زبان میں تصنیف کی گئیں، جن میں سکھ مت کی تعلیم، ہدایات، معتقدات، اخلاقیات، اوراد ووظائف کے ساتھ مذہب اور اس کے پیشواؤں کی تاریخ ملتی ہے۔ محمد عزیز نے سکھ مت سے متعلق جن کتابوں کی فہرست تیار کی ہے،ان کی تعداد 26ہے۔
ہندستان میں برطانوی تجارتی کمپنی کی آمد اور اس کے اثر ورسوخ کے مستحکم ہوجانے کے بعد عیسائی مشنریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ استشراقی کاوشوں نے اہالیان ہند کے تمام مذہب پرستوں کو اپنے مکالمے میں شامل کرنا شروع کیا۔ اس طرح مکالمے، مباحثے اور مناظرے کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ سناتن پرمپرا کے ماننے والوں، آریہ سماجیوں اور مسلم علماء نے مسیحی مبلغین سے بہت سے مناظرے کیے اور ان مناظروں نے مذہبی علم کلام کو ایک نیا رخ دیا اور مذہب کی تعبیر وتفسیر کے نئے منہج ہندستان میں دریافت کیے گئے۔ مسیحی مبلغین اورمشنریوں نے اپنے مقدس صحیفوں کے علاوہ اپنی تبلیغی کاوشوں کے لیے اردو میں خاصا لٹریچر تخلیق کیا۔ مسیحیت سے متعلق اردو کی معلوم کتابوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہوگی۔
ہندستان میں مذہب کی جدید تعبیر وتشریح کا سلسلہ شروع ہوا اور سماجی اصلاح کی مہمیں شروع ہوئیں تو مختلف تحریکات اور مکاتب فکر نے اردو کوذریعہئ اظہار بنایا۔ برہمو سماج، تھیوسوفیکل سوسائٹی، دیو سماج، رادھا سوامی مت اور آریہ سماج جیسی تحریکات نے ہندستانی الاصل مذاہب کی جدید تعبیر وتشریح پر مبنی خاطر خواہ لٹریچر اردو زبان میں تیار کیا۔
اسلام، ُپیغمبر اسلام، قرآن اور اسلامیات سے متعلق کتابوں کاایک طویل سلسلہ ہے جو مختلف اداروں اور سوسائٹیوں کے علاوہ انفرادی سطح پر تیار ہو کر سامنے آیا۔
اردو طباعت میں مذہبی ادب کے ذخیرے کو دیکھ کر یہ انداز ہ کرنا اور کہنا مشکل نہیں ہے کہ اردو طباعت کی تاریخ ایک ایسے سماج کی تاریخ رہی ہے جو تکثیریت پر یقین رکھتا تھا اور اس تکثیری مزاج کی تشکیل، باہمی تعارف اور بقائے باہم میں اردو طباعت کا کردار ناقابل فراموش ہے۔

مراجع
اجے مالوی، ڈاکٹر، اردومیں ہندو دھرم، انصاری آفسٹ الٰہ آباد، 2000
پنڈت سکھ لال اپدیشک، دسم گرنتھ صاحب، راجپوت پرنٹنگ ورکس لاہور، 1915
خاں،نادر علی، ہندوستانی پریس، ص،11،اترپردیش، اردو اکادمی لکھنؤ، 1990
علوی، منشی امیراحمد، گوتم بدھ، دارالناظر پریس، لکھنؤ
فاروقی،عمادالحسن آزاد، دنیاکے بڑے مذاہب، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، 1986
احمد عزیز،اسلام کے علاوہ مذاہب کی ترویج میں اردو کاحصہ، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی، 1989
 مسٹر اسٹراس، مترجم، شیونرائن شمیم، بدھ اور اس کا مت، کاشی رام پریس لاہور 1926
Tafseer Husain
Room No: 27, Periyar Hostel, JNU
New Delhi - 110067


 ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں