15/5/20

مولانا سعید احمد اکبرآبادی کی مکتوب نگاری مضمون نگار: فاروق اعظم قاسمی






مولانا سعید احمد اکبرآبادی کی مکتوب نگاری
فاروق اعظم قاسمی

مولانا سعید احمد اکبر آبادی دیوبند کے فاضل، ممتاز عالم ِ دین، منجھے ہوئے صحافی، مورخ، خطیب اور مفکر و دانشور تھے۔ مولانا اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبان میں تقریر کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ اللہ نے قلم کی بیش بہا دولت سے بھی نوازا تھا۔ تین سال (1943-1946) کے وقفے کے ساتھ  1938-1985 تک مشہور ِ زمانہ ماہنامہ ’برہان‘ دہلی کے مدیر رہے۔ مولانا پیشے سے معلم تھے،  درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف سے بھی ان کا رشتہ بہت مضبوط تھا۔ انھوں نے برہان کی چوالیس سالہ ادارت میں اپنے وقیع اداریوں کے ساتھ سیکڑوں بلند پایہ علمی و تحقیقی مضامین و مقالات بھی تحریر فرمائے، شخصی مضامین اور تبصرے بھی لکھے۔ اسی کے ساتھ مختلف موضوعات پر تقریباً بیس کتابیں بھی منظر عام پر آئیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں منتشر مولانا کے سیکڑوں مقالات کو اگر یکجا کیا جائے تو ان کے بھی کئی مجموعے بن سکتے ہیں۔
خط نگاری کا سلسلہ بہت قدیم ہے۔ عربی خط نگاری کا سراغ بھی ماقبل اسلام مل جاتا ہے۔ فارسی میں بھی نامہ نویسی کی تایخ قدیم ہے؛ بلکہ فارسی خط نگاری ہی کی راہ سے اردو خط نگاری کا چشمہ پھوٹا۔
سردست اردو خط نگاری کے آغازو ارتقا پر مختصر گفتگو مقصود ہے۔ انڈیا آفس لائبری لندن میں موجود اردو خطوط کے ایک قدیم مخطوطے کے حوالے سے خواجہ احمد فاروقی نے یہ ثابت کیاہے کہ اردو خط نگاری کی تاریخ کا نقطہئ آغاز 1762 ہے۔1اسی کے ساتھ فاروقی صاحب اس کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ خطوط ادبی کم اور تاریخی زیادہ ہیں۔ لکھتے ہیں: ”ادبی اعتبار سے یہ خطوط زیادہ اہم نہیں ہیں.......ان کی قدامت البتہ اہم ہے“۔2
مکتوباتی ادب کے معروف نقاد پروفیسر مختار الدین احمد آرزوکی تحقیق کے مطابق اردو کا پہلا خط 1803میں لکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر شمس بدایونی لکھتے ہیں: ”ان (آرزو) کی تلاش وتحقیق کی رو سے اردو کا پہلا خط 1803 میں لکھا گیا جس کی مکتوب نگار فقیرہ بیگم اورمکتوب الیہ مرزا محمد ظہیر الدین علی بخت بہادر اظفری دہلوی (1818-1859) تلمیذ میر تھے۔“ 3
ان تمام تفصیلات کی روشنی میں اردو خط نویسی کی تاریخ اور آغاز وابتدا کا ایک حد تک علم ہوجاتا ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ خالص ادبی حوالے سے یا آسان نثر کی رو سے خطوط غالب نے جو انقلاب برپا کیا اس سے قطعاً انکار کی گنجائش نہیں۔
ابتدائی دور میں خط لکھنے کے بعد اسے منظر عام پر لانے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ دو افراد کے درمیان خط میں بہت سی راز ونیاز کی باتیں ہوتی تھیں، لیکن خط میں جب ذات کے ساتھ اجتماع بھی داخل ہوا تو ا س کوافادہ ئ عام کے لیے اشاعت وطباعت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ پروفیسر محمد علی اثر کی حالیہ تحقیق کے مطابق خطوط کا پہلا مجموعہ ’مہر غالب‘ 1862 میں منظر عام پر آیا۔ جس کے مرتب عبد الغفور سرور تھے۔ 4
اس کے بعد بیسویں صدی کے نصف اول تک یہ سلسلہ بڑے زور شور و شور سے چلتا رہا۔ آغاز میں کسی معروف شخصیت کے متعدد خطوط کو جمع کرنے کا رواج تھا، پھر کسی ایک معروف یا غیر معروف شاعر وادیب کے نام مشاہیر کے خطوط کو مرتب کرنے کی بنیاد پڑی اور ساتھ ہی شخص واحد کے مختلف حضرات کے نام مکتوباتی مجموعے بھی شائع ہونے لگے، اس کے بعد تورسالوں میں بھی مشاہیر اہل علم وادب کے قابل ذکر خطوط کی اشاعت کا ایک سلسلہ شروع ہو گیابلکہ آج جو اخبارات ورسائل میں مراسلاتی کالم کا رواج ہے ممکن ہے اسی کے زیر اثر شروع ہوا ہو۔
خطوط کی جمع وترتیب اورمکتوباتی ادب کوایک سمت عطا کرنے میں لاہور کے محمدطفیل مرحو کے کارناموں کو فرموش نہیں کیا جاسکتا۔ ’نقوش‘کا مکاتیب نمبر دو جلدوں میں اور نقوش ہی کا خطوط نمبر تین جلدوں میں ہزاروں صفحات پر مشتمل اردو خطوط کا بیش بہا خزانہ ہے۔
رجب علی بیگ سے اقبال تک مکتوباتی ادب کا ایک سنہری دور دکھائی دیتا ہے، اس کے بعد جوں جوں جدید ذرائع ووسائل اور مواصلاتی نظام نے ترقی کی رفتار تیز کی؛ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے لگا، دوریاں گھٹنے اور فاصلے سمٹنے لگے تو خط وکتابت کا یہ کاغذی نظام بھی ماند پڑ گیا، مگر گزشتہ بیس پچیس برسوں سے بڑی برق رفتاری کے ساتھ اس میں اضمحلال پیدا ہوا ہے اور مکتوباتی عمل کے زیر اثر قوت فکر وادب میں جو جلا پیدا ہوتی تھی اس کا سوتا خشک ہو کر رہ گیاہے۔
مولانا سعید احمد اکبر آبادی مختلف مقامات میں مختلف مناصب پر فائز رہے لیکن دو پلیٹ فارم انتہائی قابل ِ ذکر ہیں۔ ایک ندوۃ المصنّفین دہلی اور دوسرے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ علی گڑھ میں 1959سے 1972تک شعبہئ ئدینیات سے وابستہ رہے اور1938سے اپنی وفات (1985) تک ندوۃالمصنّفین بطور خاص اس کے ترجمان اور مشہور ِ زمانہ رسالہ ’برہان‘ کی ادارت سے جڑے رہے۔  43سے 46 تک تین سال کے وقفے کے ساتھ چوالیس برسوں تک برہان سے مولانا کا جسم و جان کا رشتہ رہا۔ یہ دونوں ایسے پلیٹ فارم تھے کہ مولانا کی سیکڑوں لوگوں سے مراسلت رہی ہوگی جو ایک مستقل تحقیق کا موضوع ہے۔ اُس زمانے میں مشاہیر کے خطوط کی رسائل میں اشاعت کا عام رواج تھا لیکن اس کے بر عکس برہان میں اس کا اہتمام نہیں تھا۔ مولانا اکبر آبادی نے علامہ سید مناظر احسن گیلانی کے ایک بہت اہم خط کو شائع کرتے ہوئے ایک نوٹ میں لکھا ہے: ’برہان‘ اور اس کے مضامین سے متعلق دفتر میں اور مجھ کو یہاں آئے دن خطوط موصول ہوتے رہتے ہیں لیکن کبھی کوئی خط شائع نہیں کیا جاتا۔“5 اس اقتباس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اپنے یا دوسروں کے خطوط کی حفاظت کا کوئی خاص اہتمام مولانا اکبر آبادی کے یہاں نہیں تھا۔
مولانا کی مراست علامہ سید مناظر احسن گیلانی، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، مفتی ظفیر الدین مفتاحی، مولانا عبد الماجد دریا بادی، ضیاء احمد بدایونی، بیٹی ریحانہ، پروفیسر عبد العلی (انگریزی خط)، شورش کاشمیری، مولانا علی میاں ندوی اور سید صباح الدین عبد الرحمن وغیرہ سے ہوئی ہے۔ درجنوں مجموعہ ہائے خطوط کو چھاننے کے بعد ان ہی ناموں تک رسائی ہو پائی ہے جن سے مولانا کے مکاتبت کا ثبوت ملتا ہے یا ان کے خطوط مولانا کے نام ملتے ہیں۔ مفتی ظفیر الدین مفتاحی کے نام 21خطوط، مفتی عتیق الرحمن کے نام چھ خطوط، بیٹی کے نام ایک خط، ضیا احمد بدایونی کے نام ایک خط، پروفیسر عبد العلی کے نام ایک خط ہے۔علامہ گیلانی، علی میاں، سید صباح الدین عبد الرحمن وغیرہ سے بھی اکبر آبادی کی مراسلت کا ثبوت ملتا ہے اور مکتوبات ِ ماجدی جلد سوم میں مولانا اکبر آبادی کے نام مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے 76خطوط درج ہیں لیکن اکبر آبادی کے نام دریا بادی کسی ایک خط کا اب تک سراغ نہیں لگ پایا ہے۔
 موضوعاتی حوالے سے ان خطوط پر اگر گفتگو کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تمام خطوط کی نوعیت یکساں نہیں ہے۔ مفتی ظفیر صاحب کے نام خطوط مختلف علمی موضوعات پر تبادلہئ خیال پر مشتمل ہیں، ان خطوط میں مولانا اپنے ایک علم دوست کی تربیت و رہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی علم پروری اور خرد نوازی کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ 15دسمبر 1954کے اپنے ایک خط میں مولانا تحریر فرماتے ہیں: ”برہان میں آپ کے جو مقالات نکلتے ہیں وہ پڑھے ہیں اور انھیں کو پڑھ کر میں اس فکر میں ہوں کہ آپ کے لیے معاشی اطمینان کی کوئی راہ اللہ پیدا کردے تاکہ آپ اپنے ذوق کے مطابق اطمینان سے تصنیف و تالیف کا کام کر سکیں۔ ماشاء اللہ آپ خوب کام کر رہے ہیں۔ آپ سے بڑی توقعات ہیں۔“ 6
ان خطوط میں اس رنگ کو بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بڑے کو ایک چھوٹے کی ہمت افزائی، ذہن سازی اور تربیت کیسے کی جانی چاہیے۔ اسی طرح مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے نام چھ خطوط ہیں جواکبر آبادی نے اپنے بیرونی ممالک کے دورے کے دوران لکھے تھے۔ یہ دراصل برہان کے نظرات میں سات حصوں میں علی الترتیب شائع ہوئے تھے۔ اکتوبر 1962، فروری تا مئی 1963، اپریل 1973اور ستمبر 1981تک۔ چونکہ دیگر رسائل کی طرح برہان میں خطوط کی اشاعت کا معمول نہیں تھا اس لیے مفتی صاحب کے بھی مکمل خط رسالے کے حوالے نہیں کیے بلکہ ان کے یہاں اس موقعے سے ایک جھجھک سی نظر آتی ہے۔ بلکہ اکبرآبادی کے خطوط بھی اس لیے شائع کر رہے ہیں تاکہ بغیر کسی فصل کے قارئین ِ برہان سے ان کا ربط قائم رہے۔
یہ سب سے پہلا خط ہے اور غالبا ً اکبر آبادی ابھی کناڈا کے ایک پر رونق شہر مونٹریال پہنچے ہی ہیں لیکن وہاں کے انتظام و انصرام اور اعلی رہائش سے مولانا بہت متأثر ہوئے اور صحیح معنوں میں انھیں صحت، حسن اور جوانی کا مفہوم اب سمجھ میں آیا ہے۔ اولاً مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی علالت پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے اور بر وقت ماہر ڈاکٹر سے تشخیص کرا لینے کی تاکید کر رہے ہیں۔مولانا اکبر آبادی لکھتے ہیں:
یہاں آکر پتہ چلا کہ صحت، حسن اور جوانی کیا چیز ہے  جسے دیکھیے سرخ و سفید، شگفتہ و شاداب، تندرست و توانا، آب و ہوا بہترین، غذائیں اعلیٰ اور خالص، نہ مچھر نہ مکھی نہ مٹی نہ دھواں نہ گرد وغبار، نہ کہیں غلاظت نہ گندگی، ہر چیز ٹیپ ٹاپ اور صاف ستھری، زندگی کا معیار اتنا اونچا ہے کہ یونیورسٹی کا ایک ایک طالب علم بھی اپنے کمرے میں ٹیلی فون، ریڈیو سِٹ، ریفریجریٹر، برقی چولھے، ہیٹر اور صوفہ سِٹ رکھتا ہے اور اس کے غسل خانے میں بیک وقت سرد و گرم پانی کے نل ہوتے ہیں، بڑی بڑی کاروں کا کوئی حد و حساب اور شمار ہی نہیں ہے۔ چپراسی، بیرا، خانساماں اور مزدور و قلی کا کہیں وجود نہیں ہر شخص اپنا کام خود کرتا ہے، یونیورسٹی میں چائے کی ایک پیالی بھی درکار ہوتی ہے تو بڑے سے بڑا پروفیسر خود کھانے کے کمرے میں جا کر چائے بنائے گا اور خود پیالی دھو دھا اور کپڑے سے پونچھ کر الماری میں رکھے گا۔“ 7
دوسرا خط بطور اداریے کے درج ہے حالانکہ مولانا اکبر آبادی نے واپسی پر مستقل سفر نامہ تحریر کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے تاہم مفتی صاحب اس خط کو اس لیے شامل ’نظرات‘ کر رہے ہیں کہ اس میں ترکی کے ایک اہم گوشے کاتذکرہ ہے۔ مولانا کو ترکی کی مغربی خاکستر میں اسلامیت کی تڑپتی ہوئی بے چین چنگاری نظر آرہی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں: ”ایک مرتبہ اپنے ہوٹل سے نکل رہا تھا کہ اچانک ایک ’جوڑے‘ کا سامنا ہوا، مرد اور عورت دونوں جوان، فرنگی صورت اور فرنگی لباس، چہرہ مہرہ اور لباس کی یکسانیت کے باعث یہاں محض دیکھ کر پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ کس مذہب اور کس ملک کا آدمی ہے۔ بہرحال مسلمان ہونے کا خیال تو ہوتا ہی نہیں۔“8 بعد میں معلوم ہوا کہ مولانا جس انسٹی ٹیوٹ میں گئے تھے وہیں وہ جوان بھی ریسرچ اسسٹنٹ ہے، اسی انسٹی ٹیوٹ کے ایک پروفیسر رشیدی نے سعودی عرب کی اجازت سے انڈونیشیا کے لیے حج کی ایک فلم تیار کی تھی۔ اسے دیکھنے کا پروگرام بنا،  سارے طلبہ و اساتذہ موجود تھے، انھیں میں وہ نوجوان یعنی ڈاکٹر طوغ اور ان کی اہلیہ بھی تشریف رکھتے تھے۔ مولانا لکھتے ہیں:
میں نے دیکھا کہ جوں ہی مدینہ کے گنبد ِ خضرا کا منظرسامنے آیا دونوں سے ضبط نہ ہو سکا اور بے ساختہ آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی لگ گئی، جی تو میرا بھی بھر آیا اور ایک میں ہی کیا، ہر مسلمان مرد اور عورت،  لڑکا اور لڑکی ہر ایک پر رقت طاری ہو گئی، مگر ان کا تو حال ہی کچھ اور تھا،  زبان، الفاظ اور آنکھیں آنسوؤں کے ذریعے درود و سلام کا نذرانہ پیش کر رہی تھیں۔“  9
مصطفی کمال اتاترک کے بعد ایک بار پھر بڑی تیزی سے اسلام ترکی میں زندہ ہو رہا تھا۔ اس کا اثر زندگی کے ہر شعبے پر پڑ رہا تھا۔ مساجد، اسکول و کالج اور یونیورسٹیوں میں بھی مذہبی و سماجی بیداری پیدا ہو رہی تھی اور لطف کی بات یہ کہ ان تمام سرگرمیوں میں نوجوانوں کا حصہ زیادہ تھا۔ یہ قصہ پچپن سال پہلے کا ہے اورترکی کے بارے میں مولانانے جو خواب دیکھا تھاآج وہ سچ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
کناڈا سے ہی ایک دوسرا طویل خط مولانا اکبر آبادی نے لکھا جو برہان (مارچ 1963) کے چھ صفحات پر محیط ہے۔ اس خط کا عنوان ’کناڈا کے مسلمان‘ بھی درج ہے جو شاید مفتی صاحب کا خود کا اضافہ ہے۔اس خط میں کناڈا کے مسلمانوں کے تہذیبی، معاشی، تعلیمی اور دینی احوال کا قدرے تفصیلی بیان ہے۔ مونٹریال کناڈا کا سب سے قابل ذکر اور خوب صورت شہر ہے، یہاں کی دو اہم یونیورسٹیوں میں ایک مک گِل یونیورسٹی ہے۔ اسی سے مولانا کی عارضی وابستگی تھی۔ اُس وقت وہاں عرب،  ترکی، افریقہ اور پاکستان و ہندوستان سے مہاجر مسلمانوں کی تعداد ڈھائی سو تھی۔ یہ مسلمان تقریبا ً اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور سرکاری و غیر سرکاری اچھے مناصب پر فائز ہیں اور خوش حال ہیں۔ خود یہاں کے اصل باشندے بھی مسلمان ہو رہے ہیں۔ کناڈا کی بے تعصب اور آزاد سوسائٹی کے بارے میں مولانا رقم طراز ہیں: ”چونکہ یہاں کی سوسائٹی آزاد اور خوش حال ہے اس لیے کوئی کسی قسم کے دباؤ یا لالچ سے تو مسلمان ہوتا نہیں ہے۔ جو اسلام قبول کرتا ہے دل سے کرتا ہے اور بڑی حد تک اعمال و افعال کے اعتبار سے مسلمان ہوتا ہے، پھر بڑی بات یہ ہے کہ اس کے خاندان والے یا اس کے دوست احباب اس سے کوئی تعصب نہیں برتتے۔“ 10
یہاں مسلمانوں کو اپنے اسلام پر فخر ہے اور وہ کسی طرح بھی احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہیں۔ مولانا نے اس کے تین اسباب بھی بیان کیے ہیں۔
یہاں اب تک کوئی مسجد نہیں ہے لیکن اس کی تیاری ہو رہی ہے۔ مسلمانوں کی تمام دینی ضروریات اسلامک سنٹر سے انجام دی جاتی ہیں، جمعہ کی نماز انسٹی ٹیوٹ کے کامن روم میں ہوتی ہے اور عید اگر اتوار کو پڑ جائے تو گرجا والے بخوشی اپنا گرجا نماز کے لیے دے دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی زیادہ بڑی تعداد تو نہیں البتہ یہ چھوٹی سی جماعت تمام مسالک بلکہ شیعہ و سنی سب کا ایک حسین گلدستہ ہے۔ رمضان میں ہفتے میں دو بار تراویح کی نماز ہو جاتی ہے وہ بھی برضاء و رغبت کوئی اپنا گھر اس اہم فریضے کی ادائیگی کے لیے پیش کردے تب۔ یہاں کی آبادی چونکہ پھیلی ہوئی ہے اس لیے لوگ بیس بیس پچیس پچیس کلو میٹر سے کاروں کے ذریعے اس اجتماع میں شرکت کرنے چلے آتے ہیں۔
اپریل1963کے نظرات میں درج مکتوب کا عنوان ’عید‘ ہے۔ اس خط میں دراصل مغربی ماحول میں مشرقی مہاجرین کی عید کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے۔ مسجد کے نہ ہونے کی وجہ سے ایک گرجا میں نماز ِ عید کا انتظام کیا گیا،  اسلامک سنٹر کے ذریعے یہ طے پایا کہ امامت ڈاکٹر رشیدی اور خطبہ مولانا اکبر آبادی دیں گے۔ فقرا  و مساکین کے نہ ہونے کی بنا پر فطرہ کی تمام رقوم کو سنٹر ہی میں جمع کر دیا جاتا ہے۔ نماز رشیدی صاحب نے اور خطبہ مولانا نے انگریزی زبان میں دیا۔ ان کے خطبے کا اردو ترجمہ بھی یہاں مذکور ہے۔ خطبے میں انھوں نے مسلمانوں کو ان کی دینی اور تبلیغی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ ختم نبوت کے بعد کارِ نبوت کو آگے بڑھانے اور ساری دنیا میں پھیلانے کا کام اب ہمارے کاندھوں پر ہے۔ اس کے بعد مولانا نے اپنی باتوں کی مزید تشریح کی ہے۔ نماز و خطبہ جس کی فلم بنا لی گئی تھی اسے شام کو فرانسیسی شعبے سے اور دوسرے دن انگریزی سیکشن میں ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا پھر تقریبا ً تین صفحات میں پٹنہ کے اپنے ایک مخلص میزبان حبیب اللہ خان صاحب اور ان کے امریکی نژاداور انتہائی قابل داماد عبد الرحمن کی خوبی، اخلاص، محبت اور ان کی دینی حمیت و کیفیت کو بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ مولانااپنے خط کے اخیر میں لکھتے ہیں: ”اس سے مقصد یہ دکھانا ہے کہ خدا جنھیں توفیق عطا فرماتا ہے وہ کافرانہ ماحول و فضا میں رہتے ہوئے بھی احکام ِ الٰہی کی پابندی کرتے اور دین کی عزت و آبرو رکھتے ہیں اور جنھیں توفیق نہیں ہوتی وہ بلدہ ئ حرام و امین میں بھی رہتے سہتے ہتک ِ حُرمات و شعائر کرتے ہیں اور درحقیقت اگر کوئی غور کر لے تو یہ خود بہت بڑا سبق ہے۔“  11
کناڈا ہی سے مئی 1963کے ایک خط میں مولانا نے خالص اپنی علمی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ متعلقہ انسٹی ٹیوٹ بڑی اہمیت کا حامل تھا اس لیے کہ وہاں مختلف ممالک کے نامور اہل فضل و کمال آتے جاتے رہتے تھے۔ مولانااکبر آبادی کی بہت سے اہل علم و دانش سے ملاقاتیں رہیں لیکن دو مستشرق علما کا بطور ِ خاص ذکر کیا ہے۔ پروفیسر جوزف شاخت اور پروفیسر فلپ کے حتی۔  اول الذکر کی ’اسلامی فقہ کے مآخذ‘ اور دوسرے کی ’تاریخ ِ عرب‘ مشہورِ عالم کتاب ہے۔ مولانا ان دونوں کے علم و تحقیق کے تو قائل تھے ہی لیکن ان کے اخلاق و اطوار، سادہ زندگی، سادہ لباس و خوراک، وقار وسنجیدگی اور اصول پسندی سے بہت متأثر ہوئے۔ لکھتے ہیں:
 اصول پسندی اور ڈسپلن کے لیے ہر جگہ مشہور ہیں مگر طبیعت کے بے حد سادہ اور مزاج کے بڑے شگفتہ اور بے تکلف ہیں، ایک پرانا سا سوٹ نیلے رنگ کا پہنے ہوئے تھے جو معلوم نہیں کب سے استری کے لمس سے محروم تھا، پاؤں میں بوٹ بھی بغیر پالش کے تھے، پاس ہی میز پر ان کا چمڑہ کا تھیلا رکھا ہوا تھا جو صورت ِ حال سے کہہ رہا تھا کہ وہ ایک ایسے پروفیسر کی ملکیت ہے جو ’خوردن برائے زیستن‘ پر ایمان رکھتا ہے۔ ان کی اس سادگی کا میرے دل پر بڑا اثر ہوا اور فورا ً عربی کا وہ مشہور مقولہ یاد آیا کہ ”العلم لا یعطیک بعضہ حتی لا تعطیہ کلک۔“ 12
مولانا پروفیسر شاخت کی حدیث پر لکھی کئی کتابوں کا مطالعہ کر چکے تھے اس لیے دورانِ گفتگو ان کی ایک غلطی کی طرف توجہ دلائی تو پروفیسر نے بڑی خندہ پیشانی سے سوال سن کر اسے اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیا۔ رخصت ہوتے وقت بڑے پُر تپاک انداز میں ملاقات کرتے ہوئے مولانا سے وعدہ لیا کہ جب بھی وہ نیو یارک آئیں ان سے ضرور ملیں کیوں کہ اس وقت وہ نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔
اسی طرح پرنسٹن یونیورسٹی میں مولانا کی ملاقات پروفیسر حتی سے ہوئی جہاں پہلے ہی سے قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی کے دو استاذ پروفیسر پطروس عبد الملک اور مصطفی زیادہ اور ایک ملایا کے پروفیسر محمد محی الدین تشریف فرما تھے۔ یہ تینوں عربی بولنے والے تو تھے ہی حتی بھی چونکہ عربی النسل تھے اس لیے وہ بھی اس پر قادر تھے۔ موضوع ِ گفتگو عربی زبان کا جدید و قدیم ادب و رجحانات اور عرب نیشنلزم تھا۔ جب مولانا رخصت ہونے لگے تو حتی نے ان سے کہا: ”آپ ابھی واپس ہورہے ہیں اس کا بڑا افسوس ہے، میرا جی چاہتا تھا کہ آپ کا یہاں قیام ذرا اور ہوتا تو ہم لوگ آپ سے استفادہ کرتے۔ میں نے کہا: آپ یہ کیا فرماتے ہیں۔ میں تو آپ کا معنوی شاگرد ہوں کیونکہ آپ کی کتاب پڑھ کر میں نے ایم، اے کا امتحان دیا ہے۔“ 13
ملایا کے پروفیسرمحی الدین شیخ الہند کے ایک ملایا شاگرد شیخ احمد خراسانی کے شاگرد نکل آئے اور ان کے دو اور بھائی بھی فاضل ِ دیوبندتھے، پھر کیا تھا ان کا دوستانہ مزیدخوشگوار ہو گیا اور نیو یارک سے مونٹریال، مونٹریال سے لندن تک ہم رکابی رہی۔
جنوبی افریقہ ڈربن سے مولانا نے مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے نام دو خط اور تحریر کیے ہیں۔ پہلے خط میں جہازکے لیٹ ہوجانے کی وجہ سے کچھ دشواریوں کا ذکر کیا ہے۔ دراصل مولانا کا یہ سفر کوئی علمی یا ادبی نہیں تھا لیکن ان کی آمد کی خبر سن کر بہت سے قدرشناسوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ چل پڑا اور کئی جگہوں پہ انھیں خطاب بھی کرنا پڑا۔ اس خط میں مولانا نے افریقہ کے حسن، موسم کی خوشگواری، صفائی ستھرائی اور اشیائے خورد و نوش کی تعریف کی ہے۔ حسنِ  اتفاق سے رمضان بھی شروع ہو گیا ہے اور تراویح بھی جاری ہے۔ اسی طرح خط میں مولانا اکبر آبادی نے اپنی مادر علمی دار العلوم دیوبند کا ذکر کیا ہے اور وہاں کی انتظامیہ کے ایک فیصلے پر افسوس کا اظہار بھی۔ اپنے میزبان کی بھی بڑی تعریف کی ہے جنھوں نے ان کی خاطر داری میں کوئی کسر نہ چھوڑرکھی تھی۔ 14
24ستمبر 1962کے ایک خط بنام بیٹی ریحانہ بھی کناڈا سے لکھا جس کا پورا حصہ میرے سامنے نہیں ہے، تاہم جو بھی ہے اس میں مولانا نے وہاں کی تہذیب اور بے تصنع زندگی کا نقشہ کھینچا ہے، یوروپ کے علم اور صاحب علم کی قدر شناسی کو یوں بیان کیا ہے:
 یہ لوگ ہندوستانی کی بڑی عزت کرتے ہیں اور پھر پروفیسر کا خاص طور پر ان کے وہاں بڑا اونچا مقام ہے اس لیے مجھے جو ملتا ہے بڑی عزت و محبت سے ملتا ہے۔ کھانے پینے اور رہنے کا بھی اعلیٰ سے اعلیٰ انتظام ہے؛ البتہ میری اپنی زبان اردو چھٹتی جاتی ہے۔ جمعہ کی نماز میں ہندوستانی اور پاکستانی مل جاتے ہیں تو بس ان سے اردو میں بات کرکے جی خوش کرلیتا ہوں۔
علی گڑھ سے 23اگست 1960کا لکھا مولانا کا ایک مختصر خط ضیاء احمد بدایونی کے نام ہے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ئ فارسی کے پروفیسر تھے۔اس میں انگلینڈ سے جاری ایک تبلیغی پرچے کا ذکر کیا جارہا ہے اور اس میں مکتوب الیہ کی ایک نظم کی اشاعت کی اطلاع دی جارہی ہے۔ 15
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر عبد العلی جن کا وطن بھوپال تھا، کو بھی مولانا نے ایک خط لکھا اور وہ بھی انگریزی زبان میں۔ خط کے لہجے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ یا تو مولانا کا کوئی شاگرد ہے یاعزیز ہے۔ اس سے معذرت بھی کر رہے ہیں، اس کی ہمت افزائی بھی کر رہے ہیں اور دعائیں بھی ڈھیر ساری دے رہے ہیں۔ 16
ایک عمدہ نثر کی علامت یہ ہے کہ وہ غیر مبہم، واضح، اور رواں ہو۔ بے ساختگی بھی نثر کا ایک اہم وصف ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جملہ نثری اصناف میں خط نگاری ایک ایسی صنف ہے جس میں سب سے زیادہ بے ساختگی اور بے تکلفی پائی جاتی ہے۔ اسے اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ خط نگاری کی بنیادی خصوصیت بے ساختگی ہے اس لیے کہ خط گفتگو ہی کی تحریری شکل ہے۔اسی کو غالب کی زبان میں مکالمت کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان بنیادی خصوصیات سے کوئی خط خالی ہو تو اسے خط نہیں مضمون کہا جائے گا۔ مولانا اکبر آبادی کی خط نگاری کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ان کے اکثر خطوط ان اصولوں پر کھرے اترتے ہیں تاہم بعض خطوط اپنی طوالت کی وجہ سے مقالے کی سرحد چھونے لگتے ہیں۔ مثلا ً مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے نام خطوط کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یا تو کوئی مقالہ پڑھ رہے ہیں یا خود نوشت سوانح۔ اس کے با وجود اکبر آبادی کی نثر آبشاری اور رواں دواں ہے۔ وہ بہت ہی نپے تلے انداز میں اپنی بات کہنے کے عادی ہیں۔مولانا کا لہجہ علمی اور سادہ ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی باتیں کہہ دیتے ہیں۔ علمی ناطرفداری بھی ان کے قلم کا خاصہ ہے۔ انھوں نے خود اپنے طرز ِ نگارش کے بارے کہا ہے:
 میرے قلم کا ایک خاص انداز ہے جس میں تحلیل و تجزیہئ نفسی کے ساتھ سنجیدگی اور غیر جانبداری بھی ہوتی ہے... یوں ہونے کو تو میں خالص دیوبندی ہوں، کٹر حنفی ہوں، سیاست میں بالکل کانگریسی ہوں لیکن تحریر کے وقت محض طالب علم ہوتا ہوں اور دماغ سے ہر قسم کی عصبیت کو باہر نکال دیتا ہوں، اسی وجہ سے میری تحریر میں اثر ہوتا ہے اور موافق و مخالف دونوں اس کو پڑھتے ہیں... دھڑے بندی ایک قلم کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ میں ہمیشہ اس آلودگی سے اس کو پاک رکھتا ہوں“۔ 17
ان سطور سے مولانا کے قلم کی بے تعصبی، حق گوئی اور نثری خوبیوں کا بخوبی علم ہو جاتا ہے۔ ان کے قلم کے ان ہی امتیازات کی بنا پر ہر حلقے میں ان کی تحریر مقبول اور قدر کی نگاہوں سے دیکھی جاتی تھی۔اس وقت راقم کے سامنے مولانا کے محض تیس خطوط ہیں جو  ’مشتے نمونہ از خروارے‘ ہیں اور ان کی مکتوب نگاری کی تفہیم کے لیے کافی ہیں۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی جملہ تحریریں ادبیت سے بھرپور ہیں لیکن افسوس کہ اردو ادب میں تیسرے چوتھے درجے کے لکھنے والوں کو ادبی تاریخ کا حصہ بنایا جاتا ہے،  انھیں تمغوں سے نوازا جاتا ہے اور ان کی جھوٹی عظمتوں کے گیت گائے جاتے ہیں لیکن اکبر آبادی جیسے اول درجے کے لکھنے والوں کا دور دور تک ادبی تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ جب کہ انھوں نے چوالیس برسوں تک ایک شہرہئ آفاق علمی، دینی اور ادبی رسالے ’برہان‘ کی ادارت کی، سفر نامہ تحریر کیا، خطوط لکھے، شبلی کی سوانح نگاری کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے ’صدیق اکبر‘ؓ  اور’عثمان ذوالنورین ؓ‘ جیسی شاہکار تصانیف یادگار چھوڑیں۔
 مذکورہ بالا سطور سے راقم کا مقصد یہی ہے کہ مولانا اکبر آبادی جیسے اردو زبان و ادب کے اساطین کو لسانی و ادبی تاریخ کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ ہم اپنا فرض اور قرض بھی ادا کر سکیں اور ہماری ادبی تاریخ مزید صحت مند و صحت بخش بن سکے۔                           
حواشی:
.1       مکتوبات اردوکا ادبی وتاریخ ارتقا،ص ص: 55-54
.2       مکتوبات اردو کا ادبی وتاریخی ارتقاء، ص ص: 57-56
.3       مکتوباتی ادب، بریلی،ناشر ومصنف: ڈاکٹر شمس بدایونی (2010)  ص: 115
.4       مکاتیب مشاہیر، پروفیسر محمد اثر(2013) ص: 28
.5       ماہنامہ ’برہان‘ دہلی، جنوری 1950
.6       مشاہیر علمائے ہند کے علمی مراسلات، مرتب: محمد ظفیر الدین مفتاحی، قاضی پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز نئی دہلی (1977)ص: 212
.7       ماہنامہ ’برہان‘ دہلی،  اکتوبر 1962
.8       ماہنامہ ’برہان‘ دہلی،  فروری 1963
.9       ماہنامہ ’برہان‘ دہلی، فروری 1963
.10     ماہنامہ ’برہان‘ دہلی، مارچ 1963
.11     ماہنامہ ’برہان‘ دہلی، مارچ 1963 
.12     ماہنامہ ’برہان‘ دہلی، مئی 1963
.13     ماہنامہ ’برہان‘ دہلی، مئی 1963
.14     ماہنامہ ’برہان‘ دہلی، ستمبر 1981
.15     مکتوبات: مرتب کے نام معاصر کے خطوط، مرتب: ضیاء احمد بدایونی، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ (1967) ص: 101
.16     مولانا سعید احمد اکبر آبادی: احوال و آثار، مرتب: ڈاکٹر سعود عالم قاسمی، شعبۂ سنی دینیات، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (2005)  ص: 14-13
.17     مشاہیر علمائے ہند کے علمی مراسلات، ص: 218

Dr. Farooq Azam Qasmi
Mashki Pur, Jamalpur
Khagaria - (Bihar)


ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں