30/12/25

عربی شاعری میں ہجوگوئی کی روایت،مضمون نگار: شمس کمال انجم

اردو دنیا،اگست 2025

زندگی یہی ہے۔ جینا اسی کا نام ہے۔ کبھی خوشی کبھی غم۔ کبھی دکھ کبھی سکھ۔ کبھی نشیب کبھی فراز۔ کبھی اچھائی سے سامنا ہوتا ہے تو کبھی برائی سے۔ انسان کا دل جب دکھتاہے تو ہر انسان اپنے اپنے حساب سے اس کا اظہار کرتا ہے۔ کچھ لوگ مغلظات بک دیتے ہیں تو کچھ لوگ بڑی شائستگی سے خوب صورت لفظوں میں دل دکھانے والے کابکھان کردیتے ہیں۔ شاعروں کا جب دل دکھتا ہے تو وہ شعری پیکر میں د ل دکھانے والے کی ایسی تیسی کردیتے ہیں۔زبان شعرمیں کسی کی ایسی تیسی کرنے کو عربی اور اردو میں’ہجویہ شاعری‘ کہتے ہیں۔ ہجویہ شاعری سب وشتم اور عتاب وسرزنش سے عبارت ہوتی ہے۔کبھی’مہجو‘کی ذاتی، اخلاقی اور نفسیاتی خامیوں کو اجاگر کرکے اس کی ہجو کی جاتی ہے تو کبھی اس کے پورے قبیلے اور قوم کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔ وفا داری کو بے وفائی سے، سخاوت کو کنجوسی سے، سچائی کو جھوٹ سے، شجاعت کو بزدلی سے اور علم کو جہالت سے بدل کرپیش کیا جاتا ہے۔

حالانکہ شاعری اچھے خیالات اور نازک جذبات واحساسات کو شعر کا پیکر عطا کرکے دلوں کو حرارت پہنچانے کا نام ہے لیکن یہ شاعری دودھاری تلوار ہے۔ اس سے اگر کبھی تعریف وتوصیف کاکام لیا جاتا ہے تو کبھی اس سے کسی کی مذمت وبرائی بھی کی جاتی ہے۔ مدح کے لیے گراس کا استعما ل کیا جاتا ہے تو ذم کے لیے بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔اگر شاعری سے تعریف کا کام لیا جاسکتا ہے تو اس سے ہجو اور ذم کا بھی کام لیا جاسکتا ہے۔

عربی میں غزل گوئی،مدح گوئی، مرثیہ گوئی، منظر نگاری، فخرواعزاز کااظہار اور ہجوگوئی وہ اصناف سخن ہیں جن میں ہر بڑے شاعر نے طبع آزمائی کی ہے۔ہر دور اور ہر سماج میں ان اصناف سخن کا جلوہ قائم رہا۔ شاعروں کی یہی خوبی ہے کہ وہ کسی ایک صنف میں دماغ نہیں کھپاتے بلکہ بڑے شاعر کی نشانی یہی ہے کہ وہ ہر صنف میں اپنی عقل کا گھوڑا دوڑاتے ہیں اورشعر کہتے ہیں۔ عربی کے تقریباً سبھی بڑے شاعروں نے تمام اصناف سخن میں اپنے فکر وفن کے جوہر دکھائے ہیں اور خوب خوب داد سخن بٹورے ہیں۔ عربی شاعروں نے دیگر مروجہ اصناف سخن کے ساتھ ساتھ ہجو گوئی کا بھی اہتمام کیا۔’مہجو‘کو انھوں نے نہ صرف اپنے اشعار سے دھو دھوکے مارا بلکہ اپنے ہجویہ قصیدوں کو مشہور بھی کیا۔ لوگوں نے اس کی روایت بھی کی۔ کتب ادب نے انھیں محفوظ بھی کیا۔ آج کے زمانے میں ہجو گوئی تو خطرے سے خالی نہیں۔ ہجو کہنے والے شاعر پر مقدمہ بھی قائم ہوسکتا ہے۔

عربی کے کم وبیش تمام شعرا نے ہجویہ اشعار و قصائد کہے ہیں۔ المتلمس (جریر بن عبد العزی،وفات 580)، ذو الاصبع العدوانی (حرثان بن عمرو بن بنی یشکر بن عدوان، وفات :595)، زہیر بن ابی سلمی (520/610)،عنترہ بن شداد (وفات:614)، عروہ بن الورد (وفات: 615)، اعشی قیس (وفات: 7ھ/6269)،کعب بن زہیر (وفات: 26ھ/645)، حسان بن ثابت (563-626)، حطیئہ ( ابو مُلیکہ جرْوَل بن اوس، وفات:59ھ) عمران بن حطان (وفات: 84ھ)، اخطل( غیاث الاخطل بن غوث تغلبی، 19ھ۔95ھ)، فرزدق (ابو فراس ہمام الفرزدق بن غالب بن صعصعہ تمیمی دارمی، 19ھ۔110ھ،جریر (بن عطیہ بن الخطفَی، 30ھ۔115ھ)،بشار بن برد (91ھ۔167ھ) ابو نواس (الحسن بن ہانی، 140ھ۔ 199ھ)،ابن الرومی ((ابوالحسن علی بن العباس بن جریج 221ھ۔283ھ)، بحتری(الولید بن عبید البحتری، 206-286ھ)، متنبی(ابو الطیب، احمد بن الحسین، 303ھ۔354ھ) اور ابوتمام جیسے عربی کے بڑے کلاسیکی شعرا قابل ذکر ہیں جنھوں نے ہجومیں ہنر آزمائی کی۔ ان میں سے کچھ شعرا ایسے ہیں جنھیں ہجو گوئی کے لیے شہرت حاصل تھی اور وہ بہت تیکھے طنز کے تیر برساتے تھے۔ لیکن کچھ وہ ہیں جو اس فن میں مقبول نہیں تھے لیکن انھوں نے ہجویہ اشعار ضرور کہے۔اس مضمون میں ہم انھیں شاعروں کی ہجو گوئی پر روشنی ڈالیں گے جو اس صنف کے ماہر مانے جاتے ہیں۔

جریر، اخطل اور فرزدق کی ہجوگوئی تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ان تینوں نے اس طرح آپسی ہجو گوئی کاسلسلہ شروع کیا جس کا خاتمہ ان کی موت سے ہی ہوا اور جسے عربی شاعری کی تاریخ میں ’نقائض‘ کے نام سے جاناگیاکیونکہ یہ تینوں ایک دوسرے کو اسی وزن وقافیہ اور اسی بحر میں ہجو کہتے تھے جس میں اس کی ہجو کی جاتی تھی۔

واقعہ یہ ہے کہ جریرکی بنی خطفی میں بدویانہ اور فقیرانہ نشوونما ہوئی۔وہ اپنے باپ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ فقر وفاقہ کی وجہ سے بنی خطفَی کے لوگ شاعری کرتے تھے اور آپس میں ہجو بازی کیا کرتے تھے یہاں تک کہ انہی کے چچا زادوں میں ایک شاعر ابھرا جسے غسان سَلیطی کہاجاتاتھا۔ جریر نے دیکھا کہ غسان تو اپنی ہی قوم کی ہجو کرتا ہے۔ ان کی برائی کرتا ہے اورلوگ اس کے ارد گرد جمع رہتے ہیں تو اس نے ایک رجزیہ قصیدہ کہا جس میں اس نے غسان کی بڑی خطرناک ہجو کی۔جریر کایہ قصیدہ  سن کر اس کی قوم کے لوگوں نے اسے دادو تحسین سے نوازا اور اس پر فخر جتایا۔ اس کے بعد جریر اور غسان میں باہمی ہجو گوئی کا آغاز ہوگیا مگر جریر اس پر غالب آتا رہا۔اسی اثنا میں بَعِیث نامی ایک شاعر نے غسان کی مدد کی۔ بعیث کا تعلق بنی مجاشع سے تھا۔ بنی مجاشع فرزدق کے قبیلے بنی تمیم سے تعلق رکھتے تھے لہٰذا جریر نے اب دونوں کی ہجومیں قصیدہ کہنا شروع کیا اور ان پر غالب آگیا۔ اس نے بنی مجاشع کی عورتوں کو کچی کچی گالیاں بکیں۔فرزدق اس وقت بحیثیت شاعر مشہور ومعروف تھا اور بڑے بڑے شاعروں پر غالب آیا ہوا تھا۔ جب بعیث جریر سے بھڑا تو فرزدق نے ہجو گوئی سے توبہ کرلی اور اپنے آپ کو زنجیروں میں قید کرلیااور قسم کھائی کہ اس وقت تک اپنے گھر سے نہیں نکلے گا جب تک کہ وہ قرآن کریم حفظ نہیں کرلیتا۔بنی مجاشع کی عورتیں اس کے پاس آئیں اور اسے ملامت کرنا شروع کردیا اور کہا کہ تم یہاں عزلت گزیں ہوگئے ہو، گھر میں گھسے بیٹھے ہو، وہاں جریر ہماری عصمت وعفت کو تار تار کرنے پرآمادہ ہے۔ چنانچہ اس کی خاندانی غیرت وحمیت نے اسے للکارا اور اس نے خود کو زنجیروں سے آزاد کیا اور جریرکی ہجو شروع کی۔پھر جریر وفرزدق کے درمیان ہجو گوئی کا معرکہ گرم ہوگیا۔ بعیث تو شکست کھاگیا لیکن جریر وفرزدق کے درمیان ہجو کا معرکہ جاری رہا۔ ان دونوں کی ہجو گوئی میں اسّی شاعروں نے مداخلت کی جن میں ایک مشہور شاعر اخطل بھی تھا۔جریر نے سب کو پچھاڑ دیا سوائے اخطل اور فرزدق کے۔ان تینوں میں لمبے عرصے تک ہجو گوئی کا سلسلہ دراز رہا یہاںتک کہ ان تینوں کا انتقال ہوگیا۔(دیکھیے تاریخ ادب عربی از احمد امین 199-200)

جریر کی خوبی یہ تھی کہ جو لوگ جریر کو ستاتے تھے یا اس پر ظلم کرتے تھے ان کی ہی وہ ہجو کرتا تھا۔ کبھی کسی کی ہجو میں سبقت نہیں کرتا تھا لیکن جب وہ کسی سے جوتم پیزار ہوتاتھاتو اس کی ناک میں دم کرکے چھوڑتا تھا سوائے فرزدق کے کہ ان دونوں کے درمیان تقریباً نصف صدی تک ہجو گوئی کا سلسلہ جاری رہا۔ موت کے سوا کوئی ان دونوں کو ہجو سے باز نہ کرسکا۔ جریرنے اسی حوالے سے یہ شعر کہہ کر گویااپنے ہجویہ مسلک کی وضاحت کردی تھی   ؎

وعاوٍ عوَی من غیر شیء رمیتُہ

بقافیۃٍ انفاذُہا تقطُر الدمَا

خروجٍ بافواہِ الرّواۃِ کانّہا

قرا ہندوانیٍ، اِذا ہُز صَمّما

یعنی اگر بلا وجہ کوئی مجھ پر بھونکتا ہے تو میں اس کا جواب ایسے اشعار سے دیتا ہوں جن کی کاٹ اس ہندوستانی تلوار کی سی ہوتی ہے جو ہڈیوں تک اتر جاتی ہے۔ راعی کو جب پتہ چلا کہ یہ جریر کے شعر ہیں تو اس نے کہاخدا کی قسم اگر انسان جنات مل کر ایک ساتھ کوشش کریں تب بھی اس جیسا کلام نہیں کہہ سکتے۔

(تاریخ ادب عربی، عبد الحلیم ندوی3/468)

جریر کی اکثر ہجو کی خاصیت یہ رہی ہے کہ وہ اس میں سخریہ واستہزاء کا اسلوب اپناتا ہے۔اپنے دشمن کی اکڑخوں اور اس کے غرور وتکبر اور لوگوں کے درمیان اسے وقار واعتبار کھودینے پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور اس پر ایسے الفاظ کا تیر پھینکتا ہے جسے سن کر لوگ لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں اور وہ عوام وخواص سب کو سمجھ میں آتے ہیں۔

راعی نمیری(ابو جندل حصین بن معاویہ بن جندل) ایک شاعر تھا جوفرزدق کی طرف میلان رکھتا تھا اور جریرکے خلاف بھونکتا رہتا تھا۔ اس نے جریر کی ہجومیں ایک قصیدہ کہا توجریر نے اس کے جواب میں پورا قصیدہ کہہ ڈالا جس کا یہ خطرناک شعر دیکھیے۔ کہتا ہے      ؎

فغُضّ الطرفَ إنّکَ من نُمیرٍ

فَلا کعبًا بَلغتَ وَلا کلابَا

(نمیرجیسے چھوٹے قبیلے کے کمترانسان!اپنی نظریںنیچی رکھو۔ تم تو اتنے چھوٹے اور نیچ ہو کہ نہ کعب کے مقام ومرتبے کو پہنچ سکے نہ کلاب کے۔)یعنی تو بہت ذلیل وکمینہ اور نیچ خاندان کا فرد ہے کہ تو کعب وکلاب کے مرتبے کو ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔

عمر فروخ اس قصیدے کے انتالیس شعر ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ’’بنو نمیر کی رسوائی کے لیے یہی ایک قصیدہ کافی تھا۔ یہ اتنا زبان زد عام وخاص ہوگیا کہ کوئی اور قصیدہ اتنا مشہور نہیں ہواتھا۔یہاں تک کہ اس قصیدے کی شہرت کے بعد بنونمبر اپنا گھر چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب بھی وہ واپس آتے تو جریر کے گھر والے یہ قصیدہ پڑھتے ‘‘(جس سے انھیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا)۔(دیکھیے تاریخ ادب عربی از عمر فروخ 1/665-669) ابن رشیق قیروانی کے حوالے سے عمر فروخ لکھتے ہیں کہ عربوں نے اس قصیدے کا ’فاضحہ‘ نام رکھ دیا تھا۔ جریر نے خود اسے ’دمّاغہ، دہقانہ اور منصورہ‘ نام رکھا تھا۔ دامغہ (ایسی ضرب جو سر کو توڑ کر دماغ تک پہنچ جائے) کے نام سے بھی اس قصیدے کو شہرت حاصل تھی۔ (تاریخ ادب عربی از عمر فروخ 1/674)یہ بھی کہاجاتا ہے کہ راعی نمیری پر اس قصیدے کا ایسا شدیدمنفی اثر ہوا کہ اسے صدمہ لاحق ہوگیا اوراسی سال اس کا انتقال ہوگیا۔(تاریخ ادب عربی از عمر فروخ 1/674)

جریر نے اپنی بیوی کے مرثیے میں یہ شعر کہا تھا      ؎

لَولا الحَیائُ لعَادَنی استِعبارُ

ولَزرتُ قبرکِ والحبیبُ یُزارُ

(اگر شرم وحیا مانع نہ ہوتی تو شدت غم سے میری آنکھیں آنسوؤں کی لڑیاں پرونے لگتیں اور میںتیری قبر کی زیارت کے لیے بے تحاشا  دوڑ پڑتا کہ محبوب کی زیارت بہر حال کی جاتی ہے۔ )فرزدق نے ایسے موقعے پر جریر کی دلجوئی کے بجائے انتہائی بھونڈے پن سے اس کامذاق اڑایا اوراس کی ہجو کرتے ہوئے کہا       ؎

کانت منافِقۃ الحیاۃِ وموتُہا

خزیٌ علانیۃ علیک وعَارُ

(یعنی وہ تو زندگی بھر منافق رہی اور اس کا مرجانا تیرے لیے علانیہ عار اور شرمندگی کا باعث ہے۔) دیکھیے تاریخ ادب عربی از عمر فروخ 1/177، تاریخ ادب عربی،از عبد الحلیم ندوی 3/ ص538۔

حطیئہ جاہلی اوراسلامی دور کا ایک عظیم الشان اور معتبرشاعرتھا لیکن بہت گندی زبان کا مالک تھا۔ شاعری میں سب وشتم کرتا رہتاتھا۔’’اصمعی کا خیال ہے کہ ’’وہ بہت بڑا لالچی، بھیک منگا، مکار، کمینہ، شرِّکثیر اور خیرِقلیل والا فرد تھا۔ قبیح المنظر،پراگندہ حال، مجہول النسب اور فاسد الدین تھا۔ کسی شاعر کے کلام میں جو عیب اور نقص آپ سوچ سکتے ہیںسب اس کے کلام میں آپ کو مل سکتے ہیں‘‘۔ …سچائی یہ ہے کہ اس نے ہر اس شخص کی ہجو کی جس کی طرف اس کی نسبت ہوئی یا جنھوں نے خود کو اس سے منسوب کیا۔ اس نے اپنے باپ کی ہجو کی۔اپنی ماں کی ہجو کی۔ اپنے علاّتی (سوتیلے) بھائیوں اور اپنی بیوی کی بھی ہجو کی۔اسی پر بس نہ کرکے اس نے خود اپنی بھی ہجو کرڈالی۔اس کی ہجو سے سبھی ڈرتے تھے۔ اس نے سردار قوم زبرقان بن بدر کی ہجو میں ایک پورا قصیدہ کہ ڈالا جس کے ایک شعرپر تو وہ تلملا اٹھا۔ اور وہ یوں ہے   ؎

دعِ المَکارِم لا تَرحَل لبُغیتِہا

واقعُد فانّک انت الطاعمُ الکاسِی

(یعنی اے زبرقان بن بدر تم اعلی مراتب ومقاصد اور اونچے کارنامے کا خیال چھوڑ دو۔ یہ تمھارے بس کی چیزیں نہیں۔ ان کے لیے تگ ودو مت کرو۔ گھر میں ہاتھ باندھ کے بیٹھے رہو۔ تم اس کے اہل نہیں کیونکہ تم لوگوں کے کھانے پر پلتے ہو۔ لوگوں کا دیا ہوا پہنتے ہو۔)

اس فحش ہجو کی وجہ سے زبرقان نے حضرت عمرسے اس کی شکایت کی۔عمر فروخ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر تو خود اشعار کا سب سے عمدہ ذوق رکھتے تھے لیکن بس حجت قائم کرنے کے لیے انھوں نے حطیئہ جیسے بڑے شاعر حضرت حسان بن ثابت سے رائے لی تو انھوں نے کہا اس نے بڑی بے ہودہ ہجو کی ہے جس کے بعد حضرت عمر نے اسے جیل کی ہوا بھی کھلائی۔

 وہیں سے اس نے حضرت عمر سے رہائی کی شاعرانہ درخواست کی اور بہترین شعر کہہ کر ان کی خدمت میں ارسال کیے۔ کہتا ہے      ؎

مَاذا تَقولُ لافرَاخٍ بذِی مَرخ

حُمر الحَواصِل لا مائٌ ولا شجرُ

القیتَ کاسبَہم فی قعرِ مظلمۃٍ

فارحم عَلیک سلامُ اللہ یا عمرُ

(یعنی وادی ذی مرخ میں موجود چھوٹے چھوٹے چوزوں (یعنی حطیئہ کے بچوں) کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جہاں نہ پانی ہے نہ درخت(اور ان کے سایہ) جناب! آپ نے ان کے کھلانے والے کو جیل کی تاریک کوٹھری میں بند کریا ہے۔ عمر! آپ پر اللہ کی سلامتی ہو۔ مجھ پر رحم کھائیں۔اس کے بعد آپ نے حطیئہ سے توبہ کرائی اور اسے رہاکردیااور کہا آئندہ کبھی بھی وہ کسی مسلمان کی ہجو نہ کرے۔اسے تین ہزار درہم بھی دیے تاکہ  وہ ہجو گوئی سے مستغنی ہوسکے۔ )تاریخ ادب عربی ا ز عمر فروخ 1/333۔

عباسی دور کے مشہور شاعر ابن الرومی(علی بن عباس بن جریج، ولادت: 221/836ء، وفات 283ھ/896) کے بارے میں عمر فروخ لکھتے ہیں کہ عربی ادب کی تاریخ کا سب سے بڑا ہجو گو تھا۔(ابن الرومی، عمر فروخ ص30) اس کی گندی زبان کی وجہ سے لوگ طوعاً وکرھاً اس کی عزت وتکریم پر مجبور تھے۔(تاریخ ادب عربی از احمد حسن زیات ص276)

 جرجی زیدان لکھتے ہیں کہ وہ بہت بھیانک ہجو کہتا تھا۔کہاجاتا ہے کہ اعیان قوم اور وزراء تک اس کی ہجو گوئی سے ڈرتے تھے۔یہاں تک کہ ہجو گوئی میں اس کی جرات وبیباکی نے اس کی جان لے لی۔ (تاریخ آداب اللغۃ ص160، تاریخ ادب عربی زیات، ص277) واقعہ یہ ہے کہ معتضد کے وزیر القاسم بن عبید اللہ کی اس نے ہجو کی تو اس نے اسے زہر دے کر مروادیا۔ ابن الرومی کواس کی مجلس میں زہر دیا گیا۔ اسے احساس ہوا کہ اسے زہردیا جاچکا ہے تو وہ اس کی مجلس سے اٹھ کر جانے لگا۔ وزیر نے پوچھا کہاں جارہے ہو! ابن الرومی نے کہا وہیں جہاں تم نے مجھے بھیجا ہے۔ وزیر نے کہا میرے ابا سے سلام عرض کرنا۔ ابن الرومی نے کہا میں جہنم میں نہیں جارہا ہوں۔پھر وہ اپنے گھر گیا اور کچھ روز بعد انتقال کرگیا۔ (تاریخ ادب عربی زیات ص277)

وہ اس معنی میں بہت بد قسمت تھا کہ اس کے مدحیہ قصیدوں کو کم انعام واکرام نصیب ہوئے۔مرزبانی لکھتا ہے کہ ابن الرومی نے جس کی بھی مدح کی اس کی بعد میں ہجو بھی کی۔کہاجاتا ہے کہ وہ کسی بادشاہ کی خدمت میں مدحیہ قصیدہ لے کر حاضر ہوا لیکن بادشاہ نے اسے انعام واکرام سے نہیں نوازاتو اس نے اس کی ہجو میں ایک قصیدہ کہہ ڈالا جس میں دو شعر یہ بھی تھے کہ   ؎

اِن کنتَ من جہل حقّی غیر معتذرٍ

اَو کنت من ردّ مدحی غیر متّئبِ

فاعطِنی ثمنَ الطرس الذی کتبت

فیہ القصیدۃَ أو کفارۃ الکذبِ

(کہتا ہے کہ ’’جناب میں نے آپ کے لیے لکھے گئے مدحیہ قصیدے میں آپ کے لیے جو جھوٹی قسم کھائی ہے اس کا کفارہ ادا کیجیے۔ اگر نہیں کرسکتے تو کم از کم اس روشنائی کی قیمت ہی ادا کیجیے جس سے میں نے آپ کی مدح میں وہ قصیدہ کہاتھا‘‘۔)دیکھییے ابن الرومی از عمر فروخ ص 31۔

 عباسی دور کے مشہور شاعر ابو نواس(الحسن بن ہانی، ولادت 145ھ/198ھ)کو خمریات کے شاعر کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ اس کی خمریاتی شاعری اور جاہلیت کے دیگر شعرا کی خمریاتی شاعری میں فرق یہ ہے کہ سب اسے پیتے تھے دل بہلانے کو، غم بھلانے کو لیکن ابو نواس نے خمر کو ایسا مصاحب ورفیق وندیم بنالیا تھا جو زندگی سے معمور تھا۔وہ ایسی زندگی سے معمور تھا کہ وہ پینے والے کو شانتی دیتاتھا، اسے جوش سے بھر دیتا تھا۔اسے سکون دیتا تھا۔اس کے غم کوغلط کردیتا تھا۔ ابونواس نے ساری عمر لہو ولہب میں گزاری۔لیکن اس نے خمریاتی شاعر ی کے علاوہ مدحیہ قصیدے بھی کہے۔ ہجو گوئی بھی کی۔ مرثیے بھی کہے۔ زہدوتقوی والی شاعری بھی کی۔لیکن لونڈیوں اور گانے والوں کی اس نے خوب ہجو کی۔ یہاں تک کہ اس کی تکریم کرنے والے خصیف اور برامکہ بھی اس کی شدید ہجو سے محفوظ نہ رہے۔(تاریخ ادب عربی، شوقی ضیف العصر العباسی الاول ص 232) اس کے ہجویہ اشعار میں سے چند اشعار یوں ہیں۔

فضل رقاشی (فضل بن عبد الصمد الرقاشی) برمکیوں کا شاعر تھا۔ غریب تھا لیکن ایسی شوبازی کرتا تھا جیسے کتنا مالدار ہو اس لیے اس کی کئی شاعروں نے ہجو کی۔ ابو نواس اس کی ہجو میں کہتا ہے    ؎

اماتَ اللہ من جوعٍ رقاشاً

فلولا الجوعُ ماماتتْ رقاشُ

ولو اسمعتَ موتاہم رغیفًا

وقد سکنوا القبورَ اِذاً لعاشوا

(یعنی اللہ تعالی نے رقاشیوں کو بھوکا مار دیا۔ اگر بھوک نہ ہوتی تو وہ زندہ ہوتے۔ اس کے مردوں کوروٹی کی خوشبو سونگھادوتو وہ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔)

عربی شاعری میں بڑے بڑے ہجو گو گزرے ہیں۔اکثر وبیشتر شاعروں نے ہجویہ اشعار کہے ہیں۔

ابو العتاہیہ بادشاہوں کی ہجو میں کہتا ہے   ؎

انَّ الملوکَ بلائٌ حیثما حلّوا

فلا یکن لکَ فی اکنافہِم ظلُّ

ماذا ترجی بقوم ان ہمُ غضبوا

جاروا علیکَ وان ارضیتَّہم ملوا

(الہجاء فی الشعر العربی ص77)

عباسی دور کا مشہور اندھاشاعربشار بن برد تو بچپن سے ہی بے انتہا ہجوگو تھا۔اس نے اپنی بینائی سے محرومی کا بدلہ اپنی زبان اور اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں سے لیا۔ابو مسلم خراسانی، یعقوب بن داؤد، واصل بن عطا، سیبویہ جیسے بڑے بڑے لوگوں کی اس نے ہجو کی۔کہاجاتا ہے کہ بصرہ کے بڑے بڑے لوگوں میں سے کوئی بھی اس کی ہجو سے محفوظ نہ رہا۔

مورخین نے لکھا ہے کہ اگر وہ ہجو گوئی کے پیچھے نہ پڑتا تو وہ ایک معتبر شاعر ہونے کے ناطے بڑے عیش سے زندگی کرتا لیکن ہجو گوئی نے اس کی بھی جان لے لی۔مالک بن دینار کہتے تھے کہ مدینہ والوں کے لیے اس اعمی اتھیسٹ اور دہریے کے فسق وفجور سے بھرے ہوئے کلام سے زیادہ کوئی اور شے تکلیف دہ نہیں۔مدینے والے اپنی دوشیزاؤں کی عزت کی سلامتی کے لیے اس کی موت کی تمنا کرتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ خلیفہ مہدی کے پاس آئے تو انھوں نے اس کی غزل کا کوئی شعر سنایا تو اس نے بشار سے کہا قسم ہے اگر تو نے دوبارہ اس طرح کے شعر کہے تو وہ تیرا آخری دن ہوگا۔لیکن خلیفہ کی وعید کے باوجود وہ ہجو گوئی اور تیکھی عشقیہ شاعری سے باز نہیں آیا۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اس نے مہدی کی مدح کی لیکن مہدی نے اسے انعام واکرام سے نہیں نوازا تو اس نے پھر مہدی کی بھی ہجو کرڈالی۔مہدی کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے پولیس کو بلایا اور کہا کہ اسے اس وقت تک کوڑے رسید کرتے رہو جب تک کہ مر نہ جائے۔ چنانچہ پولیس اسے مارتی رہی یہاں تک کہ اس کی روح پرواز کرگئی۔یہ 167ھ کی بات ہے۔(دیکھیے تاریخ ادب عربی از احمد حسن زیات ص264، الجامع فی تاریخ الادب العربی از حنا فاخوری، ص 684)

 عربی کے کم وبیش سبھی شاعروں نے ہجویہ اشعار کہے ہیں کچھ کو اس صنف میں مقبولیت حاصل ہوئی اور کچھ نے بس منہ کا مزہ بدلنے کے لیے یا تفنن طبع کے لیے ایسے اشعار کہے۔ ہر زبان کی شاعری میں حاسدوں، دشمنوں اور رقیبوں کی ہجو میں کچھ نہ کچھ کہا ہی گیا ہے۔ یہ مضمون لکھتے ہوئے مجھے بھی اپنا ایک قصیدہ یاد آگیا جسے میں نے آج سے پورے دس برس قبل کسی کی ہجو میں کہا تھا۔ میں نے اپنی ڈائری اٹھائی اور وہ قصیدہ نکالا۔ اس میں کل بیس شعر ہیں۔اشعار بھی خوب ہیں۔ میں نے پڑھا تو خود کو ہی داد دے ڈالی۔ اس کے علاوہ ایک اور ہجویہ قصیدہ بھی ہے جسے میں نے تین برس قبل لکھا تھا۔ لیکن یہ ہجویہ قصیدے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے ہوتے ہیں شائع کرنے کے لیے نہیں۔

در اصل یہ انسانی سماج اور انسانی زندگی عجیب ہے۔ کبھی کسی سے توکبھی کسی سے جب زک پہنچتا ہے تو نفس انسانی کراہ اٹھتا ہے اور اگر یہ نفس کسی شاعر کا ہو تو وہ تکلیف کے مصدر ومنبع کی خبر لیے بغیر نہیں رہتا۔ اسی لیے شاعروں اورادیبوں سے ہمیشہ اچھے تعلقات رکھنے چاہیے۔ یہ اپنے محسنین اور اپنے فریق مخالف دونوںکو اپنی شاعری میں اور اپنے ادب میں امر کردیتے ہیں۔

مآخذ:

1.       ابن الرومی از عمر فروخ، منشورات مکتبۃ منیمنۃ، بیروت لبنان، ایڈیشن 2،1369ھ/1919

2.       تاریخ الادب العربی، احمد حسن زیات، دار نہضۃ مصر للطبع والنشر القاہرۃ،

3.       تاریخ الادب العربی، حنا فاخوری، دار الجیل بیروت، ایڈیشن 1،1986

4.       تاریخ ادب عربی، عبد الحلیم ندوی،قومی کونسل براسے فروغ زبان اردو

5.       تاریخ الادب العربی، عمر فروخ، دار العلم للملایین، بیروت،ایڈیشن 4،1981

6.       مضمون’’ مقاربۃ تحلیلیۃ فی اقذع بیت ہجاء‘‘۔از مازن سلیمان

7.       الہجاء فی الشعر العربی، سراج الدین محمد،دار الراتب الجامعیہ،بیروت لبنان،

 

Dr. Shams Kamal Anjum

Dept. of Arabic, Baba Ghulam

Shah Badshah University, Dhanore

Rajouri-185234 (J&K)

Mob.: 9086180380

drskanjum@gmail.com



 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

عربی شاعری میں ہجوگوئی کی روایت،مضمون نگار: شمس کمال انجم

اردو دنیا،اگست 2025 زندگی یہی ہے۔ جینا اسی کا نام ہے۔ کبھی خوشی کبھی غم۔ کبھی دکھ کبھی سکھ۔ کبھی نشیب کبھی فراز۔ کبھی اچھائی سے سامنا ہوتا ہ...