فن
خط یا خطاطی کا شمار قدیم ترین فنون لطیفہ میں ہوتا ہے۔ اصولاً رسم الخط ہر سر زمین
پر اور ہر زبان میں معاشرے کے افراد میں رابطہ قائم کرنے کے لیے وجود میں آتا ہے۔
لیکن کافی عرصہ گذر جانے، کتنی ہی نسلیں ختم ہو نے اور صدیاں بیت جانے نیز بہت سی
کتابوں کے وجود میں آنے کے بعد اس کے اس پہلو کی جانب توجہ دی جاتی ہے جسے آرائش
و زیبائش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رسم الخط میں فن
شناسی اور اس کی لطافت وظرافت کی جانب توجہ زیادہ تر مشرقی ممالک کا ہی خاصہ رہی
ہے۔ اگر چہ یورپ اور مغربی ممالک میں مروجہ خطوط کی خوشخطی Calligraphy میں
بھی جو جذبہ کار فرما نظر آتا ہے وہ آرائش و زیبائش کے علاوہ اور کسی چیز پر
محمول نہیں لیکن مشرقی ممالک میں خط کی جانب جس قدر توجہ دی گئی ہے مغرب میں اس پر
اتنی توجہ کبھی نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ فن خطاطی نے سر زمین مشرق اور بالخصوص
اسلامی ممالک میں ہی نشوونما پایا اور ظہور اسلام کے بعد وہ اس اعلیٰ مقام ومرتبہ
پر پہنچ گیا کہ اس میں سے انواع و اقسام کے اسلوب پیدا ہونے لگے مختلف اقسام کے
اسلوب کا پیدا ہو جانا اس امر کی دلالت کرتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ رسم
الخط کی جانب پہلے سے کہیں زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ چنانچہ آج دنیا میں مختلف
مقامات سے فن خوشنویسی اور خوش خطی سے متعلق مقالات شائع ہونے لگے۔ اس مضمون میں
موضوع سخن اجتماعی حالات و ماحول اور جس خطے میں رسم الخط نے نشوونما پایا ہے اس کے مقامی لہجوں کے پس منظر میں مختلف اسلامی
خطوط کا جائزہ لینا اور انواع واقسام کے
خطوط نیز طرزوں میں جو باہمی ربط پایا جاتا ہے اس کا تجزیہ کرنا مقصود ہے لیکن اس
سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ معروف ترین خطوط یا خط کی جو اسلامی اقسام ہیں ان کے
بارے میں واقفیت بہم پہنچائی جائے۔ یہاں
معروف ترین خطوط اس وجہ سے بھی کہا ہے کہ رسم الخط میں اس دور میں جبکہ وہ تغیر پذیر ہو رہا تھا بے شمار
اسلوب جلوہ گر ہوئے۔ ان میں سے بعض اصلی ہیں اور بعض فرعی اور بعض مختصر فرق و
تفاوت کے باوجود اپنی اصل شکل و ہیئت پر بر قرار رہے۔ اسی لیے یہاں صرف چند ہی اہم
اور مشہور و معروف خطوط کے نمونوں کا مختصر حال بیان کیاجائے۔عوام میں بہت سے
لوگوں اور حتی کہ ان اشخاص کی نظر میں بھی جنھیں فنون لطیفہ سے دلچسپی ہے، خط کا
شمار اس بے اندازہ لطافت و ظرافت کے باعث جو اس میں موجود ہے فن ہی میں ہوتا ہے۔
فن کے میدان میں اس وقت تک جو وسیع تحقیقات کی گئی ہیں ان کی وجہ سے فن کے مفہوم و
معانی نے گوناگوں ابعاد اختیار کر لی ہیں۔ فن کے ساتھ معاشرے کا انتہائی نزدیکی
تعلق ان جغرافیائی ماحول اور معاشرے پر مسلط افکار و خیالات سے ہے جن کی جانب
گذشتہ عہد میں کم ہی توجہ دی گئی ہے۔ یا بالفاظ دیگر آج یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے
کہ فن اپنے زمان و مکان کا آئینہ دار ہے۔ عجائب خانوں کا وجود، محققین کا ان
مراکز کی جانب رجوع کرنا۔اگر ہم خوشخطی کو فن کی حیثیت سے تسلیم کر لیں تو یہی ربط
و تعلق اس پر بھی صادق آنا چاہیے۔ اگر چہ رسم الخط کی تاریخ کے بارے میں بہت سی
کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں تاریخ کے تقدم و تاخر، اساتذہ فن کے ناموں، خط سے
متعلق گوناگوں اسلوب کے فنی تجزیے اور تخصص کی رو سے مختلف طرزوں کے تقابل و تفاوت کی جانب سب سے زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ کیونکہ
عہد حاضر کے فہم کے لیے ان پہلوؤں کی خاص قدر و قیمت و اہمیت ہے۔ فنون لطیفہ کے
اکثر و بیشتر شعبوں میں خواہ ان کا تعلق نقاشی و مجسمہ سازی سے ہو اور چاہے شعر و
موسیقی سے ، ایک دوسرے سے مشابہ تحقیقات عمل میں آ چکی ہیں اور اب صرف فن خطاطی ہی
باقی رہ گیا ہے جس کے ان پہلوؤں کی جانب اب تک بہت ہی کم توجہ دی گئی ہے۔ علامہ
ابن خلدون خطاطی کی حقیقت و اہمیت کی بابت رقمطراز ہیں:
’’خط
ایسے حرفی نقوش اور شکلوں کا نام ہے جو سنے ہوئے کلموں پر دلالت کرتے ہیں، اور یہ کلمے ما فی الضمیر کی طرف رہنما ہوتے ہیں، لہٰذا خط،
لغوی دلالت کی نسبت ثانوی درجہ رکھتا ہے، خطاطی و کتابت ایک باعزت فن ہے، اس لیے
کہ یہ انسان کی ایسی خصوصیت ہے کہ جس کے ذریعے وہ حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے، نیز یہ
دل کے اندر تک جھانک لیتا ہے اور اس وجہ سے دور دراز کے شہروں سے بھی مقاصد پورے
ہو جاتے ہیں، مزید یہ کہ علوم و معارف سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، اور گذشتہ لوگوں کے
صحیفوں اور ان علوم و حالات کی اطلاع ملتی ہے جو وہ لکھ کر گئے ہیں۔‘‘
(مقدمہ ابن خلدون مترجمہ سعد حسن خان یوسفی، ص422 )
نقاشی
کے بعد خوشخطی ہی وہ اولین فن ہے جو ارتباطی فن کی حیثیت سے جلوہ گر ہوا اور فی
الواقع یہ نقاشی کا ہی حاصل و ثمرہ ہے۔ مصور تحریر اور چینی خطوط کی طرح سب سے
پہلے جب خط کا ظہور ہوا تو فی الحقیقت وہ ایک قسم کی نقاشی ہی تھا جو بعد میں وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ آسان و سادہ تر ہوتا گیا۔ اس نے وہ علامتی شکل اختیار کر لی
جسے لاطینی، یونانی اور دیگر خطوط میں بروے کار لایا گیا۔ خطوط کے وجود میں آنے کا مظہر باہمی ربط اور کتبات
وغیرہ پر اپنی وضع و کیفیت درج کرانے کی ضرورت کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ اس مقام و
مرحلے پر خط کا مصرف و استعمال محض ارسال مطلب و پیغام رسانی تک ہی محدود تھا۔ مگر
جس طرح انسان کی دیگر مصنوعات و مخترعات علم و دانش کی ترقی کے ساتھ امور زندگی میں
سہولتیں پیدا کرنے نیز اجتماعی ضرویات کی فراہمی کی غرض سے وجود میں آتی رہیں۔
رسم الخط بھی ربط وتعلقات کی مشکلات کو دور کرنے کے پیش نظر ظہور پذیر ہونے لگا۔
اسی اعتبار سے اس دور میں خط کا شمار فن میں نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کی حیثیت علم و
دانش، صنعت و حرفت، کی سی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارتقا پذیر ہوا
اور آہستہ آہستہ اس کی مستقل و دائم شکل وجود میںآنے لگی۔ گیان چند جین
لکھتے ہیں:
’’رسم
الخط کا اشتراک کا پھیلائو زبان کے پھیلاؤ سے بھی زیادہ ہے۔ تبتی رسم خط ہندوستان
سے ماخوذ ہے۔ چین اور جاپان کے لوگ بظاہر یکساں معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کی زبانوں
کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے باوجود دونوں کا رسم الخط ایک ہے۔ اس موقع
پر ایک واقعہ یاد آتا ہے، ایک بار ایک پبلک سروس کمیشن کے صدر نے میرے ساتھ نجی
بات چیت میں اردو رسم الخط پر اعتراض کیا کہ اور سب لکھاوٹیں بائیں طرف سے دائیں
طرف کو لکھی جاتی ہیں لیکن اردو خط الٹی گنگا بہاتا ہے۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ
اردو اور انگریزی خط ایک ہی نسل سے ہیں تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اردو رسم
الخط بھی سامی سے ماخوذ ہے اور یونانی رسم خط بھی۔ یونانی کے ابتدائی حروف تہجی ایلفا،بیٹا،
گاما، ڈیلٹا، عبرانی، ابجد کے الف، بیت، جمل، اور راستے کی ترمیم شدہ شکلیں ہیں۔ حیرت
تو یہ ہے کہ بعض انگریزی حروف کی ترتیب آج بھی عربی ابجد سے مماثلت کا اعلان کر
رہی ہے۔‘‘
(لسانی مطالعے، ڈاکٹر گیان چند جین، ترقی اردو بیورو، نئی
دہلی، ص 16-17)
چنانچہ
یہی وہ مقام ہے جہاں سے خط میں زیبائش کی جانب توجہ دی جانے لگی اور اس میں جو بھی
تبدیلیاں واقع ہو رہی تھیں اس کے پس منظر میں یہی مقصد کار فرما تھا کہ ظاہری شکل
و صورت کے لحاظ سے خط کو مزید مالامال کیا جائے۔ زینت و آرائش کی رو سے مشرقی
ممالک بالخصوص مشرقی وسطی اور بر اعظم افریقہ کے بہت سے ملکوں میں رسم الخط نے بہت
سی تبدیلیاں قبول کیں۔ اسلام کے ظہور پذیر ہونے کے بعد تو یہ نہایت ہی تیزی سے
منازل کی جانب پرواز کرنے لگا۔ چنانچہ آج اسلامی ممالک میں جو رسم الخط رائج ہیں
وہ اپنی ارتقائی تبدیلیوں کا ہی نتیجہ ہیں۔ آگے چند اسلامی خطوط کی کیفیت بیان
کرنے کی سعی کر رہا ہوں جو مختلف اسلوب کے تحت لکھے جاتے ہیں۔ ان میں کوفی، ثلث،
نسخ، تعلیق، نستعلیق، اور شکستہ زیادہ مشہورہیں۔
اسلام
کا اولین رسم الخط
خط
کوفی اسلام کا اولین خط ہے۔ اسلام سے قبل خط حجازی رائج تھا اور خط کوفی اسی خط حجازی سے ماخوذ ہے۔ اس خط کے جو ابتدائی
نمونے ملتے ہیں وہ سب نصف صدی اول اسلام سے متعلق ہیں۔ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے
ساتھ یہ خط بھی مشرق و مغرب کے مختلف
ممالک میں پہنچا اور وہاں رواج پذیر ہوا۔ اسی مذہبی غلبہ و نفوذ نے بعض معاشروں پر
بہت ہی اہم اثرات مرتب کیے۔ چنانچہ بعض ممالک نے تو اپنی مادری زبان ہی ترک کر دی۔
نہ صرف تحریر بلکہ روز مرہ کی گفتگو میں بھی عربی زبان استعمال کرنے لگے۔ ان ممالک
میں یہاں مصر کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگرچہ بعض ممالک کی عوام نے اپنی
زبان کو تو ترک نہیں کیا مگر تحریر میں وہ عربی رسم الخط بروے کار لانے لگے۔ اس
زمرے میں ایرانی عوام آتے ہیں۔ ایران پر اسلام کے اثرات کے بعد خط کوفی نے خط
ساسانی، خط پہلوی اور خط اوستائی کی جگہ لے لی۔ دوسری صدی ھجری کے اوائل سے ایرانیوں
نے اپنی تحریروں میں خط کوفی کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ اس کو انھوں نے پہلوی
رسم الخط کی جگہ دی تھی۔ انھوں نے ان چار حروف کا اختراع کر کے جن کا تعلق ان کی
اپنی زبان سے تھا مروجہ خط کوفی میں اضافہ بھی کیا۔ ان حروف میں پ، چ، ژ، اور گ شامل
ہیں۔ اس خط میں انھوں نے بہت سی علمی و فنی
نیز سیاسی کتابیں بھی تصنیف و تالیف کیں۔ اسی دوران فارسی میں بھی آہستہ
آہستہ عربی زبان کے الفاظ شامل ہو نے لگے اور اس آمیزش کے بعد جو زبان وجود میں
آئی وہ فارسی دری کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ وہی زبان ہے جس کی بنیاد پر موجودہ
دور کی فارسی زبان قائم ہے۔
خط
کوفی سے متعلق سطور بالا میں بتایا گیا ہے کہ یہ خط حجازی سے ماخوذ ہے۔ ابتدا میں یہ
خط بہت ہی سادہ تھا لیکن وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ اس نے بھی تبدیلی اختیار کی۔ اسلام کی اشاعت و ترویج کے بعد جب قرآن مجید
کی کتابت اس میں ہوئی تو قرأت کی غلطیوں کا ازالہ اور معانی میں ابہام دور کرنے کی
غرض سے اس خط میں کچھ تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ حضرت علی کے شاگردوں میں ابو الاسود
کا بھی شمار ہوتا ہے اور وہ پہلا شخص تھا جس نے حروف و الفاظ کا صحیح مخرج ظاہر و
متعین کرنے کی غرض سے حروف میں نقطوں کا اضافہ کیا۔ ابو الاسود سے قبل چونکہ خط
کوفی میں حرکات ظاہر کرنے کے لیے علامات نہ تھیں اسی لیے اس بات کا امکان تھا کہ
کسی جملۂ واحدہ سے بہت سے مفاہیم اخذ کر لیے جائیں۔ مطالعے میں سہولت پیدا کرنے
اور رسم الخط سکھانے کے لیے ابو الاسود نے جو قدم اٹھایا تھا وہ بہت ہی اہم تھا۔
اس نے جن نقاط کا اختراع کیا تھا اور جنھیں نوشتہ صفحات پر لگایا جاتا تھا وہ رنگ
میں اس روشنائی سے مختلف ہوتے تھے جو تحریر کے وقت استعمال کی جاتی تھی۔ لیکن خط میں
اب بھی ایسی بہت سی خامیاں اور دشواریاں موجودہ تھیں جن کا دور کرنا نہایت ضروری
تھا۔ انہی مشکلات میں ب، ت، ث، یا ج، ح، اور خ جیسے حروف کی باہمی مشابہت بھی شامل
تھی۔ چونکہ اس زمانے تک ان حروف کو لکھتے
وقت نقطوں کا استعمال نہیں کیا جاتا تھا اسی لیے اس خط کا پڑھنا اور اس کے معانی
سمجھنا بہت دشوار تھا۔ ابو الاسود کے شاگردوں اور پیروکاروں نے خط کی اصلاح
کے سلسلے میں اپنی سعی و کوشش جاری رکھیں اور اسے ارتقا کے اس مقام تک لے آئے
جہاں اس نے کامل تر شکل اختیار کر لی۔ انھوں نے خط میں نقاط کا مزید اضافہ کیا
تاکہ متشابہ حروف کی تشخیص و تمیز کی جا سکے۔ چنانچہ اس مقام پر پہنچنے کے
بعد خط میں دو قسم کے نقاط نمایاں ہوتے ہیں۔
ان میں سے ایک قسم ان نقاط کی ہے جو الفاظ کی حرکات ظاہر کرتے ہیں۔ دوسرے متشابہ الفاظ کے درمیان تمیز و تشخیص پیدا
کرتے ہیں۔ دونوں قسم کے نقاط کے درمیان فرق ان رنگوں کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو تحریر
میں استعمال کیے جاتے تھے۔خط میں دو رنگوں کے استعمال کی وجہ سے تحریر
کے وقت بہت سی دشواریاں پیش آتی تھیں۔ اس کام کے لیے وقت صرف کرنا بھی لازم تھا
اور کاتب کے لیے مشقت و زحمت بھی تھی۔ چنانچہ دوسری صدی کے آخر میں بعد خلافت بنی
عباس خلیل بن احمد عروضی فراہیدی نے مزید چند اشکال یعنی حرکات ظاہر کرنے کے لیے
بعض ایسی علامات ایجاد کیں جو فتحہ(زبر) ضمہ(پیش) کسرہ (زیر) سکون، تشدید، اور مد
پر مشتمل تھیں۔ اور یہ وہی شکلیں اور علامات ہیں جو کچھ تبدیلی کے بعد موجودہ شکل
میں ظاہر ہوئیں۔ قرآن و احادیث نبوی کی تحریر کے وقت ان کا استعمال جزوی ضروریات
میں شامل ہو تا ہے۔ خط کوفی تین صدی تک رائج رہا
اور اسے بڑی تیزی سے فروغ حاصل ہوا۔ چنانچہ اسلام میں جتنے بھی عظیم و نمایاں
اجتماعی امور انجام دیے گئے ان میں یہ خط
نمایاں و درخشاں طور پر نظر آتا ہے۔ لیکن دیگر زیادہ سادہ و آسان خطوط کے وجود میں
آجانے کے باعث یہ خط متروک ہونے لگا اور آخر گوئشہ گمنامی میں چلاگیا۔
خط
کوفی کی بہت سی قسمیں ہیں۔ جن میں خط سادہ، خط زینت، عمارتی، معقلی، وغیرہ شامل ہیں۔
اس خط میں زیب و زینت کا مواد بکثرت پایا جاتا ہے۔ یہ سات یا آٹھ مختلف اسلوب میں
لکھا جاتا ہے۔ اس کی تحریر میں اصول و ضوابط کی سخت پابندی کی جاتی ہے۔ زیب و زینت
کے پیش نظر فنکار ان میں ایسے پیچ و خم پیدا کر دیتے ہیں گویا ان کے درمیان گرہ
لگائی جاتی ہے اور اس طرح ان حروف کو نہایت ہی حسین و جمیل جال کی شکل دے دی جاتی
ہے۔ بعض اوقات زیب و زینت کی خاطر ان خطوط میں اس قدر پیچ و خم پیدا کر دیے جاتے ہیں
کہ ان کا پڑھنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ خط کوفی میں جو حروف زیب و زینت کی غرض سے
استعمال ہوئے ہیں انھیں سنگی الواح، کتبات، روغنی خشت پاروں، عمارات کی پیشانیوں
اور مختلف ظروف پر دیکھا جا سکتا ہے۔
خط
انسان کی فطری ضرورت ہے، حیوانات اپنے ما فی الضمیر کے اظہار پر نادر ہیں، اس لیے
ان کی فطری یکسانیت خطاطی کا تقاضا بھی نہیں کرتی ہے، جبکہ انسانی فطرت کی رنگارنگی
کے اظہار و بیان لازمی جزو ہیں۔ ابتدائے
آفرینش میں ہی اللہ تعالی نے اس میں زبان وبیان کی صلاحیت پیدا کر دی تھی۔ پھر
چونکہ تمدنی زندگی اور کاروبار جہاں کے نظم و نسق کے لیے ان بیانات اور تعبیرات کو
محفوظ رکھنا نا گریز تھا، اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ بقول علامہ ابنِ خلدون ہوا
کی مدد سے منھ کے اندر سے نکلتے ہیں اور
ہوا کے ساتھ ہی غائب ہو جاتے ہیں اس لیے انسان کو ایسے نقوش سکھلا گئے، جو ان بیانات
پر صحیح طور پر دلالت کر سکیں اور ان کو دیر تک قائم رکھ سکیں۔ اس سے واضح ہے کہ
تحریر و کتابت بھی بیان ہی کی ایک شکل ہے، جو بنی نوع انسان کا امتیازی وصف ہے۔ خط
و کتابت سے انسانی زندگی کی تشکیل، تمدن و معاشرت کی وسعت و فروغ اور تہذیب اخلاق
کے باب میں دور رس اور دیر پا اثرات ہیں۔عمارتی خط کوفی بعض اوقات زیب و زینت اور
مثبت و منفی فضا کے درمیان ربط و تعلق اس حد تک تجریدی ہو جاتا ہے کہ اہل فن کے لیے
بھی اس خط کا پڑھ لینا ایک دشوار مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس خط میں مختلف قسم کے قرینے
جیسے قرینہ بصورت آئینہ، قرینہ شعاعی اور قرینہ معکوسی وغیرہ بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔ بعض اوقات حروف
اور کلمات کو ایسی مہارت سے باہم متصل کر دیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے کے ذہن میں
سہ بعدی(Three dimensions) کی حالت پیدا ہو جاتی
ہے۔ اگر خط کے ان نمونوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو عجائبات کی ایک ایسی دنیا ذہن
پر آشکار ہوتی ہے جو عالم اسلام کے
فنکاروں کی خوش ذوقی،خوش سلیقگی،باریک بینی، استعداد و قابلیت کی وضع و کیفیت بیان
کرتی ہے۔ عمارتی اور معقلی خط کوفی کے جو نمونے آج موجود ہیں وہ آج کے بہترین ترجمہ
ہندسی نقوش (Graphic Geometrical
Design) کے اس قدر ہم پلہ و برابر ہیں کہ انھیں دیکھ کر انسان حیرت زدہ
رہ جاتا ہے۔ اسلامی تمدن کے یہ بیش قیمت نمونے مساجد کے درو دیوار پر اس طرح منقش
ہیں گویا انھیں کسی عجائب خانے میں محفوظ کر دیا گیا ہو۔ خط کوفی کے مختلف نمونے
ہندوستان کی تاریخی عمارات میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان میں قابل ذکر عمارت قطب مینارہے۔خط کوفی کے
مطالعے سے مندرجہ ذیل نکات ذہن میں آتے ہیں:
.1 خط کوفی، ریاضی
اور ہندسی خطوط پر قائم ہے۔
.2 خط کوفی میں جس زیب
و زینت کا اہتمام کیا جاتا ہے وہ فنکار کے احساس کا آئینہ دار نہیں بلکہ یہ فنی
امور پر مبنی ہے۔
.3 خط کوفی مستقیم
عمودی اور افقی خطوط کی بنیاد پر قائم ہے۔
.4 تمام تحریروں میں
خطوط کی ضخامت یکساں ہوتی ہے اور صرف بعض نقاط پر باریک ہو جاتے ہیں۔
.5 اس خط کی تحریر و
ترسیم drawing اور با لخصوص زینتی خطوط کی خطاطی فنی ترسیم کاری
Technical Drawing سے بہت زیادہ مشابہ ہے۔ اس خط کے مشخص اصول و ضوابط ہیں۔ اس کے خطاط کو کسی
ماہر، صنعتی فنکار سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مندرجہ بالا نکات سے یہ نتیجہ اخذ کیا
جا سکتا ہے کہ اسلام کے ظہور سے قبل جزیرہ نما عرب میں بدوی قبائل کے درمیان جو
کشمکش و بد نظمی کی کیفیت جاری تھی وہ اجتماعی نظم و ضبط میں تبدیل ہو چکی تھی۔ خط
کوفی کی بنیاد جن ریاضی اصولوں پر قائم کی گئی اور اس میں جو ہندسی Geometrical تصرفات کیے
گئے ان کی تاریخ کافی طویل ہے۔ چنانچہ طلوع اسلام کے ہزار سال بعد تک یہ خط باقی
رہا اور آج بھی اس کے مختلف اسلوب (بالخصوص زینتی، عمارتی اور معقلی) اکثر اسلامی
ممالک اور ہندوستان کی دیگر عمارات کے درو دیوار پربھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
Shamim Ahmad
2964 4th Floor Kucha Neel Kanth
Daryaganj
New Delhi- 110002
Mob.: 9868596773
shamimah1975@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں