.1 نثر ایسا کلام ہے
جس میں وزن اور قافیہ نہ ہو۔
.2 نشر کی یہ تعریف
عام طور پر درست ہے لیکن جیسا کہ آگے بیان کیا جائے گا ، نثر مرجز میں وزن اور
نثر مقفی میں قافیہ ہوتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو نثر و نظم میں کوئی ایسا ہیئتی
فرق باقی نہیں رہتا جس کو کسوٹی بنا کر دونوں میں امتیاز کیا جاسکے۔ یہ ضرور ہے کہ
ایسی نثر جس میں وزن ہو یا قافیہ ہو نظم سے اس طرح ممتاز کی جاسکتی ہے کہ عام طور
پر نظم میں کسی مخصوص بحر کی پابندی ہوتی ہے اور اس کو اشعار یا مصرعوں میں لکھا
جاتا ہے۔ نثر میں یہ شرطیں نہیں ہوتیں۔ لیکن یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ نظم اور نثر
میں بین اور ہمیشہ صحیح ثابت ہونے والا ہیئتی فرق دریافت کرنا محال ہے اس لیے نثر
و نظم کا امتیاز معنوی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔ فی الحال یہ بحث ہمارے موضوع سے
خارج ہے۔
.3 صورت کے لحاظ سے
نثر کی چار قسمیں ہیں: (1) عاری (2) مرجز (3)
مسمع اور (4) مقفیٰ۔ ان کو لفظی
اقسام نثر بھی کہا جاتا ہے۔
.4 معنی کے اعتبار
سے بھی نثر کی چار قسمیں ہیں: (1) دقیق رنگیں (2) رقیق سادہ (3) سلیس رنگیں اور
(4) سلیس سادہ۔ ان کو معنوی اقسام نثر کہتے ہیں۔
لفظی
اقسام نثر
5.1 عاری: وہ نثر ہے
جس میں نہ وزن کی قید ہو نہ قافیہ کی، نہ اس میں رعایات و مناسبات لفظی ہوں۔ اس کو
روز مرہ بھی کہتے ہیں، مثلاً:
اسی
زبان کو ریختہ بھی کہتے ہیں کیونکہ مختلف زبانوں نے اسے ریختہ کیا ہے۔ جیسے دیوار
کو اینٹ مٹی، چونا، سفیدی وغیرہ ریختہ کرتے ہیں۔ یا یہ کہ ریختہ کے معنی ہیں گری
پڑی، پریشاں چیز۔ چونکہ اس میں الفاظ پریشاں جمع ہیں اس لیے اسے ریختہ کہتے ہیں۔ یہی
سبب ہے کہ اس میں عربی فارسی، ترکی وغیرہ کتنی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں اور اب
انگریزی بھی شامل ہوتی جاتی ہے اور ایک وقت ہوگا کہ عربی، فارسی کی طرح انگریزی
زبان قابض ہو جائے گی۔
(آب حیات : محمد حسین آزاد)
5.2 ٹھیٹھ اردو اور مذاقیہ
نثر بھی عاری کی ذیل میں ہیں۔ ٹھیٹھ اردو کی مثال : میں نے ان کی ٹھنڈی سانس کا
ٹھوکا کھا کر جھنجھلا کر کہا۔ میں کچھ ایسا بڑ بولا نہیں جو رائی کو پربت کر
دکھاؤں اور جھوٹ سچ بول کر انگلیاں نچاؤں اور بے سری بے ٹھکانے کی الجھی سلجھی تا
نہیں لیے جاؤں۔ مجھ سے نہ ہوسکتا تو بھلا منھ سے کیوں نکالتا۔ جس ڈھب سے ہوتا اس
بکھیرے کو ٹالتا۔ اب اس کہانی کا کہنے والا یہاں آپ کی کو جتاتا ہے اور جیسا کچھ
اسے لوگ پکارتے ہیں، کہہ سناتا ہے۔ اپنا ہاتھ منھ پر پھیر کر مونچھوں کو تاؤ دیتا
ہوں اور آپ کو جتاتا ہوں جو میرے داتا نے چاہا وہ تاؤ بھاؤ اور راؤ چاؤ اور
کود پھاند اور لپٹ . جھپٹ دکھاؤں آپ کے دھیان کا گھوڑا جو بجلی سے بھی بہت چنچل
اچیلاہٹ میں ہے۔ دیکھتے ہی ہرن کے روپ اپنی چوکڑی بھول جائے۔
(رانی کیکی کی کہانی: سید انشا)
اوپر
کی مثال سے واضح ہوا ہو گا کہ وہ نثر جس میں عربی و فارسی وغیرہ (یعنی بدیسی) اصل
کے الفاظ نہ ہوں یا بہت کم ہوں بلکہ الفاظ کی کثیر تعداد ( یا سارے الفاظ ) پراکرت
اصل کے ہوں، اسے ٹھیٹھ اردو کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ٹھیٹھ اردو کی یہ تخصیص محض ایک
مثالی چیز ہے، کیونکہ تمام زبانوں کی طرح اردو زبان بھی مختلف زبانوں کے الفاظ و
محاورات کا مرکب ہے اس کو محض پراکرت کے الفاظ میں بند کرنا اتنا ہی غلط ہے جتنا
محض عربی یا فارسی کے الفاظ میں بند کرنا۔ مسعود حسن رضوی نے بہت صحیح لکھا ہے کہ
زبان وہ بہترین ہے جو اداے مطلب پر قادر ہو اور اردو کی حد تک ہماری کوشش یہ ہونا
چاہیے کہ عربی فارسی الفاظ کی طرف رجوع کرنے سے پہلے پراکرت اصل کے مروجہ الفاظ کو
دیکھا جائے۔ اگر ان سے ادائے مطلب ہو سکے تو وہ کافی ہیں۔
6.1 مرجہ : وہ نثر جس میں وزن ہو مگر قافیہ نہ ہو۔ مثال:
دیوان
حقیقت کے مطلع کے ہیں دو مصر ھے۔ اک حمد الٰہی ہے، اک نعت پیمبر ہے۔ اس مطلع روشن
کے معنی منور سے ہر ذرہ بھی ہے واقف۔ سنتے ہیں ازل سے سب یہ مطلع نورانی۔ پر اس کے
سوا اب تک اس ساری غزل میں سے اک شعر نہیں پایا۔ لیکن مجھے ہاتھ آیا وقت غنی موقع
میں سب کو سناتا ہوں۔ اس مطلع یکتا کا جوحسن ازل سے ہے اس وقت موافق میں کیوں کر
نہ ثناخواں ہوں۔‘‘( تقریظ بر انتخاب یادگار: مؤلف امیر مینائی)
6.1.1 مندرجہ بالا تمام عبارت
یکساں وزن (مفعول مفاعیلن) کے ٹکڑوں میں بھٹی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے نثر کہنا
محض تکلف ہے۔ وزن کے التزام کی وجہ سے عبارت غیر فطری اور زبردستی لکھی ہوئی معلوم
ہوتی ہے۔
.7 مسجع: وہ نثر جس
کے دو فقروں کے تمام الفاظ ایک دوسرے کے ہم وزن اور حروف آخر میں بھی موافق ہوں ،
مثال:
پونڈ
پھیکا اتنا یا کہ جس کی برائی بیان سے باہر ہے۔ پونڈا میٹھا ایسا بھلا کہ اس بھی
بھلائی کمان سے بڑھ کر ہے۔‘‘( دریائے لطافت : سید انشا)
.8 مرصع : بعضوں نے
مسجع کو علیحدہ سے، ایک قسم تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کو
مقفیٰ کا ہی ایک روپ سمجھنا چاہیے۔ وہ نثر جس کے فقرے ہم قافیہ اور ہم وزن ہوں، وہ
بھی منبع و مقفی کی ایک شکل ہے۔ اسے کبھی کبھی نثر مرصع بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ترصیع
کے معنی ہیں ایسے فقرے یا الفاظ لانا جو وزن اور حرکت دونوں میں یکساں ہوں۔ شاعری
میں یہ صفت غالب کے یہاں بہت ملتی ہے۔ نثر میں اس کی مثال یوں ہوگی:
قسم
ہے اس خالق حقیقی کی اور ثنا ہے اس صنائع بدیعی کی ، جوارض و سما کا نور ہے، جو
عرش و فرش کا ظہور ہے۔
.9 مقفیٰ : وہ نثر
جس میں وزن نہ ہو مگر آخری الفاظ میں قافیہ ہو۔ مثال:
ایک
نوازش نامہ آیا اور دستنبو کے پہنچنے کا مژدہ پایا۔ اوس کا جواب یہی کہ کار
پردازان ڈاک کا احسان مانوں اور اپنی محنت کا رائیگاں نہ جانا یقین جانوں۔ چند روز
کے بعد ایک عنایت نامہ اور پہنچا، گویا ساغر الفتات کا دوسرا دور پہنچا۔ چونکہ یہ
سبب فقدان اسباب یعنی عدم رصد و کتاب کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔ ناچار مرزاصائب کا
مصرع زبان پر آجاتا ہے۔(غالب: خطوط)
9.1 مقفیٰ نثر کی ایک جدید
مثال حسب ذیل ہے:
روایات
کے بندے، اوہام کے پہلے۔ بھوتوں چڑیلوں کے تصور سے لرزاں، بلند آوازوں سے ترساں۔
حقے کے دشمن، سگریٹ بازوں سے ان بن۔ آغاز میں زردار، انجام میں پریشاںروزگار۔
جوانی میں یوسف کنعاں، بڑھاپے میں آئینہ پریشاں۔ بہرنفس کراہ تحت اللفظ کے بادشاہ
اول اول رند خرابات آخر آخر جتلائے صوم و صلوۃ۔ پھر بھی پرستار خوبان شیریں
حرکات۔ ( یادوں کی برات : جوش ملیح آبادی)
معنوی
اقسام نثر
.10 و قیق رنگین : ایسی
عبارت جو الفاظ اور معنی دونوں کے اعتبار سے مشکل ہو اور اس میں صنائع لفظی و معنوی
سے بھی کام لیا گیا ہو اور الفاظ آپ میں کسی نہ کسی طرح کی مناسبت رکھتے ہوں: ادب
اور تواضع ایک جامہ ہے اس کے قامت احوال پر راست اور خلق و مروت ایک ذخیرہ ہے اس
کے گنجینۂ طبع میں بے کم و کاست ضمیر صافی اور فروغ مشرق اور آفتاب۔ شوخی فکر
اور طبع لمعہ برق اور اسحاب۔( آئینہ بلاغت : مرزا محمد عسکری)
10.1 دقیق سادہ: ایسی عبارت
جو الفاظ اور معنی دونوں اعتبار سے مشکل ہو مگر اس میں رعایت و مناسبات اور صنائع
و بدائع نہ ہوں اور اس کے الفاظ میں مناسبت کا التزام نہ کیا گیا ہو۔ مثال:
لسانی
تشکیلات الفاظ کو اشیا کی نمائندگی کی بجائے بطور اشیا مرکب ترکیبی کے مشمولات میں
جگہ دیتی ہیں۔ الفاظ اگر اشیا کی محض نمائندگی کریں تو اشیا کے حسن و جج سے اٹوٹ
تعلق کے باعث غلط اور صحیح، مناسب اور نامناسب، قرین قیاس اور دور از کار جائز اور
نا جائز وغیرہ ایسے صفاتی اجزاے بیان کہ تشخیص قدر سے مملو ہوتے ہیں، غیر متعلق
مباحث کے دروازے کھول دیتے ہیں، شیت کہ شعر و ادب کا طرہ امتیاز ہے اثر و نفوذ کی
بنیاد ہوتے ہوئے بھی ثانوی درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ الفاظ کو بطور اشیا استعمال میں
لایا جائے تو تجسیم و تخصیص کے خصائص اجاگر ہوتے ہیں اور بے رنگ عمومیت سے جان بچ
جاتی ہے۔(لسانی تشکیلات: افتخار جالب)
.11 سیلس رنگیں : ایسی
عبارت جو لفظ اور معنی دونوں اعتبار سے سہل ہو مگر اس میں مناسبات لفظی اور صنائع
بدائع استعمال کیے گئے ہوں۔ مثال:
بندہ
حرارت قلب کے عارضہ سے حیران و ششدر رہتا ہی تھا اب ضعف دماغ کی بیماری نے اور بھی
عاجز اور زچ کر دیا ہے۔ ہر دم یہی سونچ اور منصوبہ آتا تھا کہ کدھر جاؤں اور کون
ایسی چال چلوں کہ یہ عارضہ بڑھنے نہ پائے۔ بارے ان دنوں حکیم شاہ رخ مرزا صاحب اس
شہر میں وارد ہوئے۔ ان کی تعریف بہت سنی تھی کہ ان کے نزدیک بادشاہ اور وزیر اور
فقیر مسکین اور امیر فیل نشین برابر ہیں۔ مریضوں کی خبر گیری کے واسطے بارہ دری میں
شطرنجی بچھائے بیٹھے رہتے ہیں۔
رقعہ
غلام امام شہید )
11.1 اس عبارت میں بہت سے
الفاظ شطرنج کے مناسبات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر ہم نے خط کھینچ دیا ہے۔
11.2 سلیں رنگیں نثر کی ایک دوسری مثال یوں ہے:
پھر
بہار موسم جوانی ہے۔ درخت جوانان چمن ہیں کہ عروسان گلشن سے گلے مل مل کر خوش ہوتے
ہیں۔ شاخیں انگڑائیاں لیتی ہیں۔ اطفال نبات دایہ بہار کی گود میں پرورش پاتے ہیں۔
خضر سبزہ کی حرکت سے نسیم سحری مردہ ہزار سالہ میں دم عیسوی کا کام دیتی ہے مگر بلیل
زار عشق شاہد گل میں اداس ہے۔ آب رواں عمر گزران ہے۔ اس کی موج کی تلوار سے دل کیے
جاتے ہیں۔ سرو کے عکس کا اثر رہا نگلے جاتا ہے۔ شبنم کے آنسو جاری ہیں۔ بلبل کبھی
خوش ہے کہ گل اس کا پیارا پاس جنس رہا ہے۔ کبھی افسردہ ہے کچھ خزاں کا خونریز ان
سب کو مکمل کرے گا یا اس کے دشمن یعنی گلچین و صبا اسے یہاں سے نکالیں گے۔ سرو یا
شمشاد کے عشق میں قمری کا گہواراس ہے۔ اس کے نالے کا آرادلوں کو چیرتا ہے۔ کبھی
عاشق زار بھی وہیں آنکلتا ہے۔ روتا ہے اور قاصد صبا کو پیغام دیتا ہے کہ میرے
تغافل شعار کو ذرا میرے حال کی خبر کر دو۔(آب حیات محمد حسین آزاد)
11.1.3 اس غیر معمولی خوب
صورت عبارت میں عشق ، باغ ، شادی اور اولاد کی پیدائش کے مناسبات استعمال کیے گئے
ہیں۔ ہم نے ان پر خط کھینچ دیا ہے۔ جگہ جگہ قافیے اور قافیہ نما الفاظ بھی ہیں۔
(ان کے نیچے دوہراخط ہے) لیکن اس خوبی سے لائے گئے ہیں کہ محسوس نہیں ہوتے۔ یہ نثر
اپنی طرح کا معجزہ ہے۔
11.2 سلیس سادہ : ایسی عبارت جو لفظ و معنی دونوں اعتبار سے سہل ہوا
اور اس میں کوئی رعایت لفظی بھی نہ ہو۔ مثال :
پیرو
مرشد ! آپ کو میرے حال کی بھی کچھ خبر ہے۔ ضعف نہایت کو پانچ گیا۔ بینائی میں
فتور پڑا۔ حواس مختل ہوئے۔ جہاں تک ہو سکا احباب کی خدمت بجالایا۔ اور اق اشعار لیٹے
لیٹے دیکھتا تھا اور اصلاح دینا تھا۔ اب نہ آنکھ سے اچھی طرح سو جھے نہ ہاتھ سے
اچھی طرح لکھا جائے۔ کہتے ہیں شاہ شرف بوعلی قلندر کو بسبب کبر سن کے خدا تعالیٰ
نے فرض اور پیغمبر نے سنت معاف کردی تھی۔ میں متوقع ہوں کہ میرے دوست خدمت اصلاح
اشعار مجھے پر معاف کریں۔ مخطوط شوقیہ کا جواب جس صورت سے ہو سکے گا لکھ دیا کروں
گا۔ (غالب: خطوط)
12 او پر ہم دیکھ چکے
ہیں کہ بعض طرح کی نثر ایسی بھی ہوتی ہے جس میں وزن ہوتا ہے اور بعض ایسی جس میں
قافیے کا با قاعدہ التزام ہوتا ہے۔ اگر چہ ایسی نثر اب بہت کم لکھی جاتی ہے، لیکن
ہماری زبان کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں قافیے بہت ہیں، خاص کر ایسے قافیے جو افعال
سے بنتے ہیں۔ اس لیے سلیس، سادہ نثر ( جس کا آج کل بجا طور پر بول بالا ہے ) میں
بھی قافیے کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ لیکن نثر کی بنیادی خوبی وضاحت ہے۔ اگر بات واضح
اور بالکل غیر پیچیدہ انداز میں نہ کہی جائے تو نثر کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ اس لیے
خطا ب یہ لہجہ میں نشر کے لیے نامناسب ہے، کیونکہ خطابیہ انداز کا براہ راست اثر
عقل پر نہیں بلکہ جذبات پر ہوتا ہے۔ سلیس سادہ نثر کا اثر عقل پر پہلے ہوتا ہے،
جذبات پر بعد میں۔ کسی نے فرانس کے مشہور نقادسین بو (جس کا نثری اسلوب بھی مشہور
ہے) سے پوچھا کہ نثر میں کیا خوبیاں ہونا چاہئیں۔ اس نے کہا کہ نثر میں تین خوبیاں
اشد ضروری ہیں۔ اول ، وضاحت، دوم وضاحت، سوم، وضاحت !
ماخذ:
درسِ بلاغت، چھٹی طباعت، 2019، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں