اسّے Essay یا مضمون کی سب سے ابتدائی اور قدیم صورتیں امثال اور کہاوتیں ہیں۔ 1جب انسانوں نے اجتماعی زندگی بسر کرنی شروع کی تو رفتہ رفتہ ان کے
مختلف گروہوں میں زبان کی نشو و نما ہونے لگی اور بتدریج لفظوں نے جملوں کی شکل اختیار کرلی اور ان جملوں کے ذریعہ سے خیال کا اظہا رکیا جانے لگا۔ اب چونکہ انسان کے پاس اظہار خیال کے سانچے یعنی کلمات اور جملے موجود تھے۔ اس لیے ان کی مدد سے اس نے اپنے تجربات کے نچوڑ اور اپنے احساسات کی ترسیل کے پیکروں میں سمونے کی کوشش شروع کردی۔ اسی سے رفتہ رفتہ کہاوت اور ضرب المثل جیسی ادبی صورتیں نشو و نما پاسکیں’بکس اینڈریڈرس‘ Books and Readers کے مصنف لکھتے ہیں:
’’جب
انسان نے وحشت اور بربریت کے دور سے باہر قدم رکھا تو اس نے قوت اظہار کی ضرورت
محسوس کی ۔ اس و قت اس کو دو محرکات کاشعور تھا ایک تو یہ کہ اپنے تجربات کی کہانی
سنائے دوسرے یہ کہ ان تجربات کی روشنی میں نتائج اخذ کرے جو مستقبل میں اس کی
رہنمائی کرسکیں اس طرح انسان نے اپنی مہمات اور اپنے تجربات کی تجسیم کہاوت اور
ضرب المثل کے ذریعہ سے کرنے کی کوشش کی انھیں کہاوتوں میں ہمیں ’اسّے ‘ کے جراثیم
نظر آتے ہیں۔ 2
چینی
کہاوتیں
اس قسم کی کہاوتیں سب سے پہلے چینیوں کے قدیم ادب میں ملتی ہیں۔ کانفوشیس Confucious (1)
کی ضرب الامثال اور کہاوتوں کے ذریعہ سے فلسفیانہ ، اخلاقی ، تمدنی اور ادبی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ پروفیسر ایچ اے گائلزH.A GILES
نے اپنی کتاب جمز آف چائینز لٹریچر Gems of Chinese
Literarure میں کانفیو شیس کی کہاوتیں پیش کی ہیں جن میں
سے کچھ کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
’’علم
بغیر فکر کے بیکارمحنت ہے ۔ فکر بغیر علم کے ایک ذہنی موت ہے … وفاداری اور سچائی
سے کام لو اگر تم میں برائیاں ہیں تو ان کی اصلاح کرتے ہوئے مت گھبرائو …جو شخص خدا
کے خلاف ہوتا ہے وہ کسی کے لیے دعا نہیں کرسکتا … عزت اور دولت وہ چیزیں ہیں جن کی
انسان خواہش کرتا ہے ۔ افلاس اور غربت وہ چیزیں ہیں جن سے انسان ڈر تا ہے۔‘‘3
عبرانی
کہاوتیںاورضرب الامثال
اس قسم کی کہاوتیں پہلے عبرانی ادب میں بھی ملتی ہیں۔ عبرانی ادب کی قدیم ترین کتاب ’’ایکلی سیاسٹی کس‘‘ Ecllesiasticusمیں اس طرح کی بہت سی مفید
اور کار آمد کتابیں جمع کردی گئی تھیں۔ پروفیسرآر جی مولٹنRG Moltonنے اپنی کتاب دی لٹریری اسٹڈی آف دی بائیبل
The Literary Study of the Bibleمیں اس سے بحث کی ہے کہ کس طرح کہاوت اور ضرب المثل نے آہستہ آہستہ اسّے کا روپ دھارا۔ ابتدا
میں اکثر زبانوں کے ادب میں یہ کہاوتیں انمل بے جوڑ اور بے ربط نظر آتی ہیں ۔ ان میںمختلف تجربات، متنوع تاثرات اور گوناگوں افکار کی ترجمانی کی گئی ہے ۔ بعد میںعلاحدہ علاحدہ کہاوتوں کے ٹکڑوں کو خیالات اور موضوع کی مناسبت کے لحاظ سے آپس میں جوڑنے کا رجحان پیدا ہوا اور اس طرح ادب میں اسّے سے مشابہ تحریروں کا آغاز ہوا۔ ایف ایچ پریچڈ F H Prechardنے اس قسم کی کہاوتوں کو ایکلی سیاسٹی کیس سے اخذ کرکے پیش کیا ہے۔
’’
عقل ایسی ہی اچھی چیز ہے جیسی توریث ہوتی ہے ہاں! ان کے
لیے بہترین چیز ہے جو سورج کو دیکھتے ہیں کیونکہ عقل ایک مدافعتی قوت ہے لیکن علم
کی معراج وہ عقل ہوتی ہے جو عالم کی زندگی کو بچالیتی ہے۔‘‘4
رومی
ادب میںمضمون نماتحریریں
اے بیک گراونڈ ٹو دی اسٹڈی آف انگلش لٹریچر A Back Ground to the Study of English Literature کے مصنف لکھتے ہیں کہ اسّے کے ماخذوں کو ہم رومی مفکرین کی تخلیقات میں تلاش کرسکتے ہیں۔ جیسے سسرو Ciceroاور سینکا
Seneca ۔ موخرالذکر کی اپسیٹلسEpisteles
کو آجکل کے خطوط کے زمرہ میں نہیں بلکہ اسّے کے ذیل میں
رکھا جاتا ہے بیکن Baconنے غالباً
رومی ادب کی اس خصوصیت کی طرف پہلی بار توجہ کی تھی اور کہا تھا کہ اسّے کا لفظ نیا
ہے لیکن یہ پرانی چیز ہے ۔ کیونکہ سینکاکی ’’ اپیسٹلس ٹو لوسی لیس
‘‘Epistlestto Lucilious کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم
ہوتا ہے کہ یہ اسّے کے سوا اور کچھ نہیں ۔
سینکا نے اپنے خیالات کو اپیسٹلسEpisteles
یعنی خطوط کی شکل میں پیش کیا ہے لیکن بیکن انھیں خطوط
کم اوراسّے کا ماخذ زیادہ سمجھتا ہے اس سلسلہ میں پلوٹارچ Plutarch کے مورالیا Moraliaکا ذکر بھی
ضروری ہے جو ایک طرح سے اخلاقیات کے موضوع پر لکھے ہوئے مضامین ہیں۔
مختصر
یہ کہ زبانوں کے ابتدائی دور میں کہاوتوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور ان کے وسیلے سے
قدیم ادب کی تفہیم و تحسین میں مدد ملتی ہے ۔
یہ
کہاوتیں گذشتہ دور کے لوگوں کے خیالات و جذبات اور طرز فکر کی آئینہ دار ہوتی ہیں،
کہاوتیں زبان سیکھنے میں بھی ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ بنجامن فرانکلین نے امریکہ
کے آدی باسیوں کو زبان سکھانے کے لیے جو
کتاب مرتب کی تھی اس میںکہاوتوں کو جمع کیا تھا۔ اس کتاب کا نام پور چرڈ المنا ک
Poor Richard Almanacہے۔
نظم
و نثر امتزاج
اگر
ہم ادبیات عالم پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کہاوتیں نثر اور نظم کا مجموعہ
بھی ہوتی تھیں۔ اکثر زبانوں کے زمانہ آغاز میں ادبی اصناف کے علاحدہ علاحدہ
صورتوں میں نہیں بلکہ ملے جلے روپ میں نظر آتے ہیں۔ ایک مشہور فرانسیسی نقاد، فرڈی
نارڈ برونی ٹائر Ferdinardbrune Tiereنے یہ بتایا ہے کہ زبان کی نشو و نما اور اس کا ارتقا بعض اصولوں کے تابع
ہوتا ہے جس سے نباتات اور حیوانات میں نشو و نما کی منزلیں متعین ہوتی ہیں۔ اس نے یہ
بھی لکھا ہے کہ مختلف زبانوں میں ادب کی جو اصناف اور قسمیں ایک دوسرے سے مختلف
نظر آتی ہیں وہ ادب کے آغاز کے وقت ایک متحدہ اور امتزاجی شکل میں ایک دوسرے میں
مدغم تھیں۔ اے جے تھامس AJ Thomsنے گریٹ ایسیز
آف آل نیشنGreat Essays of All Nations میں
ہندوستانی ادب کا جو خاکہ پیش کیا ہے اس میں وہ بتاتے ہیں کہ ادبی اعتبار سے
مہابھارت اور پران ان مختلف اصناف کا امتزاج ہیں جو ہنوز ارتقا کی منزلیںطے کررہی
تھیں اور ابھی انفرادی شکل میں متشکل نہیں ہوئی تھیں۔ اسی قسم کا خیال پروفیسر
گلبرٹ مرے Gilbert Murryنے یونانی ادب کے متعلق
ظاہر کیا ہے۔
مولپے
تمام اصناف کا ماخذ
وہ
تمام یونانی اصناف ادب کا واحد ماخذ بیالڈ ڈانس Balad Dance اس میں
مولپے Molpe کو قرار دیتے ہیں ان کا خیال ہے
کہ اس میںتمام اصناف کی غیر نمو یافتہ شکلیں موجود تھیں۔ بعد کو ڈانس کے گانوں میں
جو بہادروں کے قصے تھے وہ ایپک Epic کی صورت میں
ظاہر ہوئے ۔ حرکات کا ارتقا ڈرامے کی شکل میں عمل میں آیا، ان گانو ںمیں جو فکر
کا عنصر اور عقل کو مہمیز کرنے والے جو نکات تھے ان سے کہاوتوں کا جنم ہوا جو آگے
چل کر اسّے کی صورت میں نمودار ہوئیں۔ 5
مختلف
زبانوں میں اس امتزاجی ادب کے دور کی مدت مختلف رہی اور پھر رفتہ رفتہ مختلف اصناف
ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے ذاتی روپ میں نکھر نے لگیں۔ بہادری کے قصوں نے اپیک یا
رزمیہ کی صورت اختیار کی ۔ معمولی روز مرہ کے واقعات بیالڈ یا قصے کی شکل میں
رونما ہوئے کہاوتیں نشو و نما پا کر اسّے کی شکل احتیا ر کرگئیں۔
اس
طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر زبانوں کے ادب میں ان کے آغاز کے وقت علاحدہ علاحدہ
اصناف اور قسمیں نہ تھیں بلکہ مختلف اصناف کا ایک مشترکہ ذخیرہ تھا اسی لیے قدیم
ادب میں مضمون نما Pro to essay تحریریں
اپنی علاحدہ حیثیت سے نظر نہیں آتیں بلکہ ان کا وجود دوسری اصناف کے وجود میں
مضمر دکھائی دیتا ہے۔ یونانی زبان میں افلاطون کی’ ریپبلک‘ Republic ارسطو
کی نگارشات، رومی زبان میں سسرو اور سینکائی کی تحریریں، سنسکرت میںمہابھارت وشنو
پران ، چینی میں سن تنگ کی عبارتیں ،اطالوی میں پوکاچیو کی ’ڈیکمران‘ میں بعض ایسی
بیانیہ صورتیں موجود ہیں جنھیںمضمون نما تحریروں کا ایک دھندلا عکس کہا جاسکتا ہے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ادب کے ابتدائی دور میں اسّے کی ذاتی حیثیت اور اس کے
انفرادی خد و خال متعین نہیں تھے بلکہ وہ د و سری اصناف کے سہارے غیر شعوری طور پر
نشو و نما پارہا تھا اور ادب کی دوسری اصناف کے جسد میں اس کی پرورش ہورہی تھی۔
عربی
اس
قسم کی مضمون نما تحریروں نے عربی ادبیات میں اسّے کی صنف کی طرف چند قدم اور آگے
بڑھائے۔ عربی میں ایک مشہور مقولہ ہے ’ بدات الکتابہ بعید الحمید و ختمت بابن العمید‘
یعنی کتابت یاانشا پردازی کی ابتداعربی میں عبدالحمید سے ہوئی اور اس کا اختتام
ابن العمید پر ہوا۔ عبدالحمید بن یحییٰ 132ہجری اپنے زمانے کا بڑا انشا پرداز مانا
جاتا تھا۔ اس نے انشا پردازوں کے فن میں تنوع پیدا کیا تھا۔ تاریخ ادبیات عربی کے
مصنف سید ابو الفضل لکھتے ہیں:
’’عبدالحمید
نے عربی اسالیب انشاء میں پہلے پہل کی۔ جدتیں دکھائیں اس کے مضامین میں تنوع اور
ندرت تخیل نمایاں ہے۔‘‘6
تاریخ ادبیات عربی نے عبد الحمید کی تحریروں کے لیے مضمون کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ پہلے پہل عبدالحمید نے اپنی نگارشات کو ’رسائل‘ کے نام سے موسوم کیا تھا۔ اسی دور کا ایک اور انشا پرداز عبد اللہ بن ا لمقفع 106-143ہجری ہے جس نے اس قسم کی تحریروں میں زیادہ رچائو پیدا کیا۔ اس کے بعد بدیع الزماں ہمدانی کی تحریریں ملتی ہیں جنھیں اس نے’ مقامات‘ کے نام سے موسوم کیا تھا۔ ان مقامات میں ہر’ مقامہ‘ اپنی جگہ پر مکمل ہے اور ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ مقامات میں ادبی سماجی اور مذہبی موضوعات سب ہی ملتے ہیں۔ ان میں ظرافت کی چاشنی بھی موجود تھی اور خطابت کی شان بھی۔ عربی میں سب سے مشہور مقامات محمد القاسم بن علی الحریری کے ہیں۔ عربی کے ایک مشہور نقاد اور حریری کے ہم عصر زمحشری کا کہنا ہے کہ مقامات حریری اس قابل ہیں کہ ا نھیں سونے کے حروف میں لکھا جائے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عربی کے ان مقامات کو مضمون نما تحریر یں کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ جواب میں نیکلسن Nicleson
کی لٹریری
ہسٹری آف عربس Literary History of Arabs سے تاریخ
الفقری کے مصنف کا وہ بیان پیش کیا جاسکتا ہے جس میں اس نے’مقامات حریری‘ کو مخرب
اخلاق بتاتے ہوئے لکھا تھا:
’’قاری
ان مقامات کو پڑھ کر کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ سوائے اس کے کہ وہ عظیم اسّے سے
واقفیت حاصل کرے۔‘‘7
اس مصنف کے علاوہ دی لیگے سی آف پرشیاThe Legacy of Persiaکے مصنف اے جی آربری
AG Arbaryنے بھی ابن المقضع کا تذکرہ اسّے ایسٹ
Essayistکے ذیل میں کیا ہے۔8
اوپر کی بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ عربی میں ’’مقامات ‘‘یا’’ رسائل‘‘ ،
’’اسّے ‘‘ کے ابتدائی روپ تھے۔
فارسی
فارسی کے قدیم ادب میں بھی مضمون نگاری کے نمونے ملتے ہیں۔ اس طرح کی تحریریں فارسی میں رسائل کے نام سے لکھی جاتی تھیں ۔ جیسے’رسائل طفرا‘ لیکن فارسی میں اس کے لیے ایک اور اصطلاح ’مقالہ‘ بھی استعمال کی جاتی رہی۔ چنانچہ نظامی محروضی سمرقندی کی تصنیف’چہار مقابلہ‘کی چارو ںتحریریں چار اہم مضامین پر مشتمل ہیں جن میں دبیر ، منجم ، شاعر اور سیاس کی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ قابوس بن وشم گیر کے ’’قابوس نامہ ‘‘میں بھی مضمون نما تحریریں ملتی ہیں جن میں نصیحت کے پیرائے میں مختلف اصولوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اے لٹریری ہسٹری آ ف پرشیا A Literary History of Persia
میں برائوننے اس قسم کی تحریروں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
لفظ’مقالہ‘پر جب ہم غور کرتے ہیں تو مغربی زبانوں کے میکزم Maxim سے اس کی قریب ترین مشابہت کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ میکزم یا
کہاوت اور قول (مقالہ) اپنے اپنے طور پر ایک ہی طرح کی تحریروں کے لیے استعمال
ہوتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب
کی طرح مشرقی ادب میں بھی اسّے کی نشو و
نما ایک ہی انداز میں ہوئی لیکن اس سلسلہ میں یہ فر ق قابل وضاحت ہے کہ مغربی ادب
کے ابتدائی دور کے مضمون نما تحریریں زیادہ تصورات و خیالات کی ترسیل کے وسیلے کے
طور پر ابھری تھیں لیکن مشرقی ادب اور خاص طور پر فارسی اور عربی میں اور کسی حد
تک خود اردو میں اس قسم کی تحریریں انشا پردازی کے کمالات کا اظہار کرنے کے لیے
لکھی گئی تھیں۔
اردو
اردو
ادب کے ابتدائی نثر پاروں میں بھی اس قسم کی مضمو ن نما تحریریں موجود ہیں ۔ یہ سب
سے پہلے ہمیں وجہی کی’سب رس‘میں ملتی ہیں لیکن اپنی علاحدہ اور جداگانہ حیثیت میں
نہیں بلکہ ’قصہ حسن و دل‘ کے سہارے مخصوص موِضوعات جیسے شراب، ریا، عورت اورعشق وغیرہ
پر اظہار خیال کی شکل میں ابھرتی ہیں۔ اور چونکہ ’سب رس‘ ایک تمثیل
Allegoryہے اس لیے وجہی کو مزید اشاروں کے ذریعہ سے حیات
انسانی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالنے اور اپنی انشا پردازی کے جو ہر دکھانے کا
اچھا موقعہ ملا تھا۔ ’سب رس‘ میں نظر، زلف، عقل اور شراب وغیرہ کی تعریف و توصیف میں
جو عبارتیں لکھی گئی ہیں انھیں ہم مضمون نما تحریروں سے تعبیر کرسکتے ہیں کیونکہ
ان میں’ اسّے‘ کی خصوصیات کا ایک مدھم عکس ضرور نظر آتا ہے ۔ شراب کے متعلق وجہی
لکھتے ہیں:
’’شراب
سب کیفاں کا بادشاہ کیف۔ جاں عاشق ہور معشوق اچھے واں شراب نااچھے تو بڑا حیف جوں
نمک نیش تو کھانا بے نمک کھانے سے آدمی کیا سواد پانا۔ جوں جوت نہیں سو گھرجوں
مٹھائی نئیں سو شکر جوں معنائیں سر بات جوں سخاوت نئیں سو ہات ۔‘‘9
شمالی
ہند میں ابتدائی دور کی مستقل تصانیف میں بھی مضمون نما تحریریں ملتی ہیں ۔ چنانچہ
عطا حسین تحسین نے ’’ نو طرز مرسع ‘‘ (1737) بھی اس قسم کی پروٹواسّے
Pro to Essay تحریریں پائی جاتی ہیں۔اس کے دیباچے میں فیض
آباد کی جو تعریف کی ہے وہ بیانیہ مضمون نگاری سے خاصی مشابہت رکھتی ہیں لکھتے ہیں:
’’سبحان
اللہ ہر صفحہ فیض آباد ماخود برائے خود ایک کلکشن ہے کہ ہر تختہ ، تختہ بہار خد و
خال شہداں زین لباس کا بیچ اس کی رونق افروزی انتظار کنعاں ہورہا ہے اور ہر کوچہ
اس بلاد کا علاحدہ ایک کلکشن ہے۔ واقعی شہر کیا ہے ایک طلسم تماشائے قدرت الٰہی کا
ہے ۔‘‘
فورٹ
ولیم کالج کی تصانیف میں بھی اسی طرح کے مضمون نما تحریریں خاصی نمایاں ہیں۔ اس
زمانے کی بعض تحریریں پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب مصنفین ایک ایسی علاحدہ
اور مخصوص صنف کی ضرورت محسوس کرنے لگے تھے جو کسی خاص موضوع پر لکھنے والے کے خیالات
اور جذبات کے رد عمل کو دلنشیں اور شگفتہ انداز میں پیش کرسکے۔ شیر علی افسوس کی
’آرائش محفل‘ (1804) اس کی عمدہ مثال ہے۔ افسوس نے مختلف موضوعات پر چھوٹی چھوٹی
تحریروں کے ذریعہ سے اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کیا ہے لیکن وہ نثر نگاری کے
اس خاص طرز کو کوئی نام نہیں دے سکے، گو ان تحریروں کو سرخیاں بدل بدل کر لکھنے سے
کسی مخصوص اصطلاح تک پہنچنے کی کوشش نمایاں ہے۔ کبھی وہ ’پھولوں کی تعریف‘ ، ’موسم بہار کی تعریف‘ اور ’اسپ کی تعریف‘ اور
اس قسم کی سرخیاں قائم کرتے ہیں اور کبھی ’ارنے بھینسے کی صفت‘، گینڈے کی صفت ، ’
مجبوریوں کی صفت‘ اور کبھی ’سپاہ کی کیفیت یا ہندوستان کے فقیروں کی سیرت اور
گجراتی بیل گاڑی کا بیان‘ جیسے عنوانات قائم کرتے
ہیں لیکن افسوس اپنی ان تحریروں کو کسی خاص نام سے موسوم نہیں کرسکے۔ ان
تحریروں میں مضمون نگاری کی جھلک با آسانی دیکھی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ ذیل کے اقتباس
سے ظاہر ہوتا ہے :
’
چند سطریں موسم بہار و برسات کی تعریف میں‘
’’اگرچہ
فصل ربیع میں بھی اس ملک کے بیج پھل بہتات سے انواع و اقسام کے پھلتے پھولتے ہیں ۔
آم بور آتے ہیں بلکہ گلاب بھی باغوں کے بیچ بیشتر اسی فصل میں پھولتا ہے اور
جنگلوں میں ٹیسو ، سرسوں اس کثرت سے کہ نگاہ کا م نہیں کرتی اور آنکھ نہیں ٹھہر تی
۔‘‘10
رجب
علی بیگ کی ’ شبستان سرور‘ اور’فسانہ عجائب‘ کے دیباچے بھی اس سلسلہ میں خاص توجہ
کے مستحق ہیں۔ فسانہ عجائب کے دیباچے میں سرور نے لکھنو کی تہذیب کا جو مرقع پیش کیا
ہے اس میں مضمون نگاری کے تخم موجود ہیں وہ لکھتے ہیں:
’’
بحمدہ عجیب شہر گلزار ہے ہر گلی کوچہ دلچسپ باغ و بہار
ہے ۔ ہر شخص اپنے طور پر باوضع قطعدار ہے ۔ دور ویہ بازار کس انداز کا ہے۔ ہردکان
میں سرمایہ ناز و نیاز کا ہے۔ ہر چند ہر محلے میں جہان کا سامان مہیا ہے پر اکبری
دروازے سے جلو خانے تک اور پکے پل تک کہ صراط ہے کیا جلسہ ہے۔‘‘11
اسی
طرح فقیر محمد خاں گویا نے بستان حکمت نما جو دیباچہ لکھا ہے اس میں مضمون نگاری
کا پرتو نمایاں ہے ۔ ان دیباچوں کے علاوہ مختلف تصانیف پر جو تعریفیں لکھی جاتی تھیں،
وہ ایک طرح سے موجودہ دور کے تنقیدی مضامین کی پیش رو سمجھی جاسکتی ہیں۔ ان تقریظوں
میں غلام غوث بے خبر کی تقریظ جو انھو ںنے’شہید‘ کی ’انشائے بہار بے خزاں‘ پر لکھی
تھی خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا ایک بیان یہ
ہے :
’’سبحان
اللہ یہ کیسی انشاہے جس کے دیکھنے سے یہ لطف اٹھتا ہے ۔ کتاب کیا ہے گلزار خزاں جس
صفحہ کو دیکھئے حاشیہ فردوس کی روشوں پر حاشیہ لکھتا ہے ہر دل کے خطوط پر سلسبیل
اور کوثر کا پانی ہوتا ہے ۔ شسبتان ہے الفاظ گلستان میں ۔‘‘12
غالب
کی تقریظوں میں ’گلزار سرور‘ اور مرزا حاتم علی مہر کی مثنوی کی تقریظ بھی قابل
ذکر ہیں۔
غلام
امام شہید کے انشائیے بہار بے خزاں 1866 میںلکھی گئی تھی اس تصنیف کے وقت ما سٹر
رام چندر کے مضامین کو منظر عام پر آئے ہوئے تقریباً بیس سال گذر چکے تھے۔ ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ یا تو شہید ، رام چندر کی تحریروں سے بے خبر تھے یا جس طرح ولیم
کالج کی تحریک کے مقابلے میں سرور نے لکھنو کی ادبی روایات کو ملحوظ رکھا تھا اسی
طرح شہید نے نثر کے نئے نمونوں پر لکھنو کی روایتی انشا پردازی کے اصولوں کو ترجیح
دی تھی۔ انھوں نے ’’مضمون‘‘ یعنی اسّے کی اصطلاح استعمال نہیں کی ہے حالانکہ اس
وقت تک ماسٹر رام چندر نے اس کا استعمال شروع کردیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے شہید
کو احساس تھا کہ نثر میں مضمون نگاری کی ایک علاحدہ صنف کی ضرورت ہے ۔ ان کے ذہن میں
غالباً مضمون نگاری کا ایک دھندلا اور مبہم تصور موجود تھا چنانچہ اپنی کتاب ’’
انشائے بہاربے خزاں‘‘ میں جہاں شہید نے نظم کی مختلف شکلوں مثلاً رباعی ، مخمس اور
مسدس وغیرہ پر الگ الگ تبصرہ کیا ہے وہیں نثر میں خطوط رسائل عرضیوں اور وصیت
ناموں وغیرہ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں :- ’’ اگرباغ اور مکان
کی تعریف لکھنی ہو تو اس کو لکھنے کا طریقہ یہ ہے :
’تاج
گنج کے روضے کی تعریف :‘
’’آج
قلم کا دماغ پھولوں کی خوشبو سے معطر ہے ۔ کاغذ کا صفحہ آنکھ کی سفیدی کی طرح
منور ہے ۔ نظر کا ڈور رگ گل کے طور پر رنگین ہے۔ نگاہ کا رشتہ گلدستہ کے مانند
بہار یں ہے۔ کس واسطے کہ مجھے ایک باغ اور مکان کی صفت لکھنی ہے۔‘‘
اوپرکے
اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلام امام شہید توضیحی عبارتوں کو ایک علاحدہ زمرے میں
جگہ دینا چاہتے تھے ۔ انھو ںنے اس سلسلہ میں کوئی اصطلاح استعمال نہیں کی لیکن ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ ’مضمون نگاری‘ کی صنف کا ایک دھندلا سا خاکہ ان کے ذہن میں ضرور
موجود تھا۔
حواشی
1. ایچ پریچڈ۔بکس اینڈریڈرس، ص 72
2. ایچ پریچڈ:بکس اینڈریڈرس، ص72
3. چینی فلسفی 551 قبل مسیح میں پیدا ہوا اس کا وطن ضلع شان تنگ تھا 469قبل مسیح میں اس کا انتقال ہوا انسائیکلوپیڈیا بر ٹانیکا۔جلد7، ص 36
4. ایف ایچ پریچڈ، ص 72
5. ایف ایچ پریچڈ۔گریٹ اسیز آف آل نیشنس، ص 10
6. سید ابوالفضل تاریخ ادبیات عربی، ص82
7. نکلسن۔ہسٹری آف عربس، ص 331
8. اے جی آربری۔دی لیگے سی آف پرشیا، ص4
9. وجہی۔مصنف سب رس، ص 28
10. آرائش محفل، ص 28
11. دیباچہ فسانہ عجائب، ص 5
12. غلام غوث بے خبر۔انشائے بہاربے خزاں کی تقریظ بحوالہ محمدیحییٰ تنہا سیرالمصنفین، ص 210
ماخذ:
اردو ادب میں مضمون کا ارتقا، مصنفہ: سیدہ جعفر، پہلی اشاعت: 2019، ناشر: قومی
کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں