ادب و صحافت کی باکمال شخصیت-
جمیل مہدی
اطہر حسین
اردو کے وہ صحافی جنھوں نے قوم وملت کے لیے اپنی صلاحیتوں
کو وقف کررکھاتھا ان میں ایک نام جمیل مہدی کا بھی ہے۔جمیل مہدی کا تعلق دیوبند سے
تھا۔ انھوں نے وہاں سے کسب فیض کرنے کے بعد لکھنؤ کو اپنی عملی زندگی کے لیے منتخب
کیا۔ایک عرصے تک یہاں لوح وقلم کی پرورش کرتے رہے۔لکھنؤ کی ادبی وتہذیبی زندگی کو قریب
سے دیکھا،شہر نگاراں کی بھری پڑی زندگی ان کو مہمیز تو کرتی رہی لیکن ایک عرصے تک صحافت
کے بے لوث خادم کی طرح انھوں نے خود کو دنیاوی آلائشوں سے محفوظ رکھا۔ یہیں انھوں نے
شعور کی آنکھیں کھولیں، ادب وصحافت کی معتبر
شخصیات کو قریب سے دیکھا اور ان سے قلم وکتاب
کے رشتے کو سیکھا۔
دیوبند کی سرزمین مذہب وتہذیب کے تناظر میں عالمی شناخت
کی حامل ہے۔وہاں کی مٹی میں علم وادب کی خوشبو ہے۔جس خوشبو سے انھوں نے خود کو معطر
کر رکھا تھا۔ لکھنے پڑھنے کا شوق تو بچپن سے تھا۔قومی اور ملی مسائل پر ان کا قلم خوب
چلتا تھا۔اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کتابوں کے ساتھ ساتھ دیوبندمیں چلتے پھرتے سیکھ
رکھی تھی۔مسلمانوں کے سماجی اور ثقافتی معاملات اور پس منظر سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔زندگی
کے ان ابتدائی نقوش نے انھیں عملی زندگی میں کافی فائدہ پہنچایا۔ اخذ نتائج اور حالات
کے تجزیے میں مذہبی اور تاریخی تناظر کی گہری واقفیت نے ان کے قلم کو کبھی بھٹکنے نہیں
دیا۔ حالانکہ ان کویہ احساس تھا کہ انھیں اعلی تعلیم کے مواقع بہت کم ملے ہیں اور جو کچھ انھوں نے روایتی طریقہ
تعلیم سے سیکھا ہے اس سے وہ بہت زیادہ مطمئن نہیں تھے لیکن ان کا یہی اضطراب ان کی
علمی کارگزاریوں کا ایک اہم سبب بن گیا۔جمیل مہدی کا تعلیمی سفر نہ کے برابر ہے انھوں
نے روایتی تعلیم کے علاوہ کوئی ڈگری نہیں حاصل کی۔بچپن سے لکھنے پڑھنے کا شوق،کتابوں
کا مطالعہ اورقومی وملی مسائل پر قلم اٹھانا ان کا مشغلہ تھا۔اسلام اور مسلمانوں کی
تاریخ کے سیاسی وسماجی پس منظر پر ان کی گہری نظر تھی،جس کے سبب بہت جلد ان کی تحریروں
نے منفرد اسلوب کی حیثیت اختیار کرلی اپنے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں:
”میری
تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے،کیونکہ مڈل اور میٹرک اور عربی فارسی کی ابتدائی اور متوسط
کتابوں کی تعلیم کو میں تعلیم نہیں مانتا،ویسے ساٹھ سال کے قریب میری طویل عمر میں
ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا کہ کسی نے میری رسمی تعلیم پوچھی ہو یا کوئی سرٹیفکیٹ طلب
کیا ہو... میری زندگی کا سب سے بڑا تجربہ یہ ہے کہ علم کتابی نہیں ہوتا سماعی اور تجرباتی
ہوتا ہے۔مجھے مولانا سندھیؒ نے حجتہ اللہ البالغہ سبقا سبقا اس وقت پڑھانی شروع کی
جب کہ میں عربی کا ایک لفظ نہیں جانتا تھا،لیکن آگے چل کر کان میں پڑے ہوئے وہ تمام
الفاظ نہ صرف روشن ہوئے بلکہ آگے کی راہ کے لیے مشعل ہدایت بھی ثابت ہوئے۔“
(پیش
لفظ، افکار و عزائم، مرتبہ ڈاکٹر ذکی کاکوروی، میر اکادمی لکھنؤ 1989(
ان سطور سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کا قلم اپنے بارے
میں کسی مصلحت یا مبالغے کا شکار نہیں ہوتا تھا۔یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ زندگی
کے ہنگاموں نے انھیں یہ فرصت ہی نہیں دی کہ وہ اپنے بارے میں کچھ لکھتے۔عین ممکن ہے
کہ ان کے نزدیک اس کی بہت زیادہ اہمیت نہ ہو۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے لوگوں
کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے اور لوگوں کو بتانا بھی تاکہ بعد کی نسل یہ جان سکے
کہ اس آباد خرابے میں کیسے کیسے لوگ گزرے ہیں اور انھوں نے کیا کیا خدمات انجام دی
ہیں۔اسی احساس کے پیش نظر یہ چند سطور رقم کی جارہی ہیں۔اس احساس کے ساتھ کہ جمیل مہدی
کی شخصیت اور ان کے فن پر بہت کم لکھا گیا ہے۔
جمیل مہدی کی بنیادی حیثیت ایک معتبر صحافی کی ہے مگر انھوں
نے متعدد مضامین اور خاکے بھی لکھے ہیں ان کے خاکوں میں ”مولانا آزاد کی یاد میں،شکیل
بدایونی، روش صدیقی بھی چلے گئے، مولانا عبد الماجد دریابادی، ڈاکٹر فریدی، مقبول احمد
لاری،عرب دنیا بے چراغ ہوگئی اور ایک ہاتھ کا آدمی“ وغیرہ قابل ذکرہیں۔یہ تمام خاکے
اپنی تمام تر صفات کے ساتھ خاکوں کے لوازمات پر کھرے اترتے ہیں۔ ’ایک ہاتھ کا آدمی‘
جمیل مہدی کے بھائی عقیل مہدی کا خاکہ ہے جو جذباتی اور تاثراتی نوعیت کا خاکہ ہے۔انھوں
نے اس نفاست سے لکھا سے کہ بھائی عقیل مہدی کی شخصیت،سیرت،خوبیاں خامیاں غرض زندگی
کے ہر پہلو ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔وہ اپنے بھائی عقیل مہدی کے متعلق لکھتے ہیں:
”کیسا
عجیب آدمی تھا،کتنا بہادر،کتنا شریف،کتنا باہمت، کیسا متحمل مزاج،منکسر اور صلح کل
انسان تھا۔کیسا سعادت مند بیٹا،کیسا فرماں
بردار بھائی،کیسا وفا شعار شوہر، کیسا شفیق باپ اور کیسا وفادار دوست۔ایک ایک بات یاد
آتی ہے، ایک ایک نشتر چبھتا ہے۔چالیس برس وہ طویل زندگی جس کے ایک ایک دن پر اس کی
رفاقت کے نقوش ثبت ہیں سامنے آتی ہے تو ہر چیز بے معنی اور اپنا وجود بے مصرف دکھائی
دینے لگتا ہے۔
(افکارو
عزائم، مرتبہ ڈاکٹرذکی کاکوروی، 1989ص 504)
جمیل مہدی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز رسالہ ’شاعر‘ سے
کیا۔یہ رسالہ ممبئی سے نکلتا تھا اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔اس کا شمار اردو کے اہم
ادبی رسائل میں کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ممبئی ہی سے نکلنے والے روزنامہ ’جمہوریت‘
کی بھی ادارت سنبھالی۔ روزنامہ ’ہندوستان‘ اور روزنامہ ’خلافت‘ میں بھی اداریے لکھے۔
ان کے بھائی عقیل جو خود بڑے پایے کے شاعر تھے اور ایک سہ روزہ اخبار ’مرکز‘ نکالتے
تھے جس سے جمیل مہدی بھی وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ سہارنپور سے’بیباک‘ اور دیگر بڑے
رسائل واخبارات سے منسلک رہے اور خدمات انجام دیتے رہے۔
جمیل مہدی کا مطالعہ وسیع نظر عمیق اور حافظہ بہت قوی تھا۔
پرانی سے پرانی خبریں تفصیل کے ساتھ یاد ہوتی تھیں۔ان سب کے پیچھے ان کی لگن اور کڑی
محنت تھی۔جمیل مہدی حضرت مولانامحمدمنظور نعمانیؒ کی مسلسل سفارش پرلکھنؤ آئے اور
’قائد‘ اور ’ندائے ملت‘کی ذمے داری سنبھالی۔ 1968میں عزائم نکالا جو دس سال تک ہفت
روزہ رہا پھر عزائم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے روزنامہ کردیا گیا۔ یہی اخبار آگے چل
کر جمیل مہدی کی شہرت اور شناخت کا سبب بنا۔نسیم اختر شاہ قیصرجمیل مہدی کی شخصیت کا
تعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”جمیل
مہدی صاحب اردو کے دور حاضر کے صف اول کے صحافی ہیں ان کے مضامین میں غیر معمولی علمی،
ادبی، تہذیبی،اور معلوماتی خوبیوں کے علاوہ سب سے بڑی بات بلند نظری،وسیع المشربی،حقائق
پسندی اور بین الاقوامی معاملات کی پرکھ ہے جس نے ان کی صحافت کو عام اردو صحافت سے
بہت بلند بہت کارآمد اور معیاری بنادیا ہے۔“
)نسیم
اختر شاہ قیصر،میرے عہد کے لوگ،ازہر اکیڈمی شاہ منزل محلہ خانقاہ دیوبند، 2005ص176(
جمیل مہدی عاجزی وانکساری کے پیکر تھے بڑے حسن خوبی کے ساتھ
اپنے اخباری فرائض کو انجام دیتے تھے۔وہ خود اپنے صحافتی سفر کے متعلق لکھتے ہیں:
”مصنف
بننے کی حرص، ستائش اور داد حاصل کرنے کا شوق، قابلیت اور صلاحیت کی سند اور اعتراف
کی تگ ودو اور نمود ونمائش کا جذبہ کسی زمانے میں بھی، جوانی کے زمانے میں بھی جو اس
طرح کی چیزوں کے عروج کا زمانہ ہوتا ہے میرے نزدیک لائق توجہ نہیں رہا بلکہ افتاد طبیعت اس کے اس درجہ خلاف رہی کہ تعریف
وتوصیف کے مراسلوں تک کی اشاعت کبھی ’عزائم‘میں مناسب نہیں سمجھی بلکہ وقتا فوقتا اس
طرح کے مراسلوں پر پابندی کے فیصلے کا اعلان بھی کیا جاتا رہا ہے۔“
)نوائے
خاموش، معصوم مرادآبادی، ایم آر پبلی کیشنز نئی دلی، 2019 ص135(
جمیل مہدی کے اداریوں کو اپنے عہد کی دستاویزی تاریخ قرار
دیا جاسکتا ہے نیز یہ بھی کہ انھوں نے اپنے اداریوں سے اردو صحافت کی روایت کو فروغ
اور اداریہ نویسی کو اعتبار بخشا۔ عزائم میں انھوں نے قومی،ملی،سیاسی اور دیگر موضوعات
پر مسلسل اداریے لکھے جس کا ایک انتخاب ان کی زندگی ہی میں ڈاکٹر ذکی کاکوروی نے ’افکار
وعزائم‘ کے نام سے شائع کیا۔ ان کے اداریوں میں جاذبیت، پختگی، عصری آگہی،سماجی بصیرت
اور ایک طرح کی کشش نظر آتی ہے۔اس کے علاوہ سب سے بڑی خوبی جمیل مہدی کا جارحانہ اسلوب
اور جرأت مندانہ انداز تحریر ہے۔ وہ تلخ سے تلخ حقائق پر بھی قلم اٹھانے سے نہیں گھبراتے۔
یہی وجہ ہے کہ انھیں کئی دفعہ بعض دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔انھوں نے عزائم میں
اداریے لکھ کر قارئین کی ذہن سازی میں جو نمایاں رول ادا کیا ہے اس کی صدائیں آج بھی
سنائی دیتی ہیں۔ مشہور افسانہ نگار رام لعل جمیل مہدی کے متعلق لکھتے ہیں:
”بطور
صحافی جمیل مہدی کا مرتبہ میرے نزدیک مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا عبدالماجد دریابادی
اور بعض دوسرے دانشوروں کے بعد خاصا اہم رہا
ہے۔جمیل مہدی صاحب کے بارے میں،میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ وہ ایک چھوٹے اخبار کے بڑے
ایڈیٹر تھے۔لیکن بعض کم تعداد میں چھپنے والے
اور ظاہری شان وشکوہ سے عاری اخبار بھی محض اپنے اداریوں کی وجہ سے اہم تصور
کیے جاتے رہے ہیں۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان اخبارات کی فائلیں عرصہ دراز تک مختلف کتب
خانوں اور ذاتی لائبریریوں میں محفوظ رکھی جاتی ہیں۔“
)جمیل
مہدی کے اداریے، نیادور،فروری۔مارچ1990(
لکھنؤ سے جمیل مہدی کی قربتوں کا سبب اردو اخبارات تھے۔یہاں
کے اہم اخباروں میں ندائے ملت بھی تھا جس کے مدیر حفیظ نعمانی تھے۔اس اخبار کے تاریخ
ساز نمبر’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نمبر‘کے سلسلے میں حفیظ نعمانی نے قیدوبند کی صعوبتیں
بھی اٹھائی تھیں،جس کی ایک الگ داستان ہے۔اس کا تفصیلی مطالعہ ان کی کتاب ’روداد قفس‘
میں کیا جاسکتا ہے۔جیسا کہ ابتدا میں یہ لکھا جاچکا ہے کہ جمیل مہدی کی سوانح اور شخصیت
کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔حفیظ نعمانی جو کہ ان کے دوست اور ساتھی تھے خود صحافت
کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں وہ جمیل مہدی سے نہ صرف قریب تھے بلکہ ان سے خوب واقف تھے۔حفیظ
نعمانی نے ایک طویل خاکہ جمیل مہدی پر لکھا ہے اس سے جمیل مہدی کو باسانی سمجھا جاسکتا
ہے۔حفیظ نعمانی کے بقول:
”مارچ1962میں
جب ندائے ملت نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تو قلمی معاونین کی جو فہرست بنی ان میں دیوبند
سے ایک نام جمیل مہدی کا بھی تھا۔دوسرا نام مولانا حامداللہ انصاری غازی کا تھا۔لیکن
ان سے کچھ لکھوا کر بھجنا جمیل بھائی کی ذمے داری تھی۔اخبار نکلتا رہا جمیل بھائی کا
مضمون مہینہ میں کم از کم ایک آجاتا تھا۔“
)بجھے
دیوں کی قطار،مرتب محمد اویس سنبھلی،تنویر پریس لال باغ لکھنو، 2010ص105(
حفیظ نعمانی اور جمیل مہدی دونوں بنیادی طور پر قلم کے سپاہی
تھے۔ انھوں نے آزادی کے فوراً بعد کے پرآشوب دور میں ملت کی رہنمائی کے لیے قلم کو
وسیلہ اظہار بنایا اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے بے تکان اور مسلسل لکھا۔اخبار
نویسی ان کے یہاں ذریعہ معاش نہیں بلکہ ایک مشن اور نصب العین تھا۔اس کا اندازہ اس
سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ نصب العین کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی جاسکتی ہے جوکہ انھوں
نے دی بھی۔جمیل مہدی کے بارے میں حفیظ نعمانی کی کتاب ’بجھے دیوں کی قطار‘ میں ایک
خاکہ موجود ہے جس سے جمیل مہدی کی شخصیت اور ان کے کارناموں سے کس قدر واقفیت ہوتی
ہے۔اس خاکے سے ان دونوں کی دوستی ہی نمایاں نہیں ہوتی بلکہ ان کی زندگی کے نشیب وفراز
سامنے آتے ہیں۔اس خاکے سے پتہ چلتا ہے کہ صحافت اور صحافتی زندگی جمیل مہدی کی زندگی
کا جزولاینفک تھی۔زندگی کے کڑے سے کڑے وقت میں بھی نصب العین سے گریز کی کوئی صورت
نہیں تھی۔اقتباس ملاحظہ ہو:
”میرے
پاس دو بجے دن میں والد ماجد کا فون آیا انھوں نے بتایا کہ بھائی جمیل کے والد صاحب
کا انتقال ہوگیا ہے تم فوراً ان کے پاس چلے جاؤ۔میں نے ہلواسیہ جاکر دیکھا تو بیٹھے
ہوئے اداریہ لکھ رہے تھے۔میرے ساتھ چند باتیں ہوئیں،میں نے معلوم کیا کہ کیا پروگرام
بنایا؟کہنے لگے دہرہ شام کو سات بجے جاتی ہے اس وقت تک رونے سے بہتر یہ ہے کہ دوچار
اداریے لکھ دوں باقی تم کر لینا،نہ معلوم کب واپسی ہو یا ہو بھی نہ۔“
)بجھے
دیوں کی قطار،مرتب محمد اویس سنبھلی، تنویر پریس لال باغ لکھنؤ، 2010،ص116,117(
مذکورہ اقتباس سے جمیل مہدی کی شخصیت، محنت، لگن اور فکر
کا بخوبی انداز ہ لگایا جا سکتا ہے کہ والد کے وصال کی خبر موصول ہوجانے کے باوجود
اداریہ لکھنا نہ بھولے کہ کہیں عزائم کا کوئی شمارہ اداریے سے محروم نہ رہ جائے۔ایسے
فرض شناس صحافی کی ادبی خدمات کا اعتراف بہت ضروری ہے جس نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ
اردو ادب و صحافت کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔ انھوں نے اپنی صحافتی خدمات سے اردو صحافت
کو جو فروغ اور اعتبار بخشا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔اردو کے صحافتی ادب کی جب بھی تاریخ
مرتب کی جائے گی عزائم اور جمیل مہدی کے کارناموں کو ضرور یاد کیا جائے گا۔
حوالے:
.1 افکاروعزائم، مرتبہ
ڈاکٹر ذکی کاکوروی،میراکادمی لکھنؤ1989
.2 نسیم اختر شاہ قیصر،
میرے عہد کے لوگ،ازہر اکیڈمی شاہ منزل محلہ خانقاہ
.3 بجھے دیوں کی قطار،مرتب
محمد اویس سنبھلی، تنویر پریس لال باغ لکھنؤ 2010
.4 لکھنؤ کے بھولے بسرے
صحافی،عبد النافع قدوائی،صدق فاؤنڈیشن لکھنو،2016
.5 نیادور،لکھنؤ فروری۔مارچ1990
.6 نوائے خاموش،معصوم
مرادآبادی،ایم آر پبلی کیشنزنئی دلی، 2019
Athar Husain
MANUU Lucknow Campus
504/122 Tagore Marge Near Shadab Market
Lucknow - 226020 (UP)
Mob.: 8074378735
ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں