علامہ شوق نیموی کی غزل گوئی
نسیم احمد نسیم
سرزمین بہار زمانۂ قدیم سے باکمال اور نابغۂ روزگار شخصیات
کا مرکز رہی ہے۔ اس سرزمین نے ہر عہد میں اَن گنت علما، فضلا اور علوم و فنون کے گوہر
نایاب پیداکیے لیکن صدحیف کہ ہم میں سے اکثر ان کے مابہہ الامتیاز کارناموں سے ناواقف
ہیں۔ آج ایک عام چلن رائج ہے کہ جامعات کے تحقیقی مقالوں کو ہدف ملامت بنایا جائے اور
معیار تحقیق کو زوال پذیر قرار دے دیا جائے لیکن سچ یہ ہے کہ آج انہی جامعات کے ذریعے
گمشدہ اور گمنام ادبا، شعرا، علما اور دانش وران کو منظر عام پر لانے کا کام ہورہا
ہے۔ ورنہ اس خودنمائی اور خود تشہیری کے ماحول میں متقدمین، متوسلین اور دوسرے اہالیان
علم و فضل کو کون خاطر میں لاتاہے۔
علامہ شوق نیموی کا شمار ایسے ہی مشاہیر میں ہوتا ہے۔ وہ
ایک معروف عالم دین تھے اور علم حدیث میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کی مذہبی اور
ادبی خدمات کو ان کے عہد میں کھلے دل سے سراہا گیا۔ لیکن آگے چل کر رفتہ رفتہ انھیں
فراموش کردیا گیا۔اردو دنیا احسان مند ہے ڈاکٹر عتیق الرحمن قاسمی صاحب کی کہ انھوں
نے بہت ہی عرق ریزی اور جگر کاوی کے ساتھ تحقیق کرکے علامہ کے حالات زندگی اور ان کی
متنوع اور منفرد علمی، دینی اور ادبی خدمات کو منصہ شہود پر لانے کی پہل کی۔ علامہ
کی حیات و خدمات پر ان کی دوکتابیں اس بات کا بین ثبوت ہیں۔ قاسمی صاحب نے علامہ کی
شاعری اور ان کی زبان دانی کے متعلق لکھا ہے کہ:
”……
وہ اردو زبان کے مستند شاعر اور محقق و زبان داں تھے۔ ان
کی شعری خوبیوں کو داغ دہلوی، تسلیم لکھنوی،
حسرت عظیم آبادی اور احسن مارہروی جیسے نامور شعرا نے سراہا اور مولانا ابوالکلام آزاد
اور ضیا عظیم آبادی نے ان کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا اور ان کی شاگردی پر فخر کیا۔
اس کے علاوہ زبان دانی کے میدان میں جلال لکھنوی جیسے اہم شاعر کو شکست فاش دی اور
’جگنو وجگن‘ اور ’چھان بین‘ کی تحقیق میں دہلی اور لکھنؤ کے اساتذہ سے اپنی زبان دانی
کا لوہا منوایا۔“
(علامہ
شوق نیموی حیات و خدمات، ڈاکٹر عتیق الرحمن قاسمی۔ سخنہائے گفتنی، مطبع مجلس علمی پٹنہ1987ء
ص:90)
واضح ہوکہ علامہ کو شاعری کی مختلف اصناف پر قدرت حاصل تھی
اس لیے انھوں نے جس صنف میں کہا، خوب کہا۔ انھیں عربی، فارسی اور اردو پر یکساں عبور
حاصل تھا اس لیے ان کی شاعری میں لسانی سطح پر رنگارنگی اور بوقلمونی کے عناصر بدرجہ
اتم موجود ہیں۔ یوں تو انھوں نے حمد و نعت، مناقب ومثنوی اور قطعات و رباعیات بھی تخلیق
کی لیکن ان کی غزلیہ شاعری کی شان ہی نرالی ہے۔ میری دانست میں ان کے جوہر غزل میں
ہی کھل کر پورے طور پر سامنے آتے ہیں۔ علامہ کی غزلوں کے غائر مطالعے سے یہ اندازہ
ہوتا ہے کہ کسی خاص ادبی اسکول یا ادبی رجحان کے قائل نہیں تھے بلکہ انھوں نے ہر اسکول
کی خصوصیات پر نظر رکھی۔ ان کے یہاں قدماء کا رنگ تغزل ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ہر
مقام پر ان کی فنی مہارت اساتذہ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ان کے اکثر اشعار میں ظریفانہ
رنگ بھی جھلملاتا ہوا محسوس ہوتاہے۔ اس قبیل کے اشعار ہمیں غالب کی یاد دلاتے ہیں۔
چند اشعار ملاحظہ کریں ؎
دل شوق حسینوں سے لگانا نہیں اچھا
ہوجاؤگے بدنام زمانہ نہیں اچھا
دامن کبھی جھلتے ہیں کبھی ملتے ہیں وہ ہاتھ
اے شوق ابھی ہوش میں آنا نہیں اچھا
مجھے بھی عشق کا دعویٰ ہے اور غیر کو بھی
جو آپ چاہتے ہیں امتحان بہت اچھا
کلام شوق وہ سن کر پھڑک کے بول اٹھے
زباں ہے بہت اچھی، بیان بہت اچھا
کبھی کہیں کی، کبھی کی، یہاں وہاں کی بات
نکالی حضرتِ ناصح نے بھی کہاں کی بات
جوفکر کرتی ہے میری بلندیِ پروازی
تو شوق جوش میں کہتی ہے لامکاں کی بات
خزاں نے باغ لوٹا، پھول توڑے، دستِ گلچیں نے
بریشاں بوئے گل ہے بلبلوں کے گھر اجڑتے ہیں
کسی شمشادِ گلزارِ سخن کا پڑگیا سایہ
کہ آج اے شوق اپنی نظمِ موزوں پر اکڑتے ہیں
پروانے سے یہ کہتی ہے رو روکے شمع آج
سوزِدروں نے پھونک دیا سرسے پاؤں تک
روشن اسی سے ہے کہ ہمارا چراغِ دل
اے شوق ہے جو نور خدا سر سے پاؤں تک
حیرت زدہ ہیں اہل نظر بولتے نہیں
سب کچھ یہ دیکھتے ہیں مگر بولتے نہیں
پائیں گے کیا عدو مرا رنگ کلام شوق
زاغ و زغن ہزار کا گھر بولتے نہیں
یہ اشعار ڈاکٹر عتیق الرحمن قاسمی صاحب کے مونوگراف (مطبع
بہار اردو اکادمی) سے ماخوذ ہیں۔ مونوگراف میں شامل 55 غزلیں، دیوان شوق مطبوعہ مطبع
سیدی، پٹنہ سے ڈاکٹر صاحب نے نقل کیے ہیں۔ ان غزلوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ
علامہ ایک بہت ہی خوش گو اور پُرگو شاعر ہیں۔ زبان شستہ اور شگفتہ، زبان دانی کا کمال
اور استادانہ رنگ و آہنگ کا جمال ہر جگہ موجود ہے۔ لیکن اس اختصاص کے ساتھ کہ کہیں
سلاست اور شعریت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ علامہ کے یہاں بھی ان کے عہد کا شعری مزاج
اور مستعمل موضوعات ملتے ہیں، ان کے یہاں بھی معشوق کی ستم گری اور عشوہ طرازی کا گلہ
شگوہ ہے، لیکن اس قبیل کے اشعار کے بین السطور میں وہ اشارے اور کنایے بھی موجود ہیں
جو ہمیں غم جاناں کے ساتھ غم دوراں کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔
مندرجہ بالا اشعار میں بھی عشق کے روایتی احوال و کوائف
بہ کثرت موجود ہیں لیکن اوروں کے عشق اور علامہ کے عشق میں ایک فرق یہ ہے کہ وہ محبوب
کے آگے کلی طور پر سپردگی کے قائل نہیں۔ وہ معشوق کو اپنی اہمیت اور مرتبے کا احساس
بھی کرانا چاہتے ہیں۔ وہ رقیب کو روسیاہ اور فریبی نہیں کہتے بلکہ اس کے روبرو ہو کر
مرحلہ شوق کو سرکرنا چاہتے ہیں۔ وہ معشوق سے صرف دل لگی نہیں کرتے بلکہ اَٹھکھیلیاں
بھی کرنا جانتے ہیں۔ غالب نے کہاتھا
؎
عاشق ہوں مگر کام ہے معشوق فریبی
مجنوں کو بُرا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے
علامہ کے یہاں غالب کا یہ رنگ اور یہ رویہ اکثر مقام پر
دیکھنے کو مل جاتا ہے۔
اردو شاعری میں ناصحین اور واعظین شعرا کے خاص اہداف رہے
ہیں۔ علامہ نے بھی ان کی خبرلی ہے اور ان کی ناصحانہ باتوں کو لایعنی اور غیر ضروری
قراردیا ہے۔ ساتھ ہی اپنی فکری پرواز کا اظہار کرتے ہوئے اسے مکاں ہی نہیں لامکاں تک
رسائی کا موجب تصور کرتے ہیں۔ شمع جلتی ہے اور پروانے اس پر اپنی جان چھڑکتے ہیں لیکن
شمع کے سوزِدروں کو کون محسوس کرتا ہے۔ شاعر کے یہاں علامتی پیرا ئے میں اس دردوکرب
کو اجاگر کیا گیا ہے جو ہر دور کے اصحابِ شوق کا مقدر رہے ہیں۔ اس غزل کے دوسرے شعر
میں شاعر نے قدرت خداوندی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی ہستی اور اس کی شادمانی و کامرانی
کو خدا کے نور کا طفیل بتایا ہے۔ اور آگے کے دونوں اشعار ہر عہد کا پرتو نظر آتے ہیں۔
شکست و ریخت اور انتشار سے اکثر زمانوں کو گزرنا پڑا ہے۔ لیکن ان ناموافق حالات میں
بھی شاعر حزن و یاس کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ ضبط و تحمل سے کام لیتا ہے اور اپنے حالات
و کیفیات کو بہ طریقِ احسن فخریہ طور پر موزوں کرنے پر قادر نظر آتاہے۔ شاعر آگے چل
کر حددرجہ بڑھتی ہوئی مصلحت پسندی پر گہرا طنز کرتا ہے۔ اس کے مطابق ہر طرح کے ظلم
و ستم اور ناانصافی دیکھتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کرنا سراسر ظلم کی حمایت ہے، اس
لیے انسان اور انسانیت کے تحفظ اور بقا کے لیے اس رویے سے فوری نجات لازمی ہے۔ اخیر
میں چند اشعار اور دیکھیں ؎
جو تم کو جانتے ہیں اور بھی ہیں مشکل میں
یقین والوں سے بہتر گمان والے ہیں
کسی غریب کی فریاد کو وہ خاک سنیں
بلند قدر ہیں، اونچے مکان والے ہیں
زمانے نے دگرگوں کردیا یاروں کی مجلس کو
پریشاں آج اپنے حال میں ہے دیکھیے جس کو
وہی اشعار جن میں لطف کچھ رہتا ہے، رکھتے ہیں
غزل میں شوق ہم بھرتے نہیں رطب و یابس کو
ملا یہ نسخۂ نایاب حالِ کیمیا گر سے
رہا مفلس جسے ہے حرص دامن گیر چاندی کی
مرا لوہا عدوئے سنگ دل نے جان سے مانا
جو دیکھی دیدہئ انصاف سے تحریر لوہے کی
ہوا جب جل کے سرمہ، بڑھ گئی توقیر پتھر کی
کیا چشم بتاں میں گھر، زہے تقدیر پتھر کی
نہایت کاوشِ دل سے جو میں نے یہ غزل لکھی
زمینِ شعر میں اے شوق کی، تعمیر پتھر کی
غور طلب ہے کہ یہ اشعار معاملاتِ عشق اور احوال معشوق سے
بالکل الگ ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر کشی کرتے ہیں۔ ابتدا کے تین اشعار میں جہاں
نام نہاد دانش مندوں پر طنز و استہزا کے تیر چھوڑے گئے ہیں، وہیں کم علم اور سادہ لوح
لوگوں کی سادگی اور معصومیت کو ستائش کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ دوسرے شعر میں اپنے گردوپیش
میں رہنے والے ان اشخاص کو طعن و تشنیع کا ہدف بنایا گیا ہے جو اعلیٰ مقام و منصب والے
تو ہیں لیکن ان کی سوچ اعلیٰ نہیں، ان کا ذہن و قلب وسیع اور فراخ نہیں۔ اس لیے شاعر
کے مطابق ان کے آگے فریاد لے کے جانا عبث ہے۔
علامہ کے اشعار کے اس مختصر انتخاب کے اخیر میں چاندی، لوہا
اور پتھر کو بطور ردیف استعمال کرکے علامتی طور پر اپنی ذات اور کائنات کی تفہیم کی
بہت ہی فنکارانہ اور استادانہ کوشش کی گئی ہے۔ یہاں شاعر نے چاندی، لوہے اور پتھر کو
مختلف معافی اور مختلف کوائف میں پیش کرکے جہاں ایک طرف خدا کی قدرت اور اس کی وحدانیت
کو تسلیم کیا ہے وہیں اس کے ذریعے اپنے ماضی اور حال کی عقدہ کشائی کا کام بھی لیا
ہے۔
مختصر یہ کہ علامہ شوق نیموی جیساکہ عرض کیا گیا کہ مختلف
علوم و فنون میں یکتائے روزگار تھے۔ وہ اپنے عہد کی اہم ترین علمی، ادبی اور دینی شخصیت
تھے۔ ہم عصر مشاہیر نے ان کا اعتراف بھی کیا۔ لیکن آگے چل کر رفتہ رفتہ ہم نے انھیں
بھی اپنے دوسرے مشاہیر اور اسلاف کی طرح فراموش کردیا اور ان کے کارنامے چند ایسی کتابوں
میں دبے رہ گئے جو عام قارئین اور طلباء کے ہاتھ اکثر نہیں لگ پاتیں۔
Naseem Ahmad
Near Mirshikari Toli Masjid Kali Bagh
Bettiah. 845438
Mob. 7011548240
ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں