21/4/20

یگانہ چنگیزی: جدید غزل کا ایک بنیاد گزار مضمون نگار: س ش عالم




یگانہ چنگیزی: جدید غزل کا ایک بنیاد گزار

 س ش عالم

اردو کے تنک مزاج، انا پرست، ضدی، سخت گیر، شعلہ خواور باغیانہ تیور رکھنے والے شعرا کی فہرست تیار کی جائے تو یگانہ چنگیزی کا نام یقینا سر فہرست رکھا جائے گا۔ زندگی بھر اپنی ذات اور سماج سے الجھنے والا یہ شاعرکبھی مذہبی حوالے سے جھنجھلاہٹ آمیز اظہار پر معتوب ہوا، کبھی انانیت کی حد تک دراز ’خود شناسی‘ کے سبب طنز وتضحیک کا شکار بنا، کبھی بے وجہ شعراے متقدمین کی کھال کھینچنے پر لوگوں سے جھگڑتا رہا، کبھی فکروفن میں یکتائی کے دعوے نے کسی سے ذہن ملنے نہیں دیا اور کبھی کشمکشِ حیات سے ایسا نبردآزما ہوا کہ خود میں ہی الجھ کر رہ گیا .....  غرض متضاد ومتنازعہ کیفیات وواقعات کا عمر بھرشکاررہنے والا یہ شاعر اردو زبان وادب میں اپنی انفرادیت کے ایسے نقوش چھوڑ ہی گیا کہ ناقدینِ ادب کو کم از کم یہ تو تسلیم کرنا ہی پڑا کہ یگانہ واقعی یکتاویگانہ تھا۔
مرزافضل علی بیگ المعروف واجد حسین یاس یگانہ چنگیزی اردو ادب کا ایک معروف اور بڑا نام ہے۔ ان کی پیدائش27 ذی الحج 1301 ہجری مطابق17 اکتوبر 1884 میں پٹنہ کے محلہ مغلپورہ میں ہوئی۔ بعض اہلِ قلم نے ان کا سنہ پیدائش 1883 بتایا ہے جو غلط ہے۔ان کے والد مرزا پیارے کا تعلق ایک ایسے جاگیردار خاندان سے تھاجو عرصۂ دراز سے عظیم آباد میں مفتخر ومعتبر رہا تھا لیکن مرزا پیارے تک آتے آتے جاگیرداری کا سورج افلاس کی ظلمت میں گم ہوچکا تھا، البتہ روایات اور اقدار باقی تھیں، تعلیم کا رواج اور ادب دوستی مزاج کا حصہ تھی اسی لیے یگانہ کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی گئی، غیر معمولی ذہانت کے سبب انھوں نے تعلیمی مراحل نمایاں کامیابی کے ساتھ طے کیے،1903  میں محمڈن اینگلو عربک اسکول عظیم آباد سے انٹرنس پاس کیا۔ 1904 میں کلکتہ پہنچے۔ یہاں وہ نواب واجد علی شاہ کے فرزندمحمد مقیم کے پسران محمدیعقوب علی مرزااور محمد یوسف علی مرزا کی انگریزی تعلیم کے استاد مقرر ہوئے لیکن کلکتہ کا ماحول اور آب وہوا راس نہ آنے کے سب جلد ہی طبیعت اوب گئی اور پٹنہ واپس آگئے، 1905  میں علاج کی غرض سے لکھنؤ کا سفر کیا اور سرزمینِ لکھنؤ نے ایسے قدم جکڑے کہ تا عمرلکھنؤ کے ہی اسیر رہے۔1913 میں لکھنؤ کے نامور حکیم مرزا محمد شفیع کی دختر کنیز حُسین سے شادی ہوئی۔ لکھنؤ میں اودھ اخبار کے کچھ عرصہ مدیر بھی رہے لیکن چپقلشوں میں الجھے رہنے کے سبب ذہنی انتشار، افسردگی اور بے روزگاری نے کبھی اٹاوہ کے کسی اسکول میں مدرسی کے فرائض انجام دینے پر مجبور کیا، کبھی ریلوے میں ملازمت کرنا پڑی اور کبھی حالات سے تنگ آکرلاہور،علی گڑھ اور حیدر آباد کا رخ کیا۔لاہور میں ان کا قیام کافی عرصہ رہا اور وہاں انھوں نے کافی شہرت حاصل کی نیز تمام اہم رسائل واخبارات میں ان کا کلام بھی شائع ہوتا رہا۔ اکثر علامہ اقبال سے بھی ملاقاتیں کرتے تھے (یہ 1926) کے لگ بھگ کی بات ہے، بعد کے دور میں یگانہ علامہ اقبال کے بھی مخالف ہوگئے تھے۔1933 میں وہ عثمان آباد میں بسلسلہ ملازمت مقیم رہے، پھر لاتور چلے آئے، 1938  میں سَیلو میں رہے اور 1941  میں وہ یادگیر میں مقیم تھے۔ چونکہ زمانہ سازی اور مصلحت اندیشی سے یکسر ناواقف تھے اس لیے کسی جگہ یگانہ کی نہ بن سکی، مختصر سی مالی آسودگی کے بعد بار بار تنگ حال اور بے روزگار ہوکر پھر انجامِ کار لکھنؤ لوٹ آتے تھے اور یہاں وہی معاصرانہ چشمکوں میں الجھ جاتے، ویسے حقیقت یہ بھی ہے کہ لکھنؤ سے باہر رہ کر بھی وہ اہالیانِ لکھنؤ سے سوال وجواب کا سلسلہ نثر ونظم میں جاری ضرور رکھتے تھے۔ اپنی پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میری زندگی کچھ ایسے تلخ وناگوار واقعات کے سلسلہئ لامتناہی میں جکڑی ہوئی ہے اورایسی بے سروسامانی،  تنگ دستی،پراگندہ دلی و مکروہاتِ گوناگوں اور صعوباتِ روز افزوں کا سامنا رہتا ہے کہ جمعیتِ خاطر کی امید بڑھتی (بندھتی) نہیں دکھائی دیتی.....  اطمینان وفراغ نہ پہلے حاصل تھا نہ اب میسر ہے۔،، (کلیاتِ یگانہ، مرتبہ: مشفق خواجہ، ناشر فرید بکڈپو، دہلی 2005، عکسی لاہور ایڈیشن)
1942 میں حیدر آباد میں سب رجسٹرار کی ملازمت ختم ہونے کے بعد پندرہ روپے ماہوار پنشن مقرر ہوئی جس سے گزارہ بہت مشکل تھا اس لیے دوبارہ مزید مالی استحکام کے لیے حیدر آباد، بمبئی اور کبھی دیگر شہروں کا رخ کیا لیکن کوئی قابلِ اطمینان صورت پیدا نہ ہوسکی جس سے مایوس ہوکر 1949 میں مستقل طور سے لکھنؤ آگئے، اور یہیں انتہائی سخت حالات میں 2 فروری 1956 کو انتقال کیا۔ کچھ محققین نے تاریخ وفات4 فروری بھی تحریر کی ہے البتہ کثرت سے 2 فروری پر ہی اتفاق نظرآتا ہے۔
تمام تکالیف اور سختیوں کے باوجود یگانہ کو لکھنؤ سے گویا عشق تھا،حالانکہ حالات تو یہ تھے کہ   ؎
وطن کو چھوڑ کر جس سرزمیں سے دل لگا یا تھا
وہی اب خون کی پیاسی ہوئی ہے کربلا ہوکر
لیکن پھر بھی لکھنؤ سے روحانی وابستگی کا عالم یہ تھا      ؎
کششِ لکھنؤ ارے توبہ
پھر وہی ہم، وہی امین آباد
ابتدا میں شعرائے لکھنؤ کے ساتھ یگانہ کے تعلقات کافی خوشگوار رہے اور وہ اکثر ان کے ساتھ مختلف مشاعروں اور طرحی نشستوں میں شریک رہتے تھے لیکن اخلاص ومحبت کی یہ فضا زیادہ دیر تک سازگار نہ رہ سکی اور معاصرانہ چشمکوں کا ایسا سلسلہ چل نکلا جو یگانہ کی آخری سانس تک جاری رہا۔لکھنؤ میں اس وقت ایک سے ایک بڑا استادِ فن موجود تھا،لکھنؤ والے پہلے سے اِ س مرض میں مبتلا تھے کہ وہ اپنے علاوہ زبان وادب کے حوالے سے کسی کوذرا مشکل ہی سے مستند مانتے تھے، اِدھر مرزا یاس انانیت کے پیکراور فکروفن کی انفرادیت کے مدعی ہوکر پہنچے، بس اہلِ لکھنؤ سے ٹھن گئی اور ایسی ٹھنی کہ یگانہ نے گویا جواب الجواب کے قصے کو ہی صبح وشام کا مشغلہ بنالیا۔خوب خوب معرکے گرم رہے، حد ہوئی کہ مرزا واجد حسین یاس عظیم آبادی کے ’مرزائی خون، نے ایسا جوش مارا کہ وہ تخلص تبدیل کرکے ’یگانہ چنگیزی‘ بن گئے، گویا کہ مخالفین کو مرعوب کرنے کے لیے’چنگیزیت‘ کا سہار اتک لے لیا۔ البتہ یہ بھی ہوا کہ ان چپقلشوں اور معرکوں سے جہاں ایک طرف اہلِ فکرونظر اور طالبانِ علم وادب کو فائدہ ہوا وہیں یگانہ کی شاعری کا ایک منفرد رنگ بھی ابھر کر سامنے آگیا۔ خود یگانہ کو بھی اس کا کسی قدر احساس ہوچلا تھا اوراسی لیے شاید انھوں نے کہا ہے        ؎
یگانہ   وہی    فاتحِ  لکھنؤ     ہیں
دلِ سنگ وآہن میں گھر کرنے والے
مخالفت یا معاصرانہ چشمک کا آغاز شعرائے لکھنؤ کے معمولی اعتراضات سے ہوا تھا لیکن پھر یہ معاملہ زمانہ بہ زمانہ طول پکڑتا ہی گیا۔ شعرائے لکھنؤ غالب کے مقلد تھے اس لیے یگانہ کوان کی ضد میں غالب شکنی کاایسا جنون سوار ہوا کہ انھوں نے ایک طرف تو ’نشترِ یاس‘ لکھی اور دوسری طرف خود کو آتش کا مقلد کہنے لگے۔پھر ’چراغِ سخن‘ میں غالب اور معترفینِ غالب کی خوب خوب دھجیاں اُڑائیں۔ انھوں نے ہاپوڑ کے رسالہ ’خیال‘ کے لیے ’آتش وغالب‘ کے عنوان سے غالب کے خلاف پہلا مضمون لکھا جو نومبر1918  کے شمارے میں شائع ہوا اور پھر یہ سلسلہ گویا چل نکلا۔  بقول مشفق خواجہ:
نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ کسی بھی موضوع پر لکھتے،تان غالب  پر ٹوٹتی۔ 1927  میں جب ’آیاتِ وجدانی‘ کاپہلا ایڈیشن شائع ہوا تو اس میں بھی جابجا غالب پر مشقِ ستم کی گئی تھی اور یہ مشق اس حد تک بڑھی کہ انھوں نے اپنے ہمزاد مرزا مراد بیگ شیرازی کی زبان سے یہ اعلان کردیا”اب دیوانِ غالب میزانِ انصاف وخرد میں کلامِ یاس کے برابر نہیں تُل سکتا“......  اس سلسلے کی انتہا وہ رسالہ تھا جو ”غالب شکن،،کے نام سے پہلی مرتبہ 1934میں اور اضافوں کے ساتھ دوسری مرتبہ 1935  میں شائع ہوا۔
(کلیاتِ یگانہ، مرتبہ: مشفق خواجہ ایضاً)
یگانہ نے محض اہلِ لکھنؤ کو نیچا دکھانے کے لیے عرصے تک غالب کی مخالفت کا عَلَم بلند کیے رکھا، اِ س سے بہر حال غالب اور غالب پرستوں کا تو کوئی نقصان نہ ہوا البتہ خود یگانہ اپنی شاعری پر ایسی توجہ نہ دے سکے جس کی وہ مستحق تھی۔اس عرصے میں جہاں یگانہ خود ذہنی انتشار اور کسی قدر ذہنی مَرَض کی زد میں رہے وہیں احباب ومتعلقین اور اہلِ خانہ سے بھی ان کے معاملات کافی تلخ وترش رہے۔
لکھنؤ میں وارد ہونے سے لے کر اہلِ لکھنؤ میں اعتبار حاصل کرنے یعنی یاس عظیم آباد ی سے یگانہ چنگیزی بننے تک کا طویل ترین عرصہ کافی ہنگامہ خیز رہا۔چونکہ یگانہ از خود میر وآتش  سے انتہائی متاثر تھے اس لیے شاعری پر اساتذہئ لکھنؤ کے معمولی اور جزوی اعتراضات نے رنگ بدل کر ’عروضی معرکہ‘ گرم کردیا۔ عزیز لکھنوی اور ثاقب لکھنوی جیسے اساتذہ سے عروض دانی میں امتیازپر ٹھن گئی اور طرفین اپنے اپنے خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔یگانہ بھی اپنے حریف اساتذہ سے ہر موضوع پر چومکھی لڑنے لگے۔پھر بات غالب شکنی تک پہنچی اوراس کے بعد عقائد کے حوالے سے بھی معتوب قرار پائے۔ غرض ان کی زندگی نہایت ہنگامہ خیز اور تضادات سے بھری ہوئی تھی۔
یگانہ  بیک وقت صحافی، ادیب، ناقد، عروض داں اوربلند پایہ شاعر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے کمالِ فن کے جائزہ سے قبل تصانیف کا ذکر بے محل نہ ہوگاجو درجِ ذیل ہیں:
(1)  نشترِ یاس (حصہ اول) شعری مجموعہ (2) چراغِ سخن (اردو نثر/ رسالہ عروض وقوافی) (3)  کارِ امروز (ادبی ماہانہ رسالہ) چھ شمارے شائع ہوئے۔ (4)  صحیفہ (ادبی ماہوار رسالہ) ایک شمارہ شائع ہوا۔ (5) شہرتِ کاذبہ المعروف بہ خرافاتِ عزیز(عزیز لکھنوی کی شاعری پر اعتراضات)۔(6)آیاتِ وجدانی بمع محاضرات (شعری مجموعہ)۔(7)  ترانہ(مجموعۂ رباعیات)۔ (8) غالب شکن (مکتوبِ یگانہ بنام مسعود حسن رضوی ادیب)۔  (9) غالب شکن دو آتشہ۔ (10)گنجینہ (مجموعۂ غزلیات ورباعیات)۔(11) کلیاتِ یگانہ (مرتب بقلم خود بفرمائش علی سجاد ظہیر)۔
اس کے علاوہ بھی کثرت سے نثری مضامین جن میں اکثر کے موضوعات عروضی بحث اور غالب کی مخالفت تھی، مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوئے۔نثری مضامین کی طرح ان کا کلام بھی اس دور کے تمام رسائل وجرائد میں پابندی سے شائع ہوتا تھا۔ مذکورہ تمام کتب کے ہندوپاک سے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، علاوہ ازیں تحقیقی مقالات اور انتخاباتِ کلام الگ ہیں۔
یگانہ نے یاس عظیم آبادی کی حیثیت سے شاعری کا آغاز عظیم آباد میں ہی کردیا تھا،اور سید علی خاں بیتاب اور شادعظیم آبادی سے تلمذ کا شرف حاصل رہا۔ لکھنؤ میں قیام کے ابتدائی دور میں پیارے صاحب رشید سے بھی اصلاحِ سخن کا سلسلہ رہا۔ 1905 میں لکھنؤ آنے سے قبل وہ یاس عظیم آبادی کے نام سے کافی شہرت حاصل کرچکے تھے حتیٰ کہ لکھنؤ کے شعرا کے درمیان بھی ان کی شناخت قائم تھی۔آتش پرستی کا غلغلہ اگرچہ اہالیانِ لکھنؤ کی ضد میں اُٹھایا گیا تھا لیکن درحقیقت وہ آتش سے بہت متاثر بھی تھے اور کسی قدر آتش کی تقلید کا رنگ بھی اختیار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ آتش کے علاوہ میر کی شاعری سے یگانہ کو خاصی موانست تھی، میر سے وہ بیحد متاثر ضرور تھے لیکن میر کی طرح رنج وغم جمع کرکے دیوان بنانے کے خلاف تھے اسی لیے عمر بھر سخت ترین حالات کے باوجود ان کے اندر کا حوصلہ مندشخص وشاعر زندہ رہا          ؎
فریبِ آرزو کب تک،  امیدِ سخت جاں کب تک
مجھے خود بھی تعجب ہے رہے گا دل جواں کب تک
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مرجانا نہیں آتا
حالانکہ یگانہ کی شہرت ان کی غزل گوئی کے سبب زیادہ ہے لیکن انھوں نے مروجہ تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کے جوہر دکھا ئے ہیں، ا نھوں نے رباعیات، منظومات، قطعات، سہرے وغیرہ بھی کہے جو بہر حال ان کے اوجِ سخن کا نمونہ کہلانے کے مستحق ہیں۔
یگانہ کی شاعری کا زمانہ وہ ہے جب ادبی فضاؤں میں عموماً علامہ اقبال کی منظومات کی گونج تھی اور خالص غزل گو شعرا بھی نظم پر خصوصی توجہ دے رہے تھے البتہ غزل گوئی کے حوالے سے اُس دور کے نامور معاصرشعرا میں حسرت موہانی، فانی بدایونی، اصغر گونڈوی، جگر مرادآبادی، فراق گورکھ پوری اور شاد عارفی موجود تھے۔ حسرت اور فانی عمر میں چند سال فوقیت رکھنے کے سبب سینئر اور باقی لگ بھگ ہم عمر یا تھوڑے سے جونیئرتھے۔ ان تمام میں یگانہ کا رنگِ سخن سب سے زیادہ شاد عارفی کے قریب نظر آتا ہے، ممکن ہے حالات اور طبیعتوں کے امتزاج کے سبب ایسا ہوالبتہ دونوں کے شاعرانہ مزاج میں نمایاں فرق ضرور تھا، انانیت پسندی، ضدی طبیعت، خودداری اورکشکمشِ حالات کے معاملے میں یگانہ اور شاد یکساں تھے البتہ فن اور اظہارِ شخصیت وفن کے معاملے میں جزوی فرق ضرور تھا۔ شاد کے تخیل کو حالات کی سنگینی اور مصائب نے ایسا تلخ وترش کردیا کہ وہ غزل گوئی کو یکسر ترک کرکے خالص طنز یہ شاعری کرنے لگے لیکن طنز کی کاٹ نے خود ان کی شخصیت کے وقار کو مسخ نہ ہونے دیا۔ تمام مخالفتوں، اعتراضات اور معاصرانہ چشمکوں کے باوجود بھی شادعارفی زندگی بھر نہ صرف شعرائے متقدمین کے فکروفن کے معترف رہے بلکہ اُن معاصر شعرا کی فنی خوبیوں کی تعریف بھی کی جووقتاً فوقتاًشاد سے چھیڑ خانی کرتے رہتے تھے۔ یگانہ کے یہاں حالات وواقعات کے زیرِ اثراظہارِ فن دو خانوں میں بٹ گیا، یعنی شاعری میں تو انھوں نے بہت زیادہ تلخی یا تُرش روئی کا مظاہرہ نہیں کیا البتہ شخصی طور پر متقدمین ومعاصرین کی کھال کھینچنا شروع کردی۔بیان کردہ اختلافِ فکرونظر کے باوجود یگانہ اور شاد کی شاعری کے رنگ کافی یکسانیت کے حامل نظر آتے ہیں مثلاً یگانہ کہتے ہیں         ؎
دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے
یہی انداز شاد صاحب کے یہاں اس طرح نظر آتا ہے      ؎
نظر بچا کے اُس کو میں، وہ مجھ کو دیکھتا رہا
   تبھی تو کہہ رہا ہوں کامیاب مدعا رہا
شاد اور یگانہ کے یہاں لاتعداد اشعار ایسے ہیں جو تیور اور بیان کی برجستگی کے اعتبارسے انتہائی قریب ہیں۔
جہاں تک لکھنؤ کے ہم عصر شعرا کی بات ہے تو یگانہ کے نزدیک اُن میں بیشتر کی شاعری بے جان وبے رنگ تھی۔فانی بھی یگانہ کے اہم معاصرین میں تھے لیکن ان کا اندازِ غم یگانہ کو پسند نہیں تھا کیونکہ وہ معترف ہونے کے باوجود بھی میر کے اظہارِ غم سے محض اس لیے اختلاف رکھتے تھے کہ”مجھے اے یاس مایوسی سے گھبرانا نہیں آتا“ کے مصداق انھیں حوصلہ مندی زیادہ پسند تھی، فانی پر اکثر یگانہ  نے اعتراضات کیے ہیں البتہ فانی اُن کی بہت قدر وعزت کرتے تھے، اسی طرح اعتراضات کے باوجود جوش بھی یگانہ کے قدردان ومعترف تھے۔ بہرحال حسرت،  فانی، اصغر، جگر، فراق اور شاد عارفی جیسے منفرد غزل گوشعرا کی موجودگی میں معتبر ومفتخر مقام حاصل کرلینا یقینا ادبی حوالے سے بڑا کارنامہ کہلانے کا مستحق ہے اور یگانہ نے یہ کارنامہ کردکھا یا ہے۔ یگانہ کے یہاں ادراکِ ذات کی بہت شدت نظر آتی ہے مثلاً ذیل کے اشعار      ؎
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا  بنے  تھے  یگانہ مگر  بنا  نہ گیا
بلند  ہو  تو  کھلے   تجھ  پہ  راز  پستی  کا
بڑوں بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
خداہی جانے یگانہ میں کون ہوں کیا ہوں
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا
یگانہ سماجی نظام سے سخت بیزار تھے،غالباً اپنے افکار کے سبب معتوب ہونے کے بعد یہ بیزاری مزید شدت اختیار کرگئی تھی         ؎
دنیا کے ساتھ دین کی بیگار  الاماں
انسان  آدمی  نہ  ہُوا  جانور  ہوا
سب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا
سر پھرادے انساں کا ایسا خبطِ مذہب کیا
جیسے دوذخ کی ہوا کھاکے ابھی آیا ہو
کس قدر واعظِ مکار ڈراتا ہے ہمیں
اب بات کرتے ہیں یگانہ کی شاعرانہ انفرادیت کی؛ یگانہ کا کمالِ فن یہ ہے کہ وہ سخت سے سخت حالات میں بھی مایوسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے یعنی اُن کی امید افزائی کا سورج ہمیشہ روشن رہتا ہے، اسی لیے ا ن کے اشعار میر اور فانی کے رنگ میں ڈوبے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ اس معاملے میں وہ تمام تر ناپسندیدگی اور اعتراضات کے باوجود غالب کے ہم مزاج نظر آتے ہیں۔غالباً اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ غالب شکن ہونے کے باوجود لاشعوری طور پر غالب اور ان کے فکروفن سے متاثر تھے۔ یگانہ کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں معاصر شعرا سے استفادے کا پہلو کم سے کم ہے، انھوں نے اپنے رنگِ سخن کوشعوری طور پر معاصر شعرا کی تقلید سے بچائے رکھا ہے۔ انھوں نے اپنے لیے مضامین وموضوعات خود وضع کیے اور انھیں اپنے فکروفن کے وسیلے سے اردوادب کی زینت بنایا۔
یگانہ کا امتیازِسخن یہ ہے کہ انھوں نے روایتی غزل کی پاسداری کے ساتھ جدت کے طور پر اردو غزل کو باغیانہ تیور سے آشنا کیا، موضوعات کی مروجہ روایت سے انحراف کے معاملے میں وہ متقدمین ومعاصرین سے کسی قدر ممتاز اور کشادہ ذہن معلوم ہوتے ہیں         ؎
امید وبیم نے مارا مجھے دوراہے پر
کہاں کے دیروحرم گھر کا راستہ نہ ملا
پہنچی یہاں بھی شیخ وبرہمن کی کشمکش
اب میکدہ بھی سیر کے قابل نہیں رہا
مزہ گناہ کا جب تھا کہ باوضو کرتے
بتوں کو سجدہ بھی کرتے تو قبلہ رُو کرتے
بندے نہ ہوں گے جتنے خدا ہیں خدائی میں
کس کس خدا کے سامنے سجدہ کرے کوئی
موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی
لے دُعا کرچلے، اَب ترکِ دعا کرتے ہیں
یگانہ نے موضوعات کے حوالے سے اگر چہ روایت کی پاسداری کی ہے لیکن اُن کا خلاقانہ ذہن روایت میں تجدید کے پہلو تلاش کرکے اشعار کو انفرادیت سے ہم کنار کردیتا تھا۔ بندش کی چستی، لفظیات کا انتخاب، خیالات کی دلکشی وشائستگی اور زور کلام کے سبب یگانہ کے اشعار صاف پہچانے جاسکتے ہیں۔
یگانہ اپنی شاعرانہ خصوصیات کے سبب واقعی یگانہ ہی تھے۔ انھوں نے اپنے قدآور معاصرین سے کسی قدر آگے بڑھ کر اپنے فکر وفن کی راہیں ہموار کیں۔ جدید اردو غزل کے بنیاد گزاروں میں اُن کا نام خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
استفادی کتب
.1      میرزا یگانہ شخصیت اور فن: مرتبین: مشفق خواجہ، پاشا رحمن، آمنہ مشفق،1992  آصف پبلی کیشنز علی گڑھ
.2      میرزا یاس یگانہ چنگیزی: حیات اورشاعری از تمثیل احمد، 2006  ہارون نگر، پھلواری شریف پٹنہ۔
.3      مونوگراف یگانہ چنگیزی از وسیم فرحت کارنجوی، اردو اکادمی، دہلی 2015
.4      یگانہ احوال وآثار از نیر مسعود 1991  انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی

Seen Sheen Alam
Chairman: Saulat Public Library
Rampur - 244001 (UP)
Mob.: 9412454786



ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

رامپور میں تذکرہ نگاری کا اجمالی جائزہ، مضمون نگار: نظام الحسن

  اردو دنیا، نومبر 2024 علم و ادب کے حوالے سے رامپور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 1774میں   بہ حیثیت روہیلہ ریاست قائم ہونے والا یہ شہر...