25/9/24

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے(ڈاکٹر کہکشاں پروین کی یاد میں) مضمون نگار: محمد مکمل حسین

 ماہنامہ اردو دنیا،اگست 2024

کہکشاںپروین عہد حاضر کی ایک معروف افسانہ نگار کی حیثیت سے ادبی حلقوں میںمقبول تھیں۔ وہ گزشتہ چار دہائیوںسے خاموشی کے ساتھ پرورش لو ح وقلم اورگلشن ادب کی آبیاری میںمشغول تھیں۔ وہ ادبی دنیا میں کئی حیثیتوںسے پہچانی جاتی تھیں۔  انھوںنے اردو ادب میںایک معروف افسانہ نگار ہونے کے ساتھ تحقیق وتنقید میں بھی ایک انفرادی مقام حاصل کیا تھا۔ جب انھوںنے افسانہ لکھنے کا آغاز کیا تو جدیدیت کا دور تھا اور جب اپنی پہچان بنائی وہ مابعد جدیدیت کا عہد تھالیکن انھوںنے کسی رحجان کا تتبع نہیں کیا بلکہ آزادی سے لکھا۔ انھوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے سے لے کر ملازمت سے سُبکدوش ہونے تک لمبی مسافت طے کی اور اس دوران نئے تجربات ومشاہدات سے گذریں جنھیں اپنے افسانوں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں کہانی کا جوہر، منظر کشی ، تاثراتی پہلو، پلاٹ، زبان، کردار نگاری اور اسلوب سب کچھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے افسانے اُن کے ذاتی تجربات ومشاہدات کی عکاسی کرتے ہیں۔وہ عام واقعات یا تصورِ زندگی کے کسی پہلو کو فنکارانہ انداز میںپیش کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔ انھوں نے اپنے ہر افسانہ میں اپنے گہرے مشاہدات اور بھرپور مطالعے کا ثبوت دیا ہے۔ ان کی فنکارانہ صلاحیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے افسانوں میںایک خاص پس منظر کو دکھانے کی کوشش کی ہے جس میں زندگی میںپیش آنے والے مختلف واقعات ، مشاہدات اور تجربات خاص طور پر اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک سیدھی سادی کہانی کو عام فہم زبان میں افسانوی رنگ میں تحریر کرنے کا فن انھیں آتاہے۔ اپنے اِردگرد بسنے والے حقیقی کرداروں کو تخلیقی نظر سے دیکھنا اور اپنے کرداروں کوتجربات اور مشاہدات کی کسوٹی پر رکھ کر ایک خوبصورت افسانہ تخلیق کر نا بلاشبہ ایک بڑی فن کاری ہے۔ مجموعی طورپر یہ کہاجائے کہ کہکشاںپروین کے افسانوں میں پسماندہ طبقے کی تلخ حقیقت بیانی اور سنگلاخ زمین میں بسے آدی باسی سماج کے طورطریقے ، رہن سہن کے علاوہ عورتوں کی بدحالی ،جسمانی، جذباتی اوراحساس کی سطح پر اُن خواتین کا استحصال ان کے خاص موضوعات ہیں۔

معروف ناقد وادیب حقانی القاسمی کہکشاںپروین کے فکر وفن پر یوں رقمطراز ہیں:

’’افسانہ نگار کی حیثیت سے کہکشاںپروین کی شناخت مسلّم ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میںان موضوعات کو مَس کیا ہے جن سے ان کا گہرا ذہنی اور جذباتی رشتہ ہے، خاص طورپر ’عورت ‘ ان کا موضوعی مرکز ہے جس میں عورتوں کی زندگی سے جڑی ہوئی تمام نفسی ذہنی کیفیات ،آلام وآزار کو بہت سلیقے سے پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں میںعصری حسیت کے ساتھ ذہنی اور جذباتی حساسیت بھی نمایاںہے۔ حاشیائی طبقات کو بھی اپنے افسانوی بیانیے کے مرکز میں انھوںنے خاص جگہ عطا کی ہے۔ ان کے افسانے واقعی بہت اہمیت اور قدروقیمت کے حامل ہیں۔ ‘‘

کہکشاں پروین کی بنیادی شناخت افسانہ نویسی سے ہے جس کا اعتراف اس عہد کے ناقدین نے بھی کیا ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ:

’’کہکشاں پروین کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔وہ مسائل ان کی نگاہوں میں ہیں جو ہمارے اِردگرد بکھرے ہوئے ہیں۔وہ ایک حساس فنکار کی طرح ان کے بارے میں اپنا موقف رکھتی ہیں اوراس پس منظر میں افسانے تخلیق کرتی ہیں۔ لہٰذا ان کے افسانے محض تفریح کا سامان نہیں بلکہ ہماری بصیرت کا موجب بھی ہیں۔ ان کے افسانے اختتام پر فکر کی ایک دنیا آباد کر دیتے ہیں اوراہم مسائل پر از سرنو غور کرنے کے لیے اپنے آپ کوآمادہ پاتے ہیں۔‘‘ (ایک مٹھی دھوپ ،ٹائٹل پیج)

 پروفیسر قمرجہاں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کہکشاںپروین نے افسانے کو ایک چھوٹے سے کینوس سے شروع کر کے ایک بڑے کینوس پر پہنچا دیاہے اور پھر افسانوی ادب میںوہ کمال فن کی اس بلندی پر پہنچ گئیں جہاں ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ پروفیسر قمر جہاں رقم طراز ہیں:

’’۔۔۔ اسلوب دلکش ہے۔ موضوعات بھی نیرنگ سامان ہیں۔ ویسے پسماندہ طبقے کی تلخ حقیقتیں، سنگلاخ زمین پر زندگی بسر کر نے کے طور طریقے کے علاوہ عورتوں کی عمومی بدحالی جسمانی، جذباتی اور احساس کی سطح پر خواتین کا استحصال ان کے افسانوں کے بنیادی موضوعات ہیں۔ ان تمام موضوعات ومسائل کو پیش کرنے میں عام طورپر وہ کامیاب ہیں کیونکہ وہ ایک بیدار حس خاتون ہیں۔ نظر بھی تیز ہے ،گفتگو میںوہ خاموش طبع ہیں۔‘‘  (مژگاں، ص397)

کہکشاں پروین ذہین وفطین، حساس فطرت کی مالک، ایک مسلم الثبوت استادکے ساتھ افسانہ نگاری اور تنقید نگاری میںمنفرد پہچان رکھتی تھیں۔ ان کی پیدائش  26؍فروری 1958 میں ریاست بنگال کے ضلع پرولیا میں ہوئی تھی۔ ان کا بیک وقت تین ریاستوں سے تعلق ہے۔پیدائشی لحاظ سے ریاست بنگال(ضلع پرولیا) اور رشتہ ازدواجی کی حیثیت سے بہار( ضلع پٹنہ )سسرال ہے اور تعلیم وتعلّم کی حیثیت سے جھارکھنڈ (ضلع رانچی ) ہے اور تاحیات ان کا قیام رانچی میں رہا۔ان کی ابتدائی تعلیم گھر پرہوئی۔ اس کے بعد پرولیاضلع میںمیٹرک کے بعد رانچی ویمنس کالج ،رانچی میں انٹر اور بی اے تک کی تعلیم حاصل کی اورپھر رانچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردوسے ایم اے (اردو) کیا۔ اس کے بعد 1985 میں ارد و کے ممتاز نقاد اور مستند محقق ڈاکٹر شان احمد صدیقی کی نگرانی میں ’صالحہ عابد حسین بحیثیت ناول نگار‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر رانچی یونیورسٹی سے Ph.Dکی ڈگری حاصل کی اورتعلیمی سلسلہ کوجاری رکھتے ہوئے ’پروفیسر وہاب اشرفی کی نگرانی میں’منٹو او ربیدی تقابلی مطالعہ‘ کے موضوع پر ڈی لٹ کی اوروہ دونوں تحقیقی مقالے کتابی شکل میں موجود ہیں۔تعلیم سے فراغت کے بعد ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا ۔ان کی تقرری 1988  میں بوکارو مہیلا کالج میں بطورلیکچرر ہوئی اور تقریباًنوسال تک اپنے فرائض انجام دیتی رہیں۔ اس کے بعد 1996 میں بہار یونیورسٹی سروس کمیشن کے ذریعے باضابطہ لیکچرر بحال ہوئیں اور لیکچرر کی حیثیت سے ڈورنڈا کالج میںجوائن کیا اور تقریباً ایک طویل مدت تک اسی کالج کے شعبۂ اردو سے وابستگی رہی۔ سال2015 میں ان کا تبادلہ شعبۂ اردو رانچی یونیورسٹی، رانچی میں بطور صدر شعبۂ اردوہوا اورتقریباًآٹھ سال تک شعبۂ اردو میں درس وتدریس کے فرائض انجام دے کر 28؍فروری 2023 کو  ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔

 کہکشاں پروین کو مطالعے کا شو ق بچپن سے تھا۔ کم عمری میں انھوںنے بڑے بڑے شاعروں، ادیبوں اور نقادوں کا مطالعہ کیا۔ خاص طورپر کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندرسنگھ بیدی، واجدہ تبسم اورامرتاپریتم جیسے عالمی شہرت یافتہ ادیبوں کی تخلیقات نے متاثرکیا اورلکھنے کا شوق پیداہوا۔ کہکشاں پروین نے باقاعدہ طورپر اپنے ادبی سفر کا آغاز 1978سے کیا۔ان کا پہلا افسانہ ’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘ رانچی ویمنس کالج، رانچی کی میگزین میں 1978 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ایک اور افسانہ ’چارہ گر‘ 1980میں اخبار ’محرک‘ میں شائع ہوا اور مسلسل ملک وبیرون ملک کے معیاری رسائل اورجرائد میں ان کے افسانے شائع ہوتے رہے۔ اس کے بعد انھوںنے پھر کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ ان کی تقریباًایک درجن کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان میںپانچ افسانوی مجموعے ’ایک مٹھی دھوپ (1986)، دھوپ کا سفر (1990)، سرخ لکیریں(1998)، پانی کا چاند (2009) اور ’مورکے پائوں(2019)‘ ہیں۔ اس کے علاوہ تحقیق وتنقید میں صالحہ عابد حسین بحیثیت ناول نگار(1991)، منٹو اور بیدی :تقابلی مطالعہ (2014)،  شیشۂ افکار (2015)، منٹو اور واجدہ تبسم کے نسوانی کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ (2022) اور ’کیا رشتہ ہے میرا؟ (2010)‘ (نثری نظمیں)قابل ذکر ہیں۔

افسانوی مجموعے میںایک افسانہ ’ایک مٹھی دھوپ‘ جسے کتاب کانام بھی دیاگیاہے۔ ایک خوبصورت افسانہ ہے۔ اس میںافسانہ نگار نے محبت اور اس کے خوبصورت احساس کو یاد دلایاہے۔ محبت بھرے جذبا ت رکھنے والے کردار کو بہت عمدہ اور خوبصورت انداز میں بیان کیاہے۔ اس میں مرکزی کردار بھولاہے۔ افسانہ کے آغاز میں ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ کہانی گھریلو زندگی بسرکرتی عورت کی مشکلات کی طرف رجوع کرتی ہے۔ افسانے میں عام سماجی حالات کے ساتھ ساتھ گھریلو زندگی کو بھی پیش کرنے کی کوشش ہے۔

اس افسانے میں بھولا اور اس کی بیوی ہیرا مرکزی کردار ہیں، جس کے اِردگردپوری کہانی گھومتی رہتی ہے۔ اس میں شوہر بیوی دونوں کا ایک خوشگوار اور محبت بھرا رشتہ دکھائی دیتاہے۔ افسانے میں بھولانے اپنی بیوی ہیرا کی دبی چھپی خواہشات کوابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ازدواجی زندگی کے تعلق سے ہر وہ درد ومحبت اور فکر واحساس کو ظاہر کیاہے جو افسانے میں کردار کے کسی نہ کسی پہلو میںچھپا ہواہے۔ مجموعے کے بیشتر افسانے عورت کے مختلف روپ کے اردگرد گھومتے ہیں۔ جس کو بڑی فنکارانہ چابکدستی سے اُجاگر کیاگیاہے۔ ہر افسانے میں زبان وبیان کی دلکشی قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔  اس کے علاوہ بیشتر افسانے قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں جن میں ٹھنڈی چائے، بکھری ہوئی عمارت، تواپرکی عورت، شناخت، پانی کاچاند، مورکے پائوں، گرتی ہوئی عمارت، آسمان کاچاند، گرم چھائوں، کہاں ہوتم، ’لاک ڈائون، بسیرا، کھیل کھیل میں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

افسانہ نگاری کے علاوہ انھوںنے تحقیق وتنقید کے میدان میں کئی اہم کارنامے انجا دیے، جن میں ایک کتاب ’صالحہ عابدحسین بحیثیت ناول نگار‘ کے نام سے ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ ہے جو1991 میں کتابی شکل میں منظر عام پر آیا۔ پوری کتاب 252 صفحات پر مشتمل ہے۔ مصنفہ نے کتاب کاانتساب والدہ محترمہ آسیہ خاتون کی مامتا کے نام کیاہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں عرضِ حال کو چھوڑ کر تحریرکردہ عنوانات کی فہرست تو کافی طویل ہے لیکن اصلاً کتاب درج ذیل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔پہلاباب ’صالحہ عابدحسین کے حالات زندگی‘سے متعلق ہے۔ دوسراباب ’ناول سماجی تنقید کا آئینہ دار‘ ہے۔ تیسرا باب’ارود ناول کا ارتقا (صالحہ عابدحسین تک)‘ پر مختص ہے۔چوتھاباب ’صالحہ عابدحسین کے ناولوں میں سماجی وتہذیبی احوال‘ ہے۔ پانچواں باب ’صالحہ عابدحسین کا ہندوستانی عورت کے متعلق نقطہ نظر‘ہے۔ چھٹا باب ’صالحہ عابدحسین کے ناولوں میں ماجرا نگاری‘ پر ہے۔ ساتواںباب ’صالحہ عابد حسین کے ناولوں میں کردارنگاری‘ کا احاطہ کرتا ہے۔ آٹھواں اورآخری باب ’صالحہ عابد حسین کااسلوب‘ ہے۔ آخر میں حرف آخر اورکتابیات پرختم ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ ہے جو تحقیق و تنقید کے موضوع پر انفرادیت واہمیت کا حامل ہے۔ مصنفہ نے کتاب کوتحریر کرتے ہوئے اپنی ہنر مندی اور صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کیاہے۔صالحہ عابدحسین کی شخصیت، کردارنگاری، اسلوب نگارش اور ان کے عظیم الشان کارناموںپر اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔  اس سلسلے میں ڈاکٹر کہکشاں پروین لکھتی ہیں:

’’صالحہ عابدحسین کی جامع شخصیت، ان کی وضع قطع، ان کی گفتگو، ان کا لب ولہجہ، ان کی چال ڈھال میں فطری نفاست اورشائستگی موجو دہے۔ وہ مجسم اخلاق، ہمدرد اور دردمند دل خاتون ہیں۔ ان کی شخصیت میں اسلامی زندگی، شرعی ماحول، مشرقی معاشرہ اورخاندانی روایات کا گہرا اثر ہے۔ وہ مذہب کی پابند ہیں اوران میں خلوص ومتانت بدرجہ اتم موجود ہے۔ تہذیب و ثقافت کاجو مفہوم نفاست اور نزاکت کے ساتھ ہمارے یہاں مروج ہے۔ وہ صالحہ عابدحسین نے روایتی طورپر پایا ہے۔ وہ اپنی شخصیت کو موضوع فن کا ایک لازمی جزو بنادیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب میں ناہمواری نہیں پائی جاتی ۔‘‘(226)

ان کی ایک اور کتاب ’منٹو اوربیدی: تقابلی مطالعہ‘  کے عنوان سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی سے 2014 میں شائع ہوئی۔یہ ایسی واحد کتاب ہے جس میں دو بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں اورناولوں میںپلاٹ، کردار اور اسلوب نگارش کا تحقیق وتنقید کی روشنی میںجائزہ لیاگیاہے اور اپنی ادبی بصیرت سے کام لے کر ان دوبڑے افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانوں کاتجزیہ کرتے ہوئے واضح نتیجہ اخذ کر نے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی ان کے فکری وفنی پہلوئوں کا بھی خاصی تفصیل سے جائزہ لیاہے۔

کتاب میں منٹو اور بیدی کی شخصیت اور افسانوی موضوعات کے اثرات کاجائزہ لینے کے ساتھ ساتھ دونوں کے تقابلی مطالعے نے ایک انفرادیت اورمقام متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔کتاب کے سلسلے میں ڈاکٹر اعجاز علی ارشد نے ’کتاب سے پہلے‘ میں مختصر اورجامع تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر کہکشاںپروین کی تنقیدنگاری کاجائزہ لیاہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’منٹو اور بیدی کے سلسلے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے محترمہ نے اس حقیقت کا اظہار کیاہے کہ بعض جنسی اورنفسیاتی امور ان دونوں کے یہاں فنی رکھ رکھائو کے ساتھ ایک خاص انداز میںابھرے ہیں مگر جنسی احوال کی پیشکش میںبیدی کی بہ نسبت منٹو زیادہ بیباک رہے ہیں۔ ان کے افسانوں میںجنس ایک ناگزیر صورت بن کر ابھرتی ہے جب کہ بیدی کے یہاں یہ زیریں لہروں کی شکل میں موجود رہتی ہے۔‘‘ (منٹو اوربیدی تقابلی مطالعہ ص10)

’شیشۂ افکار‘ کہکشاںپروین کی تیسری تنقیدی کتاب ہے۔ یہ کتاب تنقیدی مضامین کے انتخاب پرمشتمل ہے۔ کتاب 2015میںایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب میں نئے اورپرانے مضامین شامل ہیں جو ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہیں اورکچھ ایسے بھی مضامین ہیں جو اپنے اساتذہ کرام اور ادبا وشعرا کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ مجموعے میں کل 25 مضامین شامل ہیں۔ کہکشاںپروین نے ان مضامین میں ادب اور زندگی سے متعلق ان تمام چیزوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے جو انسان اورسماج کے تابع ہو تے ہیں۔

کہکشاںپروین کی کتاب ’منٹو اور واجدہ تبسم کے نسوانی کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ‘ کے نام سے 2022 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی سے شائع ہوئی۔ کتاب کل 208صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر نوشابہ پروین اورڈاکٹر فوزیہ پروین کی محبتوں کے نام ہے۔ کتاب میں کل چار مضامین منٹو اور واجدہ تبسم کے نسوانی کردار، واجدہ تبسم کے نسوانی کرداروں کی طبقاتی زندگی کے خاکے، منٹو اور واجدہ تبسم کے افسانوں کا جائزہ  اور’منٹو اور واجدہ تبسم کی افسانہ نگاری‘ہیں۔ کہکشاںپروین کی یہ پہلی کتاب ہے جس میں اپنی باتیں(پیش لفظ)کے تحت کچھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور کتاب ’پانی کاچاند‘ میںبھی پیش لفظ نہیںہے۔ کتاب میں منٹو اورواجدہ تبسم کے نمائندہ افسانوی کارناموں کا جائزہ لیاگیاہے جن کے ذریعے منٹو اور واجدہ تبسم کی شخصیت اورفن کو کافی حدتک سمجھا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ان کی تخلیقات کے نسوانی کرداروں کے نفسیاتی تجزیے پر تفصیلی وضاحت ملتی ہے۔ 

کہکشاںپروین نے جہاں افسانہ نگاری اور تحقیق وتنقید میں اپنا مقام بلند کیا ہے وہیں نثری نظموں میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کا  اکلوتا شعری مجموعہ ’کیا رشتہ ہے میرا؟‘ کے نام سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی سے سال2010میں اردو اورہندی دونوں رسم الخط میں شائع ہوا ہے ۔ کتاب کا انتساب شاعرہ نے اپنے بھائی سید شکیل احمدکے نام معنون کیا ہے، جس کو موصوفہ نے اپنی مرحومہ امی کے خوابوں کا مرکز قراردیاہے۔پوری کتاب نثری نظموں پر مشتمل ہے۔نظموں کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں۔ کیارشتہ ہے میرا؟، بدھیا زندہ ہے، لمحوں کا کرب، خواب اک آئینہ، تلاش مسلسل، یادوں کی دھوپ،  رہگزر، کسک۔ اس کے علاوہ د و صفحات پر اپنی باتیں کے عنوان سے پیش لفظ ہے۔ کہکشاں پروین نے شعری مجموعے میں اپنی شاعری کے حوالے سے لکھاہے:

’’میری شاعری میرے جذبات کے اظہار کا ایک ذریعہ محض ہے۔ مجھے احساس ہے کہ شاعری کی زمین صاف چٹیل میدان کی طرح سیدھی اورہموار نہیں ہوتی ہے۔یہاں کچھ قیودہیں، کچھ بندزنجیریں ہیں جو قدموں کو تنگ کرتی ہیں۔ میرے الفاظ اورمیری شاعری (جو کہہ لیجے)میںآشیانے کاتنکا تنکا سمیٹ کر رکھنے کا ایک جذبہ ہے۔ خوشی اورغم کے تصادم میںپل پل زخمی ہوتی مسکراہٹوں کا بیان ہے۔‘‘(اپنی باتیںص6)

اس شعری مجموعے میں پہلی نظم ’کیارشتہ ہے میرا؟‘ کے نام سے ہے اورکتاب کا ٹائٹل بھی ہے۔نظم کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو           ؎

اکثر میں نے یہ سوچا ہے /تجھ سے کیارشتہ ہے میرا

اس دنیا میںکتنے چہرے/اپنے بھی بیگانے بھی ہیں

جانے بھی ہیںانجانے بھی ہیں

چہروںکی اسی جھرمٹ میںہے

تیرا چہرہ ایساچہرہ

ذہن کے آئینہ خانے میں روزازل سے جورہتاہے

سپنوں کے سانچوں میںڈھل کر

رنگ بدل کر روپ بدل کر/آتاہے

مذکورہ بالانظم میں لفظ ’رشتہ ‘پر غور کر نے کی بات کہی گئی ہے جس کو شاعرہ نے اپنی نظم میں ذکر کیا ہے کہ رشتے ناطے، احساسات سے جڑے ہوئے ہیں۔ احساس ہی ایسا امر ہے جو انسان کے دکھ ودرد اور محبت و پیار کو نبھاتاہے۔ رشتے کا تعلق انسان پیداہو نے کے بعد سے شروع ہوتاہے اور انسان کی عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ رشتے میںتبدیلیاں پیداہوجاتی ہیں۔ہر انسان ایک بچے کی شکل میں دنیا میں آتا ہے اوروہیں سے رشتے کا تانا بانا شروع ہوجاتاہے ۔ ماں باپ اور اولاد کا رشتہ اٹوٹ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اولاد بڑی ہوتی ہے تو استاد واحباب کارشتہ ہوتاہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کا مسئلہ ہو تاہے تواس میںایک رشتہ قائم ہو تاہے۔ وقت گزرتاجاتاہے اور ایک بچہ ماں باپ بن جاتاہے اور پھر اس کے ماں باپ دادادادی بن جاتے ہیں۔ غرض رشتہ چاہے روحانی یاجسمانی ہو، ہمیں ان کی محبت اور توجہ ہماری بے رخی کے بعد بھی مسلسل ملتی رہتی ہے۔ وہ کبھی ہمیں خود سے الگ نہیں ہو نے دیتے اس لیے ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم دوسروں سے کس قدر بیگانہ ہوگئے ہیں۔ ہم ان کی قدرنہیں کرتے۔ ہم انھیں پیار نہیں دیتے۔ انھیں وہ عزت نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں۔اس لیے ان تمام رشتوں میںاحساس کا ہونا بے حدضروری ہے اوراحساس نہ ہو تو ہر رشتہ بے معنی ہوجاتاہے۔ جس کو شاعرہ نے اپنی نظم میںبیان کیا ہے۔

الغرض کہکشاںپروین اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ بحیثیت افسانہ نگار، تحقیق و تنقیدنگار اور بالخصوص استاد کے ناطے اپنے شاگردوں میں بے حدمقبول اور قابل احترام تھیں وہ نہ صرف اپنے شاگردوں کی علمی وادبی شعبوں میں رہنمائی کر تی تھیں بلکہ زندگی کے نشیب وفراز سے واقف بھی کراتی تھیں اور ہر ممکن مالی تعاون بھی کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تدریسی فرائض سے سبکدوش ہو نے کے باوجود اپنے شاگردوں کے ہر وہ پروگرام خواہ ادبی ہوں یاغیر ادبی کی دعوت پر نہ صرف لبیک کہتی تھی بلکہ کئی سمیناروں میں صدارت کی ذمے داری بھی نبھاتی رہی۔ انھیں شاگردوں میں ایک نام خاکسار کابھی ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ کے فکری وفنی پہلوئوں پر خاکسار کی ایک کتاب ’کہکشاںپروین: فکری وفنی جہات‘ بھی منظرعام پر آچکی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پانچویں مجموعوں کو خاکسار نے ’جہان کہکشاں‘ کے عنوان سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی سے شائع کرایا ۔ کتاب پریس میں ہی تھی کہ ڈاکٹر صاحبہ کی طبیعت بگڑ تی چلی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کتاب شائع ہوگئی لیکن مصنفہ نے اس کتاب کا دیدارنہ کیا اور 17جون 2024بروزسموار رات کے گیارہ بج کر25 منٹ کو66سال کی عمر میں اپنے پیچھے شوہرسید حسین فاطمی اور تین بچے دو لڑکے (رازل حسین اور عاطف حسین) اور ایک لڑکی (خوباں حسین)کو چھوڑ کر اس دارفانی سے کوچ کر گئی ۔

Dr.  Md.Mokammal Hussain

Urdu Section,

Jharkhand Legislative Assembly

Ranchi- 834004 (Jharkhand)

Mob: 8084494916

Email- mokammal2018@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...