ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024
تعارف: زمانہ در از قبل (حضرت) سلیمانؑ نے مشاہدہ کیا تھا
کہ ساری ندیاں سمندر میں مسلسل جاگر رہی ہیں اور اس کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے
باوجود سمندر پُر نہیں ہوتا، مگر اب یہ کوئی معمہ نہیں رہا۔ ہم اکثر اس بات کو
نظرانداز کردیتے ہیں کہ اس عمل میں بخارات اور بارش کس قدر اپنا حصہ ادا کرتے ہیں، چونکہ یہ کوئی واضح اور آسان عمل نہ تھا، اس لیے
زمانۂ حال تک اس کی گتھی سلجھائی نہ جاسکی اور تو اور پانی کا نقطۂ آغاز اور زمین
پانی کی حرکت اور نقل مقام کرنے کو قدما بہت کم سمجھتے تھے، لیکن آج ہم مسلسل تغیر
پذیر کرۂ ہوائی، زمین کی سطح پر اور اس کے اندر متحرک ہونے والے پورے آبیاتی عجیب
نظام، جس کو آبیاتی دور Hydro Logic
Cycle) کہتے ہیں، بخوبی
سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ماہر آبیات کو صرف زمینی پانی سے سروکار ہوتا ہے، لیکن اگر وہ
آبیاتی دور کی تمام صورت حال سے واقف ہو ں تو ان کے سامنے زمین پانی کے دور کی
تصویر واضح طور پر آجائے۔
سمندر اس قدر بڑے خزانۂ آب ہیں کہ سارے پانی کی ابتدا یہیں
سے ہوتی ہے اور پھر سارا پانی یہیں لوٹ آتا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے، لیکن درحقیقت
پانی کے تمام ذرات آبی دور کو پورا کرنے میں تمام وقت حصہ نہیں لیتے ہیں۔ پانی جب
زمین سے بخارات بن کر اڑتا ہے تو وہ بارش کی شکل میں لوٹ آتا ہے اور یہ سلسلہ جاری
رہتا ہے، لیکن ہم اس دور کو وسیع تر معنی میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پانی
سمندروں سے بخارات بن کر اڑتا ہے، پھر وہ بادلوں کی شکل اختیارکرتا ہے جو زمین کی
طرف جاتے ہیںا ور منجمد ہوکر بارش کی شکل میں برس پڑتے ہیں۔ زمین سے یہ پانی ندیوں
اور اندرونِ زمین بہہ کر سمندروں سے جاملتا ہے۔
آبیاتی دور: ہمارے اس کرے پر جو زندگی سے بھرپور ہے۔ اگر
کوئی مشہور و معروف غیرنامیاتی مادہ جو دوسرے تمام مادوں سے کئی گنا زیادہ ہے تو
وہ پانی ہے، زمین کے سمندر، برف کی چوٹیاں گلشیر (Gelecier) جھیل
ندیاں، زمین اور ہوائی کرے میں اس کی مقدار تقریباً 105 ملین مکعب کلومیٹر کسی نہ
کسی شکل میں موجود ہے، پانی اپنے تمام طبعی خواص میںیکتا و بے نظیر ہے۔ پانی کے یہی
نادر طبعی اور کیمیائی خواص ہیں جو اس کو حیات کا حامل بناتے ہیں۔ ہم مختصر طور پر
بتلا سکتے ہیں کہ ہمارے اس کرے میں پانی کی چند غیرمعمولی خصوصیات کی کیا اہمیت
ہے۔
پانی اپنی تپش کے ایسے حدود میں مائع کی شکل میں رہتا ہے جو
زندگی کے لیے نہایت موزوں ہے، لیکن ایسے بھی موقعے آتے ہیں جب کہ مائع پانی اس کی
ٹھوس اور گیسی شکلوں میں توازن میں رہتا ہے، مثلاً ایک جھیل کی سطح پر برف بھی ہوتی
ہے اور اس کے اوپر ہوا میں بخارات بھی ہوتے ہیں۔ انجماد پانی کی سطح سے شروع ہوکر
نیچے کی طرف بڑھتا جاتاہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پانی کی اور دوسری غیرمعمولی
خصوصیات میں سے یہ بھی ایک خاصیت ہے۔ دوسری چیزوں کی طرح جن میں برف بھی شامل ہے،
مائع پانی جب ٹھنڈا ہوتا ہے تو وہ سکڑ جاتا ہے، لیکن سکڑنے کا سلسلہ اس کے ٹھوس
بننے کے پہلے ہی سے جو تقریباً چار درجہ سیلسیس ہوتا ہے، بند ہوجاتا ہے۔ یہاں سے
نقطۂ انجماد تک پانی پھیلنے لگتا ہے۔ اس طرح اس کی کثافت میں کمی ہونے کی وجہ وہ
پانی کی سطح پر تیرنے لگتا ہے۔ برف کی کثافت بہ نسبت پانی کے 5092 ہوتی ہے۔ اس لیے
جب برف کا کوئی تودہ پانی میں تیرنے لگتا ہے تو اس کے حجم کا گیارہواں حصہ پانی کی
سطح کے اوپر تیرتا ہے۔ پانی کے اوپر کی طرف سے نیچے کی طرف منجمد ہونے کو حیاتیاتی
نقطۂ نظر سے سمجھانے کی ضرورت نہیں۔
مایعوں کے حراری خواص میں پانی ایک ایسا مائع ہے جس کی
حرارت اضافی سب سے زیادہ ہے۔ یہی بات اس کی مخفی حرارت کے تعلق سے بھی کہی جاسکتی
ہے جو نیچر سے متعلق ہوتی ہے۔ آخری میں
تمام مایعات سے یہ استثنا پارہ پانی کی موصلیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ پانی
کے بہت آہستہ آہستہ سرد اور گرم ہونے کی خاصیت دوسرے اہم اجزا کے ساتھ مل کر جھیل
اور سمندروں کے سالانہ، روزانہ بلکہ ساعت بہ ساعت درجہ حرارت کو متاثر کرتی رہتی
ہے، لیکن واضح ہو کہ زمین کی تبدیلی حرارت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
پانی کسی مادے کوایک حد تک حل کردیتا ہے (خوش قسمتی سے بہت
سارے مادّے ایسے ہوتے ہیں جو بہت کم مقدار میں حل ہوتے ہیں) حل شدہ مادّہ محلول میں
باقی رہتا ہے جو پانی کی ایک غیرمعمولی استثنائی خاصیت ہے اور جتنے بھی مائع جن سے
ہم واقف ہیں پانی ہی ایک ایسا مائع ہے جس کی سطح کا تناؤ سب سے زیادہ ہوتا ہے، اس
لیے کسی مٹی میں پانی کی زیادہ سے زیادہ مقدار رہ سکتی ہے جس کی وجہ سے نباتات کے
نشو و نما پانے میں زیادہ مدد ملتی ہے۔
پانی اور اس کا نقطہ آغاز
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بغیر پانی کے نہ تو انسان زندہ رہ
سکتا ہے اور نہ حیوان و نباتات۔ انسان کو بھی زمین پر نمودار ہوئے پچیس تیس لاکھ
سال سے بھی زیادہ عرصہ ہوا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ پچیس تیس لاکھ سال سے پہلے ہی
سے کرۂ زمین پر پانی موجود ہے۔ انسان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے، زراعتی
اور صنعتی اغراض کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے لیے کثیر مقدار میں پانی کی فراہمی ناگزیر
ہے۔
ہمارے اس سیارے پر پانی کب اور کیسے آیا ہمارے سامنے اس کی
واضح تصویر نہیں ہے۔ زمانۂ حال کے سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ ابتدائے آفرینش میں
زمین پر کوئی سمندر نہ تھے اور کرۂ ہوائی بھی برائے نام تھا۔ اب یہ تصور یقین کی
حد تک ہوگیا ہے کہ ایسے تمام اجزا جو جلد ہی بخارات بن کر اڑ جانے والے تھے اور جو
زمین کے اندرونی حصے میں پھنسے ہوئے تھے، وہ آتش فشانی کی وجہ سے گہرے غار پیدا
ہوئے اور بڑی بڑی چٹانوں کے متحرک ہونے کی وجہ یہ مادے اور گرم فوارے مسلسل زمین
پر آتے رہے اور ٹھنڈے ہوکر زمین پر سمندر اور کرۂ ہوائی بناتے رہے۔ سورج کی
حرارت کی وجہ سے سمندر سے پانی بخارات بن کر اڑتا ہے اور فضا میں جاکر، جہاں حرارت
میں کافی کمی ہوتی ہے، بادل، گیس یا مائع کی شکل میں پانی کے قطروں میں تبدیل
ہوجاتا ہے۔ بالآخر سمندر سے بخارات کی شکل میں زمین پر واپس آتا ہے۔ شکل نمبر
(1) سے اس پورے دور کی وضاحت ہوتی ہے کہ پانی کس طرح سطح زمین سے کرۂ ہوائی میں
داخل ہوتا ہے اور کن کن مراحل سے گزر کر دوبارہ زمین پر لوٹتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ
ہے کہ جس قدر پانی تالابوں کنوؤں اور سمندروں وغیرہ سے بخارات بن کر کرۂ ہوائی میں
اڑ جاتا ہے۔ سب کا سب بارش کی شکل میں کرۂ زمین پر لوٹ آتا ہے۔ واپس ہونے والے
پانی کی حد مقدار کی تفصیل اس طرح ہے:
اندازہ لگایا گیا ہے کہ پانی کی حدِ مقدار کا 3ء 97 فیصد
سمندروں کو چلا جاتا ہے۔ 7ء 2 فیصد ٹھوس برف کی شکل میں ہوتا ہے۔ زمین کے اوپر اور
کرۂ ہوائی سے نیچے پانی کے بخارات کی مقدار اس قدر قلیل ہوتی ہے کہ وہ بمشکل دنیا
کی ساری مقدار آب کا دس ہزارواں حصہ ہوگی۔
حرارت، رطوبت اور ہوا، یہ وہ عناصر ہیں جو بخارات یا عمل
تبخیر کو اپنے قابو میں رکھتی ہیں۔
بادل پانی کے ذخیرۂ آب کا کام دیتے ہیں، سورج سے جو شعاعیں
زمین پر آتی ہیں وہ منعکس ہوکر اوپر کی طرف جاتی ہیں، بادل اپنی طرف آنے والی
شعاعوں کی مقدار کو قابو میں رکھتے ہیں۔
آبیاتی دور کے دو حصے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو پانی کے
بخارات بچت کے رقبہ سے کمی کے رقبہ کی طرف لے جاتے ہیں، دوسرے جب بادل ہوا میں تیرنے
لگتے ہیں تو وہ اپنے قیمتی سرمایے کو مختلف مقامات پر مختلف مقدار میں چھوڑتے جاتے
ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ سمندروں میں زیادہ سے زیادہ بارش ہوتی ہے جب کہ زمین کے
وسیع رقبے بارش سے محروم رہتے ہیں، اس لیے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ
بادل مصنوعی طریقوں سے پیدا کرکے ایسے مقامات پر برسایا جائے۔ جہاں پانی کی سخت
ضرورت رہا کرتی ہے۔
موسمیات اور آبیات
موسمیات اور آبیات میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کسی بھی مقام کی
آب و ہوا وہاں رہنے والے افراد کی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ آب و ہوا ہی کسی مقام
کی زرعی پیداوار، لباس، غذائی عادات اور رہن سہن کو متعین کرتی ہے۔ بہت گرم یا بہت
سرد آب و ہوا سماجی مصروفیات کے لیے موزوں نہیں ہوتی۔ اگر کہیں روزانہ بارش ہوتی
ہے تو یہ بھی نامناسب بات ہوگی اور اگر کہیں بارش بہت ہی کم ہو تو ایسا علاقہ بتدریج
صحرا میں تبدیل ہوجائے گا اور وہاں انسانی بود و باش تقریباً ناممکن ہوگی، ان تمام
باتوں کو پیش نظر رکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اچھی آب و ہوا وہاں کے افرادکے لیے
نعمت غیرمترقبہ ہوتی ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی
ہندوستان کی آب و ہوا انسانی، حیوانی، نباتاتی زندگی کے لیے مناسب اور سماجی
ارتقا کے لیے سازگار ہے۔
خط سرطاں ہندوستان کے تقریباً درمیان سے شرقاً غرباً گزرتا
ہے جس کی وجہ سے تقریباً آدھا ملک منطقہ حارہ میں اور باقی آدھا منطقہ معتدلہ میں
شامل ہوجاتا ہے۔ کوہ ہمالیہ کی وجہ سے ملک میں کہیں بھی اتنی سردی نہیں پڑتی کہ
پانی جم جائے۔ سوائے بلند مقامات مثلاً کشمیر، نینی تال وغیرہ کے برف باری بھی نہیں
ہوتی۔ چونکہ ہمارا ملک خط استوا سے بھی کافی دور ہے اس لیے گرم مرطوب آب و ہوا کے
منطقہ سے بھی دور ہے۔ سوائے ان مقامات کے جو شمالی میدان کے اندرونی علاقوں یا
صحرا میں واقع ہیں۔ موسم گرماا ور موسمِ سرما کے درجۂ حرارت میں بھی زیادہ تفاوت
نہیں پایا جاتا۔ ہندوستان میں بارش موسم کے حساب سے ہوتی ہے، گرما کے بعد بارش کا
موسم آتا ہے۔ ساحلی مقامات پر کچھ عرصے کے لیے سخت گرمی محسوس کی جاتی ہے۔ سوائے
ان مقامات کے جو بحیرۂ عرب سے چلنے والی ہواؤں کے راستے میں واقع ہیں، وہاں شدید
سردی ہوتی ہے۔ جب کہ مغربی ہند میں موسم زیادہ شدید نہیں ہوتا۔ ان معمولی اختلافات
سے قطع نظر ہندوستان کی آب و ہوا بحیثیت مجموعی استوائی مانسونی قسم کی ہے۔ موسمیاتی
ماہرین کے مطابق ہندوستان میں موسم چار قسم کے پائے جاتے ہیں:
1 موسم گرما: اپریل سے مئی تک
2 بارش: جون سے ستمبر تک
3 جنوب مشرقی مانسون کی واپسی یا شمالی مشرقی مانسون کا موسم،
اکتوبر سے نومبر تک
4 موسم سرما: دسمبر سے مارچ تک۔
ماخذ: آبیات، مصنف: محمد ابراہیم، دوسرا ایڈیشن: 2004، ناشر: قومی کونسل برائے
فروغ اردو زبان، نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں