30/9/24

دنیا کی آبادی اور غذائیت کا مسئلہ، ماخذ: زراعتی جغرافیہ، مصنف: محمد شفیع

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024

اٹھارویں صدی (1798) کے اختتام پر ایک برطانوی پادری نے ایک کتابچہ شائع کیا جس کا عنوان تھا ’ایک مضمون آبادی کے اصول پراور کس طرح وہ سوسائٹی کے بہتر مستقبل پر اثرانداز ہوتا ہے‘ اس برطانوی پادری (جس کا نام تھامس رابرٹل مالتھس) کی کتاب کا لب لباب یہ تھا کہ آبادی اگر روکی نہ جائے تو وہ جیومیٹرک تناسب میں بڑھتی ہے، یعنی 1:2:4:8:1600000000 اور غذائی پیداوار ارتھمیٹک تناسب میں بڑھتی ہے (یعنی 1:2:3:4:5000000) مالتھس کا یہ نظریہ تھا کہ آبادی اس حد تک بڑھتی رہتی ہے جس حد تک غذا کی پیداوار اس کی کفیل ہوسکتی ہے اور جب وہ اس سے تجاوز کرتی ہے تو جنگ، قحط، وبا کے ذریعے آبادی کا بڑھنا رک جاتا ہے۔ مالتھس کا یہ نظریہ تھا کہ آبادی میںا ضافے کی اتنی زبردست قوت ہے کہ ہر پچیس سال میں اپنی دوگنی ہوسکتی ہے، لیکن خوراک کی پیداوار اتنی تیزی سے نہیں بڑھتی۔

مالتھس نے جس وقت اپنا نظریہ پیش کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ انیسویں صدی میں نئی زمینوں کی دریافت، زراعت میں حیرت انگیز ٹکنیکی ترقی اور یورپ کے صنعتی انقلاب سے غلے کی پیداوار میں غیرمعمولی اضافہ ہوگا اور اس کے نظریے کا مذاق اڑایا جائے گا اور اسے قنوطیت پسند فلسفی کہا جائے گا۔ فصلوں کی ادلا بدلی کی وجہ سے پرتی زمین کے رقبے میں کمی ہوئی اور زمین کی بارآوری میںا ضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ یوروپ میں پہلی مرتبہ کھیتوں کے گھیرنے کا نظام رائج ہوا۔ اس طور پر زرعی انقلاب نے پہلی مرتبہ غلے کی پیداوار کے منظم طریقوں میں اضافہ کیا۔

زرعی انقلاب کے بعد صنعتی انقلاب کی وجہ سے نئی نئی مشینیں ایجاد ہوئیںا ور کھیت پر کام مشینوں سے لیا جانے لگا اور وہ فاضل مزدور جو کھیت پرکام کرتے تھے اب صنعت و حرفت میںکام کرنے لگے۔ رسل و رسائل میں غیرمعمولی اضافہ ہوا اور غلہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بہت آسانی سے اور کم مدت میں بھیجا جانے لگا اور اس طور پر قحط کا وہ خوف جو مالتھس نے پیدا کیا تھا تقریباً دور ہوگیا۔ صنعتی انقلاب نے تحقیق کا وہ دور پیدا کیا جس کی بنا پر نئی اور موثر ادویات کی ایجاد ہوئی اور وبائی بیماریوں کا خطرہ بڑی حد تک کم ہوگیا۔

درحقیقت صنعتی انقلاب کے بعد حفظان صحت سے متعلق انقلاب آیا۔ اس میں جسم کا بغور مطالعہ، بیماریوں کے اسباب اور ان پر قابو پانے کے طریقوں پر تحقیق و تدقیق پر خوب کام ہوا۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں پاسچر اور دوسرے سائنس دانوں نے علم میں غیرمعمولی اضافہ کیا۔

مالتھس کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ شمالی امریکہ کے براعظم پر آئندہ صدی میں اتنی حیرت انگیز ترقی ہوگی اور غلے کی پیداوار میں اتنا غیرمعمولی اضافہ ہوگا کہ شاید کچھ عرصے کے لیے لوگ اس کے نظریہ کو بھول جائیں گے۔

بیسویں صدی میں جب ہم زرعی پیداوار اور آبادی میں مستقل اضافے پر غور کرتے ہیں تو یہ بات کم ازکم صاف ہوجاتی ہے کہ نئی زمینوں کی دریافت باقی نہیں رہی اور دوسری طرف آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔

1830 میں دنیا کی آبادی ایک ارب تھی۔ دنیا کی آبادی کو 1830 تک ایک ارب پہنچنے میں تقریباً دو لاکھ سال لگے، لیکن 1930 میں دنیا کی آبادی دو ارب ہوگئی۔ یعنی مزید ایک ارب کے اضافے میں کل سو سال لگے۔ 1960 میں یہ آبادی بڑھ کر تین ارب ہوگئی، یعنی تیسرے ارب کے اضافے میں کل تیس سال لگے اور 1975 میں یہ آبادی بڑھ کر چار ارب ہوگئی یعنی چوتھے ارب کے لیے صرف پندرہ سال اور غالباً پانچویںا رب کے لیے دس سال یا اس سے بھی کم اور اگر آبادی کے اضافے کی ایک صدی تک یہی صورت حال رہی تو شاید ایک ارب کے اضافے کے لیے ایک ہی سال درکار ہوگا اور چار سال میں اتنا اضافہ ہوجائے گا جتنا اس وقت کل دنیا کی آبادی ہے شایدا سی وجہ سے آبادی کے اس حیرت انگیز اضافے کو آبادی کے دھماکے سے تعبیرکیا گیا ہے۔ اس غیرمعمولی اضافے کی وجہ میڈیکل سائنس کی ترقی اور زراعتی سائنس داں کی قابلیت پر ہے۔ میڈیکل سائنس نے اپنی تحقیقات کی بنا پر بہت سی مہلک بیماریوں پر قابو پالیا ہے اور زراعتی سائنس نے زراعتی پیداوار میں غیرمعمولی خوراک کے اضافے کی سبیل نکالی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کی آبادی میں سال بہ سال یکساں اضافہ نہیں ہوتا۔ دو ممالک چین اور ہندوستان ایسے ہیں جہاں دنیا کی سالانہ ا ٓبادی میں وہ نصف سے کچھ ہی کم اضافہ کرتے ہیں اور دوسرے نصف میں دنیا کے تمام ممالک شامل ہیں مثلاً 72ء میں دنیا کی کل آبادی میں سات کروڑ دس لاکھ کا اضافہ ہوا اور اس میں چین اور ہندوستان کا اضافہ دو کروڑ اکسٹھ لاکھ کا تھا۔  اگر چین اور ہندوستان کے اضافے میںا نڈونیشیا، بنگلہ دیش، پاکستان، برما، تھائی لینڈ اور فلپائن کے اضافے کو جوڑ دیا جائے تو وہ دنیا کی آبادی کے سالانہ اضافے میں نصف سے کچھ زائد ہوگا یعنی جنوبی اور جنوبی مشرقی ا یشیا کے صرف آٹھ ممالک دنیا کی آبادی میں نصف سے زائد سالانہ اضافہ کرتے ہیں۔

بین الاقوامی ادارے کے مطابق 2000 میں دنیا کی آبادی تقریباً ساڑھے چھ ارب ہوجائے گی، لیکن یہ دلچسپ بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں کل آبادی ڈیڑھ ارب ہوگی اور ترقی پذیر ممالک میں پانچ ارب ہوگی۔ افریقہ میں یہ آبادی 1980 میں 53 کروڑ سے بڑھ کر 83 کروڑ ہوجائے گی اور جنوبی امریکہ میں 37 کروڑ سے بڑھ کر 62 کروڑ ہوگی۔ ایشیامیں یہ آبادی ڈھائی ارب سے بڑھ کر پونے چار ارب ہوجائے گی لیکن شمالی امریکہ میں 24 کروڑ سے30 کروڑ اور یورپ میں 48 کروڑ سے بڑھ کر 54 کروڑ ہوگی۔

انیسویں صدی میں آبادی 5ء0 فیصدی  کے حساب سے بڑھ رہی تھی اور بیسویں صدی کے شروع نصف حصہ میںا ٓبادی میں اضافہ 08ء فیصدی کے حساب سے ہوا لیکن 1950 سے 1960 تک یہ بڑھ کر 108 فیصدی کے حساب سے اور 1960 سے 1970 میں 1,9 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا۔ یہ اندازہ ہے کہ 1985 تک آبادی میںا ضافہ 2 فیصدی سالانہ کے حساب سے ہوگا اور 2000 میں یہ امکان ہے کہ گھٹ کر 107 فیصد رہ جائے گا۔

بین الاقوامی اندازے کے مطابق 1970 سے 2000 تک دنیا کی آبادی میں 77 فیصدی کا اضافہ ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک میںا ضافہ ان کی آبادی کا 26 فیصدی ہوگا اور ترقی پذیر ملکوں میں 99 فیصد کے اضافے کی شرح کے فرق کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اس صدی کے آخر میں آبادی ترقی پذیر ملکوں میں ترقی یافتہ ملکوں کے تناسب سے اضافہ 307 اور اکا ہوگا جب کہ 1970 میں یہ 203 اور اکا تھا۔

دنیا میں آبادی کے اضافے کے ساتھ ساتھ یہ مناسب ہوگا کہ عمر کی ساخت میں تبدیلی کے امکانات پر بھی غور کرلیا جائے۔

1970 میں پندرہ سال سے کم کی عمر کے بچوں کی تعداد ترقی یافتہ ملکوں کی کل آبادی کا 2657 فیصدی تھی لیکن ترقی پذیر ملکوں کی کل آبادی کا 05ء40 فیصدی تھی۔ا س طور پر 1970 میں کام کرنے والوں کی تعداد ترقی یافتہ ملکوں میں 15-64 برس کی عمر تک کے لوگ 64 فیصدی تھی جب کہ ترقی پذیر ملکوں میں یہ تعداد کل 56 فیصدی تھی۔ 2000 میں ترقی یافتہ ملکوں میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد 26 فیصدی سے گھٹ کر 23 فیصدی رہ جائے گی اور ترقی پذیر ملکوں میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد گھٹ کر 36 فیصد ہوجائے گی اور کام کرنے والوں کی تعداد 56 فیصد سے بڑھ کر 59 فیصد ہوجائے گی۔

بین الاقوامی اندازے کے مطابق 2125 میں دنیا کی آبادی بارہ ارب سے کچھ زائد ہوگی اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں آبادی کی تعداد کا فرق بہت زیادہ ہوگا۔ 1970 میں ترقی پذیر ملکوں میں آبادی تقریباً ڈھائی ارب یا کل دنیا کی آبادی کا ستر فیصدی تھی۔ یہ تعداد بڑھ کر 3000 میں پانچ ارب ہوجائے گی، یعنی دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 80 فیصدی اور 2125 میں ترقی پذیر ملکوں کی آبادی تقریباً گیارہ ارب ہوگی  یعنی پوری دنیا کی آبادی کا تقریباً 87 فیصدی۔ 1970 اور 2125 کے درمیان دنیا کی آبادی میںا ضافہ بین الاقوامی تخمینے کے حساب سے کوئی ساڑھے آٹھ ارب کا ہوگاجس میں سے آٹھ ارب یا تقریباً 94 فیصدی اضافہ ترقی پذیر ملکوں میں ہوگا، لہٰذا اس سے ظاہر ہے کہ مستقبل میںا ٓبادی میں اضافہ کا انحصار ترقی پذیر ملکوں پر ہے۔

جنوبی ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ وہ خطے ہیں جہاں آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ ان میں جنوبی ایشیا کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے۔ بین الاقوامی اندازے کے مطابق 1970 سے 2125 میں جنوبی ایشیا کی آبادی ایک یا سو ارب سے بڑھ کر سوا پانچ ارب تک پہنچ جائے گی اور افریقہ میں 35 کروڑ سے بڑھ کر 2125 میں تقریباً ڈھائی ارب ہوجائے گی۔


ماخذ: زراعتی جغرافیہ، مصنف: محمد شفیع، سنہ اشاعت: جنوری تا مارچ 1984، ناشر: ترقی اردو بیورو، نئی دہلی

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...