کرناٹک کی ادبی صحافت
کئی اعتبار سے ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔روزناموں اور ہفتہ وار اخباروں کے علاوہ ریاست
کرناٹک اردو رسائل وجرائد کی بھی متنوع وروشن تاریخ رکھتی ہے۔یہاں ان چند نمائندہ رسائل
کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے جن رسائل نے ادبی فکر کی توسیع کے ساتھ سنجیدہ صحافت کو
ارتقا بخشنے کی کوشش کی ہے۔
اس سلسلے میں پندرہ
روزہ رسالہ ’محافظ بنگلور‘کو نقش اول کا درجہ حاصل ہے عبدالمجیب کی زیر ادارت 1875
میں اس کا اجرا عمل میں آیا۔محمد عبدالمجیب نے رسالہ ’محافظ‘ جاری کر کے کرناٹک میںاردو
رسائل کی بنیاد ڈالی۔یوں تو یہ آٹھ صفحات پرمشتمل اخباری صورت میںشائع ہوتا تھا لیکن
مشمولات، ترتیب وتزئین اور تنوع کے اعتبار سے اس میں ایک رسالے کی تمام خوبیاں یکجا
ہو گئی تھیں۔ جاذب نظر کتابت اور طباعت سے مزین ’محافظ‘ میں مضامین کے علاوہ مبسوط،مدلل
اداریے کی اشاعت کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔اس زمانے میںاس رسالے کی مقبولیت کا یہ عالم
رہاکہ اس کی تقلید میں اہم رسائل منظر عام پر آئے۔
عبدالحفیظ آرام کی
زیر ادارت شائع ہونے والا عورتوں سے متعلق ماہنامہ ’ترغیب‘بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔چونکہ
عبدالحفیظ آرام ایک ممتاز عالم تھے لہٰذا اصلاح نسواں سے خاصی شغف رکھنے کے باعث خواتین
میں سماجی، تعلیمی اوراخلاقی شعور پیدا کرنا چاہتے تھے اور اسی مقصد کی تکمیل کے لیے’ترغیب‘
کا اجرا عمل میں آیا تھا۔
19ویں صدی کی آخری دہائی کی ابتدا کے ساتھ بنگلور اور میسور کو ادبی
محفلوں اور شعر وسخن کے اہم مراکز کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی، لکھنؤ اوردلی کی طرح
یہاں بھی طرحی مشاعروں کا رواج عام ہوا۔ اس زمانے کے رسائل واخبارات نے عوام میں اپنی
جگہ بنانی شروع کی اور ادبی ذوق رکھنے والوں کے شعری ذوق کو پروان چڑھایا۔ جب یہ رسائل
عوام کے ادبی ذوق کی آبیاری میں مصروف تھے اسی وقت بنگلور سے تعلق رکھنے والے معروف
شاعر عبدالحق تحقیق نے ایک گلدستے کی اشاعت کو ضروری محسوس کیا اور پھر ماہنامہ’شمع
سخن‘ کی صورت میں اس کمی کو پورا کیا۔ اسے کرناٹک کے اولین گلدستے کی حیثیت حاصل ہے۔
اس کے ابتدائی صفحات پر جنوبی ہند کے ممتاز شعرا کی غزلیں اور طرحی مشاعروں کی تفصیلات
پیش کی جاتیں، جب کہ دیگر صفحات منتخبہ کلام کے لیے وقف ہوتے تھے۔ یہ کلام ملک کے مختلف
حصوں سے شائع ہونے والے گلدستوں سے نقل کیے جاتے تھے، جن کا مقصد قارئین کے علم میں
اضافہ کرنا تھا۔ تاکہ قارئین مقامی شعرا کے کلام سے محظوظ ہونے کے ساتھ ہندوستان کے
دوردراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے مقتدر شعرا کے کلام سے بھی فیض یاب ہوں۔
اس درمیان شعر وادب
سے متعلق رسائل کی اشاعت نے بعد میں منظر عام پر آنے والے رسائل کی راہ ہموار کی۔مختلف
موضوعات پررسائل وجرائد کی اشاعت میں تیزی آئی اور ادبی فنون کے علاوہ علمی، مذہبی،
اخلاقی، اصلاحی و سیاسی غرض مختلف نوعیت کے رسائل ملک کے گوشے گوشے سے شائع ہونے لگے،
اور ایسے رسائل بھی منظر عام پر آئے جنھوں نے نئے لکھنے والوںکی راہ ہموار کی اور
انھیں ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جس سے ادیبوں اور شاعروں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی
جو اپنے علمی وادبی و تحقیقی کاموں کے ساتھ اردو دنیا میں ادیب وشاعر کی حیثیت سے متعارف
ہوئے۔
اس ضمن میں ماہنامہ
’صبح بہار‘ کا نام خصوصیت کا حامل ہے۔یہ رسالہ مشاہیر شعرا وادبا کی تخلیقات سے مزین
ہوتا تھا۔یہ خالص علمی وادبی نوعیت کا رسالہ تھا جو محمد علی آزاد کی نگرانی میںمئی
1906 میں بنگلور سے نکلنا شروع ہوا۔ صبح بہار کے مشمولات کی انفرادیت، تنوع اور حسن
ترتیب کے باعث اسے مقبول عام رسالہ بننے میں وقت نہیںلگا اور جلد ہی وہ اہل قلم بھی
اس کا حصہ بنے اور اپنا قلمی تعاون پیش کیا جن کی تحریریںادب کاگراں قدر حصہ سمجھی
جاتی ہیں۔جہاں ایک طرف مولوی محمد باقر، مولوی فاروق احمد، شمس اللہ قادری، عبدالحلیم
شرر، حامد حسین قادری، رشید احمدصدیقی، مولوی سید علی بلگرامی، صفدر مرزا پوری، سید
محی الدین اورنگ آبادی وغیرہ مستقل قلمی معاونین میں شامل رہے، وہیں دوسری طرف شعرا
میں اختر مینائی، تلوک چند محروم، جلیل مانک پوری، شاد میرٹھی، افسر میرٹھی، جگر لکھنوی،
محشر لکھنوی، نشتر لکھنوی، مضطر خیر آبادی، توفیق حیدر آبادی،حباب میسوری وغیرہ نے
شعری ایوان کو سجایااور حصہ نظم کو معیار واعتبار بخشا۔
اسی زمانے میں بنگلور
سے مزید دو ماہنامے جاری ہوئے۔پہلا ماہنامہ ستارہ میسور(بنگلور) جس کے مدیر محمد سلیمان
پرواز تھے اور دوسرا ماہنامہ کوثر (بنگلور)مدیر محمود خان محمود(مارسٹن)وغیرہ بنگلورکے
رسائل وجرائد میں ایک اہم اضافہ ہیں،جو اپنی متنوع خصوصیات کی بنا پر قارئین کے حلقوں
میں قدر کی نگاہوں سے دیکھے گئے۔
اس طرح خالص علمی وادبی
رسائل کی روایت جو ماہنامہ ’صبح بہار‘ سے شروع ہوئی تھی،ماہنامہ ’فانوس‘ نے اسے جلا
بخشی، اگست 1940 میں شہر بنگلور سے اس کی اشاعت عمل میں آئی۔ مدیر ابوالفضاعزیز بنگلوری اور مدیر خصوصی فرید
انصاری بھوپالی تھے۔ عزیز بنگلوری جو خود ایک صاحب طرز انشا پردازاور اخبار نویسی کے
ماہر تھے، ساتھ ہی ذوق شعری کا رچا ہوا شعور رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی خلاقانہ صلاحیت
کو بروئے کار لاتے ہوئے نہایت وقیع اداریے کے ساتھ رسالے کی ترتیب وتزئین میں جدت پیدا
کی۔ بالخصوص’فانوس خیال‘ کے عنوان سے تحریر کیے جانے والے وقیع اداریے،عزیز بنگلوری
کی اعلیٰ مدیرانہ و صحافتی صلاحیتوں کا مظہر ہیںتقریباً ہر شمارے میں اہتمام سے لکھے
گئے اداریوں میںہم عصر مسائل پر گفتگو ہوتی اور نہایت ہی دانشورانہ اور مفکرانہ انداز
میں ان کے اسباب وعلل پر روشنی ڈالی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں شعر وادب کے مسائل کو بھی
اپنے اداریوں میں جگہ دی۔ان صفحات میں وہ موجودہ ادبی مسائل بھی زیر بحث لاتے ہیں۔
دیگر مشمولات میںافسانوی ادب کے تحت مشاہیر افسانہ نگاروں کے افسانے شامل ہوتے،اور
ایک گوشہ تراجم کے لیے مختص ہوتا جہاں دوسری
زبانوں کے مقبول عام افسانوں کے تراجم پیش کیے جاتے۔مثلاً جلد1 شمارہ6 جنوری 1941 میں
بنگلہ زبان کے معروف ادیب رابندر ناتھ ٹیگو ر کے افسانے ’بینائی‘ کا اردو ترجمہ رسالے
کی زینت بنا۔اردو تراجم کے علاوہ اس رسالے میں ایک مستقل شعری کالم بھی ہوا کرتا تھا۔جسے
’اصلاح سخن‘ نام دیا گیا۔ اس کالم میںمختلف شعرا کے کلام پر صحت مند گفتگو ہوتی اور
کلام میں موجود محاسن ومعائب کا پتہ لگانے کی کوشش کی جاتی، ساتھ ہی’نقد ونظر‘ کے کالم
میں نئی کتابوں پر تبصرے کیے جاتے تھے۔مجموعی اعتبار سے ’فانوس ادب ‘ نے ایک عرصے تک
قارئین کو عصری ادب سے آگاہ کرنے کے علاوہ مختلف سیاسی ،سماجی ومعاشرتی حالات سے باخبر
رکھا۔ نیز عام معلوماتی مضامین کے ذریعے تجزیہ اور تشریح وتوضیح پیش کی۔قارئین کی رہنمائی
کے لیے مسائل اور ان کاحل بھی پیش کرنے کی کوشش کی۔
شہر بنگلور سے جاری
ہونے والے ادبی رسائل کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن چند رسائل ایسے رہے جنہوں نے فکری
و فنی اعتبار سے ادب پر گہرے نقوش مرتب کیے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی دو ماہی رسالہ ’نیادور‘
ہے۔ اس کا پہلا شمارہ صمد شاہین اور ممتاز شیریں کی زیر ادارت اگست 1944 میں اقبال
پریس سے شائع ہوا۔پہلے شمارے میں مدیر نے اس کی اشاعت کے مقاصد کوکچھ یوں بیان کیا
ہے:
’’نیادور کے پیش نظر جو مقصد ہے، وہ معیاری ترقی پسند ادب کی اشاعت
ہے۔چوں کہ ادب کا زندگی سے تعلق ناگزیر ہے۔ اس لیے ’نیادور‘ اس معاملے میں کبھی مصالحت
نہیں کرے گا کہ مقصد کی خاطر فن بھینٹ چڑھ جائے یابغیر مقصد کے فن ہی فن کا خول رہ
جائے۔‘‘
اس سے یہ واضح ہوا
کہ یہ رسالہ بنیادی طور پر ترقی پسند مزاج کا حامل رہا،جیسا کہ اس کے مشمولات سے بھی
ظاہر ہوتا ہے۔ ’حرف آغاز‘ کے تحت صمد شاہین کا عصری ادب کی تشریح و توضیح کرتا ہوا
اداریہ،ادب اور زندگی کے رشتے پر پرمغز گفتگو اور ترقی پسند تحریک کا مفصل جائزہ وغیرہ
اس رسالے کو ترقی پسند تحریک کے علم بردار
کی حیثیت سے پیش کرتے رہے۔اس تحریک سے وابستہ قلم کاروں نے رسالہ ’نیادور‘ کو اپنا
تخلیقی تعاون پیش کیا اور ان کی تحریریں پابندی سے نیادور کے مختلف شماروں میں شائع
ہوتی رہیں۔اس سلسلے میں وقار عظیم ،کرشن چندر،اختر انصاری، قاضی عبدالغفار، رشید احمد
صدیقی، احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی، عزیز احمد، سعادت حسن منٹو، شوکت صدیقی، اقبال
متین، ممتاز شیریں، سہیل عظیم آبادی، مخدوم محی الدین، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض،
مجروح سلطان پوری، علی سردار جعفری، آل احمد سرور، خلیل الرحمن اعظمی، قتیل شفائی
اور خورشید الاسلام وغیرہ کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ رسالے میں شامل اردو ادب
کے مایہ ناز ادیبوں اور ممتاز ناقدین کی یہ شعری و نثری تخلیقات ترقی پسند نظریات کی
حقیقی ترجمان ہیں۔نیا دور نے ملکی زبان وادب کے فروغ کے ساتھ عالمی ادب کو بھی اپنے
صفحات میں جگہ دی اور قارئین کو عالمی ادب سے روبرو کرایا تاکہ انھیں عالمی سطح پر
ادبی رجحانات و رویے کا علم رہے۔یہی سبب ہے کہ ملکی زبانیں ہندی، بنگالی، کنڑا، مرہٹی
کے علاوہ روسی، چینی، انگریزی، امریکی، اطالوی وغیرہ زبان و ادب کی شاہکار تخلیقات
کے اردو تراجم بھی ہمیں اس رسالے میں ملتے ہیں۔ اپنی متنوع خصوصیات کے ساتھ یہ رسالہ
ترقی پسند تحریک کے ترجمان کی حیثیت سے تقریباً ایک دہے تک اعلیٰ شعری وادبی ذوق کی
آبیاری کرتا رہا۔لیکن تقسیم ہندکا المناک حادثہ اس رسالے کی اشاعت پر بھی اثرانداز
ہوا، صمد شاہین اورممتاز شیریں کی پاکستان ہجرت کے ساتھ اس کا دور اول اختتام پذیر
ہوا۔ بعد ازاں مدیران نے اسے دوبارہ زندگی عطا کی اور پاکستان کی سرزمین پر ایک بارپھر
اس کی اشاعت شروع ہوئی۔ اس رسالے کی خوبی یہ
رہی کہ اس نے ادب اور ادیب دونوں کو اہمیت دی،مغربی افکار و نظریات سے متعارف کرانے
میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور ادبی مباحث کو توازن واعتدال سے ابھارا۔
آزادی کے بعد منظرعام
پر آنے والے رسائل میں ماہنامہ’رفیق‘کا نام نمایاں ہے۔یہ رسالہ ریاست کرناٹک کے تاریخی
شہر بیجاپور سے نومبر 1953 میں شائع ہوا۔شعر وادب کی مستحکم روایت سے عبارت شہر بیجاپور
سے نکلنے والا یہ اولین ماہنامہ بیجاپوری صحافت کی نمائندگی کرتا ہے۔اس رسالے کی اشاعت
اردو زبان کے محسن سید سراج الدین قاضی کی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔قاضی صاحب نے اس ماہنامے
کے پہلے شمارے میں ’شذرات‘ کے زیر عنوان رسالے کے اجرائی مقاصد کو بیان کرتے ہوئے لکھا
ہے:
’’میرایہ قدم اردو کی خدمت کا پہلا زینہ ہوگا، جس کے ذریعے کرناٹک کی
عوام اردو کو نہ بھولیں اگر نیت میں خلوص ودیانت ہے تو مجھے یقین ہے کہ کچھ ہی عرصہ
میںہمارا رسالہ’رفیق‘ حقیقی معنوں میں اردو داں طبقے کی فکر و ادب کی نشو ونما کرتے
ہوئے ہماری زبان کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔‘‘
(سید سراج الدین قاضی، ماہنامہ رفیق، انجمن بلڈنگ بیجاپور، نومبر
1953، جلد1،نمبر1،ص 3,4)
بلاشبہ مدیر سید سراج
الدین نے اسی بے لوث جذبے کے ساتھ عملی نمونہ رسالے کی صورت میں پیش کیا، اور چالیس
صفحات پر مشتمل عمدہ کتابت وطباعت سے آراستہ رسالہ’رفیق‘ اردو زبان کی توسیع واشاعت
کا ذریعہ بنا۔ ہر مہینے کی 15 تاریخ کومطبع ابراہیمیہ حیدرآباد میں طبع ہونے والایہ
رسالہ اپنے دفتر ’انجمن بلڈنگ‘ بیجاپور سے شائع ہوکر منظر عام پر آتا تھا۔ اس ماہنامہ
میں علمی وادبی اورمعلوماتی مضامین کثیر تعداد میں شائع ہوتے، دیگر مستقل مشمولات میں
افسانے، طنزیہ ومزاحیہ مضامین، شعرا وادبا کا تعارف بیجاپور کے تعلیمی اداروں کا جائزہ،
ادبی سرگرمیوں کی روئیداد،غزلیں اور ناصحانہ قسم کی نظمیں شامل ہوتیں۔ ماہنامہ رفیق
میں ہر طبقے کی دلچسپی کے لحاظ سے مواد شامل کیے جاتے تھے۔ ’بچوں کی دنیا‘ کے عنوان
سے چند صفحات مختص ہوتے، جہاں اخلاقی ومعلوماتی مضامین، نظمیں اور کہانیاں بچوں کی
توجہ کا باعث ہوتیں۔ اس رسالے نے چار سال تک اردو زبان وادب کی قابل قدر خدمات انجام
دیں، پھرنامساعد حالات کے سبب اس عمدہ ماہنامے کی اشاعت بند ہوگئی۔
شمالی کرناٹک کے شہر
گلبرگہ سے1956 میں اکرام صہبائی، قاضی حسام الدین اور عظیم یوسف زئی کی مشترکہ کوششوں
سے رسالہ ’گلبرگ‘ اردوصحافت کے افق پر نمودار ہوا۔ گلبرگ نے خالص ادبی نوعیت کے رسالے
کی حیثیت سے اپنی پہچان قائم کی۔ اس کے صفحات پر اردو افسانہ، نظمیں، غزلیں، تنقیدی
وتحقیقی مقالات طنزیہ ومزاحیہ مضامین شائع ہوتے تھے۔علاوہ ازیں دیگر زبانوں کے معروف
شعرا کی تخلیقات کے مطالعے کا موقع بھی فراہم کیا۔کرناٹک کے علاوہ برصغیر ہند وپاک
کے معروف ادبا وشعرا کی تخلیقات بھی رسالے کی زینت بنیں۔ چنانچہ جاں نثار اختر، باقر
مہدی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، فراق گورکھپوری، شاذ تمکنت، شاہد صدیقی، جیلانی
بانو، واجدہ تبسم، محی الدین قادری زور،حمید الماس وغیرہ کا قلمی تعاون گلبرگ کو حاصل رہا اور ایسے معتبر ومستند
قلمکاروں کی نادر و نایاب تحریریں قارئین گلبرگ تک پہنچتی رہیں۔چونکہ زمانہ ترقی پسند
تحریک کے عروج کا تھا، اس لیے رسالے پر اس کے اثرات صاف دکھائی پڑتے ہیں۔ گلبرگ میں
شامل تحریروں میںترقی پسندوں کے افکار وتصورات کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔یہ رسالہ ابتدا
میں تو ماہنامہ رہا لیکن بعد میں ہفتہ وار ہوگیا۔تحقیق کے مطابق ابتدائی چار شماروں کی اشاعت کے بعد یہ
علمی وادبی ہفتہ وار کی صورت میں نکلنے لگا۔ آگے چل کر تقریباً دو سال تک اپنی خدمات
انجام دینے کے بعد یہ ہفت روزہ بھی بند ہو گیا۔
درج بالا رسائل کے
علاوہ بھی اسی زمانے میں کئی ایسے ماہنامے منظر عام پر آئے جن کے حوالے مختلف کتابوں
میں ملتے ہیں۔ ان رسائل نے شعری ونثری تخلیقات کی مستقل اشاعت کے ذریعے علاقائی شعرا
و ادبا کو ادبی دنیا میں روشناس کرانے کا فریضہ انجام دیا۔مثلاً ماہنامہ’سحاب‘ ہبلی،
اقبال سگری کی زیر ادارت، رسالہ ’حبیب ‘ غلام محمد شوکت کی زیر ادارت، ’غزل‘ شہاب درانی
کی زیر ادارت، ’انجمن‘ میسور سلیم تمنائی کی زیر ادارت اور ’جلوئہ سخن‘ شرف الدین سلیم
کی زیر ادارت منظر عام پر آئے۔
رسالہ ’سوغات‘ کی اشاعت
کو کرناٹک میں ادبی صحافت کے زریں دور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔سوغات محض ایک رسالے کا
نام نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے جس سے وابستہ حضرات نے ادب میںبڑا مقام پیدا کیا۔اردو
کے ممتاز ناقد،شاعر اور صحافی محمود ایاز کا یادگار کارنامہ سہ ماہی ’سوغات‘ ہے۔ جنوری
1956 میں بنگلور سے اس کا اجرا عمل میں آیا۔ وقفے وقفے سے یہ شائع اور بند ہوتا رہا۔
طبع اول چار سال سے کچھ زیادہ عرصے تک پابندی سے شائع ہونے کے بعد 1963 میں بند ہوگیا
اور اشاعت ثانی 1971میں ہوئی۔ اس دور میں صرف 5 شمارے شائع ہوئے لیکن انداز وہی رہا،
اداریے کی بلند آہنگی اور تخلیقات کے انتخاب میں غیر جانبدارانہ رویہ، اصول ومعیار
کا خاص خیال، کسی بھی معاملے میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی، جو محمود ایاز کی
گہری تنقیدی بصیرت اور وسیع النظری کا بہترین اظہار ہے۔رسالے کی بڑی خوبی یہ رہی کہ
یہ کبھی کسی تحریک،رجحان اور ادبی گروہ بندی کا حصہ نہیں رہا بلکہ تمام معاملات سے
خود کو آزاد رکھتے ہوئے ایک منفرد پہچان قائم کی۔حالانکہ دیگر رسائل کی طرح اس کے
صفحات بھی مضامین، افسانوں،غزلوں،تبصروں اور خطوط سے آراستہ ہوتے تھے، لیکن ادب کے
پیچیدہ مسائل پر کی جانے والی بحث،مختلف تخلیقات پر پیش کیے جانے والے تنقیدی مضامین،ادبی
جستجو میںتحقیقی زاویہ نگاہ،سنجیدہ مزاج تبصرے وہ خوبیاں ہیں جو اس رسالے کی انفرادیت
کاسبب بنیں۔ رسالہ ’سوغات‘ نے تخلیقی اور تنقیدی دونوں سطحوں پر اعلیٰ معیار کو قائم
رکھا۔ اردو تراجم کے ذریعے مغربی شعر وادب کی تخلیقات کو اردو میں روشناس کیا بلکہ
جدید تنقیدی اور فلسفیانہ افکار سے قارئین کو روبرو کرانے کا کام انجام دیا۔ ادبی سرپرستی
میںاس رسالے نے جو منفرد رول ادا کیاوہ ناقابل فراموش ہے۔ اخترالایمان، وحید اختر،
احمد ندیم قاسمی، خلیل الرحمٰن اعظمی، مجنوں گورکھپوری، شہریار، سہیل عظیم آبادی،
کرشن چندر، محمد حسن، بلراج کومل، غیاث احمد گدی، ساقی فاروقی،مجید امجد، شفیق فاطمہ
شعریٰ، محمود ایاز وغیرہ کی نایاب تحریریں اس جریدے کا حصہ رہیں۔ ’سوغات‘ کرناٹک ہی
نہیں، بلکہ پورے ہندوستان کی ادبی صحافت میں ایک بہترین اور معیاری رسالہ ثابت ہوا۔
اس صحافتی سفر میں
ان رسائل کا تذکرہ بھی ضروری ہے جنھوں نے نئے لکھنے والوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے
کا بیڑا اٹھایا۔ انھیں موقع فراہم کیا،نئے اذہان کی تربیت اور علاقائی شعر وادب کی
عکاسی میں جن رسائل کی کارکردگی نمایاں رہی، ان میں خالص ادبی رسالے کی حیثیت سے متعارف
ہونے والاماہنامہ ’افشاں‘ اہمیت کا حامل ہے۔یہ ماہنامہ 1967 میں شہر بلگام سے منظر
عام پر آیا۔ 1962 میں یادگیرسے جاری ہونے والے دوماہی ’چراغ نو‘ نے بھی شعر و ادب
کے چراغ کو جلائے رکھا۔ علمی و ادبی حلقوں میں اسے خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔
بیسویں صدی کی ساتویں
دہائی میں ماہنامہ ’نجات‘ 1972 میںرائچور سے نکلنا شروع ہوا۔اس کے مدیر اردو کے معروف
افسانہ نگاراور شاعر وحید واجد تھے۔واجد صاحب نے رائچور کی ادبی فضا کورونق بخشنے اور
اردو رسالے کی مقامی ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر اس رسالے کے ذریعے صحافتی میدان میں
قدم رکھا۔رسالے کے مشمولات میں نظم و نثر کے علاوہ ’سوال و جواب‘ اور ’بزم یاراں‘ مستقل
کالم ہوا کرتے تھے۔ رائچور کی نمائندگی کرنے والا یہ اولین رسالہ چند اشاعتوں کے بعد
بند ہو گیا۔
اسی طرح چند رسائل
ایسے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جنھوں نے دنیائے صحافت میںفلمی میگزین کی حیثیت سے اپنی
پہچان قائم کی لیکن ان میں شامل ہونے والا ادبی حصہ بھی کافی جاندار رہا۔ اس قسم کے
نیم ادبی وفلمی ماہناموں میںمئی 1970 میں شکیل مظہری کی زیر نگرانی شائع ہونے والا
رسالہ ’الفاظ‘، اگست 1972 میں اے آر حمید
کی زیر ادارت بنگلور سے جاری کردہ ماہنامہ ’گڈی‘ اور1983 میں عظیم اللہ خاں کاپندرہ
روزہ رسالہ ’خوبصورت‘ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
رسالہ ’الفاظ ‘میں فلمی دنیا کی مکمل تصویر کشی کے علاوہ گوشئہ ادب کے لیے بھی چند
صفحات مختص ہوتے تھے۔اس کے ادبی صفحات جوگندر پال،حسنٰی سرور، دیوندرراسرجیسے بلند
پایہ افسانہ نگاروں کے افسانوں اور مظفر حنفی، فضاابن فیضی، ندا فاضلی،زیب غوری، شہاب
جعفری، حرمت الاکرام وغیرہ مقبول عام شاعروںکی نظموں اور غزلوں سے مزین ہوتے تھے۔یہ
رسائل بھی کچھ عرصہ جاری رہ کر بند ہو گئے۔
خالص ادبی رسائل کی
روایت کو برقرار رکھنے میں جن رسائل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ان میں ایک نام ماہنامہ
’ درماں‘ کا بھی آتا ہے۔یہ ماہنامہ کرناٹک کی ادبی صحافت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا
ہے۔اس کا افتتاحی شمارہ سید ضیاء اللہ کی زیر ادارت 1974 میں منظر عام پر آیا، مشہور
ومعروف ادبا وشعرا کی نظمیں، غزلیں، افسانے، طنزیہ و مزاحیہ مضامین، اصلاحی و معلوماتی
مقالات ادبی لطائف اور تبصرے وغیرہ اہتمام سے شائع کیے جاتے تھے۔ ریاستی قلمکاروں کے
علاوہ بیرون ریاست کے معتبر قلم کاروں کی شاہکار تخلیقات بھی مختلف شماروں کا حصہ بنیں۔
یہ رسالہ’ کرناٹک کا واحد ادبی ماہنامہ‘ کے سرنامے کے ساتھ شائع ہوتا تھا۔ پرکشش سرورق
کے ساتھ اس کے ابتدائی صفحات پر مشمولات کی فہرست بعنوان ’تخلیقات وتخلیق کار‘ کے شائع
ہوتی تھی۔اس کے اداریے بھی کافی معلومات افزا ہوتے جہاں اردو مسائل اور ان کے اسباب
وعلل پر گفتگو ملتی ہے ،علاوہ ازیں ایک انوکھے قسم کا کالم ہوا کرتا جسے’ نقطۂ نظر‘
کا نام دیا گیاتھا۔یہاں پر وہ مراسلے شائع کیے جاتے جو علمی ،ادبی ،سماجی اور معاشرتی
مسائل کو زیر بحث لاتے تھے اور اس قسم کے علمی ادبی سوالوں کے جواب کو’جوابًا نگارش
ہے‘ کے عنوانات سے شائع کیا جاتا جہاں سیر حاصل بحث دیکھنے کو ملتی۔ ادب کا ترجمان
یہ مفید عام رسالہ تقریباً تین سال کے بعد بند ہو گیا۔
ساتویں دہائی میں پے
درپے رسائل وجرائد کی اشاعت کا سلسلہ قائم رہا اور کئی اچھے رسائل منظر عام پر آئے۔شہر
ہبلی کی علمی وادبی سرگرمیوں کا ترجمان ماہنامہ تحریک ادب 1971 اور پندرہ روزہ ہبلی
ٹائمز1975 کی اشاعت نے یہاں شعری وادبی ماحول
پیدا کیا۔ ان کے مضامین معلوماتی نوعیت کے ہوتے تھے۔ مشمولات میں سماجی علمی و ادبی
موضوعات کا احاطہ کیا جاتا۔ ان کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں شامل تحریریں
شہر کی ادبی تہذیبی اور سماجی زندگی کی آئینہ دار ہوتی تھیں۔ انتظامی دشواریوں کے
سبب اشاعت کے دوسرے سال ہی یہ رسائل بند ہو گئے۔
جنوبی ہند کی اردو
صحافت نے ارتقا و زوال کے کئی دور دیکھے ہیں بالخصوص ریاست کرناٹک کی ادبی صحافت کا
تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ اس سرزمین سے نہ صرف ادبی ذوق کے حامل علمی وفنی رسائل جاری ہوئے
بلکہ قوم وسماج کی ترجمانی کرنے والے رسائل بھی نکالے گئے، سماج و قوم کی علمی ،تعلیمی،
سیاسی، تجارتی، ادبی تاریخی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے یہ رسائل وا خبارات روز وشب
مصروف کار رہے۔ ’کرناٹک پنچ‘ دھارواڑ کچھ اسی قسم کا ماہنامہ ثابت ہوا، مدیر محبوب
بڑائی کے قلم سے نکلتا ہوا کالم ’نرم گرم‘ طنزیہ ومزاحیہ ادب کے سرمایے میں ایک بہترین
اضافے کا باعث بنا۔ اس میں عوام کے مختلف طبقوں کی دلچسپی کا خیال رکھتے ہوئے ہر قسم
کے مواد شائع کیے جاتے تھے۔ افسانے،نظمیں، غزلیں، ادبی لطائف،اقوال زریں وغیرہ مشمولات
اسے ایک معیاری رسالے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔عوام کی تفریح و حیرت انگیز معلومات کا
مرقع ’کرناٹک پنچ‘ تقریباً گیارہ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ بالآخر چند ناگزیر
حالات کے سبب اس کی اشاعت بند ہوگئی۔
اسی سال شہر دھارواڑ
سے دوسرااہم رسالہ ماہنامہ اعتماد 1975 خالص علمی و ادبی رسالے کی حیثیت سے منظرعام
پر آیا، جس کے مستقل کالموں میں خبرنامہ، نقوش، تبصرے وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ
تراجم،منتخب اشعاراور مختلف کتابوں پر تبصرے بھی اس رسالے میں طبع ہوتے رہے۔ماہنامہ’اعتماد‘کو
حمید الماس، محمود ایاز، سلیمان خطیب،راہی قریشی ،انور عظیم،جمیل مظہری،کوثر چاند پوری،
ملک زادہ منظور احمد وغیرہ معروف ادیبوں کی تخلیقات شائع کرنے کا شرف حاصل رہا۔
اسی درمیان صحافتی
افق پر نمودار ہونے والے پندرہ روزہ رسائل میںپہلا نام پندرہ روزہ ’صد رنگ‘ کا ہے۔
یہ رسالہ اردو کے شاعر عادل ادیب کی زیر ادارت بنگلور سے جاری ہوا۔دوسرا پندرہ روزہ
’صدائے مومن‘ 1979 کولار سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔یہ رسائل اپنے عہد کی مقامی
،علمی ،ادبی اور سیاسی سرگرمیوں کے آئینہ دار تھے۔رسائل میں لائق مطالعہ ادبی تخلیقات
کے علاوہ اہم خبروں کے تجزیے بھی شامل اشاعت ہوتے تھے۔ان پندرہ روزہ رسائل نے تقریباًایک
دہے سے زیادہ عرصے تک برابر شائع ہو کر کرناٹک کی صحافتی تاریخ میں طویل عمر پانے والے
رسائل میں جگہ بنائی۔
خالص ادبی نوعیت کے
رسائل کی اشاعت کا سلسلہ آگے بھی جاری رہا۔بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں کئی معیاری
رسائل ریاست کی ادبی صحافت کی توانا روایت کا حصہ بنے۔رسائل میں شائع ہونے والی ادبی
تخلیقات اور معلوماتی قسم کے مضامین نے قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی،جس سے
رسائل اور قاری کے درمیان رشتہ مزید استوار ہوا۔
رسالہ ’واردات‘ 1980 خالد سعید کی زیر ادارت، ’شعلہ نوا‘ 1982 خلیل مجاہدکی
زیر ادارت ’نوائے عصر‘ 1982 انیس صدیقی کی زیر ادارت اور ’استعارہ‘ 1985 خورشید وحید
کی زیر ادارت منظر عام پر آئے اور اردو صحافت کو جلا بخشی۔
ادب کے جدید رجحانات
کی پیش کش اور ترجمانی میںرسالہ ’ واردات‘ 1980 نے اہم رول ادا کیا۔اس ماہنامے کو ملک
کے تقریباً سبھی اہم ادیبوںاور نامور شاعروں کا تعاون حاصل تھا۔اپنے معیار اور مواد
کی وجہ سے دلچسپی سے پڑھا گیا۔ واردات کی اشاعت کے دو سال بعد رسالہ ’شعلہ نوا‘ چند
فعال نوجوان قلم کاروں کے ذریعے منظر عام پر آیا۔ اس زمانے میں نئی نسل کے نمائندہ
کی حیثیت سے ’شعلہ نوا‘ کو کرناٹک کی ادبی صحافت میں ایک خاص مقام حاصل ہوا۔یہ رسالہ
اس دور کے ادبی،سماجی اور ثقافتی رجحانات کا مکمل نقشہ پیش کرتا ہے۔علم وادب اور سماج
کی بے لوث خدمت میں ہمہ تن مصروف رہنے والے معروف صحافی انیس صدیقی کا رسالہ’نوائے
عصر‘ اپنے موضوعات کے اعتبار سے تاریخی اور
ادبی اہمیت کا حامل ہے۔مشاہیر اہل قلم کے تعاون نے رسالہ کو معیار و وقار بخشا۔
یوں تو کرناٹک کی اولین خاتون صحافی
ہونے کا شرف سیدہ ذکریٰ بتول کو حاصل رہا ہے لیکن صحت مند و صالح ادب کی تشکیل اور
اخلاقی اور تعلیمی شعور پیدا کرنے میں ماہنامہ ’زریں شعاعیں‘ 1989کا کافی عمل دخل رہا
ہے جس کی مدیرئہ خصوصی فریدہ رحمت اللہ اسما ہیں۔یہ رسالہ خواتین کے لیے مخصوص تھا۔اس
رسالے کے اغراض و مقاصد میں تعلیم نسواں کی ترویج، خواتین میں علمی وادبی ذوق پیدا
کرنا،خواتین کے معاشرتی ،شہری اور ملکی حقوق کا تحفظ شامل ہے۔ اس نے اپنی ملکی مستورات
کی دماغی بیداری و ذہنی ترقی میں کردار ادا کیا، خواتین کے علمی ارتباط،ادبی دلچسپی
،پاکیزگی ذوق اور وسعت نظری کی ترقی کا ذریعہ بنا۔
کرناٹک اردو اکادمی
نے بھی صحت مند ادب کی ترویج میں پیش رفت کرتے ہوئے2011 میں بنگلور سے ایک رسالہ ’ادیب‘
جاری کیا۔جس کے نگراں قمر الاسلام اور مدیر کے منصب پر ایس مرزا عظمت اللہ فائز تھے۔
علاوہ ازیںکرناٹک اردو اکادمی کے ترجمان کی حیثیت سے سہ ماہی ادبی و تہذیبی مجلہ اذکار
2011 میں منظر عام پر آیا۔ مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے حافظ کرناٹکی اور مدیر کے فرائض
مرزا عظمت اللہ نے انجام دیے اس ادبی جریدے میں کرناٹک کے علاوہ ملک بھر کے ممتاز دانشور
قلم کار لکھتے رہے،بالخصوص کرناٹک اردو اکادمی کی سرگرمیوں سے متعلق مضامین شامل کیے
جاتے۔مختلف سمیناروں میں پڑھے گئے مضامین خصوصی اشاعتوں میں شامل کیے جاتے۔ اس رسالے
کی عمر تو زیادہ نہ رہی لیکن اپنے بلند پایہ مضامین اورشاعری کی وجہ سے ادبی حلقوں
میں ممتاز مقام رکھتا تھا۔
اس مختصر جائزے سے
یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جس طرح جنوبی ہند کی دیگر ریاستیں اور شہر علم و فن کا گہوارہ
رہے ہیں اسی طرح کرناٹک بھی ادبی و لسانی اعتبار سے اپنی تاریخ رکھتا ہے۔اس کے اضلاع
بھی زبان وادب، تہذیب و ثقافت او رمذہب و سیاست کا گہوارہ رہے ہیں۔ اسی طرح ادبی صحافت کی تاریخ میں ہم کرناٹک کو فراموش
نہیں کر سکتے،کیونکہ اس ریاست کی ادبی صحافت صحت مند اقدار کی حامل رہی ہے۔ یہاںکے
رسائل کے آغاز وارتقا کی تاریخ کا اجمالی جائزہ ہمیں اس نتیجے پر لے جاتا ہے کہ یہاں
بہت سے رسائل شائع ہوئے۔ اردو رسائل نے ایک ایسے زمانے میں اپنے بال و پر نکالے جو
ہماری قومی تاریخ کا تغیراتی عہد تھا۔ بلاشبہ رسائل کی اشاعت سے اردو زبان وادب میں
آنے والے افکار ونظریات، ادبی وسماجی رجحانات اور تحریکات کا پتہ چلتا ہے۔ اس لحاظ
سے دیکھا جائے تو مختلف موضوعات پر شائع ہونے والے یہاں کے رسائل نے ادب کا ایک خاص
معیار بھی پیش کیا ہے۔ ماضی میں نکلنے والے ادبی رسائل نے ہماری ادبی تاریخ سازی میں
نہایت اہم، بامعنی اور کارآمد کردار ادا کیا ہے۔مختلف مقامات سے وقتًا فوقتًا معیاری
اور مفید ادبی رسائل کبھی ہفتہ وار اور پندرہ روزہ تو کبھی ماہنامے اور سہ ماہی کی
صورت میں جاری ہوتے رہے، ان میں سے بعض تو تاریخ ادب میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔اب
اگر موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو ان دنوں رسائل کی رفتار سست ہے، یہ ایک افسوسناک
صورت حال ہے اور اس کی تلافی ضروری ہے۔رسائل کو زندگی اس کے قارئین سے ملتی ہے جو رسائل
قارئین کی دلچسپی کا خیال رکھتے ہوئے ماضی کی بازیافت کے ساتھ روح عصر کو اپنے اندر
سمو لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وقت کے ساتھ چلنے کا ہنر جانتے ہیں درحقیقت وہی کامیاب
ہیں۔ہم رسائل کی ادبی سماجی و ثقافتی خدمات سے انکار نہیں کر سکتے، اگرچہ بہت سے بہترین رسائل شائع ہوئے اور
ناموافق حالات کے سبب بند بھی ہو گئے، لیکن وہ ادبی جریدے جو چراغ کی طرح اب بھی روشن
ہیں اور اپنی ادب نوازی اور ادب دوستی کا ثبوت پیش کر رہے ہیں انھیں زندہ رکھنے کی
ضرورت ہے۔
- اردو صحافت کا سفر، گربچن چندن، عفیف آفسیٹ پرنٹرز، دہلی2007
- اردو صحافت ترجمہ وادارت، سید ضیاء اللہ،کرناٹک اردو اکادمی بنگلور، 1994
- ابلاغیات، پروفیسر محمد شاہد حسین، عفیف آفسیٹ پرنٹرز، دہلی، 2004
- اردو کے ادبی رسالوں کے مسائل، مرتبہ عابد سہیل،اتر پردیش اردو اکادمی لکھنو،1981
- کرناٹک میں اردو صحافت، ڈاکٹر انیس صدیقی،او ایس گرافکس، نارائین گوڑا حیدرآباد،2003
- بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب،مرتبہ پروفیسر عتیق اللہ، موڈرن پبلشنگ ہائوس،دریا گنج نئی دہلی،1973
- چند اہم اخبارات ورسائل،قاضی عبدالودود،ادارہ تحقیقات اردو پٹنہ لبرٹی آرٹ پریس،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی
- جنوبی ہند کا بہترین ادب،مجیب احمد، منظور احمد، مجلس ادب پبلی کیشنز، بنگلور ،1958
- اردو ادب آزادی کے بعد، مرتبہ ڈاکٹر خورشیدالاسلام، یونیورسٹی پبلی کیشنز ڈویڑن علی گڑھ،1973
- جنوبی ہند کی تاریخ،کے ایل نیل کنٹھ، شاستری، ترقی اردو بیورو نئی دہلی،1980
- مدراس میں اردو ادب کی نشوونما، ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال، معین پبلی کیشنز،باغ روڈ حیدرآباد،1979
- مجلاتی صحافت کے ادارتی مسائل،روشن آرا رائو،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد،1989
- مشاہیر کرناٹک،خالد انجم،کرناٹک اردو اکادمی بنگلور،2009
- جنوبی ہند کی اردو صحافت،ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال،معین پبلی کیشنز،باغ روڈ حیدرآباد،1980
- اردو کے اہم ادبی رسالے اور اخبار،رامپور انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز1969
- ادب اور اردو صحافت،ضمیرالدین قریشی،ایجوکیشنل پریس علی گڑھ،1964
- تاریخ ادب اردو،کرناٹک،کرناٹک اردو اکادمی،بنگلور1994
Umme Ammara Zia
Room No.: 09, Koyna Hostel, JNU
New Delhi- 110025
Mob.: 8920475306
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں