3/1/24

لبنان کا ایک ’آشفتہ سر‘ جبران خلیل جبران:غزالہ پروین

 

نوعِ  انسانی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ دنیا میں مختلف اقوام نے مختلف وجوہات سے نقل مکانی کی ہے۔ غیرمناسب موسم اور آب و ہوا، معاشی و اقتصادی نا آسودگی،حکمراں طبقے کے ظلم و استبداد سے چھٹکارہ،بہتر اور خوشحال مستقبل کی تمنا، غرض سماجی، سیاسی، اقتصادی، تعلیمی وجوہات کے علاوہ بھی بہت سے اہم اسباب تھے جن کی بنا پر دنیا کی مختلف اقوا م مختلف ادوار میں اپنی بود و باش اور سکونت کو تبدیل کرتے رہے۔

جب ہم خلیجی ممالک پر نظر ڈالتے ہیں تو ان ممالک کی عوام نے مختلف سیاسی، سماجی، اقتصادی وجوہات کی بنا پرنقل مکانی یا ہجرت کی۔عرب ممالک میں مصر، عراق، شام، فلسطین اور لبنان ایسے ممالک ہیں جہاں کی عوام نے ہزاروں کی تعداد میں مغربی اور یورپی ممالک میں سکونت اختیار کی۔تقریباً 1850 سے 1925 تک کے دورانیے میں عرب ممالک سے ہزاروں لوگوں نے ہجرت کی۔ خاص طور سے لبنان میں برسوں سے رائج ایسے قوانین ہی سب سے اہم اسباب تھے ہجرت اور نقل مکانی کے۔ لبنان کی خوں ریز جنگوں میں لاکھوں انسان مارے گئے۔ جو بچ گئے انھوں نے اپنی جان کی سلامتی اور اپنے بچوں کے مستقبل کی آس لیے مغربی ممالک اور یورپی ممالک کو اپنا مسکن بنایا۔ان مہاجرین کی اکثریت ملک شام اور لبنان کے باشندوں کی تھی انھوں نے شمالی و جنوبی امریکہ کو اپنا ملجا و ماویٰ بنایا۔

عرب و لبنان کے ان مہاجرین میں لبنان کے سپوت خلیل جبران بھی تھے جو حکومت کے ظلم و ستم اور کلیسائوں کی اجارہ داری سے تنگ آکر اپنے خاندان کے ساتھ 1895 میں شمالی امریکہ کے شہر بوسٹن میں سکونت اختیار کی۔دن بہ دن عرب ممالک سے مہاجر کے قافلے مختلف یورپی و مغربی ممالک پہنچنے لگے۔دیارِ شرق سے نکلے ہوئے یہ قافلے دیارِ غرب کی چکا چوند میں بھی اپنے وطن کی مٹی کو یاد کرتے رہے۔ وقت گزرتا رہا کچھ برسوں بعد ان مہاجرین کو جب ذہنی آسودگی نصیب ہوئی تب انھوں نے اپنے احساسات،تجربات و مشاہدات کو سپرد کو قلم کرنا شروع کیا اور اس طرح شمالی اور جنوبی امریکہ میں رہائش پذیر ان مہاجرین نے ادب کی تمام اصناف کو سیراب کرنا شروع کیا اور اس طرح مہجری ادب کی بنیاد دیارِ غیر میں رکھی۔ مہجری ادب میں تہذیبی تبدیلی کے باوجود اپنی مادری زبان اور وطن سے محبت کا اثر نمایاں ہے۔  مہجری ادب اگرچہ کہ اپنی کم سنی اور کم مائیگی کی وجہ سے طویل زمانہ گزرنے کے بعد پذیرائی حاصل کر سکا لیکن مہجری ادب کا سرمایہ جدید عربی ادب کا اب جزو لا ینفک بن چکا ہے۔جدید عربی ادب میں مھجری ادب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے مشہور عربی ناقد ’شوقی ضیف‘ رقمطرازہیں:

’’مہجری شاعری کو پڑھنے اور سمجھنے سے پہلے اس کے لیے اپنے ذہن کو تیار کر لینا چاہیے کیونکہ جدید پیمانے قدیم شاعری کے پیمانوں سے بالکل مختلف ہیں۔اس کو مکمل طور پر سمجھنے کے بعد ہی اس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘‘

سابق پروفیسر شعبہ عربی،سرسید کالج اورنگ آباد محترم صدرالحسن ندوی مدنی مہجری شاعری اور اس کی اہمیت کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:

’’عربی شعر و شاعری عصرِ جاہلی سے عصرِ جدید تک جس مزاج و منہاج پر رواں دواں تھی انیسویں صدی کے نصف اول تک اس میں کوئی نمایاں تبدیلی رونما نہیں ہوئی لیکن اس صدی کے نصف آخر میں سیاسی، سماجی، معاشرتی اور اقتصادی مدو جزر کے تناظر میں بڑے پیمانے پر ترکِ وطن کے نتیجے میں ادب کا ایک ایسا دبستان وجود میں آیا جو عربی شاعری کے قدیم مزاج و منہاج کے سلسلے میں اپنے ذہن و دماغ میں منفی تصورات رکھتا تھا۔اونٹوں اور گھوڑوں کی تعریف،دیارِ محبو ب کے ٹیلوں پر اشک ریزی اور اصحابِ وجاہت کے تملق و مدح سرائی کی ایک بے روح شاعری گردانتا تھا۔اس لیے شعرا مہجر نے عربی شاعری کو تمام بندشوں، روایات، تکلفات اور مبالغہ آرائیوں سے آزاد کرکے ادب برائے زندگی کے ہر شعبے کا ترجمان بنادیا۔اس رد عمل کے نتیجے میں انھوں نے قدیم عربی شاعری کے عروض و قوافی اور اوزان و اسالیب کے مروجہ قواعد سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی اور اس کی شاید سب سی بڑی وجہ مغربی زبان و ادب سے ان کی واقفیت و شیفتگی اور یورپ کے ترقی پسند شعرا سے ان کی مزاجی ہم آہنگی تھی۔‘‘

ان مہجری شعرا میں ایک اہم نام جبران خلیل جبران کا آتا ہے جنھوں نے روایتی اسلوب اور روایتی شاعری کو ترک کرکے نئے مزاج اور نئے ادب سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔خلیل جبران کی زندگی کا بیشتر حصہ شمالی امریکہ میں گزرا۔دیارِ مغرب کی آزاد فضا،فکر و عمل کی آزادی نے خلیل جبران کے تخیل کو نئی وسعتیں دیں۔ جبران کے خمیر میں حب الوطنی کی روح جاگزیں تھی۔وہ اپنی قوم و وطن کو ان مغربی ممالک کی صف میں کھڑا کرنا چاہتے تھے جہاں انسانیت ان کے ادب کا ناگزیر حصہ تھی۔اگر جبران کی جملہ تخلیقات کا تجزیہ کیا جائے تو اکثرحصہ ملک و وطن کی بہتری،نئے سماج کی تشکیل، روایت شکنی، انصاف،خوشحالی کی امید اور حقوقِ انسانی پر مشتمل ہے۔ لبنان کی تاریخ میں جبرا ن کی انقلابی سوچ اور ان کی انسان دوستی کو کبھی فراموش نہیں کیا       جا سکتا ہے۔

لبنان کے سپوت اور سرفروش خلیل جبران 1883 میں لبنان کے بشریٰ نامی ایک گائوں میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1895 میں غربت و تنگدستی سے پریشان ہوکر اپنی ماں،بھائی پطرس اور دو بہنوں کے ہمراہ امریکہ کے شہر بوسٹن میں سکونت اختیار کی۔ اور وہاں چینیوں کا غریب محلہ چائنا ٹائون میں مقیم ہوگئے۔اس وقت جبران محض بارہ سال کے تھے۔اپنی ابتدائی تعلیم بھی مکمل نہیں کی تھی۔ لہٰذا عربی زبان و ادب کی مزید تعلیم کے لیے جبران کو دوبارہ لبنان بھیج دیا گیا۔جہاں جبران نے مدرسۃ الحکمۃ میں تقریباً چار سال تک عربی زبان و ادب میں مہارت حاصل کی۔اسی کے ساتھ فرانسیسی ادب، بائبل اور فلسفے کی بھی تعلیم حاصل کی۔ تقریباً چار سال مدرسۃ الحکمۃمیں گزارنے کے بعد جبران جب بوسٹن واپس لوٹے تو انھیں یکے بعد دیگرے کئی صدمات سے دوچار ہونا پڑا۔ ان کی بڑی بہن سلطانہ کا انتقال ہوگیا اس کے کچھ دنوں بعد جبران کے بھائی اور ماں کا بھی انتقال ہوگیا۔گھر کی تمام ذمے داریوں کا بوجھ جبران اور ان کی بہن ماریہ پر آن پڑا۔ یہ جبران کی زندگی کا بدترین دور تھا۔ ماریہ دست کاری سے اپنا اور جبران کا پیٹ پالتی تھی۔ بیس سال کی عمرمیں جبران نے انشا پردازی اور پینٹنگ شروع کی۔ 1904 میں بوسٹن میں جب ’جریدۃ المھاجر‘ کی اشاعت عمل میں آئی تو جبران اپنے مضامین بھی شائع کرنے لگے۔اسی طرح دوسرے جریدۃ ’الھدیٰ‘ میں جبران کے مضامین باقاعدگی سے شائع ہونے لگے۔جس کی وجہ سے ادبی حلقوں میں جبران بہت جلد معروف ہوگئے۔ 1904 ہی میں تصویروں کی نمائش میں ان کا تعارف میری ہاسکل سے ہوا۔جس نے جبران کی غیر معمولی ذہانت و فطانت دیکھ کر اس پر خاص توجہ کی اور اپنے ذاتی خرچ پر جبران کو فن مصوری(پینٹنگ) کی اعلیٰ تعلیم کے لیے پیرس روانہ کیا۔جبران نے پیرس میں دو سال گزارے۔ فنِ مصوری کے ساتھ ساتھ جبران نے فرانسیسی زبان و ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا۔جس سے انھیں فرانسیسی ادیبوں کے جدید افکار و نظریات کو سمجھنے کا بہترین موقع حاصل ہوا۔

فرانس سے واپسی کے بعد جبران نے اپنی رہائش مستقل طور پر بوسٹن سے نیویارک منتقل کرلی۔ابتدا میں جبران بہت سے عربی مضامین مختلف جرائد میں شائع کرواتے تھے۔اسی طرح ابتدا میں کچھ کتابیں عربی زبان میں بھی لکھیں۔ لیکن نیویارک میں عربی کتب کو خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی۔ اور نہ ہی ان چند کتابوں کی اشاعت سے معاشی تنگی دور ہوئی۔جبران نے انگریزی میں لکھنا شروع کیا۔ان کے مضامین مختلف انگریزی جرائد کی زینت بننے لگے۔اسی طرح انگریزی زبان میں کچھ کتابیں منظرِ عام پر آنے کے بعد عربی اور انگریزی ادبی حلقوں میں جبران متعارف ہوئے۔ان کی ادبی تخلیقات کی بہت پذیرائی ہوئی۔بلکہ اس حد تک پذیرائی ہوئی کہ کچھ کتابوں کے کئی ایڈیشنس منظر عام پر آئے۔خلیل جبران کی ایک کتاب ’النّبی‘ (The Prophet) دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ایک اندازے کے مطابق یہ کتاب جو انگریزی زبان میں تحریر کردہ ہے پندرہ لاکھ سے زائد جلدیں فروخت ہوئیں۔دنیا کی تقریباً بیس زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔یہ انگریزی زبان میں سب سے اہم تصنیف ہے۔اس طرح عربی زبان میں ناول ’الاجنحۃ المتکسرۃ‘بھی سب سے عمدہ تصنیف تسلیم کی گئی۔ جبران نے تصنیف و تالیف کا کام دو زبانوں میں کیا ہے،عربی اور انگریزی۔عربی ممالک کے لیے عربی زبان میں اور اہلِ مغرب اور انگریزی داں کے لیے انگریزی کو ذریعۂ اظہار بنایا۔کچھ عرصے بعد جبران کی تمام عربی و انگریزی کتب کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔جبران نے آٹھ کتابیں عربی زبان میں اور آٹھ کتابیں انگریز ی زبان میں لکھی ہیں۔

عربی زبان کی کتابیں


1                                 الموسیقی(1905)

جبران نے اس کتاب میں موسیقی کی اہمیت اور نفسِ انسانی کے ساتھ اس کے روحانی رشتے پر روشنی ڈالی ہے۔ جبران نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ موسیقی انسان کے اندر ایک نیا عزم،جوش اور ولولہ پیدا کرتی ہے۔

2                                 عرائس المروج(1906)

یہ تصنیف تین افسانوں پر مشتمل ہے۔ان تینوں افسانوں میں مذہبی تعصب،سرمایہ دارانہ نظام کی اجارہ داری اور مختلف سیاسی و سماجی برائیوں پر ضرب کی گئی ہے۔ اس کتاب میں جبران کا رویہ باغیانہ اور سخت ہے۔

3                                 الارواح المتمرّدہ (1908) سرکش روحیں

یہ کتاب چار افسانوںپر مشتمل ہے۔اس میں حکمراں طبقے اور مذہبی پیشوائوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔اس کتاب میں بھی جبران کے باغیانہ تیور نظر آتے ہیں۔اس کتاب کی وجہ سے جبران پر ملحد ہونے کا الزام لگایا گیا۔ چرچ میں اس کتاب کا داخلہ ممنوع قرار دیاگیا۔اور اسے نذرِ آتش کیاگیا۔

4                                 الاجنحۃ المتکسرہ(1921)ٹوٹے ہوئے پر

یہ کتاب جبران کا ایک مشہور ناول ہے۔اس کتاب میں بھی فرسودہ رسوم اور طبقاتی کشکش کو بیان کیاگیا ہے۔ اس میں طبقۂ اناـث کی حمایت اور طرف داری کی گئی ہے۔

5                                 دمعۃُٗو ابتسامہ(1914)آنسو اور مسکان

یہ کتاب جبران کے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے جو مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہے۔

6                                 المواکب(1914)قافلے

یہ جبران کی واحد شعری تخلیقات کا مجموعہ ہے جس کا نفسِ مضمون فلسفیانہ خیالات اور صوفیانہ افکار ہیں۔

7                                 العواصف(1920) آندھیاں؍ طوفان

یہ کتاب جبران کے افسانوں اور مضامین پر مشتمل ہے۔یہ دراصل پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد لبنا ن اور دوسرے عرب ممالک میں ہونے والے بحران اور مسائل کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔

8                                 البدائع و الظرائف(1923)

یہ کتاب بھی جبران کے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے۔حکیمانہ اقوال اور ناصحانہ تحریریں اس کتاب کا خاصہ ہے۔

خلیل جبران کا تخلیقی ادب نثری و شعری اصناف میں موجود ہے۔جبران نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے شعری ونثری دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن جبران کو شہرت ان کے شعری کلام کے بجائے نثری تخلیقات سے ہوئی۔ سوائے ’مواکب‘کے جو جبران کی پہلی اور آخری شعری تخلیق ہے۔باقی تمام تخلیقات نثری یا منظوم نثری حالت میں ہیں۔

جبران کی ایک بہت اہم کتاب ’الارواح متمرّدہ‘ (سرکش روحیں) ہے جو چار افسانوں پر مشتمل ہے۔اس کتاب میں چار افسانوں میں سے یہاں دو افسانوں کا جائزہ لینا مقصود ہے۔

افسانہ’کافر خلیل‘ اس عنوان سے ہی جبران کا طنز جھلکتا ہے۔ اس افسانے میں جبران نے ایک بہت نیک، پارسا، عیسائی مذہب کا سچا پیروکار، غریبوں کا مسیحا، اخلاقیات کا شیدائی، اعلیٰ اقدار کے حامل انسان کو مرکزی کردار عطا کیا ہے۔کافر خلیل کے روپ میں جبران نے ایک ایسے باغی و سرکش کا روپ دے کر مذہبی پیشوائوں کے سیاہ کارناموں کواجاگر کیا ہے۔ جبران نے جب شعور کی منزلوں کو طے کرنا شروع کیا تب انھیں اس کا ادراک ہوتا گیا کہ سماج کس طرح طبقاتی کشمکش میں مبتلا ہے۔ غربا و مساکین کی آمدنی کا اکثر حصہ کس طرح سرمایہ دار اور مذہبی پیشوائوں کی جیب میں جاتا ہے۔کافر خلیل جو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے عوام الناس کو خوابِ غفلت سے بیدار کرتا ہے۔کافر خلیل جو حکمراں طبقے اور مذہبی پیشوائوں کی نظر میں کافر، ابلیس، باغی، سرفروش،سرکش اور روایت شکن ہے۔لیکن جبران نے خلیل کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا ہے۔یہی وہ تصنیف ہے جس کی وجہ سے جبران پر الحاد کا الزام لگاکر کلیسائوں میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔بلکہ اس کتاب کو عیسائیوں کے لیے حرام قرار دیا گیا۔لبنان میں جبران کی کتابیں نذرِ آتش بھی کی گئیں۔

جبران مذہب مخالف نہ ہوکر مذہبی پیشوائوں کی بے جا بندشوں اور ان کی مفاد پرستی سے نالاں تھے۔ جبران عیسیٰ مسیح کی سچی تعلیمات کو صحیح طریقے سے لوگوں میں پھیلانا چاہتے تھے۔

جبران کا یہ افسانہ پڑھنے کے بعد ہمیں اس وقت کی سماجی نا انصافی اور حقوق تلفی کا اندازہ ہوتا ہے اور لوگوں کے تئیں جبران کی سچائی عیاں ہوتی ہے۔

خلیل جبران کا دوسرا افسانہ جو ’سرکش روحیں‘نامی کتاب میں شامل ہے۔اس افسانے میں جبران نے آج سے ایک صدی قبل لبنان اور دوسرے عرب ممالک کے رسوم پر کاری ضرب لگائی ہے۔اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ صدیوں سے چلے آ رہے بہت سارے فرسودہ رسوم کس طرح ہماری زندگی کو تلخیوں سے بھر دیتے ہیں۔سماج میں بہت سے رسم و رواج محض انسان کی جاہلیت اور کم فہمی کی وجہ ہیںہے۔انسانی سماج میں شادی بیاہ بھی ایک اہم اور ناگریز رواج ہے۔جبران نے اس افسانے میں دو مرکزی کردار یعنی رشید نعمان اور روز ہنی کے ذریعے یہ  بتانے کی کوشش کی ہے کہ چاہتوں اور رشتوں کا پیمانہ مادیت نہیں ہے۔ یہ چاہت دنیاوی شان و شوکت سے بہت پرے کی چیز ہے۔ چاہت تو وہ جذبہ ہے جو لافانی اور ہست و بود سے ماورا ہوتا ہے۔اسی طرح مرد و عورت کے درمیان سچی چاہت کا معیار مال و دولت اور جاہ و حشم کی بجائے وہ احساس و جذبہ ہوتا ہے جس کا کوئی مول نہیں۔گویاجبران نے اس افسانے میںبتایا ہے کہ سچی چاہت ما بعدا لطبعیاتی ہے۔ہمارے سماج میں اکثر ظاہری شان و شوکت اور کر وفر ہی شادی اور دوسرے رشتوں کے لیے محرکات بنتے ہیں۔جبران کے مطابق یہ ہمارے سماج کی بہت تلخ حقیقت ہے کہ انسانی رشتوں میں ہم ہمیشہ مادیت کو مدِ نظر رکھتے ہیں لیکن اس دنیا میں سچی خوشیاں ظاہری شان بان سے نہیں بلکہ یہ تو دلوں کی ہم آہنگی اور لطیف احساسات پر منحصر ہوتی ہیں۔یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ سماج میںہزارو ں شادیاں محض مال و دولت اور شان و شوکت کو مد نظر رکھ کر انجام پاتی ہیں۔ چاہے مردوعورت کے دل اور ذہن ہم آہنگ ہوں یا نہیں۔آج ہمارے سماج میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو چاہت کی بجائے مصالحت پر زندگی گزار رہے ہیں اور شادی جیسے بندھن کو مصالحت پر گزارنا کسی عذاب سے کم نہیں۔جبران جو سماج کے بڑے نبض شناس تھے انھوں نے سماج کے ان فرسودہ رسوم پر کاری ضرب لگائی ہے۔

اس افسانے میں رشید نعمان،روز ہنی سے عمر میں بہت بڑا ہوتا ہے۔روز ہنی کے والد کی عمر کے برابر۔لیکن رشید اپنی شان و شوکت،دولت و ثروت کی بنیاد پر روز ہنی سے شادی کرتا ہے۔لیکن روز ہنی نعمان کو کبھی اپنے شوہر کے روپ میں قبول نہیں کرتی اور ایک روز وہ موقع پاکر نعمان کا گھر چھوڑ دیتی ہے اور اپنے پسندیدہ شخص کے ساتھ شادی کرلیتی ہے۔بقول جبران’’سماج ایسی عورت کو زانیہ اور فاحشہ گردانتا ہے۔‘‘لیکن جبران کی فکر و نظر میں روز ہنی ذرا بھی قصور وار یا مجرم نہیں ہے۔ جبران نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسانی رشتوں اور چاہتوں کو دولت کے پیمانے میں نہ تولا جائے،چاہت تووہ انسانی جذبہ ہے جس کا کوئی مول نہیں اور مادیت کبھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

اقتباس افسانہ ’وردۃالھانی‘

’’عورت کو خوشی نہ تو مرد کی شان و شوکت اور عزت سے حاصل ہوتی ہے اور نہ اس کی سخاوت سے۔بلکہ یہ تو اس پیار سے حاصل ہوتی ہے جو دونوں کے دلوں اور ان کی لگن کو شیر و شکر کردے اور جسم و جاں ایک کردے۔

اس عورت کا غم کون جانے جو خدا کے حکم سے اپنی روح اس آدمی پر نچھاور کردے جسے وہ چاہتی ہو اور اپنا بدن دوسرے کے حوالے کردے  جسے وہ انسانی قاتلوں کے دبائو تلے رہ کر پیار کرے۔یہ ایسا المیہ ہے جسے عورت کے لہو اور آنسوئوں سے لکھا گیا ہو لیکن آدمی اسے پڑھ کر اس کا مذاق اڑاتا ہے کیونکہ وہ اسے سمجھتا ہی نہیں۔پھر اگر وہ سمجھ ہی لے تو اس کا ایک قہقہہ اس فعل کو ملامت میں بدل دے گا اور یہ عورت کے دل پر آگ بن کے جلے گا۔ کالی راتیں یہ ناٹک اس عورت کی روح کے اسٹیج پر کھیلتی ہیں،جس کا بدن شادی کے خدائی قانون کا مطلب سمجھنے سے قبل ایسے آدمی سے باندھ دیاگیا ہو جسے وہ اپنا شوہر سمجھتی ہو۔وہ اپنی روح کو اس آدمی کے ارد گرد منڈلاتے دیکھتی ہو جسے وہ تمام پاکیزہ اور سچے پیار اور خوبصورتی سے سراہتی ہو۔یہ کیسا خوفناک عذاب ہے۔آغاز عورت میں کمزوری پیدا کرنے اور مرد کو طاقت بخشنے سے ہوا۔یہ آدمی کے بگڑے ہوئے قانون اور مقدس پیار اور دل کے متبرک مقصد کے درمیان ہولناک جنگ ہے۔‘‘

مذکورہ افسانے میں سماج کے سامنے سماج کے ان تلخ حقائق کو جبران نے اپنی تحریروں کے ذریعے عیاں کرنے کی کوشش کی ہے۔جبران کی تمام شعری و نثری تخلیقات میں جبران کے باغیانہ افکار اور روایت شکنی کو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔

جبران کی تمام تخلیقات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ جبران قوم و ملت کے مسیحا ہیں۔ جبران کی وسعتِ نظری اور آفاقی فکر ایسے رسوم و عقائد کا برابر جائزہ لیتی رہی جو سماج کو صدیوں سے کھوکھلا کرتی چلی آرہی ہے۔ جبران قوم کا مسیحا نظر آتا ہے۔ان کی ذہانت و فطانت ایسی روایات کو برداشت نہ کر سکی۔ انسانوں کا سیاسی، سماجی، معاشی، جذباتی استحصال وہ کسی طرح برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ان کی تمام تخلیقات سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ قوم کے چارہ گر اور غمگسار تھے۔کبھی خوابیدہ قوم کو حکمراں طبقے کے ظلم سے بیدار کرتے ہیں۔ قوم کے اس سوز و گداز میں وہ کبھی باغیانہ روش اختیار کرتے ہیں اور کبھی شفقت و نرمی کا پہلو اختیار کرتے ہیں۔جبران کی ہر تحریر میں ایک انقلابی و اصلاحی سوچ عیاں ہے۔زندگی کا اکثر حصہ دیارِ غیر میں گزارنے کے باوجود جبران اپنے لوگوں اور وطن کی مٹی سے ہمیشہ جڑے رہے۔

لبنان کی تاریخ میں جبران کی سرفروشی اور روایت شکنی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔جبران بطورِ شاعر، ادیب، مصور، روایت شکن،باغی کے علاوہ ایک انسانیت کے ہمدرد اور غمخوار کی حیثیت سے انسانی تاریخ میں ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔


مراجع و مصادر

  1. جدید عربی شاعری: ڈاکٹر فوزان احمد، جامعہ سلفیہ بنارس 2008
  2. جدید عربی ادب اور ادبی تحریکات۔ڈاکٹر ابو عبید۔الکتاب انٹرنیشنل،نئی دہلی2011
  3. سرکش روحیں اور آبی پریاں۔جبران خلیل جبران۔روشان پرنٹرس،دہلی2018
  4. روح کے آئینے اور گلبدن۔جبران خلیل جبران2018
  5. جدید عربی ادب: ڈاکٹر شوقی ضیف،روشان پرنٹرس، دہلی 2014

 

Dr. Ghazala Parveen

Lecturer in Arabic

Dr. Rafiq Zakaria College for Women Aurangabad - 431001 (MS)

Mob.: 9850782985

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...