3/1/24

ازبیکستان میں اردو زبان و ادب: قرۃ العین


ازبیکستان مرکزی ایشیا کا ایک اہم ملک ہے جس کا شمار دنیا کے قدیم ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ خشکی اور خوبصورت پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اس کی سرحدیں مغرب اور شمال میں قزاخستان مشرق میں کرگستان اور تاجکستان، جنوب میں افغانستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ یہ دنیا کا دوسرا ایسا ملک ہے جس کے چاروں طرف ایسے ممالک ہیں جو خود بھی سمندر سے محروم ہیں۔ آزادی کے بعد اس ملک کی قومی زبان ازبیک ہے۔ یہ ایک ترکی زبان ہے جو ترکی اور دیگر ترک زبانوں سے ملتی جلتی ہے۔ ازبیکستان عہد قدیم سے ہی ایک علمی مرکز رہا ہے خواہ اسلامی علوم و فنون ہوں یا ادبی و ثقافتی، دیگر ممالک نے بھی یہاں کے علمی سوتے سے فیض حاصل کیا ہے۔ بڑے اورعظیم اسکالروں کا تعلق بھی اس سرزمین سے رہا ہے۔ حدیثوں کو یکجا کرنے والے امام بخاری کا تعلق بھی ازبیکستان کے شہر بخارا سے رہا ہے۔ ان کے علاوہ ابن سینا، البیرونی، الخوارزمی، احمد الفرغانی وغیرہ بھی ازبیکستان کے ہی رہنے والے تھے۔  ہندوستان سے مرکزی ایشیا اور خاص طور پرازبیکستان سے رشتے کافی پرانے ہیں۔

مذہبی، لسانی تجارتی اور تہذیبی تناظرمیں ہندوستان کی تاریخی اہمیت کا جائزہ لیا جائے تو ازبیکستان کا ذکر خصوصی طور پر سامنے آتاہے۔ ازبیکستان سے سماجی سیاسی، تہذیبی، تمدنی، تجارتی اور لسانی سطح پر ہندوستان سے بہت قریبی مراسم رہے ہیں اور ہندوستان کو انھوں نے متاثر بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1995 سے قبل جب ازبیکستان کو باقاعدہ ایک ملک ہونے کا درجہ حاصل نہیں تھا یا ازبیکستان اپنی خصوصی ریاست کے لیے سرگرم جدو جہد تھا اورمتحدہ روسی نظام کے ماتحت ہونے کے باعث یہ اپنے وجود یا وقار کی جنگ لڑ رہا تھا۔ بالآخر 1991 میں جب اسے آزادی کا پروانہ ملا تو اس پر مہر لگانے والا یا اسے عالمی افق پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہندوستان بنا اور سب سے پہلے اس کو آزادی کی مبارک باد پیش کی۔ اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ازبیکستان اور ہندوستان کے آپسی مراسم اور رشتے کس قدر مضبوط اور مستحکم ہیں۔

اردو جنوبی ایشیا کی ایک اہم اور بڑی زبان ہے۔ یہ بھارت کی بائیس قومی زبانوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اس زبان پر بھی کچھ اہم زبانوں کے اثرات نمایاں ہیں۔ مثلا سنسکرت اور اپ بھرنش کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی، ترکی اور ازبیک وغیرہ۔ اگرچہ اردو کی بنیاد کھڑی بولی اور اب بھرنش زبانوں اور بولیوں پر استوار ہے۔ فارسی کا کئی صدیوں تک بھارت میں سرکاری زبان ہونا ایک ایسا عمل ہے جس نے ہندوستانی زبانوں میں اپنے گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔

ہندوستان کی زبان پر فارسی کے توسط سے یا بالواسطہ فارسی کے توسط سے اردو پر ازبیک کے اثرات بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ گرچہ فارسی اورترکی کے اثرات ازبیک کے مقابل زیادہ نمایاں ہیں، لیکن ازبیک چونکہ ترکی سے زیادہ قریب ہے پھر بھی ازبیک پر فارسی کے اثرات بہت زیادہ نمایاں ہیں۔ اس لیے بہت سی چیزیں جو ازبیک کے راستے ہندوستان پہنچی جیسے کھان پان، لباس اور زبان جو ازبیک سے تھی لیکن فارسی کے خانے میں چلی گئی، کیونکہ بھارت کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ یہ بھی ہے کہ بہت سی روایتیں جو فارسی اورازبیک کی مشترکہ تھیں وہ آج اردو کا بھی حصہ ہیں۔

عالمی منظرنامے پرازبیکستان ایک ایسا ملک ہے جس سے اردو زبان و تہذیب کے قدیم ترین رشتے ہیں۔ اس کا آغاز ہندوستان میں ازبیکوں کی آمد سے ہوتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان کے تہذیبی و ثقافتی اور لسانی دھارے میں خود کو شامل کر کے ایک نیا رنگ دیا۔ اردو زبان کی لفظیات میں ازبیکی الفاظ کا اضافہ کیا۔ نیزحدود سلطنت کی وسعت کے ساتھ ساتھ اردو زبان کا دائرہ بھی وسیع کیا۔ دوسری طرف ہندوستانی مسلمان جب ازبیکستان گئے تو اپنے ساتھ یہ زبان بھی لے گئے۔ اس کے علاوہ ازبیکستان کو ہم اس اعتبار سے بھی جانتے ہیں کہ یہ اردو ادب و تہذیب کا بڑا گہوارا بھی ہے۔ اردو تدریس کے لحاظ سے ازبیکستان اردو کی ایک اہم بستی ہے۔

آزادی کے بعد ہی ازبیکستان کی تاشقند یونیورسٹی میں باقاعدہ السنہ ہند کے نام سے شعبہ قائم ہوگیا تھا جہاں اردو زبان وادب کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تہذیب، تاریخ اور سیاست وغیرہ کے مضامین پڑھائے جاتے تھے، ابتدا میں اس شعبے کے پہلے ہندوستانی استاد مدن تھے جو پہلے اردو پڑھاتے تھے پھربعد میں ہندی زبان پڑھانے لگے۔ انہیں روسی زبان میں بھی مہارت حاصل تھی۔

مشرق وسطی میں تاشقند اردو، ہندی تعلیم و تدریس کا ہمیشہ سے عظیم مرکز رہا ہے۔ یہاں کے ادیبوں میں کئی بڑے نام شامل ہیں جنھوں نے اردو زبان و ادب اور ہندی ادب کی نہایت ہی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان میں رحمان بیردی محمد جانوف، نبی جان محدوف، زینت اللہ عاشور بائف، فتح تیشا بائف، صورت میر قاسموف، طاہر ابراہیموا، آزاد شاماتوف، تاش مرزا، سونیا چیر نیکوا، قربان بیگ، غفور رخصت وغیرہ اولین جماعت تھی جو باقاعدہ مدن جی کے شاگرد تھے اور انھیں کی نگرانی میں اردو زبان سیکھی۔ یہ لوگ بعد میں ازبیکستان کے مختلف اداروں میں اردو تدریس کے فرائض پر مامور ہوئے۔ اس کے علاوہ ازبیکستان میں موجود اردو ہندی کے چند اور اردو اساتذہ کے نام یہ ہیں پروفیسر الفت محب، مکتوبہ مرتضی خوجہ، ڈاکٹر محیا عبدالرحمانوا، مخلصا صاحبہ، امید صاحبہ،ماہرہ صاحبہ اور مخرم صاحبہ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

رحمن بیردی محمد جانوف: ازبیکستان میں اردو زبان و ادب کو فروغ دینے والے رحمن بیردی اردو کے بڑے محسن اور سرپرست تھے۔ وہ ازبیک اور اردو زبان و تہذیب کے سچے علم بردار تھے۔ اردو زبان وادب کے قواعد کے تمام پہلووں پر قدرت کاملہ رکھتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد کثیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں ازبیکستان میں اردو کا سب سے بڑا کتب خانہ ان کا گھر تھا جہاں اردو کی نادر ونایاب کتابیں موجود تھیں۔ رحمن صاحب بہت کم گو اور منکسرالمزاج شخصیت کے مالک تھے ہمیشہ تحقیقی اور علمی کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ انھوں نے باقاعدہ تاشقند کے اسکولوں اور یونیورسٹی کے اردو کورسز کے لیے درسی کتابیں تیار کیں۔ تدریسی اور غیر تدریسی کتابوں کے علاوہ ان کا اہم کارنامہ ترجمہ نگاری بھی ہے۔ انھوں نے اردو شعر وادب کو ازبیکی زبان میں منتقل کیا مثال کے طور پر غالب کے اردو دیوان کے منتخب کلام کو ازبیک زبان میں پیش کیا۔ اس کے علاوہ پریم چند کے مشہور ناول گئودان کا ترجمہ بھی کیا۔ وہ نہ صرف اردو سے ترجمہ کرتے تھے بلکہ از بیک ادیبوں اور شاعروں کی تصانیف کے تراجم بھی اردو میں انجام دیتے تھے۔ ان میں علی شیر نوائی۔ عمیر الدین باندہ اور جدید ازبیک شعرا کے کلام شامل ہیں۔ ان کے اردو سے کیے گئے ترجموں میں پریم چند، راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، کرشن چندر، سجاد ظہیر جیسے ادیبوں کی تخلیقات قابل ذکر ہیں۔ وہ خود بھی اردو میں شاعری کرتے تھے۔

نبی جان محدوف: ازبیکستان میں باقاعدہ سردار جعفری کی شاعری پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریت کی سند حاصل کرنے والے پہلے اسکالر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت ہی ذہین، خوش گفتار، حاضر جواب اور وسیع المطالعہ شخصیت کے ماہر انسان تھے۔ اردو ازبیکی اور روسی زبانوں میں یکساں مہارت تھی جس کی وجہ سے وہ اکثر سرکاری و غیر سرکاری پروگراموں میں مترجم کے فرائض انجام دیتے تھے۔ نبی جان ترجمہ نگار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ مرزا ہادی رسوا کا شاہکار ناول امراو جان ادا کا ترجمہ ازبیک زبان میں کیا جو بہت مقبول ہوا۔ اس کے علاوہ سردار جعفری اور فیض کی شاعری کا بھی ترجمہ انھوں نے کیا۔

زینت اللہ عاشور بائف: تاشقند کے اورینٹل انسٹی ٹیوٹ کے ممتاز اسکالروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ انھوں نے منٹو کی کہانیوں پر پی ایچ ڈی کی اس کے علاوہ منٹو کی کہانیوں کا ازبیک میں ترجمہ بھی کیا۔ انھوں نے اردو زبان بہت محنت سے سیکھی اور وہ روانی سے اردو میں باتیں کیا کرتے تھے۔

فتح تیشا بائف: ساٹھ کی دہائی میں ازبیکستان سے جن طلبا کی جماعت اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہندوستان آئی تھی ان میں ایک اہم نام فتح کا ہے یہاں دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور طالب علم رہے۔ بعد میں سر سید کے سماجی افکار کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ازبیکستان کے سابق صدر اسلام کریموو کے دور حکومت میں نائب وزیر خارجہ کی ذمے داری نبھائی اس کے بعد امریکہ میں سفیر کے باوقار عہدے پربھی فائز رہے۔ ازبیکستان کی اردو دنیا میں انھوں نے اپنی صلاحیت، محنت اور ذہانت سے جو مناصب حاصل کیے اس میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ فتح صاحب ہندوستان میں جب ازبیکستان کے سفیر بنائے گئے تو سب سے پہلے انھوں نے یہ کوشش کی کہ دونوں ملکوں کے لسانی، ثقافتی اور تجارتی رشتے مزید مستحکم ہوں اور اس کے توسط سے دونوں ممالک کی زبان کو بھی فروغ حاصل ہو۔ اس کے لیے دہلی میں ایک ہند ازبیک سوسائٹی بھی بنائی گئی جس کے تحت ازبیکستان کے قومی تہوار منانے کے ساتھ ساتھ کئی ادبی وثقافتی سمینار بھی منعقد کیے گئے۔

طاہر ابراہیموو: طاہر ابراہیموا کا شمار بھی ازبیکستان کے نامور اردو ادیبوں اور دانشوروں میں ہوتا ہے۔ اردو زبان وادب سے ان سے والہانہ لگاؤ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ تاشقند کے ایک اعلی اشاعتی مرکز غفور غلام کے اہم ذمے دار تھے تو آپ کی سرپرستی میں اس ادارے سے کلاسیکی اور جدید اردو ادب کی کئی کتابیں ترجمہ ہوکر شائع ہوئیں۔ جس میں ایک نہایت ہی اہم کام میرامن دہلوی کی داستان ’باغ وبہار‘ کا ازبیک ترجمہ ہے جسے انھوں نے خود کیا۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس داستان کا پہلا اڈیشن ساٹھ ہزار شائع ہوا اور چند مہینوں میں ہی یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئی۔ در اصل قصہ چہار درویش ازبیکستان میں بہت مقبول تھی اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کا ترجمہ بھی آسان اور عام فہم زبان میں کیا گیا تاکہ ہر ایک کو سمجھ میں آسکے۔

آزاد شاماتوف: ازبیکستان میں اردو کے حوالے سے پروفیسر آزاد شاماتوف ایک معتبر نام ہے۔ انھوں نے ڈاکٹریٹ کے ساتھ ڈی لٹ کی اعلی سند بھی حاصل کی۔ ان کی صلاحیت اور علمیت کا ہر کوئی معترف ہے۔ درس وتدریس ان کا اصل میدان تھا وہ نہایت ایماندار اور اصول پسند تھے اور شعبے کے دیگر اساتذہ کی تربیت کیا کرتے تھے کہ درس وتدریس اور علمی کاموں میں محنت و جانفشانی سے کام کریں تاکہ طلبا پر اس کا مثبت اثر ہو۔ اردو لسانیات، زبان کی نشو و نما اور اس کی لسانی خصوصیات کے حوالے سے آزاد شاماتوف کا نام سر فہرست ہے۔ آزاد شاماتوف کا اصل میدان دکنیات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دکنی ادب، خصوصی طور پر قطب مشتری اور دیگر دکنی ادبیات کی روشنی میں انھوں نے لسانیات کے حوالے سے اہم کام کیے ہیں علاوہ ازیں دیگر جرائد ورسائل میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ ان کے اردو شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جو ازبیکستان کے مختلف شعبوں میں اردو کے حوالے سے کام کر رہے ہیں جیسے مختلف اداروں میں درس وتدریس، ٹی وی، ریڈیو کے علاوہ سیر وسیاحت کی جگہیں اور ائیر پورٹ وغیرہ۔ آزاد شاماتوف کو ازبیکستان میں اور خاص طور پر ادبی وعلمی حلقوں میں نہایت ہی عزت واحترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔

غفور رخصت الائف: ازبیکستان کے اردو منظر نامے پر ایک اہم نام غفور رخصت کا ہے۔ ان کا تعلق ایک زمانے تک ریڈیو ازبیکستان کے شعبہ اردو سے تھا جہاں وہ نہایت ہی ہنرمندی اور مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے پروگرام کرتے تھے۔ غفور جان تاشقند کی مشرقیاتی یونیورسٹی میں اردو کے استاد بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ جب ازبیکستان کے شہر تاشقند میں ماسکو کا اردو اشاعت گھر قائم ہوا تو ان کو اس کی اہم ذمے داری دی گئی اور اس ذمے داری کا حق ادا کرتے ہوئے انھوں نے بے شمار ازبیکی شعر و ادب کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرایا۔ اس کے علاوہ خود بھی کئی ازبیک ادیبوں کی کتابوں کو اردو میں منتقل کیا۔

سونیا چیر نیکوا: اردو میں تحقیق کا کام ہمیشہ سے اہم رہا ہے اس اعتبار سے دیار غیر میں سونیا چیر نیکوا ایک نمایاں نام ہے۔ تحقیق کے موضوع پر ان کی کتاب اردو کے صیغے ایک اہم کتاب ہے۔ تاشقند یونیورسٹی میں ایک عرصے تک اردو کی استاد تھیں۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اردو پڑھنے، پڑھانے،سیکھنے،سکھانے اور اس زبان کی خدمت و تحقیق میں صرف کردی۔ انھیں اردو محاورے اور قواعد پر غیر معمولی دسترس تھی۔ اردو زبان میں نہایت شائستگی، شگفتگی اور روانی سے باتیں کیا کرتی تھیں۔ اردو میں مرکب افعال کی اقسام، پر ان کی ایک اہم کتاب موجود ہے جسے انھوں سب سے پہلے روسی زبان میں شائع کرایا پھر بعد میں خود اردو میں منتقل کیا۔

ازبیکستان کی کئی یونیورسٹیز میں باقاعدہ اردو زبان کی تدریس ہوتی ہے جن میں مشرقیاتی یونیورسٹی تاشقند اور تاشقند اسٹیٹ یونیورسٹی آف اورینٹل اسٹڈیزکے نام قابل ذکر ہیں۔ ازبیکستان میں اردو زبان کی درس و تدریس کا باقاعدہ آغازتو 1920 میں ہوچکا تھا جب تاشقند میں فارسی زبان کے ساتھ ساتھ اردو کی بھی تعلیم جاری کر دی گئی تھی۔ لیکن اس وقت اردو شناسی کو زیادہ فروغ حاصل نہیں ہوا اور سب سے پہلے مشرقیاتی یونیورسٹی میں اردو کی پڑھائی شروع ہوئی۔ اس طرح ازبیکستان میں اردو تعلیم کا آغاز تو 1920میں ہی ہوا لیکن حال میں وہاں کی مختلف یونیورسٹیز میں اردو زبان وادب کی تہذیبی تاریخی اور لسانی موضوعات پر باقاعدہ ڈاکٹریٹ بھی ہورہی ہے۔ بعد کے اساتذہ میں ڈاکٹر تاش مرزا، ڈاکٹر محیا عبدالرحمانوا، محترمہ مکتوبہ مرتضی، محترمہ امید صاحبہ اور ماہرہ صاحبہ وغیرہ بھی اہم ہیں۔ ان اساتذہ نے بھی ازبیکستان میں اردو زبان کی تعلیم اور اس کی بنیاد کو مستحکم کیا۔

پروفیسر تاش مرزا:ازبیکستان میں اردو ادب کے حوالے سے ایک نمایاں نام مشہورشرق شناس، سوویت اور ازبیک سفارتکار، ماہر لسانیات، ازبیکستان میں اردو کے بڑے محسن استاد ڈاکٹر تاش مرزا صاحب کا ہے۔ تاش مرزا نے ازبیکستان میں اردو کو دورِنو سے روشناس کرایا۔ اردو میں جو تبدیلی آئی اس کو بھی انھوں نے واضح کیا۔ وہ ساری عمر اردو پر کام کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ انھوں نے روسی اردو روسی صفات ترتیب دی اس اہم کاوش پر انھوں نے تیس سال کام کیا۔ اردو زبان کی گرامر، نحو، تاریخ اور تبدیلی پر مرزا صاحب کی کئی کتابیں اور مقالے ہیں۔ جن میں دو لغات بھی شامل ہیں، اردو روسی اور اردو ازبیک ڈکشنری کے علاوہ، اردو ریڈراور ہندوستان میں اردو کی ترویج کی چند خصوصیات وغیرہ اہم ہیں۔ ڈاکٹر تاش مرزا کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ انھوں نے وسطی ایشیا اور خاص کر ازبیکستان میں سیکڑوں اردوداں اور ہزاروں ماہرین کی تعلیم و تربیت کی۔ مشرقیاتی یونیورسٹی تاشقند میں اردو کے پروفیسر تھے اب وہ سبک دوش ہوچکے ہیں۔

ڈاکٹر محیا عبدالرحمانوا: اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل لنگویجیز تاشقند میں اردو ادب کی استاد اورغالب شناس ڈاکٹر محیا عبدالرحمانوا ایک معتبر نام ہے۔ انھوں نے قدیم اردو کے افعال پر کام کیا۔ محترمہ محیا صاحبہ غالب کی غزلوں کو ازبیکی زبان میں، ازبیک زبان میں غالب کی غزلوں کا انتخاب اور امام بخاری کے ملک میں چند روز، نامی سفرنامہ کا  ترجمہ کر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی کتابوں میں اردو ادب اور زبان، بابر کے زمانے کی زبان کے علاوہ مختلف جرائد ورسائل میں متعدد مضامین بھی ان کے شائع ہو چکے ہیں۔

پروفیسر الفت محب: مرکزی ایشیائی ملک ازبیکستان کا شہر تاشقند زمانہ قدیم سے اردو کی تعلیم وتدریس کے لیے اہم مرکز رہا ہے۔ خاص طور پراسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز تاشقند، جہاں 1947 سے ہی اردو ہندی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اس ادارے سے کئی اہم شخصیات وابستہ رہی ہیں جن میں پروفیسر الفت محب صاحبہ کا نام بھی ہے۔ اس وقت وہ اس شعبے کی صدر ہیں۔ بابری عہد کے ادب پر ان کا بڑا اہم تحقیقی کام ہے۔

ڈاکٹر لولا مکتوبہ مرتضی: اردو ازبیکستان کی ایک مقبول زبان ہے جس میں ماہرین  اردو اساتذہ اور طلبا کی ایک اہم تعداد موجود ہے۔ جن میں لولا مرتضی کا نام بھی اہم ہے۔ تاشقند اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز میں اردو اور ہندی کی استانی ہیں۔ وہ تقریباً تیس برسوں سے اردو زبان وادب سے وابستہ ہیں۔ اردو زبان کے حوالے سے ان کا خیال ہے کہ یہ بہت ہی خوبصورت اور پیاری زبان ہے۔ وہ اردو نہایت ہی آسانی اور روانی سے بولتی ہیں۔

ان کے علاوہ اور بھی دیگر شخصیات جو اردو زبان وادب کی تدریس سے وابستہ ہیں جن میں ڈاکٹر سراج الدین نورمتو، موجودوہ صادیقوا، سلیمانوامعمورا، شارا حمیدوامخلصہ، کمالہ ارگا شوا اور محترمہ تمارا خوجائیوا صاحبہ بہت ہی اخلاص اور محنت و مشقت سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان اساتذہ میں بہت سے ایسے ہیں جن کے مضامین ہند و پاک کے رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ زیادہ تر اساتذہ پی ایچ ڈی کے علاوہ ڈی لٹ کی بھی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ازبیکستان میں اردو زبان وادب کی تاریخ اوراردو تدریس و تعلیم تقریباً سو سالوں سے  بڑے پیمانے پر وہاں کی مختلف یونیورسٹیوں میں باضابطہ ہورہی ہے۔ ازبیکستان میں اردو زبان و ادب کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سو سال سے زائد عرصے سے وہاں کی یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جا رہی ہے۔ ازبیکستان میں اردو کو نہ صرف ایک زبان کے طور پر پڑھایا جاتا ہے بلکہ اس کے پس منظرمیں قدیم ترین دوستی اور ایثار و قربانی کے جذبے کی پوری تاریخ موجود ہے جسے ازبیکی کبھی فراموش نہیں کرنا چاہتے۔ کیونکہ تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی طور پر ہندوستان اور ازبیکستان کی عوام ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اور لسانی اعتبار سے اردو اورازبیکی زبانیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ رسم الخط میں تبدیلی کے باوجود ان کے پاس لاتعداد الفاظ، کہاوتیں عام ہیں۔ اسی لیے ازبیکی برصغیر کو اپنا دوسرا وطن اور اردو زبان کو اپنا قدیم اور قیمتی اثاثہ و سرمایہ سمجھتے ہیں۔

حوالہ جات

  1.    ارمغان تاشقند، مرتبہ نو بہار صابر
  2.      ازبیکستان، انقلاب سے انقلاب تک۔ پروفیسر قمر رئیس
  3.      ماہنامہ انشا، (رسالہ) کولکاتہ، مئی، جون 2007
  4.      تاشقند کا جوہری، محمد طاہر نقاش
  5.     ازبیکستان اور علی شیر نوائی۔ پروفیسر قمر رئیس

 

Dr. Qurratulain

Bhartiya Bhasha Samiti

Ministry of Education

3rd Floor, A Wing Vishwakarma Bhawan

IIT, Katwaria Sarai

New Delhi- 110016

Mob.: 9810102723

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...