ساحرکے اندر شاعری
کی بھرپور صلاحیت موجودتھی اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے غزلیں، نظمیں، نغمے، دوہے، حمد،
قوالی، بھجن اور دوگانوں وغیرہ کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات، افکار و نظریات اور
تجربات و مشاہدات کو پیش کرکے اپنے آپ کو ایک مکمل شاعر ثابت کیا۔ ساحر نے تجربات
و حوادث کی تلخیاں خود نو ش کی، لیکن عوام
و خواص کے لیے امرت کا پیالہ پیش کیا۔ اُن کا پورا کلام عظمت انسانی، اخوت و محبت،
امن و آشتی اور مذہبی رواداری سے لبریز ہے۔ کلام ِ ساحرکی سحر طرازی نے اپنے معاصرین
و متاخرین میں نہ صرف ان کا قد بلند کیا، بلکہ انفرادیت کا وقار بھی عطا کیا۔
ساحر کی شاعری کے موضوعات میں رومان و انقلاب، ہندوستانی
تہذیب و معاشرت کی عکاسی، جبر و استحصال کے خلاف احتجاج، کسانوں، مزدوروں اور غریبوں
کے مسائل، امن و آشتی، انسان دوستی اور مذہبی رواداری وغیرہ اہم ہیں۔ ان کے کلام کے
چار مجموعے تلخیاں، پرچھائیاں، آؤ کہ کوئی خواب بنیں اور ’گاتا جائے بنجارا‘ ہیں۔
مؤخر الذکر ساحر کے فلمی نغموں کا مجموعہ ہے۔
ساحر کی شاعری کا آغاز
زمانۂ طالب علمی میں ہی ہو گیا تھا،
لیکن ان کی قسمت کا ستارہ اُس وقت اَوجِ ثریا پر مقیم ہوا جب وہ فلمی دنیا سے
وابستہ ہوئے۔ جس وقت ساحر لدھیانوی نے فلمی دنیا میںقدم رکھا ا س وقت فلمی نغموں میں
رکیک، عریاں، فحش اور گھٹیا قسم کی شاعری ہوتی
تھی۔ فلمی شاعری تک بندی اور پھوہڑپن تک محدود تھی۔ فلمی شاعری صرف روزی کمانے کا ذریعہ
تھی ا ور اسی لیے فلمی گیتوں میں معاشرتی تقاضوں اور تہذیبی قدروں کا فقدان تھا۔ ساحر
نے شعوری طور پر فلمی نغموں میں ادبیت کی روح پھونکی۔ شروع شروع میں ساحر کو بھی
مروجہ فلمی شاعری سے ملتی جلتی شاعری کرنی پڑی، لیکن جلد ہی انھوں نے اپنے آپ کو سنبھال
لیا اور اپنی فکری و فنی صلاحیتوں کی بدولت فلمی نغموں کو ادبیت اور سنجیدگی کا معیار
بخشا۔ ساحر سے قبل آرزو لکھنوی ہی ایک ایسے شاعر تھے جنھوں نے فلمی نغموں میںکچھ حد
تک ادبیت پیدا کرنے کی کوشش کی اور آرزو لکھنوی کے علاوہ شکیل بدایونی، مجروح سلطانپوری، قتیل شفائی اور راجہ مہدی علی خاں نے فلم بینوں
کے مزاج اور فلمی نغموں کے معیار کو بدلنے کی کوشش کی لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
ساحر لدھیانوی ہی وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اپنے اکابرین و معاصرین کی کوششوں کو عملی
جامہ پہنایا اور فلمی دنیا کو ایسے نغمات عطا کیے جن میں مقصدیت اور پیغام کے ساتھ
سماجی، سیاسی اور عصری مسائل کی گونج پہلی بار سنائی دی۔ ساحر نے فلمی نغموں کو ذہنی
گندگی، فحاشی و عریانیت سے پاک کرکے صاف ستھرا
ادبی ذوق عطا کیا۔
ساحر ایک فطری شاعر
تھے اس لیے انھوں نے فلمی گیتوں کو ہی تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنایا اور فلمی شاعری
اور ادبی شاعری کو ایک دوسرے میں مدغم کرکے فلمی شاعری کو ادبی شاعری کے ہم پلّہ بنا
دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ساحر کے فلمی نغموں کو عوام کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق رکھنے والوں
نے بھی خوب سراہا اور ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ساحر پہلی بار اپنے فلمی نغموںکو ’ گاتا جائے
بنجارا‘ کے نا م سے کتابی صورت میں 1974میں منظر عام پر لائے۔ ’گاتا جائے بنجارا‘ میں کل 169 نغمے شامل ہیں، جو غزل، نظم، دوہے، دوگانے،
حمد، قوالیاں اور بھجن، کیرتن وغیرہ کا مجموعہ ہیں۔ اس کتاب کے ابتدائیہ میں اپنی
فلمی شاعری کے حوالے سے ساحر لدھیانوی لکھتے ہیں :
’’ فلم ہمارے دَور کا سب سے مؤثر اور کارآمد
حربہ ہے، جسے اگر تعمیری اور تبلیغی مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو عوامی شعور کی
نشوونما اور سماجی ترقی کی رفتار بہت تیز کی جا سکتی ہے۔‘‘ 1
ساحر نے فلمی گیتوںکو
مسائل حیات سے وابستہ کرکے اپنے مقصد کی ترویج و اشاعت کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال
کیا اور فلمی نغموں کو حصول زر سے زیادہ اپنے مقصد کی تبلیغ کا ذریعہ بنایا۔ فلمیں
چونکہ نشر و اشاعت کا بہترین اور مؤثر ذریعہ تھیں جس سے ساحر نے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ ساحر نے فلمی گیتوں میں اپنے مقصد کو شامل کرکے
ایک نئی زندگی اور نیا وقار عطا کرنے کے ساتھ فلمی گیتوں کا قلابہ امکانات کی نئی راہوں
سے ملا دیا۔ ’گاتا جائے بنجارا ‘ کے ابتدائیہ میں اپنی فلمی نغمہ نگاری کے مقاصد کو
واضح کرتے ہوئے ساحر رقم طراز ہیں :
’’ میری ہمیشہ
یہ کوشش رہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو فلمی نغموں کو تخلیقی شاعر ی کے قریب لا سکوں اور
اس صنف کے ذریعے سیاسی اور سماجی نظریہ عوام تک پہنچا سکوں۔ ‘‘ 2
ساحر کے فلمی کیریئر
کا آغاز فلم ’بازی ‘ اور ’پیاسا‘ سے ہوا۔
اس کے بعد اپنے فلمی کیریئر میں ساحر نے تقریباً
ساٹھ ستر فلموں کے نغمے لکھے جن میں سے پیشتر نغمے آج بھی لوگ گنگناتے
ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ساحر کے فلمی نغموں
کے موضوعات میں وسعت اور تنوع ہے۔ ’گاتا جائے بنجارہ ‘ کے نغموں میں جن موضوعات کو
مرکزی حیثیت حاصل ہے، ان میںعشق و محبت، استحصالی نظام کے خلاف احتجاج، انسانی اقدار،
امن و آشتی، خود اعتمادی، انسانی زندگی کی ناپائداری، اتحاد و اتفاق اور میل محبت،
جنگ آزادی اور عوام کی بیداری، عورت کے تقدس کی پامالی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، سیکولر
اقدار اور مذہبی رواداری وغیرہ اہم ہیں۔
مذہبی رواداری پر ساحر
کے نغمے لاجواب اور لازوال ہیں جن کی مقبولیت آج بھی بر قرار ہے۔ فلم ’برسات
کی رات‘ کی قوالی میں مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، وحدت معبود اور پیام
ِ ا من کی بات کو ساحر نے مؤثر پیرائے میں بیان کیا ہے۔ یہ اشعار دیکھیں ؎
کعبہ میں رہو یا کاشی
میں نسبت تو اسی کی ذات سے ہے
تم رام کہو کہ رحیم
کہو ، مطلب تو اسی کی ذات سے ہے
یہ مسجد ہے وہ بت خانہ
چاہے یہ مانو چاہے وہ مانو
مقصد تو ہے دل کو سمجھانا
چاہے یہ مانو چاہے وہ مانو
یہ شیخ و برہمن کے
جھگڑے سب نا سمجھی کی باتیں ہیں
ہم نے تو ہے اتنا جانا
چاہے یہ مانو چاہے وہ مانو
گر جذب محبت صادق ہو
، ہر در سے مرادیں ملتی ہیں
ہر گھر ہے اسی کا کا
شانہ چاہے یہ مانو چاہے وہ مانو
ساحر کا مقصد یہ ہے
کہ ہندو مسلمان دونوں بلا تفریق مذہب و ملت آپس میں شیر و شکر ہوکر زندگی گذاریں اور
ان کے درمیان مذہب کولے کر کوئی خلیج باقی نہ رہے۔
ساحر کا ایک مشہور
ہندی نغمہ ’ تو ر امن درپن کہلائے‘ ہے۔ اس ہندی گیت میں ساحر لدھیانوی نے من کی صفائی
کا پیغام دیا ہے۔ من، دل یا نفس کو کینہ و بغض اور آپسی عداوت سے پاک صاف رکھنے کی
تعلیم تقریباً سارے مذاہب میں ملتی ہے۔ من یا دل ہی وہ جگہ ہے جہاں ایشور یا اللہ
کا بسیرا ہوتا ہے۔ اسی لیے کبیر داس نے اپنے ایک دوہے میں دل کو پاک، صاف اور سچائی
سے سجانے کی تلقین کرتے ہوئے لکھا ہے
؎
سچ برابر تپ نہیں جھوٹ
برابر پاپ
جا کے ہر دئے ساچ ہیں
تا کے ہر دئے آپ
من اگر درپن کی طرح
صاف نہیں ہے تو اس دل میں ایشور کا بسیرا نہیں ہو سکتا۔ تو رامن درپن کہلائے کا بند
دیکھیں ؎
بھلے برے سارے کرموں
کو دیکھے اور دکھائے
من ہی دیوتا من ہی
ایشور من سے بڑا نہ کوئے
من اجیارا جب جب پھیلے
، جگ اجیارا ہوئے
جگ سے چاہے بھاگ کوئی
لے من سے بھاگ نہ پائے
سکھ کی کلیاں دکھ کے
کانٹے من سب کا آدھار
من سے کوئی بات چھپے
نا ، من کے نین ہزار
جگ سے چاہے بھاگ لے
کوئی من سے بھاگ نہ پائے
تو رامن درپن کہلائے
انسان کا من ہی اس
کے اعمال کا آئینہ ہوتا ہے۔ اگر من صاف ہے تو اس کے سارے اعمال اور کرم درست، ٹھیک
اور قابل قبول ہیں ورنہ سب بیکار ہے۔ ساحر نے اپنے اس ہندی گیت کے ذریعے تمام انسانوں
کو من صاف رکھنے کا آفاقی درس دیا ہے۔
ساحر کا مشہور زمانہ
فلمی بھجن ’ اللہ تیرو نام‘ ، ’ ایشور تیرو نام ‘ جو فلم ’ہم دونوں‘ میں شامل ہے ،
میں بڑی عقیدت کے ساتھ ایشور اور اللہ کو ایک مان کر سب کی خوش حالی اور خیر سگالی
کی دعا کی ہے۔ پہلے بھجن کے بند ملاحظہ فرمائیے ؎
اللہ تیرو نام ، ایشور
تیرو نام
سب کو سمتی دے بھگوان
اللہ تیرو نام، ایشور
تیرو نام
او سارے جگ کے رکھوالے
سب کو سمتی دے بھگوان
اللہ تیرو نام، ایشور
تیرو نام
بلوانوں کو دے دے گیان
سب کو سمتی دے بھگوان
اللہ تیرو نام، ایشور
تیرو نام
ساحر نے ’ سب کو سمتی
دے بھگوان ‘ کہہ کر سارے مذاہب کے لوگوں کے لیے عقل سلیم اور خوش حالی و خیر سگالی
کی دعا کی ہے۔ ساحر کا ماننا ہے کہ گیان یا عقل سلیم سے ہی مذہبی منافرت ختم ہو سکتی
ہے۔
فلم ’دو کلیاں‘ کا
نغمہ ’بچے من کے سچے سارے جگ کی آنکھ کے تارے ‘ بظاہر بچوںکی نفسیات پر لکھا گیا نغمہ
ہے لیکن اس نغمہ میں بڑی گہری معنویت ہے۔ ساحر نے بچوں کے حوالے سے انسانیت، اخوت و
محبت اور مذہبی رواداری کا درس دیا ہے۔ در اصل بچے آنکھ کے تارے اور سب کے دلارے اسی
لیے ہوتے ہیں کہ ان کے دل صاف ہوتے ہیں اور صاف دل میں بھگوان کا بسیرا ہوتا ہے
اس لیے یہ بچے بھگوان کو بھی پیارے لگتے ہیں۔ اگر انسان بھی ان بچوں کی طرح سیدھے ،
سچے اور صاف بن جائیں تو پوری دنیا سے مذہبی منافرت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ یہ بند دیکھیں ؎
بچے من کے سچے سارے
جگ کی آنکھ کے تارے
یہ وہ ننھے پھول ہیں
جو بھگوان کو لگتے پیارے
تن کو مل ، من سندر
ہیں، بچے بڑوں سے بہتر ہیں
ان میں چھوت اور چھات
نہیں جھوٹی ذات اور پات نہیں
بھاشا کی تکرار نہیں
مذہب کی دیوار نہیں
ان کی نظروں میں ایک
ہیں مندر مسجد گرو دوارے
فلم ’دھول کا پھول‘
کا نغمہ ’ تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا... انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا ‘‘ ہر
سننے والوں کے کانوں میں نہ صرف رس گھولتا ہے بلکہ گیت سنتے ہی وہ گیت کی مدھر
وانی میں گم ہو جاتا ہے۔ ساحر کا یہ نغمہ ان کی مثبت فکر کی غمازی کرتاہے۔ تقسیم ملک
کے وقت سرحد کے دونوں طرف مذہب اور ذات کے نام پر قتل و غارت گری کا ایسا ننگا ناچ
ہوا کہ شیطان بھی شرمسار ہو گیا۔ مذہب اور ذات پات کے نام پر خون کی جو ہولی کھیلی
گئی اْس سے ساحر لدھیانوی نے دل برداشتہ ہو کر یہ نغمہ لکھا اور ا س نغمے کے توسط سے
آنے والی نسلوں کو یہ درس دیا کہ وہ نہ ہندو بنیں اور نہ مسلمان بنیں بلکہ صرف انسان
بنیں۔ بند ملاحظہ فرمائیں ؎
تو ہندو بنے گا نہ
مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے
انسان بنے گا
مالک نے ہر انسان کو
انسان بنایا
ہم نے اسے ہندو یا
مسلمان بنایا
قدرت نے تو بخشی تھی
ہمیں ایک ہی دھرتی
ہم نے کہیں بھارت کہیں
ایران بنایا
نفرت جو سکھائے وہ
دھرم تیرا نہیں ہے
انسان کو جو روندے
وہ قدم تیرا نہیں ہے
قرآں نہ ہو جس میں
وہ مندر نہیں تیرا
گیتا نہ ہو جس میں وہ
حرم تیرا نہیں ہے
تو امن کا اور صلح
کا ارمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے
انسان بنے گا
ساحر اس مذہب کے متلاشی
ہیں جہاں نفرت کا ذرہ برابر بھی نام و نشان نہ ہو جہاں نہ کوئی ہندو ہو نہ مسلمان
ہو بلکہ صرف انسانیت کا مذہب ہو۔ اس نغمے کے توسط سے ساحر نے صلح کل کا آفاقی پیغام
پیش کیا ہے۔
فلم ’چتر لیکھا‘ کا
بھجن ’من رے تو کا ہے نہ دھیردھرے ‘‘ میں دنیاوی
موہ مایا کے چکر سے باہر نکلنے کا درس دیا ہے کیونکہ دنیا کی ساری پریشانیوں کی وجہ
موہ مایا ہی ہے۔ یہ بند دیکھیں ؎
من رے تو کاہے نہ دھیر
دھرے
وہ نر موہی موہ نہ
جانے ، جن کا موہ کرے
من رے تو کاہے نہ دھیر
دھرے
اسی طرح اپنے ایک بھجن
میں رام کے جنم اور ان کے بن باس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ رام کا اوتار
ہر جگ میں ہوتا رہا ہے لیکن دنیا والوں کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر رام کو بن باس
اختیار کرنا پڑتا ہے کیونکہ رام کی پوجا سب کرتے ہیں لیکن رام کی تعلیمات پر کوئی عمل
نہیں کرتا۔ دنیاوالوں کو اگر رام کا صحیح ارتھ معلوم ہو جائے تو سارے مذہبی جھگڑے ختم
ہو سکتے ہیں۔ بھجن کے بند ملاحظہ فرمائیں
؎
رام ہر جگ میں آئے
پر کون انھیں پہچانا
رام کی پوجاکی جگ نے
پر رام کا ارتھ نہ جانا
تکتے تکتے بوڑھے ہوگئے
دھرتی اور آکاس
جب جب رام نے جنم لیا
تب تب پایا بن باس
ساحر لدھیانوی نے بھی
رام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور رام کے صحیح ارتھ کو سمجھنے کا درس دیا ہے کیونکہ
رام کی شخصیت ایک عظیم انسان نمونہ ہے جن سے ہمیں ایثار و قربانی اور محبت و اخوت کا
درس ملتا ہے۔ اگر ہم رام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں تو ایک صحت مند سماج کا خواب
شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔ ساحر نے اپنے ایک دوسرے گیت میں پریشان حال لوگوں کو مخاطب
کرتے ہوئے کہا کہ ؎
آنا ہے تو آ راہ
میںکچھ دیر نہیں ہے
بھگوان کے گھر دیر
ہے اندھیر نہیں ہے
دوسرا مصرعہ تو عوام
و خوا ص میں اس قدر مشہور ہے کہ ہر غمزدہ انسان اپنے آپ کو یا ایک دوسرے کو تسلّی
دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ’ ’بھگوان کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے ۔‘‘
ایک دوسری جگہ ساحر
نے عوام الناس اورمسائل حیات میں الجھے ہوئے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے تمام
مسائل کو بھگوان کے سپرد کرنے کی تلقین کی ہے اور بھگوان کے گھر سے انصاف ملنے تک انتظار
کرنے کا درس دیا ہے۔ گیت کے اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
جب تجھ سے نہ سلجھیں
تیرے الجھے ہوئے دھندے
بھگوان کے انصاف پہ
سب چھوڑ دے بندے
خود ہی تیری مشکل کو
وہ آسان کرے گا
جو تو نہیں کر پایاوہ
بھگوان کرے گا
ساحر نے اپنے فلمی
نغموں میں صرف رام یا بھگوان کی تعلیمات کے ذکر پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ کرشن
بھگتی اور دوسرے مذہبی رہنماؤں کی تعلیمات کے ذریعے بھی مذہبی منافرت ختم کرنے کی
نہ صرف کوشش کی ہے بلکہ مختلف مذاہب کے مذہبی پیشواؤں اور رہنماؤں کی تعلیمات کو
بھی اپنے فلمی نغموں میں پیش کرکے انسانیت کا مذہب اپنانے کا درس دیا ہے۔
ساحر کے یہ تمام نغمے
سماجی و طبقاتی تفریق اور مذہبی منافرت کے خلاف ایک مثبت صدائے احتجاج ہیں۔ ان کے فلمی
نغموں کی پذیرائی عوام و خواص اور ہر طبقے کے لوگوں میں خوب خوب ہوئی۔ ساحر کی فلمی
شاعری کے حوالے سے جاں نثار اختر رقمطراز ہیں:
’’ کوئی شک
نہیں کہ ساحر کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے فلموںکو ایسے گیت دیے جو سیاسی اور سماجی تصور
سے لبریز ہیں۔ یہ ایک بڑا قدم ہے جو ساحرنے بڑی دلیری سے اٹھایا۔ ‘‘ 3
اس بات سے کسی کو انکار
نہیںکہ ساحر نے فلموں میں بھی آزادانہ طور پر اپنی پسند کی شاعری کی اور فلم کی ضرورتوں
کا ایک حد تک ہی خیال رکھا۔ ان کا نقطۂ نظر، ان کے فلمی گیتوں میں صاف طور پر
دکھائی اور سنائی دیتا ہے۔ بقول خلیل الرحمٰن اعظمی :
’’ ان کے فلمی گیت ایک طرف نغمہ و ترنم
سے لبریز ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان میں نئی کیفیات اور نئے مسائل کا احساس بھی
ہوتا ہے۔ ‘‘4
ساحر نے اپنے فلمی
نغموں کے ذریعے وہ سب کچھ کر دکھایا جو ایک حساس اور بیدار مغز شاعر یا ادیب کو کرنا
چاہیے۔ ساحر کے تقریباً سبھی فلمی نغمے حقائق حیات سے وابستہ ہیں اور اپنے عہد کی زندگی
سے براہ راست پیوستہ بھی۔ ساحر نے اپنے مذہبی نغموں کے ذریعے ایک منصفانہ سماجی نظام
اور امن عالم کے قیام کی مثبت کوشش کی اور اپنے نغموں کے ذریعے مذاہب کے باہمی ٹکراؤکو ختم کرنے کی شعوری طور پر کوشش کی۔ ساحر کے سبھی فلمی نغموں میں مقصدیت حاوی
ہے۔ ان کے فلمی نغموں میں جہاں سنجیدہ فکری عناصر ہیں وہیں مسرت و بصیرت سے بھی معمور
ہیں۔ ساحر ایک شاعر کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کا ایک مفکر و مدبر بھی تھا جس نے اپنے محسوسات
کو فلمی نغموں میں ڈھال کر سماجی و سیاسی شعور کا محرک بنا دیا۔
ساحر کی فلمی شاعری
ابہام سے پاک ہے۔ ساحر کی شاعری کی بنیاد شدت احساس ہے اور یہی شدت احساس اس کے اسلوب
کا حسن بھی ہے۔ ساحر نے اپنے فلمی نغموں کو احساس و فکر اور ادب کا جامہ پہنا کر اپنے
اسلوب کے معیار کو بر قرار رکھا۔ ساحر کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ فلمی نغموں کو سامعین
و ناظرین کے مزاج اور حسن سماعت کے پیکر میں ڈھال کر ادبی وقار عطا کیا اور عام
فہم اور عوامی زبان میں ایسے مسحور کن نغمے لکھے جس کو عوام و خواص اور ادبی ذوق رکھنے
والے سب نے پسند کیا۔ ساحر کی فلمی شاعری کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر ظ۔ انصاری
رقمطراز ہیں :
’’ فلمی موسیقی
کو اردو شعر کی زبان دینے میں ساحر کا نام ہمیشہ سر فہرست رہے گا۔ ‘‘ 5
فلمی شاعری کو معیار
و وقار اور شعری محاسن سے مزین کرنے میں ساحر نے کلیدی رول ادا کیا۔ فلمی دنیا کے کیچڑ
میں اپنے نغموں کو عریانیت و فحاشی سے پاک کرکے فلمی نغموں کو ایک نیا وژن عطا کیا۔
یہی وجہ ہے کہ ساحر کی شخصیت بھی فلم انڈسٹری میں ایک کنول کے پھول کی طرح ہمیشہ
صاف و شفاف رہی اور ایک فاتح کی طرح ساحر کی سر بلندی اور انفرادیت کا پرچم فلم انڈسٹری
میں لہراتا رہا۔
آج ساحر ہمارے درمیان
نہیں ہیں لیکن ان کے نغموں کی پرچھائیاں یہ گنگناتے ہوئے ہمارا تعاقب کر رہی ہیں
کہ ؎
بانٹ کے کھاؤ اس دنیا میں بانٹ کے بوجھ اٹھاؤ
جس رستے میں سب کا سکھ ہو وہ رستہ اپناؤ
اس تعلیم سے بڑھ کر
جگ میں کوئی نہیں تعلیم
کہہ گئے فادر ابراہیم
حواشی
- ابتدائیہ ، گاتا جائے بنجارا، ساحر لدھیانوی، رابعہ بک ہاؤس، بخشی مارکیٹ، لاہور، ص 11
- ابتدائیہ ، گاتا جائے بنجارا، ساحر لدھیانوی، رابعہ بک ہاؤس، بخشی مارکیٹ، لاہور، ص 13
- بحوالہ ساحر لدھیانوی : حیات اور شاعری ، سید ضیاء الرحمن ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی، 2009 ، ص 178
- اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، خلیل الرحمن اعظمی، علی گڑھ، 1972، ص 117
- بحوالہ ’تحفہ‘ (ساحر لدھیانوی کی حیات اور شاعری کاایک جائزہ) سید احتشام حسین ، بزم ساحر ٹانڈہ ، فیض آباد ، 1989، ص 158
Md Ataullah
Research
Scholar, Dept of Urdu
Patna
University
Patna-
(Bihar)
Mob.:
9162715501
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں