5/1/24

اردو—ہندی ناولوں اور ڈراموں پر مبنی فلموں کا مختصر جائزہ: شہزاد بخت

 

فلمسازوں کی بنیادی ضرورت ناول کی ایک ایسی کہانی ہوتی ہے جو دل پذیر ہو اور عوامی مزاج سے ہم آہنگ بھی ہو۔ تفریح کے پیش نظر پردۂ سیمیں پر پیش کرنے کے لیے کہانیوں کی تلاش میں سنیما وقتاً فوقتاً تمام زبانوں کے ادب پر منحصر رہاہے۔ ادب اپنی مقبولیت، شہرت اور عوامی رسائی کے لیے ہمیشہ پردۂ سیمیںکا متلاشی رہتا ہے چونکہ اس کی  اس قدر وسیع پیمانے پر نمائش اور پسندیدگی کا کوئی اور مؤثر ذریعہ میسر نہیں ہے۔کسی ناول کے مواد یا کہانی کو پردۂ سیمیں پرفلمی شکل میں ڈھال کر پیش کرنا اور عوام کو متاثر کرلینانہایت مشکل کام ہے، فلم کی کہانی باوجود تمام کوشش کے اگر کلاسک بنتی ہے تو یہ امر مزید پیچیدہ اور توجہ طلب ہوجاتا ہے۔ یہ ہدایت کار کااپنا وژن ہے کہ وہ کہانی کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے یا نہیں۔ ستیہ جیت رے، رتوک گھاٹک، مرنل سین، اور شیام بینگل جیسے فلم سازوں نے بغیر کسی رکاوٹ کے صفحات پر موجود الفاظ کو اسکرین پر چلتے پھرتے منظر ناموں، جذبات و احساسات سے پْر مکالموں میں تبدیل کیا ہے۔

زیر نظرمضمون میں ہم دیگر زبان و ادب کے مقابلے میں اردو ناولوں کا تذکرہ کریں تو مقام تاسف ہے کہ اردو ناول باوصف تمام اپنا لوہا منوانے میں اس قدر کامیاب نظر نہیں آتے جس کے وہ قرار واقعی مستحق ہیں۔ اس مطالعے کا مقصد اس صد سالہ فلمی منظر نامے میں اردو ناول کی بازیافت اورمستقبل میں امکانات کی تلاش و جستجو سے عبارت ہے۔ تقریباً گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے یں اردو زبان ادب کی دھاک جہاں مکالمہ نگاری، نغمہ نگاری، منظر نامے اور کہانی کے حوالے سے قائم تھی اب وہ علاقائی زبان و ادب کی رہین منت بن کر رہ گئی ہے۔اس سلسلے میں از سر نو احیاکے لیے کون سے نتیجہ خیز اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے یہ قابل تدبر وتفکر نیزغورطلب مسئلہ ہے۔ بہر کیف یہاں ہم کلاسک ناولوں پر مبنی چند نمایاں ہندوستانی فلموں کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیسے فلموں کے کردار ایک ناول کے محور پر اپنے تاثر کا جلوہ بکھیرتے ہیں۔

ولیم شیکسپیئر کے ناولوں پر مبنی فلمیں

مشہور زمانہ،صاحب اسلوب اور ڈرامہ صنف کے بے تاج بادشاہ ولیم شیکسپیئر کو کون نہیں جانتا؟ برصغیر ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام زبان و ادب کی عوام میں موصوف یکساں مقبول ہیں۔ذہین ڈرامہ نگار کے ڈرامے زمانہ قدیم سے دنیا بھر کے تھیٹروں میں مختلف زبان و ادب میں پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ معروف بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ نے ایک مرتبہ کہا تھا۔

’’جڑیں کھوئی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن ہندی فلم انڈسٹری کی ہر بڑی کہانی شیکسپیئر کی ہے۔‘‘

 آئیے ہم ولیم شیکسپیئر کے ڈراموں او ر اردو ادب کے ساتھ ساتھ دیگر زبان و ادب پر مبنی ناولوں کی فلمبندی پر ان کی ضمنیات کے ساتھ دیگر بالی ووڈ فلموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔بالی ووڈ میں ولیم شیکسپیئر کے بہت سارے مداح ملے، جنھوں نے ان کے ڈراموں اور کہانیوں (ناولوں) کو بالی ووڈ بلاک بسٹرمیں تبدیل کیا۔

ہیملیٹ کا المیہ1603 میںڈنمارک کے شہزادہ ہیملیٹ کا المیہ پر مبنی ناول لکھاگیا تھا۔

اس سانحے نے ڈرامے ’حیدر‘ کو متاثر کیا، جس میں شاہد کپور، شردھا کپور، تبو ،کے کے مینن، اور عرفان خان شامل تھے۔ فلم کو وشال بھاردواج اور سدھارتھ رائے کپور نے پروڈیوس کیا ہے، اور اس کے ہدایت کار وشال بھاردواج ہیں۔ یہ تیسری فلم ہے جسے بھاردواج نے شیکسپیئر کے ڈراموں سے اخذ کیا ہے۔

میکبتھ کا المیہ اپریل 1611 میں لکھا گیاتھا۔ مقبول اسی پر مبنی ہے۔ممبئی گینگیسٹر کی سیاہ کہانی خونریزی اور فریب سے بھری ہوئی تھی۔  اس فلم میں پنکج کپور، عرفان، تبو، نصیرالدین شاہ، اوم پوری اور پیوش مشرا جیسے کچھ بڑے ہندوستانی سینما ستارے تھے۔ سال 2003 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو بوبی بیدی نے پروڈیوس کیا تھا اور اس کی ہدایت کاری وشال بھادواج نے کی تھی، جنھوں نے فلم کا بیک گراؤنڈ اسکور بھی کمپوز کیا تھا۔ اگرچہ معاشی طور پر آمدنی میں زیادہ مؤثر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی، لیکن اداکاری اور ہدایت کاری کے فنی لحاظ سے اس فلم کو ایک سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔

اوتھیلو کا المیہ پر اومکارا مبنی ہے۔یہ فلم بے حد پسند کی گئی، لنگڑا تیاگی، کیسو فرنگی یا اومکارا کے کرداروں نے ہماری زندگیوں میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔ اس میں اجے دیوگن، کرینہ کپور، کونکنا سین شرما، سیف علی خان، وویک اوبرائے، نصیر الدین شاہ اور بپاشا باسو نے اداکاری کی۔ 2006 کی فلم کو کمار مانگٹ نے پروڈیوس کیا تھا اور اس کی ہدایت کاری وشال بھاردواج نے کی تھی۔

کامیڈی آف ایررز1594 میں لکھے جانے والے کامیڈی ڈرامے نے چھ تا دس ہندوستانی فلموں کو متاثر کیا ہے۔

دو دُونی چار (1968) جس میں کشور کمار اور اسیت سین شامل تھے۔

 انگور (1982) سنجیو کمار اور دیون ورما نے اداکاری کی۔شیکسپیئر کی ’کامیڈی آف ایررز‘ پر مبنی فلم ’انگور‘ کی ہدایت کاری گلزار نے کی تھی۔

 بھرنتی بلاس (1963 بنگالی فلم) جس میں اتم کمار اور بھانو بندوپادھیائے نے اداکاری کی۔

 الٹا پلٹا(1997 کنڑ فلم) جس میں رمیش اراوِند اور کریب سوایا نے اس فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔

رام اور شیام  دلیپ کمار وحیدہ رحمان نروپا رائے اور پران  نے اس فلم میں اداکار کی۔

رومیو اینڈ جولیٹ1597 میں لکھا گیا،اس ٹریجڈی ڈرامے نے آج تک کئی بالی ووڈ فلموں کو متاثر کیا ہے۔ رومیو اور جولیٹ سے متاثر ہونے والی کچھ فلموں کے عنوانات درج ذیل ہیں:

 بابی (1973) جس میں رشی کپور اور ڈمپل کپاڈیہ تھی۔

 ایک دوجے کے لیے (1981)  جس میں کمل ہاسن اور رتی اگنی ہوتری نے اداکاری کی۔

صنم تیری قسم (1982) جس میں کمل ہاسن اور رینا رائے شامل ہیں۔

 قیامت سے قیامت تک (1988) جس میں عامر خان اور جوہی چاولہ نے اداکاری کی۔

 سوداگر (1991) جس میں منیشا کوئرالہ اور وویک مشران شامل تھے۔

 عشق زادے(2012) جس میں پرینیتی چوپڑا اور ارجن کپور نے اداکاری کی۔

عشقIssaq (2013) اداکار پرتیک اور عمیرہ دستور اور گولیوں کی راس لیلا: رام لیلا (2013) جس میں دیپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ شامل ہیں۔

منشی پریم چند کے ناولوں پر مبنی فلمیں

شطرنج کے کھلاڑی (1977) :

ہدایت کار:ستیہ جیت رے۔شاید،منشی پریم چند کے ساتھ فخر بنگال ہدایت کار ستیہ جیت رے کے تعاون سے سب سے زیادہ مشہور، 1977 کی کلاسک فلم شطرنج کے کھلاڑی رہے۔ یہ اودھ بادشاہی کے آخری دنوں اور وقت کے بہاؤ میں پھنسے غیر فعال مردوں کی بے حسی پر مصنف کی کہانی پر مبنی فلم تھی۔ جس میں امجد خان، سعید جعفری، سنجیو کمار، شبانہ اعظمی، فاروق شیخ اور رچرڈ ایٹنبرو کی شاندار کاسٹ نے ستیہ جیت رے کے وژن کے جادو میں اضافہ کیا۔ ستیہ جیت رے کی پہلی ہندی فلم، شطرنج کے کھلاڑی، 1977 میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ فلم منشی پریم چند کی اسی نام کے افسانے پر مبنی ہے اور یہ 1857 میں پہلی جنگ آزادی سے عین قبل 1856 کی کہانی پربنائی گئی ہے۔ فلم کی کہانی دو رئیسوں کے گرد مرکوز ہے جو شطرنج کھیلنے میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے فرائض اور ذمے داریوں سے غفلت برتتے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے اپنے گھر، اودھ کے الحاق کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

غبن (1966) :

ہدایت کا ر : رشی کیش مکھرجی۔ نسبتاً زیادہ بالی ووڈش فلم رشی کیش مکھرجی کی غبن(1966) تھی۔ جو منشی پریم چند کے اسی نام کے کلاسک ناول پر مبنی ہے۔ اس میں سنیل دت اور سادھنا نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ ایک اچھے آدمی کی کہانی جو اپنا راستہ کھو دیتا ہے، غبن میں سنیل دت نے تنقیدی طور پر سراہا جانے والاکردار ادا کیا۔

گئودان (1963):

 ہدایت کار: ترلوک جیٹلی۔ یہ پہلی بار 1936 میں شائع ہوا،  ’گئودان‘ کا شمار ہندی میں لکھے گئے عظیم ناولوں میں ہوتا ہے۔ اس کتاب نے 1963 میں ترلوک جیٹلی کی ہدایت کاری میں بڑے پردے پر اپنا راستہ تلاش کیا۔ راج کمار اور کامنی کوشل، محمود اور شوبھا کھوٹے کے ساتھ معاون کرداروں میں، یہ فلم پریم چند کے ناول کے مطابق تھی۔

مل مزدور: 1934 :

ہدایت کا ر موہن بھونانی۔ مشہور مصنف منشی پریم چند کی لکھی ہوئی یہ واحد فلم ہے جس میں انھوں نے ایک مختصر کردار بھی ادا کیا ہے۔ اس فلم کو تنازعات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس کی کہانی ایک پرہیزگار مل مزدور کے ایک پرجوش بیٹے کی ہے جو مل کا وارث ہوتا ہے اور اپنے کارکنوں کے ساتھ حقارت کا سلوک کرتا ہے۔ یہ اپنی بہن کے ساتھ تنازعات میں رہتا ہے جو اپنے والد کی میراث کو جاری رکھنے کی خواہشمند ہے۔ بہن کے مزدوروں کو اپنے بے راہرو بھائی کے خلاف ہڑتال پر اکسانے کے منظر نے پورے ملک میں خاص طور پر ٹیکسٹائل ملوں کے مرکز ممبئی میں اشتعال انگیز ردعمل کو جنم دیا اور بہت سے معاملات میں طاقت کے استعمال کے ذریعے فلم کو سینما گھروں سے باہر نکالنا پڑا۔ . پھر بھی اس نے اُس زمانے میں صنعتی زندگی کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کی مشکلات کی ایک واضح، درست تصویر کشی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ بنارس میں پریم چند کے اپنے پریس کے کارکنوں کو اس فلم کے ذریعے اجرت کی عدم ادائیگی کے خلاف ہڑتال کرنے کی تحریک ملی۔کتھا سمراٹ پریم چند نے ہندی فلم انڈسٹری کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے، لیکن ان کا کیریئر آگے نہیں بڑھ سکا۔ کون سی طنزیہ تحریر ان کی راہ میں حائل ہوئی؟اس پر کچھ کہنا دشوار ہے۔

 ہیرا موتی (1959):

’دو بیلوں کی کتھا‘ منشی پریم چند کی بہت سی مختصر کہانیوں میں سے ایک ہے۔ کہانی دو بیلوں اور ایک غریب کسان کی زندگی میں ان کی اہمیت کے گرد گھومتی ہے۔ فلم ہیرا موتی (1959) نے ٹکٹ کاؤنٹر پر شاید کوئی نشان نہ بنایا ہو، لیکن اس میں نروپا رائے اور بلراج ساہنی نے کام کیا، جو خود ترقی پسند مصنفین تحریک کی پیداوار تھے۔

سدگتی (1981)1981 :

 قومی چینل دوردرشن نے ایک فلم بنانے کے لیے ستیہ جیت رے سے رابطہ کیا، اور ماسٹر نے اس کام کے لیے پریم چند کی ایک کلاسک کہانی کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا۔ ٹیلی فلم سدگتی ایک ’اچھوت‘ شخص کی کہانی پر مبنی تھی جو ایک برہمن کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچھوت چاہتا ہے کہ برہمن اس کی بیٹی کی شادی کی رسومات ادا کرے۔ یوں بھی ایسا لگتا ہے کہ منشی پریم چند کی کہانیوں کا ستیہ جیت رے پر گہرا اثر تھا، کیونکہ ان کی دوسری ہندی فلم مصنف کی کہانی سدگتی پر مبنی تھی۔ اوم پوری اور سمیتا پاٹل نے اداکاری کی، سدگتی اس ملک میں اچھوتوں کی المناک زندگیوں کا ایک خوفناک واقعہ ہے۔

بازار حسن   2014 ( جسم فروشی):

 گھوش، جیت گوشوامی، اوم پوری اور یشپال شرما، اور دھننجے کمار نے لکھا تھا۔اس کی کاسٹ میںمعروف ٹی وی سٹار ریشمی گھوش بازار حسن میں سمن کے روپ میں نظر آ رہی ہیں۔ جب کہ اوم پوری ان کے والد کشن چند کا کردار نبھا رہے ہیں۔ جیت گوشوامی اور یشپال شرما جیسے اداکار  ریشمی گھوش پر مبنی فلم کی ذات بحیثیت سمن، جیت گوسوامی سدان، اوم پوری بطور کشن چند، یشپال شرما بطور گجادھر، راجیشوری سچدیو دیدی کے طور پرفلم میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

پتی پتنی اور وہ (1978):

پتی پتنی اور وہ، بی آر چوپڑا کی 1978 کی فلم جس میں سنجیو کمار، ودیا سنہا اور رنجیت کور شامل ہیں، یہ ہندی ناول نگار کملیشور کے ناول ’ پتی پتنی اور وہ‘ پر مبنی ہے۔ کملیشور نے فلم کا اسکرین پلے بھی لکھا، جس کے لیے انھیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ فلم ماورائے ازدواجی معاملات پر ایک مزاحیہ انداز کی فلم ہے جس میں مرکزی کردار شادی شدہ ہونے کے دوران اپنے سیکرٹری کے ساتھ ناجائز تعلقات میں مشغول ہو جاتا ہے۔ یہ فلم ان مزاحیہ حرکات کی پیروی کرتی ہے جس میں وہ اپنی بیوی اورسکریٹری دونوں سے سچائی چھپانے کے لیے کرتا ہے۔

گلشن ننداکے ناولوں پر مبنی فلمیں

گلشن نندا بالی ووڈ فلموں کا کافی مشہور و معروف نام ہے۔ ناول نگار گلشن نندا، موجودہ دور کے تجربہ کار پبلسٹی ڈیزائنرز راہُل اور ہمانشو نندا کے والد، 60 اور 70 کی دہائی میں اس قدر مقبول تھے کہ ان کے بیشتر ناولوں کو مندرجہ ذیل کامیاب فلموں میں ڈھالاگیا۔

فلم کاجل (1965) :

گلشن ننداکی کامیابی کی کہانی اسی فلم  سے شروع ہوئی جو گلشن نندا کے ناول ’مادھوی‘ پر مبنی تھی۔

پھولوں کی سیج1964 :

یہ ہندوستانی ہندی زبان کی سماجی فلم ہے جسے اندر راج آنند نے لکھا اور ہدایت کاری کی جو گلشن نندا کے اسی نام کے ناول پر مبنی ہے ۔

کاجل (کحل) (1965):

ایک بالی ووڈ فلم ہے جو گلشن نندا کے ناول ’مادھوی‘ سے اخذ کی گئی ہے۔

ساون کی گھٹا  (1966):

ایک بالی ووڈ میوزیکل رومانوی فلم ہے یہ گلشن نندا کے ناول پر مبنی تھی۔

پتھر کے صنم (1967):

بالی ووڈکی ہندوستانی ہندی زبان کی فلم ہے یہ فلم گلشن نندا کے ناول پر مبنی تھی۔

نیل کمل (1968) :

بالی ووڈکی یہ بہترین فلم گلشن ننداکے ناول پر مبنی ہے جس کی ہدایت کاری رام مہیشوری نے کی تھی۔

کھلونا  (1970):

 ایک بالی ووڈ میوزیکل رومانی ہے یہ فلم گلشن نندا کے ناول پر مبنی تھی۔

کٹی پتنگ (1971):

 یہ فلم مشہو ر ہندی ناول نگار گلشن نندہ کے کٹی پتنگ ناول پر مبنی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ گلشن نندا کو فلم کا اسکرین پلے لکھنے کا موقع ملا۔

شرمیلی  (1971):

ایک بالی ووڈ میوزیکل رومانی ہے یہ فلم گلشن نندا کے ناول پر مبنی تھی۔

نیا زمانہ  (1971) :

ایک بالی ووڈ میوزیکل رومانی ہے یہ فلم گلشن نندا کے ناول پر مبنی تھی۔اسے آغاجانی کشمیری نے لکھا۔

داغ (1973):

 ایک بالی ووڈ میوزیکل رومانی ہے یہ فلم گلشن نندا کے ناول پر مبنی تھی۔

جھیل کے اس پار  (1973):

 ایک بالی ووڈ میوزیکل رومانی فلم ہے یہ فلم گلشن نندا کے ناول پر مبنی تھی۔

جگنو  (1973):

  ایک بالی ووڈ میوزیکل رومانی فلم ہے یہ فلم گلشن نندا کے ناول پر مبنی تھی۔

جوشیلا(1973):

 ایک بالی ووڈ میوزیکل رومانی فلم ہے یہ فلم گلشن نندا کے ناول پر مبنی تھی۔

اجنبی (1974):

 ایک بالی ووڈ میوزیکل رومانی فلم ہے یہ فلم گلشن نندا کے ناول پر مبنی تھی۔

چھوٹے سرکار (1974):

 ایک ہندوستانی بالی ووڈ فلم ہے یہ فلم گلشن نندا کے ناول پر مبنی تھی۔

بھنور  (1976) :

بالی ووڈ کی ایک ہندی فلم ہے گلشن نندا  کے ناول پر مبنی ہے او انھوں نے ہی اسکرین پلے بھی لکھا ہے۔

آزاد (1978):

  یہ بالی ووڈ ایکشن تھرلر فلم ہے۔ تحریر سچن بھومک، گلشن نندا احسان رضوی وغیرہ کی ہے۔

بڑے دل والا (1983):

 بالی ووڈکی ہندی زبان کی ایکشن کرائم ڈرامہ فلم ہے۔گلشن نندا (کہانی)، سی جے پاوری (اسکرین پلے)، ڈاکٹر راہی معصوم رضا (مکالمے) نے لکھے۔

بندیا چمکے گی (1984):

بالی ووڈ ایک ہندوستانی ہندی فلم ہے جسے گلشن نندا نے تحریر کیا تھا۔

بادل (1985):

بالی ووڈکی ہندوستانی ہندی زبان کی ڈرامہ فلم جس میں۔ مکالمے گلشن نندا - اسکرین پلے، موتی ساگرنے لکھے ہیں۔

نذرانہ  (1987):

 بالی ووڈکی ایک ہندوستانی ڈرامہ فلم ہے،  اس میںجے کول کا اسکرین پلے گلشن نندا کی کہانی ہے۔

اردو ناولوں پر مبنی فلمیں

گرم ہوایہ‘  معروف ادیبہ عصمت چغتائی کے ناول گرم ہوا پر مبنی ہے۔

انسان اور گدھا1973:

 فلم کا مرکزی خیال کرشن چندر کے ناول ’گدھے کی سرگزشت‘ سے لیا گیا تھا۔

امراؤ جان1972،,1981 ,2006 2003 امراؤ جان ادا (اردو: اُمراؤ جان ادا) مرزا ہادی رسوا (1857-1931) کے ایک اردو ناول پر مبنی فلم ہے، موافقت:  مہندی (1958)،امراؤ جان ادا (1972 فلم)، ایک بالی ووڈ فلم۔امراؤ جان (2006 فلم)، ایک بالی ووڈ فلم۔

انار کلی /مغل اعظم(1960)۔  سید امتیاز علی تاج  (1900-1970)  ایک ڈرامہ نگار تھے جو چچا چھکن جیسے لافانی کردار کے خالق تھے جنھوں نے اردو میں انارکلی ڈرامہ لکھا۔ انھیں ان کے 1922 کے ڈرامے انارکلی کے لیے یاد کیا جاتا ہے، جو انارکلی کی زندگی پر مبنی ہے، جسے سیکڑوں مرتبہ اسٹیج کیا گیا تھا اور اسے ہندوستان اور پاکستان میں فیچر فلموں کے لیے ڈھالاگیا تھا، جس میں ہندوستانی فلم مغل اعظم (1960) بھی شامل تھی۔

کاما سوترا(1996) اس فلم کو میرا نائر نے مشترکہ طور پر لکھا اور ہدایت کاری کی۔ فلم کا پہلا حصہ ہندوستانی مصنفہ واجدہ تبسم کی اردو میں ایک مختصر کہانی ’اترن (Hand Me Downs)  پر مبنی ہے۔

متفرق ناول نگاروں کے ناولوں پر مبنی فلمیں

چترلیکھا (1941، 1964)  یہ فلم بھگوتی چرن ورما کے لکھے ہوئے ہندی ناول چترلیکھا پر مبنی ہے۔

بہو کی آواز (1985)یہ فلم وید پرکاش شرما کے ناول  ’بہو مانگے انصاف ‘پر مبنی ہے۔

تمس (1988)یہ بھیشم ساہنی کی 1975 کی ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ کتاب، تمس پر مبنی ہے۔

محلہ آسی (2018)محلہ آسی ایک 2018 کی بالی ووڈ فلم ہے۔ یہ فلم کاشی ناتھ سنگھ کے 2004 کے ہندی ناول کاشی کا آسی پر مبنی ہے۔

دیوداس 1950, 2002۔ فلم دیوداس بنگالی ناول نگار سرت چندر چٹوپادھیائے کے لکھے ہوئے ناول پر مبنی ہے۔

پرینیتا(2004)فلم پرینیتا بنگالی ناول نگار سرت چندر چٹوپادھیائے کے لکھے گئے ناول پر مبنی ہے۔

صاحب، بیوی اور غلام (1962) بالی ووڈکی فلم ’صاحب، بیوی اور غلام‘ بنگالی مصنف بمل مترا کی لکھی ہوئی ’صاحب، بیوی اور غلام پر مبنی ہے۔

فلم گائیڈ۔(1965) مصنف آر کے نارائن (مالگوڈی ڈیز فیم) کے لکھے گئے ناول پر مبنی فلم  ہے۔

فلم داغ ایک انگریزی ناول نگار تھامس ہارڈی کے لکھے ہوئے ناول ’دی میئر آف کاسٹر برج‘ پر مبنی فلم ہے۔

فلم جنون(1978) رسکن بانڈ کے ناول ’اے فلائٹ آف دی پیجنز‘ پر مبنی فلم ہے۔

فلم پنجر امرتا پریتم کے لکھے گئے ناول ’پنجر‘ پر مبنی فلم ہے۔

فلم تھری ایڈیٹس چیتن بھگت کے لکھے گئے ناول ’5 پوائنٹ سمون‘ پر مبنی فلم ہے۔

فلم کائی پو چے۔ چیتن بھگت کے ناول ’دی تھری میسٹیکس آف مائی لائف‘ پر مبنی فلم ہے۔

فلم تیرے میرے سپنے اے جے کرونین کے لکھے ہوئے ناول ’دی سیٹاڈل‘ پر مبنی فلم ہے۔

فلم ہیلو، چیتن بھگت کے لکھے ہوئے ناول 'ون نائٹ @ دی کال سینٹر‘پر مبنی  فلم ہے۔

فلم عائشہ ،جین آسٹن کے ناول ’ایما‘پر مبنی فلم ہے۔

فلم نیم سیک ہندوستانی امریکی مصنف جھمپا لہری کے لکھے ہوئے ناول پر مبنی میرا نائر کی ہدایت کاری میں تیار فلم ہے۔

فلم بلیو امبریلا، رسکن بانڈ کے لکھے گئے ناول پر مبنی ہے جسے ’دی بلیو امبریلا‘ کہا جاتا ہے۔

فلم بلیک فرائیڈے، ایس حسین زیدی کے لکھے گئے ناول پر مبنی ہے۔

فلم ’ہزار چوراسی کی ماں‘ مہاشویتا دیوی کے ناول پر مبنی تھی۔

فلم سورج کا ساتواں گھوڑا، ڈاکٹر دھرم ویر بھارتی کے لکھے ہوئے ناول پر مبنی ہے۔

فلم رودالی، مہاشویتا دیوی کے لکھے ہوئے ناول پر مبنی ہے۔

فلم معصوم، ایک امریکی مصنف ایرچ وولف سیگل کے لکھے گئے ناول ’مین وومن اینڈ چائلڈ‘ پر مبنی ہے۔

فلم چھوٹی بہو، سرت چندر چٹوپادھیائے کے لکھے ہوئے بنگالی ناول 'بندور چھلے‘ پر مبنی ہے۔

فلم چھوکھر بالی، رابندر ناتھ ٹیگور کے لکھے ہوئے ناول پر مبنی ہے۔

فلم موسم، اسکاٹش ناول نگار اے جے کے لکھے ہوئے ناول ‘دی جوڈاس ٹری‘ پر مبنی ہے۔

فلم اپنے پرائے، بنگالی ناول نگار سرت چندر چٹوپادھیائے کے ناول ‘نشکرتی‘ پر مبنی ہے۔

فلم ‘لٹیرا‘ (1907) او ہنری کے لکھے گئے ناول ’دی لاسٹ لیف‘ پر مبنی ہے۔

فلم ‘2 اسٹیٹس‘ یہ چیتن بھگت کے ناول ‘2 سٹیٹس‘ پر مبنی ہے۔

سات خون معاف، رسکن بانڈ کے ناول ’سوزانا کے سات شوہر‘ کو وشال بھاردواج کی بالی ووڈ فلم ’ کے روپ میں پیش کیا ہے ۔

سانوریہ، سنجے لیلا بھنسالی کی طرف سے خوبصورتی سے تصویرکی گئی جادوئی کہانی ہے۔ یہ کہانی فیوڈور دوستوفسکی کی مختصر کہانی 'وائٹ نائٹس‘سے متاثر ہے۔

تیرے میرے سپنے(1971)تیرے میرے سپنے (1971) وجے آنند (دیو آنند کے بھائی) کی لکھی اور ہدایت کاری میں دیو آنند کی پروڈیوس کردہ فلم ہے، کرونن کا 'دی سیٹاڈل، طبی اخلاقیات کے متنازعہ موضوع پر گھومنے والا ایک ناول ہے۔

ارتھ(1998)  دیپا مہتا کی یہ فلم ’ارتھ‘ تقسیم ہند کی ہولناک واقعات کے گرد بنائی گئی بپسی سدھوا کے ناول ’کریکنگ انڈیا‘ پر مبنی یہ فلم ہے ۔

زبان و ادب کے ناولوں پر مبنی فلموں کے تاریخی پس منظر اور زمانہ حال کے منظر نامے کا تفصیلی مطالعہ کرنے پر اس با ت کا ادراک ہوتا ہے کہ اردوادب جتنا فنی طور پر زرخیز، دلچسپ اور تخلیقیت کے جوہر سے مالامال ہونے کے باوجود فلمی دنیا میں اپنا لوہا منوانے میں دیگر زبانوں کی بہ نسبت یکسر ناکام نظر آتا ہے۔

 

Shahzad Bakht Ansari

238, New Ward, Mamletdar Lane

Malegaon- 423203 (Maharashtra)

Mob.: 9326595753

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...