اردو صحافت پر سمینار اور سول سروسز کے امتحانات کی تیاری پر پروگرام کا انعقاد
دوسرے سیشن میں
اردو جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ’اردو صحافت : کل اور آجکل‘ کے عنوان سے
سمینار کا انعقاد ہوا۔ جس کی صدارت سینئر صحافی اور دانشور عبدالسمیع بوبیڑے نے کی
اور نظامت کے فرائض روزنامہ ہندوستان کے ایڈیٹر سرفراز آرزو نے کی۔ مذاکرے میں
اظہار خیال کرتے ہوئے ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر شکیل رشید نے اردو صحافت کی تعلیم
پر گفتگو کی اور کہا کہ آج جدید ٹکنالوجی اور سہولیات کی وجہ سے اخبارات کی ظاہری
شکل و صورت تو بہتر ہوئی ہے مگر مواد کے اعتبار سے آج کے اخبار بہتر حالت میں نہیں
ہیں، انھوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں اردو صحافت کی تعلیم و تربیت کا بھی معقول
اور نتیجہ خیز نظم نہیں ہے، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور صحافت کے نصاب کو عصری
تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے
شاہد انصاری نے موبائل جرنلزم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت میں بہت مواقع
ہیں البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پیشہ ورانہ انداز میں اردو صحافت کو اپنائیں
اور برتیں۔ اسے کارپوریٹ سیکٹر اور انٹرنیٹ سے جوڑنا بھی ضروری ہے ، آج کے دور میں
تھوڑی سی توجہ اور تربیت سے ہم صحافت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
یواین آئی کے
اعجاز انصاری نے اردو صحافت کے فروغ میں نیوز ایجنسیوں کے کردار پر گفتگو کی اور
اردو نیوز ایجنسیوں کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت کے فروغ
میں نیوز ایجنسیوں کا غیر معمولی کردار ہے اور اس کی وجہ سے اردو اخبارات کو بڑی
آسانیاں فراہم ہوئی ہیں۔ جاوید جمال الدین
نے اردو صحافت کے تاریخی پس منظر پر تفصیلی گفتگو کی اور جام جہاں نما سے لے کر انیسویں
اور بیسویں صدی تک کے اہم اخباروں اور مدیروں کا ذکر کیا۔ ہارون افروز نے اردو صحافت اور صحت زبان پر
خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت اور صحتِ زبان لازم و ملزوم ہیں کیوں کہ اردو
صحافت محض ایک پیشہ نہیں، علم و فن ہے اور اسی وجہ سے ماضی سے لے کر اب تک اردو
صحافت صحت زبان کے اعتبار سے دوسری زبانوں کی صحافت سے بہتر رہی ہے۔ موجودہ دور کے
صحافیوں کو بھی صحت زبان پر خاص توجہ دینی چاہیے۔
روزنامہ انقلاب کے
ایڈیٹر شاہد لطیف نے اپنی تقریر میں کہا کہ اردو صحافت اور اردو زبان کو آج سب سے
بڑا خطرہ یہ ہے کہ اردو الفاظ کو ہندیانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اس کی وجہ سے
بہت سے غلط الفاظ رائج ہورہے ہیں ، اس پر اردو والوں کو متنبہ رہنا چاہیے۔ انھوں
نے کہا کہ ہماری صحافت تبھی باقی رہ سکتی ہے اور تبھی وہ مسلسل ترقی پذیر ہوگی جب
ہم اپنی صحافت کے ذریعے قاری کی امنگوں اور توقعات کو پورا کریں۔ صدر جلسہ عبدالسمیع بوبیڑے نے کہا کہ آج کے
پروگرام کے تمام مقررین نے اپنے اپنے موضوع سے انصاف کیا ہے?۔ انھوں نے کہا کہ
اردو صحافت کا ماضی روشن ہے البتہ موجودہ دور میں اسے مختلف قسم کے چیلنجز کا
سامنا ہے جن کا مقابلہ کرکے ہی ہم اپنی صحافت کو عہد حاضر سے ہم آہنگ کرسکتے ہیں۔
آج کا تیسرا پروگرام کاوش فاؤنڈیشن کے ذریعے منعقد کیا گیا جو سول سروسز اگزام کی تیاریوں کے سلسلے میں رہنمائی پر مبنی تھا اور اس حوالے سے مہاراشٹر گورنمنٹ میں آئی اے ایس افسر جناب شہزاد حسین نے خطاب کیا اور اس حوالے سے اہم نکات بیان کیے۔ اس موقعے پر مختلف مسابقہ جاتی امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے نوجوانوں نے بھی اپنے تجربات شیئر کیے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں