ممبئی : قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام
اور انجمن اسلام کے اشتراک سے جاری چھبیسواں قومی اردو کتاب میلہ جاری ہے، اردو
اور کتابوں سے محبت رکھنے والے اہل ذوق کثیر تعداد میں اس میلے کا حصہ بن رہے ہیں۔
انفرادی طور پر کتابوں کی خریداری کے علاوہ مختلف اداروں کے ذمے داران اپنی لائبریریوں
کے لیے بھی کثیر تعداد میں کتابوں کی خریداری کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روزانہ
مختلف علمی و ثقافتی پروگراموں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چنانچہ آج بھی پروگراموں کے
تین سیشنز ہوئے ، جن کا اہتمام ادبی تنظیم اردو کارواں نے کیا تھا۔ پہلے سیشن میں
اردو اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عنوان سے مجلس مذاکرہ کا انعقاد اردو چینل کے ذریعے
کیا گیا، جس کی نظامت معروف شاعر ڈاکٹر قمر صدیقی نے کی۔
مذاکرے میں اظہار خیال کرتے ہوئے معروف اے
آئی پلیٹ فارم چیٹ جی پی ٹی سے منسلک عاصم سید نے آرٹیفیشیل انٹیلیجنس (اے آئی) کے
حوالے سے گفتگو کی ، انھوں نے تفصیل سے اس کا تعارف کروایا اور اس کے مفید استعمال
کے طریقوں کی نشان دہی کی۔ انھوں نے اس کے فوائد کے ساتھ اس کی وجہ سے پیش آنے
والے چیلنجز کے بارے میں بھی بتایا اور اس حوالے سے سامعین کے سوالوں کا جواب بھی
دیا۔ روزنامہ
انقلاب سے وابستہ شاہنواز خان نے اردو صحافت پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اثرات کے
موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ اس کی وجہ سے اردو صحافت کو بڑی آسانیاں
فراہم ہوئی ہیں ، جیسے اخباروں کی کتابت کے بجائے ٹائپنگ کا سلسلہ شروع ہوا،
خبروں کے حصول کے ذرائع بڑھ گئے ، خبروں کا ترجمہ کرنا آسان ہوگیا اور اسی طرح کی
دوسری سہولیات بھی فراہم ہوئی ہیں۔ بچوں کے رسالے گل بوٹے کے ایڈیٹر فاروق سید
نے ٹکنالوجی کا استعمال کرکے ادبی و تعلیمی سرگرمیاں انجام دینے پر زور دیا۔ معروف
افسانہ نگار انور مرزا نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ادب پر اثرات کے حوالے سے گفتگو
کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح دوسرے شعبوں میں ٹکنالوجی کی وجہ سے بڑی تبدیلیاں پیدا
ہوئی ہیں، اسی طرح ادب پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں ، چنانچہ اب ہمارے ادبا
جہاں ڈیجیٹل لائبریری سے براہ راست فائدہ اٹھا رہے ہیں ، وہیں کاغذ قلم کی مدد سے
لکھنے کی بجائے کمپیوٹر اور موبائل کے ذریعے وہ ادب بھی تخلیق کر رہے ہیں۔ اردو
کارواں کے سربراہ فرید خاں کے شکریے کا ساتھ اس سیشن کا اختتام ہوا۔
دوسرا سیشن 'اردو کی تحریکیں اور ممبئی'
کے عنوان سے منعقد ہوا جس کی صدارت سینئر صحافی و شاعر ندیم صدیقی نے کی اور ڈاکٹر
سلیم خان مہمان اعزازی تھے۔اس پروگرام کی میزبانی عوامی ادارہ ممبئی اور اردو گگن
سنستھا ممبئی نے کی ، جبکہ پروگرام کی نظامت مشیر احمد انصاری نے کی۔
مذاکرے میں اظہار خیال کرتے ہوئے عبدالسمیع
بوبیڑے نے ممبئی کی اردو تحریکوں اور ممبئی میں رہنے والے اہم شعرا و ادبا کی
سرگرمیوں اور ان کے سماجی اثرات کا جائزہ لیا۔ ڈاکٹر ماجد قاضی نے کہا کہ ممبئی ہر
دور میں ادبی اہمیت کا حامل شہر رہا ہے،
خصوصا ترقی پسند تحریک سے وابستہ چوٹی کے ادبا و شعرا کا مرکز یہی شہر رہا ہے، اس
تحریک سے وابستہ ادیبوں نے بہترین افسانے اسی شہر میں رہ کر لکھے، بعد میں جدیدیت
سے وابستہ نوجوانوں کا اہم مرکز بھی یہ شہر رہا ہے اور اب بھی یہاں قومی شہرت کے
حامل ادبا موجود ہیں۔ اعجاز ہندی نے ممبئی کی موجودہ ادبی تنظیموں
کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے اردو کے فروغ میں انجمن اسلام اور اس کے اسکولوں کے
خصوصی کردار پر روشنی ڈالی ۔ ڈاکٹر سلیم خان نے اردو کی مختلف ادبی تحریکوں کے پس
منظر اور ان کے اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی تحریک مقصد سے
خالی نہیں ہوتی ، البتہ اس میں توازن ضروری ہے، ہماری اردو تحریکیں مختلف زمانوں میں
پیدا ہوئیں اور ایک عرصے کے بعد ان کے اثرات اس لیے زائل ہوگئے کہ ان کے طرز فکر و
تخلیق میں توازن قائم نہ رہ سکا۔ ڈاکٹر شفیع شیخ نے
انجمن اسلام کی تعلیمی و ادبی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور ان کی مختلف جہتوں
کو اجاگر کیا۔ صدر مجلس ندیم صدیقی نے اپنے خطاب میں ممبئی کی ادبی تحریکوں
پر مختصراً روشنی ڈالتے ہوئے روایت پسندی ، ترقی پسندی ، جدیدیت اور مابعد جدیدیت
کے اثرات اور دائرۂ عمل کا ذکر کیا۔ انھوں نے نئی نسل کی کتابوں سے دوری پر اظہارِ
افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہم کتابوں کے بغیر اپنا مستقبل نہیں سنوار سکتے ۔
آج کا تیسرا اہم پروگرام مقامی شاعروں کے
مشاعرے کا تھا، جس میں ممبئی اور مہاراشٹر کے اہم شاعروں نے شرکت کی ۔ اس مشاعرے کی
صدارت ممبئی کے سینیئر شاعر احمد وصی نے کی جبکہ ڈاکٹر شعور اعظمی ، ندیم صدیقی ،
پروفیسر عائشہ سمن، فرحان حنیف وارثی ،نظر بجنوری، یوسف دیوان، کاشف سید، احسن
عثمانی، مقصود آفاق ،توصیف کاتب ، سدھارتھ شانڈلیا اور مادھو بروے نور نے سامعین کو اپنے کلام سے نوازا۔
اس سے قبل پروگرام کے آغاز میں اردو کارواں کے صدر فرید احمد خان نے سبھی شعرا کا خیر مقدم کیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں