خواجہ میر درد(1721-1785)
بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے، ان کے علم وعمل، تخلیقی صلاحیت، شعری کمالات، روحانی اوصاف
کا معاصرین اور بعد کے لوگوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور ہمیشہ ان کے نام اور
کام کو ادب واحترام سے یاد کیا ہے۔والد صاحب کے انتقال کے بعد ہی درد ان کی جگہ سجادہ
نشینی کے منصب پر فائز ہوگئے اور والد ماجد سے علومِ رسمیہ وعقلیہ کی شکل میں جو اکتساب
فیض کیا اور زہد و تقویٰ،قوت باطنی،روشن ضمیری اور حق پرستی کے جو انمول نقوش والد
سے اخذ کیے،اس پر کاملاً بھروسہ کرکے پوری زندگی عمل پیرا رہے اور شرعی احکام کی پاس
داری سے سرمو انحراف نہ کیا۔تصوف اور سلوک کے راہ پر گامزن ہوتے ہوئے کبھی بھی اپنے
اہل وعیال سے منہ نہیں پھیرا اور نہ ان کی ضروریات سے کبھی بھی اپنے آپ کو الگ کیا۔
اتنا ضرور ہے کہ دنیا اور علائق دنیا سے اپنے آ پ کو الگ ضرور کیا اورخلوت نشینی کو
اپنی زندگی کا محور بنایامگراس کے پیچھے کئی وجہیں تھیں جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
لکھتے ہیں:
’’خرابی دنیا
عجیب وادیِ نامرادی ہے کہ کتنے ہیں نامور ان ِذیشان اس بیاباں میں اس طرح گم ہو ئے
کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا،سرائے د نیا طرفہ مکان بے اماں ہے کہ بہت سے مسند
نشینوں نے کامیابی کا بس اس قدر حصہ پایاکہ اب ان کی شان و شوکت کا ذرہ بھی اثر ہویدا
نہیں۔ اس لیے میرا اور تیرا ہونا یا نہ ہونا جو حشرات الارض کی پیدائش کی طرح ہے۔اعتبارکس
شمار وقطار میں ہے۔جبکہ ابنائے صاحب امت اور سلاطین ذی مملکت آخرکار پردہ خفا میں
جا چھپے،دوسرے کس خیال میں ناموری چاہیں اور بقائے نام کے لیے جد وجہد کریں۔‘‘1
زمانے کے ناموافق سیاسی
حالات اور سماجی خلفشار کی وجہ سے درد نے اپنے آپ کو دنیا کی آلائشوں سے الگ کیا
اور علائق دنیا سے دوری اختیار کرتے ہوئے عین جوانی کے ایام میں تصوف اور سلوک کی طرف
مکمل طورپر گامزن ہوگئے۔ درد کے نزدیک باطنی ترقیات کا انحصار اس بات پر ہے کہ بندہ
پہلے اپنے دل کو آلائش دنیا کی گرفتاری سے آزاد کرے اور دل کی کدورتوں کو دور کرے
تاکہ تجلیات الہی دل کے آئینے میں منعکس ہوسکیں چناں چہ مابعدا لطبیعاتی افکار وخیالات
میں کھوجانے کے بعد تاحیات کبھی بھی مکروہات دنیا کی طرف ملتفت نہ ہوئے جس کے اثرات
ان کی شاعری اور دوسری تصانیف میں بھی نظر آتے ہیں۔اسی وجہ سے اکثر نے ان کے شعری
محاسن اُجاگر کرنے میں تصوف ومعرفت کے نقوش کو سرفہرست رکھا ہے۔ہاں چند نقاداس حقیقت
کو تسلیم کرنے سے کتراتے رہے جن میں مجنوں گورکھپوری،شمس الرحمان فاروقی،رشید حسن خاں
اور خلیل الرحمان اعظمی نمایاں ہیں۔ ان تمام نے خواجہ میر درد کو خالصتاًصوفی شاعر
ماننے سے انکار کیا ہے،حالانکہ اس بات کو ضرور مانتے ہیں کہ درد عملاً صوفی ضرور تھے۔ان
کا تعلق ایک ایسے خانوادے سے تھا جہاں تصوف ومعرفت کی شمع جل رہی تھی۔
خواجہ صاحب کی تصانیف
بالخصوص فارسی تصانیف متصوفانہ خیالات اور طریقت ومعرفت کے مباحث سے لبریز ہیں اور
ان کے مطالعے کے بعد اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ علمی،عملی اور فکری سطح
پروہ تصوف کے اعلی مدارج پر فائز تھے۔ ’واردات‘ رسالے میں درد نے باطنی مشاہدات اور
قلبی واردات کو رباعی کی ہیئت میں بیان کیا ہے اور اس میں تشریحی نثر کے ذریعے ان رباعیات
کی وضاحت بھی ملتی ہے اور تصوف و سلوک کے مشکل مقامات کو نثری اسلوب میں آسان بنا
کر بیان کرنے کی کوشش بھی نمایاں ہے اور دوسری اہم تصنیف ’علم الکتاب‘ ہے۔ اس میں بھی
مابعد الطبیعاتی مباحث کی کثرت ہے گویا ’واردات‘ میں بیان واردات کی تشریح اور وضاحت
ہے۔ اس مایۂ ناز تصنیف کے تعلق سے پروفیسر قاضی جمال صاحب بیان کرتے ہیں:
’’میر درد
کے متصوفانہ افکار و تصورات کا جامع ترین مظہر اور ان کی شاہکار تصنیف ’علم الکتاب‘
ہے۔ درد نے پہلی بارشرح و بسط کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار اس کتاب میں کیا ہے۔بنیادی
طور پر یہ کتاب واردات میں بیان شدہ اجمالی مطالب علم کی تفصیل و تشریح کے لیے لکھی
گئی ہے لیکن مباحث کی کثرت اورمضامین کے تنوع کے پیش نظر اسے درد کی دیگر تصانیف میں
امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ایک سو گیارہ واردات کے اجمالی مطالب کی تشریح نے بڑے سائز کچھ
سو اڑتالیس صفحات پر مشتمل ایک مستقل تصنیف کی صورت اختیار کر لی ہے۔’علم الکتاب‘ اپنے
مباحث اور پیشکش کے طریقے کی وجہ سے سیرو سلوک کے بحر ذخار کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘2
علم الکتاب کے بعد
درد نے تصوف وسلوک کے مسائل سے متعلق چار اور رسالے تصنیف کیے۔نالۂ درد، آہ سرد،درددل
اور شمع محفل۔یہ چار رسالے بھی وقتاً فوقتاً قلوب و اذہان میں بعض کلمات جو ان کوپریشان
کرتے اور ان کے دلِ حیران میں آتے رہتے،ان کو ضبط تحریر میں لاتے رہتے۔’نالۂ درد‘
تین سو اکتالیس نالوں پر مشتمل ہے اور ہر نالہ مختلف مضامین اور حکمت کی باتوں پر مشتمل
ہے جس سے درد کے صوفیانہ خیالات اور مذہبی تصورات پر روشنی پڑتی ہے۔’آہ سرد‘کا اسلوب
بھی نالۂ درد کی طرح سادہ اور بے تکلف ہے اور انابت الی اللہ اس رسالے کا بھی موضوع
ہے۔اس رسالے میں بھی ’آہ‘کی 143 سرخیاں ہیں۔ہر آہ کے ذیل میں درد نے اپنی مختلف تعلیمات
پر روشنی ڈالی ہے۔’درد دل‘ میں بھی ’درد‘ کی مجموعی تعداد پچھلے دونوں رسالوں کی مانند'143'
ہے۔ اس رسالے میں تجربات کے تنوع کی کمی اور تجربات کی دلکشی کے بجائے ایک ایسے سالک
کی تعدادِ سفر ہے جس نے سلوک کی آخری منزلیں طے کی اور طویل سفر ختم کرنے کے بعد چند
الفاظ میں اپنے تجربات کا خلاصہ بیان کرنے کی کوشش میں سرگرم نظر آئے۔
’شمع محفل‘
اپنے صوفیانہ مباحث اور مجرد کیفیات کے بیان کے سبب پچھلے رسالوں سے مختلف بھی ہے اور
دشوار بھی۔اس میں جملے نسبتاً زیادہ طویل اور مضامین پیچیدہ ہیں۔نجی تجربات اور شخصی
احساسات کے بجائے مسائل تصوف اور پیچیدہ مضامین اور محمدی مشرب کے اہم تصورات پر زیادہ
توجہ دی گئی ہے۔
درد کے معاصرین اور
بعد کے ادبا اور محققین نے درد اور ان کی شاعری کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہا رکیا
ہے مثلاً میر تقی میر نے، جو اپنے سوا کم ہی کسی کو خاطر میں لاتے تھے، انھیں ریختہ
کا ’زور آور‘ شاعر کہتے ہوئے انھیں ’خوش بہار گلستان سخن‘ قرار دیا۔ محمد حسین آزاد
نے کہا کہ درد تلواروں کی آبداری اپنے نشتروں میں بھر دیتے ہیں، مرزا لطف علی صاحب،
’گلشن سخن‘ کے مطابق درد کا کلام ’سراپا درد و اثر‘ ہے۔ میر حسن نے انھیں ’آسمان سخن
کا خورشید‘ قرار دیا، پھر امداد اثرنے کہا کہ معاملاتِ تصوف میں ان سے بڑھ کر اردو
میں کوئی شاعر نہیں گزرا اور عبد السلام ندوی نے کہا کہ خواجہ میر درد نے اس زبان
(اردو) کو سب سے پہلے صوفیانہ خیالات سے آشنا کیا۔ جن لوگوں نے کلامِ درد میں متصوفانہ
افکار وخیالات کی کثرت سے ہونے کا انکار کیا ہے ان میں شمس الرحمن فاروقی پیش پیش ہیں
ان کا کہناہے کہ
’’یہ ضروری
نہیں کہ شاعر اگر اپنی ظاہری زندگی میں صوفی یا مولوی یا فلسفی یا تاجر ہو تو اس کی
شاعری بھی صوفیانہ مولویانہ،فلسفیانہ یا تاجرانہ نہ ہو۔درد کوصوفی شاعر ثابت کرنے کے
لیے شہادتیں ان کے کلام سے ڈھونڈنی ہوں ہوگی... درد کے چھوٹے سے دیوان میںچوںکہ نام
نہاد صوفیانہ مضامین کچھ زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں اس لیے درد کی عملی صوفیت سے منسلک
ہوکر اس نتیجے کی ترتیب لازم تھی کہ درد ایک زبردست صوفی شاعر تھے۔‘‘3
رشید حسن خاں نے بھی
ایسی بات کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تصوف سے لبریز مضامین والے اشعار، دوسرے مضامین
والے اشعار کے سامنے کم بلیغ نظر آتے ہیں، وہ کہتے ہیں:
’’درد کے
جن اشعار میں خالص تصوف کی اصطلاحیں استعمال ہوئی ہیں یا جن میں مجازیات کو صاف صاف
پیش کیا گیا ہے وہ نہ درد کے نمائندہ اشعار ہیں نہ ہی اردو غزل کے۔ یہ بات ہم کو مان
لینی چاہیے کہ اردو میں فارسی کی صوفیانہ شاعری کی طرح بلند پایہ متصوفانہ شاعری کا
فقدان ہے۔ ہاں، اس کے بجائے اردو میں حسرت، تشنگی اور یاس کا جو طاقتور آہنگ کار فرما
ہے، فارسی غزل اس سے بڑی حد تک خالی ہے۔‘‘4
بہرصور ت تمام آرا
سامنے آنے کے بعد بھی کسی نے ان کے کلام میں تصوف کے مضامین کے نہ ہونے کاقول نہیں
کیا ہے اور نہ کبھی کوئی اس کا بالکلیہ انکار کرسکتا ہے۔اس تعلق سے ان کی بہت ساری
نثری تصانیف کا اس سے پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ ان کے شعری شہ پارے میں اس کے نمونے کثرت
سے ملتے ہیں۔
تمام طرح کے نقوش اور
امثال کے باوجود ایک خود دار شاعر کی طرح انھوں نے شعر وشاعری کوکبھی اپنا پیشہ نہیں
بنایا اور نہ کسی دربار سے وابستہ ہوکران کے مدح وستائش میں شعر کہے۔داد ودہش سے اپنے
آپ کوہمیشہ دور رکھا اور بس اپنی شخصیت کی سرخروئی اور قلبی کیفیات کی تسکین کے لیے
اپنی فنکاری کا مظاہرہ کرتے رہے۔اپنی دنیا میں مست ہوکر شاعری کی اور اسے وارداتِ قلبی
کی تسکین کا وسیلہ بنایا۔وہ بذات خود نظریہ ٔ شعر اور غایت شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے
لکھتے ہیں:
’’شاعری ایسا
کمال نہیں جس کو مرد اپنا پیشہ بنا لے اور اس پر ناز کرے البتہ انسانی ہنروں میں ایک
ہنر ہے بشرطیکہ صلہ حاصل کرنے اور دربدر پھرنے کا آلہ نہ بنے اور مدح وہجو دنیا کمانے
کے لیے نہ کرے ورنہ گداگری کی ایک صورت ہے اور طماعی وبدنفسی کی دلیل ہے۔‘‘5
صوفیائے کرام کے نزدیک
دنیا اور عناصر دنیا کے تمام ہنگامے عدم محض ہیں یا ان کا وجود اضافی اور اعتبار محض
ہے اور حقیقی وجود صرف ذات باری کا ہے اور دنیاکے موجودات اس حقیقی وجود کے مختلف جلوے
ہیں۔ صوفیا کوجب طریقت و سلوک کی راہ چلتے چلتے کو وجود وشہود کی نسبت میسر ہوتی ہے
تو وہ وجود مطلق کی ذات کے مشاہدے میں خود کو گم کر تے ہیں اور حقیقت حال کے انکشاف
سے خود کو سرشار پاتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے خود کو فنا کرنا۔ اس کا مطلب ہے کہ نفس
اور خواہشاتِ نفس کو مات دینا۔ ’موتوا قبل ان تموتوا‘ (یعنی موت سے پہلے مرجاؤ)کا مفہوم
بھی یہی ہے کہ خواہشات نفسانی کو مات دینے کے بعد ہی دل کی حقیقی حیات ہے ورنہ حرص
و ہوس کی اتباع دل کو مردہ کردیتی ہے اورانسان کی غفلت یا اس کا ہوا وہوس کی زنجیروں
میں جکڑ جانا دراصل معشوق حقیقی کے دیدار کا مانع ہے۔علائق دنیا کی کدورتوں سے پاک
کرنے کے بعد محبوب کا دیدار ممکن ہے۔درد نے سلوک کی اس کیفیت کو شعری تجربے میں محسوس
کیا اور اسے مختلف انداز میں پیش کیا ہے۔اس طرح کے مسائل کے بیا ن میں صفائی اور سادگی
کے ساتھ انھوں نے مختصر الفاظ کے استعمال کا بھی بہت ہی خاص خیال رکھا ہے۔ اسی وجہ
سے درج ذیل اشعار سہل ممتنع کی بہترین مثال قرار دیے جاسکتے ہیں ؎
ہے غلط گر گمان میں
کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں
کچھ ہے
جگ میں آکر ادھر ادھر
دیکھا
تو ہی نظر آیا جدھر
دیکھا
وحدت میں تیری حرف
دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال،تجھے
منہ دکھا سکے
نظر میرے دل کی پڑی
درد کس پر
جدھر دیکھتا ہوں وہی
روبرو ہے
ساقیاں لگ رہا ہے یاں
چل چلاؤ
جب تک بس چل سکے ساغر
چلے
تصوف کے موضوع پر علم
الکتاب اور رسائل اربعہ جیسی عالمانہ تحریریں نیز صوفیانہ مزاج اور شخصیت کے باوجود
درد کی شاعری،سلوک کے مختلف مقامات کے بیان میں تصوف کی اصطلاحات وحقائق سے بوجھل نہیں
ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ درد کے مختصر شعری سرمایے کامعتد بہ حصہ بھی ایسے اشعار پر مشتمل
ہے جن پر عشق مجازی کے رنگ کا گماں ہوتا ہے۔اگر یہ کہاجائے تو بے جانہ ہوگا کہ دردعشق
مجازی کی لذتوں سے ناآشنانہ تھے،ان کی شاعری حقیقت ومجاز کی ہم آہنگی کی بہترین مثال
قرار دی جاسکتی ہے ؎
کون سی رات آن ملے
گا
دن بہت انتظار میں
گزرے
جب نظر سے بہار گزرے
ہے
جی پہ رفتارِ یار گزرے
ہے
ذکر میرا ہی وہ کرتا
تھا صریحاً لیکن
میں جو پوچھا تو کہا،خیر
یہ مذکور نہ تھا
دل کس چشم مست کا سرشار
ہوگیا
کس کی نظر لگی کہ یہ
بیمار ہوگیا
کچھ ہے خبر بھی اٹھ
اٹھ کے رات کو
عاشق تری گلی میں کئی
بار ہوگیا
خون ہوتا ہے دل کا
یاں آؤ
مہندی پاؤں میں کیا
ملی ایسی
خلیل الرحمان داؤدی
درد کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’درد بلاشبہ
صوفی شاعر تھے اور ان کی شاعری کا بیشتر حصہ تصوف وعرفان کے موضوعات پر مشتمل ہے تاہم
ان کے کلام میں شاعری کے دوسرے عناصر بھی وافر مقدار میں ملتے ہیں جہاں ان کے کلام
میں مسائل تصوف ومعرفت کا بیان ہے،وہیں تغزل کے دوسرے جوہر بھی اتنی آب و تاب سے جلوہ
گر ہیں کہ نظر خیرہ ہوجاتی ہے۔‘‘6
دردسے حد سے زیادہ
عقیدت رکھنے والے قدیر احمد درد کے صوفیانہ مسلک ومشرب، شاعری اور ان کے عشق حقیقی
ومجازی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’خواجہ میر
درد کا سرمایۂ سخن،عشق مجازی،عشق حقیقی دونوں ہی خصوصیات کا حامل ہے بلکہ بعض اشعار
پر تو شبہ ہوتا ہے کہ یہ مجازی ہیں یا حقیقی اور آپ بذاتِ خود صرف عشق حقیقی کے قائل
ہیں اس لیے اکثر حضرات کو آپ کے اکثر اشعار کے مطالب کے سمجھنے میں دقت ہوتی ہے اگر
چہ آپ نے ابتذال اور عریانی کو منہ نہیں لگایا لیکن مجازی رنگ کے اشعار اتنے کامیاب
اور معیاری ہیں کہ بڑا سے بڑا رند لاابالی شاعر بھی ان اشعار پر سردھنتاہے،اپنے اشعار
میں محبوب کا سراپا اس خوبی سے کھینچا ہے کہ وہ ہوبہو ہمارے سامنے آکر کھڑا ہوتا ہے
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے واقعی کسی دنیوی محبوب سے عشق کیا ہے۔اس کے لباس،رفتارگفتار،اس
کا کردار،کمر،لب … دہن، آنکھیں، ابرو، مژگاں زلفیں، مہدی، مسکراہٹ، تلون مزاجی، شوخی،
تندخوئی، فسوں سازی اور خودداری وغیرہ ہرایک داخلی وخارجی خوبی کو اپنے اشعار میں پیش
کیا ہے ؎
درد وہ گلبدن مگر،تجھ
کو نظر پڑا کہیں
آج تو اس قدر بتا
کس لیے باغ باغ ہے
صورتوں میں خوب ہوں
گی شیخ گو حور بہشت
پر کہاں یہ شوخیاں،یہ
طور یہ محبوبیاں7
درد کا کمال یہ تھا
کہ وہ ذاتی اور شخصی تجربے کو آفاقی اور عمومی بنانے کا ہنر بخوبی جانتے تھے۔ عشق
مجازی ہو یا حقیقی۔ انھوں نے ہر دو تجربے کو عمومیت اور آفاقیت سے سر فراز کیا ہے۔بعض
دفعہ ان کے کلام میں اس طرح کی مثالیں نظر آنے کے بعد قاری حیرت میں پڑجاتا ہے، بعض
دفعہ ان دونوں عشق کے مابین سرحدیں بھی مسمار ہوجاتی ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے مدغم
ہوجاتے ہیں۔ اس ادغام کی کیفیت کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے ؎
درد دل کے واسطے پیدا
کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کم
نہ تھے کروبیاں
قاضی عبیدالرحمان ہاشمی
لکھتے ہیں:
’’درد کی
عظمت اور معنویت کی ایک دوسری جہت انسانی درد وآلام سے رشتہ استوار کرنے کی طرف ان
کا قوی تر رجحان ہے،وہ اپنی خلوت میں اس خلش کی آنچ سے مسلسل پگھلتے رہتے ہیں۔‘‘8
درد نے متصوفانہ شاعری
یا مابعد الطبیعیات موضوعات کی عکاسی اپنی شاعری میں کسی نارسائی یا کمزوری پر پردہ
ڈالنے کے سبب نہیں کی ہے بلکہ اپنے شوق اور طبعی رجحان کے سبب اس کوچے میں استقامت
کے ساتھ قائم رہے اور فکر سخن کرتے رہے۔وحید اختر کے مطابق:
’’درد پہلے
شاعر ہے جنھوںنے اردو غزل کو تصوف کے میدان میں فارسی شعرا کے برابر کھڑا ہونے کے لائق
بنایا۔‘‘9
دردکی شاعری میں وسیع
المشربی، کثیرالجہتی، تنوع، ہمہ جہتی، فراخ دلی اور بے پناہ وسعت ہے،دنیا ومافیہا اور
علائق دنیا سے بے نیازی کے بعد بھی اپنے آپ کو کبھی بھی غرور وتکبر جیسے اوصاف سے
متصف نہیں کیا،دنیاوی مسائل پربھی گہری نظررہی اور اپنے آپ کو بھی عام انسانوں جیسا
پیش کیا ہے،کہتے ہیں ؎
دل زمانے کے ہاتھ سے
سالم
کوئی ہوگا جو رہ گیا
ہوگا
کلام درد کے بنظر غائر
مطالعے سے اس کی کئی پرتیں کھلنے لگتی ہیں،لفظی اور معنوی محاسن کے ساتھ ان کا نظام
فکر بھی کلام میں جا بجا نظر آتا ہے۔ادبی تاریخ وتنقید پر گہری نظر رکھنے والے اس
بات سے بخوبی واقف ہیں کہ درد کے اندر لفظوں کے انتخاب اور مخصوص سیاق و سباق کی ہم
آہنگی سے بے پناہ معنوی گہرائی پیدا کرنے کا ملکہ تھا جس کے اثرات ان کے کلام میں
نمایاں ہیں۔ ان کے کلام میں سادگی ہے،خلوص ہے،جاذبیت ہے،درد ہے،مسائل زندگی کا حل ہے،تصوف
ومعرفت کے مضامین کا بحر ذخارہے،صنعت وبلاغت کا حسین امتزاج ہے، استعارے وکنایے کی
خوب صورت آمیزش ہے،عشق حقیقی وعشق مجازی کا حسین سنگم ہے،تغزل کے اعلیٰ جواہر ہیں،
سوز وگداز اور واردات ِ قلب وجگر کے نسخے ہیں،اخلاقی مسائل اور حقائق ومعارف کے رہنما
اصول ہیں۔ درد کی شاعری اور اس کے فنی محاسن پر بہت سے لوگوں نے اظہار خیال کیا ہے۔
قاضی عبید الرحمن ہاشمی
کی رائے اس سلسلے میں بے حد موزوں معلوم ہوتی ہے،لکھتے ہیں:
’’دردکی غزلوںاوررباعیوںمیں وہ
تمام محاسن شعری ملتے ہیں جن کا استعمال اساتذہ فن نے بڑی ہنرمندی، چابکدستی، سلیقے
اوراحتیاط سے کیاہے،چناں چہ تکرارِ الفاظ،لفظوں کاالٹ پھیر،مصرعوں کاتقابل،ضرب الامثال،
محاورے، فارسی تراکیب، تشبیہ، استعارے، محاکات، کنائے، نقل قول، تعددالفاظ، حسن تعلیل،
مراعات النظیر اور صنعت تضاد وغیرہ نہایت خوبصورت
اور دلنشیں استعمال سے درد کی شعری کائنات جگمگا رہی ہے لیکن یہ سب کچھ اس قدر کمال
ہنرمندی اور مہارت فن کے ساتھ ہے کہ شاعری پر کہیں بھی آورد کا دھوکا تک نہیں ہوتا
اور اس کے قرب سے حاصل ہونے والی دلنوازی موسیقی کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے۔‘‘10
درج بالا اقتباس سے
واقعی مرزا درد کی شاعری میں بہت ہی مناسب روشنی پڑ رہی ہے،جن ناقدین نے بھی ان کی
شاعری کے تئیں صرف کسی مخصوص گوشے کو سامنے رکھ کر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے،وہ کافی
حد تک درد سے انصاف کرتے ہوئے نظر نہیں آتے اور نہ ان کے کلام کی تفہیم کے پہلوؤں
سے قاری اور ادب سے وابستہ افراد کو کما حقہ واقف کرا پاتے ہیں،اس لیے ضروری ہے کہ
ہر ادیب یا شاعر کی تخلیق یا ان کی شاعری کی صحیح تفہیم کے ان کے شہ پارے کو بالاستیعاب
اور دقت نظری سے مطالعہ کرکے کیا جائے اور ہر اس پہلو کو سامنے لایا جائے جس سے اس
کی صحیح تصویر سامنے آسکے۔ میں نے اس مضمون میں دونوں طرح کے اقتباسات پیش کرکے اور
جگہ بہ جگہ اپنی رائے دے کر درد کے سلسلے میں مناسب رائے قائم کرنے کی کوشش کی ہے،ممکن
ہے کہ کچھ گوشوں میں کمی رہ گئی ہو مگر امید ہے کہ اس سے تحقیق اور تنقید کی صحیح صورت
قاری کے ذہن میں آئے گی۔
حواشی
- نالہ درد،خواجہ میردرد، ص 49(ترجمہ فارسی رسالہ نالہ درد، 1982 بحوالہ ریختہ)
- مونوگراف،قاضی جمال حسین،ساہتیہ اکیڈمی،دہلی
- شمس الرحمان فاروقی،بحوالہ :سید خواجہ میر درد،ص6،رسالہ نئی صدی،بنارس،2008
- رشید حسن خاں دیوان اردو،مکتبہ جامعہ،دہلی،1989، ص 8
- نالہ درد،خواجہ میر درد،ص28
- خلیل الرحمان داؤدی (مرتبہ )دیوان درد،لاہور،1988
- قدیر احمد خاں، خواجہ میر درد اور ان کا ذکر وفکر، دہلی،1964، ص230
- قاضی عبید الرحمن ہاشمی،مونوگراف خواجہ میر درد،اردوکادمی،دہلی
- خواجہ میر درد،تصوف اور شاعری،ص:378،علی گڑھ
- قاضی عبید الرحمن ہاشمی،مونوگراف،اردو اکادمی،دہلی، ص:55،
Myserah Akhter
Research Scholar, Dept of Urdu
Delhi University
Delhi- 110007
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں