27/12/23

فروغِ نقاش کا شاہکار: مہابھارت:محمد اسرار

 

مہابھارت ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ ایک طویل جنگ ہے۔اس تاریخی واقعہ پر اردو ادب میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ نظم میں بھی اور نثر میں بھی۔ اس جنگ کے مختلف کرداروں کو اردو کے شاعروں نے اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ مثلاً کرشن، یدھشٹر، کرن،  دروپدی وغیرہ۔ یہ لڑائی بھی حق و باطل کا معر کہ قرار پائی۔آخر فتح سچائی کی ہوئی اور جھوٹ ہار گیا۔ اسی کہانی کو مکمل طور پر اردو شاعری میں ڈھالنے کا اہم کارنامہ انجام دیا ہے فروغ نقاش نے۔ عبدالحفیظ فروغ نقاش شہر ناگپور کے ایک کلاسیک شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے عروج کے دور میں بھی ان کا رجحان اس جانب نہیں گیا۔ وہ مکمل طور سے کلاسیک ہی رہے۔ یہ ضرور ہے کہ ان کی شاعری میں بھی حسن و عشق کے علاوہ بہت کچھ ہے لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو وہ ایک رومانی شاعر معلوم ہرتے ہیں۔

فروغ 1922میں ناگپور میں پیدا ہوئے۔1 وہ ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ناگپور میں جو مسلم خاندان مومن پورہ میں آباد ہیں۔ ان میں سے اکثر کا پیشہ پارچہ بافی رہا ہے۔ فروغ کے خاندان کا بھی یہی پیشہ تھا۔ ابتدائی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد نوجوانی کے ابتدائی زمانے میں ہی انھیں شاعری سے شغف ہوگیا۔ وہ مصوری بھی کرتے تھے۔ شاعری اور مصوری کے درمیا ن یوں بھی ایک رشتہ ہے۔ اکثر شاعروں کے کلام پر مصوروں نے اپنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ غالب ان میں سے ایک ہیں۔ فروغ نے شروع ہی سے رومانی لہجہ اختیار کیا اور آخر تک اس پر قائم رہے۔  اس بات سے فروغ کو ملک کی تاریخ رقم کرنے کا خیال دل میں آیا اور انھوں نے طویل نظم لکھنے کا ارادہ کرلیا۔ اس نظم کا عنوان ’شاہنامۂ ہند‘ طے پایا۔ اس میں ہزاروں سال کی تاریخ کو نظم کیا گیا ہے۔ منظوم مہابھارت بھی اسی نظم کا ایک حصہ ہے۔

ناگپور میں ایک بہت مشہور تجارتی خاندان ہے۔ بیدھ ناتھ فرم ان کی ملکیت ہے۔ جو آیورویدک دواؤں کی بڑی فرم ہے۔ اسی فرم کے مالکان نے شاہنامۂ ہند کے ایک حصے ’مہابھارت‘ کو شائع کرنے کے لیے ہونے والے اخراجات کی ذمے داری لی۔ یہ ضخیم نظم اردو اور ہندی دونوں رسم الخط میں1997 میں شائع ہوئی۔ دونوں رسم الخط میں شائع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اسے ہندی والے بھی پڑھ سکیں۔ اسی نظم کے شائع ہونے پر فروغ نقاش کو ملک کے کئی قلم کاروں اور سیاست دانوں نے مبارکباد کے خطوط لکھے یا ان سے مل کر انھیں مبارکباد پیش کی۔ فروغ اپنی دھن میں مست رہنے والے انسان تھے۔ انھوں نے کسی بھی گروپ یا گروہ سے وابستگی کا اظہار نہیں کیا۔ وہ صرف اپنے فن پر توجہ رکھتے تھے۔

مہابھارت جیسی طویل نظم لکھنے کے لیے انھیں تاریخ کی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت پڑی۔ انھوں نے کئی کتابوں سے استفادہ کیا۔ ان کی کوشش رہی کہ تمام واقعات کو تسلسل کے ساتھ پیش کریں۔ اس میں انھیں خاطرخواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر شرف الدین ساحل نے فروغ کے اس شاہکار کے متعلق لکھا ہے۔  ’’اب تک جو حصے مکمل ہوچکے ہیں ان میں اشعارکی مجموعی تعداد سات ہزار ہے۔ پہلاحصہ مہابھارت کی تاریخ پر مشتمل ہے۔

 عرض مصنف کے عنوان سے فروغ لکھتے ہیں ’’شاہنامہ چالیس سال سے شاہنامۂ ہند کے نام سے قومی یک جہتی کے نقطۂ نگاہ سے لکھا جارہا ہے جس میں جین دھرم، بدھ دھرم  اور سناتن دھرم کے ساتھ ساتھ اسلام دھرم کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اب تک اس کی سات جلد یں مکمل ہوچکی ہیں۔ جن میں بیس ہزار اشعار مغل بادشاہ شاہجہاں تک لکھے جاچکے ہیں۔ اس کا پہلا حصہ اردو مہابھارت ہے جو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ میرے نزدیک اس کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ قدیم ہندوستان تہذیب وتمدن اور سناتن دھرم کی یہی داستان آئینہ دار ہے۔ جس کو میں نے ہندی اور سنسکرت کے مشہور عالم پنڈت جواہر پرساد مشرامرادآبادی کی مہابھارت بھاشا سے بڑی جانشانی اور پوری دیانتداری سے نظم کیا ہے۔ اس داستان کو ہند کی بڑی اکثریت پورے یقین اور دل کی گہرائیوں سے ساتھ سچ سمجھتی ہے۔ تومجھے یا کسی اور کو اسے فرضی داستان کہنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔ ‘‘ 2

اس نظم میں فروغ نے واقعی شاعری کا حق ادا کیا ہے۔  نہایت رواں اور آسان لفظوں کو برتا ہے۔ کوئی بھی اس نظم کو بلا تکلیف پڑھ سکتا ہے۔ اس میں ایک طرح کی نغمگی ہے۔ پوری نظم میں مختلف عنوانات کے تحت واقعات نظم کیے گئے ہیں۔ یدھشٹرکی گرفتاری کا منصوبہ کے عنوان سے لکھا ہے         ؎

اسی شب میں درونہ اور دریودھن نے اک ایسا

بنایا مل کے منصوبہ یدھشٹر کو پکڑنے کا

شریک مشورہ تھے ان میں کچھ ابلیس کے چیلے

فساد وفسق کے پیکر شکونی جیدرت جیسے

علاوہ اس کے ارجن کے لیے سوچی گئیں گھاتیں

محاذ جنگ سے اسکو ہٹانے کی ہوئیں باتیں

اس میں چکرویو کا مسئلہ بھی سامنے آیا

درونہ نے بڑی تفصیل سے اس فن کو سمجھایا

یہ ایک منصوبۂ ساز ش تھا جس کا مقصد حاصل

فقط یہ تھا نہ پانڈو رہ سکیں اب جنگ کے قابل

یدھشٹر چونکہ اپنے بھائیوں میں سب سے سربر ہے

متانت اور ذہانت میں بھی افضل اور برتر ہے

اسی اک وجہ سے ہے پانڈوؤں میں جوش اور ہمت

یہ ان کا عزم وپامردی یہ استقلال یہ جرأت

یدھشٹرکی گرفتاری سے جرأت آزمائی کا

اتر جائے گا نشہ پانڈؤوں کی خودستائی کا

یہ ایسی ضرب ہوگی تاب جس کی لا نہیں سکتے

وجے پانڈو ہمارے سامنے پھرپا نہیں سکتے

بالآخر مشورہ کے بعد کوروؤں سوگئے جاکر

عمل پیرا انھیں ہونا تھا کل میداں میں سازش پر 3

اس طرح کی روانی اور تسلسل مکمل نظم میں موجود ہے۔ فروغ نے مہابھارت کے ہر چھوٹے بڑے کردار کو شامل کیا ہے۔ جہاں جہاں انھیں محسوس ہوا کہ زیادہ تفصیل سے بیان کرنا چاہیے وہاں انھوں نے تفصیل سے بھی کام لیا ہے۔ ضرورت کے مطابق فٹ نوٹ بھی لکھا ہے۔ ہندی رسم الخط میں یہ خیال رکھا کہ اگر کوئی مشکل لفظ ہے تو حاشیے میں اس کے معنی لکھ دیے ہیں۔ تاکہ ہندی میں پڑھنے والوں کو آسانی ہو جائے۔ اس جنگ کے ایک اہم کردار کرن کاشاعرنے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ کرن کی خواہش کہ اسے ایسی جگہ جلایا جائے جہاں ابھی تک کسی کی بھی آخری رسم ادا نہ کی گئی ہو اس خواہش کو کرشن نے یوں پورا کیا کہ اپنی ہتھیلی پر کرن کی لاش کی آخری رسوم انجام دی۔ کرن کو مہابھارت کی تاریخ میں نہایت ہی اہم حیثیت حاصل ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ صرف دوستی نبھانے کی خاطر کوروؤں کے ساتھ تھے۔ یہ نظم فروغ کی شاعرانہ قدرت کا نمونہ ہے۔ افسوس کہ اس کتاب کو خاطر خواہ قبول عام حاصل نہیں ہوا۔ یہ کتاب ہندوستانی تہذیب اور قومی یک جہتی کی ایک مثال ہے۔

فروغ کو ادبی حلقوں میں وہ پذیرائی نہیں ملی، جس کے وہ مستحق تھے۔ اتنا بڑا کام کرنے کے باوجود مخصوص لوگوں تک محدود رہ گئے۔ اس کی وجہ شاید یہی رہی کہ وہ کسی خاص ادبی گروہ سے وابستہ نہیں تھے۔ اخبارات اور رسائل میں بھی وہ بہت شائع نہیں ہوئے۔ خود انھوں نے بھی اپنی تخلیقات کو شائع کروانے کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ حالانکہ ان کے بہی خواہوں نے انھیں کئی بار یہ مشورہ دیا کہ ان رسائل کو غزلیں اور نظمیں اشاعت کے لیے دیں جوکچھ معاوضہ دیتے ہیں یا نذرانہ دیتے ہیں۔ یہاں فروغ کی لاابالی طبیعت آڑے آجاتی اور وہ باتوں کو ٹال دیتے۔ کچھ اربابِ اقتد ارایسے تھے جو ان سے ملاقات کی غرض سے آئے اور کسی بہانے ان کی مالی امداد کرنا چاہتے لیکن ان کی غیور طبیعت یہ گوارہ نہیں کرتی۔ فروغ تجارت کرتے تھے اور اس سے گزر بسر ہوتی تھی۔ ان کے تمام بچے صاحب روز گار ہیں۔

فروغ کی غزلیں بھی نہایت اعلیٰ معیار کی ہیں۔ غزلوں میں ان کا رجحان حسن و عشق کی جانب صاف معلوم ہوتا ہے۔ ان کے قلمی مخطوطہ میں جو غزلیں ہیں ان سے چند مثالیں پیش ہیں          ؎

مری عاشقی کے چرچے تجھے اب نہ ہوں گوارا

مرے عشق نے ہی ورنہ ترے حسن کو سنوارا

تری برق سے یہ سازش مرے آشیاں کی خاطر

تجھے ہاتھ تاپنا ہے میں سمجھ گیا اشارا

شبِ غم فروغ اپنی اسی کشمکش میں گزری

کبھی دل نے ہم کو مارا کبھی ہم نے دل کو مارا 4

کلاسیکی شعرا کی غزلوں کا یہی انداز رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ فروغ کی نوجوانی کے عالم میں ناگپور میں کوئی ادبی تحریک یا رجحان نہیں تھا۔ ایسا بالکل نہیں۔ یہاں ترقی پسند تحریک کی پیروی بھی کی گئی۔ شاطر حکیمی اس کی مثال ہیں۔ جدید تحریک تو یہاں کے شاعروں اور ادیبوں کے لیے خوش آئند ثابت ہوئی۔ بیشتر شعرا وادبا اس تحریک سے نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ اس رجحان کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ سید یونس، ضیا انصاری، شاہد کبیر، شریف احمد شریف، مدحت الاختر وغیرہ اس تحریک کے یہاں نمائندہ شاعررہے۔ لیکن فروغ نقاش مزا جاً ہی کلاسیکی تھے۔ وہ ان تمام تحریکوں سے قطعی متاثر نہیں ہوئے۔ ہاں وطن پرستی کا عنصر ان کے کلام میں اکثر ملتا ہے۔ یہ ان کی نظموں میں ایک اہم خیال کے طور پرنظر آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام اردو شاعروں کی طرح ان کے دل میں بھی وطن سے بے پناہ محبت تھی۔

فروغ کی نظم مہا بھارت زبان وبیان پر ان کی مہارت کا زندہ ثبوت ہے۔ دل نشیں انداز اور سلاست وروانی اس طویل نظم کی اہم خوبیوں میں سے ایک ہیں۔ مہابھارت کی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب دورپدی کو دربار میں بلایا جارہا تھا تو انھوں نے سختی سے انکار کیا اور بھرے دربار میں جانے کو اپنی بے عزتی خیال کیا۔ اس بات کو فروغ نے یوں نظم کیا ہے     ؎

یہ باتیں سن کے پنچالی یہ بولی خیر کچھ بھی ہو

مگر میری طرف سے بھیشم سے تم جاکے یہ پوچھو

جہاں موجود ہوں اک بھیشم جیسے مردفولادی

ہوا کردی ہو جس نے خودگروکی اپنی استادی

اب ان کے سامنے کیا لاج اک ابلا کی جائے گی

اور اس کے بعد بھی مطلق نہ غیرت ان کو آئے گی

علاوہ اس کے ان سے یہ بھی کہنا نیرتاباں

بجائے شرق، نکلے غرب سے باصد جلال وشاں

جو متھادھرم ست بولے تو کہنا یہ بھی ہے ممکن

دُھلے پاتک، نہ گنگا سے تو کہنا یہ بھی ہے ممکن

مگر پنچال کی دختر نہ اس محفل میں جائے گی

جبیں پربے حیائی کا نہ ٹیکہ وہ لگائے گی 5

فروغ نے بلا تکلف ہندی زبان کے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ یہ ہونا بھی تھا کیونکہ کہانی ہندوستان کے پس منظر کی ہے لہٰذا ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کا استعمال بالکل جائز ٹھہرتا ہے۔ یہ تمام الفاظ قطعی غیر ضروری یا ٹھونسے ہوئے نہیں لگتے۔ اگر ایسا ہوتا تو روانی میں کمی آجاتی اور کہیں نہ کہیں سکتہ ضرور ہوتا۔ ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ نظم بلا تکلف پڑھی جاسکتی ہے۔ ان باتوں سے شاعر کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ غزلوں میں بھی وہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ رواں الفاظ ہوں اور آسان بحر ہو تا کہ قاری کو آسانی ہو۔ ایک غزل کے تین اشعار پر غور کیجیے۔

یوں رخِ تاباں پہ ان کے زلف لہرائی کہ بس

چاند چھپ کر رہ گیا ایسا گھٹاچھائی کہ بس

آئینے میں لے رہے تھے، اف وہ انگڑائی کہ بس

خود کو دیکھا، دیکھتے ہی، ایسی شرم آئی کہ بس 

ایک اشارے پر تمھارے مثلِ پر وانہ فروغ

جان دے دیتا ہے وہ، ہے ایسا شیدائی کہ بس6

فروغ خوب مطالعہ کرتے تھے۔ یہ عادت آخر عمر تک رہی۔ ریڈیوسننا اور پڑھنا یہ ان کی خاص عادت تھی۔ آخر میں جب آنکھیں کمزور ہو گئیں اور خود سے پڑھنے کے قابل نہیں رہے تو کسی کو کہتے تھے کہ پڑھ کر سنا دے۔ محدب عدسہ کا بھی استعمال کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے قلم سے جو کچھ لکھا وہ بڑے حرفوں میں ہے۔ ان کی شدید خواہش کے باوجود شاہنامے کے تمام حصے شائع نہیں ہوسکے اس بات کا رنج انھیں ہر حال میں رہا۔

بہر حال اتنی عظیم کتاب کا شاعر کی زندگی میں شائع ہونا ہی اہم ہے۔ فروغ نقاش کا انتقال2002 میں ہوا۔ تب سے اب تک بقیہ حصے اشاعت کے انتظار میں ہیں۔

 

حواشی

  1. ناگپور میں اردو: ڈاکٹر شرف الدین ساحل، 1993، ص 140
  2. ہندی اردو مہابھارت، مہابھارت سے متعلق:  فروغ نقاش
  3. ایضاً، ص، 186
  4. قلمی مخطوطہ :فروغ نقاش      
  5. ہندی اردو مہابھارت: فروغ نقاش، ص 131
  6. قلمی مخطوطہ: فروغ نقاش                      

 

Mohammad Asrar

Assistant Professor, Urdu Department

S.K. Prowal College of Art, Science & Commerce, Kamptee,

Dist. Nagpur- (Maharashtra)

Mob.9822724276

Email : asrarmohammad1977@gmail.com  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں