27/12/23

کرشن بہاری نور کا رنگ سخن:عمیر منظر

 

کرشن بہاری نور (1926-2003) کا شمار اردو کے مقبول شعرا میں کیا جاتا ہے۔ ان کے بہت سے اشعار زبان زد خاص و عام ہیں۔ روانی اور برجستگی ان کے اشعارکی نمایاں خوبی ہے۔لکھنؤ کے عام ادبی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی۔ بچپن سے ہی انھیں شعرو ادب سے گہرا لگائو تھابلکہ ایک حد تک وارفتگی کا یہ جذبہ کبھی کبھی دیوانگی کی منزلوں تک پہنچ جاتا۔ جس طرح سے انھوں نے صاف اور سادہ شعر کہے ہیں اسی طرح انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی برسوں کی شعری سرگرمی کی کہانی بھی بیان کی ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کس قدر توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ بلکہ کسی قدر جانفشانی کے ساتھ شاعری کی مشق بہم پہنچائی۔ ان کو یہ تقویت اپنے گھر سے ہی ملی کیونکہ ان کے ماموں گوکرن پرشاد کرن لکھنوی شاعری کے دلدادہ تھے اور مشاعروں کا اہتمام کرتے تھے، جب کہ ان کی خالہ تو باقاعدہ شاعری کرتی تھیں اور اساتذۂ سخن کے رابطے میں رہتی تھیں۔کرشن بہاری نور کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے۔ان کا پہلامجموعۂ کلام ’دکھ سکھ‘ کے نام سے 1977 میں شائع ہوا۔ دوسرا ’حسینیت کی چھانو‘ 1980میں۔ تیسرا ’تپسیا‘کے نام سے 1982 میں منظر عام پر آیا۔چوتھامجموعہ کلام ’سمندر مری تلاش میں ہے‘ 1994میں شائع ہوا۔ انھیں اترپردیش اردو اکادمی نے ان کی ادبی خدمات پر بھی انعام سے سرفراز کیا تھا۔واضح رہے کہ کرشن بہاری نور پوسٹل اینڈ ٹیلی گراف محکمہ میں ملازم تھے اوروہیں سے سبکدوش ہو ئے۔

کرشن بہاری نور نے ابتدائی چند غزلوں تک بیدار صاحب سے مشورہ کیا، پھر انھیں کے کہنے پر فضل نقوی (1913-1991)  سے مشورۂ سخن کرنے لگے۔ فضل نقوی کے بارے میں انھوں نے جس تفصیل سے اپنے رابطے اور تعلق کی کہانی کو بیان کیا ہے،اس سے اس زمانے کی عام استادی و شاگردی کی روایت پر روشنی پڑتی ہے۔ نیزاساتذہ کا شاگردوں کے تئیں رویہ اور خود شاگرد کسی طرح اپنے اساتذہ سے رابطے میں رہتے تھے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مبتدی شعرا اپنے اساتدہ سے استفادے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے تھے کچھ یہی حال کرشن بہاری نور کا بھی تھا۔انھوں نے اپنے استاد فضل نقوی سے شاعری اور اس کی فنی باریکیاں سیکھیں۔ فضل نقوی خود بڑے عالم اور شعروادب پر غیر معمولی دسترس رکھنے والے تھے۔ لکھنؤکی ادبی بہار کے بالکل آخری دور میں جن لوگوں نے قدیم اساتذہ کی یاد تازہ کررکھی تھی ان میں فضل نقوی کا شمار ہوتا تھا۔فضل نقوی سے کسب فیض کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ فضل نقوی بے حد مصروف انسان تھے مگر اس کے باوجو د وہ نہایت توجہ سے کرشن بہاری نور کا کلام دیکھتے۔ اصلاح دیتے اور فنی رموز سے انھیں آگاہ بھی کرتے رہتے۔فضل نقوی کے بارے میں کرشن بہاری نو ر کا یہ دلچسپ بیان ملاحظہ کریں:

ــ’’در اصل بات یہ تھی کہ استاد اس زمانے میں بھی بے حد مشغول رہتے تھے میں تو روز ہی دیکھا کرتا تھا ایک انجمن والا نوحہ کہلا کے لے گیا تو دوسری انجمن کا صاحب بیاض کھڑا اپنا دکھڑا رو رہا ہے وہ گیا تو کا تب آجاتا یہ مضمون نہیں ملا مراقبہ تو لکھ دیجیے فلاں کالم میں اتنی جگہ بچ گئی ہے اس کو کیسے پر کیا جائے اِس صفحہ پر کیا ہو اُس صفحہ پر کیا ہو گا ان سے نجات ملتی تو نئے پرانے شاگردوں میں سے کوئی نہ کوئی آجا تا غزلوں پر اصلاح،نوحوں پر اصلاح، قصیدوں پر اصلاح،غرض ایک جاتا تو دوسرا آجا تا میں تو روز اپنی آنکھوں سے دیکھتا تھا کوئی دن ایسا نہ گزرتا جس دن وہ فرصت سے ہوتے موصوف ’نظارہ‘ کے آفس ہی میں بیٹھے بیٹھے تمام کام انجام دیتے رہتے جب بہت تھک جاتے تو چند لمحوں کے لیے اندر جا کر آرام فرما لیتے مگر یہ آرام بھی کبھی وہ اپنی مرضی کے مطابق نہ کر پاتے کبھی کوئی راجہ صاحب یاد فرما رہے ہیں تو کبھی کوئی مجتہد اپنی طرف کھینچ رہا ہے کبھی مذہبی بحث میں الجھے رہتے تو کبھی سیاسی گفتگومیں منہمک پائے جاتے کبھی ادبی سرگر میوں میں ڈوب جاتے تو کبھی یاد ایام گزشتہ گھیر لیتی۔ کبھی گھر والوں کی سنتے کبھی باہر والوں سے بات کرتے۔ میں اکثر سوچا کر تاکہ یہ دماغ جو بیک وقت کئی کئی سمتوں میں بٹ جاتا ہے اگر صرف ایک طرف مائل ہو جاتا تو شاید وہ دنیا کے ان لوگوں میں ہوتے جن کا شمار انگلیوں پر کیا جاتا ہے۔

)دکھ سکھ،کرشن بہاری، اسرار کریمی پریس الہ آباد1983 ،ص 13(

اس اقتباس سے فضل نقوی کی استادانہ صلاحیتوں کا ہی اعتراف نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کرشن بہاری نور نے شاعری کی دنیا میں جو مقبولیت حاصل کی اور ان کے بعض اشعار کی جو آج تک گونج ہے ان میں استاد کی تربیت کا غیر معمولی کردار ہے۔کرشن بہاری نور نے اس کا اعتراف اپنے پہلے شعری مجموعہ ’دکھ سکھ‘ میں کیا ہے۔

کرشن بہاری مشاعروں کے بے حد مقبول شاعر تھے۔ مشاعروں میں وہ بہت اعتماد اور اہتمام سے  کلام پڑھتے تھے۔اگرچہ تحت میں پڑھتے تھے مگر اپنے ایک مخصو ص انداز کی وجہ سے جب وہ اپنا کلام  پڑھتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔ان کے اساتذہ کا فیض اور لکھنؤ کے عام ادبی ماحول کا اثر ہی تھا کہ ان کے بہت سے اشعار اردو کے مشہور اشعار میں شمار کیے جاتے ہیں بلکہ ان میں بعض کی حیثیت زبان زد خا ص و عام کی ہوگئی ہے۔اس نوع کے چند اشعار ملاحظہ کریں           ؎

میں تو غزل سنا کے اکیلے کھڑا رہا

سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھوگئے

میں جس کے ہاتھوں میں اک پھول دے کے آیا تھا

 اسی کے ہاتھ کا پتھر میری تلاش میں ہے

اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں

میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں

ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری

گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد

بچھڑ کے تجھ سے نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں

عجیب طرح کے بس حادثے گزرتے ہیں

بنیادی طور پر کرشن بہاری نور عام فہم اور سادہ اندازمیں شاعری کرتے تھے۔درج بالا اشعار کی روانی اور ایک خاص کیفیت سننے والے کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ مشاعروں میں جب وہ پڑھتے تو بسااوقات  ان کے اشعار جادو کا اثر رکھتے۔کیفیت اور روانی کے علاوہ یہ اشعار سہل ممتنع کے حامل ہیں۔یعنی نہ ان میں کوئی مشکل لفظ ہے اور نہ کوئی مرکب لفظ بلکہ سیدھے سیدھے انداز میں شعر کہہ دیا ہے مگر شعر کی بنت اور لفظوں کی نشست برخاست اس فنکاری سے کی گئی ہے ان کی معنویت میں اضافہ ہوگیا ہے۔پہلا شعر تو اردو کے مشہور ترین اشعار میں ہے۔کون ہوگا جسے یہ شعر یاد نہ ہو۔دوسرے شعر میں بے وفائی یا احسان ناشناسی کا مضمون ہے۔مگراس کے لیے جس انداز کو اختیار کیا گیا ہے وہ قابل ذکر ہے۔بقیہ اشعار کو بھی اسی ذیل میں دیکھا جاسکتاہے کہ کس طرح کرشن بہاری نور نے زندگی کے عام تجربوں کو شاعری کے پیکر میں ڈھالا ہے۔ان اشعار کا سادہ اندازاور فن کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے شاعری کا جادو جگایا ہے۔

کرشن بہاری نور کی شاعری میں زندگی کا حسن اپنی تمام تر جمالیات کے ساتھ موجود ہے۔انھوں نے ایک طرف جہاں عشقیہ مضامین کو برتا ہے وہیں زندگی اور اس کی نیرنگیوں کوبھی شاعری کا لباس عطا کیا ہے۔انھیں اپنے زمانے اور حالات کا نہ صرف علم ہے بلکہ اس سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔زندگی کو کسی ایک رخ سے دیکھنے کے بجائے اس کے تمام پہلوؤں پر نظر ہے        ؎

اس سزا سے تو طبیعت ہی نہیں بھرتی ہے

زندگی کیسے گناہوں کی سزا ہے یارو

زندگی ٹھوکریں کھاتی ہے بچھڑ کر تجھ سے

تیرے پازیب کے ٹوٹے ہوئے گھنگھرو کی طرح

جہاں تک زندگی اور موت کے طوفان و ساحل تھے

وہیں تک ناخدائے کشتی عمررواں ہم تھے

نشہ کا یہ عالم ہے سچ ہی سچ لگے سب کچھ

زندگی کی صہبا ہے میکدہ ہے خوابو ں کا

زندگی پھر زندگی پھر زندگی

کچھ نہیں بس تہہ بہ تہہ تنہائیاں

اس سلسلے کا مشہور ترین شعر تو یہ ہے

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

ان اشعار کا غالب پہلو امکانات کی تلاش ہے۔ زندگی سے فرارممکن نہیں یہ ایک حقیقت ہے۔ سزا، گناہ، ٹھوکر، طوفان اور تہہ بہ تہہ تنہائیاں زندگی کی مختلف شکلوں کو ان اشعار میں پیش کیا گیا ہے۔زندگی کی ان مختلف شکلوں سے اس کے تنوع اور بے شمار تجربوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ تجربہ کہیں نظریہ،کہیں مشاہدہ تو کہیں کسی اور پہلو سے ظاہر ہوکر غزل کے مضامین کا حصہ بنتا رہا ہے۔صدیوں پرانی اس روایت اور غزل کے روشن تجربے کو کرشن بہاری نو رنے بھی درج بالا اشعار میں برتنے کی کوشش کی ہے۔

کرشن بہاری نور کی غزلوں میں گیان دھیان بھی ہے۔یعنی وہ صرف محبت نہیں بلکہ عرفان محبت کے قائل ہیں۔زندگی کو اسی رخ سے دیکھتے ہیں اور اسی وجہ سے کسی اکتاہٹ یا بے چینی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ تہہ بہ تہہ تنہائیاں سمیٹ رکھتے ہیں۔ان کے یہاں تلاش خیر کا پہلونمایاں ہے۔ہم اسے تعمیری فکر سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں وہ کہتے ہیں         ؎

زندہ رہنے کی ہوس تو ہے ضرور

اے مرے پروردگار اچھائیاں

وہ یہ بھی کہتے ہیں          ؎

ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری

گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد

تو دراصل ان کے اسی جذبے کا اظہار ہوتا ہے۔عرفان صدیقی نے ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

کرشن بہاری نور کی شاعری سچ کی ایک ایسی اکائی ہے جس میں ایک جوگی کا بیراگ، ایک صوفی کا عرفان، ایک محبت کرنے والے دل کی وسعت اور ایک دردمند انسان کا گداز حل ہو کر ان کا ہنر بنا ہے۔ ان کی شاعری اس حقیقت کی سب سے بڑی اور سب سے سچی گواہ ہے کہ شاعر نے اپنے لفظوں کے حسن اور اپنے جذبے کے گداز کا مول اپنے خوابوں اور اپنی امیدوں اور اپنے تجربوں سے چکایا ہے۔ ہم عصر آوازوں کے شور میں نور کی آواز کا پہرا ہماری سماعت کے وسیلے سے ہمارے احساس کو متحرک اور ہماری فکر کو متوجہ کرتا ہے اپنی نرمی اور لطافت کے باوجود یا انھیں خصوصیات کی بنا پر انھوں نے زندگی کے دکھ سکھ سچ مچ جھیلے ہیں اور اپنے تجربوں کی روشنی اور گرمی سے اپنے شعر کا چہرا د مکایا ہے دنیا کے اتھاہ سمندر میں اپنے وجود کی دریافت اور پھر اس کی حفاظت بڑی جرأت اور بڑے ریاض کا تقاضا کرتی ہے وہ خود اس اگنی پر یکشا سے گزرنے کے بعد ہی یہ کہنے کے قابل ہوئے ہیں۔(تپسیاص،کرشن بہاری، نور ص122 )

اردو کی غزلیہ شاعری میں زندگی تنہائی کے حسن سے عبارت ہے۔جدید فکرو خیال کے شعرا کے یہاں تنہائی کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔تنہائی صرف تنہائی نہیں ہے بلکہ بے بسی اور بیکسی کا استعارہ بھی ہے جسے شہری زندگی نے جنم دیا ہے۔اسی وجہ سے تنہائی جدید معاشرے میں فرد کی بے سمتی اور بے گھری قرار دی گئی۔تنہائی اور تنہا ہونے پر جدید فکر وخیال کے حامل شاعروں نے خوب سے خوب پہلو نکالے ہیں اورشعری مضامین باندھے ہیں۔ کرشن بہاری نور نے بھی اس مضمون کو برتا ہے۔ کرشن بہاری نور ِ روایت پسند شاعر ہیں۔انھوں نے لکھنؤ کی شعری روایت کے سانچے میں اپنی شاعری کو سجایا سنوارا تھا۔اس لیے ان کے یہاں زبان وبیان کا لطف اور پہلے سے بیان کیے ہوئے مضامین نئے پیرہن میں ملتے ہیں۔روایت سے استفادے کی خوب صورت مثالیں ان کے یہاں موجود ہے        ؎

کیا حسن ہے جمال ہے کیا رنگ و روپ ہے

وہ بھیڑ میں بھی جائے تو تنہادکھائی دے

اب یہاں تنہادکھائی دینے کا کیا مطلب ہے۔حسن وجمال نے اسے تنہا کیا ہے یا وہ اپنے رنگ و روپ کی وجہ سے یکہ وتنہا ہوگیا ہے کہ اس جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ یہاں دوسرے پہلو کو ہی ترجیح دی گئی ہے۔یعنی کرشن بہاری نور نے اس مضمون کو ایک اور زاویہ دینے کی کوشش کی ہے۔ایک شعر اور ملاحظہ کریں        ؎

ہر گھڑی تیرے خیالوں میں گھرا رہتا ہوں

ملنا چاہوں تو ملوں خود سے میں تنہاکیسے

محبوب کی محفل میں اسی کے حسن و جمال کا جادو رہتا ہے کسی دوسرے کی مجال نہیں کہ کچھ عرض کرسکے۔اگر وہ نہ ہو تو محفل سونی سونی لگتی ہے۔کلاسیکی شاعری کا یہ نہایت عمدہ مضمون ہے اور اس پر بے شمار بلکہ لاکھوں شعر کہے گئے ہیں اور آئندہ بھی کہے جائیں گے۔کرشن بہاری نور کا شعر ہے         ؎

کہا ں یہ ہوش باقی تھا کہ عرض مدعا کرتے

زباں رکھتے ہوئے محفل میں تیری بے زباں ہم تھے

محبوب کی جستجو اور طلب ہی عاشق کی معراج ہے مگر یہ منزل ملتی نہیں بلکہ جب کبھی مدعا ہاتھ آتا ہے تو ہوش و حواس ہی نہیں بحال رہتے          ؎

جستجو میں تری یہ تماشا ہوا

ہوش جب کھوگئے مدعا مل گیا

محبوب کے بہت سے نام ہیں ان میں ایک نام کافر بھی ہے۔یعنی وہ عاشق کی ہر خواہش کو ٹالتا رہتا ہے انکار کرتا رہتا ہے۔دیوانے اس کے گرد چکر لگاتے رہتے تھے مگر انکار کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔کرشن بہاری نور نے اس کو بھی اس طرح نبھایا ہے کہ وہ انھیں کا حصہ کہا جاسکتا ہے      ؎

یوں ہی تو نہیں تجھ کو سب کہنے لگے کافر

کیا جانیے کتنوں کے ایمان گئے ہوں گے

اس طرح کے بے شمار پہلو ان کی شاعری میں ہیں۔واضح رہے کہ غزلوں کے علاوہ قطعات اور نظمیں بھی ان کی شاعری کا حصہ ہیں۔ان کی نعتیں ایک عجب احساس کی حامل ہیں جن پر الگ سے گفتگو کی جانی چاہیے۔کرشن بہاری نور کو جن لوگوں نے مشاعروں میں سنا ہے اور جنھوں نے ان کو کتابوں میں پڑھا ہے دونوںاس بات کے قائل ہیں کہ ان کی شاعری میں اثر انگیزی کی ایک کیفیت ہے۔کریم الاحسان نے اس بات کو زیادہ بہتر انداز میں لکھا ہے۔

 یہ بات کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے کہ ان کو سنا بھی جاتا ہو اور ان کے اشعار پر لگا کر سرحدوں کو پار بھی کر جاتے ہوں۔ یہی حال نور صاحب کے اشعار کا ہو رہا ہے، جب وہ مشاعرے میں آتے ہیں تو فرمائشوں کا ایک ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے آخر یہ سب کچھ کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ ان کے کلام میں جان ہے، ایک پیغام ہے۔ انفرادیت ہے۔دہ لکھنؤ اور دلی کے روایتی گورکھ دھندوں کے پا بند نظر نہیں آتے سیدھے سادے اشعار کہتے ہیں اور ان میں بلا کی کشش اور تاثیر ہوتی ہے میں نے ان کے اشعار نہ جانے کتنے لوگوں سے سنے ہیں اور یہ بات کچھ آسان نہیں ہوتی ایک مدت ایک عرصہ ایک محنت ایک ریاض کے بعد بھی کتنے ہی شعرا  اس شہرت اور ہر دل عزیزی سے محروم ہی رہتے ہیں۔(تپسیا ص 155)

اب یہاں چند اشعار کسی تبصرے کے بغیر نقل کیے جارہے ہیں         ؎

نہ کوئی وعدہ تھا ان سے نہ کوئی پابندی

تمام عمر مگر ان کا انتظار کیا

یہی نہیں کہ ہمیں انتظارکرتے رہے

کبھی کبھی تو انھوں نے بھی انتظار کیا

اتنی توجہ اتنی عنایت

اب دھوکا ہونے والا ہے

ختم ہی ہے ہستی کا فسانہ

قرض ادا ہونے والا ہے

ان کو پاکر سوچتا ہوں

خواب تھا بہتر یا تعبیر

دل میں کوئی ارمان نہیں ہے

پھر بھی اطمینان نہیں ہے

فن کو سنوار دیں جو کہیں دل کی دھڑکنیں

پتھر بھی آئینوں کی طرح بولنے لگے

بظاہر ان اشعار میں ایسا کوئی بڑا مضمون نہیں باندھا گیا ہے اور نہ اس طرح سے شعر کہا ہی گیا ہے جس پر کسی بڑے رمز کا گمان ہو، لیکن ان اشعار کو پڑھتے ہوئے قاری ایک کیفیت سے ضرور گزرے گا۔کس قدر سہل اور سادہ انداز میں شعر کہا گیا ہے۔اور یہی سادگی ان اشعار کا حسن ہے۔

اس مختصر مطالعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کرشن بہاری نور کی شاعری ہماری شعری روایت کے گہرے شعور سے عبارت ہے۔انھوں نے اپنے بزرگوں سے جو کچھ سیکھا تھا اسے سلیقے کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی اور ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ شاعری زبان وبیان کے گہرے شعور کے بغیر ناممکن ہے۔اسی لیے انھوں نے اس روایت سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور اساتذۂ سخن کے ساتھ ساتھ اپنے معاصرین اور احباب سے سرگرم شعری سلسلہ جاری رکھا۔اس کا اندازہ ان کے مجموعہ کلام ’دکھ سکھ‘ سے ہوتا ہے۔مجموعہ کلام کے آغاز میں ’شاہ راہ ادب‘کے نام سے ایک سفرنامہ لکھا ہے جو دراصل ان کی شعری زندگی کے ابتدائی احوال پر مشتمل ہے۔اس سفرنامہ میں انھوں نے اپنے معاصرین کے اشعار کو کثرت سے نقل کیا ہے جو انھیں پسند تھے۔شاعری کے لیے یہ خاص لگاؤاور سرگرمی ہی دراصل کرشن بہاری نور کی مقبولیت اور محبوبیت کی علامت ہے۔

 

Omair Manzar

04/122 Tagore Marg, Near Shabab Market,

MANUU, Lucknow Campus, Maulana Azad National Urdu University

Lucknow- 226020  (UP)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں