26/12/23

منظور احمد منظور: دلچسپ نثر نگار، باکمال شاعر: رؤف خیر

 

پورے ایک سو سال پہلے 10؍مارچ 1923 کو حیدرآباد دکن کی سرزمین پر آنکھ کھولنے والے جناب منظور احمد منظور کو ادبی دنیا نے تقریباً بھلا ہی دیا۔ دکن کی مایہ ناز شخصیات کو منظور صاحب نے بڑے قریب سے دیکھا ان کے ساتھ کام کیا ان سے باضابطہ انٹر ویو لیے اور اُن پر سیر حاصل مضامین لکھے جو حیدرآباد کے مشہور و ممتاز رسائل میں شائع ہوئے جیسے سب رس ، شاداب، پونم، مبصر، روزنامہ منصف، روزنامہ ملاپ، روزنامہ سیاست، ماہ نامہ رفتار زمانہ، ماہ نامہ صبا، ماہ نامہ آندھرا پردیش وغیرہ بیشتر مضامین آل انڈیا ریڈیو کی فرمائش پر بھی لکھے گئے تھے۔ دکن کا نام روشن کرنے والی بیشتر شخصیات سے منظور احمد منظور کے قریبی تعلقات رہے، اس طرح انھوں نے ان شخصیات کے بارے میں جو کچھ لکھا تجربات و مشاہدات کی روشنی میں لکھا ۔ان پر یہ مصرع گویا ہر اعتبار سے صادق آتا ہے    ؎

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

ہم اگر منظور احمد منظور سے ملتے ہیں تو گو یا اُن تمام نامور ہستیوں سے ملتے ہیں جن سے منظور صاحب مل چکے ہیں اور ان کے حوالے سے ایک دور کی تہذیب اور ایک دور کے نابغۂ روز گار ادیبوں، شاعروں سے ہمیں تعارف حاصل ہوتا ہے۔ منظور صاحب نے ماشاء اللہ کیسی کیسی جلیل القدر ہستیوں کی آنکھیں دیکھی ہیں جیسے نازش دکن امجد حیدرآبادی، مہارا جا کشن پرشاد، صفی اورنگ آبادی، ڈاکٹر محی الدین قادری زور، پروفیسر سید علی اکبر، ڈاکٹر راجند ر پرشاد، ڈاکٹر مختار احمد انصاری،  معمارِ دکن جناب ولی قادری، پروفیسر تقی علی مرزا، پروفیسر عبدالعظیم اور پروفیسر اکبر الدین صدیقی ۔

جن مشہور و ممتاز شخصیات کے بارے میں ہم نے صرف سن رکھا ہے انھیں منظور صاحب نے ہماری آنکھوں کے سامنے لاکھڑا کردیا اور ان کے مختلف پہلوئوں پر بھرپور روشنی ڈال کر بتایا کہ کیسی کیسی بے پناہ شخصیات سے ان کا رابطہ رہا۔ اس طرح ہمیں منظور احمد منظور کی آنکھوں میں ان تمام ہستیوں کی شبیہ دکھائی دیتی ہے   ؎

اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں

اپنے دور کے ہر قابلِ ذکر ادیب وشاعر سے منظور صاحب واقف تھے اور اردو کے بیشتر اہل ِ ذوق منظور صاحب کی ادبی تگ و دو کی داد دیا کرتے تھے۔

فرماں روا ے دکن نظام سابع میر عثمان علی خان کے استاد فصاحت جنگ جلیل نور خاں بازار میں جلیل منزل میں سکونت پذیر تھے انہی کے ہم سائے جناب منظور احمد تھے۔ گھر کے بالکل روبرو بڑی دل نواز شخصیت حسن الدین احمد آئی اے ایس کا عزیز ولا ہے۔

سید سلیمان ندوی نے اپنے رسالہ معارف (فروری 1933) میں امجد حیدرآباد ی کو حکیم الشعرا کا خطاب دیا تھا۔ جوش ملیح آبادی جیسے خود پرست شاعر نے بھی رباعیات کے فن میں امجد حیدرآبادی کی انفرادیت کو تسلیم کیا۔ بقول منظور صاحب نواب بہادر یار جنگ کی اچانک موت پر ایک ٹاکیز میں تعزیتی جلسہ منعقد ہوا تھا جس میں امجد  حیدرآبادی نے ایک دردناک رباعی سنا کر حاضرین کو متاثر کیا        ؎

دل شاد نہیں تو ناشاد سہی

لب پہ نغمہ نہیں تو فریاد سہی

ہم سے دامن چھڑا کے جانے والے

جاجا تو نہیں تو تری یاد سہی

منظور صاحب نے لکھا کہ انھیں قوالی کی کئی ایسی محفلیں یاد ہیں جن میں قوالوں نے امجد حیدرآبادی کی موجودگی ہی میں امجد کا کلام سناکر سماں باند ھ دیا تھا۔ 29؍مارچ 1961 کو اس دارِ فانی سے کوچ کرجانے والے قلندر مزاج امجد حیدرآبادی کا کلام منظور صاحب نے ان کی زبانی کئی بار سنا۔

مارچ 1953 میں گورنمنٹ ہائی سکول چوک حیدرآباد کے طلبہ کے ترجمان ’نورس‘ کے لیے منظور صاحب نے امجد کا کلام حاصل کرکے شائع کیا جو نورس کے لیے اعزاز تھا۔منظور صاحب نے لکھا کہ امجد نے انھیں دو رباعیاں عنایت کی تھیں        ؎

کچھ کیے جائو لے کے نام خدا

کچھ نہ کرنا بڑی خرابی ہے

کامیابی کچھ اور چیز نہیں

کام کرنا ہی کامیابی ہے

لب پر کس شخص کے دم ِ سرد نہیں

کس کا چہرہ ہے آج جو زرد نہیں

ہر فرد ہے درد مند فرداً فرداً

لیکن کوئی کسی کا ہمدرد نہیں

)ہمارے خیال میں پہلا قطعہ ہے جو رباعی کے نام سے شائع ہوگیا۔ (

منظور احمد منظور نے اپنے قلم سے امجد حیدرآبادی کا دل پذیر خاکہ بھی کھینچا ہے۔

مہاراجا کشن پرشاد شاد کو اپنی موٹر میں راستے سے گزرتے ہوئے 1938 میں سکے لٹاتے بھی منظور احمد منظور نے دیکھا جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے۔ منظور صاحب نے کشن پرشاد شاد کی اردو فارسی شاعری کے علاوہ ان کے مکاتیب کے حوالے سے بھی دادِ تحقیق دی۔ کشن پرشاد شاد نے کچھ ناول بھی لکھے۔ ان کا پہلا ناول ’مطلع ِ خورشید‘ تھا۔ اس کے علاوہ سفر نامے بھی لکھے۔

حیدرآباد کے مشہور و معروف شاعر صفی اورنگ آبادی کو بھی منظور صاحب نے قریب سے دیکھا اور ان کا ایک حسب ِ حال شعر بھی درج کیا          ؎

ہوا ہوں جب سے مفلس اپنے آنسو آپ پیتا ہوں

کروں کیا اے صفی عادت بری ہوتی ہے پینے کی

صفی کی شاعری کے حوالے سے لکھا ہوا منظور صاحب کا مضمون ’یادگار ِ صفی‘ مرتبہ خواجہ حمید الدین شاہد میں شامل ہے، جو 1956 میں منظر عام پر آیا تھا جسے اس کتاب میں بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے ساتھ منظور احمد منظور کو گہرا لگائوتھا۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کے دوران 1944 سے 1947 تک ان کے طالب علم رہے پھر جب درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے تو ڈاکٹر زور سے تعلقات مزید استوار ہوئے۔ منظور صاحب ایم اے تو تھے ہی بڑی آسانی سے پی ایچ ڈی بھی کرسکتے تھے مگر نہ تو ڈاکٹر زور نے رہنمائی کی اور نہ کسی اور ہستی نے ان کے ڈاکٹر بننے کی راہ ہموار کی حالانکہ اپنی تحقیقی کاوشوں میں اُن سے بے انتہا مدد لی۔ ایک محترمہ کے چشم ِ کرم کے امیدوار بے چارے منظور احمد منظور رات دن ایک کرکے اس کے لیے کئی کتب خانے چھان کر قیمتی ادبی و تاریخی مواد و مسالہ جمع کرکے پیش کیا کرتے تھے جو موصوفہ کے نام سے کتابی صورت میں آتا رہا۔ ایک اور ادبی ہستی کی محبت کا چراغ منظور صاحب کے دل کے طاق کی ’زینت ‘ بنا رہا مگر موصوف کی زبان پر کبھی ’حرف ِ شوق ‘نہ آسکا تاآں کہ انھوں نے اپنے شعری سرماے کا نام ہی ’حرف ِ شوق‘ رکھا جو مکتبۂ شعرو حکمت کے زیرِ اہتمام دسمبر 1971 میں منظر عام پر آیا اس پر ہم آگے گفتگو کریں گے۔ فی الحال ’مضامین محمد منظور احمد‘ کا جائزہ مقصود ہے جو منظور صاحب کے چند ایک مضامین، انٹرویوز اور ان کی مختصر سوانح پر مشتمل ہے ۔جس میں امریکہ کا یادگار سفرنامہ بھی شامل ہے۔

آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد کے لیے بھی منظور صاحب نے مضامین لکھے جیسے معاشرے میں ادیب کی ذمہ داریاں، کہاوتیں، ہندو ستانی قومیت کے رہبر ڈاکٹر راجندر پرشاد، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، زندگی غالب کی نظر میں۔

راجند ر پرشاد ملک کے پہلے صدر 1950 سے 1957 تک رہے۔ وہ گاندھی جی کے بے حد قریب تھے۔ منظور صاحب نے راجندر پرشاد کے بارے میں وہی لکھا جو ریڈیو نشریے کے لیے مناسب تھا۔ اس کے علاوہ چمپارن ضلع میں دورے کے موقع پر انگریز آفیسر اِرون Irwinنے 1917میں ایک سازش کے تحت گاندھی جی کی دعوت کی تھی اور اپنے خانساماں بطخ میاں انصاری کو حکم دے رکھا تھا کہ گاندھی جی کو زہر ملا ہوا دودھ پیش کرے مگر بطخ میاں نے گاندھی جی کے ساتھ دعوت میں شریک راجندر پرشاد کو بتادیا کہ دودھ میں زہر ملا ہوا ہے اس طرح بطخ میاں انصاری نے مہاتما گاندھی کی جان بچائی جس کے عینی گواہ راجندر پرشاد تھے۔ انگریز آفیسر نے نتیجتاً بطخ میاں کو سخت سزادی Siswa Ajgariمیں ان کا مکان قرق کیا اور ان کو شہر بدر کردیا۔ صدر جمہوریہ بننے کے بعد اُسی چمپارن میں جب راجندر پرشاد نے بطخ میاں انصاری کو کس مپرسی کی حالت میں دیکھا تو فوری وہاں کے کلکٹر کو ہدایات دیں کہ گاندھی جی کی جان بچانے والے بطخ میاں انصاری کو کچھ زمین الاٹ کی جائے تاکہ وہ چین سے زندگی گزار سکیں۔ مگر افسوس راجندرپرشاد کی ہمدردانہ ہدایات پر عمل کبھی نہیں ہوا اور بطخ میاں بے یارو مدد گار ہی دنیا سے چل بسے۔

انجینئرنگ میں اعلی قابلیت اور ممتاز حیثیت والے ولی قادری ایکزیکٹیو انجینئر سے منظور صاحب نے 1979 میں انٹرویو لیا جنھوں نے قبل ازوقت وظیفہ حاصل کرکے قوم اور ملت کی خدمت کے جذبے کے تحت خانگی طور پر اپنا ادارہ قائم کیا جس کے تحت کئی تعمیراتی پروجیکٹ روبہ عمل لائے گئے۔ سول انجینئرنگ کنسل ٹینسی ولی قادری اینڈ اسوسئیٹس کے نام سے قائم کردہ ادارے کے تحت کئی سینئرانجینئر س، جونیر انجینئرس، ڈرافٹس مین، ٹریسر، بلوپرنٹ آپریٹرس ،کمپیوٹر پروگرامرس، کلرکس، منیجر وغیرہ کام کرتے تھے۔ ولی قادری نے کئی انگریزی شعرا کی نظموں کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا جن میں سے چند حسن الدین احمد کی کتاب ’سازِ مغرب‘ میں شامل بھی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ طبع زاد نظمیں غزلیں بھی ولی قادری صاحب کہتے تھے۔ ان کا مشورہ تھا ۔’’نام کی خاطر نہیں بلکہ کام کی خاطر کام کرو‘‘۔

پروفیسر تقی علی مرزا سے ایک ملاقات‘کے تحت جناب منظور نے ان سے سیر حاصل مصاحبہ کیا۔ اس مصاحبے میں طلبہ کی انگریزی میں صلاحیتوں کے فروغ کے تعلق سے گفتگو کی گئی۔ تقی علی مرزا نے یہ انکشاف بھی فرمایا کہ عثمانیہ نیورسٹی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں جرنلزم میں ڈپلوما کی تعلیم کا انتظام 1956 میں شروع کیا گیا تھا ۔تقی علی مرزا نے کئی مشاہیر کا ذکر کیا اس طرح منظور صاحب کے توسط سے کئی علمی ادبی شاہ کاروں اور قلم کاروں سے قاری کا تعارف ہوجاتا ہے۔ انگریزی میں تقی علی مرزا کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔

( ناچیز رئوف خیر اور اعظم راہی نے بھی مشترکہ طور پر پروفیسر تقی علی مرزا سے عزیز احمد کے حوالے سے انٹرویو کیا تھا جو ان کے استاد رہے۔ یہ انٹرویو نا چیز کی کتاب ’حق گوئی و بے باکی‘ میں شامل ہے)۔

ادارئہ ادبیاتِ اردو کے روحِ رواں پروفیسر محمد اکبر الدین صدیقی صاحب سے بھی منظور صاحب نے بھرپور انٹرویو کیا جو بجائے خود ان کے تمام کارناموں کی دستاویز ہے۔ اس انٹرویو کے ذریعے اکبر الدین صدیقی کی بے لوث خدمات پرروشنی پڑتی ہے۔ پتہ چلا کہ منظور صاحب آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے تو گورنمنٹ سٹی ہائی سکول حیدرآباد میں اکبرالدین صدیقی ان کے استاد تھے۔ اکبر الدین صدیقی نے کئی کتابیں مرتب کیں۔ ان کی مرتبہ کتابیں ادارئہ ادبیات اردو کے تحت ہونے والے امتحانات کے نصاب میں شامل رہے ہیں۔

حیدرآباد کی سڑکوں پر پیدل چلنے والے، نظام ٹرسٹ کے رسالہ ’مبصر‘ کے مدیر، اردو مجلس کے رسالہ ’مجلس‘ کے ایڈیٹر ، ’اقبال ریو یو‘ اور ’شگوفہ‘ کے معاون کی حیثیت سے بے لوث خدمات انجام دینے والے جناب منظور احمد منظور کو ہم نے بار ہا دیکھا ہے۔ بڑے زندہ دل اور بذلہ سنج منظور صاحب کی گفتگو بہت دل چسپ ہوا کرتی تھی۔ آندھرا (تلنگانہ ) کے ادیبوں، شاعروں کی ڈائرکٹری کے لیے بھی وہ سرگرداں رہے۔ انھوں نے بتایا تھا کہ 31؍ مارچ 1978 کو وہ ڈگری کالج سے لکچرر کی حیثیت سے وظیفے پر علاحدہ ہوئے جس کی وجہ سے وظیفے میں کافی نقصان ہوا ۔ پھر پچپن سال کی بجائے اٹھاون سال وظیفے کی عمر قرار دیے جانے کی وجہ سے جان میں جان آئی۔ تاہم ان کے وظیفے کی رقم معقول نہیں کہی جاسکتی تھی۔ اپنی شیروانی کے دونوں جیبوں میں مختلف روشنائیوں کے چار چار قلم لگائے میلوں پیدل سفر کرنے والے صاحب ِ قلم منظور احمد کی بے لوث و بے انتہا خدمات کے جاننے والے کم کم ہی رہ گئے ہیں۔

منظور صاحب نے انٹرویو لیتے ہوئے بیشتر ہستیوں سے دریافت کیا کہ آیا وہ اپنی سوانح لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، سبھوں نے نفی میں جواب دیا ۔ خود منظور صاحب نے اتنے کارنامے انجام دیے کہ سوانح کے لیے اچھا خاصا مواد جمع ہو سکتا تھا، مگر انہوں نے اپنی کتاب ’مضامین ِ منظور احمد‘کے آخری چھے صفحات میں اپنی زندگی کی پوری روداد بیان کردی۔ پیدائش 10؍مارچ 1923 پھر تعلیم، تعلیم کے بعد پیشہ درس و تدریس کا انتخاب ، مختلف اداروں میں خدمات، وظیفے پر سبک دوشی رسائل و جرائد میں تخلیقات کی اشاعت اور آل انڈیا ریڈیو کی فرمائش پر بعض مضامین کا لکھنا۔ منظور صاحب کی ایک غزل کا محترمہ بلقیس علاء الدین نے انگریزی میں ترجمہ کیا جو مدراس کے ماہ نامہ Poetمیں تعارف کے ساتھ نومبر 1971میں شائع ہوا۔

1978 میں سرکاری ملازمت سے سبکدوشی کے فوراً بعد اپنے بھائی ڈاکٹر مظفر حسین اور ان کی بیوی ڈاکٹر ثریا حسین کی دعوت پر انہی کے ساتھ حیدرآباد سے 30؍ ا گسٹ 1978کو وہ امریکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ منظور صاحب نے ’میرا ایک یاد گار سفر‘ کے عنوان سے اس سفر کی دلچسپ روداد تحریر فرمائی جو ان کے مضامین کا ’بیت الغزل‘ ہے۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے لفظوں کا پیر ہن عطا کیا۔ لکھتے ہیں :

’’امریکہ پرقدرت واقعی بے حد مہربان ہے۔ یہاں اگر ایک طرف دل کش قدرتی مناظر کی فراوانی ہے تو دوسری طرف سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں امریکی قوم کی حیرت انگیز ترقی سیاحوں کو دعوت ِ غور و فکر دیتی ہے۔‘‘

ہمارے لیے یہ ایک اعزاز کی بات ہی ہے کہ ہم نے مخدوم محی الدین، خورشید احمد جامی، سلیمان اریب، شاذتمکنت جیسے ہندو پاک کے شہرت یافتہ شاعروں کے ساتھ جناب منظور احمد منظور کو مشاعروں میں داد وصول کرتے دیکھا۔ منظور صاحب کم گو تھے مشاعروں میں دو دو چار چار اشعار پر مشتمل دو چار غزلیں ہی سنایا کرتے تھے۔ ان کا شعری مجموعہ ’حرف ِ شوق‘ دسمبر 1971 میں مکتبہ شعرو حکمت کے زیر اہتمام منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے کے پیش لفظ میں پروفیسر عبد القادر سروری نے تحریر فرمایا:

’’ایسا اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگوں کی طبیعت کے ثمر دیر میں آتے ہیں اور یہ دیر رس ثمر بڑے خوش گوار ہوتے ہیں یہی واقعہ منظور صاحب کی صورت میں بھی پیش آیا۔ جب وہ شعر کہنے لگے تو پختہ کار شاعر بن کر ہمارے سامنے آئے اور نہ صرف مجھے بلکہ اکثر لوگوں کو اچنبھے میں ڈال دیا۔‘‘

مخترمہ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ نے منظور صاحب کے بارے میں جو ’رائے‘ دی وہ منظور صاحب کی شخصیت کی کامیاب عکاسی کرتی ہے۔ لکھتی ہیں:

وہ (منظوراحمد ) ’چاہنے‘ اور ’چاہے جانے‘ کی شدید خواہش کے باوجود اس کا کھل کر اظہار نہیں کرپا تے۔ منظور صاحب کا شعر          ؎

دل یہ کہتا ہے مرا کچھ توکہو

مصلحت کہتی ہے خاموش رہو

ان کی شاعری پوری فضا کو اپنے میں سموئے ہوئے ہے۔ پھر ان کے یہاں محبت بھی خالص ’افلاطونی‘ ہے جو محبوب کے ’قرب‘ سے نہیں ، محبوب کے ’خیال‘ سے وجود میں آتی ہے چنانچہ ان کے کلام میں تجربے کی گہرائی اورا حساس کی گرمی کم ہے۔‘‘

منظور صاحب کے ’حرفِ شوق‘ سے گزر کر ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ جیسی صاحب نظر کی وقیع رائے پر ایمان لانا ہی پڑتا ہے۔ انھوں نے دو جملوں میں ان کے شعر اور شخصیت کا جامع جائزہ پیش کردیا۔ ڈاکٹر مغنی تبسم نے نکتہ پیدا کیا کہ ’’منظور صاحب کی شاعری عشقیہ سے زیادہ عاشقانہ ہے۔‘‘

 جناب منظور احمد نے ’حرف ِ شوق سے پہلے‘ کے عنوان کے تحت لکھا کہ اس مجموعے کی ساری غزلیں سات سال کے عرصے میں ہوئی ہیں ۔ گویا 1964 سے 1971 کے دورانیے میں کہی ہوئی غزلوں پر ’حرف ِ شوق‘ مشتمل ہے جس میں جملہ 72غزلیں ہی ہیں۔

منظور صاحب نے نظم و نثر میں خود کو منوانے کی کوشش کی۔ ان کے مضامین کے حوالے سے گفتگو ہو چکی اب چند اشعار کے ذریعے ان کے فکر و فن کا جائزہ پیش ہے۔ ان کی باخبری کی داد دیجیے‘          ؎

ہر دو ر میں انعام لیے بے بصری نے

موتی ہی لٹائے ہیں یہاں دیدہ وری نے

الزام کسی پر نہیں بربادی دل کا

وارفتہ کیا تھا ہمیں وحشت اثری نے

کہیں کہیں منظور صاحب نے بڑی فنی مہارت سے الفاظ برت کر چونکایا بھی ہے         ؎

بعد مدت نور کا تڑکا ہوا

ظلمتوں کا آج منہ کالا ہوا

اُس طرف ساقی کی خست تھی غضب

اس طرف تھا حوصلہ بڑھتا ہوا

منظور صاحب بیشتر محفلوں میں اپنی یہ پسندیدہ غزل سناکر رنگ جماتے تھے اور جم کر پڑھتے تھے         ؎

دل یہ کہتا ہے مرا کچھ تو کہو

مصلحت کہتی ہے خاموش رہو

اُس بُت شوخ کے پتھر دل کو

پیارسے جیت سکو تو جیتو

یوں نہ اترے گا خمارِ ہستی

اور اک جامِ مئے تلخ پیو

نت نئے فتنوں میں جب گھرتاہوں

خلق کہتی ہے جیو۔ اور۔ جیو

دیکھو پھر تم کو پکارے ہے کوئی

کہیں منظور کی آواز نہ ہو

منظور صاحب نے بعض مشہور فلمی گانوں کی’طرح‘ میں بھی غزلیں کہی ہیں جو اُن کی اپنی زندگی کی ترجمان ہیں        ؎

مجھ کو کسی کے پیارنے مارا ہے دوستو

وہ جس کا پیار جان سے پیارا ہے دوستو

رازِ دل ہم سے کہا جاتا نہیں

کچھ خیال اس کو بھی کیوں آتا نہیں

گھٹا جب آسماں پر گھر کے آئی ،آپ کیوں روئے

سیاہی شب کی جب ہر سمت چھائی ،آپ کیوں روئے

روایتی اسلوب کے علاوہ جدید انداز میں بھی منظور احمد منظور نے بعض شعر کہے جیسے ایک شعر ہے      ؎    

سائے کی طرح جو مرے ہم راہ چلا ہے

وہ شخص بھی اب میرا پتہ پوچھ رہا ہے

مختصر یہ کہ نثر کے ساتھ ساتھ غزل کے ذریعے بھی منظور صاحب نے اہلِ ذوق سے داد پائی اور تقریباً نوے 90برس کی عمر میں چپکے سے گزر گئے۔

 

ماخذ

  1. مضامین محمد منظور احمد، ادبی مرکز، اعجاز پر نٹنگ پریس چھتہ بازار حیدرآباد،نومبر 1986
  2. حرفِ شوق ،مکتبۂ شعرو حکمت حیدرآباد اشاعت دسمبر 1971
  3. Saviour of Gandhi ji - Bataq Miyan Ansari (Telugu) by Syed Naseer Ahmad - English Translation by BVK Purna Nandam    Azad House of publication- Undavalli- 522501

 

 

Dr. Raoof Khair

Moti Mahal, Golconda

Hyderabad- 500008 (Telangana)

Cell : 9440945645

Email : raoofkhair@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

برہان پور میں نظمیہ شاعری، مضمون نگار: بسم اللہ عدیم برہان پوری

اردو دنیا، فروری2024 بابِ دکن، دارالعیار،برہان پور کا ادبی و شعری اسکول مستند مانا جاتا ہے   اور اس کا شہرہ بھی ہے۔ اس اسکول کے سر براہ مولا...